Tag: پاکستانی شاعر

  • جو بائیڈن نے پاکستانی شاعر کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دے دیا

    جو بائیڈن نے پاکستانی شاعر کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دے دیا

    نیویارک: امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستانی امریکن شاعر رئیس وارثی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نواز دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستانی امریکن شاعر اور ادیب رئیس وارثی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا ہے۔

    رئیس وارثی اردو مرکز نیویارک کے صدر ہیں اور گزشتہ 34 برس سے اردو کی عالمی سطح پر ترویج میں مصروف ہیں۔ انھوں نے اردو زبان کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبانوں میں شامل کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں پہلی اردو کانفرنس کا بھی انعقاد کیا تھا۔

    پہلی اردو کانفرنس میں پاکستان اور بھارت کے سربراہوں اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اردو کی اہمیت تسلیم کی تھی۔

    رئیس وارثی کو پاکستان کی اوورسیز منسٹری کی جانب سے فخر پاکستان کا ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔ صدر جو بائیڈن کی جانب سے یہ میڈل نیویارک اسمبلی کی رکن جیسیکا گونزالز نے انھیں پیش کیا۔

  • جواں فکر اور جواں‌ مرگ شاعر شکیب جلالی کا تذکرہ

    جواں فکر اور جواں‌ مرگ شاعر شکیب جلالی کا تذکرہ

    شکیب جلالی نے 1966ء میں آج ہی کے دن ٹرین کے سامنے آکر خودکشی کرلی تھی۔ ان کی عمر 32 برس تھی۔

    شکیب کی ذاتی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ان کی والدہ کی خود کشی تھی اور یہ منظر انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جب وہ دس سال کے تھے، ان کی والدہ نے بریلی شہر کے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے نیچے آکر اپنی جان دے دی تھی۔

    کم سِن سیّد حسن رضوی کے ذہن کے پردے پر اُس دردناک دن کے قیامت خیز منظر کی فلم سی چلتی رہتی تھی جس نے انھیں شدید ذہنی کرب اور ہیجان میں‌ مبتلا کردیا۔ وہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگئے اور ایک دن غیرطبعی موت کو گلے لگا لیا۔ وہ لاہور کے ایک ذہنی امراض کے اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہے تھے۔

    شکیب جلالی کس ماحول کے پروردہ تھے۔ ان کے گھریلو اور معاشی حالات کیسے تھے اور اپنے والدین کو انھوں نے کیسا پایا، یہ جان لیا جائے تو ان کی خود کُشی کی بنیادی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ تاہم ان کی والدہ کی موت کے سانحے کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ شکیب کے والد ذہنی مریض اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوگئے تھے اور کہتے ہیں کہ اسی غم اور مسائل کے سبب ان کی والدہ نے خود کُشی کرلی تھی۔ لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ ذہنی توازن کھو بیٹھنے والے شکیب کے والد نے اپنی بیوی کو ٹرین کے آگے دھکیل دیا تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے شعری افق پر ابھرنے والے نوجوان شاعروں میں شکیب جلالی کو ان کے جداگانہ شعری اسلوب نے ہم عصرو‌ں میں ممتاز کیا، لیکن اپنے اشعار سے دلوں میں‌ آتشِ عشق بھڑکاتے اور جذبات میں سوز و گداز پیدا کرتے اس شاعر کو انہی ہم عصروں نے نظرانداز بھی کیا۔ تاہم وہ بہت کم وقت میں اپنی جگہ اور مقام بنانے میں کام یاب رہے۔

    خودکُشی کے بعد شکیب کا کلام احمد ندیم قاسمی نے شایع کروایا۔ شکیب جلالی کو جدید شاعری کے معماروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ ان کا اصل نام سید حسن رضوی تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو شکیب تخلّص اختیار کرلیا اور اسی سے پہچانے گئے۔ شکیب جلالی یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ (اتر پردیش) کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔

    سیّد حسن رضوی نے میٹرک بدایوں سے کیا تھا۔ ہجرت کے بعد سیالکوٹ سے ایف اے اور لاہور کی درس گاہ سے بی اے آنرز تک تعلیم حاصل کی۔ وہ ایم اے کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔

    شکیب نے ابتدائی دور میں چند ادبی جرائد میں کام کیا، اور ان کی بندش کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگئے۔ بعد میں ایک محکمہ میں ملازمت ملی، لیکن وہ ذہنی الجھنوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے ہمیشہ ناآسودہ اور پریشان رہے۔ ان کا اضطراب اور بے چینی بڑھتی ہی رہی اور سرگودھا میں‌ انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    شکیب جلالی نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن کو اپنی فکرِ تازہ سے وہ دل کشی اور نغمگی عطا کی جس نے خود انھیں بھی شعرا کے درمیان امتیاز اور مقبولیت بخشی۔ ان کا لہجہ تازہ اور آہنگ سب سے جدا تھا۔ وہ اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر کہلائے۔

    روشنی اے روشنی ان کا وہ شعری مجموعہ ہے جو 1972ء میں ان کی موت کے چند سال بعد شایع ہوا۔ 2004ء میں شکیب جلالی کا کلّیات بھی منظرِ‌ عام پر آیا۔

    شکیب جلالی نے اپنے اشعار سے جہاں شعرا اور تمام ادبی حلقوں کو متوجہ کیا، وہیں باذوق قارئین نے انھیں زبردست پذیرائی دی۔ ان کی غزلیں گنگنائی گئیں، ان کے اشعار زباں زدِ‌ عام ہوئے۔

    ان کے چند اشعار پڑھیے۔

    شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
    ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

    جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
    مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
    نہ اتنی تیز چلے، سَر پھری ہوا سے کہو
    شجر پہ ایک ہی پتّہ دکھائی دیتا ہے

    تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

  • یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    اردو زبان کے نام وَر شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے 1869ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اس کے بعد آنے والے شعرا میں شیفتہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی حصّہ ڈالا۔

    1809ء میں پیدا ہونے والے شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے شعری مجموعوں‌ کے علاوہ ان کی کتاب گلشنِ بے خار کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے جو دراصل کلاسیکی ادب کے کئی نام وروں کا تذکرہ اور کلام پر فارسی میں تنقید ہے۔

    1839ء میں شیفتہ نے حج کے لیے بحری جہاز کا سفر کیا تھا اور اس دوران جو واقعات پیش آئے، اور حج و زیارت کے موقع پر انھیں جو کچھ دیکھنے کا موقع ملا، اسے اپنے سفرنامے میں‌ محفوظ کیا ہے۔

    شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
    اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

    قتیل شفائی کا یہ شعر ہر باذوق اور شعر و ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی بیاض میں‌ شامل رہا ہے۔

    چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
    وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

    اس شعر کے خالق بھی قتیل ہیں۔ پاکستان کے اس نام وَر شاعر اور ممتاز و مقبول فلمی نغمہ نگار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ پاک و ہند کے نام اور معروف گلوکاروں نے ان کے کلام کو اپنی آواز دی اور ان کے گیت کئی فلموں کی کام یابی کی وجہ بنے۔

    قتیل برصغیر کے ان معدودے چند شعرا میں‌ سے ایک ہیں‌ جنھوں نے نہ صرف ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی بلکہ گیت نگاری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

    24 دسمبر 1919ء کو ہری پور ہزارہ (خیبر پختون خوا) میں پیدا ہونے والے قتیلؔ شفائی کا اصل نام اورنگزیب خان تھا۔ انھوں نے قتیل تخلّص کیا اور اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا پوری کی نسبت شفائی کا اضافہ کرکے قتیل شفائی کے نام سے پہچان بنائی۔

    وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر تھے۔ ندرتِ خیال، سلاست، روانی، رچاؤ اور غنائیت اُن کے شعری اوصاف ہیں۔ قتیل شفائی نے غزل کو اپنے تخیل سے جگمگایا اور ان کے کمالِ سخن نے اسے لاجواب بنایا۔

    یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
    کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

    قتیل شفائی کی شاعری کی ایک جہت اُن کی فلمی نغمہ نگاری ہے، جس نے انھیں بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ انھوں نے کئی گیت لکھے جو نہایت معیاری اور عام فہم بھی تھے۔ ان کی اسی خوبی نے بھارتی فلم سازوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان سے اپنی فلموں کے لیے گیت لکھوائیں۔

    ان کے لازوال اور یادگار گیتوں ‘زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں، اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے، کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنّا، یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شہزادیاں، ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا، زندہ ہیں‌ کتنے لوگ محبّت کیے بغیر، پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جائو’ شامل ہیں۔

    قتیل شفائی کی شاعرانہ عظمت اور ان کے تخلیقی جوہر اور انفرادیت کا اعتراف اپنے وقت کے عظیم اور نام ور شعرا نے کیا ہے۔ ان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، فراق گورکھ پوری اور دیگر شامل ہیں۔

    قتیل شفائی نے صدارتی ایوارڈ کے ساتھ ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات حاصل کیے، جب کہ ان کا سب سے بڑا اعزاز عوام میں ان کی وہ شہرت اور مقبولیت تھی جو انھوں‌ نے اپنے تخلیقی وفور اور فن کی بدولت حاصل کی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    قتیل شفائی کے شعری مجموعے چھتنار، پیراہن، برگد، آموختہ، گفتگو، آوازوں کے سائے کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ان کی آپ بیتی بعد از مرگ ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔

  • سدا بہار گیتوں کے خالق ریاضُ الرّحمان ساغر کی برسی

    سدا بہار گیتوں کے خالق ریاضُ الرّحمان ساغر کی برسی

    پاکستان کے معروف شاعر اور کئی مقبول گیتوں کے خالق ریاضُ الرّحمان ساغر یکم جون 2013ء کو طویل علالت کے بعد وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر میں اردو ادب اور فلمی دنیا کو خوب صورت شاعری سے مالا مال کیا۔

    ریاضُ الرّحمان ساغر 1941ء میں بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور یہاں‌ زندگی کے لیے جدوجہد شروع کی۔ انھوں نے صحافت کا پیشہ اپنایا اور زیادہ تر فلمی دنیا سے متعلق رہے۔ انھوں نے طویل عرصے تک کالم نگاری بھی کی۔

    ریاضُ الرّحمان ساغر نے 2 ہزار سے زائد نغمات لکھے جو کئی فلموں کی کام یابی کا سبب بنے۔ ان کے گیت اپنے وقت کے مشہور گلوکاروں کی آواز میں ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے اور آج بھی اسی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    فلم ’کبھی تو نظر ملاؤ‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتا ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے لیے ساغر نے شاعری کی اور یہ گیت مقبول ہوئے۔

    فلمی صنعت کے علاوہ ان کے تحریر کردہ مقبول ترین نغموں میں ’دوپٹہ میرا مل مل دا‘ اور ’یاد سجن دی آئی‘ شامل ہیں جب کہ آشا بھوسلے اور عدنان سمیع کی آواز میں مشہور یہ گیت ’کبھی تو نظر ملاؤ‘ بھی ریاضُ الرّحمان ساغر کا لکھا ہوا تھا۔ انھوں نے گلوکارہ فریحہ پرویز کے البم کے لیے بھی نغمات تحریر کیے تھے جب کہ ایک مقبول فلمی گیت ’میں تینوں سمجھانواں کیہ‘ راحت فتح‌ علی کی آواز میں‌ آج بھی سنا جاتا ہے۔

    ریاضُ الرّحمان ساغر پاکستان فلم سنسر بورڈ کے رکن بھی رہے تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری ’وہ کیا دن تھے‘ کے عنوان سے مرتب کی جب کہ ان کے دو سفر نامے ’کیمرہ، قلم اور دنیا‘ اور ’لاہور تا بمبئی براستہ دہلی‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ فلم کے لیے شاعری پر انھیں‌ کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔

    ساغر کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے اور وفات کے وقت ان کی عمر 72 برس تھی۔

  • میرا جی کے نام لندن سے آیا ایک خط!

    میرا جی کے نام لندن سے آیا ایک خط!

    لندن،
    14 ستمبر 1987ء

    میرا جی صاحب!

    کلیات حاضر ہے، فرمائیے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کلیات کے بہانے آپ کے دوست ایک پرانا قرض اُتار رہے ہیں۔بات قرض چکانے کی نہیں فرض ادا کرنے کی ہے۔ اب اگر آپ کا کلام یکجا نہ کیا جاتا تو اردو ادب کی تاریخ میں کتنا بڑا خلا رہ جاتا۔ ویسے یہ کام آپ کے دوستوں نے نہیں، جمیل جالبی صاحب نے کیا ہے اور وہ بھی اُن دنوں میں جب آپ شیخ الجامعہ کراچی کے منصب سے نبرد آزما تھے، اور چشمِ حسد تنگ ہی نہیں تاریک ہو رہی تھی۔

    آپ کی شاید جالبی صاحب سے ملاقات نہیں تھی مگر آپ انہیں شاہد احمد دہلوی کے رشتہ سے پہچان لیں گے۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی اور یہ دوستی پاکستان میں اردو ادب کی ترقی کا باعث بنی۔ جالبی صاحب، صاحبِ علم اور صاحبِ قلم ہیں۔ انہوں نے اردو تنقید کو جس اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے اس کی نظیر ان کی تصانیف ہیں۔ اس افراتفری اور نفسا نفسی کے زمانے میں اُن سا منکسرالمزاج اور دُھن کا پکا انسان مشکل سے ملتا ہے۔ بڑی کاوش سے انہوں نے آپ کا کلام اکٹھا کیا ہے اور پھر اسے ترتیب دے کر اس کی کتابت، طباعت اور اشاعت کے سارے مرحلے بھی بڑے عزم اور خندہ پیشانی سے طے کیے ہیں۔ آپ کے دوست اور اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے سب ان کے احسان مند ہیں۔

    آپ آئے اور چلے گئے، مگر دوستی (بلکہ یاری) کا ایک ایسا نقش چھوڑ گئے کہ آج تک دوست کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ اکیلے میں، محفل میں، چلتے پھرتے آپ سے باتیں ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کبھار تو بحث بھی ہو جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک دفعہ پوچھا تھا۔

    ”کبھی دیکھا کہ گورستان سے کوئی کفن پہنے ہوئے نکلا، انہی گلیوں، انہی کوچوں میں آیا۔“

    آپ دیر تک میری طرف دیکھتے رہے اور وہ لمحہ جب آپ ریل گاڑی کے ڈبے سے لگے گا رہے تھے۔

    ”لاگ اساڑھ چلی پُرویّا سارس دوڑ لگائے۔“ آج بھی ذہن کے آئینہ خانے میں جگمگانے لگتا ہے۔ شاید وہ لمحہ توجہ کا تھا۔

    کوئی درویش جو بال بڑھائے، ہاتھوں میں گولے اور گلے میں مالا سجائے سچ کی تلاش میں اس نگری میں آنکلا (اور کچھ دیر کے لیے گھر کا رستہ بھول گیا) اور جب اُس نے دیکھا کہ یہاں تو جھوٹ ہر لمحہ جواں رہتا ہے تو وہ جہاں سے آیا تھا وہیں پلٹ گیا لیکن اس مختصر سے عرصے میں اس کی ذات ہر ملنے والے کی زندگی پر اپنا عکس چھوڑ گئی۔

    میرا جی! آپ کو زندگی عزیز تھی، ایک ہی گھونٹ میں اسے پی گئے، ہم لوگ تو اب تک ایک جرعے کی تلاش میں عمر گزار رہے ہیں۔ اور اب ایک ایک کر کے آپ کے دوست آپ ہی کی طرف آرہے ہیں۔

    میانِ لالہ و گل خواستم کہ مے نوشم
    زشیشہ تابہ قدح ریکتم بہار گذشت

    والسلام

    الطاف گوہر

    (اردو کے نام ور شاعر میرا جی کی کلیات میں‌ شامل یہ خط مشہور سول سرونٹ، لکھاری اور صحافی الطاف گوہر کی اختراع ہے)

  • ایک خط سے جھلکتی فراق گورکھ پوری کی انکساری اور عاجزی

    ایک خط سے جھلکتی فراق گورکھ پوری کی انکساری اور عاجزی

    اردو ادب میں‌ مرزا غالب کے خطوط تو بہت مشہور ہیں، مگر ہندوستان کے دیگر مشہور و معروف تخلیق کاروں‌ کے خطوط بھی اپنے متن اور اسلوب کی وجہ سے نہایت اہم اور علمی و ادبی سرمایہ ہیں۔

    ہم یہاں‌ معروف ادیب، خاکہ نگار اور ’نقوش‘ کے مدیر محمد طفیل کے نام مشہور شاعر اور نقاد فراق گورکھ پوری کا ایک خط پیش کر رہے ہیں۔

    اس خط میں‌ جہاں‌ آپ ایک ہم عصر سے دوستانہ تعلق، شائستہ اور پُرلطف طرزِ تخاطب کا رنگ دیکھیں‌ گے، وہیں فراق کی انکساری اور عاجزی بھی قابلِ توجہ ہے۔

    محمد طفیل،
    4/8 بینک روڈ، الٰہ آباد
    12جون 1954

    برادرم تسلیم

    آپ نے یہ خط بڑے دنوں کے بعد لکھا اور عذر یہ کیا کہ مصروف رہا۔ مصروف کون نہیں ہوتا، مصروف تو وہ بھی ہوتا ہے جسے دنیا کا کوئی کام نہیں ہوتا۔

    میں نے جو آپ کے خطوں کے جواب میں اتنے اتنے لمبے خط لکھے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں بالکل ہی بیکار تھا۔

    پہلے تو آپ کا خیال یہ تھا کہ میرے جوابات کی روشنی میں مجھ پر لکھیں گے۔ اب آپ کا یہ کہنا ہے کہ اگر اجازت ہو تو ان خطوط کو ہوبہو چھاپ دوں۔ میری طرف سے تو ان کی اشاعت کی اجازت ہے، اس دریافت کا بھی شکریہ کہ ان خطوں میں تاریخی مواد ہے اور انھیں حرف بہ حرف چھپنا چاہیے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ دو ایک بار آپ نے لکھا تھا کہ میں نے بعض جگہوں پر بڑی رواداری میں لکھا ہے، بس ان با توں کا خیال رکھ لیجیے، لیکن یہ مت کیجیے گا کہ آپ مجھے انسان بھی نہ بننے دیں۔ میری کم زوریوں کا بھی اظہار ہونا ہی چاہیے۔

    اگر مجھے پہلے علم ہوتا کہ آپ میرے ہی خط چھاپیں گے، تو میں صرف اپنی کم زوریاں ہی کم زوریاں بیان کرتا۔ اس لیے کہ لوگ صرف اپنی خوبیاں ہی خوبیاں بیان کرتے ہیں۔ اگر آپ انڈیا آ رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو گی، لیکن الٰہ آباد کا نام انڈیا نہیں ہے، اور یہ آپ نے لکھا نہیں کہ الٰہ آباد بھی آؤں گا۔ مجھے اپنے پروگرام سے مطلع کیجیے گا۔

    آپ کا
    فراق