Tag: پاکستانی شعرا

  • کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا….

    کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا….

    غزل
    دماغ پھیر رہا ہے یہ تاج تیرا بھی
    بگاڑ دے گی حکومت مزاج تیرا بھی

    عروجِ بام سے اترا تو جان جائے گا
    مِرا نہیں تو نہیں ہے سماج تیرا بھی

    کسی کا سکّہ یہاں دیر تک نہیں چلتا
    ہمیشہ رہنا نہیں ہے رواج تیرا بھی

    بس ایک نام محبّت کے گوشوارے میں
    بیاضِ دل میں ہوا اندراج تیرا بھی

    مجھے غرور سے معزول کرنے والے سن
    نہ رہنے دوں گا ترے دل پہ راج تیرا بھی

    تو کیوں یہ روح کی باتیں سنائے جاتا ہے
    جو مسئلہ ہے فقط احتیاج تیرا بھی

    وہ خوش گمان مجھے کہہ گیا دمِ رخصت
    مرض نہیں ہے بہت لاعلاج تیرا بھی

    اڑایا جیسے برس کر عتاب میں مرا رنگ
    ملمع ایسے ہی اترا ہے آج تیرا بھی


    (پیشِ نظر کلام منڈی بہاءُ الدین سے تعلق رکھنے والے خوش فکر شاعر اکرم جاذب کا ہے، وہ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور ملک کے مختلف ادبی رسائل اور قومی سطح کے روزناموں میں ان کا کلام شایع ہوتا رہتا ہے، اکرم جاذب کے دو شعری مجموعے بھی منظرِ عام پر آچکے ہیں جنھیں قارئین سے داد اور ناقدین سے حسنِ معیار کی سند مل چکی ہے)

  • چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا!

    چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا!

    خوابوں پر نشان لگا کے رکھ دینے والے نوجوان شاعر عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    شاعر‌ کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں ڈوڈے سے ہے۔

    عزمی بتاتے ہیں، "میں شعبہ تدریس سے منسلک ہوں۔ کتب بینی کا شوق ہے، مطالعے کو میرا مشغلہ کہہ سکتے ہیں۔ بچپن ہی سے شاعری پسند تھی، اور گھر میں کتابیں، اخبار پڑھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔

    اسی پڑھنے پڑھانے نے مجھے شعر گوئی کی طرف مائل کیا اور یوں‌ میں‌ نے شاعری کا سفر شروع کیا۔ ”

    محسن نقوی کو اپنا پسندیدہ شاعر بتانے والے عزم الحسنین عزمی کا کلام پیش ہے۔

    غزل

    کہکشاؤں میں کبھی تنہا کھڑا دیکھا گیا
    چاند شب کو شاہ، دن کو بے نوا دیکھا گیا

    رکھتا جاتا ہوں میں خوابوں پر لگا کر اک نشان
    کون سا باقی ہے اب بھی کون سا دیکھا گیا

    آدمی ہی آدمی کو ڈھونڈتا آیا نظر
    آدمی ہی آدمی سے بھاگتا دیکھا گیا

    رات کو پھر دیر تک سب بول رکھ کے سامنے
    کب کہاں کس سے بھلا، کیا کیا کہا، دیکھا گیا

    روشنی دن کو سنبھالی تھی ذرا سی جو حضور
    ڈال کر شب کو دیے میں راستہ دیکھا گیا

    یہ نہیں کہ رک گئے پہلے یا تیرے بعد عشق
    ہاں مگر کچھ روز تجھ پر اکتفا دیکھا گیا

    اس قدر عادت ہوئی اس کی، کہ پہلے درد سے
    ہاتھ چھڑوانے سے پہلے دوسرا دیکھا گیا

    شاعر: عزم الحسنین عزمی

  • تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے…

    تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے…

    سعید الرحمن کا تخلص سُرور تھا جو اپنے آبائی علاقے بارہ بنکی کی نسبت قلم نگری میں سُرور بارہ بنکوی مشہور ہوئے۔

    لازوال گیتوں کے اس خالق نے فلم کے لیے مکالمے بھی لکھے اور ہدایت کاری بھی کی۔ تاہم ان کی اصل وجہِ شہرت ان کی شاعری ہے۔

    سرور بارہ بنکوی کی عملی زندگی کا آغاز فلموں کے مکالمے لکھنے سے ہوا، بعد میں فلم سازی کی طرف آئے۔

    3 اپریل 1980 کو بنگلا دیش سے ان کے انتقال کی خبر آئی۔ آج اردو زبان کے اسی خوب صورت اور لازوال نغموں کے خالق کی برسی ہے۔

    سرور بارہ بنکوی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں‌ ہوتا تھا جب کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بھی ان کی کاوشیں یاد رکھی جائیں گی۔ مشہور پاکستانی فلم “آخری اسٹیشن” انہی کی کاوش تھی۔

    "تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے”، "ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے”، اور "کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں، پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں” جیسے رسیلے اور لافانی گیت سرور بارہ بنکوی کی تخلیق ہیں۔

    سُرور بارہ بنکوی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

     

    نہ کسی  کو  فکرِ منزل، نہ  کہیں  سراغِ جادہ
    یہ عجیب  کارواں ہے، جو رواں ہے بے ارادہ

    یہی لوگ ہیں،ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
    کبھی  ڈال کر  نقابیں،  کبھی اوڑھ  کر لِبادہ

    مِرے روز و شب یہی ہیں، کہ مجھی تک آرہی ہیں
    تِرے حُسن کی ضیائیں کبھی کم، کبھی زیادہ

    سرِ انجمن تغافل کا صلہ بھی دے گئی ہے
    وہ نِگہ! جو درحقیقت، تھی نِگاہ سے زیادہ

    ہو برائے شامِ ہجراں، لبِ ناز سے فروزاں!
    کوئی ایک شمعِ پیماں، کوئی اِک چراغِ وعدہ