Tag: پاکستانی فلمی صنعت

  • وہ پاکستانی فلمیں‌ جو یادگار ثابت ہوئیں

    وہ پاکستانی فلمیں‌ جو یادگار ثابت ہوئیں

    پاکستانی فلمی صنعت کے زوال اور اس کے اسباب پر تو ہم اخباری کالم اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں بہت کچھ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں، لیکن یہاں ہم اُن فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھیں زبردست کام یابی ملی اور وہ لالی وڈ کی یادگار فلمیں‌ ثابت ہوئیں۔

    قیام پاکستان کے بعد یہاں نئی فلمی صنعت میں قدم رکھنے والوں میں کئی بڑے اداکار اور منجھے ہوئے فلم ساز شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے متحدہ ہندوستان کے زمانے میں کلکتہ اور بمبئی کے فلمی مراکز میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا اظہار کرکے نام و مقام پایا تھا۔ اس چمکتی دمکتی دنیا میں کئی نئے چہرے اور وہ فن کار بھی شامل ہوتے گئے جنھوں نے ہدایت کاری، فوٹو گرافی اور موسیقی جیسے شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ اس وقت بڑی تعداد میں اردو، پنجابی اور پشتو فلموں میں کام کرنے والوں نے اپنے فن و کمال کا جادو جگایا اور لالی وڈ کی فلمیں یادگار ثابت ہوئیں۔

    آغاز کرتے ہیں فلم کوئل سے جس کے لیے سحر انگیز موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی تھی اور میڈم نور جہاں نے ناقابل فراموش گلوکاری اور اداکاری سے اسے کام یاب بنا دیا۔ اس فلم میں نور جہاں کے علاوہ اسلم پرویز، علاﺅالدین، نذر اور نیلو نے بھی بہترین اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کیا۔ یہ لولی وڈ کی وہ فلم تھی جس کے مکالمے نہایت جاندار اور اسکرپٹ مضبوط تھا۔ فلمی ناقدین کوئل کو لالی وڈ کی بہترین فلم قرار دیتے ہیں۔

    1956ء میں فلم انتظار ریلیز ہوئی اور یہ ایک شاہکار فلم ثابت ہوئی۔ اسے فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور فلم کی زبردست کام یابی کی ایک وجہ اس کے نغمات اور موسیقی بھی تھی۔ فلم کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی تھی جب کہ گیت قتیل شفائی نے لکھے تھے۔ فلم کے ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔ اس فلم نے گولڈن جوبلی مکمل کی تھی۔ اداکاروں میں نور جہاں، سنتوش کمار، آشا پوسلے اور غلام محمد شامل تھے اور ان کی بے مثال اداکاری نے شائقین کے دل موہ لیے۔ اس فلم میں سنتوش کمار نے ڈبل رول نبھایا تھا۔ اوپر ہم نے فلم کوئل کی کام یابی کا ذکر کیا تھا، اور اس کے بعد فلم انتظار نے بھی زبردست بزنس کیا۔

    1965ء کی ایک فلم بنام لاکھوں میں ایک کو لالی وڈ کی کلاسیک فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ تقسیمِ ہند کے پس منظر میں ایک مسلمان نوجوان اور ہندو لڑکی کے عشق کی داستان پر مبنی فلم ہے جسے شائقینِ سنیما نے بے حد سراہا۔ اس فلم کے ہدایت کار رضا میر تھے جب کہ فلمی گیتوں کے خالق فیاض ہاشمی تھے اور ان کے خوب صورت گیتوں کی دھنیں نثار بزمی نے ترتیب دی تھیں۔ فلم کے گیت میڈم نور جہاں، مہدی حسن اور مجیب عالم کی آواز میں آج بھی سننے والوں میں مقبول ہیں۔ ایک گیت جو آپ کو بھی یاد ہو، میڈم نور جہاں کی آواز میں گویا امر ہوگیا۔ اس کے بول ہیں، ”چلواچھا ہوا تم بھول گئے۔“ اس کے علاوہ ایک گیت بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا بھی ہر زبان پر تھا۔ بطور ولن مصطفیٰ قریشی نے اسی فلم سے اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔ ان کے علاوہ فلم میں شمیم آرا، اعجاز اور طالش نے لاجواب اداکاری کی۔
    1966ء میں فلم ارمان ریلیز ہوئی جو پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ہے۔ فلم ساز وحید مراد اور ہدایت کار پرویز ملک کی اس کاوش نے ملک گیر مقبولیت ملی۔ فلم کے گیت شاعر مسرور انور نے لکھے اور موسیقی سہیل رانا نے دی تھی۔ اداکارہ زیبا، وحید مراد اور نرالا نے فلم میں عمدہ اداکاری کی اور فلم بینوں کے دل جیت لیے۔ یہ ایک رومانوی فلم تھی جس میں وحید مراد اور اداکارہ زیبا کی جوڑی کو بہت پسند کیا گیا۔ ارمان کو لالی وڈ کی بہترین فلموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔
    آئینہ وہ فلم تھی جس کی کہانی، مکالمے، فوٹو گرافی، گیت اور ان کی موسیقی سبھی بہترین تھے اور اسے نذر الاسلام نے اپنی ہدایت کاری سے یادگار بنا دیا۔ اس فلم کی موسیقی روبن گھوش نے ترتیب دی تھی اور فلمی ناقدین کی نظر میں اس کی کام یابی میں موسیقی کا بڑا دخل تھا۔ آئینہ کے اداکاروں میں شبنم، ندیم شامل تھے جن کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ اسی فلم کا ایک گیت اس دور کے نوجوانوں اور بعد میں آنے والوں میں یکساں مقبول ہے جس کے بول ہیں، ”روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناﺅں پیا۔“ گلوکارہ نیرہ نور کی آواز میں اس گیت نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔
    آزادیٔ فلسطین کے موضوع پر فلم زرقا کو ریاض شاہد کی شاہکار فلم تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ فلم 1969ء میں ریلیز ہوئی تھی اور اس کے گیت شاعرِ‌ عوام حبیب جالب نے لکھے تھے۔ فلم کے موسیقار رشید عطرے تھے۔ ریاض شاہد نے فلم کا اسکرپٹ اور مکالمے تحریر کیے جو ان کے فن و تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین اظہار تھا۔ اداکار طالش کے علاوہ نیلو، اعجاز، ساقی نے بھی شان دار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ یہ لالی وڈ کی ایک ناقابلِ فراموش فلم ہے۔

    (پاکستان کی فلمی صنعت اور فن کار سے ماخوذ)

  • بے مثال ہدایت کار اور لالی وڈ کے ’’دادا‘‘ نذرُ الاسلام کا تذکرہ

    بے مثال ہدایت کار اور لالی وڈ کے ’’دادا‘‘ نذرُ الاسلام کا تذکرہ

    پاکستان کی فلمی صنعت کے کئی باصلاحیت نام ایسے ہیں جن کی کیمرے کے پیچھے مہارت نے ہمیں شاہکار فلمیں دیں۔ ان قابل اور زرخیز ذہن کے مالک فلم سازوں اور ہدایت کاروں کا کام لائقِ ستائش بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ ہدایت کاری کے شعبے میں نئے رجحان اور زایوں کو متعارف کروانے والے ایک فلم ساز اور ہدایت کار نذرُ‌السلام بھی تھے۔ انھیں فلمی دنیا میں ’’دادا‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

    نذر الاسلام نیوتھیٹرز کلکتہ کے دبستان کے نمائندہ ہدایت کار تھے۔ نذرُ السلام کا انتقال 11 جنوری 1994ء کو ہوا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    فلم ساز اور ہدایت کار نذر السلام کلکتہ کے باسی تھے۔ یہ وہ شہر تھا جو اس زمانے میں متحدہ ہندوستان کا فلمی مرکز تھا۔ اسی شہر میں نذرُ الاسلام نے 19 اگست 1939ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے فنی سفر کا آغاز ڈھاکا سے بطور تدوین کار ہوا۔ بعد میں‌ ہدایت کار ظہیر ریحان کے معاون بن گئے۔ چند بنگالی فلموں کے بعد انھوں نے ایک اردو فلم کاجل بنائی جو کام یاب ثابت ہوئی۔ نذرُ السلام نے بعد میں ایک بنگالی فلم کے علاوہ اردو زبان میں پیاسا کے نام سے فلم کے لیے ہدایات دیں اور 1971ء میں سقوطِ ڈھاکا کے بعد پاکستان آگئے۔

    پاکستان میں‌ نذرُ الاسلام نے فلم ساز الیاس رشیدی کے ساتھ اپنا فلمی سفر دوبارہ شروع کیا۔ فلم حقیقت، شرافت، آئینہ، امبر، زندگی، بندش، نہیں ابھی نہیں، آنگن، دیوانے دو، لو اسٹوری، میڈم باوری ان کی کام یاب فلموں‌ میں‌ سرفہرست ہیں۔ بطور ہدایت کار نذر الاسلام کی یہ تمام فلمیں باکس آفس پر بازی لے گئیں۔ نذر الاسلام کی آخری فلم لیلیٰ تھی۔ یہ فلم ان کے انتقال کے بعد نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

  • پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز 10 مارچ 2001ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ مسعود پرویز کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ اردو کے نام ور ادیب سعادت حسن منٹو ان کے قریبی عزیز تھے۔

    مسعود پرویز 1918ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منگنی سے ہیرو کی حیثیت سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ بعد وہ ہدایت کاری کی طرف آگئے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں انڈسٹری سے وابستہ ہوتے ہوئے ہدایت کاری کے شعبے میں اپنے تجربے اور مہارت کو آزمایا اور بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی یادگار فلمیں بنائیں۔

    مسعود پرویز نے 1957ء میں فلم انتظار پر بہترین ہدایت کار کا صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ وہ فلم تھی جس نے مجموعی طور پر 6 صدارتی ایوارڈ حاصل کیے اور ایک اس ہدایت کار کے نام ہوا۔

    پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر اور معروف، نگار ایوارڈ کی بات کی جائے تو مسعود پرویز کو فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر یہ ایوارڈ دیا گیا جب کہ ان کی ہدایت کاری میں بننے والی دوسری فلموں نے متعدد زمروں میں نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس کام گار کو لاہور میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • 16 فروری 1948ء‌: پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک یادگار دن

    16 فروری 1948ء‌: پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک یادگار دن

    ایک زمانہ تھا جب کلکتہ فلم سازی کا مرکز ہوا کرتا تھا اور متحدہ ہندوستان کا ہر باکمال، ہر بڑا چھوٹا فن کار چاہے وہ اداکار ہو، موسیقار، گلوکار، شاعر یا کہانی نویس وہاں فلم نگری میں قسمت آزمانے اور کام حاصل کرنے جاتا تھا، بعد کے برسوں میں یہ فلمی صنعت ممبئی منتقل ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں لاہور تیسرا اہم فلمی مرکز بنا اور ابتدائی زمانے میں یہاں بننے والی فلموں نے ہندوستان بھر میں کام یابیاں حاصل کیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد 16 فروری 1948ء کو لاہور میں ملک کے پہلے فلم اسٹوڈیو کا افتتاح ہوا اور یوں آج کا دن پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا یادگار دن ثابت ہوا۔

    تقسیم سے قبل اس اسٹوڈیو کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی تھے، جو تقسیم کے موقع پر فسادات کے دوران اسٹوڈیو میں‌ توڑ پھوڑ اور اسے نذرِ آتش کیے جانے کے بعد بھارت چلے گئے۔ وہ ایک فن شناس آدمی تھے۔ بھارت میں انھوں نے اپنا کام شروع کیا اور کئی فن کاروں کو اپنی فلموں میں موقع دیا، ان کی کئی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ لاہور میں ان کے اسٹوڈیو کا انتظام ان کے منیجر دیوان سرداری لال نے سنبھال لیا۔

    پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد آنجہانی دیوان سرداری لال نے اسی پنچولی آرٹ اسٹوڈیو کے ٹوٹے پھوتے سامان اور بکھری ہوئی چیزوں کو اکٹھا کیا اور اسے دوبارہ آباد کیا۔ گنے چُنے تکنیک کاروں نے یہاں سے فلم سازی کی بنیاد رکھی اور بعد میں یہاں بننے والی کئی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی بینر تلے سرداری لال کی جس فلم پر پہلے سے کام جاری تھا، وہ بھی 1948ء میں مکمل ہوگئی اور یہی فلم’تیری یاد‘ کے ٹائٹل سے ریلیز ہوئی تھی۔ اسے پاکستان کی پہلی فلم قرار دیا جاتا ہے۔

  • آغا جی اے گل کی برسی اور ایورنیو اسٹوڈیو

    آغا جی اے گل کی برسی اور ایورنیو اسٹوڈیو

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں فلمی صنعت کے قیام، فلم سازی کا آغاز، اس کی ترقی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں ایک نام آغا جی اے گل کا بھی ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    آغا جی اے گل نے لاہور میں ایورنیو اسٹوڈیو قائم کر کے فلم سازی کے شعبے کی ترقی اور سنیما کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دور تھا جب ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی اور اس بینر تلے سنیما کے لیے شان دار اور قابلِ ذکر کام کیا گیا۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معماروں اور سرپرستوں میں سے ایک آغا جی اے گل 6 ستمبر 1983 کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔

    آغا جی اے گل کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 19 فروری 1913 کو پیدا ہوئے تھے۔ بحیثیت فلم ساز انھوں نے فلم مندری سے خود کو متعارف کروایا اور اس کے بعد سنیما کو ایورنیو پروڈکشنز کے تحت یادگار فلمیں‌ دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔

    ایورنیو اسٹوڈیو کو اس زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ کرنے والے آغا جی اے گل لاہور کے ایک قبرستان میں محوِ خوابِ ابد ہیں۔

  • فلمیں جو لولی وڈ کی شاہ کار، سنیما کی تاریخ میں یادگار ٹھہریں

    فلمیں جو لولی وڈ کی شاہ کار، سنیما کی تاریخ میں یادگار ٹھہریں

    یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی فلم نگری اور سنیما کے شائقین پچھلی دہائیوں کے دوران موضوع اور عکس بندی کے اعتبار سے معیاری فلموں سے محروم رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی اکثریت، خاص طور پر نوجوان ہالی وڈ اور ہندی فلمیں‌ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم ماضی میں پاکستان میں بڑے پردے پر کئی ایسی فلمیں‌ پیش کی گئی‌ ہیں‌ جو ہر لحاظ سے کام یاب اور یادگار تھیں۔

    آج ہم ان چند اردو فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھیں اب بھی اپنے موضوع، جان دار اسکرپٹ اور عمدہ مکالموں کے ساتھ اداکاروں کی شان دار پرفارمنس، موسیقی اور گلوکاری کے لحاظ سے منفرد اور قابلِ ذکر مانا جاتا ہے۔

    اس ضمن میں "کوئل” کو سرفہرست رکھا جائے تو خواجہ خورشید انور کی سحر انگیز موسیقی، مسعود پرویز کی شان دار اداکاری اور ملکہ ترنم نور جہاں کی گلوکاری نے اس فلم کو زبردست اور کام یاب بنایا۔

    میڈم نور جہاں نے اس فلم میں ایک کردار بھی نبھایا تھا، ان کے علاوہ اسلم پرویز، علاﺅالدین، اداکار نذر اور نیلو کی شان دار پرفارمنس آج بھی دیکھنے والوں کو یاد ہے۔

    1956 میں فلم "انتظار” ریلیز ہوئی جسے لالی وڈ کی کام یاب ترین فلم کہا جاتا ہے۔ اس فلم کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی تھی اور گیت قتیل شفائی نے لکھے تھے۔ فلم کے ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔

    کہتے ہیں اس فلم کی فوٹو گرافی کمال کی تھی اور اس میں نور جہاں، سنتوش کمار، آشا پوسلے اور غلام محمد نے اپنی اداکاری سے شائقین کے دل موہ لیے۔

    فلم بینوں کو سنتوش کمار کا ڈبل رول بہت پسند آیا اور انتظار نے گولڈن جوبلی مکمل کی۔ اعلیٰ درجے کی شاعری اور شان دار موسیقی کے ساتھ جان دار اداکاری کی وجہ سے پڑوسی ملک میں‌ بھی اس فلم کا خوب چرچا ہوا۔

    1966 کی فلم "ارمان” پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ہے۔ وحید مراد اس کے فلم ساز اور ہدایت کار پرویز ملک تھے۔ اسے پاکستان بھر میں‌ سنیما بینوں نے پسند کیا اور اس فلم نے زبردست بزنس کیا۔

    اس فلم کے گیت مسرور انور نے لکھے تھے جب کہ نام ور موسیقار سہیل رانا نے اس دھنیں‌ ترتیب دی تھیں۔ اداکارہ زیبا کے علاوہ فلم میں وحید مراد، نرالا اور ترنم نے اداکاری کے جوہر دکھائے اور شائقین کو متوجہ کیا۔

    یہ رومانوی فلم تھی جس کے بعد وحید مراد کو ”شہنشاہ رومانس“ کہا جانے لگا۔ یہ لالی وڈ کی بہترین فلموں میں سے ایک ثابت ہوئی۔

    اسی طرح آئینہ، زرقا اور امراؤ جان ادا نے شائقین ہی کے دل نہیں‌ جیتے بلکہ بزنس کے اعتبار سے بھی شان دار ثابت ہوئیں اور ان فلموں‌ میں کام کرنے والے اداکاروں نے ملک بھر میں نام کمایا۔