Tag: پاکستانی فلم انڈسٹری

  • شان شاہد کی بیٹی کے ہمراہ ارشد ندیم سے ملاقات، تصویر وائرل

    شان شاہد کی بیٹی کے ہمراہ ارشد ندیم سے ملاقات، تصویر وائرل

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار شان شاہد نے پیرس اولمپکس 2024 میں سونے کا تمغہ جیتنے والے اولمپئین ارشد ندیم سے ملاقات کی تصویر شیئر کی ہے۔

    فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکار شان شاہد نے ارشد ندیم سے ملاقات کی تصویر پوسٹ کی جس میں اُن کے ہمراہ اداکار کی بیٹی بہشت بھی موجود ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Shaan Shahid (@official.shaanshahid)

    شان شاہد کی بیٹی کے ہمراہ ارشد ندیم سے ملاقات کی تصویر کھیل کے کسی گراؤنڈ کی ہے، پوسٹ میں اداکار نے ارشد ندیم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بھائی! ہم سب کو آپ پر فخر ہے، میری بیٹی بہشت اور میں ہمارے چیمپئین کے ساتھ۔

    پیرس اولمپکس میں ریکارڈ بنانے اور پاکستان کو پہلا انفرادی گولڈ میڈل جتوانے والے جیولن ہیرو ارشد ندیم کی ہر جگہ ستائش کی جا رہی ہے۔ ان کی وطن آمد پر ان کا شایان شان استقبال کیا گیا۔

    واضح رہے کہ ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس کے نیزہ بازی مقابلے میں 92.97 میٹر کی ریکارڈ تھرو کرکے پاکستان کے لیے سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

    ارشد ندیم نے نہ صرف اولمپک کا 118 سالہ ریکارڈ توڑا بلکہ انفرادی حیثیت میں میں پاکستان کو پہلا گولڈ میڈل جتوایا جب کہ اس میڈل کے ساتھ ہی پاکستان کا 32 سالہ میڈل کا قحط بھی ختم ہوا۔

    اس سے قبل 1992 اولمپکس میں ہاکی میں پاکستان نے آخری بار کانسی کا تمغہ جیتا تھا جب کہ 1984 کے اولمپکس میں پاکستان نے ہاکی میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔

  • اکیلی عورت شادی کرنا چاہتی ہے تو اس میں کیا بُرائی ہے: نشو بیگم

    اکیلی عورت شادی کرنا چاہتی ہے تو اس میں کیا بُرائی ہے: نشو بیگم

    پاکستانی فلم انڈسٹری کی معروف سابقہ اداکارہ نشو بیگم نے کہا ہے کہ اگر اکیلی عورت شادی کرنا چاہتی ہے تو اس میں کیا بُرائی ہے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کی معروف سابقہ اداکارہ نشو بیگم کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر  وائرل ہورہی ہے جس میں نشو بیگم نے قہقہے لگاتے ہوئے بتایا کہ ’ایک آدمی نے مجھے کہا کہ اگر میرے پاس پیسہ ہوتا تو میں تمہیں غنڈوں کے ہاتھوں اٹھوا لیتا۔

    اداکارہ نے بتایا کہ ’میں نے اُس شخص سے کہا کہ اگر واقعی میں آپ کے پاس اتنا پیسہ ہوتا تو میں خود آپ کے پاس چلی آتی، مجھے اب بھی متعدد افراد کی جانب سے شادی کی پیشکش کی جارہی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by HideSide magazine (@hidesidemagazine)

    نشو بیگم نے کہا کہ اگر مجھے شادی کی پیشکش کی جا رہی ہے تو اس میں میری کیا غلطی ہے؟ مجھ سے صارفین ناراض ہوتے ہیں؟ تنقید کرتے ہیں، میں نے کیا کوئی رشتہ طے کر لیا ہے یا شادی کی تاریخ رکھ لی ہے یا کسی کو مہندی مایوں کی دعوت بھجوادی ہے۔

    اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس موضوع پر میں کچھ کہتی ہوں تو وہ بھی تو سنیں، میرا کیا مسئلہ ہے، میں کیا چاہتی ہوں، اگر ایک عورت اکیلی ہے اور وہ شادی کرنا چاہتی ہے تو اس میں بُری بات کیا ہے۔

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ صارفین مجھ پر تنقید کرتے ہیں، کیا وجہ ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ شادی کی عمر نہیں ہے؟ اس عمر میں لوگ جھوٹ بولتے ہیں، بہت سارے ایسے غلط کام کرتے ہیں جن کا وہ ذکر نہیں کرنا چاہتی تو شادی میں کیسی برائی ہے۔

  • اداکار لہری کا پہلا اور واحد تجربہ

    اداکار لہری کا پہلا اور واحد تجربہ

    میری زندگی کی پہلی فلم جو میں نے اپنے ابو اور ان کے برطانیہ سے آئے کزن کے ساتھ سنیما میں دیکھی وہ فلم اولاد تھی۔

    فلمی ریکارڈ کے مطابق 10 اگست 1962 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس وقت میں تقریباً آٹھ برس کا تھا۔ اتنے بڑے اسکرین پر گھپ اندھیرے میں فلم دیکھنا میرے لیے ایک انوکھا، پُراثر، دل چسپ تجربہ تھا۔ اس فلم کو سنیما میں دیکھنے کے بعد کافی عرصہ تک اس فلم کے اثرات میرے ذہن پر رہے۔

    پاکستان کے نامور مزاحیہ اداکار لہری جن سے میرے بہت اچھے اور گہرے مراسم ہو گئے تھے، ایک دن گفتگو کے دوران (تقریباً فلم کی نمائش کے 40 برس سے زیادہ عرصہ بعد) فلم اولاد کا ذکر آگیا۔ لہری صاحب نے فلم اولاد سے وابستہ یادگار واقعہ سنایا کہ فلم اولاد کی تکمیل کے بعد ہدایت کار ایس ایم یوسف اور ایف ایم سردار اس کے فلم ساز بنے۔ یہ فلم اس وقت کے رائج کاروباری اصولوں کے مطابق جب فلمی تقسیم کاروں کو دکھائی گئی تو انھوں نے اس فلم کی کہانی، اداکاری اور موسیقی کی بہت تعریف کی لیکن انھوں نے فلم کے ہدایت کار اور فلم ساز کو بتایا کہ اس فلم میں بس ایک بہت بڑی کمی رہ گئی ہے، وہ ہے اداکار لہری کی۔

    چوں کہ اس وقت لہری صاحب بتدریج تقریباً ہر اردو فلم کا لازمی جزو بنتے جارہے تھے، اس پریشانی اور مشکل صورت حال کے ساتھ انھوں نے لہری صاحب سے رابطہ کیا۔ لہری صاحب نے فلم دکھانے کا کہا۔ فلم دیکھنے کے بعد لہری صاحب نے خود اپنے کردار کو تخلیق کرکے ان کے سامنے پیش کیا، جو انھوں نے جوں کا توں قبول کر لیا۔

    لہری صاحب نے کہا یہ ان کا پہلا اور واحد تجربہ تھا۔ ایک مکمل شدہ فلم میں اپنا کردار شامل کرنے اور نبھانے کا۔ جو کام یاب رہا اور فلم بین کو بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ لہری صاحب کا کردار بعد میں شامل کیا گیا ہے۔

    فلم اولاد اپنے وقت کی باکس آفس پر ایک کام یاب ترین فلم تھی جس میں عورت کے کردار کو ماں کے روپ میں اور ماں کے ہاتھوں‌ بچّوں‌ کی تعلیم و تربیت کو بہت متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم نے نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔ نیّر سلطانہ اور وحید مراد نے اس فلم میں‌ اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا تھا۔

    (خلیل اے شیخ نے پاکستانی فلمی صنعت کے مختلف ادوار دیکھے اور فن کاروں سے قریب رہے۔ ان کی یادوں پر مبنی ایک مضمون فلمی جریدے "مہورت” میں شایع ہوا تھا جس سے یہ اقتباس لیا گیا ہے)

  • ‘’بے قرار‘ اپنے وقت سے بہت آگے کی فلم تھی!’

    ‘’بے قرار‘ اپنے وقت سے بہت آگے کی فلم تھی!’

    متحدہ ہندوستان میں تھیٹر کے بعد ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو شائقین اس کے دیوانے ہوگئے۔ اس وقت سماجی موضوعات پر نہایت معیاری اور شان دار فلمیں‌ بنائی گئیں۔ اس دور کے سنیما نے ہندوستان کے لوگوں میں سماجی شعور اجاگر کیا اور ملک کے مختلف طبقات کی بہترین اور مؤثر ترجمانی کی گئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ سلسلہ پاکستان اور بھارت میں‌ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور پھر رشتوں‌ کا اتار چڑھاؤ، رومانس اور مار دھاڑ فلموں میں عام ہوگئی۔ کئی فلم ساز اور ہدایت کار مایوس ہو کر فلم انڈسٹری سے دور ہوگئے۔

    پاکستانی سنیما کی بات کی جائے تو یہاں بھی بامقصد فلمیں بنائی گئیں اور بڑا کام ہوا لیکن ایسی فلمیں‌ ناکام ہونے لگیں اور مالی خسارے نے کئی بڑے اور باکمال فلم سازوں، ہدایت کاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں ہم سینئر صحافی، مصنّف اور محقق عارف وقار کی ایک تحریر بعنوان ‘جب پہلی بامقصد فلم بنی’ سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌ جس میں انھوں نے پاکستان کی پہلی بامقصد فلم کا ذکر کیا ہے اور اس فلم کے ذریعے کسانوں‌ کو پیغام دیا گیا تھا کہ زیادہ اناج اگانا ہماری ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "میرے بچپن میں ریڈیو سے دو گانے بڑی کثرت سے بجا کرتے تھے:

    دِل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا
    ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ

    اور انھی گلوکاروں کی آواز میں ایک اور دو گانا بھی مشہور تھا:

    او پردیسیا بُھول نہ جانا

    میں عرصہ دراز تک انھیں کسی بھولی بسری ہندوستانی فلم کے گیت سمجھتا رہا لیکن کالج کے زمانے میں پہنچ کر پتہ چلا کہ گانے والے علی بخش ظہور اور منّور سلطانہ ہیں اور یہ پاکستانی فلم ’ بے قرار ‘ کے گانے ہیں جو کہ 1950 میں بنی تھی۔

    آج فلم بے قرار کے بارے میں سوچتا ہوں تو بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ یہ پاکستان کی پہلی بامقصد فلم تھی اور اس کا مقصد ملک کے کسانوں کو یہ باور کرانا تھا کہ زیادہ اناج اگانا اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت ہے۔

    فلم میں ایک غریب کاشت کار گندم کی بہتر پیداوار حاصل کر کے حکومت کے انعام و اکرام کا حق دار ٹھہرتا ہے اور اس طرح زمین دار کے عیاش بیٹے کی دشمنی مول لے لیتا ہے۔ یہ دشمنی بعد میں رانی نام کی لڑکی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ایک چیلنج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

    فلم کے مصنف اور ہدایت کار نذیر اجمیری تھے جنھوں نے خاموش دور میں ایک اداکار کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور بعد میں ایک اسکرپٹ رائٹر کے طور پر فلم انڈسٹری میں اپنا مقام مستحکم کر لیا تھا۔

    پاکستان آنے سے پہلے انھوں نے بمبئی میں فلم ’ مجبور‘ بنائی تھی جِس میں پہلی بار لتا منگیشکر کو واحد آواز میں گانے کا موقع ملا تھا ( اس سے پہلے وہ صرف کورس میں گاتی رہی تھیں)۔

    نذیر اجمیری کے ساتھ ماسٹر غلام حیدر بھی پاکستان آگئے تھے اور دونوں نے ایس گُل کے اشتراک سے ایک فلم کمپنی شروع کی اور یوں فلم ’بے قرار‘ وجود میں آئی جس کے ہیرو خود ایس گُل تھے اور موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے مرتب کی تھی۔

    اس فلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے وقت سے بہت آگے تھی۔ شاید اسی لئے اچھے موضوع اور دل کش موسیقی کے باوجود یہ کاروباری طور پر نا کام رہی۔ البتہ اس کے ایک برس بعد بننے والی پنجابی فلم ’چن وے‘ نے کاروباری سطح پر تہلکہ مچا دیا۔”

    چن وے کے بارے میں‌ عارف وقار لکھتے ہیں:

    چن وے 24 مارچ 1951 کو لاہور کے ریجنٹ سنیما میں ریلیز ہوئی اور عوام نے عرصہ دراز کے بعد کسی سینما پر لمبی قطاروں اور دھینگا مشتی کی مناظر دیکھے۔ ’جُگنو‘ کے چار برس بعد نور جہاں کی کوئی فلم سامنے آئی تھی اور لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قرار تھے۔

    چن وے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اسے خود نور جہاں نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اساطیرِ لالی وُڈ میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس کا میوزک بھی نور جہاں نے خود ہی دیا تھا اور فیروز نظامی محض نام کے موسیقار تھے۔ تاہم وفات سے کچھ عرصہ قبل لندن میں اپنے ایک طویل انٹرویو کے دوران نور جہاں نے ان قصّوں کی تردید کرتے ہوئے راقم کو بتایا کہ فیروز نظامی اپنے فن کے ماہر تھے، وہ موسیقی کے تمام اسرار و رموز سے واقف تھے اور چن وے کی ساری دُھنیں ان کے ذاتی کمالِ فن کا نتیجہ تھیں۔

    چن وے کی کام یابی میں اس کے گیتوں کا بڑا دخل تھا۔ اور گیت بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے:

    تیرے مکُھڑے دا کالا کالا تِل وے
    میرا کڈھ کے لے گیا دِل وے
    وے منڈیا سیالکوٹیا!

    پنجاب کی سڑکوں پہ ہر من چلا یہ گیت گنگناتا پھرتا تھا۔ لیکن نور جہاں کے فن کی پختگی اور گلے کا ریاض اُس گانے میں نظر آتا ہے جس کے بول ہیں:

    ’چن دیا ٹوٹیا وے دِلاں دیا کھوٹیا‘

    ’تان پلٹے‘ کے جو کرتب نور جہاں نے اس گیت میں دکھائے شاید انھی کے پیشِ نظر یہ افواہ اڑی تھی کہ اس فلم کا میوزک بھی نور جہاں نے خود دیا ہے۔ چن وے کے گیت پاپولر شاعر ایف۔ ڈی شرف نے لکھے تھے جو قریبی حلقوں میں ’ بھا شرف ‘ کے نام سے معروف تھے اور قبل ازیں کلکتے میں بننے والی کئی پنجابی فلموں کے گانے اور مکالمے لکھ چکے تھے۔”

  • پاکستانی فلموں کے اداکار اور دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے اداکار اور دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کا تذکرہ

    یہ تذکرہ ہے ناصر خان کا جنھوں‌ نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں‌ بننے والی پہلی فلم تیری یاد میں‌ بطور اداکار کام کیا تھا۔ وہ عظیم اداکار اور بولی وڈ کے شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار کے بھائی تھے۔

    ناصر خان تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آگئے۔ پاکستان میں‌ انھوں نے بطور اداکار فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ تیری یاد 1948ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے اگلے سال انھوں نے فلم شاہدہ میں کام کیا اور یہ دونوں فلمیں ناکام رہیں۔ ناصر خان نے 1951ء میں اچانک بھارت جانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہاں‌ انھوں نے ممبئی کی فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی۔ ممبئی میں نگینہ اُن کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں‌ وہ نوتن کے ساتھ نظر آئے۔ یہ بولی وڈ کی کام یاب ترین فلم تھی۔ اداکارہ کے ساتھ ان کی چند مزید فلمیں‌ ریلیز ہوئیں‌ جن میں‌ آغوش اور شیشم شامل ہیں۔ ناصر خان نے اپنے بھائی دلیپ کمار کے ساتھ بھی گنگا جمنا نامی فلم میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس فلم کے بعد وہ 1970ء تک اسکرین سے دور رہے اور پھر یادوں‌ کی بارات جیسی فلم سے چھوٹے موٹے کردار نبھانے کا آغاز کیا۔ ناصر خان کی آخری فلم بیراگ تھی جو 1976ء میں‌ ان کی موت کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ناصر خان غلام سرور علی خان اور عائشہ بیگم کی اولاد تھے۔ وہ 11 جنوری 1924 کو پیدا ہوئے۔ ناصر خان اپنے بھائی دلیپ کمار سے عمر میں دو سال چھوٹے تھے۔ اداکار ناصر خان کی پہلی شادی ثریا نذیر سے ہوئی تھی جو لیجنڈری فلم میکر نذیر احمد خان کی بیٹی تھیں۔ اللہ نے انھیں‌ ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام انھوں نے ناہید خان رکھا۔ ناصر خان نے اپنے وقت کی مشہور اداکار بیگم پارہ سے دوسری شادی کی اور ان کے بطن سے ایک بیٹے کے باپ بنے۔ ان کا بیٹا ایوب خان بھی اداکار بنا۔

    3 مئی 1974ء میں ناصر خان پچاس سال کی عمر میں‌ وفات پاگئے۔

  • فیشن جو فلمی پردے سے عام آدمی تک پہنچا

    فیشن جو فلمی پردے سے عام آدمی تک پہنچا

    جس طرح کسی ڈرامے یا فلم کی شان دار کہانی اور متأثر کن اداکاری ناظرین کے دل جیت لیتی ہے بالکل اسی طرح ان پر نفسیاتی طور پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ فلمیں اپنے ناظرین کو گرفت میں لے لیتی ہیں‌ اور اس کے منفی یا مثبت دونوں طرح کے اثرات سامنے آسکتے ہیں۔

    اکثر کوئی فرد فلم دیکھنے کے بعد وہی کچھ کرتا ہے جو فلم میں دکھایا گیا ہو۔ ہم نے کئی خبریں‌ سنی اور پڑھی ہیں‌ جب کسی فلم بین نے اپنے پسندیدہ ہیرو یا ولن کی خودکشی کا منظر دیکھنے کے بعد ٹھیک اسی طرح اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ اسی طرح مار پیٹ یا بینک لوٹنے کے چند واقعات کا محرک بھی کوئی فلم رہی ہے۔ حقیقی زندگی میں کسی بے وفا محبوب کو بھیانک انجام سے دوچار کرنے والوں نے بعد میں بتایا کہ انھوں نے فلاں فلم دیکھنے کے بعد یہ قدم اٹھایا تھا۔ یہ تو چند منفی باتیں تھیں، لیکن فلم بینوں نے اداکاروں کو دیکھ کر کئی فیشن اور وضع قطع کے مختلف انداز بھی اپنائے۔ یہاں ہم صرف بھارتی سنیما کی بات کریں‌ تو پریم پال اشک کے ایک مضمون سے چند پارے آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "فلمیں ہمارے نوجوانوں پر نفسیاتی طور پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہیں کہ انہی سے نئے نئے فیشن بھی جنم لیتے ہیں۔ مس گوہر اور دیویکا رانی کے بالوں کا ہر اسٹائل خواتین نے اپنایا۔”

    "دیویکا رانی اور نرگس جب سفید ساڑھی میں جلوہ گر ہوئیں تو ملک کی خواتین نے سفید براق ساڑھیاں پہننی شروع کر دیں۔ سلوچنا، مس کنچن اور سادھنا بوس نے بغیر آستین کا پارسی کٹ بلاؤز پہنا تو ہمارے ملک کی خواتین نے بھی اسے فیشن بنا لیا۔ ناڈیا اور نرگس کے ہیئراسٹائل کو دیکھ کر لڑکیوں نے اسی انداز سے اپنے بال ترشوائے۔ اپنے زمانے کی مشہور ایکٹرس سدھنا کا ماتھا چوڑا تھا۔ اس عیب کو چھپانے کے لئے میک اپ مین نے اس کے ماتھے کے سامنے کے بال اس انداز سے سنوارے کہ عیب چھپ گیا اور بالوں کا نیا اسٹائل سادھنا کٹ مشہور ہوگیا۔”

    "اس کے علاوہ دلیپ کمار کی فلموں "بابل”، "میلہ”، دیدار” اور "شہید” وغیرہ میں ان کے بالوں کی ایک لٹھ کو ماتھے پر لانے کا اسٹائل دلیپ کمار اسٹائل بن گیا۔ اگر کسی اداکار کے بالوں کی سائیڈیں یعنی قلمیں بڑی ہوتیں تو وہ بھی نوجوانوں کا فیشن بن جاتا۔ اور اگر بولی وڈ کے نامور اداکار امریش پوری سر گھٹوا کر پردۂ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے تو نوجوانوں نے انہی کے نقشِ قدم پر چل کر سر گھٹوانے کو ہی ایک فیشن بنا لیا۔ اسی طرح جب دیو آنند نے کھلی چوڑے پائنچے کی پینٹ اور فلیٹ ہٹ ایک خاص اسٹائل سے پہنی تو نوجوانوں نے اسی کو فیشن بنا لیا۔”

    "راج کپور نے ہندوستانی نوجوانوں کو فیشن کا ایک نیا اسٹائل دیا۔ چوڑی موری کی پینٹ کے پائنچے موڑ کر انہیں اوپر چڑھانے اور فلیٹ ہیٹ پہننے کا مخصوص انداز فلم "آوارہ”‘ اور”چار سو بیس” میں دیکھنے کو ملا جسے نوجوانوں نے بڑے انہماک سے اپنایا۔”

    پاکستان میں فلم انڈسٹری کے نام ور اداکاروں کی تقلید کرتے ہوئے شائقینِ سنیما نے نہ صرف انہی کی طرح بال بنائے، ملبوسات سلوائے بلکہ اسی برانڈ کی گھڑی کلائی پر سجائی، ویسا ہی مفلر، رومال اور بٹوا خریدا جو انھوں نے فلم میں اپنے محبوب ہیرو کے پاس دیکھا تھا۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کا ہیئر اسٹائل اور اداکار شاہد کی طرح بڑی بڑی قلمیں رکھنے کا شوق ہر نوجوان نے اس زمانے میں پورا کیا تھا۔

  • ڈبلیو زیڈ احمد کی ’روحی‘ پر سنسر بورڈ کا اعتراض کیا تھا؟

    ڈبلیو زیڈ احمد کی ’روحی‘ پر سنسر بورڈ کا اعتراض کیا تھا؟

    آج کے دور میں فلم سازی اور بڑے پردے پر پیش کاری کا طریقہ ہی نہیں تبدیل نہیں ہوا، موضوعات اور فلم بینوں کے بدلتے ہوئے رجحانات نے کہانیوں کو بھی بدل ڈالا ہے، لیکن پاکستان میں‌ نصف صدی قبل بھی رومانوی اور گنڈاسے والی فلمیں اپنے مخصوص انجام کے ساتھ شائقین کی توجہ حاصل کرتی تھیں۔ اسی زمانے میں ڈبلیو زیڈ احمد نے فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے اپنے کمالِ فن اور فنی مہارت کے سبب بڑا نام پایا تھا۔

    پاکستان میں نئی نسل ڈبلیو زیڈ احمد سے واقف نہیں ہوگی، لیکن ساٹھ سال سے زائد عمر کے وہ لوگ جو سنیما کے دیوانے رہے ہیں، ان کے ذہن میں شاید یہ نام کہیں محفوظ ہو۔ اگر اِنھوں نے فلم ’وعدہ‘ دیکھی ہے تو یہ 1956ء میں ریلیز ہونے والی ڈبلیو زیڈ احمد کی آخری فلم تھی۔ یہ ایک عام رومانوی فلم تھی جس کا ہیرو زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا کام یابی کی منازل طے کر کے جب اپنی محبوب کو اپنانے کے قابل ہوتا ہے تو المیہ جنم لیتا ہے اور دو دل کبھی ایک نہیں‌ ہو پاتے۔ ڈبلیو زیڈ احمد نے فلم سازی اور ہدایت کاری کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا تھا اور ان کی یہ فلم کام یاب رہی تھی۔

    ڈبلیو زیڈ احمد طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد 15 اپریل 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کا اصل نام وحید الدّین ضیا تھا اور اسی مناسبت سے انھیں ڈبلیو زیڈ احمد لکھا جانے لگا تھا۔ یہی مختصر نام فلم نگری اور فلمی صحافت میں‌ ان کی شناخت کے لیے لکھا اور پکارا گیا۔ بوقتِ وفات اُن کی عمر 92 سال تھی۔ آخری برسوں میں ان کی یادداشت ختم ہوچکی تھی اور کچھ عرصے سے ڈبلیو زیڈ احمد مستقل نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس نام ور شخصیت نے گودھرا (بھارت) میں 20 دسمبر 1915ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ڈبلیو زیڈ احمد کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں وسطی اور جنوبی ہند کے مختلف اضلاع میں قیام پذیر رہے۔ وحید الدّین ضیا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ 1936ء میں نوجوان ڈبلیو زیڈ احمد نے فلم نگری میں قدم رکھنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ انھوں نے فلم کے شعبے میں کام کی ابتدا 1939 میں کی تھی اور پہلی مرتبہ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کام کیا، تاہم انھیں محسوس ہوا کہ وہ اچھے منظر نویس نہیں‌ ہیں، اور یہ ایک مشکل کام ہے، سو، انھوں نے ایک مختلف قدم اٹھایا اور اگلے تین سال کے اندر پونا اور مدراس میں اپنے اسٹوڈیو تعمیر کرکے فلم سازی کا آغاز کردیا تھا۔

    ڈبلیو زیڈ احمد نے شالیمار اسٹوڈیوز کے نام سے فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے تحت پہلی فلم ‘ایک رات’ بنائی جو کام یاب رہی۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ وہ اس فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔ اس فلم میں مرکزی کردار موجودہ ہندی سنیما کی مشہور فلم ایکٹریس کرشمہ کپور اور کرینا کپور کے پَر دادا، رشی کپور کے دادا اور راج کپور کے والد پرتھوی راج نے ادا کیا تھا۔ اگلے ہی برس اُن کی فلم پریم سنگیت منظرِ عام پر آئی جس کے ہیرو جے۔ راج تھے۔ اس کے بعد انھوں نے فلم من کی جیت، غلامی نامی فلمیں بنائیں۔ من کی جیت وہ فلم تھی جس کے لیے برصغیر کے نام ور شاعر جوش ملیح آبادی نے پہلی مرتبہ نغمات تحریر کیے تھے اور یہ تمام فلمی نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ ناقدین کے مطابق ڈبلیو زیڈ احمد کو پہلی بڑی کام یابی 1944ء میں اُن کی فلم ’من کی جیت‘ پر ہی نصیب ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی ٹامس ہارڈی کے معروف ناول ’TESS‘ پر مبنی تھی۔ اس میں ہیرو شیام کے مقابل راج کماری اور نِینا نے کام کیا تھا۔ بعد میں ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے نینا سے دوسری شادی بھی کی تھی۔ اُن کی پہلی شادی سر ہدایت اللہ کی صاحبزادی صفیہ سے ہوئی تھی۔

    فلم من کی جیت کا ایک گانا بہت مقبول ہوا تھا اور ہندوستان بھر میں کئی برس بعد بھی لوگ اسے گنگناتے تھے جس کے بول تھے: اک دِل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گِرا کوئی وہاں گِرا…

    قیامِ پاکستان کے بعد ڈبلیو زیڈ احمد ہجرت کرکے لاہور آگئے تھے اور یہاں اپنے نام سے اسٹوڈیو قائم کرلیا، بعد ازاں فلم کوآپریٹو لمیٹڈ کے نام سے انھوں نے ایک فلم ساز ادارہ بھی بنایا۔ پاکستان میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کی پہلی فلم روحی تھی جو سنسر بورڈ کے اعتراضات کی نذر ہوگئی تھی۔ وعدہ، وہ فلم تھی جس نے زبردست کام یابیاں سمیٹیں اور اسے فلم انڈسٹری کی بہترین اور یادگار فلموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل ان کی آخری فلم ’میرا بائی‘ تھی جو 1947 میں ریلیز ہوئی۔ پاکستان آنے کے بعد وہ صرف دو ہی فلمیں بناسکے تھے، لیکن یہ دونوں پاکستان کی فلمی تاریخ میں یادگار اور نمایاں ہیں۔ ایک فلم وعدہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے جب کہ دوسری فلم ’روحی‘ تھی۔ یہ 1954 میں ریلیز ہوئی جس کے لیے ہدایات بھی ڈبلیو زیڈ احمد نے دی تھیں اور وہی کہانی کار اور منظر نویس بھی تھے۔

    روحی کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں تاریخی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ سینسر بورڈ کے ہاتھوں بین ہونے والی پہلی پاکستانی فلم تھی۔ قارئین کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ اس پر سنسر بورڈ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ فلم میں امیر اور غریب کا ایسا تصادم دکھایا گیا ہے جس سے طبقاتی تضاد کو ہوا دی گئی ہے اور فلم بینوں میں اس کو دیکھنے کے بعد طبقاتی نفرت پیدا ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے میں بے چینی اور شدید اضطراب جنم لے سکتا ہے۔

    فلم ساز اور ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کی اس فلم کو معمولی کاٹ چھانٹ کے بعد سینسر بورڈ سے ریلیز کرنے کی اجازت تو مل گئی اور یہ عام نمائش کے لیے پیش بھی کی گئی، لیکن یہ ایک کوآپریٹیو سوسائٹی کے تحت پروڈیوس کردہ فلم تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے چند دنوں بعد کوآپریٹیو بینک نے اپنا قرضہ وصول کرنے کے لیے چھاپا مارا اور فلم کا پرنٹ اٹھا کر لے گئے۔ یوں فلم روحی کے پرنٹ کو کہیں‌ ڈبّوں میں ڈال دیا گیا اور اس کا نیگٹو بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس فلم میں اداکار شمّی، سنتوش، ساحرہ، غلام محمد نے کام کیا تھا۔

    نام وَر فلم ساز ڈبلیو زیڈ احمد لاہور میں بیدیاں روڈ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستان کا پہلا نگار خانہ "پنچولی آرٹ اسٹوڈیو”

    پاکستان کا پہلا نگار خانہ "پنچولی آرٹ اسٹوڈیو”

    قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی یہاں فلمی صنعت کی داغ بیل ڈالی گئی اور فلم اسٹوڈیوز نے فلمیں بنانے کا آغاز کیا جنھیں پسِ پردہ اور اسکرین پر نظر آنے والے آرٹسٹوں اور فن کاروں کی محنت اور لگن نے کام یاب بنایا۔ 16 فروری 1948ء کو پاکستان کے پہلے پنچولی آرٹ اسٹوڈیو کا افتتاح کیا گیا تھا اور اس لحاظ سے یہ ایک یادگار دن ہے۔

    سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط فلمی تاریخ کے ابتدائی اور عروج کے دور میں ڈیڑھ درجن کے قریب فلمی اسٹوڈیوز میں سے پانچ کراچی میں اور بارہ لاہور میں کام کررہے تھے۔ ان میں سے پانچ اسٹوڈیوز وہ تھے جو تقسیمِ ہند سے پہلے ہی فلم سازی کے لیے مشہور تھے۔

    متحدہ ہندوستان کی بات کریں‌ تو کلکتہ اور ممبئی کے بعد لاہور تیسرا اہم فلمی مرکز تھا۔ یہاں بننے والی فلموں نے پورے ہندوستان میں کامیابیاں حاصل کیں۔ لاہور کا پنچولی آرٹ اسٹوڈیو فسادات کے دوران جلا دیا گیا تھا جسے مرمت کے بعد دوبارہ فعال کردیا گیا۔

    اس اسٹوڈیو کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی تھے، جو تقسیم کے بعد فسادات کے باعث وطن چھوڑ گئے تھے، لاہور میں ان کے اسٹوڈیو میں‌ توڑ پھوڑ کے بعد اسے نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ ان کے بھارت چلے جانے کے بعد لاہور میں اس اسٹوڈیو کا انتظام ان کے منیجر دیوان سرداری لال نے سنبھال لیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اسی منیجر کے نام سے پہلی پاکستانی فلم کے لیے سرمایہ کاری ظاہر کرکے اس پروجیکٹ پر کام شروع کیا گیا۔ پاکستان کے اس پہلے فلم اسٹوڈیو کا افتتاح وزیر راجہ غضنفر علی خان نے کیا تھا۔

    اس فلم اسٹوڈیو میں اس زمانے کے فلمی تکنیک کے چند ماہروں اور آرٹسٹوں کو اکٹھا کرکے فلم بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور 1948ء ہی میں فلم’تیری یاد‘ ریلیز کی گئی جسے پاکستان کی پہلی فلم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اس سال کی واحد فلم تھی جسے نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

  • اَن پڑھ نوجوان جو ’سلمٰی‘ کی کام یابی کی وجہ بنا!

    اَن پڑھ نوجوان جو ’سلمٰی‘ کی کام یابی کی وجہ بنا!

    پاکستان کی فلمی دنیا میں سن ساٹھ کے عشرے کا آغاز ایک دل چسپ فلم سے ہوا۔ مصنّف تھے نذیر اجمیری، فلم ساز اور ہدایت کار تھے اشفاق ملک اور فلم کا نام تھا ’سلمٰی۔‘

    اس میں اگرچہ بہار، اعجاز، یاسمین، اے شاہ شکار پوری اور طالش جیسے ہِٹ اداکار موجود تھے لیکن بنیادی طور پر یہ علاؤالدّین کی فلم تھی جنھوں نے ایک بدھو اور اَن پڑھ نوجوان کا کردار ادا کیا تھا، لیکن ایسا بدھو جو کبھی کبھی بڑے پتے کی بات کہہ جاتا ہے۔

    علاؤ الدّین کی تعلیم کے لیے منشی شکار پوری کو ملازم رکھا جاتا ہے، لیکن جب وہ الف۔ بے کی پٹی شروع کرتا ہے تو علاؤالدّین اُس سے کہتے ہیں ’ ماسٹر جی ’الف‘ سے لے کر ’ی‘ تک تو مجھے معلوم ہے، ذرا یہ بتائیے کہ الف سے پہلے کیا ہوتا ہے اور ’ی‘ کے بعد کیا آتا ہے۔‘

    منشی یہ سُن کر چکرا جاتا ہے اور علاؤالدّین کی ذہانت کا ایسا قائل ہوتا ہے کہ ساری فلم میں اس کی عقل مندی کے گُن گاتا رہتا ہے۔ اس کے منہ سے تعریفیں سن کر ایک پڑھی لکھی معزّز خاتون کا رشتہ علاؤالدّین کے گھر پہنچ جاتا ہے۔

    ظاہر ہے یہ ایک اَن مِل بے جوڑ رشتہ ہے، لیکن سلمٰی (بہار) فیضو (علاؤالدین) کی سادگی اور بھولپن سے بہت متاثر ہوتی ہے۔ شادی کے بعد پہلا منظر یہ دکھایا جاتا ہے کہ علاؤ الدّین تختی لکھ رہے ہیں اور بہار ان کی ٹیچر بنی ہوئی ہیں۔

    مرکزی کردار کی سادگی اور بھولپن اس فلم کی اصل جاذبیت تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ فلم سلمٰی اس سے پہلے ’شاردا‘ (1942ء) کے نام سے بھی بن چکی تھی اور ہٹ ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں علاؤالدین والا کردار واسطی نے ادا کیا تھا۔

    لیکن اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ 1942ء اور 1960ء کی کام یابیوں کے بعد یہی کہانی 1974ء اور 1980ء میں بھی آزمائی گئی اور اسے دونوں مرتبہ زبردست کام یابی حاصل ہوئی۔

    1974ء میں تو اشفاق ملک ہی نے اسے پنجابی کے روپ میں ڈھالا اور’بھولا سجن‘ کا نام دیا۔ اس میں بھولے سجن کا کردار اعجاز نے ادا کیا۔ 1980ء میں یہ کہانی ہدایت کار جاوید فاضل کے مشّاق ہاتھوں میں پہنچی۔ انہوں نے اسے’صائمہ ‘ کے نام سے فلمایا اور بھولے بھالے ہیرو کے لیے ندیم کا انتخاب کیا۔

    اس کہانی کی متواتر کام یابیوں کا راز اس کے ہیرو کی شخصیت میں مضمر ہے۔ ایک ان پڑھ شخص، پڑھے لکھے لوگوں کے دُنیا میں اکیلا، بے سہارا اور بے یارو مددگار ہے اور اسی لیے ناظرین کی ہم دردی کا مستحق ہے۔ ساٹھ پیسنٹھ برس پہلے فلم بینوں نے ہم دردی کے جو پھول واسطی پہ نچھاور کیے تھے وہی بعد میں علاؤالدین، اعجاز اور ندیم پہ لٹائے گئے۔

    (عارف وقار کے مضمون سے انتخاب)

  • ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والوں کی تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والے موسیقی کے پروگرام سامعین میں‌ مقبول تھے۔ ان پروگراموں نے کئی سریلے گلوکاروں کو متعارف کرایا اور ان کی رسیلی آوازوں‌ نے سماعتوں‌ میں‌ رس گھولا۔

    ریڈیو سننا ایم کلیم کا بھی مشغلہ تھا۔ انھیں موسیقی اور گلوکاری کا شوق تھا۔ اس کی ایک وجہ ان کے چچا تھے جو موسیقی کے دلدادہ اور گلوکار بھی تھے۔

    یہ شوق ایم کلیم کو ریڈیو تک لے گیا، لیکن وہاں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو پر بطور ٹیکنیشن ملازمت اختیار کی تھی، چند دنوں بعد سب کو معلوم ہو گیا کہ وہ ایک اچّھے گلوکار بھی ہیں۔ تاہم ایم کلیم خود اسے شوق سے بڑھ کر اہمیت نہیں‌ دیتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ریڈیو پاکستان سے اسی حیثیت میں وابستگی اختیار کی اور یہاں‌ بھی ان کے احباب کو موسیقی اور گلوکاری کے ان کے شوق کا علم ہو گیا۔

    آج ایم کلیم کی برسی ہے۔ وہ کینیڈا میں مقیم تھے جہاں 1994ء میں زندگی کی بازی ہار گئے اور وہیں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کا اصل نام حفیظ اللہ تھا۔ وہ 1924ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں ریڈیو پر ملازمت کے دوران اکثر احباب ان سے کوئی غزل یا گیت سننے کی فرمائش کرتے تو ایم کلیم کچھ نہ کچھ سنا دیتے، لیکن انھیں‌ یہ خیال نہیں آیا تھا کہ کبھی وہ ریڈیو کے لیے ایسے گیت ریکارڈ کروائیں گے جن کا چرچا سرحد پار بھی ہو گا۔

    ان کی آواز مشہور گلوکار کے ایل سہگل سے مشابہ تھی۔ ریڈیو پر ان کے رفقائے کار اور وہاں‌ آنے والے فن کار انھیں‌ سنتے تو سنجیدگی سے گائیکی پر توجہ دینے کو کہتے۔ نام وَر موسیقاروں اور گائیکوں نے جب ان کی تعریف کی اور اس میدان میں‌ انھیں اپنی قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تو ایم کلیم بھی کچھ سنجیدہ ہوگئے۔

    اس ہمّت افزائی اور احباب کے مسلسل اصرار پر انھوں نے 1957ء میں اپنا پہلا نغمہ “ناکام رہے میرے گیت” ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تو ان کی شہرت بھی ہر طرف پھیل گئی۔

    ایم کلیم کی آواز میں سُروں کا رچاؤ بھی تھا اور گلے میں سوز و گداز بھی۔ وہ ایک اچھے موسیقار بھی ثابت ہوئے اور اس فن میں بھی اپنی صلاحیتوں‌ کا مظاہرہ کیا۔ ایم کلیم کی آواز میں‌ ایک اور گیت سامعین میں‌ مقبول ہوا جس کے بول تھے: “گوری گھونگھٹ میں شرمائے۔”

    اسی زمانے میں ان کی آواز میں‌ ایک غزل بہت مقبول ہوئی، جس کا مطلع ہے۔

    ان کے آنسو سرِ مژگاں نہیں دیکھے جاتے
    سچ تو یہ ہے وہ پشیماں نہیں دیکھے جاتے

    ایم کلیم کی آواز میں کئی گیت ریکارڈ کیے گئے جن کی شہرت پاکستان ہی نہیں‌ سرحد پار بھی پہنچی اور شائقین نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔