Tag: پاکستانی فلم انڈسٹری

  • یومِ وفات: اداکار کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر کردار کو خوبی سے نبھایا

    یومِ وفات: اداکار کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر کردار کو خوبی سے نبھایا

    پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر اداکار سیّد کمال 2009ء میں آج ہی کے دن جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھوں نے فلم کے علاوہ ٹیلی ویژن پر بھی اداکاری کی اور اپنے اسٹیج شو کے ذریعے بھی ناظرین کو محظوظ کیا۔

    سید کمال 27 اپریل 1937 کو متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سیّد کمال شاہ تھا۔ انھوں نے قیام پاکستان سے قبل ممبئی میں بننے والی فلم ’’باغی سردار‘‘ میں مختصر کردار نبھا کر اپنے فنی سفر کا آغاز کیاا۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے جہاں ہدایت کار شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کام کرنے کا موقع دیا اور یوں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ان کے آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    وہ اداکار ہی نہیں‌ فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی کار بھی تھے۔ کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کردار نبھائے اور اپنی فنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

    اداکار کمال نے 80 سے زائد فلموں‌ میں‌ اداکاری کی۔ اردو فلموں کے علاوہ انھیں چند پنجابی اور ایک پشتو فلم میں‌ بھی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ سید کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار ان کی فلمیں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر سید کمال کا شو بھی نشر ہوا جسے ناظرین میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ کمال نے مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی کردار نبھایا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال سیاست کے میدان میں اترے، مگر کام یابی نہ ملی۔ انہی انتخابات کے واقعات کو انھوں نے اپنی فلم ’’سیاست‘‘ میں‌ پیش کیا تھا۔ اداکار نے قلم اٹھایا تو اپنی خود نوشت سوانح تحریر کی۔ تین بار فلم نگری کا سب سے بڑا نگار ایوارڈ اپنے نام کرنے والے سید کمال کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ شمیم آرا کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2016ٰء میں آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ شمیم آرا بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور 1950ء سے 1970ء کی دہائی تک صفِ اوّل کی اداکارہ رہیں۔ انھوں نے فلم نگری میں ہدایت کارہ کے طور پر بھی خود کو آزمایا اور کام یاب فلمیں بنائیں۔

    22 مارچ 1938ء کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے مشہور شہر علی گڑھ میں پیدا ہونے والی شمیم آرا کا خاندانی نام ’پتلی بائی‘ تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد جب انھوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تو شمیم آرا کے نام سے متعارف ہوئیں۔

    انھوں نے نجم نقوی کی فلم ’کنواری بیوہ‘ سے اداکاری کا سفر شروع کیا تھا جس میں انھیں خاص کام یابی تو نہیں ملی، لیکن وہ نازک اندام اور خوب صورت تھیں اور سنیما بینوں کو ان کا معصومانہ اندازِ بیان بہت پسند آیا اور اس طرح 1958ء میں انھیں فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا، لیکن اگلے دس سال تک ناکامیوں نے شمیم آرا کا راستہ روکے رکھا۔ تاہم 1960ء میں فلم’ سہیلی‘ نے ان کا نصیب کھول دیا۔ یہ فلم ہٹ ہوگئی اور اس میں شمیم آرا کی کردار نگاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    1962ء میں اُن کی فلم’ قیدی‘ آئی جس میں فیض احمد فیض کی غزل ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ شمیم آرا پر فلمائی گئی تھی۔ یہ فلم کام یاب ترین فلم قرار پائی اور اداکارہ کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی سال ان کی کئی فلمیں کام یاب رہیں جن میں آنچل، محبوب، میرا کیا قصور، قیدی اور اِنقلاب شامل ہیں۔ 1963ء میں ’دلہن، اِک تیرا سہارا، غزالہ، کالا پانی، سازش، سیما، ٹانگے والا جیسی فلموں نے دھوم مچا دی اور شمیم آرا صفِ اوّل کی اداکارہ کہلائیں۔

    شمیم آرا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے پاکستان کی پہلی رنگین فلم ’نائلہ‘ میں اداکاری کی۔

    1970ء کی دہائی میں انھوں نے ہدایت کاری کا آغاز کیا اور پلے بوائے، مس استنبول، منڈا بگڑا جائے، ہاتھی میرے ساتھی جیسی کام یاب ترین فلمیں بنائیں۔

    2011ء میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کے باعث ان کا آپریشن کیا گیا تھا جس کے بعد وہ کوما میں چلی گئی تھیں اور بعد میں انھیں علاج کے لیے لندن لے جایا گیا تھا اور وہاں تقریباً 6 سال علالت کے بعد وفات پاگئیں۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے خوش خبری، فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے خوش خبری، فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی

    اسلام آباد: پاکستان میں فلمی صنعت کی بحالی کے لیے طویل عرصے سے التوا کی شکار فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے آج اسلام آباد میں فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی جس میں چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار، اور سینیٹر فیصل جاوید شریک تھے۔

    وفد کی قیادت ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین جرجیس سیجا کر رہے تھے، شیخ امجد رشید، سنتیش آنند، چوہدری کامران، فضا علی مرزا، عرفان ملک اور بدر اقبال بھی شریک تھے۔

    اس ملاقات میں طویل عرصے سے التوا کی شکار فلم پالیسی کو حتمی شکل دے دی گئی، فلمی صنعت کی بحالی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں شعبہ فلم کی ترقی اور بحالی حکومت کی ترجیح ہے، حکومت فلموں کی ایکسپورٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے پُر عزم ہے، فواد چودھری نے برآمدات کے حوالے سے فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کو فوکل گروپ تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں سعودی عرب اور چین کے ساتھ تعاون و اشتراک سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا حکومت فلمی صنعت کے لیے ٹیکس مراعات اور دیگر مراحل کی منظوری سہل بنانے کے لیے بھی اقدام اٹھا رہی ہے۔

    وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا ہم نے فلمی صنعت کی تنزلی کو ترقی کے سفر میں بدلنا ہے، جس کے لیے بہترین تخلیق، ٹیکنالوجی کے امتزاج، اور اچھے مواد پر توجہ دینا ہوگی۔

  • پاکستانی فلم "چراغ جلتا رہا” یادگار کیوں؟

    پاکستانی فلم "چراغ جلتا رہا” یادگار کیوں؟

    ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں فلم انڈسٹری کی رونقیں عروج پر تھیں اور سنیما ایک مقبول تفریحی میڈیم تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلم سازی کا آغاز ہوا تو انڈسٹری میں آرٹسٹوں کی بڑی تعداد سامنے آئی جنھوں نے مختلف شعبہ جات میں اپنے فن اور صلاحیتوں کا اظہار کیا اور لازوال شہرت اور نام و مقام حاصل کیا۔ ان میں کئی اداکار ایسے تھے جن کی پہلی ہی فلم نے انھیں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور وہ دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر راج کرتے رہے۔

    یہاں ہم بات کررہے ہیں ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کی جو اس لحاظ سے یادگار فلم تھی کہ اس سے پاکستان کے چار باکمال اداکاروں محمد علی، زیبا، دیبا اور کمال ایرانی نے اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا۔

    یہ فلم 9 مارچ 1962ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ "چراغ جلتا رہا” کے فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نگار جناب فضل احمد کریم فضلی تھے۔ اس کی موسیقی نہال عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی تھی جب کہ میر تقی میر، مرزا غالب کے علاوہ جگر مراد آبادی، ماہر القادری جیسے شعرا کا کلام شامل تھا جب کہ فضل احمد کریم فضلی نے بھی اس فلم کے لیے گیت تحریر کیے تھے۔

    اس لحاظ سے بھی یہ فلم یادگار ہے کہ اس کی اوّلین نمائش کراچی کے نشاط سنیما میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کی تھی۔ فلم کے دو نغمات مشہور بھارتی گلوکار طلعت محمود کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے تھے۔

    فضل احمد کریم فضلی کی اس فلم محمد علی کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا اور ان کے ساتھ زیبا بھی پہلی بار بڑے پردے پر نمودار ہوئیں جو بعد میں لیجنڈ اداکار محمد علی کی جیون ساتھی بنیں۔ یہی نہیں‌ بلکہ ریڈیو پاکستان کے نوجوان صدا کار طلعت حسین بھی اسی فلم میں پہلی بار بطور اداکار شائقین کے سامنے آئے۔ اسی طرح دیگر فن کار بھی جو پہلی بار اس فلم کے ذریعے بڑے پردے پر متعارف ہوئے، نام و مقام بنانے میں‌ کام یاب رہے اور محمد علی، زیبا دہائیوں تک پاکستانی سنیما پر چھائے رہے اور شائقین کے دلوں پر راج کیا۔

    یہ بھی بتاتے چلیں کہ انڈسٹری کو‌ چار فلمی ستارے اور باکمال اداکار دینے والی ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کے ہیرو عارف اس فلم کے بعد کبھی بڑے پردے پر نظر نہیں‌ آئے۔

  • لیجنڈ اداکار آغا طالش کی برسی

    لیجنڈ اداکار آغا طالش کی برسی

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے نام ور اداکار آغا طالش کی برسی ہے۔ وہ 19 فروری 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انھوں نے اپنی شان دار اداکاری کی بدولت پاکستان فلم نگری کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ 7 مرتبہ اپنے نام کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعدد طالش نے ریڈیو پشاور سینٹر سے عملی زندگی میں‌ قدم رکھا اور پھر فلم کی طرف آگئے تھے۔

    ان کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا۔ وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم سے قبل انھوں نے بمبئی میں بننے والی ایک فلم میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان میں آغا طالش نے بڑے پردے پر مختلف کردار نبھائے اور شائقین کی توجہ حاصل کی۔ ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی، فرنگی، زرقا، وطن، نیند، زینت، امرائو جانِ ادا سرفہرست ہیں جو اپنے وقت کی کام یاب فلمیں تھیں۔ انھوں نے اردو زبان میں بننے والی فلموں کے علاوہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔

    وہ کبھی نواب کے بہروپ میں اسکرین پر نظر آئے تو کہیں‌ ایمان دار اور فرض شناس پولیس افسر، کسی فلم میں‌ انھوں نے ڈاکو کا روپ دھارا تو کہیں‌ ایک مجبور باپ کے رول میں شائقین کے دل جیتے۔ آغا طالش ان فن کاروں‌ میں شامل ہیں جنھیں‌ اداکاری کا جنون تھا اور انھیں‌ جب موقع ملا تو ہر کردار اس خوبی سے نبھایا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ انھوں‌ نے کئی فلموں‌ میں‌ منفی کردار بھی ادا کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ باکمال اداکار لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • خود کُشی کی ناکام کوشش کرنے والی اداکارہ سلونی کی برسی

    خود کُشی کی ناکام کوشش کرنے والی اداکارہ سلونی کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کی معروف اداکارہ سلونی 15 اکتوبر 2010ء کو یہ دنیا چھوڑ گئی تھیں۔ آج ماضی کی اس اداکارہ کی برسی ہے۔

    1943ء میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والی اداکارہ نے فلم نگری میں‌ خود کو سلونی کے نام سے متعارف کروایا۔ انھیں مشہور فلم ساز فضل احمد کریم فضلی نے اپنی فلم میں سائڈ رول کے لیے منتخب کیا تھا، لیکن اس فلم کی ریلیز سے قبل 1964ء میں اداکارہ سلونی کی ایک اور فلم ’’غدار‘‘ سنیما کے پردے پر سج گئی اور یوں یہی فلم اس اداکارہ کا شائقین سے پہلا تعارف ثابت ہوئی۔

    سلونی نے اپنے فلمی کیریئر میں 67 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں 36 اردو اور 31 فلمیں تھیں۔ اداکارہ کی مقبول فلموں میں کھوٹا پیسا، عادل، باغی سردار، حاتم طائی، درندہ، چن مکھناں، دل دا جانی، لٹ دا مال، بالم، چھین لے آزادی سرفہرست ہیں۔

    جون 1970ء میں اداکارہ سلونی نے فلم ساز اور ہدایت کار باری ملک کے عشق میں ناکام ہونے پر دل برداشتہ ہوکر خودکشی کی کوشش کی تھی لیکن ڈاکٹروں نے انھیں موت کے منہ میں جانے سے بچالیا تھا۔ اس واقعے کے بعد باری ملک نے سلونی سے شادی کرلی اور اس جوڑی نے تقریباً 25 برس متحدہ عرب امارات میں گزارے جہاں باری ملک کاروبار کررہے تھے۔

    فلم انڈسٹری کی سلونی نے کراچی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • آغا جی اے گل کی برسی اور ایورنیو اسٹوڈیو

    آغا جی اے گل کی برسی اور ایورنیو اسٹوڈیو

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں فلمی صنعت کے قیام، فلم سازی کا آغاز، اس کی ترقی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں ایک نام آغا جی اے گل کا بھی ہے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    آغا جی اے گل نے لاہور میں ایورنیو اسٹوڈیو قائم کر کے فلم سازی کے شعبے کی ترقی اور سنیما کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دور تھا جب ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی اور اس بینر تلے سنیما کے لیے شان دار اور قابلِ ذکر کام کیا گیا۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معماروں اور سرپرستوں میں سے ایک آغا جی اے گل 6 ستمبر 1983 کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔

    آغا جی اے گل کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 19 فروری 1913 کو پیدا ہوئے تھے۔ بحیثیت فلم ساز انھوں نے فلم مندری سے خود کو متعارف کروایا اور اس کے بعد سنیما کو ایورنیو پروڈکشنز کے تحت یادگار فلمیں‌ دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔

    ایورنیو اسٹوڈیو کو اس زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ کرنے والے آغا جی اے گل لاہور کے ایک قبرستان میں محوِ خوابِ ابد ہیں۔

  • کینسر کے سبب زندگی ہار جانے والی لارا لپّا گرل

    کینسر کے سبب زندگی ہار جانے والی لارا لپّا گرل

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ مینا شوری کی برسی ہے۔ 2 ستمبر 1989 کو سرطان جیسے مہلک مرض کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ جانے والی مینا شوری کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔

    خورشید جہاں نے 1921 میں رائے ونڈ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنا فلمی کیریئر بمبئی سے شروع کیا اور سہراب مودی کی فلم سکندر میں مینا شوری کی شان دار پرفارمنس نے ان پر فلمی صنعت کے دروازے کھول دیے۔ فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی نے انھیں مزید کام یابیاں‌ دیں۔

    فلم ایک تھی لڑکی کا وہ گیت جس کے بول ’لارا لپا، لارا لپا، لائی رکھدا‘ تھے، بہت مشہور ہوا۔ یہ مینا شوری پر فلمایا گیا گیت تھا جس کے بعد ہندوستان بھر میں ہر جگہ انھیں لارا لپا گرل کے نام سے پکارا جانے لگا۔

    تقسیم کے بعد مینا شوری نے ہجرت کی اور کراچی میں‌ قیام کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔ مینا شوری نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور اور کام یاب فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار،خاموش رہو، مہمان شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 83 فلموں میں کام کیا۔

    مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • سریلی اور لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی

    سریلی اور لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی

    فلمی موسیقاروں میں امجد بوبی کو جہاں سریلی، مدھر اور پُراثر دھنوں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے، وہیں ان کی شہرت نئے تجربات اور موسیقی میں جدت اپنانے والے تخلیق کار کی بھی ہے۔

    آج کئی لازوال دھنوں کے خالق امجد بوبی کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 15 اپریل 2005 کو ہوا تھا۔

    امجد بوبی نے 1960 کی دہائی میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم راجا جانی تھی۔ تاہم اس فلم کی نمائش 1976 میں ہوئی۔

    گھونگھٹ، پرورش، کبھی الوداع نہ کہنا، نادیہ، روبی، نزدیکیاں، سنگم، چیف صاحب، گھر کب آوٴ گے، یہ دل آپ کا ہوا جیسی کام یاب فلموں نے امجد بوبی کی شہرت کا سبب بنیں۔

    نئی اور کلاسیکی دھنیں تخلیق کرنے والے امجد بوبی کا فنی سفر چالیس سال پر محیط ہے۔

    امجد بوبی ان موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ممبئی کے گلوکاروں کو متعارف کروانے کا تجربہ بھی کیا اور متعدد فلموں کے لیے ہندوستان کے گائیکوں کی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔

  • "گلنار” میں خامی کیا تھی؟

    "گلنار” میں خامی کیا تھی؟

    ہنستے کھیلتے ماحول میں بننے والی فلم ’گُلنار‘ پر سب نے بڑی جان ماری کی۔ میوزک ماسٹر غلام حیدر کا تھا جنھوں نے بڑی مدھر دُھنیں تیار کی تھیں اور موسیقی کا جادو بکھیرا تھا۔

    ’خاندان‘ اور ’شہید‘ کے بعد وہ ایک بار پھر معراج پر پہنچے تھے۔ نغمے فلم کی نمائش سے قبل ہی زبان زدِ عام ہو گئے۔

    خاص طور سے یہ نغمہ بہت پسند کیا گیا، ’چاندنی راتیں تاروں سے کریں باتیں…..‘

    باقی سبھی گانے بھی ہٹ ہوئے اور غلام حیدر کا نام ایک بار پھر انڈسٹری میں گونجنے لگا۔

    ’نور جہاں‘(ملکہ ترنم) پہلے ہی ٹاپ پر تھی، اب وہ اور اونچی اڑانیں بھرنے لگی۔ فلم سے سب کو بڑی توقعات تھیں مگر جب مارکیٹ میں اُتاری گئی تو سوائے ہٹ میوزک کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔

    کئی خوبیوں کے باوجود سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ فلم میں حقیقی ماحول اور پس منظر عنقا تھا جس نے تماش بینوں کو مایوس کیا اور تبصرہ نگاروں (ناقدین) نے بھی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔

    (البتہ) شوکت تھانوی کی ایکٹنگ سب کو اچھی لگی اور اُنھوں نے اداکاری کو اپنا مستقل پیشہ بنا لیا۔ کئی فلموں میں کام کیا۔

    (ہندوستانی فلم انڈسٹری سے متعلق ایک کتاب سے انتخاب)