Tag: پاکستانی ماہر تعلیم

  • نام وَر ادیب، شاعر اور ماہرِ تعلیم ابوالخیر کشفی کی برسی

    نام وَر ادیب، شاعر اور ماہرِ تعلیم ابوالخیر کشفی کی برسی

    نام وَر ادیب، محقّق، نقّاد، شاعر اور ماہرِ تعلیم شاعر سید ابوالخیر کشفی 15 مئی 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ابوالخیر کشفی نے ادب کی مختلف اصناف میں تخلیقی اور علمی و تحقیقی کاموں کے علاوہ ملک میں قومی زبان کے فروغ اور تعلیم و تدریس کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    سید ابوالخیر کشفی نے 12 مارچ 1932ء کو کان پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا سید شاہ محمد اکبر عربی، فارسی اور اردو زبانوں‌ پر عبور رکھتے تھے اور اس زمانے کے مشہور عالم تھے جب کہ والد سید ابو محمد ثاقب کان پوری کا شمار نام ور شعرا میں ہوتا تھا۔ اس طرح شروع ہی سے کشفی صاحب کو علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں‌ بھی لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے کراچی آنے والے ابُوالخیر کشفی نے جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی کا سفر تدریس سے شروع کیا اور ساتھ ہی ادبی مشاغل اور سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔

    اردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر، ان کے مقالے کی کتابی شکل ہے جب کہ دیگر کتب میں ہمارے عہد کا ادب اور ادیب، جدید اردو ادب کے دو تنقیدی جائزے، ہمارے ادبی اور لسانی مسائل کے بعد خاکوں کا مجموعہ یہ لوگ بھی غضب تھے سامنے آیا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں جو علم و ادب کا خزانہ ہیں، انھوں نے کئی مضامین سپردِ قلم کیے جو اردو زبان کے فروغ، تعلیمی نظام اور تدریس سے متعلق نسلِ نو اور اساتذہ کی راہ نمائی اور تربیت پر ان کے نظریات اور تجربات کا نچوڑ ہیں۔

    سید ابوالخیر کشفی کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    ماہرِ تعلیم، ادیب اور محقق پری شان خٹک کی برسی

    آج معروف ماہرِ تعلیم، ادیب اور متعدد علمی و تحقیقی اداروں‌ کے سربراہ پروفیسر پری شان خٹک کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 16 اپریل 2009ء میں‌ وفات پاگئے تھے۔ تعلیم کے شعبے میں بے مثال خدمات انجام دینے والے پری شان خٹک نے اپنے علمی و تحقیقی کام اور ادبی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ پایا۔

    پروفیسر پری شان خٹک علمی و تحقیقی سرگرمیوں‌ سے متعلق مختلف اداروں کے منتظم بھی رہے۔ ان کا اصل نام محمد غمی جان تھا۔ 10 دسمبر 1932ء کو صوبہ سرحد (کے پی کے) کے ایک گائوں غنڈی میر خان خیل میں آنکھ کھولنے والے غمی جان نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے تاریخ اور پشتو ادب میں ایم اے کیا اور پشاور یونیورسٹی ہی سے بہ طور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعدازاں پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جہاں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے خود کو منوایا اور بعد میں انھیں متعدد علمی و تعلیمی اداروں کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

    پروفیسر پری شان خٹک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین بھی رہے۔ انھوں نے کئی کتابوں کی تدوین اور تالیف کا کام بخوبی انجام دیا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔

    پری شان خٹک پشاور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • معروف شاعرہ، ادیب اور ماہرِ تعلیم شبنم شکیل کی برسی

    معروف شاعرہ، ادیب اور ماہرِ تعلیم شبنم شکیل کی برسی

    اردو زبان و ادب میں شبنم شکیل ایک شاعرہ، ادیب اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں جو 2 مارچ 2013ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج شبنم شکیل کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کے والد سید عابد علی عابد بھی شاعر، نقّاد اور ادیب کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔

    شبنم شکیل 12 مارچ 1942ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ اردو ادب میں ماسٹرز کیا اور متعدد کالجوں میں بطور لیکچرر تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ان کی تنقیدی مضامین پر مشتمل پہلی کتاب 1965ء میں شائع ہوئی۔

    شبنم شکیل کے شعری مجموعے شب زاد، اضطراب اور مسافت رائیگاں تھی کے نام سے جب کہ نثر پر مبنی کتب تقریب کچھ تو ہو، نہ قفس نہ آشیانہ، اور آواز تو دیکھو شایع ہوئیں۔ انھوں نے متعدد ادبی ایوارڈز اپنے نام کیے اور حکومتَ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    شبنم شکیل اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کے مشہور اشعار پیشِ خدمت ہیں

    چلتے رہے تو کون سا اپنا کمال تھا
    یہ وہ سفر تھا جس میں ٹھہرنا محال تھا

    اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو
    کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو