Tag: پاکستانی مصور

  • اکبرِ‌ اعظم کی آرٹ اکیڈمی

    اکبرِ‌ اعظم کی آرٹ اکیڈمی

    جلال الدّین محمد اکبر ہندوستان کے وہ مغل بادشاہ ہیں جو تاریخ میں ’اکبرِ اعظم‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ جلال الدّین اکبر کا عہد حکومت علم و فنون کی سرپرستی کے لیے بھی مشہور ہے۔ اکبر کے دربار میں کئی اہلِ‌ علم اور فن کار موجود رہے اور بادشاہ نے ان کی بڑی قدر اور عزّت افزائی کی۔

    اکبر کے عہدِ حکومت پر بہت سے کتابیں لکھی گئیں، جن میں ابوالفضل کی اکبر نامہ، محمد حسین آزاد کی دربارِ اکبری اور سرسید احمد خان کی آئینِ اکبری سرِفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ غیرملکی مؤرخین اور سیّاحوں نے بھی اکبر کی شخصیت اور اس کے دربار کا احوال رقم کیا ہے۔ عبدالمجید سالک نے سیموئل نسنسن اور ولیم اے ڈی وٹ کی کتاب کے ترجمے میں لکھا ہے کہ ’اگرچہ اکبر اَن پڑھ تھے، لیکن ان کو علوم و فنون کی امداد اور سرپرستی کا خاص شوق تھا۔ بڑے بڑے شعرا، مصور، موسیقار، معمار اور دوسرے با کمال اس کی بخشش اور قدر دانی سے مالا مال ہوتے رہتے تھے اور اس کا دربار دور و نزدیک کے ماہرین فن کا مرکز بن گیا تھا۔ یہاں‌ ہم پاکستان کے ممتاز مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی کے ایک مضمون بعنوان "مصّوری” سے یہ پارہ نقل کررہے ہیں‌ جو بادشاہ اکبر کی اس فن میں دل چسپی اور سرپرستی کا عکاس ہے۔ چغتائی صاحب لکھتے ہیں:

    "اکبر کی عمر ابھی قریب چودہ برس کی تھی کہ تیموری تاج اس کے سرپر رکھا گیا۔ اس کے اتالیق منعم خاں اور بیرم خاں تھے۔ اس کی عملداری کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ کی۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اکبر کے نازک شانے تنہا حکومت کے بارِ گراں کو نہ اٹھا سکتے۔ انہوں نے اپنے آقا کی ذمہ داریوں کو اپنے سر لے لیا۔ اکبر نے ابتدائی مہموں سے فرصت حاصل کر کے فوراً علوم و فنون کی طرف توجہ کی۔ بچپن ہی سے اسے مصوری اور قصے سننے کی طرف رغبت تھی۔ اور میر سید علی تبریزی اور خواجہ عبدالصمد شیریں قلم برابر اپنا کام کر رہے تھے۔ اگرچہ وہ ابتدا میں کچھ ملول تھے مگر نوجوان بادشاہ کو ان کے فن سے دلچسپی نے ان کی ہمتیں بڑھا دیں۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے داستانِ امیر حمزہ کو مصور کیا، جس کی پوری تفصیل اس عہد کی تاریخ میں ملتی ہے۔ بلکہ اکبر کی اکیڈمی مصوری میں ان دو ایرانی مصوروں کے علاوہ کئی ہندو مصور بھی بطور تلمیذ شریک ہوئے۔”

    "اکبر کو جمالیاتی کیفیات کا صحیح اندازہ کرنے اور ان سے حظ اٹھانے میں قدرت نے کامل طور پر ملکہ عطا کیا تھا اور دینی معاملات اور ملکی مصلحتوں کی بنا پر نہایت درجہ وسیع۔ اس نے اپنے اس رویہ سے ہر فرقہ کو اپنی کم عمری سے مسخر کر لیا تھا اور خاص کر راجپوتوں کو قرب حاصل ہوا۔ آرٹ اکیڈمی میں سب قسم کے لوگ مل کر کام کرتے تھے۔ ابوالفضل نے ایک ہندو مصور کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک کہار کا لڑکا تھا۔ اکبرؔ نے اپنی دور رس جمالیاتی نگاہ سے اس کو دیکھا، جب کہ وہ ابھی کمسن بچہ ہی تھا اور ایک دیوار نقش و نگار کر رہا تھا، جیسا عام طور پر بچے تیار کرتے ہیں لیکن اکبر کی مردم شناسی تاڑ گئی کہ اس لڑکے میں اعلیٰ مصور بننے کے جوہر موجود ہیں۔”

    "چنانچہ اس نے اسے خواجہ عبدالصمد کے سپرد کیا تو اس کی تعلیم سے وہ بے مثال مصور نکلا مگر وہ اپنے فطری جذبۂ مصوری میں اس قدر پیش پیش آیا کہ وہ نوجوانی ہی میں دماغی توازن کھو کر ختم ہوگیا۔ اس کے کارنامے بجائے خود اس کے اعلیٰ فن کار ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ اکبر کو مصوری کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے فتح پور سیکری میں دیواروں پر ان مصوروں سے تصاویر بنوائیں، جن کے نشان آج تک باقی ہیں اور اکبر، مصوّری کے جمالیاتی پہلو سے اس قدر متاثر ہوا کہ دلائل کے ذریعہ ہمیشہ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا کہ مصوری اسلام کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے بلکہ معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کے جہاں اور دوسرے طریقے ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے۔

    چنانچہ ایک مرتبہ اس نے جب کہ سعادت مند لوگ انجمن خاص میں موجود تھے، فرمایا کہ بہت سے لوگ مصوری کے پیشے کو برا بتلاتے ہیں، مجھے یہ گوارا نہیں، میرے خیال میں مصور خدا شناسی میں دوسروں سے بڑھ کر ہے۔ جب وہ کبھی جانور کی تصویر بناتا ہے اور حصّے کو الگ الگ کھینچتا ہے مگر روح اور جسم میں رابطہ پیدا کرنے سے عاجز ہے تو وہ خالقِ حقیقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے عجز سے معرفتِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ یعنی اللہ کو ہی واحد خالق سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔”

    "اکبر نے اپنی سرپرستی میں علاوہ داستانِ امیر حمزہ کے سنسکرت کتابوں کے فارسی میں ترجمے کروا کر ان کو مصوّر بھی کرایا جس کے اکثر مصوّر نسخے آج بھی ملتے ہیں۔ اور دیگر کتب بابر نامہ، انوار سہیلی وغیرہ جیسی کتابوں کو مصوّر کرایا۔ اس عہد کے امراء میں عبدالرحیم خان خاناں خاص طور پرقابلِ ذکر ہے جس نے اپنے ہاں الگ ایک شعبہ قلمی اور مصور کتابوں کے تیار کرنے کا قائم کیا ہوا تھا اور اکثر فن کار اس کے ہاں کام کرتے تھے، جن میں میاں قدیم اور عبدالرحیم عنبرین قلم قابلِ ذکر ہیں۔”

  • زبیدہ آغا:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    زبیدہ آغا:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

    قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں فائن آرٹ کی دنیا میں جو نام تجریدی مصوّری اور ماڈرن پینٹگ کے لیے مشہور ہوئے، زبیدہ آغا ان میں سے ایک تھیں۔ وہ پہلی پاکستانی مصوّر ہیں‌ جن کے فن پاروں‌ کی نمائش ہوئی تھی۔

    پاکستان نے اپنی اوّلین دہائی ہی میں فنِ مصوّری میں آرٹسٹوں کی کہکشاں دیکھی جس میں شامل نام عالمی سطح پر فنِ‌ مصوّری میں وطنِ عزیز کی پہچان بنے اور ملک کی آرٹ گیلریوں کے علاوہ بیرونِ ملک بھی ان کے فن پاروں‌ کی نمائش منعقد ہوئی۔ ان عالمی شہرت یافتہ فن کاروں میں زبیدہ آغا کے علاوہ صادقین، عبدالرحمٰن چغتائی، اسماعیل گل جی، استاد اللّٰہ بخش، اینا مولکا احمد وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں زبیدہ آغا کو تجریدی آرٹ کی بانی اور ماڈرن پینٹنگ کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ 1997ء میں زبیدہ آغا آج ہی کے دن لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

    مصوّرہ زبیدہ آغا کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔ فنِ‌ مصوّری میں‌ ان کی انفرادیت اور مہارت کلرسٹ پینٹنگ تھی۔

    زبیدہ آغا نے لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کی اور اپنے شوق سے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور صرف 1944ء سے 1946ء تک ہی انھیں اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے تھے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں زبیدہ آغا ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کرچکی تھیں۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد انھیں پاکستانی فن کار کی حیثیت سے بیرون ملک اس فن کی مزید تعلیم اور تربیت کے علاوہ اپنے فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت مہارت سے منتقل کیا۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا اور وہ ماڈرن آرٹ کی بانی خاتون فن کار کہلائیں۔ ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے ہم وطن معاصرین ہی نہیں غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو خوب سراہا۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ وہ فنِ‌ مصوّری میں گہرے رنگوں کے بامعنی اور لائقِ توجہ استعمال کے سبب کلرسٹ پینٹر مشہور ہوئیں۔ یہ فن پارے دیکھنے والوں پر گہرا اثر قائم کرتے ہیں۔ 2006ء میں زبیدہ آغا کے فن کے اعتراف میں اور ان کی یاد میں ڈاک ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    جمیل نقش: ‘وہ آرٹ کے لیے جیے!’

    آرٹ کے ناقد قدوس مرزا کہتے ہیں کہ ‘اگر ہم جمیل نقش کی زندگی اور آرٹ کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے زندگی اور آرٹ میں کوئی فرق نہیں تھا، وہ آرٹ کے لیے جیے۔’ آج جمیل نقش کی برسی ہے۔

    جمیل نقش کو فنِ مصوّری کے ایک لیجنڈ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جن کے فن پاروں سے آرٹ میں مصوّر کی مقصدیت، نئی فکر اور اس کے سیاسی اور سماجی شعور کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

    پاکستان کے اس نام ور آرٹسٹ کے نزدیک فنِ مصوّری ایک بامقصد اور نہایت سنجیدہ کام رہا جس کے ذریعے وہ اپنی فکر کا اظہار اور سوچ کے مختلف زاویوں کو ہر خاص و عام تک پہنچا سکتے تھے۔ جمیل نقش نے پینٹنگز کے ساتھ خطّاطی کے شاہکار بھی تخلیق کیے اور متعدد کتابوں کے سرورق بنائے۔ ان کی مصوّری میں استعاروں کی خاص بات بامعنیٰ اور نہایت پُراثر ہونا ہے۔ فن پاروں کے منفرد انداز کے علاوہ جمیل نقش نے اسلامی خطاطی میں بھی جداگانہ اسلوب وضع کیا۔ ان کے شان دار کام کی نمائش پاکستان اور بھارت کے علاوہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی۔ جمیل نقش ایک مصوّر ہی نہیں شعر و ادب کا ذوق بھی رکھتے تھے اور وسیع مطالعہ کے ساتھ بلند فکر انسان تھے۔ وہ مشہور ادبی جریدے سیپ کے لیے بھی پینٹنگز بناتے رہے۔ جمیل نقش نے 1970ء سے 1973ء تک پاکستان پینٹرز گلڈ کی صدارت کا منصب بھی سنبھالا تھا۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک جمیل نقش 1939 میں کیرانہ انڈیا میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ جمیل نقش نے میو اسکول آف آرٹ لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں وہ اپنی طرز کے منفرد مصوّر کہلائے اور اپنے تخلیقی ذہن سے اس فن میں بڑا کمال حاصل کیا۔ ان کے موضوعات ناقدین کی نظر میں اہمیت رکھتے ہیں اور قابلِ‌ ذکر ہیں۔

    جمیل نقش 2019ء میں آج ہی کے دن لندن میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر 80 سال تھی۔ حکومت پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا اور جمیل نقش کے نام پر میوزیم لاہور میں ان کے فن پارے محفوظ ہیں۔ جمیل نقش نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور فنِ مصوری کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    جمیل نے جن موضوعات کا چناؤ کیا ان کی اہمیت کئی لحاظ سے ہے۔ ان کے فن پاروں میں‌ گھوڑے، عورت اور کبوتر کو نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔ برہنہ عورت اور محوِ پرواز پرندے ان کا خاص موضوع رہے۔ ان اجسام کو انھوں نے بار بار پینٹ کیا اور انھیں‌ زندگی بخشی۔

  • مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری میں مہارتِ تامّہ اور اسلامی خطّاطی میں مجتہدانہ اسلوب کے ساتھ صادقین شہرۂ آفاق فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ ایسے فن کار تھے جن کی تخلیقات اور فن پاروں کو پرت در پرت سمجھنے کی کوشش میں معنی و مفاہیم کی ایک نئی دنیا دریافت ہوتی ہے۔

    آج اس عالمی شہرت یافتہ مصوّر، خطّاط اور نقّاش کا یومِ وفات ہے۔ 10 فروری 1987ء کو صادقین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔ امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال مصوّر کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ وہ 20 جون 1930ء کو پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میٹرک اور بعد میں‌ انٹر کا امتحان بھی امروہہ سے پاس کیا۔ 1948ء میں‌ آگرہ یونی ورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ اور اس کے ساتھ ہی ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔

    انھوں نے 1944 سے 46ء تک آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں امام المدارس انٹر کالج میں آرٹ ٹیچر کے طور پر تدریس کا فریضہ بھی انجام دینے لگے۔ اس وقت تک صادقین اپنے اساتذہ اور طالبِ علم ساتھیوں میں ایک مصوّر اور شاعر کے طور پر متعارف ہوچکے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں‌ قیام کے بعد انھیں‌ نئے سرے سے زندگی کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ یہاں بھی جلد ہی وہ اپنی مصوّری اور خطّاطی کے حوالے سے پہچان بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں پر نقش و نگار بناتے اور اس پر ڈانٹ اور مار بھی کھائی، لیکن اپنے شوق کی دیواروں پر مشق کا یہ سلسلہ رائیگاں نہ گیا اور بعد کے برسوں میں‌ یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    پاکستان آنے کے بعد ان کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انھوں نے کراچی ایئر پورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

    صادقین نے مصوّری اور خطاّطی دونوں‌ اصناف میں اپنے فن و کمال کے اظہار کی بالکل نئی راہ نکالی کی۔ رفتہ رفتہ لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہوتے چلے گئے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط سے انفرادی نمائشوں کا سلسلہ شروع کیا اور ساٹھ کے عشرے میں صادقین کی شہرت مغرب تک پہنچ گئی۔ ان کا کام دنیا بھر میں فائن آرٹس کے ناقدین کی نظر میں‌ آیا اور انھیں خوب سراہا گیا۔ وہ پیرس بھی گئے جہاں اپنے فن پارے نمائش کے لیے پیش کیے اور ناقدین و شائقین سے داد وصول کی۔

    1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ یہ کسی مصّور کی پہلی اور نہایت خوب صورت کاوش تھی جس نے سبھی کی توجہ حاصل کی۔ 1970ء میں صادقین نے سورۂ رحمٰن کی آیات کو مصوّرانہ خطّاطی میں یوں نمایاں‌ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    صادقین کے فن پاروں کی دنیا بھر میں‌ نمائش ہوئی۔ ان کی مصوّری اور خطّاطی کے نمونے آج بھی بڑی گیلریوں کا حصّہ ہیں۔ 1986ء میں انھوں نے کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کیا تھا، لیکن اجل نے اسے پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی مہلت نہ دی۔

    وہ ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن تھی۔ ان کی کئی رباعیاں مشہور ہوئیں اور صادقین نے اپنا کلام بھی مصوّرانہ انداز میں‌ کینوس پر اتارا۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے صادقین کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ یہ نابغۂ روزگار مصوّر کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    پاکستان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصوّر احمد پرویز 1979ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں تجریدی مصوّر کے طور پر شہرت ملی۔

    احمد پرویز 7 جولائی 1926ء کو راولپنڈی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا سلسلہ سینٹ جوزف کالج اور گورڈن کالج راولپنڈی میں مکمل کیا۔ وہ ایک سیماب صفت انسان تھے جن کی زندگی والدین کی علیحدگی اور دوسرے عوامل کے سبب متاثر ہوئی تھی اور خود انھوں نے بھی تین شادیاں کیں جو ناکام رہیں۔ یوں احمد پرویز کی ذاتی زندگی بھی ذہنی دباؤ اور کرب میں گزری۔

    شراب نوشی نے انھیں اور ان کے اہلِ‌ خانہ کو مشکل سے دوچار کردیا تھا، وہ گھر اور آسائشوں سے دور ہوتے چلے گئے اور زندگی میں تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ بعد میں بھی دوسری شادیاں ایسے ہی حالات کی وجہ سے ناکام ہوگئیں۔ تاہم انھوں نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا اور دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔

    1952ء میں احمد پرویز کے فن پاروں کی پہلی نمائش جامعہ پنجاب لاہور کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں منعقد ہوئی جسے اہلِ فن نے بے حد سراہا۔ 1955ء سے 1964ء تک وہ لندن میں قیام پذیر رہے اور 1966ء سے 1969ء تک امریکا کے شہر نیویارک میں وقت گزارا۔ اس دوران ان کا بڑے بڑے آرٹسٹوں اور آرٹ سے تعلق برقرار رہا۔ اس سے قبل بھی بیرونِ ملک رہتے ہوئے انھوں نے غیرملکی فن کاروں سے بہت کچھ سیکھا تھا اور تجریدی مصوّری میں ایک علٰیحدہ اور منفرد اسلوب کے مالک کہلائے۔

    زندگی کے آخری دورمیں انھوں نے اپنے لیے گلدان اور پھول کے موضوع کا انتخاب کیا تھا۔ اس پر انھوں نے لاتعداد تصویریں بنائی تھیں۔ احمد پرویز کی مصوّری کی پہچان تیز اور شوخ رنگ تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اس باکمال مصوّر کو 1978ء میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز آذر زوبی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز آذر زوبی کی برسی

    آذر زوبی پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔وہ یکم ستمبر 2001ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام عنایت اللہ تھا۔ وہ 28 اگست 1922ء کو قصور میں پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میو اسکول آف آرٹ لاہور سے مصوّری کی تعلیم مکمل کی اور اسکالر شپ پر اٹلی سے فنِ مصوّری کی مزید تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔ 1950ء سے 1953ء تک اٹلی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1954ء میں وطن لوٹے اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں اپنے فن پاروں کی پہلی سولو نمائش کی۔ بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے۔

    آذر زوبی نے کراچی میں‌ 1956ء میں شعور کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا۔ انھوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اسکول آف آرٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیے اور اس اسکول کے پرنسپل رہے۔ 1968ء میں آذر زوبی نے اسکول آف ڈیکور کے نام سے مصوری، مجسمہ سازی اور درون خانہ آرائش کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا۔

    انھیں 1980ء میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ آذر زوبی کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یکم ستمبر 2006ء کو پاکستان کے نام و‌َر مصوّر احمد سعید ناگی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں قائدِ اعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل تھا۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر، ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبّت کرنے والے فن کار مشہورتھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    احمد سعید ناگی لاہور سے معاش کی تلاش میں‌ کراچی آئے تھے اور زندگی کا سفر اسی شہر میں تمام کیا۔ وہ 2 فروری 1916ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے امرتسر، لاہور، دہلی کی درس گاہوں سے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے وطن لوٹے۔

    احمد سعید ناگی نے 1944 میں قائدِاعظم کا پورٹریٹ بنایا تھا۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کو ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ نمائش کے لیے سجایا گیا جہاں شائقین اور ناقدین نے ان کے کام کو دیکھا اور سراہا۔

    احمد سعید ناگی کے مختلف فن پارے زیارت ریذیڈنسی، گورنر ہائوس کوئٹہ، گورنر ہائوس کراچی، موہٹہ پیلس، قصر ناز، گورنر ہائوس پشاور اور پنجاب اسمبلی بلڈنگ لاہور میں آویزاں ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    ناصر کاظمی کی ”برگِ نے“ شائع ہونے لگی تو ناصر نے شاکر صاحب سے گزارش کی کہ آپ میری کتاب کا سرورق بنائیے۔

    شاکر صاحب نے سرورق بنایا۔ ناصر نے بہت پسند کیا۔ ہم سب نے پسند کیا مگر جب حنیف رامے تک یہ خبر پہنچی تو وہ مچل گیا کہ ناصر کی کتاب کا سرورق بنانے کا حق اگر کسی کو ہے تو مجھے ہے۔

    اسے سمجھایا گیا، ناصر نے بھی بہت سمجھایا کہ وہ تو میرے کہنے پر شاکر صاحب نے بنایا تھا اور میں تو ناشر کو (کارواں پبلشرز) یہ سرورق حوالے کر چکا ہوں، مگر حنیف اپنی ہٹ پر قائم رہا۔ اس نے کارواں کے حمید صاحب کے پاس جا کر ناصر کے ساتھ اپنے حقِ رفاقت کو جتایا اور انہیں قائل کرنے میں کام یاب رہا۔ سو ”برگِ نے“ حنیف رامے کے سر ورق کے ساتھ شائع ہوئی۔

    لیجیے یہ ایک اور پیچ پڑ گیا۔ شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے۔ میں نے ناصر کی طرف سے بہت صفائیاں پیش کیں، مگر شاکر صاحب کے دل میں جو ایک گرہ پڑ گئی تھی وہ نہیں گئی، بس دب گئی۔

    اصل میں یہ جو حنیف رامے کا بات بات میں مچل جانا تھا اس نے میرے اور ناصر کے لیے بہت الجھنیں پیدا کیں۔ شیخ صاحب کے وہ مسائل نہیں تھے جو ہمارے تھے۔ انہیں تو اس حلقۂ دوستاں سے غرض ہی نہیں تھی جس میں ہم اٹھتے بیٹھتے چلے آئے تھے اور اس اٹھنے بیٹھنے میں ہم نے محبت کے رشتے قائم کیے تھے مگر شیخ صاحب اپنے ملنے والے سے پوری وفا مانگتے تھے اور پوری وفا سے نوازتے تھے۔ وفا بلا شرکت غیرے۔ بس اس ایک وجہ سے ان کا حلقۂ ارادت پھیلنے سے پہلے ہی سکڑ گیا۔

    ہمارے دوستوں میں سب سے سرکش مخلوق احمد مشتاق کو جانیے۔ اس نے تو پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں رکھنے دیا۔ پہلے ہی مرحلہ میں شیخ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مظفر کو اس انکارِ اطاعت سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شیخ صاحب کی خطائیں شیخ صاحب کے ساتھ، مظفر کی خطائیں مظفر کے ساتھ۔ احمد مشتاق کے یہاں یاروں کی کسی خطا کے لیے معافی کا خانہ نہیں تھا۔ مگر صحیح تولتا تھا۔ ترازو اس کے ہاتھ میں تھی۔ سو ہر یار کی خطاؤں کا پلہ ہمیشہ بھاری ہی دیکھا گیا۔ ادھر شیخ صاحب کی ترازو میں یاروں کی خوبیوں کا پلّہ ہمیشہ بھاری رہا۔ اور حنیف کی مصوّری کو انہوں نے کیا خوب تولا کہ پلّہ اس کا گراں ہوتا ہی چلا گیا۔

    ناصر دوستوں کے معاملہ میں مرنجاں مرنج۔ احمد مشتاق سے بھی آخر دوستی رکھنی تھی اور شیخ صاحب اور حنیف رامے کی بھی دل شکنی منظور نہیں تھی۔ اور ناصر کی رضا میں میری رضا، مگر شاکر صاحب بھی تو دوست تھے بلکہ دوستوں سے بڑھ کر دوست۔ اور ان کی مصوری کی خوشبو تو اب پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی۔

    جب ناصر کی ”برگِ نے“ کے سر ورق کا قصّہ نیا پرانا ہو گیا اور شاکر صاحب کی طبیعت بھی بحال ہو گئی تو ایک خواہش نے میرے اندر سر اٹھایا۔ میرا مجموعہ ”شہرِ افسوس“ اشاعت کا منتظر تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کا سر ورق شاکر صاحب سے بنوایا جائے۔ شاکر صاحب نے فوراً ہی ہامی بھر لی، مگر فوراً ہی بیمار بھی پڑ گئے اور ایسے بیمار پڑے کہ طبیعت سنبھلنے ہی میں نہیں آرہی تھی۔

    ادھر ناشر کا سخت تقاضا کہ سرورق کہاں ہے۔ آخر کو میں نے اسپتال جا کر شاکر صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کو سر ورق کی ذمہ داری سے آزاد کیا۔ طبیعت پر بوجھ مت لیں اور اچھے ہو جائیں اور واقعی اس کے تیسرے ہی دن ان کی طبیعت بحال ہو گئی اور اسپتال سے گھر منتقل ہو گئے۔

    ہاں جب اس مجموعہ کی افتتاحی تقریب ہونے لگی تو جیسے شاکر صاحب سر ورق والا چڑھا قرض یہاں اتارنا چاہتے تھے۔ تقریب کی صدارت پر اس اعلان کے ساتھ آمادہ ہوئے کہ ان کہانیوں کے بارے میں انہیں ایک نکتہ سوجھا ہے، وہ بیان کریں گے۔

    اسٹیج پر سہیل احمد خان ان کے برابر میں بیٹھے تھے۔ بعد میں بتایا کہ سامنے رکھے کورے کاغذوں پر وہ بہت تیزی سے دوسروں کی سنتے ہوئے کچھ لکھتے چلے جا رہے تھے مگر جب صدارتی کلمات کی باری آئی تو جانے کیا ہوا کہ چند فقرے اس رنگ سے ادا کیے کہ گونگا خود سمجھے یا گونگے کی ماں سمجھے۔ پھر سٹپٹا کر چپ ہو گئے۔

    ارے وہ تو اسٹیج تھا اور سامنے مائیک جو پوری تقریر کا مطالبہ کر رہا تھا، مگر شاکر صاحب تو دوستوں کے بیچ بیٹھ کر بھی گفتگو اس طرح کرتے تھے کہ آدھا فقرہ بول کر چپ ہو گئے اور سمجھ لیا کہ فقرہ یار خود مکمل کر لیں گے اور مفہوم سمجھ لیں گے۔ ایک روز موڈ میں تھے۔ بولے ” انتظار حسین، تمہیں پتہ ہے، ہم مولانا محمد علی کے خاندان سے ہیں۔“

    میں نے ہنس کر کہا کہ ”جب ہی۔“ چکرا کر بولے ”جب ہی کیا۔“

    تب میں نے اپنے ”جب ہی“ کی وضاحت کی اور کہا کہ ”مولانا محمد علی قیامت کے مقرر تھے۔ ان کی گرمیٔ تقریر کو تو تحریکِ خلافت بھی زیادہ دنوں تک نہیں سہار سکی۔ جلدی ہی ڈھے گئی۔ اب پتہ چلا کہ ان کے خاندان کے حصے میں جتنی قوتِ گویائی آئی تھی وہ بھی سب انہوں نے اپنی خطابت میں سمیٹ لی تھی۔ آپ کی قوّتِ گویائی بھی اُدھر ہی سمٹ گئی۔“

    مگر ایک دوست نے کیا خوب کہا کہ شاکر صاحب خود نہیں بولتے، ان کی تصویر بولتی ہے۔ میں نے کہا ’مگر وہ بھی تجریدی زبان بولتی ہے جسے سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں۔“

    (از قلم انتظار حسین)

  • معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    پاکستان میں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم و تربیت اور فنِ مصوّری کے فروغ کے لیے اینا مولکا احمد کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج اس نام ور مصوّرہ کی برسی ہے۔ وہ 20 اپریل 2005ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    اینا مولکا نے 1917ء میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا تو وہاں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی ایک اچھے مصوّر تھے۔ یہ 1935ء کی بات ہے۔ شیخ احمد سے دوستی محبت میں بدل گئی اور انھوں نے عمر بھر کے لیے ایک دوسرے کی رفاقت قبول کرلی۔ اینا مولکا نے اسلام قبول کیا اور 1939ء میں شیخ احمد سے شادی کے بعد تمام عمر پاکستان میں گزرا دی۔

    یہاں لاہور میں قیام کے دوران اینا مولکا نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940ء سے 1972ء تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے ناقدین اور باذوق شخصیات نے اینا مولکا کے فن پاروں اور مصوّری کے شعبے میں ان کی‌ خدمات کو بہت سراہا اور ان کی شہرت ایک ایسی فن کار کے طور پر ہوئی جو یورپی طرزِ مصوّری میں ماہر تھیں، اس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوّری کے شعبے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ اینا مولکا لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    مشہور پاکستانی مصّور استاد شجاع اللہ کی برسی

    20 اپریل 1980ء کو پاکستان کے مشہور مصور استاد شجاع اللہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جامعہ پنجاب کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ اور نیشنل کالج آف آرٹس میں استاد رہے اور منی ایچر پینٹنگز میں اپنے کمالِ فن کے سبب پہچانے گئے۔

    استاد شجاع اللہ کی پیدائش الور کی ہے جہاں ان کے بزرگ دہلی سے آکر بسے تھے۔ انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران انھیں‌ مصوّری کا شوق ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے والد بھی اچھے مصوّر تھے اور انھیں دیکھ کر استاد شجاع کو بھی اس فن میں دل چسپی پیدا ہوئی۔

    شجاع اللہ کو ان کے والد نے منی ایچر پینٹنگ بنانے کے ساتھ اس پینٹنگ کے لیے خصوصی کاغذ، جسے وصلی کہا جاتا ہے، تیّار کرنے کی بھی تربیت دی۔ قیامِ پاکستان کے بعد استاد شجاع اللہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کی، بعد میں لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں‌ وفات پائی۔

    استاد شجاع اللہ منی ایچر پینٹنگ کے مختلف اسالیب جن میں دکنی اور مغل شامل ہیں، ان کے ماہر تھے۔ انھیں پاکستان میں حاجی محمد شریف کے بعد منی ایچر پینٹنگ کا سب سے بڑا مصوّر تسلیم کیا جاتا ہے۔