Tag: پاکستانی مصورہ

  • اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا کا نام پاکستان میں مصوری اور یہاں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم کے آغاز اور اسے فروغ دینے کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    آج پاکستان کی اس نام ور مصورہ کا یومِ وفات ہے۔ اینا مولکا نے 1917 میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ بعد میں اینا مولکا نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی زندگی پاکستان میں گزری۔

    اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ابتدائی تعلیم کے بعد اینا مولکا کی زندگی میں اس وقت اہم موڑ آیا جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا۔ یہ 1935 کی بات ہے۔ یہیں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی مصور تھے اور ان کا تعلق متحدہ ہندوستان سے تھا۔

    1939 میں اینا مولکا نے کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے اسی ہم جماعت شیخ احمد سے شادی کرلی اور اینا مولکا احمد بن کر ان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔ شیخ احمد کے ساتھ لاہور میں رہتے ہوئے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940 سے 1972 تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے باذوق افراد اور ناقدین نے ان کے کام کو سراہا اور ان اسے شہرت ملی، ان کے ہاں یورپی مصوروں طرزِ فن نظر آتا ہے جس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوری کے شعبے میں خدمات کے اعتراف کے طور پر تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    20 اپریل 1995 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انھیں‌ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    2006 میں پاکستان کے دس بہترین مصوروں کی یاد میں جاری کیے گئے ٹکٹ میں اینا مولکا بھی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

  • زبیدہ آغا: پاکستانی تاریخ میں پہلی بار آرٹ نمائش منعقد کرنے والی مصّورہ

    زبیدہ آغا: پاکستانی تاریخ میں پہلی بار آرٹ نمائش منعقد کرنے والی مصّورہ

    فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں مصوری بہت اہم اور قابلِ ذکر شعبہ ہے۔ ہمارے ملک میں ماڈرن آرٹ کے حوالے سے خاص طور پر خواتین میں جو چند نام سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک زبیدہ آغا ہے جن کا تعلق پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تھا۔ زبیدہ آغا 1922 میں پیدا ہوئیں اور ان کی زندگی کا سفر 1997 تک جاری رہا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے اسی معروف آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی تھی۔

    لاہور میں خواتین کے ایک کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے سیکھنا شروع کیا۔ ان کا اپنے استاد کے ساتھ یہ سفر طویل عرصہ جاری نہ رہا۔ 1944 سے 1946 تک وہ اپنے دور کے اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرسکیں۔ ہر آرٹسٹ کی طرح پکاسو کا فن بھی زبیدہ آغا کو بھی اپنی جانب کھینچتا رہا۔ اس کے علاوہ وہ ایک قیدی فن کار  میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں جس کا تعلق اٹلی سے تھا اور وہ اس وقت انڈیا کا جنگی قیدی تھا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے تخیل اور مشاہدے کے ساتھ اساتذہ سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت کمال سے منتقل کرتی رہیں اور جلد اپنی پہچان بنا لی۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کو ملک کے ابتدائی فائن آرٹسٹوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جن کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملک میں ماڈرن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے کام نے فائن آرٹسٹوں اور سنجیدہ شائقین کی توجہ حاصل کر لی تھی اور پھر ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے معاصرین اور غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو سراہا۔

    ان کے فن کی مہارت یا انفرادیت رنگوں کا بامعنی اور قابلِ توجہ استعمال تھا۔ اس حوالے انھیں ملک میں آرٹ کی دنیا کی کلرسٹ پینٹر کہا جاتا ہے جس سے نہ صرف شائقین پر گہرا تاثر قائم ہوتا بلکہ ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنی بناتی تھی۔

    2002 میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش بھی منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے  آرٹ اور  اس فن میں مہارت  کو سراہا۔ 2006 میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    زبیدہ آغا کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے روشناس کرواتے ہیں۔

  • پاکستانی مصورہ برطانوی شاہی جوڑے کو پاکستان آمد پر کیا  تحفہ دیں گی؟

    پاکستانی مصورہ برطانوی شاہی جوڑے کو پاکستان آمد پر کیا تحفہ دیں گی؟

    اسلام آباد : پاکستانی مصورہ رابعہ ذاکر کا ایک اور شاہکار تیارہوگیا،رابعہ نے برطانوی پرنس ولیم اور کیٹ میڈلٹن کی شادی کی پورٹریٹ تیار کرلیا ہے ، جو شاہی مہمانوں کو پاکستان آمد پر تحفے میں دیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی مصورہ رابعہ ذاکر نے دوہفتوں کی مسلسل محبت سے شہزادے اور شہزادی کی تصویر کینونس میں اتار کر حقیقت کا رنگ بھر دیا ، پورٹریٹ میں رائل چہروں کو بنانے کے لئے مصورہ کو یورپی ْآرٹسٹ سے مشاورت کرنا پڑی۔

    رابعہ نے برطانوی پرنس ولیم اور کیٹ میڈلٹن کی شادی کی پورٹریٹ تیار کرلی ، پورٹریٹ شاہی مہمانوں کو پاکستان آمد پر تحفے میں دیں گی۔

    رابعہ ذاکر نے کہا پورٹریٹ میں مسکراتے چہرے بنانا آئل پینٹنگ میں مشکل کام تھا، آنجہانی شہزادی لیڈی ڈیانا کے بیٹے پاکستان آمد خوشی کی بات ہے، میری منفرد پورٹریٹ برطانوی رائل فیملی کو پاکستانی قوم سے محبت کاناحساس دلائے گی۔

    پاکستانی مصورہ کا کہنا تھا کہ شاہی جوڑے کو پورٹریٹ ماضی کی یاد بھی دلائے گی ، غیر ملکی مہمانوں کو پورٹریٹ ہمیشہ بلامعاوضہ اور بلالالچ فراہم کی، پاکستان کی خوبصورت پہنچان بنانے میں میری پینٹنگ حصہ ڈال رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں : پاکستانی آرٹسٹ کا پرنس ولیم اور کیٹ مڈلٹن کیلئے تحفہ

    اس سے قبل پاکستانی آرٹسٹ وقاص شائق نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر برطانوی شاہی جوڑے شہزادہ ولیم اور ڈچز آف کیمبرج کیٹ مڈلٹن کے لئے پینسل سے پورٹریٹ کا تحفہ تیار کرنے کی ویڈیو شیئر کر کے انھیں پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا۔

    خیال رہے شاہی جوڑا پانچ روزہ دورےپرآج شب پاکستان پہنچ رہا ہے، برطانوی شاہی جوڑے کی شانداراستقبال کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں، وفاقی وزراء، دفترخارجہ اوربرطانوی ہائی کمیشن کے حکام شاہی جوڑے کا ریڈ کارپٹ استقبال کریں گے، گارڈآف آنر بھی پیش کیا جائے گا۔