Tag: پاکستانی مصور

  • ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    کمال الدین بہزاد ایران کا نام وَر مصوّر تھا جس کے فن کا برصغیر ہی نہیں‌ دنیا بھر میں‌ شہرہ ہوا۔ اس کا سنِ پیدائش 1450 بتایا جاتا ہے۔ بہزاد نے متعدد درباروں سے وابستگی کے دوران شاہانِ وقت اور امرا سے اپنے فنِ مصوّری کی داد وصول کی اور ان کی سوانح و تواریخ کو اپنے فن سے آراستہ و زیبا کیا۔

    اردو کے نام وَر ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے اس باکمال مصوّر کو ایک کردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے فنِ مصوّری اور تخلیق سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    استاد بہزاد جب آرٹ گیلری میں داخل ہوا تو اس کا پہلا تاثر روحانی آسودگی کا تھا۔ چار طرف رنگوں اور خطوں کی چھاؤنی چھا رہی تھی اور رنگ اور خط ہی تو ایک مصور کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔ پھر اس نے گیلری کے وسط میں رکھے ہوئے ایک بنچ پر ابتدائی انسان کا ایک مجسمہ رکھا دیکھا۔ اللہ اللہ! گزشتہ صدیوں میں آرٹ نے کتنی بے حدود ترقی کی ہے! اِس مجسمے میں اتنی زندگی ہے جیسے یہ ابھی اُٹھ کر چلنے لگے گا اور بہزاد دم بخود رہ گیا جب ابتدائی انسان کا یہ مجسمہ سچ مچ اُٹھ کر چلنے لگا۔

    جلد ہی بہزاد نے اپنی حیرت پر قابو پایا اور سوچا کہ یہ وہ صدی ہے جس میں آوازیں پورے کرۂ ارض کا سفر کر کے مشرق و مغرب کے گھر گھر میں سنی جا سکتی ہیں اور جس میں چلتی پھرتی تصویریں ہوا کا سفر کرتی ہوئی آتی ہیں اور گھروں میں سجے ہوئے شیشے کے پردوں پر منعکس ہو جاتی ہیں۔

    اگر ایسی صدی میں آرٹسٹ کا تراشا ہوا ایک مجسمہ، عام انسانوں کی طرح چلنے پھرنے لگے تو اس پر حیرت کا اظہار اپنی جہالت کا اعلان ہو گا۔ پھر استاد بہزاد نے دیکھا کہ ابتدائی انسان کا وہ مجسمہ پلٹا اور اس کے پاس آ کر اس کے سامنے رک گیا اور بولا۔

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘ تو یہ مجسمہ نہیں ہے، آرٹسٹ ہے! حسن کے اس تخلیق کار نے اپنی شخصیت کو حسن سے کیوں محروم کر رکھا ہے؟ اس کے بال اتنے بے ہنگم کیوں ہیں؟ کیا اسے معلوم نہیں کہ انسان نے جب کھیتی باڑی کرنا سیکھا تھا تو وہ حجامت بنانا بھی سیکھ گیا تھا! آخر آج کا آرٹسٹ، تصویر بنانے سے زیادہ اپنے آپ کو بنانے میں اتنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے؟ اس مصور کے بالوں اور لباس کی یہ بے ترتیبی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ بے ترتیبی اس نے بڑی ترتیب سے پیدا کی ہے تاکہ وہ مصوّر نظر آئے۔

    مصوّر جب مصوّر دکھائی دینے کی، اور شاعر، شاعر دکھائی دینے کی کوشش کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی مصوّری اور شاعری میں کوئی ایسی کمی ہے جس کا خود مصور اور شاعر کو بھی احساس ہے۔ بہزاد نے سوچا کہ مصور اور شاعر اپنی اس کمی کو دور کرنے کی بجائے اسے اپنی شخصیت کی رومانیت میں کیوں چھپاتا ہے؟ اس طرح تو وہ دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش میں اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والا انسان تو کبھی بڑا آرٹسٹ نہیں بن سکتا۔

    مصوّر نے اپنے سوال کو دہرایا تو استاد بہزاد بولا ’’میں پرانے خیال کا آدمی ہوں۔ صدیوں کی فصلیں کاٹ کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ آج کے آرٹ کا اسلوب کیا ہے۔ میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار ہوں مگر پہلے مجھے اس آرٹ گیلری کی سیر تو کرائیے تاکہ میرے دل میں یہ اعتماد پیدا ہو سکے کہ آپ کا ماڈل بن کر آپ کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔‘‘

    مصور نے بہزاد کو بازو سے پکڑا اور ایک تصویر کے پاس لے گیا۔ تصویر پر مصور نے اپنے دستخط بھی انگریزی میں کیے تھے اور نیچے ایک گوشے میں تصویر کا نام بھی انگریزی میں درج تھا۔ بہزاد حواس باختہ سا نظر آیا تو مصور سمجھ گیا کہ بدنصیب کو انگریزی نہیں آتی، چنانچہ اس نے تصویر کے نام کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا ’’ذات کی شکست۔‘‘

    ’’مگر یہ بنائی کس نے ہے؟‘‘ بہزاد نے پوچھا۔ مصوّر تن کر بولا ’’میں نے۔ مگر نہیں۔ میں نے اسے بنایا نہیں ہے بلکہ اس نے خود کو مجھ سے بنوایا ہے۔ میرے اندر کوئی ایسی قوت ہے جسے آپ میری چھٹی حس کہہ لیجیے۔ وہی مجھ سے یہ تصویریں بنواتی ہے۔ اس میں میرا شعور، میرا ارادہ قطعی شامل نہیں ہوتا۔ ایک بار آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ اگر میں یہ تصویر نہیں بناؤں گا تو مر جاؤں گا، چنانچہ تصویر آپ کے سامنے ہے۔‘‘

    بہزاد نے تصویر کو بغور دیکھا۔ پھر مصوّر کی طرف دیکھ کر بولا ’’معذرت چاہتا ہوں مگر فن کی دیانت مجھے یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کاش اس رات آپ مر ہی گئے ہوتے تاکہ فن اس آلودگی سے محفوظ رہتا جو آپ نے اس تصویر کی صورت میں فن کے منہ پر دے ماری ہے۔ اوّل تو آپ نے اس تصویر کے اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تک ریت کے اڑتے ہوئے جو ذرات دکھائے ہیں، وہ ذرات کی بجائے مکئی اور جوار کے دانے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر اس میں سے ’’ذات‘‘ غائب ہے۔ صرف شکست ہی شکست ہے، اور شکست کو تو مثبت ہونا چاہیے کیونکہ جب کچھ ٹوٹتا ہے تو کچھ بنتا بھی ہے۔

    اور آپ نے ذات کو توڑنے تاڑنے کے بعد اس پر اپنے دستخط جڑ دیے ہیں، یہ جو تصویر کے کونے میں ایک لمبا سا کیڑا پڑا بل کھا رہا ہے تو یہ آپ کے دستخط ہی ہیں نا؟ اور یہ بھی انگریزی ہی میں ہیں نا؟ پھر جب آپ اپنی زبان میں دستخط تک نہیں کر سکتے تو اپنی بے چاری ذات کے ساتھ کیا انصاف کریں گے۔ معاف کیجیے گا، میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار نہیں ہوں، قدرت نے مجھے ایک خاص سلیقے سے بنایا ہے۔ میں آپ کے سپرد ہو کر قدرت کے معیاروں کی ہتک کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ بہزاد نے یہ کہا اور مصوّر کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔

  • نام وَر مصوّر حاجی محمد شریف کا یومِ وفات

    نام وَر مصوّر حاجی محمد شریف کا یومِ وفات

    آج پاکستان کے نام وَر مصوّر حاجی محمد شریف کی برسی ہے۔ حاجی محمد شریف 9 دسمبر 1978ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

    حاجی محمد شریف 1889ء میں ریاست پٹیالہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور والد دونوں ہی فنِ مصوّری میں‌ شہرت رکھتے تھے اور پٹیالہ کے درباری مصوّر تھے۔ یوں‌ انھیں‌ مو قلم اور رنگوں کا شوق بچپن ہی سے ہو گیا۔

    حاجی محمد شریف کو مصوّری کا فن ان کے والد بشارت اللہ خان کے ایک شاگرد لالہ شائو رام اور استاد محمد حسین خان نے سکھایا۔ 1906ء میں وہ بھی مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    1924ء میں لندن میں‌ منی ایچر پینٹنگز کی نمائش منعقد ہوئی جس میں‌ حاجی محمد شریف کے فن پارے بھی شائقین و ناقدین کی نظر میں آئے اور انھیں زبردست پزیرائی ہوئی۔ انھیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز عطا کیا گیا۔

    1945ء میں وہ لاہور آگئے اور میو اسکول آف آرٹ میں مصوّری کی تعلیم دینے لگے۔ 1965ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر منسلک ہوئے اور طویل عرصہ تک مصوّری سکھاتے رہے۔

    حاجی صاحب کے فن کا شہرہ اتنا تھا کہ صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے قدر دانوں‌ میں شامل تھے۔ حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوّری میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حاجی محمد شریف کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    حاجی محمد شریف لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • دیہی زندگی اور حُسنِ فطرت کے دلدادہ غلام رسول کی برسی

    دیہی زندگی اور حُسنِ فطرت کے دلدادہ غلام رسول کی برسی

    غلام رسول پاکستان میں مصوری کے میدان اور فائن آرٹ کے شعبے کا ایک بڑا ہے جو 3 دسمبر 2009ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ ان کا تعلق جالندھر سے تھا۔

    غلام رسول 20 نومبر 1942ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1964ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فنونِ لطیفہ سے ایم اے کی سند حاصل کرنے والے غلام رسول نے اسی شعبے میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا چلے گئے۔

    وہاں مُو قلم اور رنگوں کی دنیا میں گم رہنے والے غلام رسول نے اس فن میں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارا۔ 1972ء میں انھوں نے فائن آرٹس میں امریکا سے ڈگری حاصل کی اور 1974ء میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے وابستہ ہوگئے اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک ترقی کی۔

    غلام رسول نے لینڈ اسکیپ مصوری میں خاص کام کیا اور پنجاب کی دیہی زندگی کو اپنے کینوس پر اتارا۔ انھوں نے دیہاتی ماحول اور فطرت کے حسن کو نہایت خوبی اور فنی مہارت سے کینوس پر منتقل کیا۔ فطرت اور دیہی زندگی سے متعلق ان کے فن پارے بے حد متاثر کن ہیں۔

    مصوری کے شعبے میں غلام حسین کو ان کے کام اور خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • مصوّرِ مشرق، پتنگ بازی اور کلیجی کا رنگ!

    مصوّرِ مشرق، پتنگ بازی اور کلیجی کا رنگ!

    "چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

    جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

    چغتائی صاحب کی کرم نوازی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ سرورَق بنانے کے لیے زیادہ وقت نہیں لیتے تھے۔ لاہور کے باہر آئے ہوئے لوگوں کو اسی روز یا دوسرے تیسرے دن فارغ فرما دیتے تھے۔ اور لاہور والوں کے ساتھ بھی اکثر و بیش تر یہی سلوک روا رکھتے تھے۔ ہاں ان کی طبیعت ناساز ہو یا کوئی اور گھریلو یا نمایشی مجبوری ہو تو بات دوسری تھی۔ وہ جو وعدہ فرماتے اس سے پہلے ہی کام تیار رکھتے بلکہ سرورق تیار کرتے ہی اپنے بھائی جناب عبدالرحیم چغتائی کے ہاتھ ہمیں بھجوا دیتے۔

    چغتائی صاحب پتنگ بازی کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

    کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سر ورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سر ورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

    چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

    ان کی ہدایت کے مطابق پروف لے کر جاتا تو دیکھتے ہی دیکھتے رنگ لگا کر میرے سپرد کر دیتے۔ اور مشکل رنگوں کے بارے میں سمجھا بھی دیتے کہ کن رنگوں کے امتزاج سے بنیں گے۔ اور اس میں کیا احتیاط ضروری ہے۔

    مجھے اچھی طرح یاد ہے ادا جعفری صاحبہ کے مجموعہ کلام ”میں ساز ڈھونڈتی رہی“ کے پروفوں کو رنگ لگا کر ایک رنگ کے بارے میں سمجھانے لگے کہ کیسے بنے گا۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ میں ان کی بات سمجھ نہیں سکا ہوں تو فوراً ہنستے ہوئے کہنے لگے: ”گوشت والے کی دکان پر جا کر کلیجی دیکھ لینا۔ میں نے کلیجی کا رنگ لگایا ہے۔ بس ویسا ہی چھاپنا۔ نہیں تو بات نہیں بنے گی۔“

    اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”

    (ممتاز مصور عبدالرحمٰن چغتائی کے فن اور شخصیت سے متعلق ریاض احمد کی یادوں سے چند جھلکیاں)

  • بانی پاکستان کا پورٹریٹ بنانے والے احمد سعید ناگی کی برسی

    بانی پاکستان کا پورٹریٹ بنانے والے احمد سعید ناگی کی برسی

    احمد سعید ناگی پاکستان کے وہ نام ور اور باکمال مصور تھے جنھیں‌ قائدِ اعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انھیں‌ خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبت کرنے والا فن کار کہا جاتا ہے جس نے یکم ستمبر 2006 کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے احمد سعید ناگی لاہور سے معاش کی تلاش میں‌ کراچی آبسے تھے۔ وہ 2 فروری 1916 کو امرتسر میں پیدا ہوئے اور امرتسر، لاہور، دہلی کے بعد پیرس میں تعلیم حاصل کی۔

    احمد سعید ناگی نے 1944 میں قائداعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنایا تھا۔

    پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت اور پاکستان کے مختلف شہروں‌ میں‌ احمد سعید ناگی کے فن پاروں‌ کی نمائش ہوئی اور ان کے کام کو سراہا گیا۔

    ناگی کی بنائی ہوئی پینٹنگز زیارت ریذیڈنسی، گورنر ہائوس کوئٹہ، گورنر ہائوس کراچی، موہٹہ پیلس، قصر ناز، گورنر ہائوس پشاور اور پنجاب اسمبلی بلڈنگ لاہور میں آویزاں ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • "سٹینلے ہڈ بے وقوف ہے، بکتا ہے!”

    "سٹینلے ہڈ بے وقوف ہے، بکتا ہے!”

    پاکستان کے نام ور مصور، خطاط شاکر علی نے نہ صرف تجریدی مصوری کے لیے مشہور ہیں بلکہ انھیں خطاطی کے فن میں جدت اور نئے تجربات کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر محمد اجمل نے شاکر علی کے ساتھ گزرے لمحات اور متعدد واقعات رقم کیے تھے جن میں سے ایک باذوق قارئین کی دل چسپی کی نذر کیا جارہا ہے۔

    ’’یہ مجھے یاد ہے کہ شاکر علی سے میری پہلی ملاقات غالباً 1949 میں لندن میں ہوئی تھی۔ یہ بھی مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر مقبول احمد اور مسعود کے توسط سے ہوئی تھی، لیکن بہت جلدی واسطے پیچھے رہ گئے اور بلاواسطہ ہم دوست بن گئے۔

    شاکر علی کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی معصومیت اور بے تکلفی تھی، جو صرف غالباً صحیح اور فطری فن کاروں میں ہوتی ہے۔

    جب وہ سلیڈ اسکول میں پڑھتے تھے تو اکثر مجھے اپنے کمرے میں لے جاتے کہ میں ان کی نئی تصویر دیکھوں۔ جب وہ مجھے تصویر دکھاتے تو ان کے چہرے پر خوشی کی ایک سرخ موج دوڑ جاتی اور آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی۔ بعض اوقات میں تعریف کے ساتھ کوئی تنقیدی فقرہ بھی کہہ دیتا تو وہ کہتے ”یار کہتے تو تم ٹھیک ہو لیکن یہ مجھے اسی طرح اچھی لگتی ہے۔“

    ایک مرتبہ ہمارے ایک مشترکہ دوست سٹینلے ہڈ نے میری موجودگی میں ان کی ایک تصویر پر بڑی شدید تنقید کی کہ جہاں جہاں تم نے Gray اور Black رنگ لگائے ہیں وہ غلاظت معلوم ہوتی ہے۔ شاکر یہ تنقید چپکے سے سنتے رہے، بعد میں جب وہ چلا گیا تو کہنے لگے یہ بے وقوف ہے، بکتا ہے۔

    یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کی شخصیت پر وجدان کی صفت حاوی تھی۔ وہ اپنے وجدان پر بے جا عقلی تنقید نہیں کرتے تھے اور اسے ایک لاحاصل سی بات سمجھتے تھے۔

    ان سے پوچھتے کہ فن کیا ہوتا ہے؟ فن کار کیا ہوتا ہے تو ان کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا اور وہ کوئی جواب نہ دیتے یا یہ کہہ دیتے ”یار مجھے نہیں معلوم۔“

  • اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا کا نام پاکستان میں مصوری اور یہاں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم کے آغاز اور اسے فروغ دینے کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    آج پاکستان کی اس نام ور مصورہ کا یومِ وفات ہے۔ اینا مولکا نے 1917 میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ بعد میں اینا مولکا نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی زندگی پاکستان میں گزری۔

    اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ابتدائی تعلیم کے بعد اینا مولکا کی زندگی میں اس وقت اہم موڑ آیا جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا۔ یہ 1935 کی بات ہے۔ یہیں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی مصور تھے اور ان کا تعلق متحدہ ہندوستان سے تھا۔

    1939 میں اینا مولکا نے کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے اسی ہم جماعت شیخ احمد سے شادی کرلی اور اینا مولکا احمد بن کر ان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔ شیخ احمد کے ساتھ لاہور میں رہتے ہوئے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940 سے 1972 تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے باذوق افراد اور ناقدین نے ان کے کام کو سراہا اور ان اسے شہرت ملی، ان کے ہاں یورپی مصوروں طرزِ فن نظر آتا ہے جس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوری کے شعبے میں خدمات کے اعتراف کے طور پر تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    20 اپریل 1995 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انھیں‌ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    2006 میں پاکستان کے دس بہترین مصوروں کی یاد میں جاری کیے گئے ٹکٹ میں اینا مولکا بھی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

  • آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی….

    آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی….

    ”میں اکثر اس کے پاس جاتا تھا۔ کبھی ہفتے میں ایک بار اور کبھی دو بار۔ گھنٹوں ہماری بیٹھک ہوتی اور رات گئے تک دنیا جہاں کی باتیں ہوتی تھیں۔

    یہ جانی پہچانی اور محبت بھری آواز یکم ستمبر 2006 کو ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی اور اب مجھے اس کی یاد آتی ہے۔“

    ”احمد سعید ناگی ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبت کرنے والا فن کار تھا، جس سے میرے دوستانہ تعلقات تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ناگی کو پہلی بار 1946 میں دیکھا تھا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب میں دھرم پورہ، لاہور میں انجینئر اسٹور ڈپو میں سائن رائٹر پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھا۔

    میرے ساتھ بی اے نجمی اور نذیر ضیغم بھی سائن رائٹر، پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھے، مگر ہمیں تصویر کشی کا بھی شوق تھا اور اس سلسلے میں تینوں بے استادے تھے۔

    1946 میں ہم نے ایک ہندو دوست کے ساتھ اس وقت کے منٹگمری روڈ پر جہاں آج کل لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن واقع ہے، اس کے قریب ایک دکان کرائے پر لی اور سنیما وغیرہ کے بینر بنانے اور دکانوں، دفتروں کے بورڈ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔

    اس کا نام ”ماڈرن آرٹ سینٹر“ رکھا تھا، حالاں کہ اگر اس وقت ہم سے کوئی ماڈرن (Modern) کے معنی پوچھ لیتا تو ہم نہ بتاسکتے، اس لیے کہ اس دور میں ہمارے نزدیک آرٹ یا مصوری کے معنی سنیما کے بینر، فلموں کی تشہیر کے تصویری بورڈ اور تھیٹروں کے پردوں وغیرہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

    یہی نہیں بلکہ وہ پینٹر جو بورڈ وغیرہ لکھتے تھے، ہم ان سب کو مصوروں ہی کے زمرے میں شمار کرتے تھے اور اپنی جگہ خوش ہوتے تھے کہ ہم بھی مصور ہیں۔

    یوں بھی ان دنوں آج کل کی طرح نہ تو جگہ جگہ آرٹ گیلریاں تھیں اور نہ آئے دن آرٹ کی نمائشیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا تصویر کشی کرنے والے عام فن کاروں کا ذریعہ معاش یا پینٹروں کی آمدنی کا ذریعہ سنیماﺅں کے بینر تیار کرنا یا پھر تھیٹروں کے پردے اور سیٹ بنانا ہوتا تھا۔

    اگر آپ ابتدائی دور کے مصوروں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو بعض بڑے مصور اس دور میں تھیٹروں میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کے پوسٹر، پردے اور سیٹ بنایا کرتے تھے۔ یہی کچھ جانتے ہوئے ہم نے دکان شروع کی تھی، مگر ہوتا یہ کہ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے کیوں کہ کوئی بورڈ لکھوانے اور بینر یا پوسٹر بنوانے نہیں آتا تھا۔

    اس لیے جیسے ہی دن ڈھلتا ہم مختلف سنیماﺅں کا چکر لگاتے اور ان کے آگے لگے ہوئے ایکٹروں کے بڑے بڑے بینر اور بورڈ بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ پھر شام ہوتے ہی رائل پارک کے چوک میں پہنچ جاتے جہاں ایک پینٹر کی دکان تھی۔ اس میں نئی فلموں کے لیے بینر اور بورڈ بنتے تھے اور ایک ساتھ تین چار لوگ بنا رہے ہوتے تھے۔

    اس دکان کا مالک ہمارا واقف تھا۔ یہاں ہم کام ہوتا ہوا بھی دیکھتے تھے اور اپنی محرومی کا وقت بھی گزارتے تھے۔ ایک روز ہم کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ وہاں ایک تانگا آکر کھڑا ہوا جس میں سے ایک کِھلتے رنگ کا خوش لباس شخص نیچے اترا۔ اسے دیکھ کر دکان کا مالک اس کے پاس گیا۔ دونوں میں دو چار منٹ کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص جس تانگے میں آیا تھا اُسی میں سوار ہو کے وہاں سے چلا گیا۔

    دکان والے نے ہمیں بتایا، یہ مشہور آرٹسٹ ہے اور اس کا نام ناگی ہے۔

    ”پھر جنوری 1950 میں جب میں لاہور سے نوکری کی تلاش میں کراچی آیا تو ناگی کے نام اور کام سے واقف ہوا۔ اگرچہ کراچی آکر میں نے مصوری سے عملی رشتہ ختم کردیا تھا اور صحافت ہی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر رنگوں کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے جو واقعی سَر چڑھ کر بولتا ہے۔

    یہ میرا ابتدائی دور تھا اور لکھنے لکھانے کی بھی شروعات تھیں۔ اس لیے ناگی کا مجھے جاننا یا میرا اس سے تعارف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں ایک روز ”ناگی اسٹوڈیو“ چلا گیا،

    اس وقت وہ کینوس اِدھر اُدھر رکھ رہا تھا۔ اس نے خندہ پیشانی سے مجھے دیکھا اور پھر اندر آنے کو کہا۔ میں نے بتایا کہ ”مجھے آرٹ سے دل چسپی ہے اس لیے آیا ہوں؟“

    اس پر ناگی نے پوچھا۔

    ”کیا آرٹ سیکھنا چاہتے ہو۔“

    ”نہیں۔ میں صحافی ہوں، مجھے صرف آرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔“

    میرے اس جواب پر ناگی کا کوئی ردعمل نہیں تھا۔ اس نے اپنی مصروفیت کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
    ”اچھا اچھا۔ یہ بات ہے، دیکھو دیکھو!“

    اس پہلی ملاقات کے بعد بھی میں چند ایک بار ناگی اسٹوڈیو گیا تھا، کیوں کہ اب اس سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوگئی تھی۔

    اسی اسٹوڈیو میں مشہور مصورہ لیلیٰ شہزادہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اسے نام وری حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی وہ تحصیل فن کے مراحل سے گزر رہی تھی۔“

    ”پہلی دو تین ملاقاتوں میں تو ناگی نے مجھ سے اردو زبان ہی میں بات کی، مگر جب ہماری واقفیت ہوگئی تو پھر اس نے کبھی مجھ سے اردو میں بات چیت نہیں کی۔ ہمیشہ پنجابی ہی میں گفتگو ہوتی تھی۔ پھر ہمارے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے اور تکلف کی جگہ بے تکلفی نے لے لی۔

    آپ سے گزر کر تم تک آئے اور پھر ایک دوسرے کو تُو سے مخاطب کرنے لگے۔“

    (پاکستان کے چند نام ور اور باکمال مصوروں‌ سے متعلق شفیع عقیل کی کتاب سے انتخاب)

  • حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    اس کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ سیاست داں، صحافی، ادیب، مقرر، نقاد، دانش ور، خطاط، مصور بھی تھا اور ایک ناشر بھی تھا۔

    پھر یہ بھی کہ اس نے ہر شعبے یا ہر میدان میں نام وری اور مقام حاصل کیا، لیکن ان کام یابیوں اور کام رانیوں کے باوجود اس کی تحمل مزاجی اور میانہ روی میں فرق نہیں آیا۔

    وہ دھیمے مزاج اور لہجے میں بات کرتا تھا اور سوچ سمجھ کر بولتا تھا۔ اقتدار میں بھی رہا، مگر اسے اقتدار کا وہ نشہ نہیں چڑھا جو انسان کو انسان سے دور لے جاتا ہے۔ شہرت اور نام وری کے باوجود اس کا لوگوں سے رشتہ نہیں ٹوٹا۔ اس نے یاریاں بھی نبھائیں اور فرائض بھی پورے کیے۔

    زندگی بھر انسانی رشتوں پر یقین رکھا اور دوستوں کا دوست رہا۔ مجھ سے ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں برادرانہ تعلقات قائم ہوئے تھے جو آخر تک قائم و دائم رہے۔ حالاںکہ اس دوران برسوں ملاقات نہیں ہوتی تھی اور بات چیت میں بھی طویل وقفے آجاتے تھے۔ اس کے باوجود کبھی دوری کا احساس نہیں ہوا۔ جب کبھی ملاقات ہوتی یا ٹےلی فون پر بات ہو جاتی یا پھر خط آجاتا تو قربت و نزدیکی کا احساس قائم رہتا۔

    حنیف رامے کے بزرگوں اور بڑے بھائیوں کا کاروبار کتابوں کی نشر و اشاعت تھا، اس لیے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ بھی اس پیشے سے منسلک ہوگیا۔ نیا ادارہ اور مکتبۂ جدید کے زیرِ اہتمام شایع ہونے والی کتابوں کی تزئین و ترتیب کے ساتھ ساتھ سرورق بنانے کا کام اس کے سپرد ہوا اور اس طرح آرٹ سے بھی رشتہ جڑا رہا۔ پھر جب بھائیوں میں کاروبار کا بٹوارا ہوا اور رشید احمد چوہدری اور بشیر احمد چوہدری نے الگ الگ کتابوں کے اشاعتی سلسلے شروع کیے تو حنیف رامے نے بشیر احمد چوہدری کو ”میری لائبریری“ کے نام سے مکتبہ قائم کروایا اور خود ”البیان“ کے عنوان سے اشاعتی مکتبے کی ابتدا کی۔

    ایک بات حنیف رامے کے ذہن میں ہمیشہ رہی کہ کم قیمت کتابیں چھپنی چاہییں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خریدیں اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہو۔ حنیف رامے نے صرف کتابیں چھاپی ہی نہیں بلکہ خود بھی لکھیں اور ایک ادیب کی حےثیت سے بھی نام پیدا کیا۔

    اس کی کتابوں میں ”پنجاب کا مقدمہ“ کو بڑی شہرت ملی اور دیگر صوبوں کے بعض ادیبوں نے اس کے جواب میں بھی بہت کچھ لکھا۔ اسی طرح اس کی کتاب ”دُبِ اکبر“ بھی بڑی توجہ کا مرکز رہی اور پھر زندگی کی آخری تصنیف ”اسلام کی روحانی قدریں موت نہیں زندگی“ کو تو علمی و ادبی حلقوں میں بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی۔

    حنیف رامے کا پسندیدہ موضوع معاشیات و اقتصادیات تھا اور اسی میں اس نے ایم اے کیا تھا۔ لہٰذا اس موضوع کی ایک کتاب کا ترجمہ بھی کیا تھا جو ”اقتصادی ترقی کا منظر اور پس منظر“ کے نام سے شایع ہوئی اور پھر ”اقبال اور سوشلزم“ مرتب کرکے شایع کی تھی۔ اس نے انگریزی میں ایک ناول بھی تحریر کیا۔ اس طرح دیکھیے تو وہ صرف ادب چھاپتا ہی نہیں رہا بلکہ اس کی تخلیق و تحریر میں بھی باقاعدہ شامل رہا۔

    (معروف ادیب اور صحافی شفیع عقیل کی کتاب سے ایک ورق)

  • صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    شہرہ آفاق مصور اور خطاط صادقین کی یہ رباعی پڑھیے۔

    ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
    ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
    بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
    ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف

    صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔ آج اس عجوبہ روزگار کی برسی ہے۔ صادقین نے 10 فروری 1987 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔

    صادقین کی وجہِ شہرت اسلامی خطاطی ہے جسے انھوں‌ نے نئی جہات سے روشناس کیا۔

    انھوں‌ نے قرآنی آیات اور اشعار کو انفرادیت اور نزاکتوں سے کینوس پر اتارا ہے۔

     

    سید صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ 1930 میں امروہہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا خطاط تھے اور یہ خاندان اس فن کے لیے مشہور تھا۔

     

    ابتدائی تعلیم امروہہ میں‌ حاصل کی اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے اور یہ خاندان کراچی میں‌ بس گیا۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    صادقین کے فن کو سراہنے اور آرٹ کے شعبے کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں‌ جہاں‌ انھیں‌ قومی اعزازات دیے گئے، وہیں‌ دنیا بھر میں‌ ان کے فن پاروں‌ کی نمائش کے ساتھ امریکا، یورپ سمیت کئی ملکوں‌ نے اپنے اعزازات ان کے نام کیے۔

    صادقین، سخی حسن قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔