Tag: پاکستانی معیشت

  • ایک نہیں دو پاکستان! 50 فی صد معیشت پر کس کا کنٹرول ہے؟ چشم کشا رپورٹ

    ایک نہیں دو پاکستان! 50 فی صد معیشت پر کس کا کنٹرول ہے؟ چشم کشا رپورٹ

    پاکستان میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ یہاں امیر اور غریب کا طرز زندگی قطعی طور پر مختلف ہے، جس کا اثر معاشرے پر منفی انداز میں پڑ رہا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا ایک فی صد طبقہ اشرافیہ 50 فی صد ملکی معیشت پر کنٹرول رکھتا ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں دولت کی اس حد تک غیر منصفانہ تقسیم ایک خطرناک رحجان ہے، ماہرین موجودہ پاکستان کی صورت حال کو دو پاکستان سے تشبیہ دیتے ہیں، ایک غریب کا اور ایک امیر کا پاکستان۔

     

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ایک فی صد اشرافیہ نے 2018-19 میں 9 فی صد معیشت کا 314 بلین ڈالرز حاصل کیا تھا، اس کے مقابلے میں ایک فی صد غریب نے صرف 0.15 فی صد حصہ حاصل کیا۔ اسی طرح دنیا کے ایک فی صد امیر ترین افراد پچھلے دو سال میں دنیا کی 63 فی صد دولت کے مالک بن گئے۔

    دولت کا ارتکاز

    پاکستان میں دولت کا ارتکاز اور عام آدمی کی قوت خرید میں کمی سے غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک میں جاری معاشی بدحالی اور روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور بے روزگاری سے عوام کی بہت بڑی تعداد ان گنت مسائل کا شکار ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں دولت کے ارتکاز اور غیر مساوی تقسیم میں دو عوامل کا بہت بڑا ہاتھ ہے، کرونا کی عالمگیر وبا اور یوکرین کی جنگ۔

    عالمگیر مالیاتی نظام

    اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سی) کی کانفرنس میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے سبب رہن سہن کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال جنگ، خشک سالی، بھوک اور شدید غربت کے اثرات کے ساتھ مل کر ایک ایسا ماحول تخلیق کرتی ہے جو غربت اور نا انصافی کو مزید بڑھاوا دیتا ہے۔

    انھوں نے واضح کیا کہ اس مکمل بحرانی کیفیت کا خاتمہ بڑے پیمانے پر اور پائیدار سرمایہ کاری کا تقاضا کرتا ہے، جب کہ امیر ممالک کا بنایا عالمگیر مالیاتی نظام ’’’بڑی حد تک انھی کے لیے‘‘ ہی فائدہ مند ہے۔ قرضوں میں مؤثر چھوٹ کی غیر موجودگی میں ایل ڈی سی اپنی حکومتوں کی آمدنی کا بڑا حصہ قرض کی ادائیگی پر صرف کرنے پر مجبور ہیں۔

    انھوں نے متنبہ کیا کہ جو ملک ترقی کر کے متوسط آمدنی والے ممالک کے درجے میں شامل ہو گئے ہیں، وہ ایل ڈی سی سے مخصوص فوائد کھو دیں گے، جو ان کے لیے جزا کی بہ جائے سزا بن جائے گی۔

    امیروں کے اثاثے مستحکم، معیشت عدم تحفظ کا شکار

    بین الاقوامی تنظیم برائے غربت مٹاؤ ’آکسفام‘ کی 2023 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر طبقے کے اثاثوں میں پچھلے دو سال میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کی بنا پر دنیا بھر میں مہنگائی اور معیشت عدم تحفظ کا شکار ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے ہر امیر ترین شخص نے اس دو سال میں 1.7 ملین ڈالرز اور نچلے طبقے کے فی فرد نے صرف ایک ڈالر کمایا۔

    2022 میں مہنگائی میں اضافے کا فائدہ بھی اسی طبقے کو دولت کے ارتکاز کی وجہ سے ہوا، کیوں کہ دنیا بھر کی خوراک اور توانائی سے وابستہ ادارے اس طبقے کی ملکیت ہیں۔

    پاکستان میں اثرات

    ملک میں 5 کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر یہی حالات رہے تو کچھ ہی عرصے میں مزید 2 کروڑ کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارے پر مجبور ہو جائیں گے۔

    دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے یہاں متوسط طبقے کو بھی اشیاے خورد نوش تک رسائی سے محروم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں مڈل کلاس یعنی متوسط طبقہ غربت جیسے مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔

  • آئی ایم ایف سے معاہدہ کے بعد پاکستانی معیشت کے لئے اچھی خبر

    آئی ایم ایف سے معاہدہ کے بعد پاکستانی معیشت کے لئے اچھی خبر

    اسلام آباد : بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی مالیاتی ریٹنگ میں بہتری کردی اور کہا پاکستانی کرنسی کی ریٹنگ میں بہتری وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی مالیاتی ریٹنگ میں بہتری کردی۔

    فچ نے پاکستان کی کرنسی ڈیفالٹ ریٹنگ ٹرپل سی پلس کردی اور کہا کہ اس سے قبل طویل المدتی غیرملکی کرنسی ریٹنگ منفی ٹرپل سی تھی۔

    بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ کا کہنا تھا کہ پاکستان کرنسی کی ریٹنگ میں بہتری وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے، جولائی میں آئی ایم ایف بورڈ سے اسٹینڈ بائے ارینجمنٹ منظور ہونا ہے۔

    اس حوالے سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا’ پاکستانی معیشت کےلئے ایک اور مثبت خبر، عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستانی کی ریٹنگ میں بہتری کردی ہے۔

    اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ریٹنگ آئی ڈی آر سے ٹرپل سی کردی گئی، وزیراعظم شہباز شریف، اتحادیوں اور پوری قوم کو مبارکباد دیتا ہوں۔

  • تجارت اور پیداوار بڑھائے بغیر پاکستانی معیشت ترقی نہیں کرسکتی: ورلڈ بینک

    تجارت اور پیداوار بڑھائے بغیر پاکستانی معیشت ترقی نہیں کرسکتی: ورلڈ بینک

    اسلام آباد: عالمی بینک نے پاکستانی معیشت پر رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیداواری صلاحیت میں اصلاحات اور لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت کے بغیر پاکستانی معیشت ترقی نہیں کرسکتی۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ بینک نے پاکستانی معیشت پر رپورٹ جاری کردی، ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت پیداواری صلاحیت میں اصلاحات کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی، پاکستان کی معیشت نازک مرحلے پر ہے۔

    عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں مالی وسائل کی تقسیم سے متعلق خرابیاں دور کرنے پر زور دیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو سالانہ 6 سے 8 فیصد معاشی ترقی کی ضرورت ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وسائل کے اعتبار سے پیداوار نہ ہونا ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے، تمام شعبوں پر ٹیکسوں کو ہم آہنگ کرنے سے معیشت میں بہتری آسکتی ہے۔

    ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ ریئل اسٹیٹ کے شعبے کے بجائے مینو فیکچرنگ اور تجارتی شعبے کو بہتر کیا جائے، تجارتی پالیسی سے برآمدی شعبوں میں برآمد مخالف رویوں کو ختم کیا جائے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں 22 فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں اس شرح کو بڑھانا چاہیئے، خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت سے ترقی میں اہم پیش رفت ہوسکتی ہے۔ خواتین کے لیے روزگار کے 73 لاکھ مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

    ورلڈ بینک کے مطابق ملک میں خواتین کو روزگار کی فراہمی سے جی ڈی پی کی شرح 23 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔

    عالمی بینک نے پاکستان کا بنیادی مسئلہ نجی حکومتی اخراجات پر انحصار قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جنرل سیلز ٹیکس کو ہم آہنگ کرنا اور بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔

    رپورٹ کے مطابق گزشتہ 2 دہائیوں میں پاکستان میں فی کس خام قومی پیداوار کی شرح کم رہی، پائیدار ترقی کے لیے دیرینہ عدم توازن کا مسئلہ ہنگامی بنیاد پر حل کرنا ہوگا۔

  • پاکستانی معیشت کے لیے بڑی خبر، عالمی بینک نے 1.6 ارب ڈالر کی منظوری دے دی

    پاکستانی معیشت کے لیے بڑی خبر، عالمی بینک نے 1.6 ارب ڈالر کی منظوری دے دی

    کراچی: عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 1.6 ارب ڈالر کی منظوری دے دی ہے۔

    عالمی بینک کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق پاکستان کے لیے 1.6 ارب ڈالر کی منظوری دے دی گئی، اس رقم کے ذریعے 5 بڑے منصوبوں کی فنڈنگ کی جائے گی۔

    سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے 50 کروڑ ڈالر فراہم کیے جائیں گے، اعلامیہ میں کہا گیا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر کے لیے 50 کروڑ ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔

    رقم سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں استعمال ہوگی، اس رقم سے سیلاب متاثرہ خواتین کو کیش گرانٹ دی جائے گی، اعلامیہ میں کہا گیا کہ کیش گرانٹ سیلاب متاثرہ ماں کی صحت عامہ کے لیے دی جائے گی۔

    موجودہ حالات میں مزید سخت فیصلے نہیں کر سکتے: پاکستان نے آئی ایم ایف سے کہہ دیا

    سیلاب متاثرہ کسانوں کو بھی فصل اگانے کے لیے سپوٹ کیا جائے گا، کسانوں کو کھاد اور بیج فراہم کیے جائیں گے۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا کہ 29 کروڑ ڈالر کی رقم سندھ واٹر اینڈ ایگری کلچر ٹرانفارمیشن پراجیکٹ کے لیے استعمال ہوگی جب کہ سوشل پروٹیکشن ڈیلیوری سسٹم پراجیکٹ کے لیے 20 کروڑ ڈالر رقم خرچ کی جائے گی۔

  • 75 سال: کبھی پاکستان کی معیشت مستحکم تھی

    75 سال: کبھی پاکستان کی معیشت مستحکم تھی

    برصغیر کے بٹوارے کو 75 سال بیت گئے۔ تقسیمِ ہند کے اعلان کے نتیجے میں معرضِ وجود میں‌ آنے والا پاکستان آج سیاسی انتشار، افراتفری دیکھ رہا ہے اور معاشی میدان میں‌ بھی اسے ابتری کا سامنا ہے۔

    پاکستان کی معیشت ہمیشہ مد و جزر کا شکار رہی ہے، لیکن کیا اس کے قصور وار صرف حکم راں ہیں اور صرف سیاسی مصلحتیں اس تباہ حالی کی وجہ ہیں؟

    ایک حد تک تو یہ بات درست ہے، مگر اس میں مختلف عوامل کارفرما ہیں اور کئی پہلوؤں سے ان کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس ضمن میں‌ قومی ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار اور ٹھوس حقائق پر مبنی بحث میں‌ ماہرینِ معیشت کی رائے ہی قابلِ توجہ ہوسکتی ہے۔ تاہم ایک بات یہ بھی ہے کہ دہائیوں پہلے پاکستانی مالیاتی اداروں میں مخلص اور قابل لوگ موجود تھے جنھوں نے ملکی معیشت کو سنبھالے رکھا۔ 1950 کی بات ہے جب پاکستانی معیشت مستحکم تھی، لیکن 1958 کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوئی۔ ملک میں‌ دوسرا پانچ سالہ معاشی منصوبہ 1965 میں ختم ہوا اور اس وقت بھی ملک ترقی پذیر ممالک میں مستحکم حیثیت کا حامل تھا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت جو ممالک پہلی دنیا (ترقی یافتہ ممالک) کا درجہ حاصل کر سکتے تھے، ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ پھر 1965 میں پاک بھارت جنگ نے معیشت میں بگاڑ پیدا کردیا، لیکن پاکستان جلد اس سے نکل گیا اور 1968 تک ترقی کی شرح دوبارہ سات فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ اس کے بعد معاشی حالات بگڑنے لگے اور بعد کے برسوں میں ملک میں اصلاحات اور صنعتوں کو قومیانے سے معیشت کو نقصان پہنچا۔

    اگر حکومتی کارکردگی کے تناظر میں‌ خراب معاشی حالات اور منہگائی میں اضافے کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے آئے ہیں کہ ترقی کے دعوؤں اور عوام کی خوش حالی کے منشور کے ساتھ مرکز اور صوبوں‌ میں‌ حکومت بنانے کے والوں کی ترجیحات راتوں رات بدل جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں تمام وسائل اور سارا زور اپنے مخالفین کو کم زور کرنے اور اپنے مفادات کی تکمیل پر لگا دیتی ہیں جس میں ملک کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے۔

    آج پاکستان کو معاشی میدان میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کبھی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی تو کبھی ڈالر کی اونچی اڑان بریکنگ نیوز کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اس سیلابِ بلا خیز میں پاکستانی روپیہ خس و خاشاک کی طرح‌ بہہ رہا ہے، اور اس سے عوام براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ معاشی عدم استحکام اور اس حوالے سے بے یقینی کی فضا میں صنعتوں کا پہیہ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ تیل اور گیس کی ضرورت پوری نہ ہونے سے صنعتیں اور گھریلو زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ملک کی درآمدات، برآمدات اور ہر قسم کی خرید و فروخت متاثر ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں‌ بیروزگاری کی شرح بھی بڑھی ہے۔ ملک میں عوام کو دو وقت کی روٹی کا حصول دشوار ہوتا جارہا ہے۔ آٹا چینی، گھی تیل اور دیگر غذائی اجناس سمیت ضروریاتِ زندگی کی مختلف اشیا کے دام بڑھ رہے ہیں۔

    یہ حالات ایک طرف بھوک اور بیروزگاری لوگوں کو قسم قسم کے جرائم اور دھوکا دہی کی طرف مائل کر رہے ہیں اور دوسری جانب بے بس اور مجبور لوگ خود کشی کررہے ہیں۔ اس مشکل وقت میں آج پاکستان آزادی کی پلاٹینم جوبلی منا رہا ہے۔

    ادھر سرحد کے دوسری طرف بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ بھارت کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے۔ غربت، بدحالی اور بنیادی ضروریات سے محرومی بھارت کی اکثریت کا مسئلہ ہے اور حکومت معیشت کو سہارا دینے اور مالی خسارے کو سنبھالنے کے لیے تمام بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے۔ پاکستان کے عوام کی اس بدحالی، پستی اور محرومی کا ایک بڑا سبب سرمایہ دار، امرا اور وڈیرے ہیں اور یہی لوگ سیاسی جماعتوں میں‌ شامل ہیں اور اقتدار ملنے کے بعد ملکی اداروں‌ میں‌ پالیسی ساز کے طور پر اختیار کو استعمال کرکے فیصلہ کُن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ حکم راں سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط بناتے ہیں اور یہ وہ نظام ہے جسے برطانوی سامراج نے اس خطّے میں پنپنے کا موقع دیا اور یہ عام آدمی کی جیب سے پیسہ نکلوا لیتا ہے۔

    75 سال گزر گئے، لیکن آج بھی پاکستان کے عوام روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورت اور پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ عام آدمی عدالتوں سے انصاف، مریض علاج معالجے کی مفت اور بہترین سہولیات، معیاری اور مفت تعلیم کے علاوہ یکساں نصاب اور اس کی بنیاد پر جامعات میں‌ داخلہ اور بعد میں روزگار ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ دوسری جانب حکم راں طبقہ اور اشرافیہ کی دولت اور جائیدادوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں‌ احتساب کی کوئی روایت موجود نہیں‌ ہے اور اس حوالے سے موجود اداروں کا احتساب سیاسی دباؤ کی وجہ سے انتقامی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں‌ حکم راں طبقہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے امتیازی قوانین وضع کرنے اور تشکیلِ نظام کے ساتھ ضرورت پڑنے پر اپنے تحفظ کے لیے زبان، علاقے اور مذہب کا بے استعمال کرتا آیا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ملک میں معاشی مشکلات اور حالیہ منہگائی کو موضوع بنائیں‌ تو گزشتہ برس ہر کاروبار میں قیمتوں میں جس رفتار سے اضافہ ہونا شروع ہوا وہ پچھلی دہائیوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ دنیا کے کئی ممالک اور بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک امریکا ہے جہاں گزشتہ ماہ افراطِ زر کی شرح 8.6 فیصد تک پہنچ گئی، جو دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بلند ترین شرح ہے۔

    پاکستان میں منہگائی کی شرح کا تعین ادارۂ شماریات کرتا ہے جس پر کئی سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ یہ ادارہ وزارتِ خزانہ کے ماتحت ہے جس کے منہگائی سے متعلق اعداد و شمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ ادارۂ شماریات حکومت کے دباؤ پر منہگائی کو کم ظاہر کرتا ہے اور حکومتیں‌ ان اعداد و شمار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

    منہگائی سے متعلق ایسی رپورٹیں‌ ملک کے مختلف علاقوں سے اکٹھے کیے جانے والے اعداد و شمار پر مبنی ہوتی ہیں۔ وفاقی ادارہ مختلف شعبوں کے اعداد و شمار اکٹھا کرکے اپنی ایک مفصل رپورٹ جاری کرتا ہے جس میں مہنگائی کی شرح کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔

    ادارۂ شماریات جس ماڈل کے تحت کام کرتا ہے، اس میں مہنگائی کی شرح تین طریقوں سے معلوم کی جاتی ہے۔ ان میں ایک ماہانہ بنیادوں پر کنزیومر پرائس انڈیکس کا جائزہ ہوتا ہے جس میں ماہانہ بنیادوں پر قیمتوں میں ردّ و بدل کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ ہفتہ وار بنیادوں پر قیمتوں میں ہونے والا ردّ و بدل قیمتوں کے خاص اشاریے کے تحت جاری ہوتے ہیں اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ تیسرا طریقہ ہول سیل پرائس انڈیکس ہے جس میں ماہانہ بنیادوں پر ہول سیل کی سطح پر قیمتوں میں ردّ و بدل کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بی بی سی کی ایک معلوماتی رپورٹ بتاتی ہے کہ ادارۂ شماریات کے تحت پاکستان کے 35 شہری علاقوں اور 27 دیہی علاقوں سے قیمتیں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ شہری علاقوں میں 65 مارکیٹوں اور اور دیہات میں 27 مارکیٹوں سے قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں 356 اشیا کی قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جب کہ دیہات سے 244 چیزوں کی قیمتیں معلوم کی جاتی ہیں۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر اوسط نکالنے کے بعد‌مہنگائی کی شرح بتائی جاتی ہے۔

  • پاکستانی معیشت کیلئے بڑی خبر، چین سے اربوں ڈالر کے معاہدے پر دستخط

    پاکستانی معیشت کیلئے بڑی خبر، چین سے اربوں ڈالر کے معاہدے پر دستخط

    اسلام آباد : پاکستان نے چینی بینکوں کے کنسورشیم کے ساتھ 2.3 بلین ڈالر قرض کے معاہدے پر دستخط کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر چینی کنسورشیم کے ساتھ 2.3 بلین ڈالر قرض کے معاہدے پر دستخط کی تصدیق کرتے ہوئے کہ پاکستان کی جانب سے معاہدے پر گزشتہ روزدستخط کیےگئے، قرض کی رقم کی آمد چند دنوں میں متوقع ہے۔

    انہوں نے کہا کہ "ہم اس لین دین میں سہولت فراہم کرنے پر چینی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

    یاد رہے پاکستان اور آئی ایم ایف میں قرض پروگرام کیلیے معاملات طے پاگئے ہیں ، وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف جلد ہی ایک مسودہ جاری کرے گا جس میں دونوں فریقوں کے درمیان عملے کی سطح کے معاہدے کی تصدیق ہو گی۔

    خیال رہے گذشتہ ہفتے چین نے پاکستان کو 2.3 بلین ڈالر رول اوور کے تحت دینے پر رضا مندی ظاہر کی تھی مگر کہا گیا تھا کہ یہ رقم آئی ایم ایف کے معاہدے سے مشروط ہے۔

    پہلے مرحلے میں 2.3 بلین ڈالر کے رول اوور کیے جائیں گے اور دوسرے مرحلے میں نومبر یا دسمبر کے آخر تک مزید $2.5 سے $2.8 بلین دیئے جائیں گے۔

  • پاکستانی معیشت کے حوالے سے بُری خبر

    پاکستانی معیشت کے حوالے سے بُری خبر

    اسلام آباد : ورلڈ بینک نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح میں 1 فیصد کی کمی کردی اور 2023 میں ترقی کی شرح مزید گرنے کا خدشہ ظاہر کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ بینک نے اپنی اقتصادی رپورٹ جاری کر دی، جس میں پاکستان کی 2020 میں اقتصادی ترقی کی شرح ایک فیصد کم کر کے چار اعشاریہ تین فیصد تک کر دی گئی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ 2023 میں یہ ترقی کی شرح مزید گر کر چار فیصد تک رہنے کا خدشہ ہے ، سابق حکومت نےتوانائی میں سبسڈی سے بجٹ پراضافی بوجھ اور آئی ایم ایف کے پروگرام کو بھی خطرہ میں ڈالا ہے ، قیمتوں میں کٹوتی،سبسڈیزکی فنانسنگ بجٹ پراضافی بوجھ پیداکرسکتی ہے۔

    ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں اور سیاسی چیلنجز نے عمران خان کی حکومت کو بجلی اور تیل میں ریلیف دینے پر مجبور کیا تاہم قیمتوں میں ریلیف آگے بڑھتے ہوئے مالیاتی خطرات کو بڑھا سکتے ہیں۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ روس یوکرین تنازع سے جنوبی ایشیا کے ممالک میں اقتصادی ترقی کی شرح مزید سست ہوسکتی ہے۔۔

  • ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستانی معیشت سے متعلق بڑی پیش گوئی

    ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستانی معیشت سے متعلق بڑی پیش گوئی

    اسلام آباد : ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کی شرح نمو رواں سال 4 فیصد تک رہنے کا امکان ہے، گذشتہ مالی سال اقتصادی بحالی اور سخت مالیاتی پالیسیوں سے بہتری آئی۔

    تفصیلات کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان پر ایشیائی ترقیاتی آوٴٹ لک رپورٹ جاری کردی ، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی شرح نمو رواں سال 4فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔

    اے ڈی بی کا کہنا تھا کہ گذشتہ مالی سال اقتصادی بحالی اور سخت مالیاتی پالیسیوں سےبہتری آئی اور ٹھوس اقدامات سے شرح نمو 5.6 فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔

    ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا کہ کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ کم کرنےکےنتائج مثبت ریکارڈ کیےگئے ،زرمبادلہ کےذخائر میں اضافہ اور افراط زر کم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور مؤثر اقدامات سے 2023میں شرح نمو 4.5فیصدتک پہنچنے کی توقع ہے۔

    آوٴٹ لک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت مربوط مالی اورمالیاتی اقدامات سے بحال ہو رہی ہے تاہم افراط زر اور عدم توازن پر قابو کے لیے موزوں مالیاتی پالیسیاں اور اصلاحات ضروری ہیں۔

    کنٹری ڈائریکٹراے ڈی بی یونگ یئی نے کہا کہ ٹیکس پالیسی اورانتظامی امور میں جامع اصلاحات بیحد ضروری ہیں، عوامی خدمات کو فنڈز فراہم کرنے کے لئے محصولات کو بڑھایا جائے، اے ڈی بی پاکستان کی پائیدار ترقی کی حمایت کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 2022 میں صنعتی نمو میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے، کرنسی کی گراوٹ، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نظر آرہا ہے۔

    اے ڈی بی نے کہا کہ زراعت کا شعبہ جی ڈی پی بڑھانے کیلئے مثبت اشارے دے رہا ہے اور افراط زر کی شرح مالی سال 2022 ء میں 11 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے جبکہ تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتیں افراط زر پر دباوٴ بڑھائیں گی۔

  • رواں مالی سال مالیاتی مسائل اور مہنگائی میں اضافہ، عالمی بینک نے پاکستان کو خبردار کردیا

    رواں مالی سال مالیاتی مسائل اور مہنگائی میں اضافہ، عالمی بینک نے پاکستان کو خبردار کردیا

    اسلام آباد :عالمی بینک نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ رواں مالی سال مالیاتی مسائل کا سامنا رہے گا، حکومت پاکستان معاشی استحکام کو برقرار رکھنے پرتوجہ دے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی بینک نے پاکستانی معیشت پر رپورٹ جاری کردی ، جس میں کہا ہے کہ پاکستان کو رواں مالی سال مالیاتی مسائل کا سامنا رہے گا ، پاکستان کو بیرونی دباؤ اور مالی چیلنج کم کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔

    عالمی بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سالی معاشی نمو 3.4فیصد رہنے کا امکان ہے، پاکستان کی معاشی نمو مالی سال 23 میں4 فیصد تک پہنچ جائےگی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان معاشی استحکام کو برقرار رکھنے پرتوجہ دے ، شعبہ توانائی کامالی استحکام بہتر بنانے کی ضرورت ہے،عالمی بینک

    رپورٹ میں رواں مالی سال مہنگائی بڑھنے کی بھی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 23 میں جی ڈی پی کے 2.5 فیصد تک متوقع ہے۔

    عالمی بینک نے کہا ہے کہ رواں مالی سال برآمدات میں بھی زبردست اضافہ ہوگا اور پاکستان کا مالی خسارہ جی ڈی پی کے 7 فیصد تک رہنے کی توقع ہے ،عالمی بینک

    رپورٹ میں کہنا تھا کہ درمیانی مدت میں قرض لینے کا سلسلہ بلند رہے گا اور آئی ایم ایف پروگرام آن ٹریک پر چلتا رہے گا۔

  • پاکستانی معیشت کے حوالے سے اچھی خبر آگئی

    پاکستانی معیشت کے حوالے سے اچھی خبر آگئی

    کراچی: آئی ایم ایف کیجانب سے قسط ملنے کے بعد ملک کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر 20   ارب 83 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گئے، آئی ایم ایف نے پاکستان کو 49 کروڑ87 لاکھ ڈالر کی قسط جاری کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف کیجانب سے قرض کی قسط ملنے سے زرمبادلہ ذخائرمیں اضافہ ہوا ، اسٹیٹ بینک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ زرمبادلہ ذخائر میں ایک ہفتے میں37 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا اور قسط ملنےسےاسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ 13 ارب 67کروڑ ڈالر پر پہنچ گئے۔

    اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ کمرشل بینکوں کےپاس7ارب16کروڑڈالرموجود ہیں جبکہ ملک کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر20 ارب 83 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گئے۔

    خیال رہے آئی ایم ایف نےپاکستان کو49کروڑ87لاکھ ڈالرکی قسط جاری کی تھی ، عالمی مالیاتی فنڈز کے ایگزیکٹیو بورڈ نے 25 مارچ کو پاکستان کو قرض کی قسط جاری کرنے کی منظوری دی تھی۔ یہ قسط بجٹ میں مالی مدد فراہم کرنے کے لیے دی گئی۔

    آئی ایم ایف کی جانب سے قرض رقم کی منظوری کے حوالے سے اعلامیہ میں بتایا گیا تھا کہ ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد پچاس کروڑ ڈالرز دینے کی منظوری دی۔