Tag: پاکستانی موسیقار

  • بندو خان:‌ موسیقار اور باکمال سارنگی نواز

    بندو خان:‌ موسیقار اور باکمال سارنگی نواز

    متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد دونوں ممالک میں کئی بڑے نام تھے جو اپنے فن میں یکتا اور ہنر میں بے مثال تھے۔ ایک زمانہ میں جب فن و ثقافت اور ہنر کی قدر تھی تو موسیقی کی دنیا میں بندو خاں کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا تھا۔ انھیں یہ کمال حاصل تھا کہ وہ سارنگی کی مدد سے مختلف سریلی اور نازک آوازیں نکال سکتے تھے جو عام طور پر سازوں کے ذریعے نہیں پیدا کی جا سکتیں۔

    معروف موسیقار اور سارنگی نواز بندو خان کا یہ تذکرہ ان کی برسی کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ 13 جنوری 1955ء کو وفات پاگئے تھے۔

    آج کلاسیکی موسیقی کی دنیا کے بندو خان اور ان جیسے کئی فن کار اور ماہر سازندے ہی ہمارے درمیان موجود نہیں بلکہ بدقسمتی یہ ہے کہ سارنگی اور اس جیسے کئی ساز اپنی تمام تر نزاکت و دل کشی اور کمال و ہنر کے باوجود متروک ہوچکے ہیں۔ نئی نسل کو سارنگی سے کوئی دل چسپی نہیں اور یوں بھی انھیں اس کی باریکیاں کون بتائے اور اس کا سلیقہ قرینہ کوئی نوجوان موسیقار کس سے سیکھے؟ پھر جدید موسیقی میں تو سارنگی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے 1959ء میں بعد از مرگ استاد بندو خان کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ بندو خان نے موسیقی اور سارنگی کا ابتدائی درس اور سازوں کی تربیت اپنے والد علی جان خان سے لی، پھر اپنے ماموں اُستاد مَمَن سے موسیقی کی تعلیم پائی اور ریاضت کرکے فن کو نکھارا۔ آل انڈیا ریڈیو، دہلی اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس سے منسلک ہو گئے۔ بندو خان ریاست رام پور اور اندور کے دربار میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے عزّت اور انعام پاتے رہے تھے۔

    کہتے ہیں کہ ہندوستان کی قدیم کلاسیکی موسیقی کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی غرض سے استاد بندو خان نے سنسکرت بھی سیکھی تھی۔ یہ ان کے اپنے فن سے لگاؤ اور جنون کی ایک مثال ہے۔

    بندو خان 1880ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد علی جان خان بھی سارنگی نواز تھے جب کہ سُر ساگر کے موجد ممّن خان ان کے ماموں تھے۔ یوں اپنے گھر میں فنِ موسیقی پر باتیں اور ساز کا مظاہرہ دیکھتے ہوئے بندو خان بھی اس کے شیدائی ہوگئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بندو خان کراچی چلے آئے تھے۔ یہاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور اسی شہر میں ان کا انتقال ہوا۔

    استاد بندو خان کو 500 راگوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ” تان پلٹے “، ” روایتی بندشیں“، ” راگ مالکوس “، ” راگ ملہار “ اور ” راگ بھیرویں “ استاد کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ استاد بندو خاں نے سارنگی بجانے میں تو کمال حاصل کیا مگر وہ اس میں نت نئی تبدیلیاں کرنے کا بھی سوچتے رہتے تھے، اور سارنگی کے تاروں کی تعداد 34 سے گھٹا کر 12 کر دی جس کی وجہ سے اس کے سریلے پن میں اضافہ ہو گیا۔ بندو خان کلاسیکی موسیقی پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔

    افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ استاد بندو خان اپنے فن کے اوج اور نہایت پذیرائی کے باوجود کبھی مالی طور پر آسودہ نہ ہوسکے۔ بہت تنگی ترشی سے وقت گزارا۔ ان کی قدر دانی زبانی جمع خرچ اور واہ وا تک محدود تھی۔ بندو خان نے اُردو اور ہندی میں دو کتابیں بھی تحریر کی تھیں جن کے نام ” جوہرِ موسیقی “ اور ” سنگیت وِوِیک درپَن“ ہیں۔

  • موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو شہنشاہ نیرو بانسری بجا رہا تھا اور یہ بات ہے سنہ 64 عیسوی کی۔ اس حکم راں کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ نیرو اس وقت بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ آگ بھی اس نے خود لگوائی تھی۔

    خیر، ہمارا اصل موضوع یہ نہیں‌ ہے۔ بانسری کے بارے میں جان لیں کہ قدیم دور کا انسان بھی اس کے وجود سے پھوٹنے والے سُروں اور سماعتوں میں رَس گھولتی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ بانسری کی تان نے اگر ہوش مندوں کو مدہوش کیا تو اور دیوانوں نے اسے معرفت کے سربستہ رازوں تک پہنچنے کا وسیلہ بتایا ہے۔

    بانسری کی مختلف شکلیں ہیں اور اسی لیے یہ بانس یا دھات یا ابونائیٹ کی ہوسکتی ہے۔ اس میں بالعموم چھے سوراخ ہوتے ہیں۔ بانسری بجانے والا اس میں اپنا سانس پھونکتا ہے اور ان سوراخوں پر انگلیاں رکھتے ہوئے مہارت کے ساتھ ہٹاتا ہے اور اس طرح میٹھے سُر بکھیرتے ہیں۔

    ہوا کے دوش پر سُر بکھیرنے والی بانسری کے ساتھ گائے گئے گیت سماعتوں میں مٹھاس، چاشنی اور نغمگی سمو دیتے ہیں اور برصغیر کی موسیقی اور فلم انڈسٹری میں اس کا سحر آج بھی قائم ہے۔

    پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے مقبول گیتوں میں بانسری کی تان نمایاں رہی جب کہ شعراء نے اپنے گیتوں میں‌ بھی بانسری کو خوب صورت ناموں سے جگہ دی ہے۔ اسے ونجلی، بنسی، بانسری کہہ کر اشعار میں‌ پرویا گیا ہے۔ یہاں ہم چند پاکستانی گیتوں کا ذکر کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔

    مالا بیگم کی آواز آج اس گیت کی صورت میں‌ بھی زندہ ہے جس کے بول ہیں’’ بنسی بجائے کوئی ندیا کے پار… یہ فلم جاگ اٹھا انسان کا وہ گیت تھا جس کی دُھن لال محمد اقبال نے بنائی تھی اور شاعر دکھی پریم نگری تھے۔ 1966ء کی اس فلم میں شائقینِ سنیما نے اداکارہ ’’زبیا‘‘ کو اس گیت پر رقصاں دیکھا تھا۔

    ہدایت کار رزاق کی فلم ’’کٹاری‘‘ 1968ایک خانہ بدوش رقاصہ کی کہانی تھی ۔ یہ کردار معروف فن کارہ زمرد نے ادا کیا تھا۔ یُوں تو کٹاری کے متعدد نغمات مقبول عام ہوئے، لیکن اس کا مقبول ترین گیت جو میڈم نورجہاں نے گایا تھا، اس کے بول تھے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں 1968ء میں فلم کٹاری کا ایک نغمہ بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے ’’بنسی بجائی تو نے، نندیا اڑائی تو نے، تیری قسم سانورے، میں تو ہو گئی بانوریا…‘‘ فلم کے ہیرو طارق عزیز تھے جنھیں بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کی دھن ایم اشرف نے ترتیب دی تھی۔

    1970ء میں ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والی پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کا یہ گیت بھی لازوال ثابت ہوا جو نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’سن ونجلی دی مٹھری تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان وے…‘‘

    خواجہ خورشید انور کی اثر خیز دھن، میڈم نور جہاں کی دل کش گائیکی، اور استاد سلامت حسین کی بجائی ہوئی لازوال بانسری نے اس گیت کو امر کر دیا۔ 51سال گزر جانے کے باوجود اس گیت کی مٹھاس، دل کشی اور پسندیدگی برقرار ہے۔ اس فلم کا دوسرا ونجلی گیت جو دو گانا تھا۔

    ایک فلمی گیت تھا، او ونجلی والڑیا، تینو کر بیٹھی آں پیار … ونجلی والڑیا جس میں میڈم نور جہاں کے ساتھ گلوکار منیر حسین نے آواز ملائی تھی۔ یہ اپنے وقت کا مقبول ترین اور سب سے پسندیدہ فلمی نغمہ تھا۔

    گلوکارہ مہناز نے ایک نہایت خوب صورت اور دل میں اتر جانے والے بولوں پر مشتمل گیت گایا تھا جس کے بول تھے’’او میرے سانوریا بانسری بجائے جا، بانسری بجا کے میرے ہوش بھلائے جا۔‘‘ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت مشہور اداکارہ آسیہ پر پکچرائز ہوا اور ان کے ساتھ اداکار ندیم کو بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا۔ فلم تھی بڑے میاں دیوانے جو 1977 میں ریلیز ہوئی تھی۔

  • چھے نگار ایوارڈ موسیقار کمال احمد کے کمالِ فن کا اعتراف ہیں!

    چھے نگار ایوارڈ موسیقار کمال احمد کے کمالِ فن کا اعتراف ہیں!

    کمال احمد نے موسیقی کی دنیا میں اپنے کمالِ فن کی بنیاد پر خوب مرتبہ پایا اور پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی دھنوں کے سبب چھے مرتبہ نگار ایوارڈ سے نوازے گئے۔ آج بھی ان کی موسیقی سے سجے ہوئے کئی گیت کمال احمد کی یاد دلاتے ہیں۔

    آپ نے یہ گیت ضرور سنا ہو گا، جسے معروف مزاحیہ اداکار رنگیلا پر فلمایا گیا تھا، ‘گا مورے منوا گاتا جارے…جانا ہے ہم کا دور۔ اسی طرح مقبول ترین فلمی گیت کس نے توڑا ہے دل حضور کا، کس نے ٹھکرایا تیرا پیار کی موسیقی بھی کمال احمد ہی نے ترتیب دی تھی۔

    پاکستان کے اس نام ور موسیقار نے 1937 کو اترپردیش میں آنکھ کھولی۔ ابتدا ہی سے موسیقی سے شغف تھا اور قسمت نے یاوری کی تو فلم ‘شہنشاہ جہانگیر کے لیے گیتوں کی دھنیں ترتیب دیں۔ بعد کے برسوں میں فلمی دنیا میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ یہ سلسلہ کئی لاجواب دھنوں کے ساتھ شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے تک جاری رہا اور ‘دیا اور طوفان’ جیسی کام یاب فلم کے علاوہ انھوں نے رنگیلا، دل اور دنیا، تیرے میرے سپنے، دولت اور دنیا، وعدہ، سلسلہ پیار دا، دلہن ایک رات کی، کندن، عشق عشق، عشق نچاوے گلی گلی، اور ان داتا، آج کا دور جیسی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔

    کمال احمد کے گانوں سے کئی گلوکاروں نے شہرت حاصل کی اور پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ اپنی جگہ بنانے میں‌ کام یاب ہوئے۔

    فلم نگری کے اس باصلاحیت موسیقار نے 1993 میں آج ہی کے دن اپنی زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    پاکستان میں فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ نثار بزمی کی پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ وہ بھارت میں رہتے ہوئے 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔

    آج پاکستان کے اس مایہ ناز موسیقار کی برسی ہے۔ انھوں نے 2007ء میں‌ زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔

    نثار بزمی نے 1962ء میں پاک سرزمین پر قدم رکھا تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے جب فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کی تو کام یاب ترین موسیقار شمار ہوئے۔ بھارت سے پاکستان منتقل ہوجانا ان کی زندگی کا بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم نگری سے موسیقار کے طور پر اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    حکومتِ‌ پاکستان نے نثار بزمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    دنیائے موسیقی اور فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال اور رسیلے نغمات دینے والے شوکت علی ناشاد کو پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی ان کے تخلیقی جوہر اور فنی صلاحیتوں کی بدولت پہچان ملی۔ آج بھی جب ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو لبوں پر یہ گیت مچلنے لگتا ہے: ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم۔‘‘ ایک یہی گیت نہیں ʼجان کہہ کر جو بلایا تو برا مان گئےʼ، ʼلے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سےʼ بھی پاکستان اور بھارت میں‌ بھی بے پناہ مقبول ہوئے۔

    شوکت علی ناشاد زندگی کے آخری ایّام میں صاحبِ فراش ہو گئے اور برین ہیمبرج کے بعد کومے کی حالت میں 3 جنوری 1981ء کو ان کی روح نے ہمیشہ کے لیے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ آج اس عظیم موسیقار کی برسی ہے۔

    ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم‘‘ جیسے سدا بہار گیت موسیقار ناشاد نے 1974ء میں فلم ’’ایمان دار‘‘ کے لیے کمپوز کیا تھا۔ اسے تصوّر خانم کی آواز میں ریکارڈ کروایا گیا تھا۔

    ناشاد 1918ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام شوکت علی دہلوی تھا۔ ان کے والد غلام حسین خان اپنے دور کے ایک معروف طبلہ نواز تھے۔ تقسیم ہند سے قبل وہ موسیقار غلام حیدر کے ساتھ سازندے کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1953ء میں نخشب جارچوی نے فلم ’’نغمہ‘‘ کی موسیقی کے لیے شوکت علی دہلوی کی خدمات حاصل کیں اور انھیں ’’ناشاد‘‘ کا نام دیا۔ فلم ’’نغمہ‘‘ کے گانوں نے ہندوستان بھر میں دُھوم مچا دی۔

    ناشاد کا نام 1953ء سے ایک کام یاب موسیقار کے طور پر لیا جانے لگا۔ انھوں نے پہلی بار 1947ء میں فلم ’’دلدار‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ابتدائی زمانے میں وہ شوکت علی اور شوکت حسین کے نام سے مشہور ہوئے اور بعد میں ناشاد نام اپنایا۔

    ناشاد 1964ء میں پاکستان آگئے اور یہاں سب سے پہلے نخشب کی فلم ’’میخانہ‘‘ کے لیے موسیقی دی۔ اس فلم کے چند گیت بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے‘‘ بھی شامل تھا۔ ناشاد نے پاکستان آنے کے بعد 58 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی آخری فلم آزمائش تھی۔

    اس معروف موسیقار نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور فلموں‌ مے خانہ، جلوہ، ہم دونوں، تم ملے پیار ملا، سال گرہ، سزا، افسانہ، چاند سورج، رم جھم، بندگی اور دیگر کے لیے اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ناشاد لاہور کے ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    آج پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات ہے۔ انھیں‌ اپنے فن میں‌ ماہر اور بے مثل مانا جاتا ہے۔ وہ ایسے موسیقار تھے جس نے اپنے علم اور اس فن میں‌ مہارت و تجربات کو کتابی شکل بھی دی جس سے موسیقی کا شوق رکھنے والوں نے استفادہ کیا۔

    1975ء میں 65 سال کی عمر فیروز نظامی نے آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    1910ء میں لاہور کے ایک فن کار گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے فیروز نظامی نے اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا اور اسی عرصے میں موسیقی کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔ وہ اپنے ہی خاندان کے مشہور موسیقار استاد عبدالوحید خان کیرانوی کے زیرِ تربیت رہے۔

    1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر ملازم ہوئے۔ انھو‌ں نے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی کی فلمی صنعت سے ناتا جوڑ لیا اور وہاں بھی خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل تھیں۔ فیروز نظامی کی وجہِ شہرت شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی بدولت فیروز نظامی کے فن و کمال کا بہت چرچا ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور لوٹ آئے تھے جہاں انھوں نے متعدد فلموں‌ کے لیے لازوال موسیقی ترتیب دی۔ ان کی فلموں میں سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن اور غلام شامل تھیں۔ نام ور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سَر ہے۔

    فیروز نظامی ایک مصنّف بھی تھے جنھوں نے سُر اور ساز، دھن اور آواز کی نزاکتوں اور باریکیوں پر لکھا۔ ایسے موسیقار بہت کم ہیں‌ جنھوں‌ نے اس فن کو اگلی نسل تک پہنچانے اور موسیقی و گائیکی کی تعلیم و تربیت کے لیے تحریر کا سہارا لیا ہو۔ فیروز نظامی کی کتابوں‌ میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات سرِفہرست ہیں۔

    پاکستان کے اس نام وَر موسیقار کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کی برسی

    نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کی برسی

    آج پاکستان کے نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گائیک استاد نزاکت علی خان کا یومِ وفات ہے۔ وہ 14 جولائی 1983ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔

    استاد نزاکت علی خان 1932ء میں ضلع ہوشیار پور کے موسیقی اور گائیکی کے حوالے سے مشہور قصبے چوراسی میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ نسب استاد چاند خان، سورج خان سے ملتا ہے جو دربارِ اکبری کے نامور گائیک اور میاں تان سین کے ہم عصر تھے۔

    استاد نزاکت علی خان کے والد استاد ولایت علی خان بھی اپنے زمانے کے نام ور موسیقار تھے اور انھیں دھرپد گائیکی میں کمال حاصل تھا۔ استاد نزاکت علی خان اور ان کے چھوٹے بھائی استاد سلامت علی خان نے اپنے والد سے اس فن کی تعلیم حاصل کی اور کم عمری میں اپنی گائیکی کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کی اور ملتان آبسے جہاں سے بعد میں لاہور کا رخ کیا اور اپنی وفات تک یہیں رہے۔ لاہور میں انھوں نے فنِ گائیکی میں بڑا نام اور مقام پایا۔ استاد نزاکت علی خان کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • یومِ‌ وفات: ماسٹر محمد صادق پاکستان کے واحد سازندے تھے جن کا ہارمونیم کا انسٹرومینٹل کیسٹ ریلیز ہوا تھا

    یومِ‌ وفات: ماسٹر محمد صادق پاکستان کے واحد سازندے تھے جن کا ہارمونیم کا انسٹرومینٹل کیسٹ ریلیز ہوا تھا

    پاکستان کے مشہور موسیقار اور ہارمونیم نواز ماسٹر محمد صادق 5 جولائی 1987ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ماسٹر محمد صادق پنڈی والے کے نام سے معروف تھے۔

    ماسٹر محمد صادق 1923ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان فنِ‌ موسیقی اور گائیکی سے وابستہ تھا۔ ان کے والد استاد نادر علی اور تایا استاد فیروز خاں نشی خاں والے اپنے زمانے کے معروف طبلہ نواز تھے۔ ماسٹر محمد صادق نے انہی سے طبلہ بجانا سیکھا اور گجرات کے میاں نبی بخش کالرے والے اور استاد کرم الٰہی ربابی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔

    اس زمانے میں ہارمونیم ایک مقبول ساز تھا اور موسیقی کی محافل میں‌ اس کا استعمال عام تھا۔ ماسٹر محمد صادق ہارمونیم بجانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کے واحد ہارمونیم نواز تھے جن کے ہارمونیم کا انسٹرومینٹل کیسٹ جاری ہوا تھا۔

    ان کے فن پر لوک ورثہ اور پاکستان ٹیلی وژن نے خصوصی ویڈیو فلمیں تیار کی تھیں۔ ماسٹر محمد صادق کے شاگردوں میں معروف گلوکارہ مالا اور ان کی بہن شمیم نازلی کے نام سرفہرست ہیں۔

    ماسٹر محمد صادق کو راولپنڈی میں قبرستان ڈھوک الٰہی بخش میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    یومِ وفات: فلمی موسیقار واجد علی ناشاد نے پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں‌ کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے

    پاکستان کی فلم نگری کے ممتاز موسیقار واجد علی ناشاد 18 جون 2008ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کے والد شوکت علی ناشاد بھی فلمی موسیقار تھے۔

    واجد علی ناشاد کا سنِ پیدائش 1953ء ہے۔ ان کا تعلق ممبئی سے تھا۔ ان کے والد 1964ء میں اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور چلے آئے۔ ہجرت سے قبل واجد جس اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، وہاں انھوں نے میوزک ٹیچر پیٹر ہائیکین سے پیانو بجانا سیکھا تھا۔

    واجد علی ناشاد کو اپنے والد کی وجہ سے موسیقی کا شوق تو تھا ہی، بعد میں انھوں نے خود اس فن میں دل چسپی لی اور مہارت حاصل کی۔ انھوں نے پاکستان میں کئی فلموں میں اپنے والد کے ساتھ بطور اسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر کام کرتے ہوئے کلاسیکل گیت سنگیت کو سیکھا اور مغربی میوزک کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنیں منفرد اور مقبول ثابت ہوئیں۔

    واجد علی ناشاد نے تقریباً 50 فلموں کے لیے بطور موسیقار کام کیا جب کہ تقریباً 300 فلموں کا بیک گراؤنڈ میوزک بھی دیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈراموں ’’دشت ‘‘، ’’دوریاں‘‘، ’’ باغی ‘‘ ، ’’پراندہ ‘‘ ، ’’سلسلہ‘‘ ، ’’لنڈا بازار ‘‘ سمیت کئی سیریلوں کے ٹائٹل سانگ بھی بنائے۔

    واجد علی ناشاد نے 1977ء میں فلم ’’پرستش‘‘ کی موسیقی ترتیب دے کر اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

  • نام وَر موسیقار کمال احمد کی برسی

    نام وَر موسیقار کمال احمد کی برسی

    6 جون 1993ء کو نام وَر فلمی موسیقار کمال احمد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ کمال احمد پاکستان فلم انڈسٹری کے ان موسیقاروں میں سے ایک تھے جن کی تیّار کردہ دھنیں بہت پسند کی گئیں اور کئی گلوکاروں کی شہرت کا سبب بنیں۔

    کمال احمد 1937ء میں گوڑ گانواں (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی سے لگاؤ نے انھیں اس فن کے اسرار و رموز سیکھنے پر آمادہ کیا اور فلم شہنشاہ جہانگیر نے انھیں بڑے پردے پر اپنے فن کو پیش کرنے کا موقع دیا۔ اس کے بعد انھوں نے فلم طوفان میں فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور فلم سازوں کی ضرورت بن گئے۔

    کمال احمد نے متعدد فلموں میں موسیقی دی جن میں رنگیلا، دل اور دنیا، تیرے میرے سپنے، دولت اور دنیا، راول، بشیرا، وعدہ، سلسلہ پیار دا، دلہن ایک رات کی، کندن، محبت اور مہنگائی، عشق عشق، مٹھی بھر چاول، عشق نچاوے گلی گلی، سنگرام اور ان داتا شامل ہیں۔

    موسیقی کی دنیا کے اس باصلاحیت فن کار نے 6 مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کیا اور جہاں‌ فلم انڈسٹری میں‌ نام بنایا وہیں‌ ان کی خوب صورت دھنوں میں کئی مقبول گیت آج بھی گنگنائے جاتے ہیں جو کمال احمد کی یاد دلاتے ہیں۔ ان گیتوں میں گا میرے منوا گاتا جارے، جانا ہے ہم کا دور، کس نے توڑا ہے دل حضور کا، کس نے ٹھکرایا تیرا پیار، بتا اے دنیا والے، یہ کیسی تیری بستی ہے شامل ہیں۔