Tag: پاکستانی نغمہ نگار

  • یادوں کو مہکاتے، سماعتوں‌ میں‌ رس گھولتے نغمات کے خالق تسلیم فاضلی کا تذکرہ

    یادوں کو مہکاتے، سماعتوں‌ میں‌ رس گھولتے نغمات کے خالق تسلیم فاضلی کا تذکرہ

    ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا۔‘‘ یہ گیت آپ نے بھی شاید سنا ہو، جو محبّت بھرے اور بے قرار دل کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ گیت تسلیم فاضلی کی یاد دلاتا ہے جو 1982ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں سے ایک ہیں‌ جنھیں‌ نوجوانی ہی میں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد شہرت اور مقبولیت مل گئی۔ 17 اگست کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرجانے والے اس شاعر نے دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ تسلیم فاضلی اردو کے مشہور شاعر دعا ڈبائیوی کے فرزند تھے۔ یوں ادبی ذوق انھیں‌ ورثے میں ملا اور وہ وقت بھی آیا جب تسلیم فاضلی خود شاعری کرنے لگے اور فلمی دنیا میں‌ اپنی خوب صورت شاعری کی بدولت نام بنایا۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور کئی کام یاب فلموں کے لیے انھوں نے خوب صورت گیت لکھے۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے نغمات تحریر کرنے پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    فلم انڈسٹری میں‌ اپنے زمانۂ عروج میں تسلیم فاضلی نے اس وقت کی معروف اداکارہ اور مقبول ہیروئن نشو سے شادی کی تھی۔

    فلم انڈسٹری کے اس باکمال تخلیق کار نے سادہ اور عام فہم شاعری کی اور ایسے گیت لکھے جو دلوں کو چُھو گئے اور پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی بہت مقبول ہوئے۔ ان کی مشہور غزل فلم زینت میں شامل کی گئی جس کا مطلع یہ ہے۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ وہ گیت ہے جو آج بھی ہماری سماعتوں‌ میں‌ رس گھول رہا ہے اور اسے بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اسی گیت نے تسلیم فاضلی پر شہرت کے دَر وا کیے تھے جس کے بعد انھیں بطور شاعر کئی فلموں کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا اور وہ صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے متعدد گیت لازوال ثابت ہوئے جن کے بول ہیں، یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، کہانی محبت کی زندہ رہے گی، ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے، ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا، مجھے دل سے نہ بھلانا، کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی۔

    یہ نغمات فلمی شاعری میں‌ کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور تسلیم فاضلی کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

  • ہم بھی اگر بچے ہوتے، پل میں ہنستے پل میں روتے!

    ہم بھی اگر بچے ہوتے، پل میں ہنستے پل میں روتے!

    1964 میں ہندی فلم "دُور کی آواز” ریلیز ہوئی جس کا ایک نغمہ بہت مشہور ہوا۔ اس کے خالق شکیل بدایونی تھے۔ یہ اس مشہور شاعر اور گیت نگار کے تخلیق کردہ اُن فلمی گیتوں‌ میں سے ایک ہے جنھیں‌ آج بھی گنگنایا اور پسند کیا جاتا ہے۔

    اس کا عنوان تھا "ہم بھی اگر بچے ہوتے” جو آشا بھونسلے، مناڈے اور محمد رفیع کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوا اور اس کے موسیقار روی تھے۔

    آپ نے بھی یہ نغمہ سنا ہو گا۔ آج اپنی یادوں کی چلمن اٹھا کر جھانکیے اور مان لیجیے کہ اس گیت کے بولوں میں ایک ایسی حقیقت اور سچّائی پوشیدہ ہے جس سے کوئی انکار نہیں‌ کرسکتا۔

    ہم بھی اگر بچے ہوتے
    نام ہمارا ہوتا گبلو ببلو
    کھانے کو ملتے لڈو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    کوئی لاتا گڑیا، موٹر، ریل
    تو کوئی لاتا پھرکی، لٹو
    کوئی چابی کا ٹٹو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    کتنی پیاری ہوتی ہے یہ بھولی سی عمر
    نہ نوکری کی چنتا، نہ روٹی کی فکر
    ننھے منے ہوتے ہم تو دیتے سو حکم
    پیچھے پیچھے پاپا ممی بن کے نوکر
    چاکلیٹ، بسکٹ، ٹافی کھاتے، پیتے دُدّو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو

    کیسے کیسے نخرے کرتے گھر والوں سے ہم
    پل میں ہنستے پل میں روتے کرتے ناک میں دم
    اکڑ بکڑ لکا چھپی، کبھی چھُوا چھو
    کرتے دن بھر ہلہ گلہ دنگا اور ادھم
    اور کبھی ضد پر اڑ جاتے جیسے اڑیل ٹٹو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

    اب تو یہ ہے حال کہ جب سے بیتا بچپن
    ماں سے جھگڑا باپ سے ٹکر بیوی سے اَن بَن
    کولہو کے ہم بیل بنے ہیں، دھوبی کے گدھے
    دنیا بھر کے ڈنڈے سَر پہ کھائیں دنادن
    بچپن اپنا ہوتا تو نہ کرتے ڈھینچو ڈھینچو
    اور دنیا کہتی
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو
    ہیپی برتھ ڈے ٹو یُو