Tag: پاکستانی نقاد

  • اردو اور انگریزی زبان کے نام وَر ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات

    اردو اور انگریزی زبان کے نام وَر ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات

    آج نام وَر نقاد، افسانہ اور ناول نگار ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 26 فروری 1978ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کا تعلق لکھنؤ سے تھا جہاں انھوں نے 22 نومبر 1913ء کو آنکھ کھولی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ’’رومانوی شاعروں پر ملٹن کے اثرات‘‘ کا موضوع پی ایچ ڈی کے لیے چنا اور یوں تعلیمی میدان میں مزید آگے بڑھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے تھے۔

    پاکستان میں انھوں نے جامعہ کراچی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی سے وابستگی کے دوران تدریسی فرائض انجام دینے کے ساتھ علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے۔ وہ انگریزی ادب کے ایک مستند استاد ہونے کے علاوہ بلند پایہ ادیب اور نقّاد تھے۔ انھیں جرمن اور فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا جب کہ اردو کے علاوہ فارسی اور عربی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر وں میں مختلف ادبیات کے رجحانات اور میلانات کا سراغ ملتا ہے جن میں ان کے فکر کا تنوع اور گہرائی دیکھی جاسکتی ہے۔

    اردو کی بات کی جائے تو ان کا شمار صفِ اوّل کے ناقدین میں ہوتا ہے۔ اردو زبان میں انھوں نے اپنی جو کتب یادگار چھوڑی ہیں‌، ان میں اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، ناول کیا ہے، ادبی تخلیق اور ناول، میر انیس اور مرثیہ نگاری اور تاریخ انگریزی ادب سرفہرست ہیں۔

    ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے افسانے بھی لکھے اور ناول بھی۔ ان کے ناولوں میں شامِ اودھ، آبلہ دل کا، سنگِ گراں اور سنگم شامل ہیں جب کہ افسانوں کا مجموعہ رہِ رسمِ آشنائی کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔

    کوئٹہ میں وفات پانے والے ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کو کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • صحرا میں‌ اذان دینے والے سلیم احمد

    صحرا میں‌ اذان دینے والے سلیم احمد

    ممتاز شاعر، نقاد اور ڈراما نویس سلیم احمد اپنے بے لاگ اور کھرے انداز میں لکھے گئے تنقیدی مضامین کی وجہ سے دنیائے ادب میں‌ متنازع تو رہے، لیکن‌ اسی تنقید اور کھرے پن نے انھیں‌ اپنے ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز بھی کیا۔

    سلیم احمد یکم ستمبر 1983 کو کراچی میں‌ وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی اور 1950 میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ ہمیشہ اعتراضات اور تنقید کی زد پر رہے۔

    سلیم احمد کو ایک اچھا ڈراما نویس بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، جب کہ اخبارات میں ان کے کالم بھی شایع ہوتے رہے جنھیں‌ بہت پسند کیا جاتا تھا۔

    ان کے شعری مجموعوں‌ میں‌ بیاض، اکائی، چراغ نیم شب جب کہ تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب میں‌ نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت اور اقبال ایک شاعر شامل ہیں۔

    ان کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    ان کا یہ شعر تحریر سے تقریر تک خوب برتا گیا

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں