Tag: پاکستانی ڈانسر

  • پاکستانی فلمیں اور ‘آئٹم گرل’

    پاکستانی فلمیں اور ‘آئٹم گرل’

    پاکستان اور بھارت میں فلمی پردے پر ‘آئٹم نمبر’ اور کسی ‘آئٹم گرل’ کا سہارا لے کر فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش نئی بات نہیں۔ ہیرو اور ہیروئن پر فلمائے گئے گانوں کے علاوہ فلم کی کہانی سے ہٹ کر شوخ گیت پر کسی حسینہ کا ڈانس فلم بینوں میں بہت مقبول رہا ہے۔

    اگر بات کریں پاکستانی فلموں کی تو ایسے چند نام ہماری فلمی تاریخ کا حصہ ہیں جنھوں نے اپنی اداؤں اور والہانہ انداز میں رقص کا مظاہرہ کرکے خوب شہرت حاصل کی۔ یہ پاکستانی فلموں میں آئٹم نمبرز کرنے والی وہ ڈانسر ہیں جنھیں اپنی پرفارمنس پر بیہودگی یا فحاشی کا الزام بھی سہنا پڑا۔ خاص طور پر پنجابی فلموں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ مجرے یا کلب ڈانس ہوا کرتے تھے جن میں پیشہ ور رقاصائیں یا طوائف کو ناچتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

    رخشی نے مجرا گیتوں پر اپنی پرفارمنس کی بدولت بہت شہرت پائی اور لگ بھگ چالیس سے زائد فلموں میں آئٹم نمبرز کیے۔ وہ بہت خوب صورت اور بہترین رقاص بھی تھی۔ اس نے فلم ڈائریکٹر (1951) سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور پچاس کے عشرے کی مقبول ترین ڈانسر بن گئی۔ فلم دلا بھٹی (1956) میں رخشی پر فلمایا ہوا گلوکارہ منور سلطانہ کا یہ گیت بہت مشہور ہوا تھا، پیار کر لے، آجا پیار کر لے ، پیسے نئیں جے کول تے ادھار کر لے۔

    ایمی مینوالا کا تعلق پارسی مذہب سے تھا جو پاکستان کی مشہور رقاصہ تھی۔ ایمی مینوالا نے فلم سوہنی (1955) سے فلمی کیریئر کا آغاز کیا اور لگ بھگ 50 فلموں میں نظر آئی۔ فلم باجی (1963) میں ایمی مینوالا پر فلمایا ہوا نسیم بیگم کا یہ گیت آج بھی ایک نسل کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے، جس کے بول ہیں، چندا توری چاندنی میں ، جیا جلا جائے رے۔۔۔

    کلاسیکی رقص کی ماہر پنّا نے فلموں میں کام کرنے کے ساتھ نجی اور سرکاری تقاریب میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے بڑا نام پایا۔ اس کی پہلی فلم غریب (1960) اور آخری فلم پائل (1970) تھی۔ ایک دہایئ کے دوران پنّا نے پچاس سے زائد فلموں کے لیے مجرے کیے۔

    فلم عزّت سے اپنا فلمی کیریئر شروع کرنے والی رقاصہ چھم چھم کو ساٹھ کے عشرہ میں مقبولیت ملی تھی اور اس رقاصہ نے سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا۔ فلم نائلہ (1965) میں مالا کا یہ خوب صورت گیت، کوئی پیار کا فسانہ گوری پیا کو سناؤ۔۔۔۔ چھم چھم پر فلمایا گیا تھا۔

    اس زمانے کی دوسری مقبول رقاصاؤں میں اداکارہ فریدہ، ڈانسر نگو، مینا چوہدری بھی شامل ہیں جنھیں مجرا گیتوں میں بہت پسند کیا گیا۔ ان میں مینا چوہدری پر سب سے ہٹ گیت کس نے توڑا ہے دل حضور کا۔۔۔۔ فلمایا گیا تھا جسے گلوکارہ مالا نے گایا تھا۔

  • بلبل چوہدری: رقص کرنے سے کہانی بُننے تک

    بلبل چوہدری: رقص کرنے سے کہانی بُننے تک

    رقص، پرفارمنگ آرٹ کی وہ شکل ہے جسے دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔ کسی بھی خطے اور ملک میں رقص، صرف آرٹ اور ثقافت نہیں بلکہ اسے ایک قسم کی عبادت اور روحانی سکون کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

    یہاں ہم پاکستان کے اُس مشہور رقاص کا تعارف پیش کررہے ہیں جسے بلبل چوہدری کے نام سے دنیا بھر میں‌ پہچان ملی۔

    1919 میں بوگرا میں آنکھ کھولنے والے بلبل چوہدری کا اصل نام رشید احمد چوہدری تھا۔ والد ان کے پولیس انسپکٹر تھے اور چٹاگانگ کے ایک قصبے کے رہائشی تھے۔

    کہتے ہیں بچپن ہی سے بلبل چوہدری کو فنونِ لطیفہ سے لگاؤ ہو گیا تھا۔ جلد ہی رقص نے ان کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی اور وہ اس فن میں گہری دل چسپی لینے لگے۔ زمانہ طالبِ علمی میں انھوں نے اسٹیج پرفارمنس شروع کی اور جب کالج پہنچے تو اورینٹل فائن آرٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔

    بلبل چوہدری کے لیے اسکول کے زمانے ہی میں رقص محض تفریحِ طبع کا ذریعہ اور تماشا نہیں رہا تھا بلکہ وہ اسے باقاعدہ فن کے طور پر اہمیت دینے لگے تھے جسے ان کی نظر میں باقاعدہ سیکھنے سکھانے اور فروغ دینے کی ضرورت تھی۔

    انھوں نے ہندوستان میں تھیٹر کی مشہور تنظیم انڈین پیپلز تھیٹریکل ایسوسی ایشن سے ناتا جوڑ لیا اور اس پلیٹ فارم سے جو بیلے ترتیب دیے ان کی شہرت امریکا اور یورپ تک جا پہنچی۔

    بلبل چوہدری نے 1943 میں ایک ہندو رقاصہ سے شادی کی جس نے اسلام قبول کر لیا اور قیامِ پاکستان کے بعد یہ جوڑا پاکستان آگیا۔ یہاں انھوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان تھیٹر اور اسٹیج پر پرفارمنس دی اور خوب شہرت حاصل کی۔ بہترین رقاص اور اس فن کے فروغ کی کوششوں کے اعتراف میں بلبل چوہدری کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔

    بلبل چوہدری ایک کہانی کار بھی تھے اور ایک ناول کے علاوہ ان کی متعدد مختصر کہانیاں بھی شایع ہوئیں۔ بلبل چوہدری سرطان کے مرض میں مبتلا تھے۔ 17 مئی 1954 کو انھوں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔