Tag: پاکستانی ڈاکٹر

  • امریکا میں پاکستانی ڈاکٹر کو دہشت گردی کے الزام میں 18سال قید

    امریکا میں پاکستانی ڈاکٹر کو دہشت گردی کے الزام میں 18سال قید

    منیسوٹا: امریکی ریاست منیسوٹا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر محمد مسعود کو دہشت گردی کے الزام میں 18 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق 31 سالہ پاکستانی ڈاکٹر محمد مسعود نے دہشت گرد تنظیم داعش کے لیے کام کرنے کے ارادے کا اعتراف کر لیا، عدالت نے انھیں اٹھارہ سال قید کی سزا سنائی۔

    امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر محمد مسعود منیسوٹا کی میڈیکل ریسرچ کمپنی کے لیے کام کر رہا تھا، محمد مسعود H1B ویزے پر امریکا آیا تھا، تو اسے مارچ 2020 کو منیپولس ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

    اس معاملے کی تحقیقات کے لیے امریکی ایف بی آئی کے جوائنٹ ٹیررسٹ ٹاسک فورس نے حصہ لیا۔ روچیسٹر میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر کو داعش کو مادی مدد فراہم کرنے کی کوشش پر رہائی کے بعد بھی 5 سال تک زیر نگرانی رہنا پڑے گا۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق پاکستان میں ایک لائسنس یافتہ میڈیکل ڈاکٹر محمد مسعود پہلے H-1B ویزا کے تحت روچیسٹر، منیسوٹا میں ایک میڈیکل کلینک میں ریسرچ کوآرڈینیٹر کے طور پر ملازم تھا، جنوری 2020 اور مارچ 2020 کے درمیان مسعود نے دہشت گرد تنظیم میں شمولیت کے لیے اپنے بیرون ملک سفر کی سہولت کے لیے ایک خفیہ پیغام رسانی کی ایپلی کیشن کا استعمال کیا۔

    مسعود نے دولت اسلامیہ عراق و الشام (ISIS) میں شامل ہونے کی اپنی خواہش کے بارے میں متعدد بیانات دیے، اور اس نے نامزد دہشت گرد تنظیم اور اس کے رہنما سے اپنی وفاداری کا عہد کیا، مسعود نے امریکا میں ’لون وولف‘ دہشت گرد حملے کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

    21 فروری 2020 کو مسعود نے شکاگو، الینوائے سے عمان، اردن کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدا اور وہاں سے شام جانے کا ارادہ کیا، 16 مارچ 2020 کو مسعود کے سفری منصوبے بدل گئے کیوں کہ اردن نے کرونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے آنے والے سفر کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دیں تھیں، اس کے بعد مسعود نے ایک ایسے فرد سے ملنے کے لیے منیپولس سے لاس اینجلس جانے پر رضامندی ظاہر کی جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ اسے ISIS کے علاقے تک پہنچانے کے لیے کارگو جہاز کے ذریعے سفر میں اس کی مدد کرے گا۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق 19 مارچ 2020 کو مسعود نے لاس اینجلس کیلیفورنیا کے لیے جانے والی پرواز میں سوار ہونے کے لیے روچیسٹر سے منیپولس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا سفر کیا۔ ایئرپورٹ پہنچنے پر مسعود نے اپنی فلائٹ میں چیک اِن کیا اور بعد ازاں ایف بی آئی کی جوائنٹ ٹیررازم ٹاسک فورس نے اسے گرفتار کر لیا۔ مسعود نے 16 اگست 2022 کو دہشت گرد تنظیم کو مادی مدد فراہم کرنے کی کوشش کرنے کا اعتراف کیا۔

  • پاکستانی ڈاکٹروں کا حیرت انگیز کارنامہ،  بگڑا چہرہ اصلی حالت میں بحال

    پاکستانی ڈاکٹروں کا حیرت انگیز کارنامہ، بگڑا چہرہ اصلی حالت میں بحال

    کوئٹہ : پاکستانی ڈاکٹروں نے حیرت انگیز کارنامہ انجام دیتے ہوئے ٹریفک حادثے کے شدید زخمی نوجوان کا بگڑا چہرہ اصلی حالت میں بحال کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کوئٹہ میں ڈاکٹروں نے بڑا کارنامہ کر دکھایا، ٹراما سینٹر کے ماہر ڈاکٹروں نے چھے گھنٹے طویل آپریشن کرکے ٹریفک حادثے کے شدید زخمی نوجوان کا بگڑا چہرہ درست کردیا۔

    ایم ڈی ٹراما سینٹر نے بتایا کہ اٹھائیس سال کے زخمی زبیح اللہ کا چہرہ بری طرح متاثر ہوا تھا اور شناخت کے قابل نہیں تھا اور کھوپڑی میں ہلکے فریکچر، بائیں کان، چہرے اورگردن پر گہرے زخم کے سبب پہچان کرنا دشوار تھا۔

    جس پر ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم نے مریض ذبیح اللہ کی نا صرف جان بچائی بلکہ اس کے چہرے کی سرجری کرکے اصل حالت میں بحال کیا۔

    آپریشن میں نیورو سرجن ڈاکٹر محمود کبزئی ، زبانی اور میگزیلوفیشل سرجنز ڈاکٹر شازیہ اور ڈاکٹر یاسر بلال کبزئی ،اینستھیزسٹ ڈاکٹر فرید ہاشمی اور ڈاکٹر بشیر اور ٹراما سینٹر کا تمام او ٹی عملہ نے کیا۔

  • پاکستانی ڈاکٹر کا کارنامہ،ایک وینٹی لیٹرکو7مریضوں کیلئے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟

    پاکستانی ڈاکٹر کا کارنامہ،ایک وینٹی لیٹرکو7مریضوں کیلئے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟

    کینیکٹی کٹ : امریکی ریاست کینیکٹی کٹ کے سینیٹر ڈاکٹر سعود انور نے اپنے ساتھی ڈاکٹر کے ساتھ مل کر ایسی ڈیوائس بنا لی ، جس کی مدد سے ایک وینٹی لیٹر سات مریضوں کو مصنوعی سانس دے سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا کے تمام ممالک اس وقت وینٹی لیٹرز کی قلت کا شکار ہیں، ایسے میں امریکہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر نے ایک وینٹی لیٹر کو ایک سے زیادہ مریضوں کیلئےقابل استعمال بنانے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔


    ریاست کینیکٹی کٹ کے سینیٹر اور ڈاکٹر سعود انور نےاپنے ساتھی ڈاکٹر کے ساتھ مل کر ایسی ڈیوائس تیاری کی، جس کی مدد سے ایک وینٹی لیٹر سات مریضوں کو مصنوعی سانس دے سکتا ہے۔

    ڈاکٹر سعود انور کا کہنا ہے اس ڈیوائس کی مدد سے کورونا وائرس کے شکار زیادہ سے زیادہ افراد فیضیاب ہوسکیں گے۔

    خیال رہے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے دنیا کومفلوج کردیا ہے اور دوسو ممالک اورعلاقوں میں کورونا وائرس 37 ہزارسے زائد افراد کی جان لے گیا جبکہ سات لاکھ پچاسی ہزارسے زیادہ متاثرہیں۔

    کورونا وائرس کے صحت یاب مریضوں کی تعداد ایک لاکھ پینسٹھ ہزارسے زائد ہوگئی ہے۔

    امریکا میں کورونا وائرس کے 409 نئے کیسز سامنے آئے ، جس کے بعد کورونا سے متاثر افراد کی تعداد  ایک لاکھ چونسٹھ ہزاردوسوتریپن ہوگئی جبکہ وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد تین ہزارایک سوسڑسٹھ  ہے

    امریکی میڈیا کے مطابق نیویارک کے اسپتال میں وینٹی لیٹرکم پڑنے کے بعداینس تھیزیا کی مشین استعمال کی جارہی ہے۔

    اٹلی میں کورونا وائرس سے 11 ہزارپانچ سواکیانوے افراد ہلاک اور ایک لاکھ ایک ہزارسات سوانتالیس متاثرہیں جبکہ اسپین میں سات ہزارسات سوسولہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور مریضوں کی تعدادستاسی ہزارسے زائد ہے۔

    برطانیہ میں ایک ہزارچارسوآٹھ افراد ہلاک اوربائیس ہزارایک سواکتالیس متاثرہیں، اسی طرح ایران میں کورونا وائرس سے اب تک دوہزارسات سوستاون افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور وائرس سے متاثرین کی تعداداکتالیس ہزارسے زائد ہوگئی۔

  • کورونا کے مریضوں کا علاج، برطانیہ میں پاکستانی ڈاکٹر نے فرض کی خاطرجان قربان کردی

    کورونا کے مریضوں کا علاج، برطانیہ میں پاکستانی ڈاکٹر نے فرض کی خاطرجان قربان کردی

    مانچسٹر : برطانیہ میں پاکستانی ڈاکٹر نے فرض کی خاطرجان قربان کردی، ڈاکٹرحبیب برطانیہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کررہے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں کورونا وائرس کیخلاف فرنٹ لائن پرلڑنےوالے پاکستانی جنرل فزیشن ڈاکٹر حبیب زیدی انتقال کر گئے ،76 سالہ ڈاکٹرحبیب برطانیہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کر رہے تھے۔

    ڈاکٹر حبیب دو روزسےکورونا وائرس کے شبے میں اسپتال میں زیرعلاج تھے، ڈاکٹر حبیب کی بیٹی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ والد میں وائرس کی ابتدائی علامات تھیں، ان کے کورونا وائر س کے ٹیسٹ کی رپورٹس آنی ہیں۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ مرحوم ڈاکٹر حبیب زیدی کی بیوہ قرنطینہ میں چلی گئیں، حبیب زیدی نےایسکیس کےاسپتال میں47سال فرائض انجام دیے۔

    خیال رہے برطانیہ میں کرونا کے مریضوں کی تعداد 11,658 ہو گئی جبکہ  وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 578 تک جا پہنچی ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 113 ہلاکتیں ہوئیں۔

    این ایچ ایس اب تک 104,866 افراد کے ٹیسٹ کر چکا ہے ، جبکہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 2129 نئے کیسز سامنے آئے ، طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ دو سے تین ہفتوں میں وائرس کا پھیلاؤ بڑے پیمانے پر بڑھے گا۔

  • گلگت بلتستان : کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے والا  پاکستانی ڈاکٹر چل بسا

    گلگت بلتستان : کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے والا پاکستانی ڈاکٹر چل بسا

    گلگت بلتستان: کوروناوائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والا ڈاکٹر خود وائرس کا شکار ہوکر چل بسا ، جس کے بعد ملک میں مہلک وائرس سے اموات کی تعداد پانچ ہوگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک بھرمیں کورونا کےمریضوں کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے ، گلگت میں کوروناوائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران وائرس سے متاثرہ ڈاکٹر چل بسا، جس کے بعد ملک میں مہلک وائرس سےاموات کی تعداد پانچ ہوگئی ہے۔

    ترجمان گلگت بلتستان حکومت نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر اسامہ متاثرہ مریضوں کے علاج کے دوران وائرس کا شکار ہوئے، ڈاکٹر اسامہ نے انسانیت کیلئے اپنی جان قربان کی،وہ قومی ہیروہیں۔

    کرونا وائرس کی وبا کے بعد ڈاکٹر اسامہ ریاض جگلوٹ گلگت بلتستان ہی میں سکرینینگ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، انھوں نے قائداعظم میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کی تھی جبکہ اگست 2019 میں انہوں نے پی پی ایچ آئی گلگت میں بطور ڈاکٹر کام شروع کیا تھا اور اسی سال فروری 2020 میں ایف سی پی ایس پارٹ ون کا امتحان بھی پاس کیا اور جولائی میں سپیشلائزیشن میں انڈکشن کے منتظر تھے۔

    خیال رہے ملک بھرمیں مریضوں کی تعدادسات سوپچانوےسےتجاوزکرگئیں، سندھ میں تین سوپچاس سےزائد ہوگئی،پنجاب میں مریضوں کی تعداددوسوبیس سےبڑھ گئیں،بلوچستان میں ایک سوچارمریض زیرعلاج ہے نیٹ گلگت میں اکہترمریضوں کاعلاج جاری ہے،اسلام آباد میں پندرہ ہوگئی،اب تک چھ افرادصحت یاب ہوچکےہیں۔

  • پاکستانی ڈاکٹر چینی ٹیم کے اہم رکن بن گئے

    پاکستانی ڈاکٹر چینی ٹیم کے اہم رکن بن گئے

    اسلام آباد: پاکستانی ڈاکٹر چینی ٹیم کے کے اہم رکن بن گئے، ڈاکٹر رحمت علی چینی ورکرز کو میڈیکل کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق قراقرم کے پہاڑوں میں پاک چین دوستی کی گونج ہے، پاکستانی ڈاکٹر رحمت علی کی چینی ٹیم سے دوستی کے چرچے ہورہے ہیں، ڈاکٹر رحمت علی نے کئی بار اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر فیلڈ کا تحفظ یقینی بنایا ہے۔

    ڈاکٹر رحمت علی شاہراہ قراقرم کی تعمیرنو کرنے والی چینی کمپنی کی ٹیم کا حصہ ہیں، چینی اور پاکستانی ورکرز کو طبی امداد فراہم کرنا ڈاکٹر علی کا کام ہے، وہ پرامید ہیں کہ سی پیک منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی میں معاون ثابت ہوگا۔

    مزید پڑھیں: سی پیک پاکستان کی صنعتی ترقی کا باعث بنے گا، چینی اخبار

    واضح رہے کہ بین الاقوامی جریدے چائنا ڈیلی کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے اسپیشل اکنامک زونز ملک میں صنعتی ترقی کا باعث بنیں گے۔

    چینی اخبار کے مطابق سی پیک کے تحت بننے والے اکنامک زونز پر پاکستان انحصار کرسکتا ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کی صنعتی ترقی کا باعث بنے گا، پاکستان کو اس شعبے میں چینی مہارت سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔

    چینی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان اسپیشل زونز سے بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی تاہم پاکستان کو بھی بنیادی سہولیات کی فراہمی اور امن و امان کی صورتحال کی بہتری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

  • پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ منعقد کیے جانے والے گلوبل گولز ایوارڈز میں ایک پاکستانی ادارے ’ڈاکٹ ۔ ہرز‘ نے بہترین اور کامیاب کوشش کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔

    یہ ایوارڈ اس ادارے یا فرد کو دیا جانا تھا جو خواتین اور کم عمر لڑکیوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے کام کرے۔ ’ڈاکٹ ہرز‘ نامی یہ ادارہ غیر ترقی یافتہ اور مضافاتی علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    نیویارک میں جاری جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران منعقدہ ایوارڈز کی تقریب میں یہ ایوارڈ ادارے کی بانی ڈاکٹر سارہ سعید خرم نے وصول کیا۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے ادارے کے کام کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا کہ ان کا ادارہ طبی سہولیات سے محروم خواتین کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑ کر ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ ادارہ موبائل، یا انٹرنیٹ سے ویڈیو کانفرنس / کال کے ذریعہ خواتین کو طبی آگاہی فراہم کرتا ہے اور ان کی مختلف بیماریوں کے لیے علاج تجویز کرتا ہے۔

    یہی نہیں یہ ادارہ کئی بیروزگار اور معاشی پریشانی کا شکار خواتین کو بھی مختلف طبی ٹریننگز دے کر ان کے ذریعہ روزگار کا سبب بن رہا ہے۔

    ادارے سے منسلک ڈاکٹرز گھر بیٹھ کر بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ مریضوں کا علاج کرسکتی ہیں۔ ان ڈاکٹرز کو ماہر کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور مڈ وائفس کے ذریعہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ روبرو بھی مریضوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔

    ادارے کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ ڈاکٹر اشعر حسین اور انہوں نے 2014 میں ایک کمیونٹی ہیلتھ پروجیکٹ کے تحت تجرباتی طور پر شروع کیا۔ آغاز میں کراچی کے مضافاتی علاقہ سلطان آباد میں ویڈیو کنسلٹنگ کے ذریعہ خواتین کو طبی امداد فراہم کی گئی۔ اس دوران 6 ماہ میں 100 خواتین اس سے مستفید ہوئیں۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، مزید لوگ بھی شامل ہوتے گئے اور انہوں نے ڈاکٹر عفت ظفر کے ساتھ اس کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کردیا جس کے بعد اب پاکستان میں ان کے 9 ٹیلی کلینکس کام کر رہے ہیں۔ 6 کراچی کے مضافاتی علاقوں کورنگی، وائے ایریا لانڈھی، نیو لیاری، ضیا کالونی، بن قاسم اور بلدیہ ٹاؤن میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، 2 صوبہ خیبر پختونخوا کے شہروں دادار اور مانسہرہ جبکہ ایک پنجاب کے علاقہ حافظ آباد میں واقع ہے جس کا حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ ایک  سال میں 22 ہزار افراد کو بالواسطہ اور ایک لاکھ افراد کو بلا واسطہ طبی امداد، طبی تربیت اور مختلف طبی سیشن فراہم کرچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    پاکستانی خواتین فلاحی اسپتالوں کی کیوں محتاج ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے بتایا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل پی ایم ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک میں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز کی تعداد صرف 1 لاکھ 57 ہزار 206 ہے یعنی 11 ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر۔ ان میں 74 ہزار خواتین ڈاکٹرز ہیں۔ پاکستان کے دیہی اور غیر ترقی یافتہ حصوں میں رہنے والوں میں سے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو کسی قسم کی کوئی طبی امداد میسر نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جن خواتین کو ان کا ادارہ طبی امداد فراہم کرتا ہے ان میں 80 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہیں اگر اس ادارے کا آسرا نہ ہو تو انہیں زندگی بھر کوئی اور طبی امداد مل ہی نہیں سکتی۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق ہمارے ملک میں جاری بدترین صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ’ہمارے گھروں میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اچھا کھانا بھی ان کے لیے، اچھی تعلیم بھی ان کے لیے، تمام سہولیات بھی انہیں میسر، اور اگر وہ بیمار پڑجائیں تو ہزاروں روپے خرچ کر کے بہترین ڈاکٹر سے ان کا علاج کروایا جائے گا‘۔ ’اگلی نسل کی ضامن ہونے کے باوجود لڑکیاں کم اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں اور اس کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے‘۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہی صنفی تفریق لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کی وجہ ہے جیسے لڑکی کوئی بوجھ ہو جس کی جلد سے جلد شادی کر کے بوجھ سے جان چھڑائی جائے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    انہوں نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ کم عمری کی شادیاں خواتین کے 70 فیصد طبی مسائل کی جڑ ہیں۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے لڑکیوں میں خون کی کمی اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ کم عمری میں شادی ہوجانے والی 42 فیصد لڑکیاں 20 سال کی عمر سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت بچوں کے وزن میں غیر معمولی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    یہی نہیں کم عمری کی شادیاں خواتین پر جنسی و گھریلو تشدد کا باعث بھی بنتی ہیں۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ دوران علاج اکثر انہیں خواتین نے کمپیوٹر کی اسکرین پر اپنے مسائل بتانے، یا تکلیف کا شکار کوئی جسمانی حصہ دکھانے سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ انہیں ’اجازت‘ نہیں تھی۔

    انہوں نے ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین میں اوسٹوپروسس (ہڈیوں کی بوسیدگی / ٹوٹ پھوٹ کا عمل) کا مرض زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستانی خواتین اپنے ہم عمر مردوں کی نسبت 20 سے 30 فیصد زیادہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے کا شکار ہیں۔

    کام کے دوران ان کی ٹیم کو کن خطرات کا سامنا ہوتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ اکثر مضافاتی علاقے مختلف سیاسی پارٹیوں کا گڑھ ہیں تاہم  ڈاکٹر سارہ کی ٹیم علاقہ کی تمام پارٹیوں سے غیر جانبدارانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

    لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ملک میں جاری پولیو ورکرز پر حملوں کے بعد ان کی ٹیم نے بھی غیر معمولی احتیاط کرنی شروع کردی ہے۔ علاوہ ازیں خواتین عملہ کو ان علاقوں میں جانے کے بعد خراب ماحول کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ عموماً اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ جانے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: پولیو ٹیم پر حملہ، 4 ورکرز جاں بحق

    اقوام متحدہ میں ملنے والا یہ ایوارڈ ڈاکٹر سارہ اور ان کی ٹیم کے خلوص اور انتھک محنت اور کاوشوں کا اعتراف ہے۔ ’یہ ایوارڈ ان آوازوں کے نام ہے جنہیں کوئی نہیں سنتا، ان خوابوں کے نام ہے جو پورا ہونا چاہتے ہیں مگر ہو نہیں پاتے، ان مریضوں کے نام ہیں جو قابل علاج بیماریوں کا بھی علاج نہیں کر سکتے اور ان عناصر کے خلاف ایک مزاحمت ہے جو ڈاکٹرز کو ان کے بنیادی فرض یعنی علاج کرنے سے روکتے ہیں‘۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے گلوبل گولز ایوارڈز گزشتہ برس مقرر کیے گئے پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے اعتراف میں دیے گئے۔

    ان کے تحت مزید 2 ایوارڈز ’دا گرل ایوارڈ‘ اور ’دا سوشل چینج ایوارڈ‘ بھی دیا گیا۔ دا گرل ایوارڈ 16 سالہ شامی مہاجر لڑکی یسریٰ ماردینی کو دیا گیا جس نے شام سے ہجرت کے دوران اپنی کشتی کو حادثہ پیش آنے کے بعد جان جوکھم میں ڈالتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگائی اور تیرنے والے افراد کی رہنمائی کی۔ بعد ازاں اس لڑکی نے مہاجرین کی ٹیم میں شامل ہوکر ریو اولمپکس میں بھی شرکت کی۔

    سوشل چینج ایوارڈ تنزانیہ سے تعق رکھنے والی وکیل ربیکا گیومی کو دیا گیا جنہوں نے تنزانیہ میں چائلڈ میرج کے خلاف انتھک کوششیں کیں۔