Tag: پاکستانی کامیڈین

  • ہر دل عزیز معین اختر کو مداحوں سے بچھڑے دس برس بیت گئے

    ہر دل عزیز معین اختر کو مداحوں سے بچھڑے دس برس بیت گئے

    ہر دل عزیز معین اختر کو دنیا سے رخصت ہوئے دس برس بیت گئے۔ آج کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے اس فن کار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ٹیلی ویژن ڈراموں اور کامیڈی شوز میں اپنی لاجواب اداکاری اور مختلف پروگراموں کی میزبانی کے دوران معیاری اور شائستہ مذاق، طنز و مزاح اور کاٹ دار جملوں سے حاضرین اور ناظرین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے اور انھیں قہقہے لگانے پر مجبور کردینے والے معین اختر نے ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں کے علاوہ فلم میں بھی کام کیا۔

    وہ پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ کے بادشاہ مانے جاتے ہیں جن کا خاص طور پر نقّالی کے فن میں کوئی ثانی نہ تھا۔ معین اختر نے اپنی اسی مہارت کو اپنی شناخت کا ذریعہ بنایا اور صدا کاری سے ادا کاری تک گویا شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    معین اختر نے اسٹیج سے ریڈیو تک، ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور پھر فلم نگری تک سیکڑوں بہروپ دھارے، کئی کردار نبھائے جو آج بھی ذہن و دل پر نقش ہیں۔

    معین اختر ایک ورسٹائل فن کار تھے جنھوں‌ نے اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر کامیڈین کے طور پر اپنی شناخت بنانے کے ساتھ سنجیدہ کردار بھی نہایت خوبی سے نبھائے۔ انھوں نے گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا جہاں انھوں نے 24 دسمبر 1950ء کو آنکھ کھولی۔ وہ سولہ سال کے تھے جب اسٹیج پر پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لیے۔ ٹیلی ویژن وہ میڈیم تھا جہاں قدم رکھتے ہی گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں پہچان بنا چکے تھے۔

    طنز و مزاح پر مبنی ان کے پروگراموں میں ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی کو بے حد پسند کیا گیا جب کہ روزی وہ ٹیلی پلے تھا جس میں انھیں مس روزی کے روپ میں شان دار پرفارمنس کی وجہ سے بہت پذیرائی ملی۔ انتظار فرمائیے، یس سر نو سر اور عید ٹرین بھی معین اختر کے یادگار کھیل ہیں۔

    معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جو ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن رہا۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے اور انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    2011ء میں معین اختر کے ساتھ ہی گویا فنِ نقّالی اور اسٹیج پرفارمنس کا ایک عہد بھی رخصت ہوگیا۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے "کامیڈین ہیرو” نذر کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے "کامیڈین ہیرو” نذر کی برسی

    اداکار نذر کو پاکستانی فلموں کا پہلا ‘کامیڈین ہیرو’ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں بننے والی فلموں میں کام کیا اور سنیما بینوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ 20 جنوری 1992ء کو اس مزاحیہ اداکار کا انتقال ہو گیا۔

    نذر کا پورا نام سید محمد نذر حسین شاہ تھا۔ وہ 1920ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی ایک فلم نیک دل سے ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد نذر نے یہاں فلم ‘تیری یاد’ میں ایک مزاحیہ کردار ادا کرکے پہلے فلمی کامیڈین کا اعزاز اپنے نام کیا۔ ان کی اداکاری کا یہ سلسلہ غلط فہمی، پھیرے، لارے، انوکھی داستان، ہماری بستی، جہاد، امانت، اکیلی، بھیگی پلکیں، کنواری بیوہ اور دوسری کئی فلموں تک کام یابی سے جاری رہا۔

    نذر نے مجموعی طور پر 171 فلموں میں کام کیا جن میں 117 فلمیں اردو، 51 پنجابی زبان میں تھیں۔ کوئل وہ فلم تھی جس میں نذر نے ولن کا کردار ادا کرکے خود کو کام یاب ‘کامیڈین ولن’ بھی ثابت کیا۔

  • مشہور مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    مشہور مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    9 دسمبر کو نرالا جن کا اصل نام سید مظفر حسین زیدی تھا، اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ نرالا پاکستانی فلموں‌ کے مشہور مزاحیہ اداکاروں میں‌ سے ایک ہیں۔

    نرالا 8 اگست 1937ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں‌ نے 1960ء میں فلمی سفر کا آغاز کیا تھا، نرالا کی پہلی فلم ’اور بھی غم ہیں‘ تھی جس میں‌ ان کی اداکاری پسند کی گئی۔ انھوں نے اپنے کیریئر کے دوران لگ بھگ سو فلموں میں‌ کام کیا اور شہرت پائی۔ فلم’ارمان‘ میں بہترین پرفارمنس پر انھیں‌ نگار ایوارڈ دیا گیا۔

    اداکار نرالا کی یادگار فلموں میں مسٹر ایکس، شرارت، چھوٹی بہن، ہیرا اور پتھر، ارمان، ہونہار، دوراہا، زمین کا چاند، انسان اور گدھا، گھر داماد، راجہ، اجالا، انجانے راستے، السلام علیکم، نصیب اپنا اپنا، دشمن، اسے دیکھا اسے چاہا وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم کا نام چوروں کا بادشاہ تھا۔

    1990 میں‌ کراچی میں وفات پانے والے نرالا کو مقامی قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔