Tag: پاکستانی کا سر قلم

  • سعودی عرب میں منشیات اسمگلنگ پر ایک اور پاکستانی کا سر قلم کردیا گیا

    سعودی عرب میں منشیات اسمگلنگ پر ایک اور پاکستانی کا سر قلم کردیا گیا

    ریاض : سعودی عرب میں ہیروئن اسمگلنگ پر ایک اور  پاکستانی کو سزائے موت دے دی گئی، عمران حیدر نامی ملزم کو آدھا کلو ہیروئن اسمگل کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سعودی عرب میں ان کے قانون کے مطابق منشیات کے مقدمے میں ایک اور پاکستانی کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔

    عمران حیدر ولد غلام حسین 12 دسمبر 2013 کو سیالکوٹ سے جدہ گیا تھا جہاں اسے سعودی پولیس نے500 گرام ہیروئن رکھنے پر گرفتار کرلیا تھا۔

    مذکورہ کیس حال ہی میں ختم ہوا جس میں عمران کو سزائے موت سنائی گئی، یاد رہے کہ سعودی عرب میں معمولی سی مقدار کی منشیات پر بھی موت کی سزا دی جاتی ہے۔

    اس سے قبل 11 اپریل کو منشیات اسمگلنگ کے الزام میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی کے سر قلم کردیئے گئے تھے۔ خیال رہے کہ سعودی عرب میں سزائے موت دیئے جانے کی شرح دنیا میں بلند ترین سطح پر ہے جہاں دہشت گردی، ریپ، مسلح ڈکیتی اور منشیات کی اسمگلنگ پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔

  • سعودی عرب: منشیات فروشی پر پاکستانی اور سعودی شہری کا سر قلم

    سعودی عرب: منشیات فروشی پر پاکستانی اور سعودی شہری کا سر قلم

    ریاض: سعودی عرب میں منشیات فروش کے جرم میں دو مجرموں کا سر قلم کردیا گیا جس میں ایک پاکستانی بھی شامل ہے، ان دو افراد کے سرقلم کرنے کے بعد رواں برس سر قلم کیے گئے مجرموں کی تعداد 20 ہوگئی۔

    عرب میڈیا کے مطابق ان دو مجرموں میں سعودی شہریت کا حامل نصر ہرشان اور پاکستان شخص نعمت اللہ خائستہ گل شامل ہیں منشیات فروشی کے جرم ان کا آج جمعرات کو سر قلم کردیا گیا۔

    سعوی پولیس کے مطابق ہرشان ایک بار پھر حشیش کی فروخت میں ملوث پایا گیا جب کہ نعمت اللہ خائستہ ہیروئن کی فروخت کا مرتکب نکلا۔

    برطانیہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سعودی عرب میں گزشتہ برس 150 سے زائدا فراد کے سرقلم کیے گئے جب کہ سال 2015ء میں یہ تعداد 158 تھی جو کہ گزشتہ دو برس میں سب سے زیادہ ہے۔

    سعودی عرب میں سال 1995 میں سب سے زیادہ تعداد میں سزائے موت دی گئی تھیں جن کی تعداد 192 ہے۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کچھ عرصے قبل اعداد و شمار جاری کیے تھے جس کے مطابق کے عودی عرب میں سال 2016 میں 153 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کرایا گیا جو گزشتہ سال (2015) کے مقابلے میں تھوڑا کم ضرور ہے لیکن اب بھی سعودی عرب سزائے موت دینے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔

    اس حوالے سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق 153 افراد میں زیادہ تر افراد کو قتل اور منشیات کی اسمگلنگ کے جرائم میں سزائیں دی گئیں تاہم محض گزشتہ سال جنوری میں ایک ہی روز میں دہشت گردی کے الزام میں 47 افراد کے سر قلم کیے گئے۔

    دہشت گردی کے جرم میں 47 افراد کے ایک ہی دن سر قلم

    رپورٹ کے مطابق ان 47 افراد میں مشہور عالم شیخ نمر النمر بھی شامل تھے، جن کا سر قلم کیا گیا جس کے بعد ایران میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور مشتعل افراد کی جانب سے تہران میں سعودی سفارتخانے کو نذر آتش کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعویٰ تھا کہ یہ اعداد و شمار سرکاری طور پر مہیا کیے گئے ہیں جن میں 153 سے 47 کو دہشت گردی کے الزام میں سزائیں ہوئیں جب کہ قتل، منشیات کی اسمگلنگ، چوری، زنا اور ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کے بھی سر قلم کیے گئے۔

    انسانی حقوق کی تنظیمیں سزا کے اس طریقہ کار کے خلاف آواز بلند کرتی رہتی ہیں اور سفارتی سطح پر بھی سعودی عرب کو دباؤ اور عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا رہتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہی سزاؤں کے باعث سعودی عرب میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

  • منشیات کی اسمگلنگ: پاکستانی کا سر قلم

    منشیات کی اسمگلنگ: پاکستانی کا سر قلم

    ریاض: سعودی عرب میں ایک پاکستانی شہری کا منشیات کی اسمگلنگ کے جرم میں سر قلم کردیا گیا ہے۔

    سرکاری نیوز ایجنسی ایس پی اے نے وزارتِ داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ محمد صادق حنیف نامی شخص ہیروئن کی ایک بڑی مقدار اپنے پیٹ میں چھپا کر سعودی عرب لانے کی کوشش کر رہا تھا، جس دوران اسے گرفتار کیا گیا تھا، بدھ کے روز مشرقی قصبے خوبر میں دی جانے والی اس سزائے موت کے بعد سلطنت میں رواں سال دی جانے والی سزائے موت کی تعداد 63 ہوگئی ہے۔

    اس سے قبل اکتوبر میں بھی چار پاکستانیوں کو منشیات اسمگلنگ کے جرم میں سزائے موت دی جا چکی ہے، اقوامِ متحدہ نے سعودی عرب میں سزائے موت کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان سزاؤں پر عملدرآمد فوراً روک دیا جائے۔

    اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کرسٹوف ہائنز کے مطابق سعودی عرب میں ہونے والے ٹرائلز میں شفافیت موجود نہیں ہوتی، جب کہ ملزمان کو وکیل کی خدمات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔