Tag: پاکستانی گلوکار

  • شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا تذکرہ

    شہنشاہِ غزل مہدی حسن کا تذکرہ

    برصغیر اور بالخصوص ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کئی نام موسیقی کی دنیا میں پاکستان کی شناخت اور پہچان بنے اور ان میں سے چند نام اپنے فن کے بے تاج بادشاہ کہلائے۔ مہدی حسن انہی میں سے ایک ہیں جن کی آواز کی دنیا نے مداح سرائی کی اور ان کے فن کو سراہا۔ آج مہدی حسن کی برسی ہے۔

    ریڈیو کی مقبولیت کے دور میں مہدی حسن کا نام اور ان کی آواز ملک بھر میں سنی جانے لگی تھی۔ اس دور میں ریڈیو پر بڑے بڑے موسیقار اور گلوکار ہوا کرتے تھے اور ان اساتذہ کو متاثر کرنا اور ان کی سفارش پر ریڈیو سے منسلک ہونا آسان نہیں‌ تھا۔ اس وقت ڈائریکٹر سلیم گیلانی نے مہدی حسن کو ریڈیو پر گانے کا موقع دیا اور بعد میں مہدی حسن فنِ گائیکی کے شہنشاہ کہلائے۔

    مہدی حسن نے غزل گائیکی سے اپنی مقبولیت کا آغاز کیا تھا اور پھر فلمی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنا دیا۔ انھوں نے غزلوں کو راگ راگنی اور سُر کی ایسی چاشنی کے ساتھ گایا کہ سننے والا سحر زدہ رہ گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ ہر فلم میں مہدی حسن کا گانا لازمی سمجھا جانے لگا۔ انھوں نے فلمی غزلیں بھی گائیں اور ان کی گائی ہوئی تقریباً ہر غزل اور گیت مقبول ہوا۔ مہدی حسن کے گیت سرحد پار بھی بہت ذوق و شوق سے سنے گئے اور ان کی پذیرائی ہوئی۔ کلاسیکی رکھ رکھاؤ اور انفرادیت نے مہدی حسن کو ہر خاص و عام میں مقبول بنایا اور ان کے شاگردوں نے بھی انہی کے رنگ میں آوازوں کا جادو جگا کر سننے والوں سے خوب داد سمیٹی۔ فلمی دنیا میں قدم رکھنے سے قبل ہی فیض جیسے بڑے شاعر کی غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے…اور میر صاحب کا کلام ’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے….‘‘ گا کر مہدی حسن نے سب کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ بعد میں وہ میر تقی میر، غالب، داغ دہلوی اور دیگر اساتذہ کا کلام گاتے اور فلمی نغمات کو اپنی آواز میں یادگار بناتے رہے۔

    گلوکار مہدی حسن کے مقبول ترین گیتوں میں ’’اب کے ہم بچھڑے (محبت)، ’’پیار بھرے دو شرمیلے نین (چاہت)، ’’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں (عظمت)، ’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے (شرافت) اور کئی نغمات شامل ہیں۔ یہ گیت اپنے وقت کے مشہور اور مقبول ترین ہیروز پر فلمائے گئے۔

    اپنی ابتدائی زندگی اور اساتذہ کے متعلق مہدی حسن نے انٹرویوز کے دوران بتایا کہ وہ بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع جے پور کے گاؤں جھنجھرو میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ’’کلاونت‘‘ گھرانے سے تھا اور ان کے والد، دادا، پر دادا بھی اسی فن سے وابستہ رہے تھے۔ والد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے اس فن کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور کلاسیکی موسیقی سیکھی۔ ان کے بقول ان کے بزرگ راجاؤں کے دربار سے وابستہ رہے تھے۔ 47ء میں قیام پاکستان کے بعد مہدی حسن بھارت سے لاہور آگئے۔ وہاں تین چار برس قیام کے بعد کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ فلم انڈسٹری سے وابستگی کراچی میں آکر ہوئی کیونکہ اس زمانے میں زیادہ تر فلمیں کراچی میں ہی بنا کرتی تھیں۔

    مہدی حسن نے ابتدائی زمانہ میں کئی کام کیے، اور روزی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ وہ بتاتے تھے کہ انھیں محنت میں کبھی عار محسوس نہیں ہوئی۔ پیٹ پالنے کے لیے پنکچر لگائے، ٹریکٹر چلایا، موٹر مکینک کے طور پر کام کیا اور پھر انھیں ریڈیو تک رسائی حاصل ہوگئی۔ بعد میں ڈائریکٹر رفیق انور نے مہدی حسن کو فلم میں کام دلوایا اور پہلی فلمی غزل فلم ’’شکار‘‘ کے لیے گائی جس کے بول تھے۔

    ’’میرے خیال و خواب کی دنیا لئے ہوئے
    کہ آ گیا کوئی رخ زیبا لئے ہوئے‘‘

    گلوکار مہدی حسن نے پاکستانی اور غیرملکی حکومتی شخصیات اور ممالک کے سربراہان کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور بڑی عزت اور احترام پایا۔ حکومت پاکستان نے مہدی حسن کو تمغائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سمیت دوسرے نمایاں قومی سطح کے ایوارڈز سے نوازا تھا۔

    زندگی کے آخری ایّام میں مہدی حسن فالج کے بعد بستر پر رہے اور سینے اور سانس کی مختلف بیماریوں کا شکار تھے۔ ان کا انتقال 13 جون 2012 کو ہوا۔

  • وہ گلوکار جنھیں صرف ایک ہی گیت نے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا

    وہ گلوکار جنھیں صرف ایک ہی گیت نے شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا

    موسیقی اور گائیکی کی دنیا کے کئی مشہور اور مقبول ترین نام ایسے ہیں‌ جنھوں نے اپنے طویل کیریئر کے دوران لاتعداد گیت اور غزلیں گائیں اور دلوں پر راج کیا، لیکن کچھ ایسے گلوکار بھی ہیں‌ جن کی آواز میں‌ فقط ایک ہی فلمی گیت، کوئی غزل یا ملّی نغمہ اتنا مشہور ہوا کہ اسی ایک پرفارمنس نے انھیں گویا امر کردیا اور دہائیوں بعد بھی ان کی شناخت اور پہچان برقرار ہے۔

    یہاں ہم چند ایسے گلوکاروں کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جن کی ایک ہی پرفارمنس نے انھیں راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور آج بھی ان کا نام زندہ رکھے ہوئے ہے۔

    ‘تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں، جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں…’ یہ گیت شرافت علی کی آواز میں آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ 1957ء کی بات ہے جب ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کی فلم ‘وعدہ’ ریلیز ہوئی اور شائقین نے اس گیت پر اپنے وقت کے خوب رُو اداکار سنتوش کمار کی پرفارمنس دیکھی۔ یہ گیت شرافت علی آواز میں فلم بینوں کے دل میں اتر گیا۔ آج بھی یہ گیت پسند کیا جاتا ہے اور شرافت علی کی یاد دلاتا ہے۔

    ایس بی جون کی آواز میں ‘تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں‌ ہے…’ جیسا خوب صورت گیت 1959ء میں ریلیز ہونے والی فلم ‘سویرا’ میں شامل تھا۔ سنی بنجمن جون کو برصغیر پاک و ہند میں ایس بی جون کے نام سے پہچان ملی اور ان کا گایا ہوا یہ نغمہ مقبول ترین ثابت ہوا۔

    ایس بی جون ایک شوقیہ گلوکار تھے اور ان کی پُرسوز آواز میں‌ یہی گیت اُن کی وجہِ شہرت بنا اور آج بھی ان کی شناخت ہے۔

    پاکستانی گلوکار محمد افراہیم کو ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات نے بے مثال شہرت اور مقبولیت دی۔ ‘زمیں کی گود رنگ سے، امنگ سے بھری رہے…خدا کرے، خدا کرے…’ ان کی آواز میں‌ ملک بھر میں‌ مقبول ہوا۔ یہ وہ نغمہ تھا جس نے انھیں پہچان دی اور ایسی شہرت عطا کی جو بہت کم گلوکاروں کے حصّے میں آئی۔ اس کی موسیقی سہیل رعنا نے ترتیب دی تھی اور شاعر اسد محمد خان تھے۔

    وسیم بیگ کی آواز میں نغمہ ‘یہ دیس ہمارا ہے’ آج بھی ہماری سماعتوں‌ میں رس گھول رہا ہے اور جذبۂ حبُّ الوطنی سے سرشار قوم کے بچّے بچّے کی زبان پر ہے۔ یہ رعنا اکبر آبادی کا تحریر کردہ ملّی نغمہ تھا۔ اس کا شمار پاکستان کے مقبول ترین ملّی نغمات میں ہوتا ہے۔

  • پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوکر اپنی مدھر آواز کا جادو جگانے والے مسعود رانا 2005ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اس عظیم گلوکار کا فنی سفر تین عشروں پر محیط ہے جس میں انھوں نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ایسے گیت جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور مسعود رانا کی آواز بھی سماعتوں میں محفوظ ہے۔

    گلوکار مسعود رانا 9 جون 1938ء کو سندھ کے شہر میرپورخاص میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1962ء میں بننے والی فلم انقلاب سے ہوا۔ انھوں نے بہت جلد اردو اور پنجابی کے نام وَر گلوکاروں کے درمیان اپنی پہچان بنا لی اور انڈسٹری میں ان کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔

    مسعود رانا کو پاکستان فلم انڈسٹری کا مکمل اور ورسٹائل گلوکار کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنے وقت کے بڑے بڑے فلم ساز ضرور اپنی فلم کے لیے ان سے رابطہ کرتے تھے۔

    مسعود رانا نے اپنے فنی کیریئر میں 700 سے زائد گانے ریکارڈ کرائے اور ساتھی گلوکاروں کے ساتھ ان کے دو گانے بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے بڑے اور نام ور گلوکاروں کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگایا اور اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ مسعود رانا نے چند پاکستانی فلموں میں اداکاری بھی کی۔

    ان کے مشہور اردو گانوں میں فلم آئینہ کا گانا ’تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تم سے پیار کروں‘ فلم بدنام کا گانا ’کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے‘ فلم چاند اور چاندنی کا گانا ’تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘ اور دیگر مقبول گانے شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی اور کئی فلموں‌ کے لیے گیت گائے۔

    مسعود رانا کا شمار ان گلوکاروں‌ میں‌ ہوتا ہے جنھیں خاص طور پر ہائی پِچ کے گيت ريکارڈ کرانے کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔ رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری‌ کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا کو ان کی اسی خوبی نے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ ممتاز کیا۔

  • معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان کا یومِ وفات

    معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان کا یومِ وفات

    6 جون 2003ء کو پاکستان کے معروف کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان نے ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ ان کا تعلق موسیقی اور گائیکی کے لیے مشہور شام چوراسی گھرانے سے تھا۔

    استاد ذاکر علی خان 1945ء میں ضلع جالندھر کے مشہور قصبے شام چوراسی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ استاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ ذاکر علی خان اپنے بڑے بھائی اختر علی خان کے ساتھ مل کر گایا کرتے تھے۔ 1958ء میں جب وہ 13 برس کے تھے تو پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان ملتان پر گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ بعدازاں انھیں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں مدعو کیا جاتا رہا۔

    استاد ذاکر علی خان نے بیرونِ ملک بھی کئی مرتبہ پرفارمنس دی۔ خصوصاً 1965ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں ان کی پرفارمنس کو یادگار کہا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں فن کا مظاہرہ کرنے پر انھیں ٹائیگر آف بنگال کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ دنیائے موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے شہرت پانے والے استاد ذاکر علی خان نے ایک کتاب نو رنگِ موسیقی بھی لکھی تھی جو بہت مشہور ہے۔

    استاد ذاکر علی خان لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر گلوکار مجیب عالم کی زندگی کا سفر 2004 میں تمام ہوا۔ 2 جون کو فلم نگری میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے مشہور اس فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ آج مجیب عالم کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ہندوستان کے شہر کان پور سے تعلق رکھنے والے مجیب عالم 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بے حد سریلی آواز کے مالک تھے۔ پہلی بار موسیقار حسن لطیف نے انھیں اپنی فلم نرگس میں گائیکی کا موقع دیا مگر یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ تاہم فلمی دنیا میں‌ ان کا سفر شروع ہوگیا تھا اور فلم مجبور کے گانے ان کی آواز میں‌ شائقین تک پہنچے۔ 1966ء میں انھوں نے فلم جلوہ اور 1967ء میں چکوری کا ایک نغمہ ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا۔ اس نغمے کے بول تھے، وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں….

    مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اس کے بعد کئی فلموں میں مجیب عالم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور یہ نغمات بہت مقبول ہوئے۔ ان کی آواز میں‌ جن فلموں کے گیت ریکارڈ کیے گئے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔

    1960 کی دہائی میں مجیب عالم نے اس وقت اپنا فنی سفر شروع کیا تھا جب مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے گلوکار انڈسٹری میں جگہ بنا رہے تھے۔ مجیب عالم نے یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اور میں تیرے اجنبی شہر میں جیسے خوب صورت اور سدا بہار نغمات کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔ “میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام” مجیب عالم کی آواز میں‌ نشر ہونے والا وہ نغمہ تھا جو بے حد مقبول ہوا۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر گلوکار کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔

  • نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی کا یومِ وفات

    نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی کا یومِ وفات

    31 مئی 1999ء کو پاکستان کے نام وَر گلوکار، اداکار اور فلم ساز عنایت حسین بھٹی وفات پاگئے۔ انھوں‌ نے پاکستانی فلمی صنعت کو اپنی آواز میں خوب صورت نغمات کے ساتھ کام یاب فلمیں بھی دیں اور اس شعبے میں بھی نام و مقام بنایا۔

    عنایت حسین بھٹی 1929ء میں گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنا فلمی سفر بطور گلوکار شروع کیا۔ فلم ہیر اور پھیرے میں ان کی آواز نے شائقین کی توجّہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ ان فلموں کے نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ 1953ء میں انھوں نے فلم ’’شہری بابو‘‘ میں ایک کردار ادا کیا اور اسی فلم کا ایک نغمہ بھی ریکارڈ کروایا جس نے انھیں‌ بہت شہرت دی۔ 1955ء میں شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’جلن‘‘ میں مرکزی کردار آفر کیا اور یہ سلسلہ دراز ہوگیا۔ انھوں‌ نے متعدد فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔

    عنایت حسین بھٹی نے 500 فلموں کے لیے 2500 کے قریب گانے ریکارڈ کرائے اور 400 سے زائد فلموں میں کام کیا، جن میں سے 40 میں شائقینِ سنیما نے انھیں ہیرو کے روپ میں دیکھا اور ان کی اداکاری کو سراہا۔

    عنایت حسین بھٹی نے ذاتی پروڈکشن ہاؤس بھی قائم کیا تھا جس کے بینر تلے 50 فلمیں بنائیں۔ 1967ء میں انھوں نے ’’چن مکھناں‘‘ فلم بنائی تھی جس نے کام یابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے بعد انھوں‌ نے فلم سجن پیارا، دنیا مطلب دی، عشق دیوانہ، سچا سودا سمیت کئی فلمیں بنائیں جو کام یاب رہیں۔

  • پٹیالہ گھرانے کے نام وَر کلاسیکی گلوکار اسد امانت علی کی برسی

    پٹیالہ گھرانے کے نام وَر کلاسیکی گلوکار اسد امانت علی کی برسی

    اسد امانت علی خان پاکستان میں کلاسیکی گائیکی کا ایک بڑا نام تھا۔ اسد امانت علی خان 8 اپریل 2007ء کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق موسیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    وہ 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ اسد امانت علی خان نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد امانت علی خان اور دادا استاد اختر حسین خان سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے اپنے چچا حامد علی خان کے ساتھ اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور ان کی جوڑی کو کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کے شائقین کی جانب سے بہت پذیرائی ملی۔ اس جوڑی نے کلاسیکی گائیکی کو ایک نئی جہت دی۔

    اسد امانت علی خان نے اپنے والد کے گائے ہوئے کلام کو ان کی وفات کے بعد اپنے انداز میں دوبارہ گا کر شائقین و سامعین سے خوب داد وصول کی۔ خصوصاً انشا جی اٹھو اب کوچ کرو سے انھیں بہت شہرت اور پذیرائی ملی۔

    اسد امانت علی خان کلاسیکل، نیم کلاسیکل، گیت اور غزلیں گانے میں خاص مہارت رکھتے تھے جب کہ ان کی سریلی آواز میں کئی فلمی گانے بھی ہر خاص و عام میں‌ پسند کیے گئے۔

    انھوں نے فلم سہیلی، انتخاب، شیشے کا گھر، زندگی، ابھی تو میں جوان ہوں، ترانہ اور دیگر فلموں کے لیے گیت گائے۔ وہ ایک بہت اچھے سوز خواں بھی تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے 2006ء میں اسد امانت علی کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    کتنے ہی شیریں اور میٹھے بول منیر حسین کی مدھر آواز میں‌ جاوداں ہوگئے۔ اس گلوکار نے پاکستانی فلمی صنعت کے زمانۂ عروج میں کئی لازوال گیت ریکارڈ کروائے جو آج بھی سماعتوں میں‌ رَس گھول رہے ہیں۔

    27 ستمبر 1995 کو پاکستان کے اس نام ور گلوکار نے لاہور میں زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ آج منیر حسین کی برسی ہے۔

    قیامِ پاکستان سے قبل آنکھ کھولنے والے منیر حسین نے تقسیم کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ گلوکار کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔ وہ فن موسیقی کے دلدادہ اور ماہر گھرانے میں‌ پیدا ہوئے تھے اور یوں‌ سر اور ساز سے ان کی محبت فطری تھی فلم نگری میں‌ موسیقار صفدر حسین نے ان کی آواز میں‌ ’’حاتم‘‘ کا ایک ریکارڈ کروایا جس کے بعد نام ور موسیقار اور فلم ساز منیر حسین کی طرف متوجہ ہوئے۔

    مشہور موسیقار رشید عطرے، خواجہ خورشید انور اور اے حمید نے منیر حسین کو فلمی دنیا میں‌ گلوکاری کا موقع دیا اور ان کی شہرت کا سبب بنے۔ فلم سات لاکھ کے لیے رشید عطرے کی موسیقی میں منیر حسین نے ’’قرار لوٹنے والے قرار کو ترسے جیسا مقبول گیت گایا جب کہ فلم شہید کا مشہور نغمہ نثار میں تری گلیوں پہ، دکھڑا کے لیے دلا ٹھیر جا یار دا نظارا لین دے جیسے مقبولِ‌عام گیت کو بھی منیر حسین نے اپنی آواز دے کر گویا امر کردیا۔

    منیر حسین نے پاکستانی فلموں‌ کے لیے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں‌ جو گیت ریکارڈ کروائے وہ سبھی یادگار ثابت ہوئے اور فلم انڈسٹری میں‌ انھیں‌ بہت سراہا گیا۔ پاکستان کے اس معروف گلوکار کو لاہور کے مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • لیلا او لیلا کے بعد علی ظفر اب کون سا گانا گائیں گے؟

    لیلا او لیلا کے بعد علی ظفر اب کون سا گانا گائیں گے؟

    لاہور: بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و اداکار علی ظفر نے کہا کہ میں ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ایک اسٹار ہونے کے باوجود بھی دوسروں کے لیے نہیں چمکیں گے تو آپ اسٹار نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر فلم اسٹاراورگلوکارعلی ظفر نے اپنے پیغام میں کہا کہ لیلا او لیلا کے بعد میری خواہش ہے کہ میں اب اور بھی کچھ کروں جس سے پاکستان کے دوسرے حصوں کے نوجوانوں کا ٹیلنٹ بھی سامنے آسکے۔

    علی ظفر نے اپنی ٹویٹ میں مداحوں سے سوال کیا کہا کہ پشتو گانا کیسا رہے گا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے ان گانوں کے لنک بھیجیں جو آپ چاہتے ہیں کہ میں کسی گلوکار کے ساتھ گاؤں۔

    معروف گلوکار علی ظفر نے کہا کہ میں ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ایک اسٹار ہونے کے باوجود بھی دوسروں کے لیے نہیں چمکیں گے تو آپ اسٹار نہیں ہیں۔

    پاکستانی گلوکار علی ظفر نے ٹویٹ میں ہیش ٹیگ پشتو کا استعمال کیا جس سے لگتا ہے کہ وہ اب اپنے کسی مداح کے ساتھ پشتو گانا گانا چاہتے ہیں۔

    یاد رہے کہ حال ہی میں علی ظفر نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی 12 سالہ گلوکارہ عروج فاطمہ کے ساتھ بلوچی گانا لیلا او لیلا گایا تھا

    یاد رہے کے چند روز قبل ریلیز کیا جانے والا گانا ’لیلا او لیلا‘ معروف گلوکار علی ظفر نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی 12 سالہ گلوکارہ عروج فاطمہ کی خواہش پوری کرنے کے لیے ان کے ساتھ گایا تھا۔

    علی ظفر اور عروج فاطمہ کی جانب سے گائے جانے والے گانے لیلا او لیلا کو یوٹیوب پر اب تک 20 لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں اور اس گانے کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔

  • بھارت نے پاکستانی گلوکاروں کے گانے ہٹادئیے

    بھارت نے پاکستانی گلوکاروں کے گانے ہٹادئیے

    ممبئی: بھارت کی مشہور میوزک کمپنی نے انتہا پسند تنظیم کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پاکستانی گلوکاروں کے گانے ہٹا دئیے۔

    تفصیلات کے مطابق پلوامہ میں ہونے والے حملے کے بعد بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے، بھارتی ریاست مہاراشٹر میں نونریمان سینا کی دھمکی پر بھارت کی نامور میوزک کمپنی نے سوشل میڈیا پر پاکستانی گلوکاروں کے گانے ہٹادئیے۔

    انتہا پسندوں نے میوزک کمپنیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستانی گلوکاروں کے ساتھ کام کرنا بند کیا جائے ورنہ ہم اپنے انداز میں ایکشن لیں گے۔

    واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستانی گلوکاروں کو اکثر دھمکیاں موصول ہوتی آئی ہیں اور پلوامہ حملے کے بعد بھارت کا یہی ردعمل سامنے آیا ہے۔

    بھارت میں بیشتر گلوکاروں جیسے عاطف اسلم، راحت فتح علی خان کو خاص مقبولیت حاصل ہے اور بھارتی عوام کی بڑی تعداد پاکستانی گلوکاروں کے گانے سننا چاہتی ہے۔

    مزید پڑھیں: شیو سینا کی دھمکی، استاد غلام علی کا کنسرٹ ملتوی

    لیکن اب بھارت کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان گلوکاروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ چند برس قبل بھارتی انتہا پسند تنظیم شیو سینا کی دھمکیوں پر بھارت میں استاد غلام علی خان کا کنسرٹ منسوخ کردیا گیا تھا۔

    استاد غلام علی خان کو ممبئی میں بھارتی مایہ ناز غزل گائیک جگجیت سنگھ کی برسی کے موقع پر فارم کرنا تھا، اس کے بعد پونا میں اسی ہفتے ایک اور کنسرٹ بھی شیو سینا کی دھمکیوں سے منسوخ ہوا تھا۔

    خیال رہے کہ بھارتی اداکار بھی پاکستانی گلوکاروں کی مقبولیت سے خائف نظر آتے ہیں، بھارتی گلوکار ابھیجیت سنگھ نے پاکستانی گلوکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔