Tag: پاکستانی گلوکارہ

  • منور سلطانہ:‌ وہ گلوکارہ جن کی آواز میں ریڈیو پاکستان پر پہلا ملّی نغمہ نشر ہوا تھا

    منور سلطانہ:‌ وہ گلوکارہ جن کی آواز میں ریڈیو پاکستان پر پہلا ملّی نغمہ نشر ہوا تھا

    15 اگست 1947ء کو قیامِ‌ پاکستان کے بعد پہلے دن ریڈیو پاکستان کے لاہور اسٹیشن سے پہلا ملّی نغمہ منور سلطانہ کی آواز میں نشر ہوا تھا۔ پاکستان میں بننے والی پہلی فلم کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ نے گائے تھے۔

    ریڈیو سے نشر ہونے والے اوّلین ملّی نغمہ کے بول تھے، ‘چاند روشن چمکتا ستارہ رہے، سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے…’ جس میں دلشاد بیگم نے بھی منور سلطانہ کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے علاوہ بانی پاکستان کو ان کی بے لوث قیادت اور علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک نغمہ ’’اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘ بھی منور سلطانہ کی آواز میں مقبول ہوا۔

    پاکستانی گلوکارہ منور سلطانہ 1995ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔ وہ 1925ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے بطور گلوکارہ اپنے کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے پہلے فلم مہندی سے کیا تھا۔ منور سلطانہ نے پاکستان میں فلمی صنعت کے ابتدائی دور کی کئی فلموں کے لیے اپنی آواز میں‌ نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔ ریڈیو ان کی وہ درس گاہ تھی جہاں انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ گلوکارہ منور سلطانہ نے موسیقی کی تعلیم ریڈیو پاکستان کے مشہور کمپوزر عبدالحق قریشی عرف شامی سے حاصل کی تھی جب کہ تیری یاد جسے پاکستان کی پہلی فلم کہا جاتا ہے، اس کے متعدد نغمات بھی منور سلطانہ نے گائے۔

    منور سلطانہ نے جن فلموں کے لیے اپنے فنِ گائیکی کا مظاہرہ کیا ان میں پھیرے، محبوبہ، انوکھی داستان، بے قرار، دو آنسو، سرفروش، اکیلی، نویلی، محبوب، جلن، انتقام، بیداری اور لخت جگر شامل ہیں۔

    اپنے فنی کیریئر کے عروج میں منور سلطانہ ریڈیو پاکستان، لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی سے شادی کرنے کے بعد فلم اور گلوکاری سے کنارہ کش ہوگئی تھیں۔ پچاس سے ساٹھ کی دہائی کے دوران شائقینِ سنیما اور موسیقی کے دلدادگان نے ان کی آواز میں کئی خوب صورت گیت سنے اور انھیں بے حد پسند کیا گیا۔ اردو اور پنجابی فلموں کے علاوہ منور سلطانہ نے کئی لوک گیت بھی گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گلوکارہ منور سلطانہ کی شادی ایوب رومانی سے ہوئی تھی جو پاکستان کے نامور شاعر، موسیقار اور براڈ کاسٹر تھے۔

  • بلقیس خانم: آئینۂ زیست سے دمِ‌ واپسیں تک

    بلقیس خانم: آئینۂ زیست سے دمِ‌ واپسیں تک

    پاکستان کی معروف کلاسیکی گلوکارہ بلقیس خانم انتقال کر گئیں۔ وہ کافی عرصہ سے علیل تھیں۔

    اردو کے معروف شاعر عبید اللہ علیم کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہوگی جس کا ایک شعر ہے، ‘کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‌، پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا! یہ کلام بلقیس خانم ہی کی آواز میں‌ مقبول ہوا تھا۔

    یہاں‌ ہم بلقیس خانم کی زندگی کے سفر اور ان کی گائی ہوئی چند غزلوں کا ذکر کررہے ہیں۔ وہ نام وَر سِتار نواز استاد رئیس خان کی اہلیہ تھیں۔

    بلقیس خانم کے ایک انٹرویو میں ان کے حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: انھوں نے 25 دسمبر 1948 کو لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں مقیم ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد، عبد الحق فرنیچر سازی کے کاروبار سے منسلک تھے۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ والدین سے روابط میں روایتی رنگ حاوی تھا۔ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں وہ بڑی تھیں۔ خاصی کم گو ہوا کرتی تھیں اس وقت۔ طبیعت میں شوخی نہیں تھی۔ ہمہ وقت سنجیدگی غالب رہتی۔ کھیلوں کا معاملہ فقط ایک گڑیا تک محدود رہا، جو بیش تر وقت صندوقچی میں رکھی رہتی۔ ہاں، مطالعے کا شوق تھا۔ اردوزبان اپنی جانب کھینچتی تھی۔ شعور کی آنکھ فیصل آباد میں کھولی۔ وہاں ایم بی گرلز ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جب اسکول انتظامیہ کی جانب سے ملی نغمے پیش کرنے کے لیے چنا گیا، اُس وقت تک قطعی اندازہ نہیں تھا کہ وہ گا بھی سکتی ہیں۔ ہاں، یہ ضرور یاد ہے کہ بڑی جماعتوں کی طالبات کبھی کبھار اُن سے گنگنانے کی فرمایش کیا کرتی تھیں۔

    کچھ عرصے بعد حالات خاندان کو واپس لاہور لے آئے۔ غالب مارکیٹ کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ یہیں کم سن بلقیس کی محمد شریف نامی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، جن کی تربیت نے اُن کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ’’وہ کلاسیکی موسیقی کے استاد تھے۔ تعلق جالندھر سے تھا۔ معروف نہیں تھے، مگر بڑے گنی آدمی تھے۔ اُنھوں نے مجھے صرف گائیکی نہیں سِکھائی، اردو سے میرا تعلق بھی اُن ہی کی وجہ سے قائم ہوا۔ مجھے وہ پڑھنے کے لیے کتابیں دیا کرتے تھے۔‘‘

    استاد کی سرپرستی میں نجی محافل میں پرفارم کرنے لگیں، جہاں غزلیں اور گیت پیش کیا کرتیں۔

    اور پھر زندگی میں ایک موڑ آیا ۔ یہ 64ء کا ذکر ہے۔ والد کے ایک دوست نے اُنھیں سنا، تو ریڈیو کا رخ کرنے کا مشورہ دیا۔ بات دل کو لگی۔ استاد کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئیں۔ جن صاحب نے ریڈیو میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تھا، اُن کے محلے میں ریڈیو اسٹیشن کا چپڑاسی رہا کرتا تھا، جس کی اُس وقت کے ریجنل ڈائریکٹر، مختار صدیقی سے اچھی سلام دعا تھی۔ ’’تو اُس چپڑاسی نے، جسے ریڈیو کی زبان میں اسٹوڈیو کمشنر کہا جاتا تھا، ریڈیو آڈیشن کے لیے میری سفارش کی۔‘‘ آڈیشن کے تین ماہ بعد بلاوا آیا۔ ابتداً کورس میں گایا۔ ’’لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ نئے فن کاروں کو شروع کے دو ماہ کورس ہی میں گوایا جاتا، تاکہ ٹریننگ ہوجائے۔ اُس وقت ہمیں فی پروگرام پچیس روپے ملا کرتے۔‘‘ ریڈیو پر پہلی بار اپنی آواز سنی، تو مطمئن ہونے کے بجائے مزید بہتری کی خواہش نے جنم لیا۔

    سولو پرفارمینس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ’’تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔ چھے ماہ بعد پھر آڈیشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ’’ریڈیو کا طریقۂ کار بڑا سخت تھا۔ اِسی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ جس نے ریڈیو کی مار کھائی ہو، وہ پھر کہیں مار نہیں کھاتا۔ چاہے وہ گلوکار ہو یا اداکار۔‘‘

    اس بار معروف پروڈیوسر، سلیم گیلانی نے آڈیشن لیا۔ چالیس فن کار قسمت آزمانے آئے، منتخب ہونے والوں چند خوش نصیبوں میں وہ بھی شامل تھیں۔ معاوضہ بڑھا کر 65 روپے کر دیا گیا۔ پروگرامز کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور کے علاوہ دیگر اسٹیشنز کا بھی رخ کیا۔ پہلا سفر راول پنڈی کا تھا۔ اگلی بار مظفر آباد کی سمت بڑھیں۔ ریڈیو کی شہرت خوب کام آئی، نجی پروگرامز میں مدعو کیا جانے لگا۔ اِسی کے توسط سے پی ٹی وی تک رسائی حاصل کی، جہاں آڈیشن کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پنجابی گیت سے اِس سفر کا آغاز ہوا۔ 65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔

    آنے والے دنوں میں کنور آفتاب، طارق عزیز، فضل کمال، رفیق احمد وڑائچ اور شعیب منصور جیسے پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا۔ اُسی زمانے میں موسیقار، خلیل احمد نے فلمی گانے کی پیش کش کی۔ ’’تصویر‘‘ کے لیے اُنھوں نے گانا ’’بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو فلم کے پہلے شو کے بعد سینسر بورڈ نے یہ کہتے ہوئے کاٹ دیا کہ ’’گیت کے بول مناسب نہیں!‘‘ جہاں خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ کام کیا، وہیں فلمی دنیا کے چند نئے موسیقاروں کی دھنوں کو بھی آواز دی۔ موسیقار، میاں شہریار نے ’’بی بی‘‘ نامی فلم کے تمام گانے اُن ہی سے گوائے، مگر وہ فلم ریلیز نہیں ہوسکی۔

    شہرت کا سفر جاری تھا، مگر جلد ہی فلمی دنیا سے اُوب گئیں۔ ’’میں خود کو اُس ماحول میں ڈھال نہیں سکی۔ دھیرے دھیرے انڈسٹری سے دور ہوتی گئی۔ پچیس تیس فلمی گانے گائے ہوں گے، لیکن میری قسمت ’اچھی‘ تھی، کیوں کہ تمام ہی فلمیں ڈبے میں گئیں۔‘‘

    فلم انڈسٹری سے دُوری کا ایک سبب کراچی آمد بھی تھا۔ یہ 70ء کا ذکر ہے۔ ایک نجی محفل میں شرکت کے لیے شہر قائد کا رخ کیا، جو اتنا بھایا کہ یہیں ڈیرا ڈال لیا۔ جلد ہی پی ٹی وی سے جُڑ گئیں، جہاں ایک ایسا گیت ریکارڈ کروانے کا موقع ملا، جو امر ہوگیا۔

    ’’انوکھا لاڈلا‘‘ استاد عاشق علی خان کی کمپوزیشن تھا، جسے اسد محمد خان کے قلم نے جدید آہنگ دیا۔ امیر امام کے پروگرام ’’سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا، اور چند ہی روز میں زبان زد خاص و عام ہوگیا۔ اُن ہی دنوں عبیداﷲ علیم کی غزل ’’کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں‘‘ ریکارڈ کروائی، جو استاد نذر حسین کی کمپوزیشن تھی۔ اُس نے بھی مقبولیت کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    78ء میں نام وَر ستار نواز، استاد رئیس خان سے ملاقات ہوئی، جو اُس وقت ہندوستان میں مقیم تھے۔ ملاقاتوں میں جلد ہی محبت کا رنگ در آیا۔ 80ء میں شادی ہوئی، اور بلقیس خانم ہندوستان چلی گئیں۔ اگلے سات برس ممبئی میں بیتے۔ ہندوستان کے ماحول سے تو ہم آہنگ ہوگئیں، مگر Sinus کے مسئلے کی وجہ سے ممبئی راس نہیں آیا۔ بس، اِسی وجہ سے 86ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں، اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔

    بلقیس صاحبہ تو پاکستانی ہیں، اُن کے لیے یہ فیصلہ ضرور آسان رہا ہو گا، مگر استاد رئیس خان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، جو اپنے اوج پر ہونے کے باوجود سب چھوڑ چھاڑ کر اُن کے ساتھ چلے آئے۔

    لیجنڈری ستار نواز استاد رئیس خان 77 سال کی عمر 2017ء میں وفات پاگئے تھے اور آج (21 دسمبر 2022ء) بلقیس خانم نے بھی یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی۔ بلقیس خانم کو کل (جمعرات) سپردِ‌ خاک کیا جائے گا۔

    (اقبال خورشید کا گلوکارہ سے کیا گیا ایک انٹرویو 2013ء میں شایع ہوا تھا، اس تحریر کا مواد اسی انٹرویو لیا گیا ہے)

  • اے آر وائی پروگرام میں لوک گلوکارہ شازیہ خشک نے کون سا کھیل کھیلا؟

    اے آر وائی پروگرام میں لوک گلوکارہ شازیہ خشک نے کون سا کھیل کھیلا؟

    کراچی: اے آر وائی پروگرام ’ہمارے مہمان‘ میں ملک کی مقبول لوک گلوکارہ شازیہ خشک نے لوگوں کی جانب سے پھولوں کی صورت میں ملنے والی محبت پر کہا کہ یہ پھول نہیں لوگوں کی دعائیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی پروگرام میں لوک گلوکارہ شازیہ خشک نے پروگرام کی ہوسٹ فضا شعیب کے ساتھ دل چسپ گفتگو کی اور لفظوں پر مشتمل ایک گیم میں حصہ لیا۔

    [bs-quote quote=”موسیقی باعثِ خوشی ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”شازیہ خشک” author_job=”لوک گلوکارہ”][/bs-quote]

    لفظ ’سندھ‘ پر شازیہ خشک نے کہا کہ ذہن میں جو پہلا لفظ آتا ہے وہ ہے زندگی۔

    شازیہ خشک نے موسیقی کو خوشی کا باعث قرار دیا، ہوسٹ نے لفظ ’موسیقی‘ کہا تو شازیہ خشک نے جھٹ سے کہا ’خوشی‘۔

    لفظ پروفیسر پر کہا کہ وہ 2 یونی ورسٹیوں میں پروفیسر بھی ہیں، ’دانے پہ دانا‘ پر کہا کہ ان کی پہچان پوری دنیا میں اسی سے ہے۔ ہوسٹ کی فرمائش پر شازیہ خشک نے اپنا یہ مشہور زمانہ گانا بھی سنایا۔

    لفظ گلوکار پر شازیہ خشک نے بتایا کہ ان کی پسندیدہ گلوکاروں کی فہرست بہت لمبی ہے اس لیے کسی ایک کا نام نہیں لے سکتیں، لفظ ’خواہش‘ پر کہا کہ وہ زندگی جو خوشی کے ساتھ گزرے۔

    لوک گلوکارہ نے لفظ ’موسیقی‘ پر کہا ’سارے آلات‘ ان کا کہنا تھا کہ انھیں سارے ہی انسٹرومنٹس پسند ہیں، لفظ ’استاد‘ پر کہا کہ ہر وہ شخص میرا استاد ہے جس سے کبھی ایک بھی لفظ سیکھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  اے آر وائی فیسٹ کا دوسرا روز، سجاد علی پرفارم کریں گے


    لفظ ’کلام‘ پر فوراً کہا ’صوفیانہ‘ جب کہ ’کوکو کورینا‘ پر فوراً کہا ’بہت اچھا‘۔ شازیہ نے کہا کہ انھیں ادب اور شاعری سے بھی خصوصی لگاؤ ہے۔

    واضح رہے کہ شازیہ خشک پاکستانی لوگ گلوکارہ ہیں، انھیں کئی علاقائی زبانوں میں گلوکاری کا اعزاز حاصل ہے۔ شازیہ خشک نے 1992 میں کیرئیر کا آغاز کیا، کیرئیر میں 500 تک گانے گا چکی ہیں۔

    2014 میں انھیں امریکی سفارت خانے کی جانب سے خیر سگالی کے سفیر کا اعزاز دیا گیا۔ ازبکستان حکومت کی جانب سے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ادھر کراچی کےعلاقے بوٹ بیسن میں واقع بے نظیر بھٹو شہید پارک میں اے آر وائی نیٹ کی جانب سے ’اے آر وائی فیسٹ‘ کا انعقاد کیا گیا ہے، فوڈ فیسٹیول کا آغاز کل 22 دسمبر کو ہوا جو 25 دسمبر تک جاری رہے گا۔ فیسٹول کے پہلے روز شازیہ خشک اور جوش بینڈ سمیت دیگر فن کاروں نے پرفارم کر کے ایسا سماں باندھا کہ شرکت کرنے والے غیر ملکی بھی جھوم اٹھے۔

  • پاکستانی گلوکارہ زوئی ویکاجی ازدواجی بندھن میں بندھ گئیں

    پاکستانی گلوکارہ زوئی ویکاجی ازدواجی بندھن میں بندھ گئیں

    کراچی: پاکستانی فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگانے والی گلوکارہ زوئی ویکاجی ازدواجی بندھن میں بندھ گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق زوئی ویکاجی 23 دسمبر کو کراچی میں کمال خان کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھیں، تقریب میں دونوں کے اہل خانہ نے شرکت کی۔

    گلوکارہ کی قریبی دوست اور نامور پاکستانی اداکارہ صنم سعید بھی تقریب میں شریک تھیں۔ ویکاجی کی شادی مقامی ہوٹل میں منعقد کی گئی جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں۔

    گلوکارہ نے اپنی شادی کو خفیہ رکھنے کے لیے پہلے سے کوئی اعلان نہیں کیا تھا البتہ قریبی لوگ اُن کی شادی کے حوالے سے باخبر تھے۔

    View this post on Instagram

    So happy for these two!! Love you both! ❤️❤️❤️🤗🤗🤗

    A post shared by Rachel Viccaji (@rachelavanviccaji) on

    یاد رہے کہ گلوکارہ زوئی ویکاجی نے کئی پاکستانی فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور پاپ میوزک متعارف کرنے والی نازیہ حسن کے گیت گا کر انڈسٹری میں اپنی پہچان بنائی۔

    View this post on Instagram

    👰❤️🤵

    A post shared by Rachel Viccaji (@rachelavanviccaji) on

    ویکاجی نے مشرقی اور مغربی میوزک کو یکجا کر کے ایک نئے اور منفرد انداز سے گائیگی کی۔ انہوں نے پاپ، جاز اور کلاسیکل موسیقی کو ایک ساتھ شامل کر کے گانے گائے جنہیں شائقین میوزک نے بہت پسند کیا۔

    View this post on Instagram

    A post shared by Rachel Viccaji (@rachelavanviccaji) on

  • مومنہ کی ’کوکو کورینا‘ کے ساتھ ایک بار پھر واپسی، ویڈیو وائرل

    مومنہ کی ’کوکو کورینا‘ کے ساتھ ایک بار پھر واپسی، ویڈیو وائرل

    لاہور: پاکستانی گلوکارہ مومنہ مستحسن نے ایک ماہ تنقید کے بعد ایک بار پھر کو کو کورینہ گانا گا کر اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جسے سامعین و ناظرین نے پسند بھی کیا۔

    تفصیلات کے مطابق کوک اسٹوڈیو کے گیارہویں سیزن میں پروڈیوسر زوہیب قاضی اور علی حمزہ نے مشہور پاکستانی گانے ’کو کو کورینا‘ کو نئے انداز سے پیش کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔

    کوک اسٹوڈیو کے سیزن 11 میں یہ گانا گلوکارہ مومنہ مستحسن اور احد رضا نے گایا جسے شائقین نے بالکل بھی پسند نہیں کیا۔

    ’کو کو کورینا‘ ریلیز ہونے کے بعد نہ صرف کوک اسٹوڈیو کے منتظمین بلکہ دونوں گلوکاروں کو بھی سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا حتیٰ کہ وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری نے بھی سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل دیا تھا۔

    مزید پڑھیں: ’کوکو کورینا‘ کا ری میک: شیریں مزاری اور مومنہ میں ٹویٹر پر نوک جھونک

    کوکو کورینا کا ری میک سن کر وحید مراد کے صاحبزادے عادل مراد نے کوک اسٹوڈیو کے پروڈیوسر کو گانے کی اجازت دینے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا تھا۔

    مشہور پاکستانی گانے کی بگڑی شکل سامنے آنے کے بعد بہت سے گلوکاروں اور موسیقاروں نے اپنے اپنے انداز سے اس گانے کو کمپوز کر کے بہتر انداز سے پیش کیا تھا جن میں سے کچھ کی کاوش کو مداحوں نے پسند بھی کیا تھا۔

    یہ بھی دیکھیں: مومنہ کے بچپن کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل

    اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دو بھائی جو میوزک انڈسٹری میں ’لیو ٹوئنس‘ کے نام سے کام کرتے ہیں انہوں نے وائلن اور گٹار پر سولو پرفارم کر کے ویڈیو شیئر کی تھی جسے بہت پسند کیا گیا تھا۔

    دونوں بھائیوں کی ویڈیو کو دیکھتے ہوئے گلوکارہ مومنہ مستحسن نے اُن سے رابطہ کیا اور اپنے آواز کے ساتھ اسے ریکارڈ کرنے کی اجازت بھی مانگی۔

    پاکستانی گلوکارہ نے سماجی رابطےکی ویب سائٹ پر ویڈیو شیئر کی جس میں مومنہ دونوں بھائیوں کے ساتھ ’کو کو کورینا‘ گاتے ہوئے نظر آرہی ہیں، ساتھ میں انہوں نے لکھا کہ ’ایک ماہ کی تنقید کے بعد نیا تحفہ پیش ہے‘۔

    View this post on Instagram

    Aik maheena of trolling ki khushi mai, iak aur tohfa 🌹 😏😉😂 with love, M. ♥️ #KoKoKorina #LeoTwins

    A post shared by Momina Mustehsan (@mominamustehsan) on

    گلوکارہ کی ویڈیو پر کچھ صارفین نے انہیں نہ صرف سراہا بلکہ یہ بھی کہا کہ ’گانے کی شکل پروڈیوسرز نے ہی بگاڑی تھی وگرنہ مومنہ کی آواز بہت اچھی ہے‘۔

    کیا آپ کو یہ گانا پسند آیا؟ کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں۔

  • پاکستانی گلوکارہ  قرۃ العین بلوچ کی بالی ووڈ میں انٹری

    پاکستانی گلوکارہ قرۃ العین بلوچ کی بالی ووڈ میں انٹری

    ممبئی: پاکستانی گلوکارہ قرۃ العین بلوچ بالی ووڈ ہدایت کار موہت سوری کی البم کےلیے گانا گائیں گی.

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی گلوکارہ قرۃ العین بلوچ کا شمار پاکستان کی بہترین گلوکاراوں میں کیا جاتاہے،وہ اب ہدایت کار موہت سوری کے البم کے لیے گانا گائیں گی.

    پاکستانی گلوکارہ کا گانا’سئیاں‘ پنجابی فلسفی بابا بلھے شاہ کے کلام سے اخذ ہے اور اس گانے کی ہدایت کاری خود موہت سوری کریں گے،جبکہ گانے کی کمپوزیشن سلمان ایلبرٹ کریں گے.

    ہدایت کار موہت سوری کے مطابق یہ گانا کسی فلم میں نہیں لیا گیا ہے،وہ ہرسال ایک ہی فلم میں کام کرتے ہیں اور نئے ٹیلنٹکو اپنی فلموں میں چانس دیتے ہیں،انہوں نے بتایا کہ رواں سال ان کی فلم’ہالف گرل فرینڈ‘ ریلیز ہوگی جس میں کچھ نئے گلوکار اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے نظر آئیں گے.

    پاکستانی گلوکارہ کا اس سے قبل عمیر جسوال کے ساتھ گایا ہوا گانا ’سمی میری وار‘ بھی کافی مقبول ہوا تھا.جبکہ قرۃ العین بلوچ نے 2011 میں بطور گلوکارہ اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا.

    یاد رہے کہ پاکستانی گلوکار عاطف اسلم اور علی ظفر بھی بالی ووڈ میں اپنی قسمت آزما چکے ہیں.