Tag: پاکستان تحریک انصاف

  • حکومتی وفد بی این پی مینگل کو راضی کرنے میں کامیاب، اتحاد ختم ہونے کا خطرہ ٹل گیا

    حکومتی وفد بی این پی مینگل کو راضی کرنے میں کامیاب، اتحاد ختم ہونے کا خطرہ ٹل گیا

    اسلام آباد: بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل سے حکومتی اتحاد ختم ہونے کا خطرہ ٹل گیا، حکومتی وفد بی این پی مینگل کو راضی کرنے میں کام یاب ہو گیا، معاملات طے پا گئے۔

    تفصیلات کے مطابق بی این پی مینگل کی جانب سے پیش کردہ شرایط حکومت نے مان لیں، جس کے بعد حکومتی اتحاد ٹوٹنے کا خطرہ ٹل گیا، اس سلسلے میں حکومتی وفد کی جانب سے مذاکرات کام یاب ہو گئے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے بھی بلوچستان کے لیے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، حکومت نے بلوچستان میں توانائی، ڈیم اور سڑکیں تعمیر کرنے کی شرایط مان لی ہیں۔

    وفاقی حکومت بی این پی مینگل کو میگا پروجیکٹس کے لیے فنڈز دینے پر بھی تیار ہو گئی ہے، اتحادیوں میں معاملات وزیر اعظم آفس میں آج رات اہم ملاقات میں طے پائے۔

    یہ بھی پڑھیں:  وزیر اعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس، انکوائری کمیشن کے قیام اور طریقہ کار پر مشاورت

    شرایط ماننے پر بی این پی مینگل وفاقی حکومت کی بجٹ منظوری میں حمایت کرے گی، خیال رہے کہ فریقین کی پہلی ملاقات آج دوپہر پارلیمنٹ لاجز، دوسری رات 8 بجے وزیر اعظم آفس میں ہوئی۔

    حکومت اور بی این پی مینگل کے درمیان مذاکرات پر وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ رکھا گیا، حکومتی وفد میں پرویز خٹک، قاسم سوری، خسرو بختیار، ارباب شہزاد شریک ہوئے جب کہ بی این پی کی جانب سے اختر مینگل، جہانزیب جمالدینی، ہاشم نوتیرئی اور عاصم بلوچ شریک ہوئے۔

    قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری، وزیر دفاع پرویز خٹک اور ارباب شہزاد پر مشتمل کمیٹی شرایط پرعمل درآمد کرائے گی۔

  • دس سال میں قرضہ 24 ہزار ارب تک کیسے پہنچا؟ وزیر اعظم کا اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کا اعلان

    دس سال میں قرضہ 24 ہزار ارب تک کیسے پہنچا؟ وزیر اعظم کا اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کا اعلان

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں ہائی پاورڈ کمیشن بنا رہے ہیں، 10 سال میں قرضہ 24 ہزار ارب تک کیسے پہنچا، اس کی رپورٹ بنے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم نے بجٹ کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ اور پی پی نے معیشت کو غیر مستحکم کرنے کی پوری کوشش کی، زرداری کی 100 ارب روپے کی منی لانڈرنگ سامنے آئی۔

    انھوں نے کہا کہ ہائی پاورڈ کمیشن میں آئی ایس آئی، ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر اور ایس ای سی پی شامل ہوگی، آیندہ ملک میں کوئی کرپشن نہیں کر سکے گا، اب ملک مستحکم ہوگیا، اور میں ان کے پیچھے جاؤں گا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ یہ کہتے ہیں احتجاج کریں گے، سڑکوں پر نکلیں گے حکومت گرا دیں گے، میں ان سے کہتا ہوں کہ میں اپنے گھر میں رہتا ہوں، اپنا خرچہ خود کرتا ہوں، قوم سے وعدہ ہے چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا۔

    عمران خان نے مزید کہا کہ میں وہ ہوں جو ایک لاکھ لوگوں کے اسٹیڈیم میں جاتا تھا تو سب برا بھلا کہتے تھے، اب تھوڑے سے لوگوں سے مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا، میری جان بھی چلی جائے، چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔

    وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ یہ وہ بجٹ ہے جو نئے پاکستان کے نظریے کی عکاسی کرے گا، غریبوں کے لیے بجٹ میں فنڈز رکھے گئے ہیں۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ میرا نظریہ پاکستان کے اوپر آ گیا، اب قوم اوپر اٹھے گی، یہ کوئی سوئچ نہیں جو عمران خان دبائے گا اور نیا پاکستان بن جائے گا، بڑے بڑے برج جو آج جیلوں کے اندر ہیں کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ چیئرمین ایف بی آر اور میں اب اکٹھے کام کریں گے، 5500 ارب کا ٹارگٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، شبر زیدی کے ساتھ مل کر ایف بی آر کے ادارے کو ٹھیک کروں گا، اسی قوم سے ٹیکس اکٹھا کرنا ہے مجھے آپ کی ضرورت ہے، ایمنسٹی اسکیم کا پورا فائدہ اٹھائیں، 30 جون کے بعد تمام بے نامی پراپرٹیز ضبط ہو جائیں گی۔

    عمران خان نے مزید کہا کہ ملک کے لیے قربانیاں دینے پر مسلح افواج کو سلام پیش کرتا ہوں، مسلح افواج نے صرف جونیئرز کی تنخواہیں بڑھائیں، مسلح افواج کے بجٹ سے متعلق احسن اقدام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

    انھوں نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ کے ججز کو خریدا گیا، نیب کو ان دو جماعتوں نے مل کر بنایا تھا، لیکن جب سے ہماری حکومت آئی ہے تو جمہوریت ٹھیک سے نہیں چل رہی، دو مختلف نظریے جب پارلیمنٹ ہوتے ہیں تو جمہوریت چلتی ہے، پارلیمنٹ میں گفتگو ہوتی ہے تو ایک تسلسل بنتا ہے یہ جمہوریت کی خوب صورتی ہے، اپوزیشن پہلے دن سے تقریر نہیں کرنے دے رہی، میں نے ان کا کیا بگاڑا تھا۔

    عمران خان نے کہا ’جب میں اسمبلی میں جاتا ہوں تو یہ بد تمیزی کرتے اور شور مچاتے ہیں، لیکن بلیک میلنگ اور دباؤ میں آ کر این آر او نہیں دوں گا، ملک کو مقروض تاریخ کے دو این آر او نے کیا ہے، دونوں پارٹیوں کی حکومتیں کرپشن کی وجہ سے گئی ہیں، اپوزیشن پر مقدمات میں نے نہیں بنائے، ن لیگ کی دو بار حکومت آئی تو دونوں بار آصف زرداری کو جیل میں ڈالا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ مشرف کی حکومت آئی تو نواز شریف کو این آراو دیا گیا، پہلی بار این آر او مشرف نے 2002 میں دیا، 2008 میں یہ واپس آئے اور دونوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی کیا، آصف زرداری اور نواز شریف نے نیب کا چیئرمین مل کر لگایا، یہ دونوں سمجھتے تھے کہ انھیں کوئی نہیں پکڑے گا، شہباز شریف کے خاندان نے 26 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی، 10 سال میں 30 کمپنیاں بنائیں۔

  • پشاور 20 ہزار، ہنگو 9 ہزار، سوات میں 3 ہزار گھر تعمیر کرنے کی منظوری

    پشاور 20 ہزار، ہنگو 9 ہزار، سوات میں 3 ہزار گھر تعمیر کرنے کی منظوری

    پشاور: خیبر پختون خوا کی حکومت نے صوبائی دارالحکومت پشاور، ہنگو اور سوات کے اضلاع میں گھروں کی تعمیر کے منصوبے کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے صوبے میں گھروں کی تعمیراتی اسکیم کی منظوری دے دی۔

    اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں محمود خان کی زیر صدارت ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا، جس میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔

    تعمیراتی اسکیم کے تحت پشاور میں 20 ہزار گھر تعمیر کیے جائیں گے، جب کہ ضلع ہنگو میں 9 ہزار، اور ضلع سوات میں 3 ہزار گھر تعمیر کیے جائیں گے۔

    وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان نے اسکیم کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ وزیر اعظم کی عوام کے لیے ہم دردی اور ان کے وژن کا عکاس ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بجٹ 2019 -2020: تحریک انصاف نے 7 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    محمود خان نے متعلقہ محکمے کو ہدایت کی کہ اسکیم کے سلسلے میں مفاہمتی یادداشت اور اس کی فزیبلٹی رپورٹ 20 دنوں میں مکمل کی جائے۔

    کے پی کے وزیر اعلیٰ نے متعلقہ محکموں سے 10 دن میں سوات اور ہنگو کی اسکیموں کا بھی حتمی پروپوزل طلب کر لیا۔

    دریں اثنا، وزیر اعلیٰ محمود خان نے کوہاٹ میں ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق بھی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

    خیال رہے کہ آج پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سالانہ بجٹ میں بتایا گیا ہے کہ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے راولپنڈی، اسلام آباد میں 25 ہزار ہاؤسنگ یونٹس کا افتتاح کر دیا ہے۔

    بجٹ تقریر میں کہا گیا کہ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے پروگرام سے 28 صنعتوں کو فائدہ ہوگا، پروگرام کے لیے کراچی، کوئٹہ اور فیصل آباد میں زمین حاصل کر لی گئی ہے۔

  • بجٹ 2020 -2019: تحریک انصاف نے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    بجٹ 2020 -2019: تحریک انصاف نے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے وزیرِ مملکت برائے محصولات حماد اظہر نے آج اپنی حکومت کا پہلا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا ہے، بجٹ کا حجم 70.22 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے  گئے ہیں، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560ارب روپے ہوگا۔

    بجٹ میں وفاقی وزراؤں کی تنخواؤں میں 10 فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ گریڈ 21 اور 22 کے سرکاری افسران کی  تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ چارلاکھ سالانہ آمدن والوں کو انکم ٹیکس دینا ہوگا۔

    وزیرمملکت حماداظہر نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کامجموعی قرضہ 31000ارب روپےہے، کمرشل قرضے سود پر لئے گئے ،بیرونی قرضوں کا حجم ضرورت سے زیادہ تھا،جاری کھاتوں کاخسارہ20ارب ڈالراورتجارتی خسارہ32ارب ڈالرتھا۔بجلی کےنظام کاقرضہ 1200ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔

    ماضی میں روپےکی قدرمستحکم رکھنےکیلئےاربوں ڈالرجھونکےگئے ستمبر2017میں روپیہ گرنے لگا ترقی کا زور ٹوٹ گیا، سرکاری اداروں کاخسارہ1300ارب روپےرہا۔امپورٹ ڈیوٹی میں اضافےسےتجارتی خسارےمیں کمی ہوئی۔

    بجٹ تقریرکا عکس

    وزیراعظم پراعتمادکےباعث ترسیلات زرمیں2ارب ڈالرکااضافہ ہوا،12ارب ماہانہ گردشی قرضےمیں کمی آئی۔ دوست ممالک سے 9.2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملی ۔صنعتی اوربرآمدی شعبےکورعایتی نرخوں پربجلی،گیس فراہم کی گئی حکومتی اقدامات کےباعث برآمدات میں اضافہ ہوا۔

    آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کامعاہدہ ہوگیا ہے۔آئی ایم ایف بورڈکی منظوری کےبعدمعاہدےپرعملدرآمدہوگا،آئی ایم ایف معاہدےکےبعداضافی امدادبھی میسرآئےگی ۔

    مالیاتی نظم وضبط کےباعث سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ۔سعودی عرب سےمؤخرادائیگی پرتیل کی سہولت حاصل ہوئی،اگلےسال تیل کی درآمدی بل میں اگلےسال مزیدکمی آئیگی۔95ترقیاتی منصوبےمکمل کرنےکیلئےفنڈز جاری کئےگئے۔

    اسٹیٹ بینک کومزیدخودمختاری دی گئی ہے ، افراط زر کو مانیٹری پالیسی کےذریعے قابو کیاجارہاہے۔ سنگل ٹریژری اکاؤنٹ بنایا گیاہے،145ارب روپےکےریفنڈزجاری کئے۔

    بجٹ تخمینہ

    رواں سال وفاقی بجٹ کا تخمینہ 7،022 ارب روپے رکھا گیا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال سے تیس فیصد زیادہ ہے جبکہ وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6،717 روپے ہے۔

    ٹیکس نظام میں تبدیلی

    گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسی کے باعث بد ترین نتائج سامنے آئے، ٹیکس بیس میں 9 فی صد کمی ہوئی، ٹیکس اقدامات وسط مدتی پالیسی کا حصہ ہیں، ٹیکس چھوٹ اور مراعات میں مرحلہ وار کمی کی جائے گی۔

    حکومت کی توجہ مؤثر اور بے خوف ٹیکس کمپلائنس پر رہے گی، نظام میں بہتری کے لیے حقیقی آمدن پر ٹیکس لگایا جائے گا، ٹیکس بیس بڑھانے کے لیے معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا۔

    حکومت نے اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کے ذریعے اصلاحات فراہم کی ہیں۔

    ٹیکسز

    کارپوریٹ سیکٹر کے کاروبار چلانے والے افراد کا ٹیکس ریٹ کم رکھا جائے گا، کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ریٹ میں اضافہ نہیں کیا جا رہا، ٹیکس ریفنڈ کے لیے بانڈز جاری کرنے کی تجویز ہے۔

    انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا طریقہ کار انتہائی سادہ بنایا جا رہا ہے، حکومت پرمژری نوٹ جاری کرے گی، نئے گریجویٹس کو ملازمت فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ٹیکس کریڈٹ دیا جائے گا، نان فائلرز پر 50 لاکھ سے زائد مالیت کی جائیداد کی خریداری پر پابندی ختم کر دی ہے۔

    گزشتہ حکومت کی انکم ٹیکس چھوٹ سے 80 ارب کا نقصان ہوا، 6 لاکھ روپے سے زائد سالانہ آمدنی پر 5 سے 35 فی صد پروگیسو ٹیکس لگایا جائے گا، تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی کم از کم حد 6 لاکھ روپے کی تجویز ہے، غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی کم از کم حد 4 لاکھ روپے کی تجویز ہے۔

    ترقیاتی بجٹ

    گزشتہ برس ترقیاتی کاموں کے لیے دس کھرب تیس ارب روپے وفاقی سطح پر مختص کیے گئے تھے ، رواں برس تقریبا اٹھارہ کھرب روپے مختص کیے  گئے ہیں۔ اس میں سے 950 ارب روپے وفاقی منصوبوں کے لیے اور باقی صوبائی منصوبوں کے لیے ہیں۔

    ترقیاتی بجٹ میں حکومت صحت، پانی وغیرہ کے لیے 93 ارب مختص کرے گی، حکومت کوشش کرے گی کہ قیمتوں میں کم از کم اضافہ ہو، عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہو تو بھی غریبوں پر بوجھ نہیں ڈالیں گے، 950 ارب روپے وفاقی ترقیاتی بجٹ کے لیے رکھے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ کی ترجیحات میں صاف پانی، سرمایہ کاری اور بجلی کی فراہمی شامل ہیں۔

    نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے لیے 156 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پشاور کراچی موٹر وے کے سکھر سیکشن کے لیے 19 ارب روپے مختص، انسانی ترقی کے لیے 60 ارب روپے کی تجویز ہے۔ کوئٹہ ڈیویلپمنٹ پیکج کا حجم 10.2 ارب روپے رکھا گیا ہے، 43.5 ارب روپے کراچی کے منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    دفاعی بجٹ

    پاکستان اپنے مخصوص جغرافیے کے سبب سیکیورٹی خدشات کا شکار ہے، دفاع پر کثیر رقم خرچ کرنا ہماری سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ گزشتہ برس دفاع کے لیے 11 کھرب روپے مختص کیے گئے ، پاک فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اس سال دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں لیا جائے گا، اس سال دفاعی بجٹ 1150 ارب  پر مستحکم رہے گا۔

    توانائی

    پاکستان میں توانائی کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے مستقل اقدامات کی ضرورت ہے گزشتہ برس اس مد میں 138 ارب روپے رکھے گئے تھے، رواں برس توانائی کی مد میں 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 300 یونٹ سے کم استعمال کرنے والوں کے لیے 200 ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے تاکہ انہیں لاگت سے بھی سستی بجلی فراہم کی جاسکے۔

    اعلیٰ تعلیم

    پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک انتہائی مشکل امر ہے اور اس مد میں بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے، گزشتہ برس اس میں میں 57 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، رواں برس اس ضمن میں 43 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    صحت

    اٹھارویں ترمیم کے بعد سے صحت صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاق بھی صحت کی سہولیات کی فراہمی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے گزشتہ برس صحت کی مد میں37 روپے مختص کیے گئے تھے۔ صحت اورپانی کیونکہ لازم و ملزوم ہیں لہذا صحت و پانی کے منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 93 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    زراعت

    پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہےگزشتہ سال اس شعبے کی دی جانے والی سبسڈی صوبوں کی صوابدید پر چھوڑی گئی تھی ، اس سال زراعت کے فروغ کے لیے 280 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    کمزور طبقے کے لیے خصوصی پالیسی

    کمزور طبقے کے لئے  حکومت نے چار خصوصی پالیسیز ترتیب دی ہیں، کمزور طبقے کو بجلی پرسبسڈی دینے کے  لئے 200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    غربت کے خاتمے کے لئے نئی وزارت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، 10 لاکھ افراد کے لئے نئی راشن کارڈ اسکیم شروع کی جارہی ہے۔ احساس پروگرام کےتحت وظیفے 5000 روپے سے بڑھا کر 5500 روپے کیے جائیں گے۔

    عمر رسیدہ افراد کے لئے احساس گھر بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے، بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 سے بڑھا کر 1000 روپے کی جا رہی ہے. کمزور طبقے کی سماجی تحفظ کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

    کارپوریٹ سیکٹر کے کاروبار چلانے والے افراد کا ٹیکس ریٹ کم رکھا جائے گا، کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ریٹ میں اضافہ نہیں کیا جا رہا، ٹیکس ریفنڈ کے لیے بانڈز جاری کرنے کی تجویز ہے۔

    گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ

     حالیہ بجٹ میں ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکس میں 2.5 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ 2 ہزار سی سی تک کی گاڑیوں میں ٹیکس میں5 فی صد، جب کہ 2 ہزار سے زائد سی سی کی گاڑیوں میں ٹیکس میں 7.5 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔

    بلوچستان پیکیج

    بجٹ میں کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج کا حجم 10.2ارب روپے رکھا گیا ہے، بلوچستان کے کسانوں کے لئے مشترکہ اسکیم شروع کی ہے۔

    ملازمین کی تنخواہیں

    گریڈ  سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد اضافہ، 17 سے 20 گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 5 فی صد اضافہ، 21 سے 22 گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تمام پنشنرز کی پنشن میں 10 فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے، معذور افراد کے وظیفے میں 1000 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

    وزرا نے رضا کارانہ طور پر تنخواہوں میں 10 فی صد کمی کا تاریخی فیصلہ کیا۔ بجٹ میں کم سے کم تنخواہ 17500 روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    کسٹم ڈیوٹی

    درآمدات سے حاصل ہونے والے ریونیو میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، 1600 سے زائد ٹیرف لائن پر امپورٹ ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے، حکومت کسٹم ٹیرف کے اصلاحاتی منصوبے کو حتمی شکل دے رہی ہے۔

    امپورٹڈ اشیا پر کم سے کم ٹیکس لگایا جا رہا ہے، غیر بُنے کپڑے کی امپورٹ میں کمی کی جا رہی ہے، لکڑی کے فرنیچر میں استعمال کی کچھ اشیا پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے، بجٹ میں لکڑی پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔

    خوردنی تیل صاف کرنے والے پلانٹس کے پارٹس پر ڈیوٹی کم کر رہے ہیں، اسمگلنگ کم کر کے ضایع ہونے والے محصولات کو واپس لایا جائے گا، ادویہ میں استعمال کیمیکل پر ڈیوٹی 3 فی صد کم کی جا رہی ہے، ایل این جی پر 5 فی صد کسٹم ڈیوٹی عاید کر دی گئی ہے۔

    جنرل سیلز ٹیکس

     

    جنرل سیلز ٹیکس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا جا رہا، دودھ کریم اور فلیورڈ دودھ پر 10 فی صد ٹیکس عاید ہوگا ، بھٹے کی اینٹوں پر 17 فی صد سیلز ٹیکس کم کرنے کی تجویز ہے، بھٹے کی اینٹو ں پر سیلز ٹیکس کی شرح علاقائی بنیاد پر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    موبائل فون پر عاید ٹیکس میں 3 فی صد کمی کر رہے ہیں، چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح 8 فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد کر دی گئی ہے، امید ہے چینی پر صرف ساڑھے 3 روپے فی کلو اضافہ ہوگا۔

    تمام ایس آر اوز کا خاتمہ کیا جا رہا ہے، خشک دودھ پر سیلز ٹیکس کی شرح کم کر کے 10 فی صد کر دی گئی ہے، 17 فی صد کی معیاری شرح کو بحال کر دیا گیا ہے، چمڑے کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس 17 فی صد بڑھا دیا گیا ہے۔

    ریسٹورنٹ، بیکرز، کھانے پینے کی اشیا فراہم کرنے والوں پر سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، ان پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فی صد سے کم کر کے ساڑھے 7 فی صد کر دی گئی ہے، اسٹیل میں استعمال اسکریپ پر 5600 فی صد میٹرک ٹن سیلز ٹیکس بحال کر دیا گیا ہے۔

    سونا، چاندی، ہیرے اور زیورات پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن کے عمل کو بھی آسان بنایا جا رہا ہے۔ ماربل کی صنعت کو ملنے والی بجلی پر ایک روپے 25 پیسے فی یونٹ ٹیکس کی تجویز ہے۔ کمپنیوں پر 29 فی صد ٹیکس ریٹ 2 سال کے لیے منجمد کرنے کی تجویز ہے۔

    کولڈ ڈرنکس اور مشروبات

     

    کولڈ ڈرنکس اورمشروبات پر13 فی صد فیڈرل ایکسائزڈیوٹی، گھی اور خوردنی تیل پر 17 فی صد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عاید کی گئی ہے، خوردنی تیل کے بیجوں پر بھی رعایت ختم کی جائے گی، برانڈڈ گھی اور تیل پر 17 فی صد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عاید کی گئی ہے۔

  • پی ٹی آئی حکومت اپنا پہلا بجٹ آج پیش کرے گی، ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 سو ارب روپے سے زائد متوقع

    پی ٹی آئی حکومت اپنا پہلا بجٹ آج پیش کرے گی، ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 سو ارب روپے سے زائد متوقع

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنا پہلا بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کرے گی، ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 سو ارب روپے سے زائد متوقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت آج مالی سال 20-2019 کا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے، ترقیاتی بجٹ کا حجم 18 سو ارب روپے سے زائد متوقع ہے، جب کہ اس سال دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

    وزیر اعظم عمران خان نے بجٹ تجاویز کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی آج طلب کر لیا ہے، پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی آج طلب کیا گیا ہے۔

    قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ پیش کریں گے۔

    وفاقی بجٹ کا کُل حجم 6 ہزار 800 ارب روپے ہے، 34.6 فی صد شرح سے اضافے کے ساتھ پانچ ہزار 550 ارب روپے کے ٹیکس محصولات کا مشکل ہدف حاصل کرنے کے لیے متعدد نئے ٹیکس عاید کرنے اور 750 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگا نے کی بھی تجویز ہے۔

    ذرایع کے مطابق بجٹ میں دی گئی رعایتیں اور سبسڈی ختم کرنے اور برآمدی شعبے کے لیے زیرو ٹیکس ریٹ کے خاتمے کی بھی تجویز ہے۔

    جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا حصہ 3 فی صد سے زیادہ بڑھائے جانے کا امکان ہے، ٹیکس بیس بڑھا کر 550 ارب روپے جب کہ اثاثہ جات ظاہر کرنے کی اسکیم سے ایک سو ارب روپے ملنے کا امکان ہے۔

    رواں مالی سال میں مختلف شعبوں کی ترقی کی شرح کیا رہی؟ اس سلسلے میں حفیظ شیخ نے کہا کہ معاشی شرح نمو 3.3 فی صد رہی، دو سال میں زر مبادلہ ذخائر میں نمایاں کمی ہوئی، گزشتہ حکومتوں نے آمدن سے زائد اخراجات کیے۔

    انھوں نے کہا کہ سفید ہاتھیوں کو دھکا لگا کر چلانے کے لیے قوم کا پیسا لگایا گیا، معاشی شعبوں کے لیے حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کر دیے ہیں، آیندہ مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو کا ہدف 4 فی صد مقرر کیا گیا ہے۔

  • حکومت نئے بجٹ میں بھی نچلے طبقے پر بوجھ نہیں پڑنے دے گی: حفیظ شیخ

    حکومت نئے بجٹ میں بھی نچلے طبقے پر بوجھ نہیں پڑنے دے گی: حفیظ شیخ

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ نے رواں مالی سال کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نئے بجٹ میں بھی نچلے طبقے پر بوجھ نہیں پڑنے دے گی۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ نے کہا کہ اب معاشی حالات ایسے نہیں کہ اداروں کو ماضی کے انداز میں چلایا جائے، خسارے میں جانے والے ادارے ملکی خزانے پر 300 ارب روپے کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ ملکی آبادی کا بڑا حصہ ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتا جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے، موجودہ حکومت کے معاشی اقدامات کے نتائج جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے، مہنگائی کی صورت میں حکومت وقت کو ہی سب سے بڑی مشکل درپیش ہوتی ہے۔

    حفیظ شیخ نے کہا کہ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھنے کے باوجود حکومت نے غریب طبقے پر بوجھ نہیں ڈالا، حکومت نئے بجٹ میں بھی نچلے طبقے پر بوجھ نہیں پڑنے دے گی، حکومت نے پس ماندہ طبقے کے معاشی تحفظ کے لیے خصوصی سماجی پروگرام ترتیب دیے ہیں اور اس کے لیے خصوصی رقم بھی مختص کی گئی ہے۔

    حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے معیشت کا اچھا برا دونوں بتا دیا گیا ہے، آیندہ سال سود پر 3 ہزار ارب خرچہ ہوگا، صوبوں کو دینے کے بعد وفاق کا ہاتھ خالی ہوگا، ٹیکسوں کے بغیر کام نہیں چلے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  حکومتی ترجمانوں کا اجلاس: بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج سے نمٹنے پر غور

    انھوں نے کہا کہ ملک کے زائد آمدن والے طبقے کو معاشی استحکام کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹانا ہوگا، کفایت شعاری کی مہم پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔

    انھوں نے کہا کہ معاشی صورتِ حال کو بہتر کرنے کے لیے سب سے پہلے درآمدات پر کنٹرول کرنا ہوگا، اس لیے درآمدات پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے، معاشی خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت نے بیرون ملک سے 9.2 ارب ڈالر کی معاونت لی، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بھی 6 ارب ڈالر سے زائد کا پیکیج لیا جا رہا ہے، تاہم غیر ملکی معاونت سے ملک کو خوش حال نہیں بنایا جا سکتا، اپنے اداروں کو مستحکم کرنا ہوگا۔

    انھوں نے رواں مالی سال کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران اقتصادی ترقی کی شرح 3.29 فی صد رہی، زرعی شعبے کی شرح نمو 0.85 فی صد رہی، صنعتی شعبے کی شرح ترقی 1.4 فی صد جب کہ خدمات کی شرح نمو 4.7 فی صد رہی۔

  • آصف زرداری کی ضمانت منسوخ توہونا ہی تھی ، سینیٹرفیصل جاوید

    آصف زرداری کی ضمانت منسوخ توہونا ہی تھی ، سینیٹرفیصل جاوید

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرفیصل جاوید نے کہا آصف زرداری کی ضمانت منسوخ توہونا ہی تھی، لگتا ہے نیب کےپاس ٹھیک ٹھاک ثبوت ہیں، 10سال میں صرف 2خاندان کی جائیدادیں بڑھیں جبکہ عمر چیمہ کا کہنا تھا آصف زرداری کی درخواست ضمانت پرفیصلہ منطقی قابل فہم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمر چیمہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا آصف زرداری کی درخواست ضمانت پر فیصلہ منطقی اور قابل فہم ہے، محسوس ہورہاہے آصف زرداری کیخلاف شواہد ناقابل تردید ہیں۔

    عمر چیمہ کا کہنا تھا جے آئی ٹی نے بہت سے ناقابل تردید شواہد پر رپورٹ مرتب کی، کرپٹ کردار اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

    لگتا ہے آصف زرداری کیخلاف نیب کےپاس ٹھیک ٹھاک ثبوت ہیں، فیصل جاوید


    دوسری جانب پی ٹی آئی سینیٹر فیصل جاوید نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر کہ آصف زرداری کی ضمانت منسوخ توہونا ہی تھی، عام آدمی سوچتا ہےکہ دوخاندانوں کےاثاثوں کا گراف اوپر جارہا ہے،غربت کا گراف نیچےجا رہا ہے، ان کےذرائع آمدن کیا ہیں، لگتا ہے نیب کےپاس ٹھیک ٹھاک ثبوت ہیں۔

    فیصل جاوید کا کہنا تھا قانون اپنا راستہ خود لے گا، 10 سال میں غریب مزید غریب، ادارے تباہ ہوئے اور صرف 2خاندان کی جائیدادیں بڑھیں، ملک کے قرضے اوپر جاتےرہے ،غربت بڑھتی رہی۔

    انھوں نے کہا عام آدمی دیکھ رہا ہے یہ امیر ہوگئے اور وہ غریب ہورہےہیں، ان سے چوری کا پوچھا جائے تووزیراعظم پر الزام لگاتےہیں، یہ سب اپنی کرپشن اور مفادات کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں، چارٹر آف ڈیموکریسی نہیں ماضی میں چارٹرآف کرپشن کیاگیا۔

    یاد رہے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی اور گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • وزیر اعظم بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، عوام مولانا کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے: علی امین گنڈاپور

    وزیر اعظم بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، عوام مولانا کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے: علی امین گنڈاپور

    اسلام آباد: وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے مولانا فضل الرحمان کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، عوام مولانا فضل الرحمان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین کا کہنا ہے کہ حکومت دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی نفاذ کر رہی ہے، فضل الرحمان کرپٹ افراد کی حمایت کر کے کس اسلام کا ثبوت دے رہے ہیں۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان ذاتی مفاد اور پیسوں کے لیے کرپٹ عناصر کی ڈھال بنتے ہیں، وہ بچوں کو استعمال کر کے پیسا کھانا چاہ رہے ہیں، لیکن تحریک انصاف کی حکومت ایسا نہیں ہونے دے گی۔

    علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ عوام مولانا فضل الرحمان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے، وزیر اعظم پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہمیں عمران خان کا ساتھ دے کر پاکستان کو بچانا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان کا ہم سے زیادہ وفادار اور خیر خواہ کوئی نہیں ہوسکتا، مولانا فضل الرحمان

    انھوں نے کہا کہ فضل الرحمان کی جس حلقے سے ضمانت ضبط ہوئی وہاں چیلنج دیتا ہوں، ان کو پتا چل جائے گا کہ عوام پی ٹی آئی سے تنگ ہے یا نہیں۔

    خیال رہے کہ آج ڈی آئی خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ہم سے زیادہ ملک کا وفادار اور خیر خواہ کوئی نہیں ہو سکتا، جعل سازی اور دھاندلی سے بنائی گئی حکومت کو گھر بھیج دینا چاہیے۔

  • ایسٹ ڈیکلیریشن اسکیم کی تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی: شہزاد اکبر

    ایسٹ ڈیکلیریشن اسکیم کی تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی: شہزاد اکبر

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل جاری ہے، ایسٹ ڈیکلیریشن اسکیم کی تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق بیرسٹر شہزاد اکبر نے آج اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کے تحت 30 جون تک کا موقع فراہم کیا گیا ہے، اسکیم کی تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی۔

    معاونِ خصوصی کا کہنا تھا کہ ایسٹ ڈیکلریشن اسکیم میں توسیع نہ کیے جانے کے فیصلے کا تعلق آئی ایم ایف سے ہونے والے متوقع معاہدے سے ہے۔

    انھوں نے کہا کہ 1985 کے بعد سے سرکاری عہدہ رکھنے والوں پر اس اسکیم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ بیرسٹر شہزاد نے یہ بھی کہا کہ ٹیکسیشن سے متعلق مقدمات پر بھی پیش رفت ہوئی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  یہ ایمنسٹی اسکیم نہیں‌ بلکہ اثاثے ظاہر کرنے کا قانون ہے، چیئرمین ایف بی آر

    شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی گرے اکانومی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، اس سلسلے میں برطانیہ کے ساتھ خصوصی معاہدہ ہو چکا ہے، جس کے تحت منی لانڈرنگ کی معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا، ماضی میں بے نامی اثاثوں پر بل تو پاس ہوا تھا مگر قانون اب جا کر بنا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ 26 ممالک سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد اکاؤنٹس کے اعداد و شمار مل گئے ہیں، ستمبر تک 26 ملکوں سے اثاثوں کا ڈیٹا آ جائے گا، اب تک 12 ارب ڈالر کا کالا دھن معلوم کر لیا گیا ہے، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے بیرون ملک چھپائے گئے اثاثوں کی تفصیلات اکٹھی کر لی ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  وفاقی کابینہ نے اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کی منظوری دے دی

    دریں اثنا، شہزاد اکبر نے اپوزیشن لیڈر کی وطن واپسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اچھا ہوتا شہباز شریف اپنے صاحب زادے اور داماد کو بھی لندن سے ساتھ لاتے، شریف خاندان کے داماد علی عمران بھی مفرور ہیں۔

  • پنجاب کے سیاحتی مقامات کو ترقی دے کر ٹورازم سینٹرز بنائیں گے: عثمان بزدار

    پنجاب کے سیاحتی مقامات کو ترقی دے کر ٹورازم سینٹرز بنائیں گے: عثمان بزدار

    ڈی جی خان: وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ پنجاب کے سیاحتی مقامات کو ترقی دے کر ٹورازم سینٹرز بنائے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار بارتھی کے دورے کے بعد ڈی جی خان گئے، جہاں سرکٹ ہاؤس ڈیرہ غازی خان میں انھوں نے اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کی۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب کو زیر تکمیل اور نئے منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی، عثمان بزدار کو کوہِ سلیمان میلے کے انتظامات سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا، انھوں نے متعلقہ حکام کو کوہ سلیمان کے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ہدایت کی۔

    عثمان بزدار نے کہا کہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار کوہ سلیمان میلہ منعقد کرایا جائے گا، میلے میں فوڈ اسٹریٹ اور لوک موسیقی کا اہتمام کیا جائے گا، 3 روزہ میلے میں کیمپنگ کی سہولت بھی مہیا کی جائے گی، پیرا گلائیڈنگ کے مقابلے بھی منعقد ہوں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  ڈاکٹر انور سجاد کی نماز جنازہ ادا، وزیر اعلیٰ پنجاب کا اظہار افسوس

    قبل ازیں وزیر اعلیٰ پنجاب سے بارتھی میں علاقہ معززین اور عمائدین کی ملاقات ہوئی، وزیر اعلیٰ نے عمائدین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق حکمرانوں نے پنجاب کے پس ماندہ علاقوں کو یکسر نظر انداز کیا۔

    عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ماضی میں دور دراز علاقوں کے لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہوا، نمایشی حکمرانوں نے ذاتی نمود و نمائش کے منصوبے شروع کیے، جن سے عوام کو فائدہ نہیں پہنچا بلکہ وسائل ضایع کیے گئے۔

    انھوں نے کہا کہ نئے پاکستان میں عوام کی بنیادی ضرورتیں پورا کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، حکومت ہر علاقے کی یکساں اور متوازن ترقی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔