Tag: پاکستان فلم انڈسٹری

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی کے ذمہ دار شان اور سید نور ہیں: سعود قاسمی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی کے ذمہ دار شان اور سید نور ہیں: سعود قاسمی

    پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار و پروڈیوسر سعود قاسمی نے پاکستان فلم انڈسٹری کو تباہ کرنے والوں کا نام بتادیا۔

    سعود قاسمی پاکستانی ٹی وی، فلم اداکار اور پروڈیوسر ہیں جو متعدد ہٹ پاکستانی فیچر فلموں میں اپنے ورسٹائل کرداروں کے لیے جانے جاتے ہیں، انہوں نے کامیاب ٹی وی سیریلز بھی پروڈیوس کیے ہیں، انہوں نے مقبول پاکستانی ڈراموں جیسے کہ بے بی باجی، محبت ستارنگی، اور بے بی باجی کی بہویں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)

    حال ہی میں انہوں نے احمد بٹ کے ساتھ ایک پوڈ کاسٹ میں شرکت کی جس میں انہوں نے فلم انڈسٹری کی تباہی کا ذمے دار اداکار شان اور ڈائریکٹر سید نور کو ٹھہرایا۔

    شان شاہد کے بارے میں بات کرتے ہوئے سعود قاسمی نے کہا کہ شان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا چھوڑ دیں اور اپنی خامیوں کو دور کرنے پر توجہ دیں، تب ہی وہ ایک بہتر انسان بن سکتا ہے۔

    اداکار کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں دوسروں پر تنقید کرنا غلط ہے، میں اسے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ وہ ایسا کرنا چھوڑ دے، ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے، اور سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا، ایک اداکار ہمیشہ اچھے کام کی تلاش میں رہتا ہے اور اپنے فن میں مسلسل بہتری لاتا رہتا ہے۔

    سعود قاسمی نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو شان شاہد، سید نور اور دیگر نے تباہ کیا، انہوں نے کہا ’’لالی ووڈ کو بہت سے لوگوں نے تباہ کیا، جن میں سے کچھ اب انتقال کر چکے ہیں، لالی ووڈ کو شان، سید نور اور دیگر لوگوں کی وجہ سے خاصا نقصان اٹھانا پڑا جو صرف اپنے ذاتی فائدے میں دلچسپی رکھتے تھے‘‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ میں، معمر رانا اور شان نے ایک ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ ایسی بری فلموں میں کام نہیں کریں گے جو بندوقوں اور لڑائیوں کو فروغ دے رہی ہوں، ہم سب نے مل کر فیصلہ کیا، لیکن انہوں نے وہ فلمیں سائن کیں، اور میں نے انکار کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پروڈیوسرز نے میرا بائیکاٹ کیا تو میں نے کراچی آکر شادی کر لی۔

    کراچی اور لاہور کے کام کے ماحول سے متعلق سعود کا کہنا تھا کہ کراچی میں ڈرامہ پروڈکشن میں 90 فیصد فنکار لاہور سے آئے ہوئے ہیں اور کراچی کے مزاج سے مطابقت لیکر کام کررہے ہیں۔

  • اداکارہ میرا شوٹنگ کے دوران زخمی ہو گئیں

    اداکارہ میرا شوٹنگ کے دوران زخمی ہو گئیں

    لاہور: لالی ووڈ اسٹار میرا لاہور میں شوٹنگ کے دوران زخمی ہو گئیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری میں منفرد پہچان رکھنے والی اداکارہ میرا دوران شوٹنگ گر گئیں جس کی وجہ سے بازو فریکچر ہو گیا۔

    اداکارہ میرا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ دوران شوٹنگ گرنے کی وجہ سے ان کے بازو میں فریکچر ہوگیا ہے۔

    اداکارہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز نے 10 روز کے لیے آرام کا مشورہ دیا ہے، پہلے بہت درد تھا، اب بہت بہتر ہے، تاہم انہوں نے حادثے کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔

    واضح رہے کہ ابتدائی طور پر ایک ماڈل کے طور پر شروع ہونے والی میرا نے 1990 کی دہائی میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز لالی وڈ فلم محبت سے کیا، جو بہت کامیاب رہی جبکہ انہوں نے بالی ووڈ میں بھی کام کیا۔

  • وزیراعظم کا فلم انڈسٹری کو آگے بڑھانے کیلیے کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان

    وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان فلم انڈسٹری کو آگے بڑھانے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کردیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے نیشنل امیچور شارٹ فلم فیسٹیول 2022 کی ایوارڈ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایوارڈز کے لیے منتخب ہونے والوں نے آج کی تقریب کو چار چاند لگادیے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ کامیاب ہونے والوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا کامیاب ہونے والوں کے والدین اور اساتذہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

    شہباز شریف نے کہا کہ ملکی فلم انڈسٹری میں بے شمار کام ہوا ایک وقت ایسا بھی آیا جب سنیما گھر بند ہوگئے تھے فلم انڈسٹری کو آگے بڑھانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

    وزیراعظم نے کہا کہ ’آج ٹیکنالوجی کا دور ہے ہماری نوجوان نسل میں پاکستان کو صحیح معنوں میں بنانے کا جذبہ ہے، ملکی ترقی کی کُنجی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی میں پاکستان کے ڈرامے اور فلمیں خطے پر چھائی ہوئی تھیں اور ایک وقت تھا جب بھارت میں بھی پاکستان کے ڈرامے دیکھے جاتے تھے۔

    وزیراعظم نے مزید کہا کہ حکومت نوجوانوں کو وسائل فراہم کرے گی نوجوان وسائل پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے استعمال کریں گے ہمارے نوجوان ہی ملک کا مستقبل ہیں انہوں نے ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔

  • سماجی موضوعات پر شان دار فلمیں بنانے والے ایس سلیمان

    سماجی موضوعات پر شان دار فلمیں بنانے والے ایس سلیمان

    پاکستان میں فلمی صنعت کے زمانۂ عروج میں کئی ہدایت کار آئے جنہوں نے نہایت شان دار اور کام یاب ترین فلمیں شائقینِ سنیما کو دیں اور انڈسٹری میں‌ اپنی صلاحیتوں کو بھی منوایا۔ انہی میں‌ سے ایک سید سلیمان المعروف ایس سلیمان تھے۔ سینئر ہدایت کار اور پروڈیوسر ایس سلیمان پچھلے سال 14 اپریل کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    ایس سلیمان ماضی کے اداکار سنتوش کمار اور درپن کے چھوٹے بھائی تھے۔ بھارت کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہونے والے ایس سلیمان کی پہلی فلم ’گلفام‘ 1961 میں ریلیز ہوئی۔ ایس سلیمان نے 60 سے زائد فلموں کے لیے ہدایات دیں۔ 1975ء میں فلم ’’زینت‘‘ ریلیز ہوئی تھی، جس میں نام ور اداکارہ شبنم نے زینت کا یادگار رول ادا کیا تھا۔ ایس سلیمان اس فلم کے ہدایت کار تھے، جنہوں نے سماج میں بیٹی کی پیدائش کو بُرا سمجھنے والوں کو اس فلم میں آئینہ دکھایا تھا۔ وہ ان فن کاروں میں‌ سے تھے جو معاشرتی، اصلاحی اور سماجی مسائل پر فلمیں بنانے کے حوالے سے یاد کیے گئے۔

    29 دسمبر 1938ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے اس ہدایت کار کا اصل نام سیّد سلیمان تھا۔ ان کے والدین کا تعلق بھی فنی دنیا سے تھا۔ ان کے بڑے بھائی سنتوش کمار پاکستان کے پہلے سپر اسٹار اور بھابھی صبیحہ خانم پہلی سپر اسٹار فن کارہ رہی ہیں۔

    ایس سلیمان نے خود بھی چائلڈ ایکٹر کے طور پر فلموں میں کام کیا تھا۔ وہ اس صنعت سے بہ طور تدوین کار وابستہ ہوئے تھے اور 1953ء میں بننے والی فلم ’’غلام‘‘میں بہ طور اسسٹنٹ ایڈیٹر پہلی بار کام کیا۔

    1963ء میں ایس سلیمان نے ’’باجی‘‘ نامی ایک بہت ہی لاجواب فلم بنائی تھی۔ اس فلم کے گانے بھی بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’دل کے افسانے‘‘ ’’چندا توری چاندنی‘‘ ’’سجن لاگے توری‘‘ ’’اب یہاں کوئی نہیں آئے گا‘‘شامل تھے۔ ایس سلیمان نے دو پنجابی فلمیں بھی بنائیں۔

    ایس سلیمان کو پہلا نگار ایوارڈ فلم ’’آج اور کل‘‘ کے لیے دیا گیا تھا۔ یہ فلم 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی جو جہیز کی فضول اور غیر اسلامی رسم کے خلاف عوام کو زبردست پیغام تھی۔ بہ طور ہدایت کار ان کی آخری ریلیز شدہ فلم ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ تھی، جو 1998ء میں ریلیز ہوئی۔

    پاکستان کے اس معروف ہدایت کار نے 80 برس کی عمر پائی۔ ان کی چند کام یاب ترین فلموں میں ’’اُف یہ بیویاں، آج اور کل، اناڑی، منزل، گلفام، آگ، سبق، زینت، انتظار، ابھی تو میں جوان ہوں شامل ہیں۔

  • الیاس کاشمیری: فلمی اداکار جو زندگی کے آخری ایّام میں‌ احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہے

    الیاس کاشمیری: فلمی اداکار جو زندگی کے آخری ایّام میں‌ احساسِ گناہ میں‌ مبتلا رہے

    زندگی کے آخری ایّام میں الیاس کاشمیری گم نامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ جسمانی عوارض کے ساتھ شدید کرب اور پچھتاوے کا شکار بھی تھے۔ ذیابیطس اور اس مرض کی پیچیدگی کے نتیجے میں ٹانگ سے محروم ہوجانے کے بعد وہ اپنی بیماریوں اور تکالیف کو فلم نگری کی چکاچوند اور رنگینیوں کا نتیجہ گردانتے تھے۔

    آج الیاس کاشمیری کی برسی ہے۔ 12 دسمبر 2007ء کو پاکستانی فلمی صنعت کے اس مشہور اداکار نے زندگی کی آخری سانس لی تھی۔ وہ بڑے پردے کے ایک کام یاب ولن تھے۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار نے ان کے بارے میں‌ لکھا، الیاس کاشمیری نے نِصف صدی پر پھیلے ہوئے اپنے فلمی کیریئر میں پانچ سو کے قریب فلموں میں کام کیا۔ یوں تو انھوں نے ہیرو سے لے کر وِلن اور منچلے نوجوان سے لے کر بوڑھے جاگیردار تک ہر رول میں ڈھلنے کی کوشش کی لیکن وِلن کا سانچہ اُن پر کچھ ایسا فِٹ بیٹھا کہ چالیس برس تک وہ مسلسل وِلن کا کردار ہی کرتے رہے۔

    الیاس کاشمیری 25 دسمبر 1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے مجموعی طور پر 547 فلموں میں کام کیا جن میں سے بیش تر فلمیں پنجابی زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    1946ء میں دراز قد اور خوبرو نوجوان الیاس کاشمیری اپنے دوست کے بلاوے پر بمبئی پہنچے تھے اور فلم ’ملکہ‘ میں شوبھنا سمرتھ کے مقابل ہیرو کا رول حاصل کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد الیاس کاشمیری لاہور آگئے جہاں 1949ء میں آغا جی اے گُل نے فلم ’مندری‘ بنائی تو آہو چشم راگنی کے مقابل خوب رُو الیاس کاشمیری کو ہیرو کا رول مل گیا۔ یہ پاکستان میں ان کی پہلی فلم تھی۔ انہوں نے چند اُردو فلموں میں بھی کام کیا، لیکن اصل کام یابی پنجابی فلموں کے ذریعے ہی نصیب ہوئی۔

    1956ء میں ’ماہی منڈا‘ ان کی پہلی کام یاب فلم کہلا سکتی ہے جس کے ایک ہی برس بعد انہیں ’یکے والی‘ جیسی سُپر ہٹ فلم میں کام مل گیا۔ اگرچہ اُردو فلم اُن کی شخصیت اور مزاج کو راس نہ تھی، لیکن 1957ء میں ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ’وعدہ‘ میں صبیحہ سنتوش کے ساتھ الیاس کاشمیری کو ایک ایسے رول میں کاسٹ کیا جو خود فلم ’وعدہ‘ کی طرح لا زوال ثابت ہوا۔ اس طرح کی کام یابی وہ صرف ایک مرتبہ اور حاصل کرسکے جب 1963ء میں انھوں نے خود فلم ’عشق پر زور نہیں‘ پروڈیوس کی۔ یہاں ان کے مقابل اسلم پرویز اور جمیلہ رزّاق تھیں اور الیاس کاشمیری ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ڈاکٹر کے رول میں ساری فلم پہ چھائے ہوئے تھے۔

    الیاس کاشمیری کی کام یاب کمرشل فلموں کا دوسرا دور 1970ء کے بعد شروع ہوا۔ فلم ’بابل‘ اور ’بشیرا‘ نے جہاں سلطان راہی کے لیے مستقبل میں ایک عظیم فلمی ہیرو بننے کا راستہ ہموار کیا، وہیں الیاس کاشمیری کو بھی کام یاب ترین وِلن کا تاج پہنا دیا۔

    1973ء میں الیاس کاشمیری اور منور ظریف نے فلم ’بنارسی ٹھگ‘ میں ایک ساتھ نمودار ہوکر تماشائیوں سے زبردست داد بٹوری۔ اسی زمانے میں ’مرزا جٹ‘، ’باؤ جی‘، ’بدلہ‘، ’زرقا‘، ’دلاں دے سودے‘، ’دیا اور طوفان‘، ’سجن بے پرواہ‘، ’سلطان‘، ’ضدی‘، ’خوشیا‘، ’میرا نام ہے محبت‘ اور ’وحشی جٹ‘ جیسی فلمیں منظرِ عام پر آئیں اور الیاس کاشمیری پاکستان کے معروف ترین اداکاروں میں شمار کیے گئے۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقی کو نیا رنگ دینے والے ماسٹر غلام حیدر کا تذکرہ

    یومِ وفات: فلمی موسیقی کو نیا رنگ دینے والے ماسٹر غلام حیدر کا تذکرہ

    ماسٹر غلام حیدر کو رجحان ساز موسیقار تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ 9 نومبر 1953ء کو وفات پاگئے تھے۔ پاکستان کے اس مشہور موسیقار ہی نے پہلی بار پنجاب کی لوک دھنوں کو اپنے گیتوں کا حصّہ بنایا تھا۔

    ماسٹر غلام حیدر کا تعلق سندھ کے شہر حیدر آباد سے تھا۔ وہ 1906ء میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ہارمونیم بجانے میں‌ دل چسپی تھی۔ اسی ساز کی بدولت وہ سُر تال اور موسیقی کی طرف راغب ہوئے اور یہ شوق انھیں لاہور لے گیا جہاں وہ ایک تھیٹر سے وابستہ ہوگئے۔ وہ اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں اور ماہر سازندوں کے میل جول کے سبب موسیقی کے فن کی باریکیوں سے واقف ہوتے چلے گئے اور 1932ء میں ایک مشہور ریکارڈنگ کمپنی سے وابستگی کے بعد انھیں اپنے وقت کے باکمال اور ماہر موسیقاروں استاد جھنڈے خان، پنڈت امرناتھ اور جی اے چشتی کی رفاقت نصیب ہوئی جس نے ان کے فن و کمال کو نکھارنے میں مدد دی۔ ماسٹر غلام حیدر کچھ عرصہ استاد جھنڈے خان کے معاون بھی رہے۔

    ماسٹر غلام حیدر کو پرفارمنس کی غرض سے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کرنے اور کئی اہم موسیقاروں سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ 1933ء میں مشہور فلم ساز اے آر کاردار نے اپنی فلم سورگ کی سیڑھی کے لیے ماسٹر غلام حیدر کی خدمات حاصل کیں اور یوں اس ان کا فلمی سفر شروع ہوا جسے فلم گل بکاؤلی کی موسیقی نے شہرت سے ہم کنار کیا اور انھیں لاہور کے نگار خانوں میں‌ بھی کام ملا۔ ان کی موسیقی یملا جٹ، خزانچی، چوہدری اور خاندان جیسی فلموں میں شامل کی گئی۔

    1944ء میں ماسٹر غلام حیدر بمبئی منتقل ہوگئے جہاں ہمایوں، بیرم خان، جگ بیتی، شمع، مہندی، مجبور اور شہید جیسی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں واپس لاہور آگئے۔ اس زمانے میں انھوں نے فلم بے قرار، اکیلی، غلام اور گلنار سمیت مختلف فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ماسٹر غلام حیدر کو وفات کے بعد لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • پاکستانی فلموں کے ڈانسنگ ہیرو اسماعیل شاہ کی برسی

    پاکستانی فلموں کے ڈانسنگ ہیرو اسماعیل شاہ کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری میں ڈانسنگ ہیرو کے طور پر بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اسماعیل شاہ نے 1992ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بلوچستان کے پسماندہ علاقے پشین سے تعلق رکھنے والے اسماعیل شاہ نہ صرف سنیما کے شائقین میں مقبول تھے بلکہ فلم سازوں کی اوّلین ترجیح تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ رقص میں ان کی مہارت تھی۔ وہ ایک باصلاحیت فن کار تھے۔ اس دور میں پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور اداکار اور مقبول ترین ہیرو بھی متاثر کن ڈانسر نہیں تھے جب کہ اسماعیل شاہ کی صورت میں‌ ہدایت کاروں کو ایک نوجوان اور ایکشن فلموں‌ کے لیے موزوں چہرہ ہی نہیں‌ بہترین ڈانسر بھی مل گیا۔ وہ فلم انڈسٹری کے ڈانسنگ ہیرو مشہور ہوئے۔

    اپنی شان دار اداکاری اور معیاری ڈانس کی بدولت شہرت کا زینہ طے کرنے والے اسماعیل شاہ فلم ’’ناچے ناگن‘‘ سے گویا راتوں رات شائقین میں مقبول ہوگئے۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد انڈسٹری میں‌ ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ فلم ناچے ناگن 1989ء میں منظرِ عام پر آئی اور ملک بھر میں اسے پزیرائی ملی۔ تاہم اسماعیل شاہ کی پہلی فلم ’’باغی قیدی‘‘ تھی۔

    فلم اسٹار اسماعیل شاہ نے مجموعی طور پر 70 فلموں میں کام کیا جن میں اردو، پنجابی اور پشتو زبانوں‌ میں بننے والی فلمیں‌ شامل ہیں۔

    وہ 1962ء میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کوئٹہ سے کیا۔ کوئٹہ ریڈیو اور پھر کوئٹہ ٹی وی سے وابستہ ہوئے۔ اسماعیل شاہ کو‌ بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ یہی شوق اور ان کی لگن 1975ء میں انھیں‌ پاکستان ٹیلی وژن کے کوئٹہ مرکز تک لے گئی اور بلوچی ڈراموں سے ان کے کیریئر کا آغاز ہوا۔ اسماعیل شاہ نے اردو زبان کے مشہور ڈرامہ ’’ریگ بان‘‘ اور ’’شاہین‘‘ میں بھی کردار نبھائے اور ناظرین نے انھیں پسند کیا۔

    لو اِن نیپال، لیڈی اسمگلر، باغی قیدی، جوشیلا دشمن، منیلا کے جانباز، کرائے کے قاتل اور وطن کے رکھوالے اسماعیل شاہ کی مشہور اور کام یاب فلمیں‌ ہیں۔

  • ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اپنے فنِ اداکاری سے نام و مقام بنایا اور ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک ہر کردار کو نہایت خوبی اور کمال سے نبھایا۔ آج نیّر سلطانہ کی برسی ہے۔

    اس اداکارہ کا اصل نام طیّبہ بانو تھا۔ وہ 1937ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ویمن کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئیں۔

    نیّر سلطانہ نے فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے نام وَر ہدایت کار انور کمال پاشا کے کہنے پر قدم رکھا جن سے نیّر سلطانہ کی ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ انور کمال پاشا نے انھیں فلموں‌ میں‌ کام کرنے کی پیش کش کی اور یوں نیّر سلطانہ نے بڑے پردے پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔

    نیّر سلطانہ خوب صورت اور خوش قامت تھیں۔ وہ ایسی فن کار تھیں جنھیں فنونِ لطیفہ خاص طور پر اردو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ انور کمال پاشا ان کی فن و ادب میں اسی دل چسپی اور ان کی گفتگو سے پہلی ہی ملاقات میں بہت متاثر ہوئے تھے۔ بعد کے برسوں میں ثابت ہوگیا کہ انور کمال پاشا کا انتخاب غلط نہ تھا۔

    اس اداکارہ کی پہلی فلم ’’قاتل‘‘ تھی اور یہ انور کمال پاشا کا پروجیکٹ تھا۔ 1955 میں نیّر سلطانہ نے ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں کام کیا اور پھر اگلی چار دہائیوں‌ تک ان کا یہ سفر جاری رہا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں انھیں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے فلم نگری میں‌ کام ملنے لگا اور وہ اپنی اداکاری سے شائقین کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ کرداروں‌ کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اسی لیے انھیں ملکہ جذبات کہا جانے لگا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ اس خوب صورت اور باکمال اداکارہ کو سرطان کا مرض لاحق تھا۔ 27 اکتوبر 1992ء کو نیّر سلطانہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔

  • معروف فلم ساز اور کہانی کار ریاض شاہد کا تذکرہ

    معروف فلم ساز اور کہانی کار ریاض شاہد کا تذکرہ

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف فلم ساز و ہدایت کار ریاض شاہد کا یومِ وفات ہے۔ وہ صحافی اور مصنّف بھی تھے۔ تاہم ان کی اصل پہچان منفرد موضوعات پر بنائی گئی ان کی فلمیں ہیں۔

    ریاض شاہد 1972ء کو آج ہی کے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں 1930ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام شیخ ریاض تھا۔ ریاض شاہد کو خون کا سرطان لاحق تھا اور اسی بیماری کے سبب انھوں نے وفات پائی۔

    لاہور کے اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ریاض شاہد نے صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور ’چٹان‘ سے منسلک ہوئے۔ بعدازاں فیض احمد فیض کے جریدے ’لیل و نہار‘ سے وابستہ ہوئے۔ ریاض شاہد نے ’ہزار داستان‘ کے نام سے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا اور بعد میں انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھنے کا آغاز کیا۔

    شاہد ریاض نے ’بھروسہ‘ فلم کا اسکرپٹ لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ پہلی کاوش ہی ان کی کام یابی اور شہرت کا سبب بنی۔ یہ فلم 1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    اس کے بعد ان کی فلم ’شہید‘ ریلیز ہوئی جو تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ اس کے بعد 1962ء میں انھوں نے خود کو ہدایت کار کے طور پر آزمایا اور اس میدان میں ان کی پہلی فلم ’سسرال‘ تھی جو پاکستانی فلمی صنعت کی یادگار فلموں میں سے ایک ہے۔ اس کام یابی کے بعد ریاض شاہد نے فلم ’فرنگی‘ کی کہانی، ’نیند‘ کا اسکرپٹ لکھا اور 1967ء میں ان کی تحریر کردہ نہایت منفرد فلم ’گناہ گار‘ سامنے آئی۔

    ریاض شاہد کی بنائی ہوئی ناقابلِ فراموش اور شاہکار فلموں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’زرقا‘ اور ’یہ امن‘ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح تاریخی موضوع پر فلم ’’غرناطہ‘‘ بھی ریاض شاہد کی کاوش تھی۔

    انھوں نے تیس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ’’شکوہ، خاموش رہو، آگ کا دریا، بدنام، بہشت اور حیدر علی‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔

    ریاض شاہد نے اردو کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے جن میں مشہور ترین فلم’’ نظام لوہار‘‘بھی شامل ہے۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک ریاض شاہد کو پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر ترین نگار ایوارڈ سے 11 مرتبہ نوازا گیا جب کہ ان کی فلم’’زرقا‘‘ نے تین نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    انھوں نے اپنے وقت کی نام ور ہیروئن نیلو سے شادی کی، اس جوڑے کے گھر تین بچّوں نے جنم لیا جن میں سے شان نے فلمی صنعت میں قدم رکھا اور صفِ اوّل کے اداکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معمار اور مشہور ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معمار اور مشہور ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل کا تذکرہ

    آغا جی اے گل پاکستان کے مشہور فلم ساز اور مشہور ایور نیو اسٹوڈیو کے مالک تھے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں فلمی صنعت کی بنیاد رکھنے اور یہاں فلم سازی اور اس شعبے کی ترقّی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک تھے۔

    آغا جی اے گل نے لاہور میں ایور نیو اسٹوڈیو قائم کر کے فلم سازی کے شعبے کی ترقی اور سنیما کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دور تھا جب ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی اور اس بینر تلے سنیما کے لیے شان دار اور قابلِ ذکر کام کیا گیا۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معمار اور سرپرست آغا جی اے گل 6 ستمبر 1983ء کو لندن میں وفات پاگئے۔

    ان کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 19 فروری 1913ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے فلم مندری سے خود کو انڈسٹری میں فلم ساز کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ 1949ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم تھی۔ اس کے بعد سنیما کو ایور نیو پروڈکشنز کے تحت یادگار فلمیں‌ دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔

    انھوں نے ایور نیو اسٹوڈیو کو اس زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ کیا اور اس پلیٹ فارم سے کئی لوگوں کو متعارف کروایا اور سیکھنے کا موقع دیا۔

    آغا جی اے گل لاہور کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔