Tag: پاکستان فلم انڈسٹری

  • یومِ‌ وفات: من موہنی صورت والی مینا شوری لارا لپّا گرل مشہور تھیں

    یومِ‌ وفات: من موہنی صورت والی مینا شوری لارا لپّا گرل مشہور تھیں

    مینا شوری پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک مشہور اداکارہ تھیں جن کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مینا شوری 2 ستمبر 1989ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ انھیں سرطان کا مہلک مرض لاحق تھا۔

    خورشید جہاں نے 1921ء میں رائے ونڈ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنا فلمی کیریئر بمبئی سے شروع کیا اور سہراب مودی کی فلم سکندر میں شان دار پرفارمنس نے ان پر فلمی صنعت کے دروازے کھول دیے۔

    اس کے بعد مینا شوری کو فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی نے مزید کام یابیاں‌ دیں۔

    فلم ایک تھی لڑکی کا وہ گیت جس کے بول ’لارا لپا، لارا لپا، لائی رکھدا‘ تھے، بہت مشہور ہوا۔ یہ مینا شوری پر فلمایا گیا گیت تھا جس کے بعد ہندوستان بھر میں ہر جگہ انھیں لارا لپا گرل کے نام سے پکارا جانے لگا۔

    تقسیم کے بعد مینا شوری نے ہجرت کی اور کراچی میں‌ قیام کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔ مینا شوری بہت پیاری اور من موہنی صورت کی مالک تھیں، انھوں نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور اور کام یاب فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار،خاموش رہو، مہمان شامل ہیں۔ اداکارہ مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور “یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔ حبُ الوطنی کے جذبات، عزم و ہمّت، دلیری اور شجاعت کے احساس کے ساتھ کلیم عثمانی کی یہ شاعری زبان و ادب میں ان کے فن اور مقام کا تعیّن بھی کرتی ہے۔

    جذبۂ حب الوطنی سے سرشار کلیم عثمانی کے کئی قومی اور ملّی نغمات ٹی وی اور ریڈیو سے نشر ہوئے اور انہی نغمات کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور نغمہ نگار نے 28 اگست 2000ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ 28 فروری 1928ء کو ضلع سہارن پور، دیو بند میں‌ پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھو‌ں نے پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔

    شعر و سخن کی دنیا میں‌ کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ انھوں نے فلم نگری کے لیے گیت نگاری کا آغاز کیا تو بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔

    آپ نے فلم راز کا یہ گیت ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے:
    میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا، یہ اپنے وقت کا مقبول ترین گیت تھا جسے کلیم عثمانی نے تحریر کیا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں انھوں نے جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین نامی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور خوب شہرت پائی۔

    1973ء میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبول ترین گیت “تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ عطا کیا گیا تھا۔

    مرحوم لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: لئیق اختر کی فلم ”صاعقہ” نے 9 نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے

    یومِ وفات: لئیق اختر کی فلم ”صاعقہ” نے 9 نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے

    پاکستان کے ممتاز فلمی ہدایت کار لئیق اختر 28 جون 1990ء کو وفات پا گئے تھے۔ بہ طور ہدایت کار ان کی پہلی فلم صاعقہ تھی جسے نو مختلف زمروں میں نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں فلمیں بننے کا سلسلہ شروع ہوا تو لاہور کے بعد کراچی اور مشرقی پاکستان کا شہر ڈھاکا فلمی صنعت کا مرکز تھے اور اس زمانے میں‌ فلم سازوں نے عوام کو تفریح کے ساتھ معاشرتی موضوعات پر نہایت شان دار فلمیں دیں‌ جنھیں لئیق اختر جیسے ہدایت کاروں کی بدولت کام یابی ملی۔

    لئیق اختر کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 1935ء میں آنکھ کھولی۔ تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی اور یہاں فلم کنواری بیوہ کے لیے نجم نقوی کے ساتھ معاون ہدایت کار کے طور پر کام کیا۔ اس فلم سے انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور بعد میں فرض، ملاقات، مستانی محبوبہ، جان کی بازی، نورین، جانِ من، موت کے سوداگر، ایثار، خلش اور زندگی یا موت جیسی فلمیں‌ بنائیں اور شائقینِ سنیما نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔

  • یومِ وفات: پنجابی فلموں‌ کے مقبول اداکار اکمل زندگی کی محض 38 بہاریں‌ دیکھ سکے

    یومِ وفات: پنجابی فلموں‌ کے مقبول اداکار اکمل زندگی کی محض 38 بہاریں‌ دیکھ سکے

    خوش قامت اور خوب رُو اکمل فلم نگری کے میک اَپ آرٹسٹ تھے جب کہ ان کے بھائی مشہور و معروف اداکار۔ فلم نگری سے وابستگی کے سبب اکمل کے لیے بہ طور اداکار قسمت آزمانا کچھ مشکل نہ تھا۔ انھوں نے ‘ایکسٹرا’ کے طور پر اپنا سفر شروع کیا اور ایک وقت آیا جب وہ پنجابی فلموں کے مقبول اور مصروف ترین اداکار بنے۔

    آج اداکار اکمل کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 11 جون 1967ء کو محض 38 سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

    اکمل نے 1956ء میں فلم جبرو میں ہیرو کا رول نبھایا اور بڑے پردے کے شائقین اور فلم سازوں سے قبولیت اور پسندیدگی کی توقع کرنے لگے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگلے 8 برس تک اکمل کو درجن سے زائد فلموں میں ہیرو یا مرکزی رول نبھانے کے باوجود خاص پذیرائی نہیں‌ مل سکی۔ اس ناکامی سے مایوس اکمل نے ہمّت نہ ہاری اور سفر جاری رکھا۔

    اکمل پنجابی فلموں کے پہلے ہیرو تھے جنھوں نے ایک فلمی سالم میں 10 سے زائد فلموں میں کام کیا اور یہ سلسلہ مزید دو سال جاری رہا جس سے اکمل کی مقبولیت اور مصروفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اداکارہ فردوس کے ساتھ ان کی جوڑی کو بہت شہرت ملی تھی۔ بعد میں انھوں نے شادی کرلی تھی، لیکن جلد علیحدگی ہوگئی۔

    اداکار اکمل کا اصل نام محمد آصف خان تھا۔ وہ 1929ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اکمل نے مجموعی طور پر 64 فلموں میں کام کیا۔ اس سفر میں اکمل کی مقبولیت اور کام یابی پنجابی فلموں تک محدود رہی اور اردو زبان میں بننے والی متعدد فلموں میں انھوں نے ناکامی کا سامنا کیا۔

    اداکار اکمل کی آخری فلم ’’بہادر کسان‘‘ تھی جو 1970ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ ان کی دیگر فلموں میں چوڑیاں، زمیندار، پیدا گیر، بچہ جمہورا، بہروپیا، چاچا خواہ مخواہ، ہتھ جوڑی، کھیڈن دے دن، ہیر سیال، جگری یار، بانکی نار، وارث شاہ، ڈھول سپاہی، بھرجائی، من موجی، ملنگی، خاندان سرِفہرست ہیں۔

    کہتے ہیں مشہور فلمی اداکارہ فردوس سے ازدواجی تعلق ختم کرنے کے بعد اکمل بہت دکھی اور تکلیف میں مبتلا تھے، اور انھو‌ں نے اپنا غم غلط کرنے کے لیے مے نوشی کا سہارا لیا جس کی زیادتی نے انھیں نوجوانی اور اپنے زمانہ عروج میں زندگی سے محروم کردیا۔

  • نام وَر اداکار اور پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو سنتوش کمار کی برسی

    نام وَر اداکار اور پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو سنتوش کمار کی برسی

    11 جون 1982ء کو پاکستانی فلم نگری کے مقبول ہیرو اور نام وَر اداکار سنتوش کمار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ سنتوش کمار نے صبیحہ خانم سے شادی کی تھی جو اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔

    سنتوش کمار کا تعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ وہ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہوئے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے سنتوش کمار نے اپنے ایک دوست کے اصرار پر ایک فلم میں ہیرو کا رول قبول کیا اور بمبئی کی فلمی صنعت کی دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کام کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے جہاں مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کرکے خود کو بڑا اداکار ثابت کردیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور جہاں پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنایا تھا، وہیں حقیقی زندگی میں بھی ان کی جوڑی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر اداکار کو لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ‌ وفات: داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار تھے

    یومِ‌ وفات: داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار تھے

    22 مئی 1975ء کو پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار دائود چاند دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ہدایت کار کی حیثیت سے داؤد چاند کی بنائی ہوئی یہ فلم ستمبر 1948ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی اور اسے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں بننے والی اوّلین فلم قرار دیا جاتا ہے۔

    دائود چاند کا تعلق بھارت کے صوبے گجرات (کاٹھیا واڑ) سے تھا۔ وہ 1907ء میں پیدا ہوئے تھے۔ عالمِ شباب میں بمبئی اور پھر کلکتہ چلے گئے جہاں اندرا مووی ٹون میں ملازمت اختیار کرلی اور اپنی لگن اور محنت سے پہلے اداکاری اور پھر ہدایت کاری کے شعبے میں مہارت حاصل کی اور فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    انھوں نے فلم سسی پنوں سے ہدایت کاری کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس کے بعد دائود چاند نے چند مزید فلموں کی ہدایت کاری دی اور پھر لاہور چلے آئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب دیوان سرداری لعل نے ’’تیری یاد‘‘ بنانے کا اعلان کیا تو ہدایت کاری کے لیے دائود چاند کا انتخاب کیا، اس فلم کے بعد داؤد چاند نے ہچکولے، مندری، سسی، مرزاں صاحباں، حاتم، مراد اور دیگر فلمیں بنائیں۔

    لاہور میں انتقال کرنے والے دائود چاند مقامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • ‘سات لاکھ’ سے شہرت حاصل کرنے والے جعفر ملک کی برسی

    ‘سات لاکھ’ سے شہرت حاصل کرنے والے جعفر ملک کی برسی

    جعفر ملک کا شمار پاکستان کے مشہور فلم سازوں اور ہدایت کاروں میں ہوتا ہے جو 24 مارچ 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے اپنے وقت کی مشہور اور کام یاب ترین فلم سات لاکھ کے ہدایت کار کی حیثیت سے نہ صرف شہرت حاصل کی بلکہ کئی فلمی اعزازات بھی اپنے نام کیے تھے۔

    اردو زبان میں بننے والی فلم سات لاکھ 1957ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ جعفر ملک نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز انور کمال پاشا کے فلم ساز ادارے کمال پکچرز سے کیا تھا۔ انھیں جلد ہی سات لاکھ کی ہدایات دینے کا موقع ملا اور اسی فلم کی بدولت ان کی شہرت اور مقبولیت کا سفر شروع ہوا۔ یہ فلم اپنے نغمات کی وجہ سے بھی ملک بھر میں شائقین کی توجہ کا مرکز بنی، اس فلم نے پانچ نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    جعفر ملک کی اردو اور پنجابی زبانوں کی دیگر فلموں میں مکھڑا، گلشن، شکاری، کمانڈر، پتھر تے لیک، پنج دریا، سجن مندے کدی کدی، سہنا مکھڑا اور گھبرو شامل ہیں۔

    فلم انڈسٹری کے عروج کے زمانے میں جعفر ملک نے خاصا کام کیا اور متحرک رہے، انھوں نے اپنی فلموں کے ذریعے اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا اظہار کیا اور خود کو منوایا، لیکن وفات سے تقریبا دو دہائی قبل انڈسٹری سے دور ہوگئے تھے۔

  • پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز 10 مارچ 2001ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ مسعود پرویز کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ اردو کے نام ور ادیب سعادت حسن منٹو ان کے قریبی عزیز تھے۔

    مسعود پرویز 1918ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منگنی سے ہیرو کی حیثیت سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ بعد وہ ہدایت کاری کی طرف آگئے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں انڈسٹری سے وابستہ ہوتے ہوئے ہدایت کاری کے شعبے میں اپنے تجربے اور مہارت کو آزمایا اور بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی یادگار فلمیں بنائیں۔

    مسعود پرویز نے 1957ء میں فلم انتظار پر بہترین ہدایت کار کا صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ وہ فلم تھی جس نے مجموعی طور پر 6 صدارتی ایوارڈ حاصل کیے اور ایک اس ہدایت کار کے نام ہوا۔

    پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر اور معروف، نگار ایوارڈ کی بات کی جائے تو مسعود پرویز کو فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر یہ ایوارڈ دیا گیا جب کہ ان کی ہدایت کاری میں بننے والی دوسری فلموں نے متعدد زمروں میں نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس کام گار کو لاہور میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سنسر بورڈ نے تو "روحی” کو قبول کرلیا، مگر کوآپریٹو بینک نہ مانا

    سنسر بورڈ نے تو "روحی” کو قبول کرلیا، مگر کوآپریٹو بینک نہ مانا

    چند دہائیوں پہلے تک آپ نے ایسی فلمیں بھی دیکھی ہوں گی جس کے پہلے منظر میں کوئی عورت ہاتھ میں‌ قینچی لیے کپڑا کاٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسا منظر بتاتا ہے کہ کس طرح دنیا میں‌ تنہا رہ جانے والی ایک مظلوم اور حالات کی ماری ہوئی عورت لوگوں کے کپڑے سِی کر اپنی اکلوتی اولاد کی پرورش کرتی ہے۔ فلم کے کسی سین میں جان ڈالنے کے لیے قینچی کے اس استعمال کو تو فلم ساز سے لے کر شائقین تک سبھی قبول کرلیتے ہیں، لیکن فلم کی تیّاری کے بعد جب سنسر بورڈ کسی سین پر قینچی چلاتا ہے تو فلم ساز مشکل میں‌ پڑ جاتے ہیں۔

    1954 میں‌ فلمی صنعت میں "روحی” کا بہت چرچا ہوا تھا جو سنسر بورڈ کی زد میں‌ آنے والی پہلی پاکستانی فلم تھی۔

    اس فلم کی کہانی کا مرکزی کردار ایک نہایت امیر کبیر اور ایسی شادی شدہ عورت تھی جو ایک نوجوان پر فدا ہوجاتی ہے۔ اسی پر سنسر بورڈ کو اعتراض تھا اور یوں یہ فلم نمائش کے لیے پیش نہ کی جاسکی۔ بعد میں‌ فلم ڈائریکٹر نے فلم کے مناظر کو کاٹ چھانٹ سے گزارا اور اسے قابلِ قبول بنا دیا گیا۔

    اعتراض‌ دور ہونے کے بعد یہ فلم تو نمائش کے لیے پیش کردی گئی، مگر نمائش کے ساتھ ہی اسے شراکت داروں میں تنازع بھی دیکھنا پڑا۔ اس فلم کے لیے کوآپریٹو بینک سے قرض لیا گیا تھا جو واپس نہ کیا گیا تو کوآپریٹو بینک نے اسے ضبط کرلیا اور اس کا نیگیٹو ڈبوں میں بند کردیا گیا۔

    فلم سازوں اور ناقدین کی نظر میں‌ یہ فلم فنّی اعتبار سے مضبوط تھی اور ایک ایسی فلم تھی جسے قومی ورثہ قرار دے کر محفوظ کیا جاتا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔

    (عارف وقار کے مضمون سے خوشہ چینی)

  • شباب کیرانوی: فلمی صنعت کی تاریخ ساز شخصیت کی برسی

    شباب کیرانوی: فلمی صنعت کی تاریخ ساز شخصیت کی برسی

    شباب کیرانوی پاکستان کی فلمی صنعت کا ممتاز ترین نام ہے۔ وہ فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، لیکن کہانی نویسی اور شاعری میں بھی معروف ہوئے۔ وہ 5 نومبر 1982ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج شباب کیرانوی کی برسی ہے۔

    شباب کیرانوی کا شمار ایسی شخصیات میں‌ کیا جاتا ہے جنھوں نے پاکستانی فلموں کی ترقّی و ترویج میں نہایت اہم اور قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔

    اس کہانی نویس، نغمہ نگار، ہدایت کار اور فلم ساز نے ہر شعبے میں خود کو ثابت کیا اور نام و مقام بنایا۔

    1925ء میں کیرانہ میں پیدا ہونے والے شباب کیرانوی کا اصل نام نذیر احمد تھا۔ انھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل جن دو فلموں سے اپنے سفر کا آغاز کیا، وہ مکمل نہ ہوسکیں۔ 1955ء میں بطور فلم ساز انھوں‌ نے جلن کے نام سے فلم بنائی، جس کے ہدایت کار اے حمید تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور متعدد فلمی گیتوں‌ کے خالق بھی جو بے حد مقبول ہوئے۔ شباب کیرانوی کے دو شعری مجموعے بھی شایع ہوئے۔

    1957ء میں شباب کیرانوی کی ایک اور فلم ٹھنڈی سڑک ریلیز ہوئی جس میں اداکار کمال پہلی بار اسکرین پر متعارف ہوئے۔ شباب کیرانوی کا یہ سفر ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جاری رہا اور ان کی متعدد فلمیں باکس آفس پرکام یاب ہوئیں۔ ان میں ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت سرِفہرست ہیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں کو مختلف زمروں‌ میں‌ کئی ایوارڈز دیے گئے۔

    شباب کیرانوی کی بدولت فلمی صنعت کو کئی باصلاحیت فن کار ملے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    لاہور میں‌ شباب کیرانوی کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا اور وفات کے بعد انھیں اسی کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔