Tag: پاکستان فلم انڈسٹری

  • پاکستان ٹیلی وژن کے معمار کنور آفتاب احمد کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے معمار کنور آفتاب احمد کی برسی

    کنور آفتاب احمد کا نام پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں شامل ہے جو‌ 10 ستمبر 2010 کو لاہور میں‌ وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    کنور آفتاب احمد 28 جولائی 1929 کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے لندن اسکول آف فلم ٹیکنیک سے تعلیم حاصل کی۔

    کنور آفتاب نے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر 1958 میں‌ اپنی پہلی فلم جھلک پیش کی تھی جو ناکام رہی جس کے بعد 1964 میں ملک میں‌ ٹیلی وژن نشریات کے آغاز پر اس میڈیم سے وابستہ ہوگئے۔

    کنور آفتاب احمد نے اپنی تعلیم اور صلاحیتوں کو ٹیلی ویژن کے لیے آزمایا اور اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال جیسی شخصیات کے ساتھ اردو ڈراما کو بامِ عروج دیا۔ کنور آفتاب احمد کی مشہور ٹیلی وژن سیریلز اور سیریز میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

    کنور آفتاب احمد کو نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی دستاویزی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں ایوارڈ دیے گئے۔ 10 ستمبر کو وفات پانے والے کنور آفتاب احمد لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سید شوکت حسین رضوی: باکمال ہدایت کار، کام یاب فلم ساز

    سید شوکت حسین رضوی: باکمال ہدایت کار، کام یاب فلم ساز

    شاہ نور اسٹوڈیو، لاہور کے احاطے میں مشہور فلم ساز اور ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی ابدی نیند سورہے ہیں۔ وہ 19 اگست 1998 کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    متحدہ ہندوستان، یوپی میں 1913 کو پیدا ہونے والے سید شوکت حسین رضوی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    انھوں نے کلکتہ کے میڈن تھیٹر سے فلمی زندگی کا آغاز کیا اور بحیثیت تدوین کار کام کرتے رہے۔ مشہور فلم ساز سیٹھ دل سکھ پنچولی کے کہنے پر کلکتہ سے لاہور چلے آئے اور یہاں گل بکائولی، خزانچی جیسی فلموں کی تدوین میں‌ اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا جس کے بعد سیٹھ پنچولی نے اپنی پہلی فلم ’’خاندان‘‘ کے ہدایت کار کے طور پر انھیں مزید آگے بڑھنے کا موقع دیا اور سید شوکت حسین رضوی نے خود کو کام یاب ہدایت کار ثابت کر دیا۔

    اسی فلم میں نور جہاں کو پہلی مرتبہ پر ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا تھا جس نے سید شوکت حسین رضوی اور نور جہاں کو ایک کردیا، انھوں نے شادی کرلی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔

    قیام پاکستان کے بعد سید شوکت حسین رضوی کی پہلی فلم ’’چن وے‘‘ تھی جس کے بعد گلنار، جان بہار، عاشق اور بہو رانی و دیگر فلموں‌ کے لیے انھوں نے ہدایات دیں اور کام یاب رہے۔

    فلمی صنعت میں سید شوکت حسین رضوی کو ان کی ہدایت کاری اور کام یاب فلموں کے سبب یاد کیا جاتا رہے گا۔

  • مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جو کم عمری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر انڈسٹری میں نام اور مقام حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ 17 اگست 1982 کو پاکستان کی فلمی صنعت کے اس خوب صورت نغمہ نگار کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے تھا اور والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ تسلیم فاضلی صفِ اول کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
    ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
    ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
    مجھے دل سے نہ بھلانا
    کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

    تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر اپنے دل کش گیتوں‌ کی وجہ سے وہ آج بھی دلوں‌ میں‌ زندہ ہیں۔

  • فلمیں جو لولی وڈ کی شاہ کار، سنیما کی تاریخ میں یادگار ٹھہریں

    فلمیں جو لولی وڈ کی شاہ کار، سنیما کی تاریخ میں یادگار ٹھہریں

    یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی فلم نگری اور سنیما کے شائقین پچھلی دہائیوں کے دوران موضوع اور عکس بندی کے اعتبار سے معیاری فلموں سے محروم رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی اکثریت، خاص طور پر نوجوان ہالی وڈ اور ہندی فلمیں‌ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم ماضی میں پاکستان میں بڑے پردے پر کئی ایسی فلمیں‌ پیش کی گئی‌ ہیں‌ جو ہر لحاظ سے کام یاب اور یادگار تھیں۔

    آج ہم ان چند اردو فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھیں اب بھی اپنے موضوع، جان دار اسکرپٹ اور عمدہ مکالموں کے ساتھ اداکاروں کی شان دار پرفارمنس، موسیقی اور گلوکاری کے لحاظ سے منفرد اور قابلِ ذکر مانا جاتا ہے۔

    اس ضمن میں "کوئل” کو سرفہرست رکھا جائے تو خواجہ خورشید انور کی سحر انگیز موسیقی، مسعود پرویز کی شان دار اداکاری اور ملکہ ترنم نور جہاں کی گلوکاری نے اس فلم کو زبردست اور کام یاب بنایا۔

    میڈم نور جہاں نے اس فلم میں ایک کردار بھی نبھایا تھا، ان کے علاوہ اسلم پرویز، علاﺅالدین، اداکار نذر اور نیلو کی شان دار پرفارمنس آج بھی دیکھنے والوں کو یاد ہے۔

    1956 میں فلم "انتظار” ریلیز ہوئی جسے لالی وڈ کی کام یاب ترین فلم کہا جاتا ہے۔ اس فلم کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی تھی اور گیت قتیل شفائی نے لکھے تھے۔ فلم کے ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔

    کہتے ہیں اس فلم کی فوٹو گرافی کمال کی تھی اور اس میں نور جہاں، سنتوش کمار، آشا پوسلے اور غلام محمد نے اپنی اداکاری سے شائقین کے دل موہ لیے۔

    فلم بینوں کو سنتوش کمار کا ڈبل رول بہت پسند آیا اور انتظار نے گولڈن جوبلی مکمل کی۔ اعلیٰ درجے کی شاعری اور شان دار موسیقی کے ساتھ جان دار اداکاری کی وجہ سے پڑوسی ملک میں‌ بھی اس فلم کا خوب چرچا ہوا۔

    1966 کی فلم "ارمان” پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ہے۔ وحید مراد اس کے فلم ساز اور ہدایت کار پرویز ملک تھے۔ اسے پاکستان بھر میں‌ سنیما بینوں نے پسند کیا اور اس فلم نے زبردست بزنس کیا۔

    اس فلم کے گیت مسرور انور نے لکھے تھے جب کہ نام ور موسیقار سہیل رانا نے اس دھنیں‌ ترتیب دی تھیں۔ اداکارہ زیبا کے علاوہ فلم میں وحید مراد، نرالا اور ترنم نے اداکاری کے جوہر دکھائے اور شائقین کو متوجہ کیا۔

    یہ رومانوی فلم تھی جس کے بعد وحید مراد کو ”شہنشاہ رومانس“ کہا جانے لگا۔ یہ لالی وڈ کی بہترین فلموں میں سے ایک ثابت ہوئی۔

    اسی طرح آئینہ، زرقا اور امراؤ جان ادا نے شائقین ہی کے دل نہیں‌ جیتے بلکہ بزنس کے اعتبار سے بھی شان دار ثابت ہوئیں اور ان فلموں‌ میں کام کرنے والے اداکاروں نے ملک بھر میں نام کمایا۔

  • ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    ناظم پانی پتی: خوب صورت گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا اور چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا… جیسے خوب صورت گیتوں کے خالق ناظم پانی پتی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    18 جون 1998 کو پاکستان کےاس معروف فلمی گیت نگار کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا۔ وہ لاہور میں مدفون ہیں۔

    ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ 15 نومبر 1920 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے لاہور سے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کی۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور نام و مقام حاصل کیا۔

    وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

    پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔

    انھوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی گیت نگاری کی اور متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

  • اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال والی منور سلطانہ کا تذکرہ

    اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال والی منور سلطانہ کا تذکرہ

    پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں‌ پسِ پردہ گائیکی کے حوالے سے منور سلطانہ کو بہت شہرت ملی۔ آج اس گلوکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ منور سلطانہ 7 جون 1995 کو لاہور میں‌ وفات پاگئی تھیں۔

    1925 میں لدھیانہ میں پیدا ہونے والی منور سلطانہ کے فلمی کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منہدی سے ہوا تھا۔

    منور سلطانہ نے موسیقی کی تعلیم ریڈیو پاکستان کے مشہور موسیقار عبدالحق قریشی عرف شامی سے حاصل کی تھی۔ منور سلطانہ نے جن فلموں کے لیے گلوکاری کی ان میں پھیرے، محبوبہ، انوکھی داستان، بے قرار، اکیلی، نویلی، محبوب، بیداری، معصوم اور لختِ جگر سرِفہرست ہیں۔

    اپنے وقت کی اس مشہور گلوکارہ کو قومی نغموں کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے جن میں ’’چاند روشن چمکتا ستارہ رہے اور اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘ شامل ہیں۔

    منور سلطانہ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    واسطہ ای رب دا، توں جاویں وے کبوترا، اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال، مینوں رب دی سونہہ تیرے نال پیار ہوگیا ان کے گائے ہوئے مقبول گانوں میں شامل ہیں۔

  • گول گپے والا علاءُ الدین….

    گول گپے والا علاءُ الدین….

    یہ فلمی گیت آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہے اور اکثر بازاروں میں اسے آپ نے ضرور سنا ہو گا، "گول گپے والا آیا گول گپے لایا”….. اس گانے پر فلم میں اداکاری کرنے والے علاءُ الدین کو عوامی اداکار کہا جاتا ہے۔

    آج اس ورسٹائل ایکٹر کی برسی منائی جارہی ہے۔ 1920 میں پیدا ہونے والے علاءُ الدین نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بمبئی کی فلم نگری کا رخ کیا اور 1942 میں ‘سنجوگ’ نامی فلم سے ان کے کریئر کا آغاز ہوا۔ ان کی وجہِ شہرت ہندوستانی فلم "میلہ” بنی جس میں دلیپ کمار اور نرگس کے ساتھ کام کیا تھا۔

    تقسیم کے بعد وہ پاکستان آگئے جہاں ان کی پہلی فلم "پھیرے” کے بعد شہری بابو، محبوبہ، محل، انوکھی، وعدہ، پاٹے خان اور متعدد دوسری فلموں میں کام کیا، لیکن کرتار سنگھ وہ فلم تھی جس میں انھوں نے بے مثال اداکاری کی اور انڈسٹری میں سبھی کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کی عوام میں مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔

    اسی طرح فلم مہتاب اور بدنام کے مختلف کردار ان کی پہچان بنے۔ اردو زبان کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی انھوں نے اداکاری کے جوہر دکھائے اور آٹھ نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    13 مئی 1983 کو لاہور میں پاکستان کے عوامی اداکار نے ہمیشہ کے لیے زندگی سے منہ موڑ لیا۔

  • تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے…

    تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے…

    سعید الرحمن کا تخلص سُرور تھا جو اپنے آبائی علاقے بارہ بنکی کی نسبت قلم نگری میں سُرور بارہ بنکوی مشہور ہوئے۔

    لازوال گیتوں کے اس خالق نے فلم کے لیے مکالمے بھی لکھے اور ہدایت کاری بھی کی۔ تاہم ان کی اصل وجہِ شہرت ان کی شاعری ہے۔

    سرور بارہ بنکوی کی عملی زندگی کا آغاز فلموں کے مکالمے لکھنے سے ہوا، بعد میں فلم سازی کی طرف آئے۔

    3 اپریل 1980 کو بنگلا دیش سے ان کے انتقال کی خبر آئی۔ آج اردو زبان کے اسی خوب صورت اور لازوال نغموں کے خالق کی برسی ہے۔

    سرور بارہ بنکوی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں‌ ہوتا تھا جب کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بھی ان کی کاوشیں یاد رکھی جائیں گی۔ مشہور پاکستانی فلم “آخری اسٹیشن” انہی کی کاوش تھی۔

    "تیری یاد آ گئی غم خوشی میں ڈھل گئے”، "ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے”، اور "کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں، پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں” جیسے رسیلے اور لافانی گیت سرور بارہ بنکوی کی تخلیق ہیں۔

    سُرور بارہ بنکوی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

     

    نہ کسی  کو  فکرِ منزل، نہ  کہیں  سراغِ جادہ
    یہ عجیب  کارواں ہے، جو رواں ہے بے ارادہ

    یہی لوگ ہیں،ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
    کبھی  ڈال کر  نقابیں،  کبھی اوڑھ  کر لِبادہ

    مِرے روز و شب یہی ہیں، کہ مجھی تک آرہی ہیں
    تِرے حُسن کی ضیائیں کبھی کم، کبھی زیادہ

    سرِ انجمن تغافل کا صلہ بھی دے گئی ہے
    وہ نِگہ! جو درحقیقت، تھی نِگاہ سے زیادہ

    ہو برائے شامِ ہجراں، لبِ ناز سے فروزاں!
    کوئی ایک شمعِ پیماں، کوئی اِک چراغِ وعدہ

  • رسیلی دھنیں‌ اور مدھر آوازیں، پنجابی فلموں‌ چند مشہور گیت

    رسیلی دھنیں‌ اور مدھر آوازیں، پنجابی فلموں‌ چند مشہور گیت

    قیامِ پاکستان کے بعد ہی لاہور میں پنچابی فلمیں بننا شروع ہو گئی تھیں۔ مشہور ہے کہ فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار نذیر نے پہلی پنجابی فلم بنائی تھی جو بزنس کے لحاظ سے خاصی کام یاب رہی۔

    اس فلم کے پنجابی گیت بہت مقبول ہوئے تھے۔ اس کے بعد دیگر فلم سازوں نے بھی پنجابی فلمیں بنائیں جن کے لیے اس وقت کے مشہور شعرا نے گیت لکھے اور باکمال موسیقاروں نے ان کی دھنیں ترتیب دیں۔

    فلم سازوں‌ نے پنجابی گیتوں کو اُس دور کی مشہور آوازوں میں ریکارڈ کیا۔ یہ گیت جہاں فلم کی کام یابی کی بھی ایک وجہ بنے وہیں پاکستانی گلوکاراؤں کی شہرت اور مقبولیت کو بھی گویا پَر لگ گئے۔

    یہاں ہم چند ایسے ہی گیتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جو اپنی خوب صورت دھنوں، مدھر آواز اور رسیلے بولوں کی وجہ سے آج بھی سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

    تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے، وے منڈیا سیالکوٹیا، وے منڈیا سیالکوٹیا

    https://youtu.be/f5BUEBrLPOc

    نی میں اُڈی اڈی جاواں ہوا دے نال

    مینوں رب دی سو تیرے نال پیار ہو گیا وے چنا سچی مچی

    اساں جان کے میت لئی اکھ وے

    https://youtu.be/joTA2YsbXnQ

    نی کی کیتا تقدیرے توں رول بیٹھے دو ہیرے

    https://youtu.be/eK0ZPoGhwQw

    او چن چھپ گیا انکھیاں لا کے، دل لے گیا نین ملا کے

  • میری فلم ’’ ہوٹل ‘‘ کی کہانی اب تک آنے والی فلموں سے مختلف ہے: اداکارہ میرا

    میری فلم ’’ ہوٹل ‘‘ کی کہانی اب تک آنے والی فلموں سے مختلف ہے: اداکارہ میرا

    لاہور: اداکارہ میرا اپنی نئی فلم ہوٹل کی پروموشن کے لئے ڈی ایچ اے سینما پہنچ گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق اداکارہ میرا اپنی نئی فلم ’’ ہوٹل ‘‘ کی پروموشن کے لئے ڈی ایچ اے سینما پہنچ گئیں، اس موقع پر میرا کا کہنا تھا کہ ’’ فلم ہوٹل ایک مختلف موضوع پر بنائی گئی ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ فلم ’’ ہوٹل ‘‘ کو نہ صرف سیاستدانوں بلکہ اسکولز اور کالجز کی طالبات کو بھی لازمی دیکھنا چاہئیے۔

    اس موقع پر انہوں نے پاکستانی ناظرین پر زور دیا کہ ان کی نئی فلم تیرہ مئی کو ریلیز کی جا چکی ہے، جسے ضرور دیکھیں۔

    میرا نے کراچی کے ڈراموں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سینئر فنکاروں کو کراچی میں عزت نہیں دی جاتی، فلموں کے نام پر ڈرامے فروخت کیے جارہے ہیں۔

    معروف اداکارہ میرا نے فلم انڈسٹری کو خیر باد کہنے کا اعلان کردیا،

     واضح رہے فلم ہوٹل کی ہدایت کاری خالد حسن نے کی ہے، جبکہ اداکاری کے فرائض طارق جمال، بیلا ناز، انیس راجہ، نسرین جان اور مریم دھماتی نے انجام دیے ہیں۔

    یاد رہے کہ  میرا نے کراچی ایئرپورٹ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنے مداحوں کو مشورہ دیا کہ وہ پی ٹی آئی کے جلسے میں جانے کے بجائے ان کی ریلیز ہونے والی فلم ’’ہوٹل‘‘ دیکھیں،انہیں فلم ضرور پسند آئے گی۔