Tag: پاکستان میں جنگلی حیات

  • پاکستان میں جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد کمی کا تباہ کن انکشاف

    پاکستان میں جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد کمی کا تباہ کن انکشاف

    کراچی: پاکستان میں گزشتہ نصف صدی کے دوران جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد کمی کا تباہ کن انکشاف سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف نے لِوِنگ پلانیٹ رپورٹ جاری کر دی، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں میٹھے پانی میں بسنے والی مختلف نسلوں کی آبادی میں 83 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پرندوں، خشکی پر رہنے والے اور رینگنے والے جانوروں اور مچھلیوں کی آبادی میں 1970 کے بعد سے اب تک 69 فی صد کی کمی دیکھی گئی ہے۔

    رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومتیں، ادارے اور عوام فوری طور پر حیاتیاتی تنوع کی تباہی کے ازالے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میٹھے پانی میں رہنے والے مختلف اقسام کے جانداروں کی آبادی میں اوسطاً 83 فی صد کمی واقع ہوئی ہے، اور 10 لاکھ پودوں اور جانوروں کی نسلوں کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے۔

    2.5 فی صد پرندے، ممالیہ، خشکی پر رہنے والے اور رینگنے والے جانور اور مچھلیاں پہلے ہی ناپید ہو چکی ہیں۔ آبادیاں بڑھنے سے جینیاتی تنوع میں کمی آئی ہے اور یہ جنگلی حیات اپنی ماحول دوست رہائش گاہوں سے محروم ہو رہے ہیں۔

    ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان حماد نقی خان نے کہا کہ پاکستان نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے جو خطرات سے دوچار ہیں، ان میں برفانی چیتے اور عام چیتے، دریائے سندھ کی ڈولفن، سفید اور لمبے گدھ، اور بحیرہ عرب کی ہمپ بیک وہیل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں نے کہا پاکستان میں جنگلی حیات کا تحفظ عام سطح پر ترجیحات میں شامل نہیں رکھا گیا، ہمیں جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کا تحفظ، جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے مسئلے کو حل کرنے اور ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان موسمیاتی آفات کی وجہ سے تیزی سے کمزور ہوتا جا رہا ہے، اور آب و ہوا کی تبدیلی قدرتی حیات کے نقصان کو ہوا دے رہی ہے، جس سے مختلف جانداروں کی نسلیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہو جائیں گی۔

  • تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    تھرپارکر: سندھ کے ایک تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کو ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے، تھر میں بھوک پیاس کے مارے ہرن شکاریوں کا آسان ہدف بن گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرایع کا کہنا ہے کہ تھر کے تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کا گوشت فروخت کیا جا رہا ہے، ایک جانب تھر میں غذا کے ذرایع کی کمی کے باعث جانور مر رہے ہیں، دوسری جانب مصیبت زدہ ہرنوں کو شکار کیا جانے لگا ہے۔

    تھرپارکر کے علاقے کرانگڑی کے شکاریوں کی ہرن ذبح کرنے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ سرحدی دیہات میں ہرن ذبح کر کے شہروں میں گوشت مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے، دوسری طرف افسوس ناک امر یہ ہے کہ وائلڈ لائف افسر اشفاق میمن نے اعتراف کیا ہے کہ نشان دہی ہونے اور ٹھوس ثبوت کے باوجود کارروائی نہیں کر سکتے۔

    نمایندہ اے آر وائی نیوز کے مطابق نایاب ہرن کا گوشت کراچی، حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے امیر لوگ خریدتے ہیں جو ہرن کا گوشت کھانے کے شوقین ہیں۔ چند دن قبل تھرپارکر میں ہرن کا گوشت فروخت کرنے والے چند لوگوں کو پکڑا گیا تھا لیکن محکمہ وائلڈ لائف نے چند پیسوں کے عوض انھیں چھوڑ دیا۔

    تازہ خبریں پڑھیں: امریکی ساحل وہیل کے لیے قتل گاہ بن گئے

    وائرل ہونے والی ایک اور ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ تھر میں ایک نایاب ہرن کو گولی مار کر گرایا گیا۔

    اشفاق میمن نے یہ بھی بتایا کہ نایاب ہرنوں کے شکار کی خبریں زیادہ تر عمر کوٹ کے سرحدی علاقوں کی ہیں۔

    واضح رہے کہ تھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے نایاب ہرن ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب یہ بہت کم تعداد میں نظر آنے لگے ہیں، جس کی وجہ عمر کوٹ کے صحرائے تھر سے لگنی والی بھارتی سرحد کی نزدیکی گوٹھوں میں اس کا بے دریغ شکار ہے جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔