Tag: پاکستان ٹیلی ویژن

  • "جنید جمشید بلاشبہ پاکستان ٹیلی ویژن کے سب سے زیادہ خوبصورت شخص تھے”

    "جنید جمشید بلاشبہ پاکستان ٹیلی ویژن کے سب سے زیادہ خوبصورت شخص تھے”

    پاکستان کے معروف گلوکار اور اداکار ہارون شاہد نے کہا ہے کہ جنید جمشید بلاشبہ پاکستان ٹی وی پر نظر آنے والے سب سے زیادہ خوبصورت شخص تھے۔

    نجی ٹی وی کے پروگرام میں شرکت کے دوران ہاروش شاہد نے میزبان فیصل قریشی کے ساتھ مرحوم نعت خواں جنید جمشید کی خوبصورت شخصیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی مرادنہ وجاہت، خوبصورت سراپے اور بولنے کے انداز کو جی بھر کے سراہا۔

    ہارون شاہد نے برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنید جمشید پاکستان ٹیلی ویژن پر جلوہ گر ہونے والے اب تک کے سب سے خوبصورت شخص ہیں۔

    اداکار نے مزید کہا کہ میں کبھی کبھار ان کے انٹرویوز دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ یار یہ کتنے خوبصورت ہیں اور بولتے بھی اتنا ہی خوبصورت ہیں۔

    ہارون شاہد نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب میں جنید جمشید سے ملا تو ان کی داڑھی تھی میں کہہ رہا تھا کہ یار یہ کتنے خوبصورت آدمی ہیں۔

    اس موقع پر میزبان فیصل قریشی نے ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ماشااللہ وہ ایک لمبے قد کے، پرکشش اور گڈ لکنگ آدمی تھے اس میں کوئی شک نہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/junaid-jamsheds-last-voice-message-before-his-death/

  • کنور آفتاب: پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک معمار کا تذکرہ

    کنور آفتاب: پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک معمار کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں سے ایک کنور آفتاب سنہ 2010ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ کئی یادگار ڈرامے اور دستاویزی پروگرام کنور آفتاب کا نام اس شعبے کے ایک باکمال اور بہترین فن کار کے طور پر زندہ رکھیں‌ گے۔

    پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کے آغاز کے ساتھ ہی اس شعبے میں قدم رکھنے والے فن کاروں اور قابل و باصلاحیت پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں میں ایک کنور آفتاب بھی تھے جن کی اوّلین سیریل ’نئی منزلیں نئے راستے‘ لاہور میں تیار ہوا، لیکن سینسر کی زد میں آگیا۔ تاہم بعد کے ادوار میں انھوں نے کئی یادگار ڈرامے پی ٹی وی کو دیے۔

    کنور آفتاب 28 جولائی 1929ء کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ گارڈن کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ والد انھیں وکیل بنانا چاہتے تھے، لیکن کنور آفتاب نے لندن جا کر فلم سازی کی تربیت حاصل کی اور چار برس کے بعد وطن لوٹے تو بطور ڈائریکٹر، پروڈیوسر اپنی پہلی فلم ’جھلک‘ تیّار کی۔ یہ روایتی اور عام ڈگر سے ہٹ کر فلم تھی جو باکس آفس پہ کامیاب نہ ہوسکی۔

    اس فلم کی ناکامی کے بعد وہ 1964ء میں ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے فلم سازی کی تعلیم اور اپنے تجربے سے کام لے کر ٹیلی ویژن کی سرکردہ شخصیات اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال کے ساتھ اردو ڈرامہ کو ہر خاص و عام میں مقبول بنایا۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار لکھتے ہیں کہ کنور آفتاب زندگی بھر تجرباتی فلموں اور ڈراموں، علامت نگاری اور تجریدی فنون اور ادبی دانش وری کے سخت مخالف رہے۔ ڈرامے سے اُن کا رابطہ شعر و ادب کے حوالے سے نہیں بلکہ بصری فنون کے حوالے سے تھا چنانچہ ایسے مصنفین جو عوام کی سمجھ میں نہ آنے والا ادب تخلیق کرتے تھے، اُن کے نزدیک گردن زدنی تھے۔

    عارف وقار مزید لکھتے ہیں، وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہا کرتے تھے کہ میں راجپوت ہوں، جو کہتا ہوں کر دکھاتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی ملازمت کے دوران پندرہ برس تک اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اُن کا سکھایا ہوا پہلا سبق یہی تھا کہ وقت کی پابندی کرو اور دوسروں سے بھی کراؤ۔ اگر ہیرو بھی ریہرسل میں لیٹ آیا ہے تو سب کے سامنے اس کی سرزنش کرو تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے۔ سختی کے اس رویّے نے شروع شروع میں مجھے بہت پریشان کیا اور میں آرٹسٹ برادری میں ناپسندیدہ شخصیت بن کے رہ گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس سخت گیر رویّے کے ثمرات نمودار ہونے لگے جب ساری ٹیم نے بر وقت پہنچنا شروع کردیا اور ڈرامے صحیح وقت پر تیار ہوکر سب سے داد وصول کرنے لگے۔ غلام عباس کی کہانی ’ کن رس‘ اپنی سنجیدگی کے لحاظ سے اور امجد اسلام امجد کا ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ اپنی ظرافت کے سبب کنور آفتاب کی ابتدائی کامیابیوں میں شامل تھے۔ جس طرح لاہور میں انھوں نے نوجوان ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی تربیت کی اور اسے کامیڈی لکھنے کے گر سکھائے اسی طرح کراچی میں انھوں نے کہانی کار حمید کاشمیری کا ہاتھ تھاما اور ٹیلی پلے کے اسرار و رموز سمجھائے۔ کنور آفتاب کا طرزِ آموزش خالصتاً عملی تھا۔ وہ لیکچر دینے کی بجائے ہر چیز کر کے دکھاتے تھے۔

    کنور آفتاب کے مشہور ٹیلی وژن ڈراموں میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

    کنور آفتاب احمد نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں ایوارڈ دیے گئے۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے چند اداکار ایسے بھی ہیں جنھوں نے گویا راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرلیے، لیکن فن کی دنیا میں اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں فرشتۂ اجل کے آگے بے بس ہوکر منوں مٹی تلے جا سوئے۔ ظفر مسعود ایسے ہی اداکار تھے جو 24 مئی 1981ء کو عالمِ جاوداں کو سدھار گئے۔ وہ قاہرہ میں ٹریفک کے ایک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔

    ظفر مسعود نے پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور ترین ڈراموں خدا کی بستی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، آبگینے، بندش اور کرن کہانی میں اپنی کمال اداکاری سے ناظرین کو محظوظ سے کیا اور مقبولیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے مشہور ڈرامہ سیریز ایک محبت سو افسانے کے چند ڈراموں میں بھی کردار نبھائے تھے جو یادگار ثابت ہوئے۔ ظفر مسعود نے تین اردو اوردو پنجابی فلموں میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کے اس باکمال اداکار نے قاہرہ کی ایک شپنگ کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی تھی، جہاں قیام کے دوران ان کی کار کو حادثہ پیش آیا اور اس حادثے میں ظفر مسعود زندگی سے محروم ہوگئے۔ وہ کراچی کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

    ظفر مسعود نے ڈرامہ سیریل خدا کی بستی میں نوشہ کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک مشکل کردار تھا جسے انھوں نے نہایت خوبی سے نبھایا اور ایک اداکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منوانے میں کام یاب رہے۔ ظفر مسعود کی فطری اداکاری نے سبھی کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ یہ ڈرامہ سیریل دوسری بار اسکرین پر پیش ہوا تو اس میں‌ نوشہ کا کردار بہروز سبزواری نے نبھایا۔

  • ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی باکمال آرٹسٹ عرشِ منیر کی برسی

    ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی باکمال آرٹسٹ عرشِ منیر کی برسی

    قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اپنے فن اور خداداد صلاحیتوں سے نام و مقام بنانے والوں میں عرشِ منیر بھی شامل ہیں‌ جو 8 ستمبر 1998 کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ آج ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی اس مشہور و معروف صدا کار اور اداکار کی برسی ہے۔

    عرشِ منیر کا تعلق لکھنؤ سے تھا جہاں انھوں نے 1914 میں‌ آنکھ کھولی۔ ان شادی شوکت تھانوی سے ہوئی جو ایک صحافی، ناول نگار، ڈراما نویس، شاعر بھی تھے۔ شوکت تھانوی نے یوں تو ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی، مگر ان کی اصل شہرت مزاح نگاری ہے۔ شوکت تھانوی آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہے تھے اور انہی کی تحریک اور ہمّت افزائی سے ان کی رفیقِ حیات عرشِ منیر نے آل انڈیا ریڈیو سے صدا کاری کا آغاز کیا تھا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور عرشِ منیر یہاں ریڈیو پاکستان سے بطور اسٹاف آرٹسٹ وابستہ ہوگئیں۔

    پاکستان میں‌ ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں متعدد ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کرنے کا موقع ملا اور عرشِ منیر نے ناظرین سے اپنی اداکاری پر خوب داد وصول کی۔ پی ٹی وی کا مقبول ترین اور یادگار ڈراما شہزوری، باادب باملاحظہ ہوشیار، ریڈیو کا دھابے جی آئے تو بتانا اور متعدد ریڈیو پروگرام ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ وہ کراچی میں‌ سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف اداکارہ نجمہ محبوب کی 36 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    معروف اداکارہ نجمہ محبوب کی 36 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    اسلام آباد: پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ نجمہ محبوب کی برسی آج منائی جارہی ہے. وہ 6 دسمبر 1983 کو ایک ٹرین حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔

    1949 میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والی نجمہ محبوب نے اسٹیج ڈراموں سے اداکاری کا سفر شروع کیا اور 1969 میں ٹیلی ویژن کی طرف آئیں۔ ان کا پہلا ڈراما ‘‘ہاتھی دانت’’ تھا جو لاہور اسٹیشن سے نشر ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے ٹی وی پر متعدد سیریلوں اور ڈراما سیریز میں کام کیا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کی اس اداکارہ نے جلد ہی فلم نگری میں قدم رکھ دیا اور بڑے پردے پر 79 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی پہلی فلم ‘‘خلش’’ تھی جب کہ ‘‘نازک رشتے’’ ان کی آخری فلم تھی۔ یہ فلم 1987 میں ریلیز ہوئی۔

    نجمہ محبوب ایک پنجابی فلم ‘‘رکشہ ڈرائیور’’ کی شوٹنگ کے دوران بچے کو بچاتے ہوئے چلتن ایکسپریس سے ٹکرا گئی تھیں۔ ان کی مشہور فلموں میں سلطانہ ڈاکو، ان داتا، ٹھگاں دے ٹھگ، غازی علم الدین شہید، سالا صاحب شامل ہیں۔

  • قومی چینل کے ڈائریکٹر آئی ٹی اوراُن کی اہلیہ مردہ حالت میں پائے گئے

    قومی چینل کے ڈائریکٹر آئی ٹی اوراُن کی اہلیہ مردہ حالت میں پائے گئے

    اسلام آباد : قومی ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اُن کی اہلیہ اپنے گھر میں مردہ پائے گئے ہیں تاحال موت کی وجہ کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق 55 سالہ فخر حمید اور ان کی اہلیہ حمیرا حمید کی لاشیں گھر کے باتھ روم سے برآمد ہوئی ہیں۔

    فخر حمید پاکستان ٹیلی ویژن میں بہ طور ڈائریکٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فرائض انجام دے رہے تھے اور اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ صادق آباد میں داتا گنج بخش روڈ کے قریب گھر میں رہائش پزیر تھے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ کی اطلاع فخر حمید کی سات سالہ بیٹی نے دی جس نے اسکول سے واپسی پر اپنے والدین کی باتھ روم میں مردہ حالت میں پایا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ تاحال موت کی وجہ کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے تاہم وقوعہ کا مختلف پہلوؤں پر تحقیقات کی جا رہی ہیں اور جلد ملزمان تک پہنچ جائیں گے۔

    دوسری جانب پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق فخر حمید کا انتقال باتھ روم میں پھسل جانے اور سر فرش پر ٹکرانے کی وجہ سے ہوا جس پر اُن کی اہلیہ مدد کو پہنچی لیکن اپنے شوہر کو مردہ حالت میں دیکھ کر دل کا دورہ پڑنے کے سبب خالق حقیقی سے جا ملیں۔