Tag: پاکستان کرکٹ

  • شارجہ اسٹیڈیم سے جُڑی پاکستان کرکٹ کی سنہری یادیں

    شارجہ اسٹیڈیم سے جُڑی پاکستان کرکٹ کی سنہری یادیں

    کراچی (29 اگست 2025): شارجہ اسٹیڈیم کا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہے اس میدان سے پاکستان کرکٹ کی سنہری یادیں بھی جڑی ہیں۔

    شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم کو سب سے زیادہ میچز کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہے اور اس کا نام عالمی ریکارڈ کے حوالے سے مستند گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج ہے۔ تاہم اس میدان کے تاریخی پنّوں میں پاکستان کرکٹ کی سنہری یادیں بھی درج ہیں۔

    شارجہ اسٹیڈیم میں پاکستانی کھلاڑیوں نے کرکٹ کے کھیل میں وہ کارنامے انجام دیے اور ایک سے بڑھ کر ایک سنسنی خیز میچ جیت کر نہ صرف پاکستانیوں کو بے شمار خوشگوار لمحات دیے بلکہ دنیا کو بھی حیران کیا۔

    اسی تاریخی میدان پر لیجنڈری جاوید میانداد کا تاریخی چھکا کوئی نہیں بھول سکتا۔ اپریل 1986 میں آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کے خلاف فائنل میچ میں آخری اوور کی دو گیندیں باقی تھیں اور پاکستان کی آخری وکٹ باقی تھی۔

    پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے 5 رنز درکار تھے، اور سامنے تھے توصیف احمد۔ چیتن شرما بھاگتے ہوئے آئے اور گیند کی، توصیف احمد نے ایک رن لے کر اسٹرائیک جاوید میانداد کو دی۔ اب ایک گیند پر چار رنز درکار تھے۔

    اور پھر وہ ہوا جو شاید کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ چیتن شرما نے فل ٹاس گیند کرائی جس کو جاوید میانداد نے اپنے بلے کی طاقت سے اتنا اوپر اچھالا کہ وہ باؤنڈری پار ہی جا کر گری۔ یہ پاکستان کی کسی بھی کرکٹ ٹورنامنٹ میں پہلی ٹرافی تھی۔

    چار دہائیاں گزر جانے کے باوجود پاکستانی شائقین اس چھکے اور فتح سے لطف اندوز ہوتے جب کہ بھارتی شائقین کے ذہنوں پر یہ چھکا عفریت بن کر سوار رہتا ہے۔

    لیجنڈری وسیم اکرم نے بھی روایتی حریف بھارت کے خلاف 80 کی دہائی کے آخر میں آخری گیند پر چھکا مار کر جاوید میانداد کی چھکے کی یاد تازہ کی اور پاکستان کے ہاتھ ایک اور ٹرافی آئی۔ 90 کی دہائی میں مخالف بلے بازوں کیلیے خوف کی علامت بنے سوئنگ کے سلطان نے ون ڈے میں دو ہیٹ ٹرک بنائیں اور دونوں بار یہ کارنامہ اسی میدان میں انجام پایا۔

    پاکستان کی مسلسل فتوحات اور اپنی پے در پے شرمناک شکستوں سے نالاں بھارت نے شارجہ اسٹیڈیم کا بائیکاٹ کر دیا تاہم آج وہ اسی میدان میں دوبارہ کھیل رہی ہے۔

    سال 2022 کے ایشیا کپ میں نسیم شاہ ہیرو بنے اور ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں افغانستان کے جبڑوں سے فتح کھینچ لائے۔

    افغانستان کو تاریخی فتح کے لیے پاکستان کی صرف ایک وکٹ درکار تھی اور آخری اوور میں پاکستان کو 12 رنز درکار تھے۔ کریز پر ٹیل اینڈرز موجود تھے اور کسی کو پاکستان کے جیتنے کی امید نہ تھی، لیکن پھر وہی ہوا جو شاہین شارجہ کے میدان پر کرتے آئے ہیں۔

    نسیم شاہ نے دو چھکے مار کر پاکستان کو فتح یاب کرایا اور جشن منانے کی تیاریاں کرنے والے افغان شائقین پر بجلیاں گرا دیں۔

    پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور اسٹائلش اوپنر سعید انور نے لگاتار تین سنچریاں بنانے کا کارنامہ بھی شارجہ میں ہی انجام دیا جب کہ قومی ٹیم کے موجودہ ہیڈ کوچ عاقب جاوید نے ایک میچ میں بھاتی ٹاپ آرڈر کو اڑاتے ہوئے ہیٹ ٹرک کو بھی اسی میدان میں یادگار بنایا۔

    اب گرین شرٹس سلمان آغا کی قیادت میں پہلے ٹرائی نیشن سیریز کی جنگ لڑنے کے لیے میدان میں اتر چکی ہے اور اس کے بعد ایشیا کپ میں اپنے ہنر کو آزمائیں گے۔

    پوری قوم امید کر رہی ہے کہ قومی ٹیم ماضی کی روایت کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر ٹرافیاں گھر لائے گی اور سیلاب کی تباہ کاریوں میں گھرے پاکستانیوں کو خوشی کے لمحات فراہم کرے گی۔

  • پاکستان کرکٹ نے تاریخ کا ’’انتہائی دلچسپ‘‘ ریکارڈ اپنے نام کر لیا

    پاکستان کرکٹ نے تاریخ کا ’’انتہائی دلچسپ‘‘ ریکارڈ اپنے نام کر لیا

    کرکٹ میں آئے دن ریکارڈ قائم ہوتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم نے تاریخ کا منفرد اور دلچسپ ترین ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔

    کرکٹ کا شمار دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں ہوتا ہے اور پاکستان میں تو اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ یہاں گلی، کوچے، سڑکیں کرکٹ کا میدان بن جاتی ہیں، جہاں نہ صرف بچے بلکہ نوجوان بھی کرکٹ کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔

    پاکستان کرکٹ کی عمر 73 برس ہوچکی ہے۔ اس دوران ٹیم نے مجموعی اور کھلاڑیوں نے انفرادی طور پر کئی عالمی ریکارڈز اپنے نام کیے۔ لیکن اس بار پاکستان کرکٹ ٹیم نے اس کھیل کی تاریخ کا ایسا لاجواب ریکارڈ قائم کیا ہے جس کو منفرد کے ساتھ دلچسپ ترین ریکارڈ کہا جا سکتا ہے۔

    کرکٹ ٹیموں میں نئے کھلاڑیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن پاکستان نے گزشتہ تقریباً 17 ماہ میں جتنے میچز نہیں کھیلے ان سے زیادہ کھلاڑیوں کا ٹی 20 میں انٹرنیشنل ڈیبیو کرا دیا ہے۔

    قومی کرکٹ ٹیم نے 2024 سے اب تک مجموعی طور پر 33 ٹی 20 انٹرنیشنل میچز کھیلے ہیں۔ تاہم اس میں 38 نئے کھلاڑیوں کو ڈیبیو کرایا ہے۔

    یہ ایک ایسا منفرد اور دلچسپ ریکارڈ ہے جس میں پاکستان نے دیگر تمام ٹیموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان نے اسی مدت کے دوران ٹی 20 میں 10 اوپننگ جوڑیوں کو آزمایا ہے۔

    اسی مدت کے دوران اپنی ٹیموں میں نیا خون شامل کرنے والے ممالک میں بھارت کا دوسرا نمبر ہے۔ بلیو شرٹس نے 31 میچز میں 35 نئے کھلاڑیوں کو متعارف کرایا۔ جنوبی افریقہ نے 23 میچز میں 31 نئے کھلاڑیوں کو آزمایا۔

    نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز نے 27،27 میچز میں بالترتیب 30 اور 27 کھلاڑیوں کو موقع دیا۔ افغانستان اور آسٹریلیا نے 21، 21 میچز کھیلے اور دونوں نے 25، 25 نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا۔

    انگلینڈ نے 22 میچوں میں 24، سری لنکا نے 23 میچوں میں 23 کھلاڑیوں کو کیپ دی۔ اس فہرست میں سب سے آخر میں بنگلہ دیش ہے جس نے 28 میچز میں صرف 22 نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا۔

    https://urdu.arynews.tv/pakistan-cricket-blog-rehan-khan/

  • نحیف و نزار ’’پاکستان کرکٹ‘‘ سے خصوصی انٹرویو!

    نحیف و نزار ’’پاکستان کرکٹ‘‘ سے خصوصی انٹرویو!

    سڑک سے گزر رہا تھا کہ کنارے پر ایک بوڑھے جھریوں زدہ وجود کو سکڑے سمٹے دیکھا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ ہوتی، اگر اس کمزور وجود نے اپنے ایک ہاتھ میں گیند، بلا اور دوسرے ہاتھ میں پاکستانی پرچم نہ تھاما ہوتا۔ اس حلیہ نے تجسس کو بھڑکایا اور صحافتی رگ پھڑکی تو ہم اس نحیف و نزار وجود کے پاس جا پہنچے اور علیک سلیک کر کے کچھ بات کرنے کی کوشش کی۔

    چہرے کے نقوش بتا رہے تھے کہ یہ عمارت کبھی پرشکوہ بھی رہی ہوگی۔ تاہم زمانے کی چیرہ دستیوں اور حالات کے جبر نے خوبصورتی کو گہنا دیا ہے۔ قریب کھڑے ہو کر مزید جاننے کی کوشش کی تو ایسا لگا کہ یہ وجود جو بہت ستم رسیدہ دکھائی دے رہا تھا کوئی تازہ غم اس کے اندر نوحہ کناں تھا اور یہ غم اس کی آنکھوں کے ساتھ پورے ہی وجود سے جھلک رہا تھا۔ آنکھیں جھکی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس میں کسی سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں۔ یہ حالت دیکھ کر میں اس وجود کو زبردستی قریبی چائے کے ہوٹل پر لے گیا، تاکہ سکون کے ماحول میں اس کے کچھ اوسان بحال کیے جائیں اور حال احوال دریافت کیا جائے۔ ہوٹل پہنچنے کے بعد اس نے ایک کونے میں سر چھپا کر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ کئی بار بات کا ارادہ کیا لیکن سامنے گہری خاموشی دیکھ کر خاموش رہا۔ بالآخر صبر نے جواب دیا تو سکوت توڑ کر تعارف حاصل کرنا چاہا اور پہلا سوال یہ پوچھا کہ آپ کون ہیں اور یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟

    پہلے تو وہ وجود اپنا تعارف کرانے سے ایسے جھجھکا، جیسے وہ اپنا تعارف کرانے پر شرمسار ہو لیکن ہمارے بے حد اصرار پر بالآخر بول پڑا کہ میں ’’پاکستان کرکٹ‘‘ ہوں۔ یہ سن کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ مگر جلد ہی خود کو سنبھال کر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کرکٹ سے منفرد انٹرویو کرنے کی ٹھانی۔

    میں نے بطور صحافی تعارف کراتے ہوئے انتہائی کمزور وجود کے ساتھ بیٹھی پاکستان کرکٹ سے انٹرویو کی خواہش ظاہر کی۔ تھوڑے سے اعتراض کے بعد وہ راضی ہوئی، اور ساتھ ہی احسان جتایا کہ مجھ سے اپنا نام بڑا بنانے والے آج پیسوں پر انٹرویو دے رہے ہیں، مگر تم بھی کیا یاد کرو گے کہ میں تمہیں صرف چائے کی ایک پیالی پر ہی انٹرویو دے رہی ہوں۔

    انٹرویو کی نشست شروع ہوتے ہی میں نے پہلا پرتجسس سوال داغا کہ آپ جو آج بہت کمزور اور دکھی دکھائی دے رہی ہیں کیا ہمیشہ سے یہی حال ہے؟
    نہیں بیٹا میرا ماضی تو بہت خوبصورت اور روشن تھا۔ خوشیوں کا چمن تھا جس میں کئی پھول کھلے اور دنیا کو اپنی خوشبو سے مہکایا، لیکن آنے والے نا اہل مالیوں اور امر بیل فطرت رکھنے والوں نے میرے اس گلستان کو اب کسی اجڑے چمن کی صورت کر دیا ہے۔ جہاں قومی ٹیم نے بڑی فتوحات سے اقوام عالم میں میرا سر فخر سے بلند بھی کیا اور کچھ کرکٹرز نے اپنی حرکتوں سے دنیا کے سامنے مجھے شرمسار بھی کیا۔

    آپ کی عمر کیا ہے، کچھ اپنے ماضی کے بارے میں بتائیں؟
    میری عمر اس وطن عزیز سے چند سال ہی چھوٹی ہے۔ پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آیا۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی کالونی ہونے کی وجہ سے وراثت میں کرکٹ ملی تھی۔ اس لیے صرف 5 سال بعد ہی 1952 میں مجھے باقاعدہ ٹیسٹ کرکٹ ملک کا درجہ مل گیا۔

    ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ ملنے کے بعد سب سے پہلے کس ملک کا دورہ کیا؟
    ٹیسٹ کرکٹ ملک کا درجہ ملنے کے بعد سب سے پہلا دورہ بھی کپتان عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں روایتی حریف بھارت کا کیا اور اکتوبر 1952 میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔

    آپ کو مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے؟
    ہاں بالکل درست ہے۔ مجھے قومی پرچم اور جرسی کی مناسبت سے گرین شرٹس بھی کہا جاتا ہے، مین ان گرین بھی پکارا جاتا ہے۔ میں شاہین بھی ہوں لیکن حالیہ کارکردگی نے مجھے کرگس بنا دیا ہے جب کہ لوگ مجھے طنزیہ انداز میں دنیا کی واحد نا قابل بھروسہ ٹیم بھی کہتے ہیں۔

    میرا سینہ اگر آج زخموں سے چور ہے لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ میرے دامن میں آنے والوں نے میرے ذریعے مال و دولت کمایا لیکن کچھ ایسے بھی نکلے جنہوں نے پیسہ کی خاطر میری عزت اور وقار کا سودا کر دیا۔

    آپ کی اب تک کی کارکردگی کیا رہی ہے؟
    ٹیسٹ نیشن کا درجہ ملنے کے بعد سے اب تک میں 10 ممالک کے خلاف مجموعی طور پر 465 ٹیسٹ میچز کھیل چکی ہوں اور ان میں سے 151 جیتے۔ 148 ہارے۔ 166 ڈرا ہوئے۔
    جب ایک روزہ کرکٹ آئی تو اولین دن سے اس کا حصہ بنی اور اب تک 19 ممالک سے پنچہ آزمائی کرتے ہوئے 987 میچز کھیل کر 520 میچوں میں کامیابی سمیٹی اور 437 میں ناکامی ملی۔

    دو دہائی قبل جب ٹی 20 کرکٹ کا دور شروع ہوا تب سے اب تک ورلڈ الیون اور 19 ملکوں کی ٹیموں سے 258 میچز کھیل کر 145 جیتے اور 102 ہارے۔

    13 ون ڈے ورلڈ کپ میں 1992 کا ٹائٹل جیتا۔ دو فائنل اور چار سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز پایا۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ کے ریکارڈ پانچ سیمی فائنل اور دو فائنل کھیلے 2009 میں چیمپئن بنا۔ 2016 میں ٹیسٹ کرکٹ کی نمبر ون ٹیم کا اعزاز پایا۔ 2017 میں پہلی بار سرفراز کی قیادت میں چیمپئنز ٹرافی بھی اٹھائی۔

    گزشتہ کئی سالوں سے پے در پے شکستوں کے باوجود آج بھی میری جیت کا تناسب شکستوں سے زیادہ ہے، جو اس بات کا گواہ ہے کہ میرا ماضی خوشیوں سے بھرا اور بہت روشن تھا۔

    پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی خوشی کون سی ہے؟
    اس میں کوئی شک نہیں کہ 1992 میں جب پاکستان پہلی بار ون ڈے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا تو وہی سب سے بڑی خوشی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں اس وقت کے کپتان عمران خان نے جس طرح ٹوٹی، بکھری اور شکستوں کے بھنور میں پھنسی ٹیم کو عرش سے اٹھا کر فرش پر پہنچایا اور جس طرح میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں خوبصورت کرسٹل ٹرافی اٹھائی۔ وہ منظر 33 سال گزرنے کے باوجود دل ودماغ سے محو نہیں ہوتا۔

    اس کے علاوہ پاکستان نے شارجہ میں 1986 کے آسٹریلیشیا کپ میں روایتی حریف بھارت کو فائنل میں ہرا کر پاکستان کو پہلی بار کثیر الملکی ٹورنامنٹ میں ٹرافی جتوائی۔ میانداد کا چیتن شرما کی آخری گیند پر مارا گیا چھکا آج بھی بھارتیوں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ کئی سال کے ٹرافی کے قحط کے بعد پاکستان ٹیم ایک بار لارڈز کے میدان میں سرخرو ہوئی اور 2009 میں یونس خان کی قیادت میں ٹی 20 ورلڈ کپ جیت کر دہشتگردی سے خوفزدہ پاکستانی عوام کے چہرے پر خوشیاں بکھیریں۔ پھر 2016 میں ٹیسٹ نمبر ون ٹیم کا اعزاز اور ایک سال بعد ہی سرفراز احمد نے وہ کر دکھایا جو کسی اور کپتان نے نہیں کیا تھا۔ روایتی حریف بھارت کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پچھاڑ کر پاکستان کو پہلی بار یہ اعزاز بھی دلایا اور اس کے ساتھ آئی سی سی کے تمام فارمیٹس کی فتوحات پاکستان کے نام ہوئیں۔

    آپ کے لیے سب سے مشکل وقت کون سا تھا؟
    بیٹا دکھ سکھ تو ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ کبھی سکھ کی چھاؤں آتی ہے تو کبھی دکھ کی تمازت پورے جسم اور روح کو جلا دیتی ہے۔ لیکن میرے لیے جہاں خوشیوں کے بہت سارے در کھلے وہیں دکھ کے موسم بھی بہت اور طویل رہے۔ دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے ہر بار عارضی مرہم پٹی کر کے سدھار کی کوشش کی گئی لیکن مستقل مزاجی نہ ہونے کے باعث لگتا ہے کہ یہ زخم ناسور بن چکا ہے۔

    پاکستان کرکٹ میں دھڑے بندی کب شروع ہوئی؟
    ٹیم میں کپتانی کی دوڑ تو 80 کی دہائی سے شروع ہو چکی تھی لیکن 90 کی دہائی میں اس نے تقویت پائی اور دھڑے بندی بھی ہوئی لیکن بات کرو دکھ کی تو جس نے روح تک کو مسل ڈالا وہ 1999 کا ورلڈ کپ تھا۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم ناقابل شکست رہتے ہوئے بڑی بڑی ٹیموں کو پچھاڑ گئی لیکن حیران کن طور پر نو آموز بنگلہ دیش سے ہار گئی۔ اس وقت کے کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ ہم اپنے بھائی سے ہارے لیکن اس کے جواب میں بنگلہ دیش کی متعصب وزیراعظم حسینہ واجد نے جلتی پر تیلی کا کام کرتے ہوئے اس کو 1971 (سقوط ڈھاکا) کا بدلہ قرار دیا۔ پھر اس کے فائنل میں جس بری طرح شکست ہوئی وہ 26 سال گزرنے کے باوجود اب تک لوگوں کے ذہنوں کے پردے پر محفوظ ہے۔

    اس سے قبل 1994 میں پہلی بار پاکستان ٹیم پر میچ فکسنگ کا الزام لگا تھا۔ اس کی تحقیقات ہوئیں اور جب جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ آئی تو اس نے تہلکہ بھی مچایا۔ لیکن ملبہ صرف دو کھلاڑیوں سلیم ملک اور عطا الرحمان پر ڈال کر تاحیات پابندی لگا دی گئی۔ وسیم اکرم کو فوری کپتانی سے ہٹانے کی سفارش کی گئی اس کے ساتھ کچھ کھلاڑیوں کو اہم عہدوں پر تعینات نہ کرنے کی بھی سفارش کی گئی مگر بعد میں ان میں سے ہی کچھ کپتان اور ریٹائرمنٹ کے بعد پی سی بی کے عہدوں پر فائز ہوئے۔

    2006 میں دورہ انگلینڈ میں آخری ٹیسٹ میچ کو فورفیٹ کر کے انگلش ٹیم کو ایوارڈ کرنا بھی کرکٹ کا انوکھا واقعہ رہا اور اس میں بھی پاکستان ہی شریک تھا۔ وہ تو بعد میں پی سی بی کی کوششوں سے آئی سی سی نے اس میچ کو ڈرا قرار دیا۔

    2007 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں پہلے ہی راؤنڈ میں ٹورنامنٹ سے اخراج سے زیادہ تکلیف دہ اس وقت کے ٹیم کوچ باب وولمر کی پراسرار موت تھی۔ اس معاملے میں پاکستانی ٹیم پر شک اور تفتیش نے دنیا میں میرا امیج خراب کیا۔

    2010 میں دورہ انگلینڈ میں اسپاٹ فکسنگ ایسا کیس ہے جس نے میرے شکستہ وجود کو مزید کمزور کیا اور ایسا لگا کہ میرے چہرے پر کالک مل دی گئی ہو۔ اس جرم کی پاداش میں پہلی بار پاکستانی کرکٹرز کو جیل کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔ اس وقت کے کپتان اور سارے تماشے کے کرتا دھرتا سلمان بٹ اور محمد آصف کو تاحیات پابندی جب کہ نوجوان محمد عامر کو سات سال پابندی کی سزا ملی۔ اس واقعہ نے پاکستان کو ایک بڑے فاسٹ بولر سے محروم کر دیا گوکہ محمد عامر کی واپسی ہوئی لیکن وہ پہلے کی طرح اپنا جادو نہ جگا سکا۔

    سوال: پاکستان ٹیم نے کیوں برسوں تک اپنے میچز نیوٹرل مقامات پر کھیلے؟
    بیٹا یہ بھی دہشتگردی کا شاخسانہ تھا۔ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی کہ لاہور میں مہمان ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ رک گئی۔ غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا اور پاکستان نے اسی وجہ سے اپنے میچز کئی سال تک نیوٹرل مقامات پر کھیلے۔ یہ بہت شرمناک اور اذیت ناک دور تھا۔ اسی کی آڑ لے کر پاکستان سے خائف بھارت نے 2011 میں ون ڈے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی بھی مجھ سے چھین لی۔

    2015 میں سیکیورٹی اداروں کی کوششوں اور امن قائم ہونے کے بعد غیر ملکی ٹیموں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور اب سوائے بھارت کے تمام ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔ پاکستان نے 29 سال بعد رواں برس آئی سی سی کے کسی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی کا کامیاب انعقاد بھی کیا۔ پاکستان سپر لیگ نے بھی میرا مثبت امیج دنیا کو دیا اور آج دنیا کے کئی ممالک کے نامور کرکٹرز پی ایس ایل کھیلتے ہیں۔

    جب آپ کو اتنی خوشیاں ملیں تو پھر اتنا زود رنج کیوں ہو رہی ہیں؟
    بیٹا تم ہی بتاؤ کہ وہ ٹیم جس نے آئی سی سی کے تمام ٹورنامنٹس (ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی) جیتنے کے ساتھ ٹیسٹ نمبر ون ٹیم کا اعزاز بھی پا رکھا ہو۔ دو بار ایشین چیمپئن کا تاج بھی سر پر سجایا ہو۔ اس ٹیم کی آج حالت یہ ہوچکی ہو کہ وہ ڈیڑھ سال کے دوران ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور اپنی میزبانی میں کھیلی گئی چیمپئنز ٹرافی میں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہوچکی ہو۔ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم بھی مجھے میرے گھر میں وائٹ واش کر کے چلی جائے تو اس پر خوشی کے بھنگڑے ڈالوں یا ماتم کناں ہوں۔

    آپ کی نظر میں اس کارکردگی کی وجہ کیا ہے؟
    بیٹا میں نے آج تک یہی دیکھا ہے کہ مستحکم کامیابی مستقل مزاجی سے ملتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے کسی ادارے میں مستقل مزاجی نہیں تو کرکٹ میں کیسے ہو سکتی ہے۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں چھیڑ چھاڑ، نئی پالیسیاں، نئے چہرے اور ترجیحات سے معاملات بگڑتے ہیں۔

    میں زیادہ پرانی بات نہیں کرتی۔ صرف اس سوا ڈیڑھ سال کے عرصہ کو دیکھ لو۔ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ پی سی بی سربراہ، عہدیدار، ٹیم منیجمنٹ حتیٰ کہ کئی بار کپتان تبدیل ہوگئے۔ ہر تبدیلی پر بڑے دعوے اور میجر آپریشن کی بات کی گئی لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیم کو عارضی کامیابیاں تو ملتی ہیں مگر مستقل مزاجی نہیں آتی۔

    آپ کو 73 سال کا تجربہ ہے تو آپ کی نظر میں اس کا حل کیا ہے؟
    بیٹا میں کیا اور میری رائے کیا؟ ہونا تو وہی ہے جو اس ملک کے بڑے اور کرکٹ کے کرتا دھرتا چاہیں گے، مگر جب زبان پر آئی ہے تو کہہ چلوں کہ پاکستان کرکٹ کی ترقی کے لیے حق اور راست گوئی کی راہ اپناتے ہوئے بے رحمانہ احتساب کیا جائے لیکن اس میں صرف کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ اس میں فیصلہ سازوں کو بھی شامل کیا جائے۔ پرچی کلچر ختم کر کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے لایا جائے، ساتھ ہی مستقل مزاجی سے ٹیم اور منیجمنٹ منتخب کر کے اس کو وقت دیا جائے تو یہی ٹیم پھر سے قوم کی امنگوں پر پوری اترے گی اور میری عمر رسیدگی کا بھرم قائم رکھے گی۔

    آپ کی خواہش کیا ہے؟
    کرکٹ واحد کھیل ہے جو لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم میں بٹے لوگوں کو ایک قوم میں بدلتی ہے خاص طور پر جب پاک بھارت میچ ہو تو قومی جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ قوم کا اتحاد اسی کھیل کی ترقی سے بھی جڑا ہے۔ میں ایک بار پھر اپنی ٹیم میں محمد برادران، حفیظ کاردار، عمران خان، جاوید میانداد، یونس خان، شاہد آفریدی، سرفراز احمد جیسے بڑے نام دیکھنا چاہتی ہوں جن کا مطمح نظر پیسہ نہیں بلکہ پاکستان اور سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی ہوتا تھا۔
    یہ پاکستان کرکٹ کے وہ درخشاں ستارے ہیں جن کے بغیر پاکستان کرکٹ کی تابناک تاریخ ادھوری رہے گی۔ انہوں نے پاکستان کو بڑا ٹائٹل جتوایا لیکن خود پر کبھی کرپشن کا ایک داغ نہیں لگنے دیا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ خود کو منوانے اور کامیابی کے لیے جذبے کےساتھ ایمانداری بھی ضروری ہے۔

  • بھارتی صحافی وکرانت گپتا بھی پاکستان کرکٹ کیخلاف زہر اگلنے لگے

    بھارتی صحافی وکرانت گپتا بھی پاکستان کرکٹ کیخلاف زہر اگلنے لگے

    بھارت کی جانب سے جنگی جارحیت کے بعد چند ماہ قبل پاکستان کی تعریفوں کے پل باندھنے والے وکرانت گپتا اب پاکستان کرکٹ کیخلاف زہر اگلنے لگے۔

    بھارت کی مودی سرکار پر جنگی جنون سوار ہے۔ پہلے اس نے رات کی تاریکی میں پاکستان کے شہروں پر حملہ کر کے معصوم شہریوں کو شہید کیا۔ پاک فوج کے بھرپور جواب کے بعد بھی وہ جنگی جارحیت سے باز نہ آئی اور ڈرون حملے کر پاکستان میں دراندازی کی کوشش کی لیکن پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے 25 سے زائد اسرائیلی ساختہ ڈرونز مار گرا کر اس کا یہ منصوبہ بھی ناکام بنا دیا۔

    اس وقت جب دنیا جدید رافیل طیاروں سمیت بھارت کے پانچ جنگی طیاروں اور بھارتی چیک پوسٹوں کی تباہی کی داستان بیان کر رہی ہے۔ ایسے میں بھارتی شو بز اسٹارز کے ساتھ کرکٹرز اور صحافی اس کو اپنی جیت قرار دے کر اپنے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دے رہے اور مودی کا جنون مزید بڑھا رہے ہیں۔

    بھارت کے اسپورٹس صحافی وکرانت گپتا جو حال ہی میں چیمپئنز ٹرافی کی کوریج کے لیے پاکستان آئے تھے اور پاکستانیوں کی میزبانی سے اتنا متاثر ہوئے تھے کہ اپنے ملک جا کر تعریفوں کے پل باندھے تھے۔

    تاہم اب انہوں نے بھی ہوا کا رخ بدلتے دیکھ کر پاکستان کرکٹ کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ہے اور بھاری کرکٹ بورڈ کو ایشیا کپ سمیت آئی سی سی ایونٹس میں پاکستان کے میچز کے مکمل بائیکاٹ کا تباہ کن مشورہ دے رہے ہیں۔

    اس سے قبل سنیل گواسکر نے بھی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد شرمناک بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایشیا کپ 2025 میں پاکستان کو کھیلتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے۔

    واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت میں سیاسی کشیدگی کے باعث 13 سال سے کوئی دو طرفہ سیریز نہیں ہوئی ہے اور بھارت صرف آئی سی سی ایونٹس اور ایشیا کپ میں ہی پاکستان کے ساتھ کھیلتا ہے۔

    قابل ذکر یہ ہے کہ اے سی سی کا ایونٹ ایشیا کپ رواں برس بھارت کی میزبانی میں ہوگا جبکہ ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کی سربراہی پاکستان کے پاس ہے اور چیئرمین محسن نقوی ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/sunil-gavaskar-asia-cup-2025-pakistan/

  • محمد عامر نے کس کے ’’میسج‘‘ پر ریٹائرمنٹ واپس لی تھی؟ راز سے پردہ اٹھ گیا

    محمد عامر نے کس کے ’’میسج‘‘ پر ریٹائرمنٹ واپس لی تھی؟ راز سے پردہ اٹھ گیا

    محمد عامر نے کس کے کہنے پر انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ واپس لی تھی سابق پیسر نے کئی ماہ بعد اس کا انکشاف کر دیا۔

    پاکستان کے سابق فاسٹ بولر محمد عامر جنہوں نے گزشتہ سال ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ واپس لے لی تھی تاہم ورلڈ کپ کے بعد انہوں نے دوبارہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔

    محمد عامر نے ریٹائرمنٹ واپس لینے کا فیصلہ کس کے میسج پر کیا۔ اس راز سے کئی ماہ بعد سابق فاسٹ بولر نے خود ہی پردہ اٹھا دیا۔

    ایک مقامی نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں محمد عامر نے پروگرام میں شریک ایک شخص کے سوال پر کہا کہ ان کا انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینا کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ انہیں اور عماد وسیم کو شاہین شاہ آفریدی نے میسج کر کے ریٹائرمنٹ واپس لینے کا کہا تھا۔

    سابق پیسر نے کہا کہ شاہین شاہ نے میسج کر کے کہا تھا کہ آپ کی ملک کو ضرورت ہے اور آپ ابھی پاکستان کی مزید خدمت کر سکتے ہیں۔ ٹیم میں آپ کو وہی عزت اور مقام دیا جائے گا جس کے آپ مستحق ہیں۔ ان کے کہنے پر ہی میں نے ریٹائرمنٹ واپس لی۔

    انہوں نے ایک سابق کپتان کی جانب سے اس معاملے پر ڈیل کے الزام کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے لیے میں اپنی کاؤنٹی کی ڈیل چھوڑ کر واپس آیا تھا۔ ڈربی شائر کے لیے پورا سیزن کا کانٹریکٹ تھا جس کو میں نے ملک کی خاطر چھوڑا۔

    محمد عامر نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے تو ورلڈ کپ اپنے خرچے پر کھیلا فزیو اور پوری ٹریولنگ کے اخراجات میں نے خود برداشت کیے تھے۔

    چیمپئنز ٹرافی 2025 اردو خبریں

    واضح رہے کہ محمد عامر نے تین سال قبل اس وقت کی پی سی بی انتظامیہ کے رویے سے بد دل ہوکر انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ بعد ازاں گزشتہ سال ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل ریٹائرمنٹ واپس لی تاہم میگا ایونٹ کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے ایک بار پھر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔

    https://urdu.arynews.tv/champions-trophy-2025-muhammad-aamir-vikrant-gupta/

  • ویڈیو رپورٹ: کرکٹ کے 4 میگا ایونٹس کو ہائی پروفائل سیکیورٹی کی فراہمی

    ویڈیو رپورٹ: کرکٹ کے 4 میگا ایونٹس کو ہائی پروفائل سیکیورٹی کی فراہمی

    سیاسی و مذہبی جماعتوں کے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے باوجود سال 2024 میں راولپنڈی پولیس نے کرکٹ کے 4 میگا ایونٹس کو ہائی پروفائل سیکیورٹی فراہم کی۔

    دو ہزار چوبیس میں سیاسی عدم استحکام کے باوجود راولپنڈی میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی درخواست پر پنجاب پولیس کی جانب سے سیکیورٹی میں بھرپور تعاون فراہم کیا گیا، اور پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پی ایس ایل سمیت چار عالمی ٹیموں کو ہائی پروفائل سیکیورٹی دی گئی۔

    2024 میں پی ایس ایل کے گروپ میچز اور پلے آف میچ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھرپور سیکیورٹی فراہم کی گئی، اگست میں بنگلادیش ٹیم کی آمد اور اکتوبر میں انگلش کرکٹ ٹیم کی سیکیورٹی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔

    سی پی او راولپنڈی خالد محمود حمدانی کے مطابق 2024 میں سری لنکا کی اے ٹیم نے پاکستان دورہ کیا، پنڈی اسٹیڈیم میں سری لنکن ٹیم کے لیے سخت سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے، راولپنڈی پولیس نے رواں سال فروری میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں شرکت کرنے والی 6 ملکوں کی ٹیموں اور پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی سیکیورٹی انتظامات کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔

    خالد محمود حمدانی کا کہنا تھا کہ سیاسی مذہبی جماعتوں کے دھرنوں، احتجاجی مظاہروں کے دوران اور شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے کامیاب انعقاد میں راولپنڈی پولیس نے اہم کر دار ادا کیا۔

  • بھارت کے نہ آنے سے پاکستان کی کرکٹ متاثر ہوگی یا نہیں؟ سابق کرکٹر کا اہم بیان

    بھارت کے نہ آنے سے پاکستان کی کرکٹ متاثر ہوگی یا نہیں؟ سابق کرکٹر کا اہم بیان

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ کرکٹر کامران اکمل نے کہا ہے کہ بھارت کے نہ کھیلنے سے پاکستان کی کرکٹ بند نہیں ہوگی۔

    اے آر وائی کے پروگرام اعتراض ہے میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وکٹ کیپر بیٹر نے کہا کہ بھارت تو چاہ رہا تھا کہ پاکستان میں کرکٹ بالکل ہی ختم ہوجائے، پاکستان میں 11 سال تک میچ نہ ہوئے تب بھی کرکٹ ختم نہ ہوسکی۔

    کامران اکمل نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہورہی ہے اس لیے بھارت مسائل پیدا کررہا ہے، کھیل جہاں بھی ہو امن کا پیغام دیتا ہے رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔

    انھوں نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی کو دیکھنا کشمیر کے عوام کا بھی حق ہے، بھارت چیمپئنز ٹرافی کیلئے پاکستان نہیں آنا چاہتا تو نہ آئے۔

    سابق کرکٹر کامران اکمل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت یا پاکستان نہیں کھیلتا تو آئی سی سی کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔

    کامران اکمل نے مزید کہا کہ توقع تھی قومی ٹیم ٹی 20 میں بھی آسٹریلیا کےخلاف جیت جائے گی، پاکستان ٹیم کا ہمیشہ مسئلہ رہا ہے کہ جو میچ جیت جائے اسی پر دھیان رہتا ہے۔

  • شان مسعود کی کپتانی بھی زیربحث آگئی، تبدیلی کا امکان

    شان مسعود کی کپتانی بھی زیربحث آگئی، تبدیلی کا امکان

    پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے اعلیٰ سطح اجلاس اور ورکشاپ کا فیصلہ کیا گیا ہے، تجاویز کی روشنی میں مستقبل کے فیصلے ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس اور ورکشاپ کو کنیکشن کیمپ کا نام دیا گیا ہے، کنیکشن کیمپ 22 ستمبر کو ہونے کا امکان ہے جس کی صدارت چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کریں گے اور وہ ورکشاپ میں بھی شرکت کریں گے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کنیکشن کیمپ میں ریڈ اور وائٹ بال کے ہیڈ کوچز جیسن گلیسپی اور گیری کرسٹن بھی شریک ہوں گے جب کہ انٹرنیشنل، ڈومیسٹک اور ہائی پرفارمنس کے سربراہان، سینئر کرکٹرز کوچز اور پی سی بی کے سینئر آفیشلز بھی شریک ہوں گے جہاں کنیکشن کیمپ میں سامنے آنے والی تجاویز کی روشنی میں مستقبل کے فیصلے ہوں گے۔

    اس کے علاوہ  ریڈ اور وائٹ بال کوچز آپس میں بھی میٹنگز کریں گے، وائٹ اور ریڈ بال کے کپتانوں کی تبدیلی کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوگا، دورہ آسٹریلیا کیلئے پاکستان ٹیم کے نئے وائٹ بال کپتان کی تقرری کا امکان ہے، ٹیسٹ کپتان شان مسعود کی کپتانی بھی زیربحث آگئی ہے۔

    واضح رہےکہ گیری کرسٹن جولائی میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کے بعد وطن واپس چلے گئے تھے اور جیسن گلیسپی بنگلا دیش کے خلاف سیریز کے بعد آسٹریلیا چلے گئے تھے۔

  • ’اپنی زندگی میں پاکستان کرکٹ کو کبھی اتنا نیچے گرتے نہیں دیکھا‘‘

    ’اپنی زندگی میں پاکستان کرکٹ کو کبھی اتنا نیچے گرتے نہیں دیکھا‘‘

    پاکستان کے لیجنڈ کرکٹر نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی پوری زندگی پاکستان کرکٹ کو کبھی اتنا نیچے گرتے نہیں دیکھا۔

    راولپنڈی ٹیسٹ میں پاکستان کی بنگلہ دیش کے ہاتھوں 10 وکٹوں کی عبرتناک شکست کے بعد پر طرف سے حیرانگی اور افسردگی کا اظہار کیا جارہا ہے، پاکستان کے سابق کرکٹر اور سابق ہیڈ کوچ مدثر نذر نے بھی ہوم گراؤنڈ پر گرین شررٹس کو ملنے والی ہزیمت پر اظہار خیال کیا ہے۔

    مدثر نذر نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو ’کنفیوزڈ لوگوں‘ کا ایک گروپ قرار دیا جن کی غلطیاں ملک میں کھیل کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    سابق کرکٹر کا کہنا تھا کہ پی سی بی کنفیوزڈ لوگوں سے بھرا ہوا ہے اور وہ غلطیوں پر غلطیاں کیے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کرکٹ میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔

    مدثر نذر پہلے ٹیسٹ میں چار فاسٹ باؤلرز کو کھلانے کے فیصلے پر حیران ہیں، جہاں پاکستان نے شاہین آفریدی، نسیم شاہ، محمد علی اور خرم شہزاد کو میدان میں اتار۔

    سابق ہیڈ کوچ نے کہا ہ ہر وہ شخص جس نے پاکستان میں کرکٹ کھیلی ہے وہ جانتا ہے کہ اگست میں راولپنڈی کی پچیں سیمرز کے لیے پہلے ایک یا دو گھنٹے کی مدد کے بعد بیٹنگ کے لیے سازگار ہوجاتی ہیں، مدثر نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش کیخلاف ایک نہیں بلکہ دو اسپنرز کے ساتھ کھیلتے۔

    خیال رہے کہ مدثر نذر نے پاکستان کی جانب سے 76 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں جس میں انھوں نے 38.09 کی اوسط سے 4114 رنز بنائے ہیں۔

  • بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا ’’موقع‘‘ مل گیا ہے!

    بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا ’’موقع‘‘ مل گیا ہے!

    پاکستان اور بھارت میں یوں تو متعدد جنگیں اور کئی محاذوں پر گولہ بارود کا استعمال ہوتا رہا ہے لیکن ایک محاذ ایسا ہے جہاں آئے روز جنگ کا ماحول نظر آتا ہے، لیکن یہاں لڑی جانے والی جنگ کسی ہتھیار سے نہیں بلکہ گیند اور بلّے سے لڑی جاتی ہے۔ تاہم بھارت ہمیشہ اس میں بھی سیاست کو گھسیٹ لاتا ہے لیکن موقع، موقع کا راگ الاپنے والے بھارتیوں کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت شاید اب آ چکا ہے۔

    بھارت کے کھیلوں کے میدان میں بھی سیاست کو کھینچ لانے کی وجہ سے دونوں ممالک ڈیڑھ دہائی سے باہمی سیریز بھی نہیں کھیل رہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل کی سطح پر مقابلے ہوتے رہتے ہیں لیکن دیگر ٹیموں کی نسبت ایک دوسرے کے مدمقابل کم آنے اور روایتی چپقلش کے باعث کھیل کے یہ مقابلے بھی کسی جنگ سے کم نہیں ہوتے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان سیریز ہوئے ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ بیت گیا۔ بھارت 16 سال سے پاکستان نہیں آیا جب کہ اس دوران پاکستان نے کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا اور گرین شرٹس ہندو انتہا پسندوں کی خطرناک دھمکیوں کے باوجود تین بار ہندوستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ 2011 اور 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ کے علاوہ 2014 میں ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے قومی ٹیم بھارت گئی تھی جب کہ دوسری جانب بھارت کا یہ حال ہے کہ وہ باہمی سیریز تو کھیلنے سے مکمل انکاری ہے، مگر اب ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے ایونٹ میں بھی پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے۔

    پڑوسی ملک ہونے کے باوجود بھارتی اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور اوچھے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے گزشتہ سال پاکستان کی میزبانی میں کھیلے گئے ایشیا کپ کا بیڑہ غرق کرچکا ہے۔ بھارت کی پاکستان نہ آنے کی بے جا ضد کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ ہائبرڈ ماڈل کے تحت سری لنکا کے ساتھ مل کر کھیلا گیا۔ پاکستان کو میزبان ہونے کے باوجود صرف چار میچز کی میزبانی ملی جب کہ اے سی سی کی سربراہی بھارت کے پاس ہونے کی وجہ سے بلیو شرٹس کو اس کا ناجائز فائدہ دیتے ہوئے ان کے میچز ایک ہی گراؤنڈ میں رکھے، جب کہ دیگر ٹیموں کو ایک سے دوسرے ملک اور ایک شہر سے دوسرے شہر کے لیے شٹل کاک بنا دیا گیا۔

    اب پاکستان کو آئندہ سال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے، مگر انڈین کرکٹ بورڈ کے وہی انداز ہیں جو سب سے امیر بورڈ ہونے کی وجہ سے آئی سی سی کا لاڈلہ بھی کہلاتا ہے، ایک بار پھر پاکستان میں ہونے والے اس ایونٹ کو سبوتاژ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ ایسے میں جب تمام بڑی ٹیمیں پاکستان کھیل کر جا چکیں اور آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ ودیگر ٹیمیں چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے پر رضامند ہیں ایسے میں بھارتی بورڈ نے حسب روایت اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کو حکومتی رضامندی سے مشروط کر دیا ہے، جب کہ انڈین میڈیا وصحافی بھارتی ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ جانے اور ہائبرڈ ماڈل کے تحت نیوٹرل وینیو (یو اے ای یا سری لنکا) کھیلنے کے دعوے کر رہے ہیں۔

    دوسری جانب بعض سابق بھارتی کرکٹرز جن میں ہربھجن سنگھ کا نام سر فہرست رکھا جا سکتا ہے، جو ویسے تو پاکستانی کرکٹرز سے دوستیاں گانٹھنے میں عار نہیں سمجھتے لیکن جب بلیو شرٹس کے کرکٹ کھیلنے کے لیے پاکستان آنے کی بات آتی ہے تو انہیں پاکستان غیر محفوظ ملک لگنے لگتا ہے اور وہ اس سے متعلق زہر اگلتے رہتے ہیں حالانکہ اپنے دور کرکٹ میں وہ کئی بار پاکستان کا محفوظ دورہ اور محبتیں سمیٹ کر جا چکے ہیں۔

    جب بھارت بھی مسلسل پاکستان کرکٹ کو تباہ کرنے اور پی سی بی کو نیچا دکھانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے اور اس کے لیے عالمی اور خطے کے فورمز (آئی سی سی اور اے سی سی) کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کرنے اور بلیک میل کرنے سے گریز نہیں کرتا تو ہمیں بھی اپنی یکطرفہ محبت کی چادر کو سمیٹتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے اور بھارتی جو موقع موقع کی گردان کرتے رہتے ہیں انہیں بتا دینا چاہیے کہ پاکستان کو موقع ملے تو وہ بھارت کی کرکٹ کا مزا بھی کرکرا کر سکتا ہے۔

    اور ایسا موقع اب پاکستان کے ہاتھ آ چکا ہے۔ بھارت میں آئندہ برس ٹی 20 فارمیٹ میں ایشیا کپ اور ویمنز ورلڈ کپ منعقد ہونے ہیں جب کہ 2026 میں اس کو آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کی بھی میزبانی کرنا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کثیر الملکی کرکٹ ٹورنامنٹ میں اگر روایتی حریف پاکستان اور بھارت یا ان میں سے کوئی ایک نہ ہو تو وہ ایونٹ نہ تو کرکٹ تنظیموں کے لیے سونے کی کان ثابت ہوسکتا ہے اور نہ ہی شائقین کرکٹ کو لبھا سکتا ہے۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ یوں تو گزشتہ سال بھی ایشیا کپ کے لیے بھارتی ٹیم کے پاکستان نہ آنے پر اپنی ٹیم ہندوستان نہ بھیجنے کی دھمکی دے چکا تھا لیکن بھارت کی من مانی کے باوجود پی سی بی اسپورٹس اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دی گئی دھمکی کو قابل عمل نہ بنا سکا، لیکن یہ یکطرفہ اصول اور محبت کب تک چلے گی� اب یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان اپنی رِٹ منوانے کے لیے ٖفیصلہ کن اعلان کرے کہ اگر بھارتی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ آئی تو پھر ہم بھی آئندہ سال ایشیا کپ، ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور 2026 میں مینز ٹی 20 ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے بھارت نہیں جائیں۔

    ویسے اطلاعات تو یہ ہیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو بھی پاکستان کی جانب سے دو بدو جواب کا خطرہ ڈرانے لگا ہے اور بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ اگر بلیو شرٹس آئندہ سال چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ گئے تو جوابی طور پر وہاں سے بھی بائیکاٹ ہوسکتا ہے اور اسی لیے انہوں نے بھارتی ٹیم کے چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے کا امکان ظاہر کیا ہے لیکن ساتھ ہی حکومتی پخ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے لیے حکومت سے رابطے میں ہیں، اجازت نہ ملی تو آئی سی سی کو ہمارے میچز نیوٹرل وینیو پر منتقل کرنا ہوں گے۔

    بھارتی بورڈ کو یہ بھی خطرہ ہے کہ چند ماہ بعد جب ایشین کرکٹ کونسل کی ذمہ داری پاکستان اور محسن نقوی کے سپرد ہوگی اس لیے ہوسکتا ہے کہ پاکستان ٹیم بھی ہائبرڈ ماڈل کی ضد
    چھیڑ دے اور یوں بھارت کا ایشیا کپ کی میزبانی خواب چکنا چور ہوجائے گا۔

    پاکستان کے پاس چند ماہ بعد ایشین کرکٹ کونسل کی صدارت آنے والی ہے اور ممکنہ طور پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی ہی اے سی سی کے نئے صدر ہوں گے جب کہ آئی سی سی سربراہ کی مدت بھی اسی سال ختم ہو رہی ہے جس کے لیے اب بھارت پر تول رہا ہے، لیکن اس کے لیے اسے مطلوبہ تعداد میں ممبر بورڈ کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی، تو پاکستان بارگننگ پوزیشن میں آ چکا ہے۔

    اگر پاکستان کرکٹ بورڈ بھی بی سی سی آئی کی طرح پاکستانی ٹیم کی بھارت بھیجنے کو حکومت سے مشروط کر دے اور ہماری حکومت بھی سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ بھارتی حکومت جیسا رویہ اپنائے تو نہ صرف آئی سی سی اور اے سی سی بلکہ بھارتی حکومت اور کرکٹ بورڈ بھی پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ایونٹ میں پاک بھارت میچز جتنا ان کے خزانے بھرتے ہیں اتنا شاید پورا ایونٹ بھی نہیں بھرتا اور پیسوں کی یہ چمک اچھے اچھوں کو سیدھا کر دیتی ہے۔

    (یہ بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی تحریر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں‌ ہے)