Tag: پاکستان کرکٹ ٹیم

  • کرکٹ ٹیم کو شرمناک شکستیں اور پی سی بی میں بڑے آپریشن کا آغاز

    کرکٹ ٹیم کو شرمناک شکستیں اور پی سی بی میں بڑے آپریشن کا آغاز

    آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیپمپئن شپ 25-2023 میں ٹاپ رینکنگ سے آغاز، ون ڈے اور ٹی 20 کی ٹاپ ٹیم، کرکٹرز رینکنگ میں بلے باز اور بولرز سر فہرست، ہر بڑا آئی سی سی ایوارڈ پاکستانی کرکٹرز کی جھولی میں۔ یہ ہے ماضی قریب کی پاکستان کرکٹ ٹیم لیکن آج سب کہہ رہے ہیں کہ ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘

    پاکستان کرکٹ میں سب کچھ اچھا جا رہا تھا اور یہ سب اچھا تھا 2023 کے ابتدائی 6 ماہ تک۔ اس کے بعد بازی ایسی پلٹی کہ ہر کوئی انگشت بدنداں رہ گیا کہ یہ ہوا کیا ہے پاکستان ٹیم صرف بڑی ٹیموں سے نہیں بلکہ اپنے سے کہیں کمزور ٹیموں سے اپنے ہی میدانوں میں آسانی سے زیر ہو رہی ہے اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ موسم کی طرح بدلتی پی سی بی انتظامیہ نے اپنی خواہشات کی پیروی میں کپتانی کی خواہش کو ایسے بڑھایا کہ بیک وقت ٹیم میں چار پانچ کپتانی کے امیدوار پیدا کر دیے۔ تو جس طرح ایک نیام میں کئی تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک ٹیم میں کئی کپتان کیسے یکجا رہ سکتے ہیں۔

    ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ میں عبرت ناک شکستیں تو پرانی ہوچکیں اور اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں گزشتہ ماہ اپنی سر زمین پر وائٹ واش شکست کے زخم ابھی مندمل بھی نہ ہوئے تھے، کہ انگلینڈ نے اپنے ریگولر اور ورلڈ کلاس آل راؤنڈر کپتان بین اسٹوکس کے بغیر میدان میں اتر کر پاکستان کرکٹ ٹیم کی وہ درگت بنائی اور ایسی تاریخی فتح سمیٹی کہ جس کے زخم مندمل ہونے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا۔

    ملتان ٹیسٹ ریکارڈ ساز رہا لیکن صرف انگلینڈ کے لیے، پاکستان کے نام تو صرف بدنامی ہی آئی اور وہ اس میچ کے ساتھ ہی ایک ایسی پاتال میں جا گری، جس میں ٹیسٹ کرکٹ کی لگ بھگ ڈیڑھ صدی قدیم تاریخ میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی ٹیم بھی نہ گری ہوگی۔ پاکستان وہ واحد ٹیم بنی جس نے پہلی اننگ میں 550 سے زائد رنز اسکور کیے اور پھر اننگ کی شکست کھا بیٹھی۔ اس میچ سے پاکستان ٹیم نے یہ بات پھر ثابت کر دی کہ وہ جیتا ہوا میچ ہارنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔ جس طرح گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں مہمان ٹیم کی 26 رنز پر 6 وکٹیں گرانے کے بعد کسی نے تصور نہ کیا ہوگا کہ اس میچ میں بدترین ناکامی ملے گی لیکن ایسا ہوگیا۔ اسی طرح اب بھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ٹیم بن جائے گی لیکن ٹیم نے اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ سے یہ ناممکن بھی کر دکھایا۔ جس بیٹنگ پچ پر پاکستانی بولر 800 سے زائد رنز کھانے کے باوجود پوری انگلینڈ ٹیم کو ڈھیر نہ کر سکے اسی پچ پر ہمارے بیٹنگ کے شیر 220 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔

    پاکستان جو بنگلہ دیش سے حالیہ سیریز میں شکست کے بعد پہلے ہی اپنے ملک میں ابتدائی 10 ٹیسٹ اقوام میں شامل تمام ٹیموں سے سیریز ہارنے والا دوسرا ملک بن چکا تھا اور ٹیسٹ کرکٹ کی بدترین ٹیم بن گیا۔ انگلینڈ کے خلاف اس شرمناک شکست کے بعد پی سی بی نے جو فوری اقدامات کیے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ جس بڑی سرجری کا اعلان کئی ماہ قبل کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ قومی ٹیم کی سلیکشن کمیٹی تبدیل کرنے کے ساتھ بابر اعظم، شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے بڑے نام اگلے دو ٹیسٹ سے باہر کر دیے گئے ہیں۔ شان مسعود کا ستارا بھی گردش میں ہے اور وہ مسلسل 6 تیسٹ میچ جیت کر ناکام ترین کپتان کا اعزاز پہلے ہی پاچکے ہیں۔ اگر اگلے دو ٹیسٹ میچ میں حسب منشا نتائج نہ ملے تو یقینی طور پر اگلا قربانی کا بکرا وہی ہوں گے۔

    اس صورتحال میں بابر اعظم کے ساتھ شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے کھلاڑیوں کو ایک ساتھ ہی ٹیم سے ڈراپ کرنے سے لگتا ہے کہ پی سی بی میں پینک بٹن دب چکا ہے اور اس صورتحال میں کیے گئے اکثر فیصلے بعض اوقات بیک باؤنس ہو کر خود اپنے ہی گلے پڑ جاتے ہیں۔ اگر ان کو باہر کرنے کے بعد بھی اگلے دو ٹیسٹ میچز میں حسب منشا نتائج نہ مل سکے تو پھر بورڈ کیا کرے گا، کیا وہ پوری ٹیم کو آرام کے نام پر ڈراپ کر کے نئی ٹیم تشکیل دے گا؟

    مذکورہ تینوں کھلاڑیوں کی فارم گو کہ کچھ عرصہ سے بہتر نہیں بابر اعظم کا بلا اگر ایک سال سے رنز نہیں اگل رہا تو دوسری جانب انجریز سے نجات کے بعد دونوں بولر بھی پرانی شان رفتار سے بولنگ نہیں کر پا رہے لیکن یہ نہ بھولیں کہ تینوں میچ ونر اور تن تنہا ٹیم کو میچ جتوانے والے کھلاڑی ہیں اور کئی بار اس کو ثابت کر چکے ہیں۔ اس لیے اگر ان کو ڈراپ کر کے سخت پیغام دینا ہے تو اس سوچ سے گریز کیا جائے اور ان بڑے کھلاڑیوں کو مکمل سپورٹ کیا جائے کیونکہ اگلے کچھ سالوں تک یہی پاکستانی ٹیم کو کئی میچ حتیٰ کہ ٹرافی تک جتوانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

    پاکستان کی حالیہ ایک سال میں اس نا قابل یقین بدترین کاکردگی پر ہمارے سابق قومی کرکٹرز اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ سمیت روایتی حریف بھارت میں بھی شائقین اور سابق وموجودہ کرکٹرز حیران ہیں۔ کچھ ٹیم پر طنز کر رہے ہیں تو اکثر ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے گرین شرٹس کی موجودہ صورتحال پر افسوس بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کو اس حال تک لانے میں کون ذمے دار ہے تو یقینی طور پر بورڈ کی غلط پالیسیوں کے ساتھ کرکٹرز بھی اس میں برابر کے ذمے دار ہیں۔

    پاکستان کرکٹرز کی نفسیات کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی کرکٹ سے کسی نہ کسی طور منسلک سابق کھلاڑیوں کی رائے جان لیجیے۔ ان میں ایک پاکستان کے سابق کوچ مکی آرتھر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ تشہیر کھلاڑیوں کو حقیقت سے دور کر رہی ہے۔ کھلاڑی خود کو زیادہ بڑا سمجھتے ہیں جب کہ میڈیا پر منفی باتیں اور ایجنڈے بھی ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

    کیون پیٹرسن جو پی ایس ایل کھیل کر پاکستانی کرکٹرز کی نفسیات سے اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ کا ناقابل یقین ٹیلنٹ موجود ہے تاہم اس کے ساتھ ہی وہ اس جانب بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل نہیں اور وہ صحیح ٹریننگ نہیں کرتے۔ سسٹم میں خامیوں کی موجودگی تک پاکستان ٹیم ایک یونٹ کی طرح نہیں کھیل سکتی، ناقص ٹریننگ اور زیادہ جذباتی ہونے جیسے رویوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ کلچر تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان ٹیم بھی کبھی بہتر نہیں ہو سکے گی۔

    ماہرین کی اسی رائے کی روشنی میں اگر گہرائی سے جائزہ لیں تو کرکٹرز کو اس حال تک پہنچانے میں ہم شائقین کرکٹ کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا کہ خود بورڈ کی ناقص پالیسیوں یا کرکٹرز کی لاپرائیوں کو۔ کیونکہ ہم خود جلدباز ہیں اسی لیے کسی ایک ہی اننگ یا بولر کے اچھے اسپیل پر انہیں سر پر چڑھاتے اور پھر ایک بری کارکردگی پر خود ہی نیچے گرا دیتے ہیں۔ یہ شائقین اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے ماہرین ہی ہیں جو صرف ایک سنچری یا پانچ وکٹوں پر کرکٹرز کا موازنہ سر ڈان بریڈ مین، جاوید میانداد، ٹنڈولکر، لارا، عمران خان، رچرڈ ہیڈلی ودیگر ماضی کے بڑے لیجنڈ کرکٹرز سے کر دیتے ہیں۔ اس سے ایک جانب جہاں شائقین کرکٹ کی امیدیں آسمان کو چھونے لگتیں ہیں وہیں لیجنڈز ہم پلہ قرار دیے جانے پر نوجوان کرکٹرز کی آنکھیں بھی خیرہ ہو جاتی ہیں اور وہ پھر اس چکاچوند میں وہ اپنی اصل منزل کھونے لگتے ہیں۔

    کبھی کبھی ٹیموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ کوئی ایک کھلاڑی نہیں بلکہ پوری ٹیم ہی آؤٹ آف فارم لگتی ہے جیسا کہ 90 کی دہائی میں بھارتی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا وہ ہر میچ ہار رہی تھی اور اب اسی نہج پر پہنچ گئی ہے۔ قومی ٹیم میں اس وقت سوائے محمد رضوان کے کسی بیٹر کی جانب سے مسلسل رنز سامنے نہیں آ رہے۔ کچھ عرصے میں ہوم گراؤنڈ پر سب سے بدترین ریکارڈ ہمارے پیسرز کا ہے، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ انجریز سے نجات کے بعد سابقہ فارم میں واپس نہیں آ سکے، نوجوان پیسرز میں کوئی ایسا نہیں جسے میچ ونر کہہ سکیں، اسپنرز تو ہمارے ملک میں ایسے نایاب ہو گئے جیسے گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس ہوتی ہے۔ قابل بھروسہ آل راؤنڈر کا شعبہ برسوں سے خالی ہے۔

    بابر اعظم سے فارم کیا روٹھی لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سے فتح ہی روٹھ گئی ہے۔ یہ الارم ہے کہ کرکٹ ٹیم فرد واحد نہیں بلکہ 11 کھلاڑیوں کا مجموعہ ہے اور جیت میں سب کو ہی اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے مستقبل کا تعین کرتے ہوئے ٹیم میں ہر کھلاڑی کا بیک اپ تیار کرنا چاہیے اور کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی بھی مشکل صورتحال میں خود کو نکال سکیں۔ کیونکہ ہماری ٹیم کی نفسیات بن گئی ہے کہ اگر ایک دو وکٹیں اوپر تلے گر جائیں تو پھر وکٹوں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور تو چل میں آیا جیسی صورتحال ہو جاتی ہے جو کھلاڑیوں کی ذہنی مضبوطی پر سوالیہ نشان ڈالتی ہے۔

    لگتا ہے کہ ٹیم کو صرف فزیکل ٹرینر اور فزیو کی ہی نہیں ایک سائیکاٹرسٹ کی بھی ضرورت ہے جو انہیں مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کر سکے اور یہ کوئی شرم کی بات نہیں بڑے بڑے بورڈ اپنی ٹیم کے لیے ماہرین نفسیات کا تقرر کرتی ہیں۔ اس وقت شارٹ ٹرم منصوبہ بندی اور تنقید سے بچنے کے لیے عارضی فیصلوں سے بہتر ہے کہ ٹیم کے مفاد میں ایسے فیصلے کیے جائیں، جس سے ٹیم اپنا عروج دوبارہ حاصل کر سکے ورنہ جس طرح ماضی میں کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز ٹیم اب صرف ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ کی عملی تفسیر بن گئی ہے ہمارا حشر بھی کہیں ایسا نہ ہو جائے۔

    (یہ تحریر مصنف / بلاگر کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)
  • میکس ویل اب بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کو خطرناک کیوں سمجھتے ہیں؟

    میکس ویل اب بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کو خطرناک کیوں سمجھتے ہیں؟

    دنیائے کرکٹ کے مشہور و معروف جارح مزاج بیٹر گلین میکس ویل اب بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کو خطرناک ترین سائیڈ تصور کرتے ہیں۔

    میلبرن میں آسٹریلیا کے سمر کرکٹ فیسٹیول کے موقع پر گلین میکس ویل نے کہا کہ ماضی میں ہمیں پاکستان کے خلاف چیلنجر کا سامنا رہا ہے، گرین شرٹس مختلف اوقات میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم کا غیرمتوقع ہونا اس ٹیم کو مخالف کے لیے ٹف بنا دیتا ہے۔

    میکس ویل نے کہا کہ پاکستان ٹیم کے پاس ورلڈ کلاس پلیئرز موجود ہیں، یہ بات بھی درست ہے کہ انکے خلاف کھیلتے ہوئے آپ یہ نہیں جان سکتے کہ آپ کو ان سے کیا توقع کرنی چاہیے۔

    انھوں نے کہا کہ بابر اعظم ایک سپر اسٹار کھلاڑی ہیں، ہمیں ان کے اوپر نظر رکھنا ہو گی جبکہ شاہین آفریدی نئے بال کے ساتھ کافی عمدہ بولنگ کرتے ہیں۔

    آسٹریلوی آل راؤنڈر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ آئندہ سیریز کی تیاری کر رہے ہیں، ہمیں برتری برقرار رکھنے کے لیے بہترین کھیل پیش کرنا ہو گا یہ سیریز آسان نہیں ہوگی، ہم اس چیلنج کے منتظر ہیں۔

    آئندہ ماہ وائٹ بال سیریز کے لیے قومی کرکٹ ٹیم کو آسٹریلیا کا دورہ کرنا ہے، اس سیریز میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان 3 ون ڈے اور 3 ٹی ٹوئنٹی میچز شیڈول ہیں۔

  • دنیا ہمارا مذاق بنا رہی ہے، یہ صورتحال کبھی نہیں دیکھی، سابق چیف سلیکٹر

    دنیا ہمارا مذاق بنا رہی ہے، یہ صورتحال کبھی نہیں دیکھی، سابق چیف سلیکٹر

    قومی کرکٹ ٹیم کے سابق چیف سلیکٹر ہارون رشید نے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ کی ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔

    سابق پاکستانی کرکٹر ہارون رشید کا کراچی میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان کی کرکٹ کئی مسائل سے دوچار ہے، مجھ اور کئی سابق کرکٹرز کو پی سی بی نے بلایا، تاہم ایک دو گھنٹے کی میٹنگ کرکے مسائل کو دور نہیں کیا جاسکتا۔

    ہارون رشید نے کہا کہ پاکستان میں کرکٹ کو بہترکرنے کےلیے دو لمبے سیشن کرنے ہوں گے، بدقسمتی سے پاکستان میں کپتانی ٹیم میں آکر سیکھی جاتی ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ رہ چکا ہوں۔

    سابق چیف سلیکٹر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا پاکستان کرکٹر بورڈ اور قومی کرکٹ ٹیم کا مذاق بنا رہی ہے، اس طرح کی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

    انھوں نے کہا کہ کنیکشن کیمپ میں ہم نے دنیا کو بتا دیا کہ ہماری ٹیم متحد نہیں ہے، یہ بھی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان ٹیم میں آکر پلیئرز کپتانی سیکھتے ہیں۔

    ہارون رشید نے کہا کہ انڈر 19 ٹورنامنٹ شروع کرکے بندکر دینا، ریڈبال سیریز سے پہلےوائٹ بال ٹورنامنٹ کرانا، ایسا لگتا ہے بورڈ کے لوگوں وژن سے عاری ہیں، پی سی بی کے لوگ کنفیوز ہیں۔

  • میچ تو ہاتھ سے گیا ہی، پاکستان کرکٹ ٹیم پر جرمانہ بھی عائد

    میچ تو ہاتھ سے گیا ہی، پاکستان کرکٹ ٹیم پر جرمانہ بھی عائد

    گرین شرٹس کو بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ میچ میں نہ صرف شکست کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ قومی ٹیم پر جرمانہ بھی عائد کردیا گیا۔

    انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اپنے بیان میں کہا کہ بنگلادیش کیخلاف پہلے ٹیسٹ میں سلو اوورریٹ پر پاکستان ٹیم پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے، قومی ٹیم کے کھلاڑیوں پر میچ فیس کا 30 فیصد جبکہ بنگلادیش کے کھلاڑیوں پر 15 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

    آئی سی سی نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں پاکستان کے 6 پوائنٹس کاٹ دیے، راولپنڈی ٹیسٹ میں چار فاسٹ بولرز کھلانے سے پاکستان کا اوور ریٹ سلو ہوا۔

    انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بتایا کہ پاکستان کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں بنگلادیش کے بھی 3 پوائنٹس منہا کردیے گئے ہیں۔

  • زمان خان فٹنس بہتر بنانے کیلئے کیچڑ میں اُتر گئے، ویڈیو وائرل

    زمان خان فٹنس بہتر بنانے کیلئے کیچڑ میں اُتر گئے، ویڈیو وائرل

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر زمان خان فٹنس کو بہتر بنانے کیلئے کیچڑ میں اُتر گئے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر زمان خان نے منفرد انداز میں ٹریننگ کرنے کی ویڈیو شیئر کی جس میں انہیں مٹی کے گارے میں اُتر کے دوڑتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Zaman Khan (@real_zamankhan)

    ویڈیو میں زمان خان کو مٹی کے گارے میں فیلڈنگ کے انداز میں ڈائیونگ اور پش اپس لگاتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ بنگلادیش کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلئے نوجوان کھلاڑیوں کو موقع ملنے کا امکان ہے جبکہ شاہین، بابراعظم اور رضوان کو ڈراپ کیا جاسکتا ہے۔

  • ’’کرکٹ ٹیم میں بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے الگ الگ گروپ ہیں‘‘

    ’’کرکٹ ٹیم میں بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے الگ الگ گروپ ہیں‘‘

    سمیع اللہ خان نے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی کے الگ الگ گروپ بنے ہوئے ہیں۔

    پنجاب اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سمیع اللہ خان کا کہنا تھا کہ ٹی 20 کرکٹ ورلڈ کپ میں شکست کی وجہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں گروپنگ ہے، بابر اور شاہین کے الگ الگ گروپ ہیں، جنوبی افریقی کوچ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ پاکستانی ٹیم میں گروپنگ ہو چکی ہے۔

    سمیع اللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں گروپ ایک دوسرے کے لڑکے پاکستان ٹیم سے نکلوانے کی سازش کرتے رہتے ہیں۔

    کرکٹ ٹیم نے جو پرفارمنس دکھائی ٹیکس کا پیسہ کیوں انکی سیکیورٹی پر خرچ کریں، ہم 40 سے 50 کروڑ روپے کرکٹ ٹیم پر کیوں خرچ کرتے ہیں؟

    انھوں نے کہا کہ کرکٹ ٹیم کی سیکیورٹی اخراجات کا تخمینہ اربوں روپے بنتا ہے، جس طرح ٹیم نے پرفارمنس دکھائی ٹیکس کا پیسہ کیوں انکی سیکیورٹی پر خرچ کیا جائے۔

  • پاکستان کرکٹ ٹیم وننگ ٹریک پر کس طرح واپس آئے گی؟

    پاکستان کرکٹ ٹیم وننگ ٹریک پر کس طرح واپس آئے گی؟

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بدترین کارکردگی کے بعد پاکستانی ٹیم وننگ ٹریک پر کس طرح واپس آئے گی، سابق کرکٹر نے اہم بات بتادی۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق بیٹر اور موجودہ تجزیہ کار باسط علی کا اے آر وائی کے اسپورٹس پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دیکھیں گے آگے کیا ہوگا، میزبان نے ان سے سوال کیا کہ اس بار بھی کچھ ہوگا، جس پر باسط علی کا صاف جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کچھ ہوگا۔

    باسط علی نے کہا کہ کرکٹ بورڈ میں جو پسندیدہ لوگ ہیں وہ جو کہیں گے بس وہی چیزیں ہونگی، وہ پسندیدہ لوگ اب بھی 100 فیصد اپنی جگہ پر برقرار رہیں گے۔

    میزبان نے سوال کیا کہ اگر یہی سب چلتا رہے گا تو پاکستان کی کرکٹ کس طرح بہتر ہوگی، اس پر سابق کرکٹر باسط علی کا کہنا تھا کہ نئے چہرے لائیں گے مگر دوسری جگہوں پر اور کہیں گے کہ ہم نے یہ کیا ہے۔

    انھوں نے کہا نئے چہرے لانے کی ضرورت پاکستان ٹیم میں ہے مگر حکام نئے چہرے دوسری جگہوں پر لے آئیں گے۔

    سینئر اسپورٹس رپورٹر شاہد ہاشمی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اب کچھ نہ کچھ تو ہوگا کیوں کہ بابر اعظم بھی وطن واپس آگئے ہیں، بابر اعظم کی پی سی بی چیئرمین سے ملاقات ہوگی، سینئر منیجر بھی اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ گیری کرسٹن بھی اپنی رپورٹ دیں گے لیکن طوفان سے پہلے ایک خاموشی ہوتی ہے۔

  • آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر عثمان خواجہ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں کیا کہا؟

    آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر عثمان خواجہ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں کیا کہا؟

    میلبرن: آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر عثمان خواجہ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں ہر چیز مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے جس کے اثرات پرفارمنس پر پڑتے ہیں۔

    آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر عثمان خواجہ نے میلبرن میں ایک تقریب کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں بہت ٹیلنٹ ہے، لیکن میں جب باہر سے دیکھتا ہوں تو پاکستان کرکٹ میں ہر چیز تبدیل ہوتی رہتی ہے، سلیکشن کمیٹی تبدیل ہوتی رہتی ہے، اسٹاف تبدیل ہوتا ہے اور پلیئرز بہت تبدیل ہوتے ہیں۔

    انھوں نے کہا یہ ایک مشکل صورت حال ہوتی ہے، کیوں کہ ٹیم کے لیے استحکام بہت ضروری ہوتا ہے، جب استحکام نہیں ہوتا تو پلیئرز کے لیے پرفارم کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور میں نے پاکستان کرکٹ ٹیم میں کبھی استحکام نہیں دیکھا۔

    عثمان خواجہ نے مزید کہا کپتانی کرنا بابر اعظم کا فیصلہ ہے، اگر وہ کر سکتے ہیں تو انھیں کرنی چاہیے، پاکستان میں تھوڑی توقعات زیادہ ہوتی ہیں، کھیل ٹف ہوتا ہے، اور جیتنا ایک ٹیم نے ہوتا ہے۔

    قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنا ہوگی، محسن نقوی نے پلان کی منظوری دے دی

    آسٹریلوی کرکٹر نے کہا اگر آپ ورلڈ کپ نہیں جیتتے اور دوسرے نمبر پر آتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے سپر ایٹ مرحلہ کھیلا ہو۔

  • ’قدرت کے نظام نے بتادیا کہ ان کی سوچ اچھی نہیں تھی‘

    ’قدرت کے نظام نے بتادیا کہ ان کی سوچ اچھی نہیں تھی‘

    سابق قومی کرکٹر باسط علی کا کہنا ہے کہ قدرت کے نظام نے بتادیا کہ ان کی سوچ اچھی نہیں تھی تم نے زیادتی کی تھی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’ہرلمحہ پرجوش‘ میں سابق کرکٹر باسط علی اور کامران اکمل نے کہا کہ اللہ نے ان کی رسی کھینچ لی ہے اگر کسی کا برا نہیں سوچیں گے تو اللہ عزت دے گا ورنہ قدرت کا نظام ایسے ہی بتائے گا۔

    کامران اکمل نے کہا کہ اب کسی ایک بندے کا احتساب نہیں ہونا چاہیے پچھلے پانچ سے چھ سال کا احتساب ہونا چاہیے، ہمیں تو کہا جاتا تھا سب کچھ یہی ہے لیکن ایک ہی بندہ ہے۔

    باسط علی نے کہا کہ پاکستان ٹیم ٹورنامنٹ کے سب سے آسان گروپ میں شامل تھی، جو صورتحال ہماری ہے ہماری ٹیم اب پاکستان کی ٹیم نہیں رہی، اگر یہ پاکستان کی ٹیم ہوتی تو اس میں اسامہ میر، محمد علی شامل ہوتا، قومی ٹیم ہوتی تو عامر جمال، عباس آفریدی، ابرار احمد شامل ہوتے۔

    انہوں نے کہا کہ محمد عامر کو کس کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا گیا، شاداب کس بیسڈ پر ٹیم کے ساتھ گیا تھا، نیویارک کی پچ تو بالنگ فرینڈلی ہے اس پر نہ کہیں عامر نے اچھی بالنگ کی۔

    باسط علی نے کہا کہ بابر اعظم شاہین آفریدی پر پریشر ڈالنے کے لیے محمد عامر کو ٹیم میں لائے، اگر پریشر نہ ڈالنا ہوتا تو امریکا کے خلاف سپر اوور شاہین آفریدی کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ محمد عامرکو ٹیم میں لایا گیا تاکہ شاہین آفریدی کو باہرکیا جاسکے، یہ ٹیم بابر الیون اور وہاب ریاض الیون تھی، پسند نہ پسند دیکھی گئی۔

  • ’’ٹیم کے اصل مسئلے کی نشاندہی کرنا ہوگی‘‘

    ’’ٹیم کے اصل مسئلے کی نشاندہی کرنا ہوگی‘‘

    پاکستان کے سابق کپتان انضام الحق کا کہنا ہے کہ ٹیم کے اصل مسئلے کی نشاندہی کرنی ہوگی، ٹیم کے اندر اور باہر دیکھنا پڑے گا۔

    نجی چینل کے پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انضمام الحق کا کہنا تھا کہ ہم آج افتخار کی برائی کردیں گے بابر اعظم کو برا بھلا کہہ دیں گے یا کسی اور کرکٹر کی برائی کردیں گے مسئلہ اس سے حل نہیں ہوگا، اصل غلطیوں کر ڈھونڈ کر درست کرنا ہوگا۔

    انضمام الحق نے کہا کہ نسیم شاہین سے پہلے کیوں نہیں آئے اس کی ذمہ داری کہیں نہ کہیں بابر اعظم پر ہی آئے گی کیوں کہ وہ کپتان ہے۔ ہمیں 120 رنز کرنے کے لیے بھی بیٹنگ آرڈر کو دیکھنا پڑتا ہے۔

    سابق لیجنڈ بیٹر نے کہا کہ جب شاہین آفریدی بیٹنگ کرنے کے لیے آیا جو 6 رنز کی اوسط تھی وہ 10 پر جاچکی تھی، جب 10 پر اوسط گئی تھی تو اس سے پہلے کا حساب مانگنا چاہیے کہ اس سے پہلے ایسا کیا ہوا تھا۔

    انھوں نے کہا کہ اگر 13 اوورز تک ایورج 6 رنز فی اوور کی تھی اور آخری کے تین اوورز میں آپ کو اسکور چاہیے تھا 10 کی اوسط سے تو یہ بیچ کے تین چار اوورز کہاں چلے گئے۔

    سلیم ملک کا اس موقع پر کہنا تھا کہ میچ کے دوران ایک موقع پر فی اوور اوسط 6 رنز سے بھی کم آگئی تھی، 51 بالز پر 49 رنز چاہیے تھے۔

    ہم اب جتنی بھی بات کرلیں بیٹھ کر کہ اس کی غلطی تھی اور اس کی غلطی تھی، لیکن بات یہ ہے کہ اب بیٹھ کر انھیں سنجیدہ طریقے سے سوچنا پڑیگا۔