Tag: پاکستان کی اہم فصلیں

  • غذا اور غذائیت سے محروم کردینے والا سبزہ اور جڑی بوٹیاں

    غذا اور غذائیت سے محروم کردینے والا سبزہ اور جڑی بوٹیاں

    چھوٹے بڑے کیڑوں، ٹڈی دل کے حملوں اور چمگادڑوں سے پریشان کسانوں کا دردِ سر مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں بھی ہیں جو کسی فصل کے ساتھ اپنی جگہ بنا لیتی ہیں۔

    جڑی بوٹیاں اور قسم قسم کا سبزہ زمین پر حیات اور تنوع کی خوب صورت علامت ہیں۔ لیکن ان کی بعض اقسام ایسی ہیں‌ جنھیں ضایع اور تلف کرنا ضروری ہوتا ہے۔

    اگر دھان کی بات کی جائے تو اس کے لیے گھاس کی مختلف اقسام اور جڑی بوٹیاں مسئلہ بنتی ہیں جنھیں ماہرینِ زراعت نے طبعی لحاظ سے تین مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔

    سائنس داں ان کی شناخت ڈیلا کے خاندان ، گھاس کے خاندان اور چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیوں کے طور پر کرتے ہیں۔

    ان میں بعض کے پتے چھوٹے اور نوک دار ہوتے ہیں۔ یہ بانسی گھاس، سوانکی گھاس، ڈھڈن، کلر گھاس ہوسکتی ہیں جب کہ بعض جڑی بوٹیوں کے پتے پرنالہ نما، لمبے اور چمک دار ہوتے ہیں۔ ان کے پتے کے درمیان رگ واضح ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال ڈیلا ہے اور اسی طرح چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں جیسے مرچ بوٹی، چوپتی وغیرہ بھی دھان کی فصل کے لیے مسئلہ بنتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان خود رو جڑی بوٹیوں کو تلف کرلینا چاہیے کیوں کہ یہ کسان کی محنت سے لگائی گئی اور اس کے پودوں کو غذا سے محروم کرنے کے علاوہ اس کے معیار کو بھی متاثر کرتی ہیں۔

    فصل کے ساتھ اگ آنے والی گھاس اور جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کے مختلف طریقے ہیں جن میں‌ روایتی طریقے سے ان کو ختم کرنے کے علاوہ زہریلی دوا بھی ڈالی جاتی ہے۔ تاہم اس ضمن میں‌ ماہرِ زراعت سے مشورہ اور آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔

    دورِ جدید میں انسان نے جہاں کئی کام مشینوں کے سپرد کردیے ہیں، وہیں زرعی میدان میں بھی روبوٹ اس کا ہاتھ بٹانے کو تیار ہیں۔ چند سال قبل جرمنی کی ایک کمپنی نے ایسا روبوٹ تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا جو فصلوں کے ساتھ اگنے والی اُن جڑی بوٹیوں کو چند گھنٹے میں ختم کرسکتا تھا جو فصلوں کی غذائیت اور توانائی چوس لیتی ہیں۔

    دعویٰ کیا گیا تھا کہ روبوٹ کا خصوصی نظام کسی کارآمد پتے اور بے کار نباتاتی جسم میں تمیز کرسکتا ہے۔ درانتی اور کھرپی کا استعمال کرنے والے کسان زہریلی ادویہ سے تو فائدہ اٹھانے لگے مگر پاکستان جیسے ملک میں شاید ابھی روبوٹ کے ذریعے خود رو گھاس اور پودے تلف کرنا ممکن نہیں۔ تاہم انسان کے لیے مفید غذائی اجناس کو بچانے کے لیے مضر سبزے کو کسی بھی طرح برباد کرنا ضروری ہے۔

  • ٹڈیوں سے متعلق یہ حقائق‌ شاید آپ کے علم میں نہ ہوں

    ٹڈیوں سے متعلق یہ حقائق‌ شاید آپ کے علم میں نہ ہوں

    کیا آپ جانتے ہیں گزشتہ سال کینیا میں ٹڈیوں کا کتنا بڑا لشکر دیکھا گیا تھا؟

    سائنسی جریدے "نیچر” کے مطابق اس کا حجم امریکا کے مشہور شہر نیویارک سے تین گنا زیادہ تھا۔

    ملک بھر میں اس وقت کرونا کے ساتھ ٹڈی دل کا بھی شور ہے جس کے باعث کسان اور زمیں دار مشکل میں ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور فصلیں جہاں ہماری غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں، وہیں ہماری معیشت کے لیے بھی اہم ہیں۔

    ٹڈیوں کے فصلوں پر بڑے حملوں کی وجہ پچھلے دو برسو‌ں کے دوران ہونے والی شدید بارشیں بتائی جاتی ہیں جس نے ان کی افزائش میں‌ مدد دی اور ان کی تعداد میں ہزاروں گنا اضافہ ہوا۔ ٹڈیوں کی افزائش کے لیے نم زمین زیادہ موزوں ہوتی ہے اور پچھلے چند سال کے دوران زیادہ اور تیز بارشوں کی وجہ سے انھیں پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔

    پاکستان کے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق ایک مادہ دو سو سے 1200 بچے دیتی ہے اور ایک سال میں اس کی تین نسلیں پروان چڑھ سکتی ہیں۔

    ٹڈی دل کا ایک لشکر کئی کلو میٹر رقبے پر فصلوں کو منٹوں میں برباد کردیتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ٹڈیوں کا جھنڈ بسا اوقات بہت بڑا بھی ہوسکتا ہے۔ ایک دن میں کسی ایک جھنڈ میں اربوں ٹڈیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں جن کا کسی کھیت پر حملہ کرنے کا سیدھا سا مطلب بربادی ہی ہوسکتا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق ٹڈی دل روزانہ 120 کلومیٹر کا سفر کر سکتے ہیں اور کسی بھی مقام پر یہ جھنڈ اپنی بھوک مٹانے کے لیے فصلوں اور درختوں پر حملہ کردیتے ہیں۔