Tag: پاکستان کی تاریخ

  • پاکستان کی تاریخ میں سونے کی قیمت میں سب سے بڑی کمی، کتنا سستا ہوا؟

    پاکستان کی تاریخ میں سونے کی قیمت میں سب سے بڑی کمی، کتنا سستا ہوا؟

    پاکستان کی تاریخ میں سونے کی قیمت میں آج ریکارڈ کمی ہوئی ہے جس کے بعد یہ سنہری دھات کئی ہزار روپے فی تولہ سستی ہو گئی ہے۔

    دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سونے کی قیمت میں اتار چڑھاؤ جاری ہے۔ آج ملک کی تاریخ میں سونا ریکارڈ سستا ہوا ہے اور آل پاکستان جیمز اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن کے مطابق پیر 12 مئی کو ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت 10 ہزار 400 روپے کم ہوئی ہے۔

    قیمت میں اتنی بڑی گراوٹ کے بعد پاکستان میں فی تولہ سونا 3 لاکھ 40 ہزار 500 روپے کا ہو گیا ہے۔

    اسی تناسب سے 10 گرام سونے کی قیمت میں 8 ہزار 917 روپے کی کمی واقع ہوئی جس کے بعد 10 گرام سونے کی قیمت 2 لاکھ 91 ہزار 923 روپے ہو گئی ہے۔

    عالمی صرافہ مارکیٹ میں بھی آج سونا 104 ڈالرز کمی کے بعد 3221 ڈالرز فی اونس ہو گیا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سونے کی قیمتیں پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں اور ایک تولہ سونے کی قیمت 3 لاکھ 63 ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔

    سونا خریدنا روایتی طور پر محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے جس کی قیمت افراط زر، سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے اوقات میں بڑھ جاتی ہے۔

    اسے صدیوں سے کرنسی اور دولت کی شکل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، جب سرمایہ کار دوسرے اثاثوں کے بارے میں غیر یقینی محسوس کرتے ہیں، تو وہ اکثر سونا خریدے ہیں۔

    پاکستان میں آج ڈالر اور دیگر کرنسیوں کی قیمت

    پاکستان میں گزشتہ برس سونے کی قیمت کے تعین کے طریقہ کار میں تبدیلی کی گئی تھی، جس کے تحت سونے کی قیمت انٹرنیشنل مارکیٹ ریٹ سے 20 ڈالر فی اونس زیادہ مقرر کی گئی۔

  • اپریل 2025 پاکستان کی تاریخ کا دوسرا گرم ترین مہینہ

    اپریل 2025 پاکستان کی تاریخ کا دوسرا گرم ترین مہینہ

    موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان کو بھی شدید متاثر کیا ہے رواں برس اپریل کا مہینہ پاکستان کی تاریخ کا دوسرا گرم ترین اور ساتواں خشک ترین اپریل رہا۔

    موسمیاتی تبدیلیوں نے زمین پر کے حالات کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ بے موسم برساتیں، آئے روز کے سمندری طوفان، سیلاب، زلزلوں سے لوگوں کی زندگیوں میں پریشانیاں بڑھا اور عالمی معیشت کو تہہ وبالا کر رہی ہے۔

    پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں برس 2025 کا گزرا مہینہ اپریل پاکستان کی تاریخ کا دوسرا گرم ترین اور ساتواں خشک ترین اپریل رہا ہے۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق رواں برس اپریل میں اوسط درجہ حرارت 27.91 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جو معمول سے 3.37 ڈگری زیادہ ہے۔

    اپریل میں دن کے درجہ حرارت میں معمول کے درجہ حرارت سے 4.66 جب کہ رات میں 2.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

    17 اپریل کو شہید بے نظیر آباد میں درجہ حرارت 49 ڈگری تک جا پہنچا جو ملک کا گرم ترین دن رہا۔

    ماہرین نے شدید گرمی کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات میں سے ایک قرار دیا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/carbon-emissions-green-finance-musadik-malik/

  • پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی، کتنے کروڑ روپے میں‌ مارخور کا شکار کیا گیا؟

    پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی، کتنے کروڑ روپے میں‌ مارخور کا شکار کیا گیا؟

    چترال: پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی دیتے ہوئے شکاری نے ساڑھے 7 کروڑ سے زائد میں مارخور کا شکار کیا۔

    ڈی ایف او وائلڈ لائف نے بتایا کہ امریکی شکاری نے پاکستان کے قومی جانور مارخور کا رواں سیزن کا پہلا شکار کرلیا، امریکی شکاری نے پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی بولی لگاکر مارخور کے شکار کا پرمٹ حاصل کیا تھا۔

    ڈی ایف اوفاروق نبی نے بتایا کہ امریکی شکاری نے کشمیر مارخور کے شکار کیلئے ساڑھے 7 کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگی کی۔

     

    امریکی شہری کو مارخور کے شکار سے روک دیا گیا

     

    محکمہ وائلڈ لائف کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر فاروق نبی کا کہنا تھا کہ شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کا سائز 49 انچ سے زیادہ ہے۔

    مارخوش کے شکار کے حوالے سے وائلڈ لائف کا مزید کہنا تھا کہ رواں برس اکتوبر میں ہوئی نیلامی میں 2 پرنٹ ریکارڈ 2 لاکھ 71 ہزار ڈالرز میں فروخت ہوئے تھے۔

    https://urdu.arynews.tv/a-victim-of-a-machete-for-83500/

  • پاکستانی تہذیب کی تلاش ایک بے سود کوشش؟

    پاکستانی تہذیب کی تلاش ایک بے سود کوشش؟

    جب سے پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا ہے، ہمارے دانشور پاکستانی تہذیب اور اس کے عناصرِ ترکیبی کی تشخیص میں مصروف ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا پاکستانی تہذیب نام کی کوئی شے ہے بھی یا ہم نے فقط اپنی خواہش پر حقیقت کا گمان کر لیا ہے اور اب ایک بے سود کوشش میں لگے ہوئے ہیں؟

    پاکستانی تہذیب کی تلاش اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہر ریاست قومی ریاست ہوتی ہے اور ہر قومی ریاست کی اپنی انفرادی تہذیب ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستان کی بھی ایک قومی تہذیب ہے یا ہونی چاہیے۔

    لیکن پاکستانی تہذیب پر غور کرتے وقت ہمیں بعض امور ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست فقط ایک جغرافیائی یا سیاسی حقیقت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ریاست اور قوم کی سرحدیں ایک ہوں۔ مثلاً جرمن قوم ان دنوں دو آزاد ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہی حال کوریا اور ویت نام کا ہے۔ مگر جب ہم جرمنی اور کوریا یا ویت نام کی قومی تہذیب سے بحث کریں گے تو ہمیں مشرقی اور مغربی جرمنی، جنوبی اور شمالی کوریا اور جنوبی اور شمالی ویت نام کو ایک تہذیبی یا قومی وحدت ماننا پڑے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست کے حدود اربع گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کی سرحدیں آج وہ نہیں ہیں جو 14 اگست 1947ء کو تھیں۔ مگر قوموں اور قومی تہذیبوں کے حدود بہت مشکل سے بدلتے ہیں۔

    تیسری بات یہ ہے کہ بعض ریاستوں میں ایک ہی قوم آباد ہوتی ہے۔ جیسے جاپان میں جاپانی قوم، اٹلی میں اطالوی قوم اور فرانس میں فرانسیسی قوم۔ ایسی ریاستوں کو قومی ریاست کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوتی ہیں۔ جیسے کینیڈا میں برطانوی اور فرانسیسی قومیں۔ چیکو سلوواکیہ میں چیک اور سلاف، عراق میں عرب اور کُرد، سویت یونین میں روسی، اُزبک، تاجک وغیرہ۔ جن ملکوں میں فقط ایک قوم آباد ہوتی ہے وہاں ریاستی تہذیب اور قومی تہذیب ایک ہی حقیقت کے دو نام ہوتے ہیں، لیکن جن ملکوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوں وہاں ریاستی تہذیب کی تشکیل و تعمیر کا انحصار مختلف قوموں کے طرز عمل، طرز فکر اور طرز احساس کے ربط و آہنگ پر ہوتا ہے۔

    اگر اتفاق اور رفاقت کی قوتوں کو فروغ ہو تو رفتہ رفتہ ایک بین الاقوامی تہذیب تشکیل پاتی ہے اور اگر نفاق اور دشمنی کی قوتوں کا زور بڑھے، مختلف قومیں صنعت و حرفت میں، زراعت و تجارت میں، علوم و فنون میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے بجائے ایک دوسرے پر غلبہ پانے یا ایک دوسرے کا استحصال کرنے کی کوشش کریں، یا ایک دوسرے سے نفرت کریں، اگر ملک میں باہمی اعتماد کے بجائے شک و شبہ اور بدگمانی کی فضا پیدا ہو جائے تو مختلف تہذیبی اکائیوں کی سطح اونچی نہیں ہوسکتی اور نہ ان کے ملاپ سے کوئی ریاستی تہذیب ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔

    تہذیب کی تعریف
    کسی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرزِ زندگی اور طرزِ فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان، آلات اور اوزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے، رہن سہن، فنون لطیفہ، علم و ادب، فلسفہ و حکمت، عقائد و افسوں، اخلاق و عادات، رسوم و روایات، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔

    انگریزی زبان میں تہذیب کے لیے ’’کلچر‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کلچر لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنیٰ ہیں، ’’زراعت، شہد کی مکھیوں، ریشم کے کیڑوں، سیپوں اور بیکٹریا کی پرورش یا افزائش کرنا۔ جسمانی یا ذہنی اصلاح و ترقی، کھیتی باڑی کرنا۔‘‘

    اردو، فارسی اور عربی میں کلچر کے لئے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں کسی درخت یا پودے کو کاٹنا، چھانٹنا، تراشنا تاکہ اس میں نئی شاخیں نکلیں اور نئی کونپلیں پھوٹیں۔ فارسی میں تہذیب کے معنی ، ’’آراستن پیراستن، پاک و درست کردن و اصللاح نمودن‘‘ ہیں۔ اردو میں تہذیب کا لفظ عام طور پر شائستگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا مہذب یا تہذیب یافتہ ہے تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ شخصِ مذکور کی بات چیت کرنے، اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کا انداز اور رہن سہن کا طریقہ ہمارے روایتی معیار کے مطابق ہے۔ وہ ہمارے آدابِ مجلس کو بڑی خوبی سے ادا کرتا ہے اور شعر و شاعری یا فنونِ لطیفہ کا ستھرا ذوق رکھتا ہے۔

    تہذیب کا یہ مفہوم دراصل ایران اور ہندوستان کے امراء و عمائدین کے طرز زندگی کا پرتو ہے۔ یہ لوگ تہذیب کے تخلیقی عمل میں خود شریک نہیں ہوتے تھے اور نہ تخلیقی عمل اور تہذیب میں جو رشتہ ہے، اس کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے۔ وہ تہذیب کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا تو جانتے تھے، لیکن فقط تماشائی بن کر، ادا کار کی حیثیت سے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب کا تخلیقی کردار ان کی نظروں سے اوجھل رہا اور وہ آدابِ مجلس کی پابندی ہی کو تہذیب سمجھنے لگے۔ وہ جب’’تہذیبِ نفس‘‘ یا ’’تہذیب اخلاق‘‘ کا ذکر کرتے تھے تو اس سے ان کی مراد نفس یا اخلاق کی طہارت یا اصلاح ہوتی تھی۔

    تہذیب کی اصطلاح اردو تصنیفات میں ہمیں سب سے پہلے تذکرۂ گلشن ہند صفحہ 129 (1801ء) میں ملتی ہے۔ ’’جوان مؤدب و باشعور اور تہذیبِ اخلاق سے معمور ہیں۔‘‘ اسی زمانہ میں مولوی عنایت اللہ نے اخلاقِ جلالی کا ترجمہ جامعُ الاخلاق کے نام سے کیا۔ مولوی عنایت اللہ کتاب کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس نے اپنے خواصِ مخلوقات کو زیورِ تہذیبُ الاخلاق سے مہذب اور عوامِ موجودات کے تئیں ان کی بیعت سے ماَدب کیا۔‘‘ اسی نوع کی ایک اور تحریر کبیر الدین حیدر عرف محمد میر لکھنوی کی ہے۔ وہ ڈاکٹر جانسن کی کتاب تواریخِ راسلس کے ترجمہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’زبانِ اردو میں ترجمہ کیا کہ صاحبانِ فہم و فراست کو تہذیبِ اخلاق بخوبی ہو۔‘‘ (1839ء)

    ان مثالوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انیسوی صدی کے وسط تک ہمارے صاحبانِ علم و فراست کے ذہنوں میں تہذیب کا وہی پرانا تصور تھا جو فارسی زبان میں رائج تھا۔

    سر سید احمد خاں غالباً پہلے دانشور ہیں جنہوں نے تہذیب کا وہ مفہوم پیش کیا جو 19 ویں صدی میں مغرب میں رائج تھا۔ انہوں نے تہذیب کی جامع تعریف کی اور تہذیب کے عناصر و عوامل کا بھی جائزہ لیا۔ چنانچہ اپنے رسالے’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے سر سید پرچے کی پہلی اشاعت (1870ء) میں لکھتے ہیں کہ، ’’اس پرچے کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلائزیشن (Civilisation) یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جاوے تاکہ جس حقارت سے (سویلائزڈ) مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہووے اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قومیں کہلائیں۔

    سویلائزیشن انگریزی لفظ ہے جس کا تہذیب ہم نے ترجمہ کیا ہے مگر اس کے معنی نہایت وسیع ہیں۔ اس سے مراد ہے انسان کے تمام افعالِ ارادی، اخلاق اور معاملات اور معاشرت اور تمدن اور طریقۂ تمدن اور صرفِ اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون و ہنر کو اعلیٰ درجے کی عمدگی پر پہنچانا اور ان کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے برتنا جس سے اصل خوشی اور جسمانی خوبی ہوتی ہے اور تمکین و وقار اور قدر و منزلت حاصل کی جاتی ہے اور وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے۔‘‘
    (منقول از دبستانِ تاریخِ اردو مصنّفہ حامد حسن قادری 1966)

    سرسید نے کلچر اور سویلائزیشن کو خلط ملط کردیا ہے لیکن اس میں ان کا قصور نہیں ہے بلکہ خود بیشتر دانیانِ مغرب کے ذہنوں میں اس وقت تک کلچر اور سویلائزیشن کا تصور واضح نہیں ہوا تھا۔

    سرسید کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ انہوں نے ہمیں تہذیب کے جدید مفہوم سے آشنا کیا۔ تہذیب کی تشریح کرتے ہوئے سر سید لکھتے ہیں کہ ’’جب ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکھٹا ہو کر بستا ہے تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں، ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں، ان کی معلومات اور ان کے خیالات، ان کی مسرت کی باتیں اور ان کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں اور اسی لیے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے اور یہی مجموعی خواہشِ تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سویلائزیشن ہے۔‘‘ (مقالاتِ سر سیّد )

    سرسید احمد خاں نے انسان اور انسانی تہذیب کے بارے میں اب سے سوسال پیشتر ایسی معقول باتیں کہی تھیں جو آج بھی سچی ہیں اور جن پر غور کرنے سے تہذیب کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

    تہذیب کی خصوصیات
    تہذیب اور انسان لازم اور ملزوم حقیقتیں ہیں۔ یعنی انسان کے بغیر تہذیب کا وجود ممکن نہیں اور نہ تہذیب کے بغیر انسان، انسان کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ تہذیب انسان کی نوعی انفرادیت ہے۔ یہی انفرادیت اس کو دوسرے جانوروں سے نوعی اعتبار سے ممتاز کرتی ہے۔ گویا ان میں بعض ایسی نوعی خصوصیتیں موجود ہیں جو دوسرے جانوروں میں نہ ہیں اور نہ ہو سکتی ہیں اور انہی خصوصیتوں کے باعث انسان تہذیبی تخلیق پر قادر ہوا ہے۔

    مثلاً انسان ریڑھ کی ہڈی کی وجہ سے اپنے دونوں پیروں پر سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس کے ہاتھ بالکل آزاد رہتے ہیں۔ اس کے شانوں، کہنیوں اور کلائیوں کے جوڑوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ وہ پورے ہاتھ کو جس طرح چاہے گھما پھرا سکتا ہے، ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھوں میں جو تین تین جوڑ ہیں ان کی وجہ سے انگلیاں بڑی آسانی سے مڑ جاتی ہیں اور انسان ان انگلیوں سے طرح طرح کے کام لے سکتا ہے مثلاً وزنی چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا اور نئی نئی چیزیں پیدا کرنا۔ ان فطری اوزار کی بدولت ہی انسان ہر قسم کے آلات و اوزار بنانے پر قادر ہوا ہے۔ دوسرے جانور اپنے آلات و اوزار، پنجے، دانت، چونچ، کانٹے وغیرہ کو اپنے جسم سے الگ نہیں کر سکتے۔ انسان اپنی تمام تخلیقات کو اپنے جسم سے الگ کر لیتا ہے۔ خواہ وہ جسمانی ہوں یا ذہنی۔ دوسری جسمانی خصوصیات جو انسان کو اور جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اس کی دو آنکھیں ہے جن کا فوکس ایک ہی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کو فاصلے کا تعین کرنے، آلات و اوزار بنانے، شکار کرنےاور چھلانگ لگانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

    انسان واحد حیوان ہے جس میں گویائی کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ کوئی فطری یا خداداد صلاحیت نہیں ہے بلکہ انسان نے دماغ، زبان، دانت، تالو، حلق اور سانس کی مدد سے اور آوازوں کے آہنگ سے بامعنی الفاظ کا ایک وسیع نظام وضع کر لیا ہے۔

    زبان انسان کی سب سے عظیم الشّان سماجی تخلیق ہے۔ اس کے ذریعے سے انسان اپنے تجربات، خیالات اور احساسات کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اور چیزوں کا رشتہ زمان و مکان سے جوڑتا ہے یعنی وہ دوسروں سے ماضی، حال، مستقبل اور دور و نزدیک کے بارے میں گفتگو کر سکتا ہے۔ اور اس طرح آنے والی نسلوں کے لیے تہذیب کا نہایت بیش بہا قیمت اثاثہ چھوڑ جاتا ہے۔

    انسان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور حقیقی معنی میں سماجی حیوان بھی نہیں ہے۔ بھیڑوں کے گلّے، ہرنوں کی ڈاریں اور مرغابیوں کے جھنڈ بظاہر سماجی وحدت نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان میں کوئی سماجی رابطہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ الگ اکائیاں ہیں۔ وہ نہ مل کر اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں اور نہ ان کی زندگی کا مدار ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے پر ہوتا ہے۔ حالانکہ انسان کے طبعی اوصاف یہی ہیں۔

    اسی طرح جانور کسی چیز یا واقعے کو کوئی مخصوص معنی نہیں دے سکتے۔ یعنی وہ علامتوں کی تخلیق سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس انسان اشیاء اور واقعات کو نئے نئے معنی دیتا رہتا ہے۔ مثلاً جانور کے نزدیک چشمے کے پانی اور چاہِ زم زم کے پانی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حالانکہ کروڑوں انسانوں کے نزدیک آبِ زَم زَم نہایت مقدس پانی ہے۔ یہی حال عید، بقرعید، شبِ برأت، محرّم اور دوسرے تاریخی دنوں کا ہے کہ انسان کے لیے ان کی ایک خاص اہمیت ہے جب کہ جانوروں کے لیے سب دن یکساں ہوتے ہیں۔ جانور آپس میں خاندانی رشتے بھی قائم نہیں کرسکتے۔ ان میں دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، ماموں، بھائی بہن کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ والدین اور ا ولاد کا رشتہ بھی بچّوں کے بڑے ہوجانےکے بعد بالکل ٹوٹ جاتا ہے۔

    جانوروں کے جنسی تعلقات کی نوعیت بھی انسانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جانور بھی جوڑا نبھاتے ہیں مگر ان میں جوڑا کھانے اور بچّے پیدا کرنے کا مخصوص موسم ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح وہ ہر موسم میں جنسی تعلقات قائم کرنے یا نسلی تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کا جنسی عمل کسی سماجی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا اور نہ اس عمل میں وقت اور جگہ کی تبدیلی سے کوئی فرق آتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کے جنسی ضابطے برابر بدلتے رہتے ہیں۔

    انسان کے علاوہ دوسرے کسی جانور میں دیوی، دیوتا، بھوت پریت، جن، شیطان، جنت، دوزخ، جھاڑ پھونک، گنڈا تعویذ کا بھی رواج نہیں ہے۔ اسی طرح جانور نہ تو خودکشی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں موت کا شعور ہوتا ہے۔

    یہ انسان کی خالص نوعی خصوصیات ہیں جو دوسرے کسی جانور میں موجود نہیں ہیں اور نہ وہ تربیت سے اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرتے ہیں۔

    انسان کے نوعی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے سر سیّد احمد خاں لکھتے ہیں کہ ’’انسان کے اعضا اور قویٰ بہ نسبت اور ذی روح مخلوقات کے افضل اور عمدہ ہیں۔ اس کو یہی فضیلت نہیں ہے بلکہ جو کام وہ اپنی عقل کی معاونت سے کرسکتا ہے اور اپنے ایسے ہاتھوں سے لے سکتا ہے جو اس کے بڑے مطیع کار پرداز ہیں ان کی وجہ سے اس کو بہت بڑی فضیلت حاصل ہے اور ان دونوں ذریعوں کی بدولت وہ اور مخلوقات میں سے اپنے آپ کو نہایت راحت و آرام کی زندگی میں رکھ سکتا ہے اور گویا اپنی ذات کو ایک مصنوعی وجود بنا سکتا ہے اور جو مرتبہ اس کی قدرتی حیات کا ہے اس کی نسبت وہ اس کو بہت زیادہ آسائش دے سکتا ہے۔‘‘ (مقالات سرسید، لاہور 1963ء)

    تہذیب کے ابتدائی دور میں انسان کی زندگی کا ہر لمحہ طبعی ماحول کے تابع تھا۔ وہ نہ تو اس ماحول پر قابو پانے کی قوت رکھتا تھا اور نہ اس میں اپنے ماحول کو بدلنے کی صلاحیت پیدا ہوئی تھی لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا جب انسان نے اپنی بڑھتی ہوئی ضرورتوں سے مجبور ہو کر اپنے طبعی ماحول کو بدلنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ چنانچہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو انسان کی پوری تاریخ طبعی ماحول یا قدرت کی تسخیر کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ چنانچہ ترقی یافتہ قوموں نے اپنے طبعی ماحول کو اب اتنا بدل دیا ہے کہ اگر دو ہزار سال پہلے کا کوئی باشندہ دوبارہ زندہ ہو کر آئے تو وہ اپنی جائے پیدائش کو بھی پہچان نہیں سکے گا۔

    پتھر کی تہذیب ہو، یا کانسی، لوہے کی، بہرحال انسانوں ہی کی جسمانی اور ذہنی محنتوں کی تخلیق ہوتی ہے۔ انہی کے ذہنی اور جسمانی قویٰ کے حرکت میں آنے سے وجود میں آتی ہے، لہٰذا کسی تہذیب کے عروج و زوال کا انحصار اسی بات پر ہوتا ہے کہ تہذیب کو برتنے والوں نے اپنی جسمانی اور ذہنی توانائی سے کس حد تک کام لیا ہے۔

    اگر کوئی معاشرہ روحِ عصر کی پکار نہیں سنتا بلکہ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے، اگر نئے تجربوں، تحقیق اور جستجو کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں تو تہذیب کا پودا بھی ٹھٹھر جاتا ہے۔ اس کی افزائش رک جاتی ہے اور پھر وہ سوکھ جاتا ہے۔ یونان اور روما، ایران اور عرب، ہندوستان اور چین کی قدیم تہذیبوں کے زوال کی تاریخ دراصل ان کے آلات و اوزار اور معاشرتی رشتوں کے جمود کی تاریخ ہے۔ یہ عظیم تہذیبیں معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور انجامِ کار فنا ہو گئیں۔

    (نام وَر ترقی پسند دانش ور، ادیب اور صحافی سیّد سبط حسن کے فکری و علمی مضمون سے اقتباسات)

  • 10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریکِ آزادی کی طویل جدوجہد کے دوران کئی تاریخ ساز موڑ اور یادگار لمحات آئے جن کا تذکرہ عظیم اور لازوال قربانیوں کی یاد دلاتے ہوئے حصولِ پاکستان کی داستان کو مکمل کرتا ہے۔ آج ایک ایسا ہی تاریخی دن ہے جب 1947ء میں کراچی میں سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔

    اس تاریخی اجلاس کی صدارت وزیرِ قانون جوگندر ناتھ منڈل نے کی اور اجلاس کی کارروائی کا آغاز مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوتِ قرآن کریم سے کیا تھا۔ 14 اگست 1947ء تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی کارروائی میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔

    10 اگست سے شروع ہونے والے اجلاس میں مشرقی بنگال کے 44، پنجاب کے 17، سرحد کے 3، بلوچستان کے ایک اور صوبہ سندھ کے 4 نمائندے شریک تھے جنھوں نے قائدِاعظم محمد علی جناح کو اسمبلی کا پہلا صدر اور مولوی تمیز الدین کو پہلا اسپیکر منتخب کیا۔

    اجلاس میں طے پایا کہ جب تک پاکستان کا مستقل آئین تیار نہیں ہوتا اس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو بعض ترامیم کے ساتھ پاکستان کے آئین کی شکل دی جائے۔

    پاکستان کی یہ پہلی دستور ساز اسمبلی 24 اکتوبر 1954ء تک قائم رہی۔

  • وہ خواتین جو ہمّت اور بہادری کی روشن مثال ہیں

    وہ خواتین جو ہمّت اور بہادری کی روشن مثال ہیں

    آج دنیا خواتین کا عالمی دن منارہی ہے جس کا مقصد مختلف معاشروں میں عورت کی سماجی، معاشی، سیاسی جدوجہد پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ہر سطح پر اس کے مثبت اور مثالی کردار کو سراہنا اور عورت کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے۔

    آج اس دن کی مناسبت سے تقاریب میں دانش وَر اور خواتین کے حقوق کی علم بردار تنظیموں کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہر شعبہ ہائے حیات میں‌ عورت کو بلاامتیاز بنیادی حقوق دے کر اس کی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور اسے انفرادی اور اجتماعی ترقی و خوش حالی کے لیے فرسودہ رسم و رواج کی بندشوں سے آزاد کرکے آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔

    پچھلے چند برسو‌ں کے دوران پاکستان میں ’عورت مارچ‘ متنازع اور اس موقع پر سوشل میڈیا پر مباحث اس قدر بڑھے کہ اس دن کی اہمیت اور مقاصد گویا دھندلا گئے، لیکن اس سے قطع نظر تاریخی طور پر بھی دیکھا جائے تو متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں کئی خواتین ایسی گزری ہیں جن کی قربانیاں اور سیاسی و سماجی جدوجہد ہمارے لیے مثال ہے۔

    یہاں‌ ہم ہندوستان کی آزادی کی تحریک سے لے کر قیامِ پاکستان تک ایثار و قربانی کا پیکر بن کر حقوق و فرائض کی انجام دہی کے ساتھ بحیثیت قوم اپنے حقوق کے حصول کی بے مثال جدوجہد کرنے والی چند خواتین کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    برصغیر پاک و ہند کی کئی خواتین ایسی بھی ہیں‌ جنھوں نے اس وقت آزادی اور حقوق کے لیے لڑنے والے اپنے باپ، بھائیوں اور شوہر کے لیے ان کی قید و بند، مفروری اور جلسے جلوسوں میں‌ شرکت کے دوران بے شمار قربانیاں دیں اور ثابت قدم رہیں، جب کہ کئی خواتین نے میدانِ عمل میں مردوں کے شانہ بشانہ ہر محاذ پر جنگ لڑی۔ ان میں بی امّاں کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا جو جوہر برادران(شوکت علی، محمد علی) کی والدہ تھیں اور جنھوں نے اپنے بیٹوں کو تحریکِ خلافت کے لیے مر مٹنے کا حکم دے کر میدانِ عمل میں اتارا اور تنہا حالات کا مقابلہ کیا۔

    اسی طرح محمد علی جوہرؔ کی اہلیہ امجدی بیگم کا نام بھی تاریخ میں ان کی قربانیوں اور ایثار کی بدولت رقم ہے جب کہ اردو کے نام ور ادیب اور شاعر حسرتؔ موہانی کی شریکِ حیات جن کا نام نشاط النساء بیگم ہے، بھی حسرت کی جیل یاتراؤں اور تحریکی جدوجہد کے دوران ان کا ساتھ دیتی اور حوصلہ بڑھاتی رہیں۔ اس حوالے سے ایک نام سیف الدین کچلو کا ہے جن کی شریکِ حیات سعادت بانو کچلو تھیں جنھوں نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا اور آزادی کی جدوجہد میں اپنے شوہر کا ساتھ دیتی رہیں، حیدرآباد کے معزز گھرانے سے تعلق رکھنے والی اور بیرسٹر خواجہ عبدالحمید کی اہلیہ بیگم خورشید خواجہ، بی بی امت الاسلام جو پٹیالہ کے ایک رئیس اور محبِ وطن راجپوت خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، خدیجہ بیگم، زبیدہ بیگم داؤدی (بیگم شفیع داؤدی)، کنیزہ سیّدہ بیگم (کانگریس راہ نما سیّد صلاح الدین کی چھوٹی بہن)، منیرہ بیگم (بدرالدین طیب جی کی بھتیجی) وہ خواتین ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں اور انگریز راج کے خلاف اپنے مردوں کا ساتھ دیتی رہیں۔

    تقسیم سے پہلے اور قیامِ پاکستان کے بعد مادرِ ملت محترمہ فاطمہ علی جناح، بیگم رعنا لیاقت، بیگم جہاں آرا شاہنواز، بیگم زری سرفراز جیسی خواتین نے اپنی جدوجہد اور عملی میدان میں‌ محاذ پر ثابت قدم رہ کر ثابت کیا کہ عورت کسی بھی طرح کم زور نہیں اور سماج کے ہر شعبے میں اپنا کردار احسن طریقے سے نبھاسکتی ہے۔

  • 28 جنوری: "اب یا پھر کبھی نہیں…”

    28 جنوری: "اب یا پھر کبھی نہیں…”

    آج وہ یادگار دن ہے جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض‌ میں‌ "اب یا پھر کبھی نہیں (Now OR Never)” کے عنوان سے ایک کتابچے کی گونج سنائی دی اور اس کتابچے نے تحریکِ پاکستان کے لیے آہنی دیوار کا کام انجام دیا۔

    مشہور ہے کہ اسی روز برِّصغیر کے مسلمان اور ہندوستان میں‌ بسنے والی دیگر اقوام لفظ "پاکستان” سے آشنا ہوئے۔ یہ چار صفحات پر مشتمل کتابچہ تھا جس کے مصنّف چودھری رحمت علی ہیں۔ انھیں لفظ "پاكستان” کا خالق بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ایک مخلص سیاست دان، مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور راہ نما تھے جو سیاست، قانون اور قلم کے میدانوں میں آزادی کے حوالے سے متحرک رہے۔

    28 جنوری 1933ء کو ان کا یہ کتابچہ کیمبرج سے شایع ہوا جس میں چودھری رحمت علی نے مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کا نام پاکستان تجویز کیا تھا۔ اگرچہ اس لفظ اور خود چودھری رحمت علی کے حوالے سے کئی تنازع اور مباحث سامنے آئے اور مؤرخین و محققین میں اس پر اختلاف بھی ہے، لیکن اس سے Now or Never کی اہمیت کسی طور کم نہیں‌ ہوتی۔ اس کتابچے کی پاکستان کی تاریخ میں وہی اہمیت جو امریکا کی تاریخ میں ٹامس پین کے مشہور کتابچے کامن سینس کی ہے۔

    اسی تاریخی کتابچے کی اشاعت کے 15 سال بعد پاکستان ایک آزاد مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔

  • ملکی 37 فضائی حادثات میں 745 افراد جاں بحق

    ملکی 37 فضائی حادثات میں 745 افراد جاں بحق

    آج چترال سے اسلام آباد آنے والی پرواز کو حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار 46 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، طیارے میں معروف مبلغ اسلام جنید جمشید اپنی اہلیہ کے ہمراہ محو سفر تھے یہ ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔

    قیامِ پاکستان سے اب تک مختلف مقامات پر 37 فضائی حادثات میں اب تک 745 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جاں بحق ہونے والے افراد میں اعلیٰ فوجی افسران، غیر ملکی مندوبین اور سول حکام کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے۔

    پی آئی اے کی تاریخ میں پاکستان کے طیارے کو پہلا فضائی حادثہ عراق میں پیش آیا تھا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا جب کہ دوسرا حادثہ 26 نومبر 1948ء کو پنجاب کے علاقے وہاڑی میں پیش آیا جس میں 21 مسافر اور5 عملے کے افراد شہید ہوئے تھے یہ پہلا فضائی حادثہ تھا جس میں جانی نقصان ہوا۔

    اپنی نوعیت کا ایک اور حادثہ 20 مئی 1965 کو قاہرہ ایئرپورٹ کے رن وے پر پیش آیا جس کے نتیجے میں پی آئی اے بوئنگ 707 پر سوار 124 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

    پانچ سال بعد 6 اگست 1970 کو پی آئی اے کا ایف 27 ٹربو پروپ ایئر کرافٹ اسلام آباد سے تھنڈر اسٹوورم روانگی سے قبل تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 30 افراد جاں بحق ہو گئے۔

    اسی طرح 8 دسمبر 1972 کو پی آئی اے فوکر 27 راولپنڈی میں تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 26 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ بیٹھے تھے۔

    جانی نقصان کے حوالے سے سب دردناک حادثہ 26 نومبر 1979 کو پیش آیا تھا جب پی آئی اے کا بوئنگ 707 طیارے کو پاکستانی حاجیوں کو لے کر سعودیہ سے پاکستان آنا تھا کہ جدہ ایئر پورٹ پر حادثے کا شکار ہوگیا جس کے نتیجے میں 156 حاجی خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔

    23 اکتوبر 1986 کو پیش آنے والے اپنی نوعیت کے پہلے واقعے میں پی آئی اے کا فوکر ایف 27 پشاور ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران حادثے کا شکار ہو گیا تھا جس میں 13 افراد جاں بحق ہو گئے تا ہم اس واقعے میں 41 افراد محفوظ رہے تھے۔

    17 اگست 1988 کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے اندوہناک حادثہ پیش آیا جب صدر پاکستان ضیاء الحق سمیت اعلی ترین فوجی افسران امریکی ساختہ سی 130 میں سوار ہو کر روانہ ہی ہوئے تھے کہ اچانک جہاز میں آگ بھڑک اٹھی اور تمام افراد لقمہ اجل بن گئے۔

    محض ایک سال بعد ہی 25 اگست 1989 کو پی آئی اے فوکر نے 54 افراد کو لے کر گلگت سے اڑان بھری تھی اور پھر فضاؤں میں ایسا کھویا کہ اب تک مل نہ سکا نہ تو جہاز کا ملبہ ہی بر آمد ہوا اور نہ ہی مسافروں کا کچھ پتا چل سکا۔

    بیرون ملک پیش آنے والا سب سے بڑا نقصان 28 ستمبر 1992 کو رونما ہوا جب پی آئی اے کی ایئر بس اے 300 نیپال کے دار الحکومت کھٹمنڈو میں تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 167 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    عسکری حوالے سے جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حاد ثے کے بعد دوسرا بڑا سانحہ 19 فروری 2003 کو پاک ایئر فورس کے فوکر ایف 27 کو کوہاٹ میں پیش آیا جس میں ایئر مارشل مشرف علی اور ان کی اہلیہ سمیت 15 افراد جام شہادت نوش کر گئے۔

    24 فروری 2004 کو چارٹرڈ طیارہ کیسنا 402 بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس میں افغانستان کے وزیر برائے معدنیات، چار افغان حکام اور 3 چینی افراد اور دو پاکستانی افسران جاں بحق ہوگئے تھے۔

    اسی طرح 10 جولائی 2006 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ ایف 27 لاہور کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں 41 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

    28 جولائی 2010 کو نجی ادارے ایئر بلو کی ایئر بس321 کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے مارگلہ کی پہاڑیوں پر جا گرا تھا جس کے نتیجے میں 152 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

    صرف چار ماہ بعد ہی دہرے انجن والا طیارہ تباہ ہو گیا تھا ،5 نومبر 2010 کو پیش آنے والے اس حادثے اٹلی آئل کمپنی کے اعلی حکام سمیت 21 افراد ابدی نیند سو گئے تھے۔

    28 نومبر 2010 کو روسی ساختہ طیارے آئی ایل 76 کارگو کراچی سے پرواز کے دوران ہی تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں 12 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

    آج کے حادثے سے قبل آخری فضائی حادثہ 20 اپریل 2012 کو نجی ایئر لائن بھوجا کے طیارے 737 کو پیش آیا تھا جس میں جہاز میں سوار 130 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

  • پاکستان کے مشہور شہروں کے ناموں کی تاریخ

    پاکستان کے مشہور شہروں کے ناموں کی تاریخ

    اپنے وطن سے محبت ایک قدرتی امر ہے یہ ہر انسان کی فطرت ہے کہ وہ دنیا میں جہاں بھی ہو اپنے وطن سے بے پناہ محبت رکھتا ہے۔ جب ہم اپنے وطن اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں تو اس کے شہروں سے بھی محبت کرتے ہیں، پاکستان کے تمام شہر بہت خوبصورت ہیں اور ہمیں ان سے پیار ہے۔

    کسی بھی شہر کا نام اس شہر کو نہ صرف ایک منفرد شناخت دیتا ہے بلکہ اپنے اندر ایک تاریخی پسِ منظر بھی رکھتا ہے۔ یہ پوری تحریر پڑھنے کےبعد آپ کو پتا چلے گا کہ پاکستان اور اس کے مشہور شہروں کے نام کیسے پڑے ، ان سے جڑا تاریخی پسِ منظر کیا ہے۔

    پاکستان

    pak-flag

    لفظ پاکستان ’’پاک‘‘ اور ’’ستان‘‘ کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ پاک کا مطلب ’’روحانی طور پر صاف‘‘ ہے اور ستان سنسکرت کے لفظ ’’استھان‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ملک، علاقہ یا رہنے کی جگہ۔ تو پاکستان کا مطلب ایسی پاک جگہ جہاں پاک لوگ رہتے ہیں۔

    پاکستان کا ’’پ‘‘ پنجاب سے، ’’ا‘‘ افغانیہ (خیبر پختونخوا) سے، ’’ک‘‘ کشمیر سے، ’’س‘‘ سندھ سے اور ’’تان‘‘ بلوچستان سے لیا گیا ہے۔

    اپنے وطن سے محبت ہو تو اس کے شہروں سے محبت ہونا فطری بات ہے۔ پاکستان کے سارے شہر ہمارے لیے اتنے ہی پیارے اور محترم ہیں جتنا کہ ہمیں اپنا شہر۔ ان شہروں کے نام کیسے رکھے گئے۔

    اسلام آباد

    1468131101_a4fc1f1349_b

     

    ۱۹۵۹ء میں مرکزی دارالحکومت کا علاقہ قرار پایا۔ اس کا نام مسلمانانِ پاکستان کے مذہب اسلام کے نام پر اسلام آباد رکھا گیا۔

    راولپنڈی

    rawalpindi_railway_station_4

    یہ شہر راول قوم کا گھر تھا۔ چودھری جھنڈے خان راول نے پندرہویں صدی میں باقاعدہ اس کی بنیاد رکھی۔

    کراچی

    karachi_from_above

    تقریباً ۲۲۰ سال قبل یہ ماہی گیروں کی بستی تھی۔ کلاچو نامی بلوچ کے نام پر اِس کا نام کلاچی پڑ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ کراچی بن گیا۔ ۱۹۲۵ء میں اسے شہر کی حیثیت دی گئی۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۹ء تک یہ پاکستان کا دارالحکومت رہا۔

    حیدرآباد

    maxresdefault

    اس کا پرانا نام نیرون کوٹ تھا۔ کلہوڑوں نے اسے حضرت علیؓ کے نام سے منسوب کرکے اس کا نام حیدرآباد رکھ دیا۔ اس کی بنیاد غلام کلہوڑا نے ۱۷۶۸ء میں رکھی۔ ۱۸۴۳ء میں انگریزوں نے شہر پر قبضہ کرلیا۔ اسے ۱۹۳۵ء میں ضلع کا درجہ ملا۔

    پشاور

    peshawar_

    پیشہ ور لوگوں کی نسبت سے اس کا نام پشاور پڑ گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق محمود غزنوی نے اسے یہ نام دیا۔

    کوئٹہ

    quetta_railway_station_-_40311

    لفظ کوئٹہ، کواٹا سے بنا ہے جس کے معنی قلعے کے ہیں۔ بگڑتے بگڑتے یہ کواٹا سے کوئٹہ بن گیا۔

    سرگودھا

    sargoda-university-2012

    یہ سر اور گودھا سے مل کر بنا ہے۔ ہندی میں سر، تالاب کو کہتے ہیں، گودھا ایک فقیر کا نام تھا جو تالاب کے کنارے رہتا تھا۔ اسی لیے اس کا نام گودھے والا سر بن گیا۔ بعد میں سرگودھا کہلایا۔ ۱۹۰۳ء میں باقاعدہ آباد ہوا۔

    بہاولپور

    noormahal1

    نواب بہاول خان کا آباد کردہ شہر جو انہی کے نام پر بہاولپور کہلایا۔ مدت تک یہ ریاست بہاولپور کا صدر مقام رہا۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی یہ پہلی رہاست تھی۔ ون یونٹ کے قیام تک یہاں عباسی خاندان کی حکومت تھی۔

    ملتان

    ????????????????????????????????????

    کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی تاریخ ۴ ہزار سال قدیم ہے۔ البیرونی کے مطابق اسے ہزاروں سال پہلے آخری کرت سگیا کے زمانے میں آباد کیا گیا۔ اس کا ابتدائی نام ’’کیساپور‘‘ بتایا جاتا ہے۔

    فیصل آباد

    faisal

    اسے ایک انگریز سر جیمزلائل (گورنرپنجاب) نے آباد کیا۔ اُس کے نام پر اس شہر کا نام لائل پور تھا۔ بعدازاں عظیم سعودی فرماں روا شاہ فیصل شہید کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔

    ٹوبہ ٹیک سنگھ

    toba_tek_singh_train_station

    اس شہر کا نام ایک سکھ "ٹیکو سنگھ” کے نام پہ ہے "ٹوبہ” تالاب کو کہتے ہیں یہ درویش صفت سکھ ٹیکو سنگھ شہر کے ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھا رہتا تھا اور ٹوبہ یعنی تالاب سے پانی بھر کر اپنے پاس رکھتا تھا اور اسٹیشن آنے والے مسافروں کو پانی پلایا کرتا تھا سعادت حسن منٹو کا شہرہ آفاق افسانہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ” بھی اسی شہر سے منسوب ہے

    رحیم یار خان

    43570904
    بہاولپور کے عباسیہ خاندان کے ایک فرد نواب رحیم یار خاں عباسی کے نام پر یہ شہر آباد کیا گیا۔

    ساہیوال

    yadgar

    یہ شہر ساہی قوم کا مسکن تھا۔ اسی لیے ساہی وال کہلایا۔ انگریز دور میں پنجاب کے انگریز گورنر منٹگمری کے نام پر ”منٹگمری“ کہلایا۔ نومبر 1966ء صدر ایوب خاں نے عوام کے مطالبے پر اس شہر کا پرانا نام یعنی ساہیوال بحال کردیا۔

    سیالکوٹ

    recently-built-baab-i-sialkot-on-daska-road-was-formally-opened
    2 ہزار قبل مسیح میں راجہ سلکوٹ نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ برطانوی عہد میں اس کا نام سیالکوٹ رکھا گیا۔

    گوجرانوالہ

    urdu-hotline-gujranwala

    ایک جاٹ سانہی خاں نے اسے 1365ء میں آباد کیا اور اس کا نام ”خان پور“ رکھا۔ بعدازاں امرتسر سے آ کر یہاں آباد ہونے والے گوجروں نے اس کا نام بدل کر گوجرانوالہ رکھ دیا۔

    شیخوپورہ

    pavilion2
    مغل حکمران نورالدین سلیم جہانگیر کے حوالے سے آباد کیا جانے والا شہر۔ اکبر اپنے چہیتے بیٹے کو پیار سے ”شیخو“ کہہ کر پکارتا تھا اور اسی کے نام سے شیخوپورہ کہلایا۔

    ہڑپہ

    img_8474
    یہ دنیا کے قدیم ترین شہر کا اعزاز رکھنے والا شہر ہے۔ ہڑپہ، ساہیوال سے 12 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ موہنجوداڑو کا ہم عصر شہر ہے۔ جو 5 ہزار سال قبل اچانک ختم ہوگیا۔رگِ وید کے قدیم منتروں میں اس کا نام ”ہری روپا“ لکھا گیا ہے۔ زمانے کے چال نے ”ہری روپا“ کو ہڑپہ بنا دیا۔

    ٹیکسلا

    4389359_orig

    گندھارا تہذیب کا مرکز۔ اس کا شمار بھی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ راولپنڈی سے 22 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ 326 قبل مسیح میں یہاں سکندرِاعظم کا قبضہ ہوا تھا۔

     مظفر گڑھ

    urdu-hotline-muzaffargarh

    والی ملتان نواب مظفرخاں کا آباد کردہ شہر۔ 1880ءتک اس کا نام ”خان گڑھ“ رہا۔ انگریز حکومت نے اسے مظفرگڑھ کا نام دیا۔

    میانوالی

    urdu-hotline-mianwali-1024x768

    ایک صوفی بزرگ میاں علی کے نام سے موسوم شہر ”میانوالی“ سولہویں صدی میں آباد کیا گیا تھا۔

     جھنگ

    urdu-hotline-jhang

    یہ شہر کبھی چند جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ اس شہر کی ابتدا صدیوں پہلے راجا سرجا سیال نے رکھی تھی اور یوں یہ علاقہ ”جھگی سیال“ کہلایا۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جھنگ سیال بن گیا اور پھر صرف جھنگ رہ گیا:۔