Tag: پاکستان کی ثقافت

  • حجرہ، مقامی لوگوں‌ کی بیٹھک، سرائے اور مہمان خانہ بھی!

    حجرہ، مقامی لوگوں‌ کی بیٹھک، سرائے اور مہمان خانہ بھی!

    تقریباً پچاس فٹ لمبے اور بیس پچیس فٹ چوڑے ہال نما کمرے میں تیس چالیس چارپائیاں موجود، صحن میں چھاﺅں کے لیے ربڑ، بیری یا سریخ کا ایک بڑا اور موٹا درخت، ایک طرف ٹھنڈے پانی کا مٹکا اور اس پر مٹی کا بنا بٹھل تو دوسری طرف چلم یا حقّہ مع تمباکو۔

    گاﺅں محلے کی خوشی و غمی کا مرکز، باہر سے آنے والے مہمانوں اور مسافروں کے لیے سرائے اور مہمان خانہ۔ ننھے بچوں کے کھیل کا میدان تو نوجوانوں کی تربیت گاہ جب کہ بوڑھوں کے لیے تفریح کا ٹھکانا جہاں مکئی کے بُھنّے بھٹوں اور خوش بو دار مونگ پھلی کے ساتھ رات بھر گپ شپ چلتی اور کبھی ماہیے اور قوالیاں عروج پر ہوتیں۔

    ہر رات قہوے اور چائے کی چسکیوں کے سنگ دوستوں کے مُندری، کسوٹی، قطار، شیس، تاش اور گتھئی کھیلنے کے رنگ بھی نرالے ہوتے، البتہ شطرنج پر شیطانی کھیل کا فتویٰ لگاکر اسے حُجرہ بدر کر دیا گیا تھا۔

    شادیوں، ولیموں، عقیقوں، میلوں اور گندم کٹائی کے موسموں میں حجرہ کی رونق دوبالا ہوجاتی۔ ویسے معمول کے دنوں میں مہمان کسی ایک کا ہوتا، لیکن اس کے میزبان کئی ہوتے، یعنی کسی بھی گھر سے لسی، مکھن، چٹنی، اچار، سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی آپہنچتی، تنازعات اور جھگڑوں کی نوبت کم ہی آتی اور اگر کبھی بگاڑ آتا بھی تو حُجرے کے اندر ہی جرگہ کے فیصلہ پر سر تسلیم خم کر لیا جاتا۔

    سیاست اور حکومتوں کو صرف منہگائی سستائی کے حوالے سے زیر بحث لایا جاتا۔ رُوکھی سُوکھی مل بانٹ کر کھاتے اور پھر صبر و شکر سے ہنسی خوشی رہتے۔

    غرض یہ کہ دیہاتی زندگی میں حُجرے کو سماجی اور معاشرتی مرکز کا درجہ حاصل تھا جس نے ہماری روایتی ثقافت کو ایک طویل عرصہ تک زندہ و تابندہ رکھا، مگر اب سوشل میڈیا کے تیز ترین دور میں یہ خوب صورت کلچر تقریباً دم توڑ چکا ہے۔

    آج کا نوجوان سوشل ہونے کے بجائے تنہا، گُم صم اور درماندہ و پریشان۔ ہر وقت فیس بک کے آئینے میں اپنا دھندلا سا چہرہ تکتا رہتا ہے جب کہ رہے سہے بوڑھے اپنے پوتوں، نواسوں کو اس دنیا میں گُم ہوتا دیکھتے اور اپنی بے بسی پر کُڑھتے ہوئے موت کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔

    (موجودہ طرزِ زندگی میں‌ گم ہوتی ہوئی ہماری روایات، قدروں اور خوش رنگ یادوں‌ کے متعلق احمد دین داد کی ایک تحریر)

  • راجا نے زندگی اور پھلڑا نے اپنی شان و شوکت کھو دی

    راجا نے زندگی اور پھلڑا نے اپنی شان و شوکت کھو دی

    پاکستان کے قدیم آثار اور تاریخی مقامات کے حوالے سے چولستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    یہاں مختلف شہروں اور مضافات میں کئی قدیم اور تاریخی عمارتیں موجود ہیں جب کہ بہاول نگر، چولستان کی طرف جائیں تو بہت سے قلعے اور آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان میں قلعہ پھلڑا بھی شامل ہے۔

    قلعہ پھلڑا کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ اسے بیکا نیر کے راجا نے کسی زمانے میں تعمیر کروایا تھا۔ اس راجا کا نام بیکا لکھا ہے اور یہ قلعہ کسی زمانے میں‌ راجا اور افواج کا اہم دفاعی حصار رہا ہو گا۔

    1750 تک یہ قلعہ بالکل کھنڈر بن گیا اور کرم خان اربائی نے اس کی تعمیر و مرمت کروائی۔ یہ قلعہ جنگ اور دشمن کے حملے سے بچنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ اس قلعے کی بیرونی دیواروں کو پکی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔

    ماہرین ثقافت اور آثار سے متعلق محققین کے مطابق اس کی دو طرفہ دیواروں کے درمیان مٹی بھری گئی تھی جو دفاعی اعتبار سے نہایت کارگر تھی۔ اسے دشمن کی گولہ باری آسانی سے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ اسے دھوڑا کہا جاتا تھا۔

    قلعے کے چاروں کونوں پر مینار قائم کیے گئے تھے جب کہ قلعے کے اندر 118 فٹ گہرا ایک کنواں بھی ہے۔ درمیان میں رہائشی کمرے اور قلعے کے جنوبی حصے کی طرف ایک سہ منزلہ اقامت گاہ موجود ہے جو کبھی خوب صورت اور طرزِ تعمیر کا شاہ کار رہی ہو گی۔