Tag: پاکستان کی پہلی فلم

  • یومِ‌ وفات: داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار تھے

    یومِ‌ وفات: داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار تھے

    22 مئی 1975ء کو پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہدایت کار دائود چاند دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ہدایت کار کی حیثیت سے داؤد چاند کی بنائی ہوئی یہ فلم ستمبر 1948ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی اور اسے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں بننے والی اوّلین فلم قرار دیا جاتا ہے۔

    دائود چاند کا تعلق بھارت کے صوبے گجرات (کاٹھیا واڑ) سے تھا۔ وہ 1907ء میں پیدا ہوئے تھے۔ عالمِ شباب میں بمبئی اور پھر کلکتہ چلے گئے جہاں اندرا مووی ٹون میں ملازمت اختیار کرلی اور اپنی لگن اور محنت سے پہلے اداکاری اور پھر ہدایت کاری کے شعبے میں مہارت حاصل کی اور فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    انھوں نے فلم سسی پنوں سے ہدایت کاری کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس کے بعد دائود چاند نے چند مزید فلموں کی ہدایت کاری دی اور پھر لاہور چلے آئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب دیوان سرداری لعل نے ’’تیری یاد‘‘ بنانے کا اعلان کیا تو ہدایت کاری کے لیے دائود چاند کا انتخاب کیا، اس فلم کے بعد داؤد چاند نے ہچکولے، مندری، سسی، مرزاں صاحباں، حاتم، مراد اور دیگر فلمیں بنائیں۔

    لاہور میں انتقال کرنے والے دائود چاند مقامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی برسی

    پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی برسی

    26 مارچ 1998ء کو پاکستان کی پہلی فلم ‘تیری یاد’ میں ہیروئن کا کردار نبھانے والی آشا پوسلے وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا جن کے والد موسیقار کی حیثیت سے فلمی دنیا سے منسلک تھے۔

    آشا پوسلے کا تعلق پٹیالہ سے تھا جہاں انھوں نے 1927ء میں آنکھ کھولی تھی۔ تقسیم سے قبل 1946ء میں فلم ‘کملی’ سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والی آشا پوسلے نے ہیروئن کے علاوہ بڑے پردے پر کئی فلموں میں منفی کردار بھی ادا کیے۔ آشا پوسلے کے والد ماسٹر عنایت علی ناتھ ہی نہیں‌ ان کی ایک بہن رانی کرن بھی اداکارہ اور دوسری کوثر پروین بطور گلوکارہ فلمی دنیا سے منسلک رہیں۔

    7 اگست 1948ء کو لاہور کے پربت تھیٹر میں نمائش کے لیے پیش کی گئی ملک کی پہلی فلم میں ہیروئن کا کردار نبھانے والی آشا پوسلے نے زندگی کے آخری ایّام انتہائی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیے اور گڑھی شاہو، لاہور میں انتقال کیا۔ انھیں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں خصوصی نگار ایوارڈ بھی شامل تھا۔

  • 16 فروری 1948ء‌: پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک یادگار دن

    16 فروری 1948ء‌: پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک یادگار دن

    ایک زمانہ تھا جب کلکتہ فلم سازی کا مرکز ہوا کرتا تھا اور متحدہ ہندوستان کا ہر باکمال، ہر بڑا چھوٹا فن کار چاہے وہ اداکار ہو، موسیقار، گلوکار، شاعر یا کہانی نویس وہاں فلم نگری میں قسمت آزمانے اور کام حاصل کرنے جاتا تھا، بعد کے برسوں میں یہ فلمی صنعت ممبئی منتقل ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں لاہور تیسرا اہم فلمی مرکز بنا اور ابتدائی زمانے میں یہاں بننے والی فلموں نے ہندوستان بھر میں کام یابیاں حاصل کیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد 16 فروری 1948ء کو لاہور میں ملک کے پہلے فلم اسٹوڈیو کا افتتاح ہوا اور یوں آج کا دن پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا یادگار دن ثابت ہوا۔

    تقسیم سے قبل اس اسٹوڈیو کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی تھے، جو تقسیم کے موقع پر فسادات کے دوران اسٹوڈیو میں‌ توڑ پھوڑ اور اسے نذرِ آتش کیے جانے کے بعد بھارت چلے گئے۔ وہ ایک فن شناس آدمی تھے۔ بھارت میں انھوں نے اپنا کام شروع کیا اور کئی فن کاروں کو اپنی فلموں میں موقع دیا، ان کی کئی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ لاہور میں ان کے اسٹوڈیو کا انتظام ان کے منیجر دیوان سرداری لال نے سنبھال لیا۔

    پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد آنجہانی دیوان سرداری لال نے اسی پنچولی آرٹ اسٹوڈیو کے ٹوٹے پھوتے سامان اور بکھری ہوئی چیزوں کو اکٹھا کیا اور اسے دوبارہ آباد کیا۔ گنے چُنے تکنیک کاروں نے یہاں سے فلم سازی کی بنیاد رکھی اور بعد میں یہاں بننے والی کئی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی بینر تلے سرداری لال کی جس فلم پر پہلے سے کام جاری تھا، وہ بھی 1948ء میں مکمل ہوگئی اور یہی فلم’تیری یاد‘ کے ٹائٹل سے ریلیز ہوئی تھی۔ اسے پاکستان کی پہلی فلم قرار دیا جاتا ہے۔