Tag: پاکستان کے تاریخی مقامات

  • دفاعی نقطۂ نگاہ سے تعمیر کردہ وہ قلعہ جس پر کبھی یلغار نہیں ہوئی

    دفاعی نقطۂ نگاہ سے تعمیر کردہ وہ قلعہ جس پر کبھی یلغار نہیں ہوئی

    وادیَ سندھ پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیب اور ثقافت کی امین بتائی جاتی ہے اور اس سرزمین پر قبل از تاریخ کے وہ آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں جنھیں عجائبِ ارضِ پاکستان شمار کیا جاتا ہے۔

    سندھ دھرتی پر موجود قعلے صدیوں پہلے کے حکم رانوں کی شان و شوکت، جاہ و جلال کے گواہ اور اپنے طرزِ‌ تعمیر میں‌ ہر لحاظ سے منفرد و یگانہ ہیں‌ جن میں سے ایک کوٹ ڈیجی کا قلعہ بھی ہے۔ اگرچہ اس قلعے کی تاریخ اتنی پرانی نہیں‌ جتنی کہ کوٹ ڈیجی شہر کی ہے جو اس سے قدیم ہے، لیکن یہ قلعہ بھی سندھ میں طرزِ تعمیر کے لحاظ سے منفرد اور نہایت شان دار ہے۔ شاید آپ کو بھی اس قلعے کی سیر اور ماضی میں‌ جانے کا موقع ملا ہو۔ یہاں‌ ہم اس قلعے سے متعلق بنیادی معلومات اور اس کی نمایاں خصوصیات کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جو آپ کی دل چسپی کا باعث ہو گا۔

    کوٹ ڈیجی کا قلعہ دریائے سندھ سے مشرق میں قومی شاہراہ پر 40 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، خیر پور سے اس قلعہ کا فاصلہ 25 کلو میٹر ہے۔ اس کی دیواریں 2265 گز جب کہ قلعہ کی مکمل عمارت 94000 مربع گز پر مشتمل ہے۔

    کوٹ ڈیجی کا قلعہ ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا جو سطحِ زمین سے لگ بھگ 100 فٹ اونچی ہے۔ جس پہاڑی پر یہ قلعہ تعمیر کیا گیا ہے، اس کی لمبائی کے لحاظ سے یہاں چاروں طرف جو دیواریں‌ اٹھائی گئی‌ ہیں وہ تقریبا تیس فٹ بلند ہیں اور اسی میں‌ دفاع کو مدنظر رکھتے ہوئے تین ٹاور بھی بنائے گئے تھے، جن کی بلندی پچاس فٹ کے لگ بھگ ہے۔

    یہ قلعہ خیر پور ریاست کے پہلے حکم راں میر سہراب خان تالپور نے تعمیر کرایا تھا۔ انھوں نے کوٹ ڈیجی کو اپنا دارُالخلافہ بنا اس کی تعمیر کا کام 1785ء میں شروع کروایا جو 1795ء میں ختم ہوا۔ مشہور ہے کہ اس کے لیے ایرانی ماہرِ فنِ تعمیر سے مدد لی گئی تھی جس نے اسے ڈیزائن کیا تھا اور یہ اسی کے نام سے منسوب تھا، لیکن بعد میں‌ اسے کوٹ ڈیجی شہر کی نسبت پہچانا جانے لگا۔ اس قلعے کے ساتھ ہی اس وقت ایک شہر بھی آباد تھا۔

    قلعے کا مرکزی‌ راستہ مشرق کی جانب سے ہے جس کی بناوٹ میں دفاع اور قلعے کے تحفظ کو اہمیت دی گئی ہے۔ دراصل اس دروازے میں‌ آہنی میخیں‌ جڑی گئی ہیں‌ جو اس دور کے انجینئروں کی اختراع اور کاری گروں‌ کی مہارت کا نمونہ ہے۔ یہ آہنی میخیں اس دروازے کی خوب صورتی بڑھاتی ہیں جس سے گزرنے پر احساس ہوتا ہے کہ کسی منظّم عمارت اور نہایت اہمیت کے حامل محفوظ شہر یا آبادی میں‌ داخل ہوگئے ہیں۔

    اس زمانے میں قلعوں کے دروازے توڑنے کے لیے ہاتھیوں کا استعمال کیا جاتا تھا جو اس سے اپنا سر ٹکراتے اور مسلسل ضربوں‌ سے اسے توڑ دیتے یا کم زور کردیتے تھے جسے دشمن فوج کے سپاہی آسانی سے اکھاڑ پھینکتے، لیکن اس قلعے کے دروازے کی آہنی میخوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں‌ تھا۔

    اس قلعے کی تعمیر میں‌ چونے کے پتھروں اور اینٹیں‌ استعمال ہوئی ہیں جنھیں مضبوطی اور قلعے پائیداری کے نقطہ نگاہ سے خصوصی طور پر تیار کیا گیا تھا۔

    سندھ کے شہر خیر پور سے کچھ مسافت پر موجود یہ قلعہ حکم رانوں کی اقامت گاہ ہی نہیں‌ تھا بلکہ اس کی تعمیر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہوئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اسے ہر طرح سے محفوظ اور دفاعی لحاظ سے مضبوط بنانے پر خاص توجہ دی گئی ہے جب کہ اس قلعے میں‌ بند ہو کر فوج کسی مخالف اور حملہ آور لشکر کا مقابلہ بھی کرسکتی تھی۔ یہاں اس حوالے سے ایک زبردست انتظام نظر آتا ہے جس میں قلعے کی اونچی برجیاں اور چوکیاں، پانی اور اسلحے کے ذخیرہ کا انتظام شامل ہے۔ اس کے علاوہ قلعے کے اندر ہی جیل یا قید خانے، عدالت اور متعلقہ دفاتر بھی بنائے گئے تھے جب کہ حکم رانوں‌ کے قیام و طعام کے لیے کمرے بھی موجود تھے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ جس قلعے کو دفاعی اعتبار سے مضبوط اور محفوظ ترین بنانے کے لیے اتنے جتن کیے گئے اور کئی سال اس کی تعمیر میں‌ لگائے گئے، اس میں‌ افواج کو کبھی جنگ یا اپنا دفاع کرنے کی ضرورت نہیں‌ پڑی۔

  • جب لاہور ریلوے اسٹیشن کا نام "بھوانی جنکشن” رکھا گیا!

    جب لاہور ریلوے اسٹیشن کا نام "بھوانی جنکشن” رکھا گیا!

    ہندوستان پر برطانوی راج کے زمانے میں جان ماسٹرز نامی ایک انگریز فوجی افسر نے ناول نگاری میں‌ بھی نام کمایا۔ ان کے ناول "بھوانی جنکشن” کا ہندوستان میں خوب شہرہ ہوا جس کا موضوع یہ خطّہ اور یہاں‌ برطانوی راج کے خلاف اٹھنے والی آوازیں تھا۔ جان ماسٹرز کے اسی ناول پر ہالی وڈ نے فلم بنائی تھی جس کے کچھ حصّوں کی عکس بندی لاہور ریلوے اسٹیشن پر کی گئی تھی۔ یہ 1955 کی بات ہے۔

    جان ماسٹرز اور ان کے ناول کا چرچا تو ایک طرف ہالی وڈ کی فلم ساز کمپنی اور یونٹ کی لاہور آمد سے لے کر فلم کی عکس بندی تک ہر چھوٹی بڑی خبر اخبارات کی زینت بن رہی تھی اور یہ موضوع سبھی کی توجہ اور دل چسپی کا باعث تھا۔

    جب پاکستان کی فلم نگری میں یہ خبر عام ہوئی کہ ہالی وڈ کی ایک مشہور فلم ساز کمپنی یہاں آرہی ہے تو جیسے ان کی عید ہو گئی۔ دراصل فلم ساز کمپنی کو مختلف کرداروں اور تکنیکی کام کے لیے مقامی آرٹسٹوں اور انجینئروں کی مدد بھی چاہیے تھی اور یوں مقامی لوگوں کو پہلی بار ایک نام ور ادارے اور ماہر لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ لاہور کے آرٹسٹ بہت خوش نظر آرہے تھے۔

    اس فلم کا مرکزی کردار اس دور کے سپر اسٹار ایوا گارڈنر اور اسٹیورٹ گرینجر نے نبھایا تھا۔ ایوا گارڈنر اپنے حسن وجمال اور اسکینڈلز کے باعث دنیا بھر میں مشہور تھیں جب کہ اسٹیورٹ گرینجر اپنی شان دار پرفارمنس کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔

    "بھوانی جنکشن” کا پس منظر انگریز سرکار کے زمانے میں‌ بھارتی علاقوں (ہندوستان) ‌ میں کانگریس کی حکومت مخالف تحریک تھی۔ اس وقت بھوانی جنکشن کے مقام پر کانگریسی ریل کی پٹڑی پر لیٹ گئے تھے اور انگریز سرکار مشکل میں‌ تھی کہ اگر ٹرین کا پہیہ رک جائے تو یہ اس کی کم زوری کو ظاہر کرے گا اور حکومت کی سبکی ہو گی اور اگر ان لوگوں کی پروا کیے بغیر ٹرین گزار دی جائے تو سیکڑوں ہلاک ہو جائیں‌ گے اور ایک ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔

    اس فلم کی شوٹنگ کے لیے پاکستان کی حکومت نے اجازت دینے کے ساتھ فلم ساز کمپنی کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

    لاہور کے قلعے اور آس پاس کے مقامات کے علاوہ اہم مناظر ریلوے اسٹیشن پر فلمائے جانے تھے۔ ریلوے انتظامیہ نے لاہور اسٹیشن کے دو پلیٹ فارم شوٹنگ کے لیے مخصوص کر دیے جہاں فلم کی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کر لی گئیں۔ وہاں عمارت کی تختیوں اور پلیٹ فارم پر لاہور کی جگہ بھوانی جنکشن لکھ دیا گیا۔

    فلم کا یونٹ لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرا تھا جو اس زمانے میں بہترین ہوٹل سمجھا جاتا تھا۔

    (علی سفیان آفاقی کی تحریر سے خوشہ چینی)

  • کرونا، سیاحت کے شعبے میں تبدیلیاں اور ہم

    کرونا، سیاحت کے شعبے میں تبدیلیاں اور ہم

    تحریر: عمیر حبیب

    سیر و سیاحت اور تفریحی سرگرمیاں انسان کو نئی توانائی، ہمت، حوصلہ اور بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع دیتی ہیں۔ سیاحت، سیر اور تفریح کے مقابلے میں باقاعدہ صنعت ہے جس سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔

    کرونا کی وبا نے جہاں عام زندگی اور کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے، وہیں سیاحت اور اس پر انحصار کرنے والے ممالک کی معشیت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔

    سیاحت سے متعلق اقوامِ متحدہ کی عالمی تنظیم کے محتاط اندازے کے مطابق سیاحت میں جہاں رواں سال 80 فی صد تک کمی سے کم از کم 100 ملین ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہے، وہیں اگلے چند سال میں سیاحت ایک مختلف شکل میں ڈھل سکتی ہے۔

    دنیا کے کئی ممالک اب بھی اس وبا کی زد میں ہیں جب کہ بہت سے ممالک نے اس وبا پر قابو پانے کا دعویٰ کیا ہے، ان ممالک میں یونان بھی شامل ہے جس کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کرونا پر قابو پا چکے ہیں اور ملک کو یکم جولائی سے سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ یورپ کے ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوانیا نے تینوں ملکوں میں‌ شہریوں کی آمدورفت کے لیے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا ہے۔

    پرتگال میں ایمرجنسی ختم کردی گئی ہے، مگر کچھ شرائط کے ساتھ اندرون ملک سفری کی اجازت دی گئی ہے۔ جرمنی، فرانس اور اٹلی حالات پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں اور ماضی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یورپ موجودہ حالات پر قابو پا لے گا۔

    پیسیفک ایشیا ٹریول ایسوسی ایشن (پاٹا) کے چیف ایگزیکٹو ماریو ہارڈی کے مطابق آئندہ چند ماہ کے دوران ویتنام اور تھائی لینڈ ایک ٹریول کوریڈور بنانے پر غور کر سکتے ہیں۔ سیاحت کے شعبے کے ماہر اور تجزیہ نگار برینڈن سوبی کو توقع ہے کہ یورپ اور امریکا میں بھی اسی طرح کے انتظامات دیکھنے کو ملیں گے، مگر سیاحت کے لیے ماحول سازگار بنانے میں اگلے چند سال تک خاموشی رہے گی۔

    ماہرین کے مطابق کرونا کے بعد سفر اور سیاحت کے لیے ماحول بننے میں کچھ وقت لگے گا جب کہ بعض ماہرین نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم شاید دوبارہ کبھی اسی طرح سفر نہیں کرسکیں گے۔

    سیاحت ایک ایسی صنعت ہے جو اس وبا کے بعد مکمل تبدیل ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر اس میں بہتری آنے کا امکان ہے، کیو‌ں کہ مستقبل میں صحتِ عامہ کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ سیاحت صرف مسافر کو ہی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ مقامی معیشتوں اور معاشروں پر بھی یکساں اثرات مرتب کرتی ہے۔

    اس وقت معاش اور معیشت دونوں داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ سبھی ممالک سیاحت کو رواں دواں رکھنے کے طریقے سوچ رہے ہیں۔ سیاحت کے شعبے سے متعلق ادارے اور ماہرین اس بات کی کھوج میں لگے ہیں کہ اس صنعت کو کس طرح جدید اور محفوظ بنایا جائے اور ایسے کون سے اقدامات کیے جائیں جن سے چند سال کے اندر نقصانات کو پورا کیا جا سکے۔

    ہمارے ملک میں بھی سیاحتی مقامات جن میں قدیم تہذیبوں کے آثار، تاریخی مقامات اور تفریح گاہیں شامل ہیں، کی کمی نہیں۔ کورونا کی قید میں سیاحت کے لیے گھر سے نکلنے کے بجائے شوقین اسے پڑھ رہے ہیں، یعنی کتابوں اور مختلف ذرایع سے دنیا بھر کے سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھا کررہے ہیں۔

    ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیاحتی مقامات سے متعلق معلومات اور سفر و قیام کی سہولیات سے دنیا کو آگاہی دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں آزاد کشمیر کی وادیوں، پہاڑی سلسلوں، جھیلوں، صدیوں پرانی تہذیبوں اور قدیم عمارتوں کی تصویری جھلکیاں دکھائی جاسکتی ہیں اور ان مقامات کی ویڈیوز تیار کی جاسکتی ہیں جو سیاحوں کو آنے والے دنوں میں پاکستان کا رخ کرنے پر آمادہ کریں۔ اس سے نہ صرف ہمارے ملک کا امیج بہتر ہوگا بلکہ سیاحت کو فروغ ملے گا جس سے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • "رام کوٹ” کی سیر کیجیے!

    "رام کوٹ” کی سیر کیجیے!

    یوں تو وطنِ عزیز میں کائنات کا ہر رنگ، ہر نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے اور قدرتی حسن میں بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں، کوہ سار، چشمے، جھیلیں، دریا اور سمندر کے علاوہ صحرا، ریگستان اور حسین و سرسبز وادیاں شامل ہیں، مگر یہ خطۂ زمین اپنی تہذیب اور بیش قیمت آثار کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

    پاکستان کے قدیم تہذیبی آثار اور تاریخی عمارتوں کی سیر کرنے والا آج بھی انھیں دیکھ کر مبہوت اور دنگ رہ جاتا ہے۔

    ہمارے ملک میں اہم تاریخی اور قدیم دور کی یادگاروں میں کئی قلعے بھی شامل ہیں جنھیں مختلف بادشاہوں، راجاؤں نے تعمیر کروایا اور یہ شان و شوکت اور ان کے دورِ سلطانی کی عظیم نشانیاں ہیں۔

    قلعہ رام کوٹ بھی انہی میں‌ سے ایک ہے جو آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم کے نزدیک واقع ہے۔ کشمیر کی حسین وادی کے علاقے دینا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس قلعے تک پہنچنے کے لیے کشتی سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ تاہم سیر کے لیے جانے والے جب آزاد کشمیر کے علاقے میر پور سے قلعے کو سفر کریں تو سڑک کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سولھویں اور سترھویں صدی عیسوی کے درمیان کشمیر کے راجاؤں نے یہاں کئی قلعے تعمیر کروائے تھے اور رام کوٹ بھی اسی دور کی یادگار ہے۔

    یہ قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر قائم کیا گیا تھا، جس کے اطراف دریا اور سبزہ ہی سبزہ تھا۔ قلعے کے اندر مختلف کمرے، ہال اور تالاب بھی موجود ہیں اور یہ در و دیوار ماضی کی شان و شوکت کی کہانی سناتے معلوم ہوتے ہیں۔

    بدقسمتی سے اس اہم تاریخی ورثے اور طرزِ تعمیر کے شاہ کار کو حکومت اور انتظامیہ کی عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے نہ تو دنیا اور مقامی سیاحوں کی توجہ حاصل ہوئی اور نہ ہی اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کا کوئی بہتر اور مناسب انتظام کیا جاسکا۔ ماہرینِ آثار کے مطابق دفاعی اعتبار سے اس قلعے کی تعمیر کا مقام نسبتا بلند اور رسائی کے لحاظ سے پُرپیچ اور دشوار ہے، لیکن اب حکومت کو چاہیے کہ وہ یہاں تک پہنچنے کے لیے سفری سہولیات دے اور اس کی مرمت اور دیکھ بھال کرے۔

  • صدیوں‌ کی گود میں‌ سانس لیتا جوگیوں کا ٹیلا

    صدیوں‌ کی گود میں‌ سانس لیتا جوگیوں کا ٹیلا

    پنجابی زبان میں ٹیلے کے لیے لفظ ٹلہ برتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ جوگیاں کا اضافہ کر لیں تو ہم اسے ٹلہ جوگیاں کہیں گے، یعنی ایک پہاڑی یا زمین سے کچھ اونچائی پر واقع جوگیوں کے اٹھنے بیٹھنے یا عبادت کرنے کی جگہ۔

    جہلم سے جنوب مغرب کی جانب لگ بھگ 35 کلو میٹر فاصلہ طے کریں تو آپ ٹلہ جوگیاں پہنچتے ہیں جہاں صدیوں پرانے آثار آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔

    یہ سطح زمین سے بلند اور ایک پُرفضا مقام ہے جسے صدیوں پہلے جوگیوں نے اپنے لیے پسند کیا اور یہاں عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ محققین کے مطابق اس علاقے میں آریہ قوم نے لگ بھگ چار ہزار سال پہلے قدم رکھا تھا۔ اس قوم کے مذہبی پیشواﺅں نے پوجا پاٹ کے لیے اس بلند مقام کا انتخاب کیا۔

    آئین اکبری میں ابوالفضل نے ٹلہ کو ہندوﺅں کا ایک قدیم معبد لکھا ہے۔ کہتے ہیں یہاں بعد میں گرو گورکھ ناتھ آئے اور اس مقام پر ان کے پیرو کاروں نے قیام کیا۔ تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ سکندرِ اعظم نے بھی یہاں کے جوگیوں اور ٹلہ کے بارے میں مختلف پُراسرار باتیں سن کر یہاں کا دورہ کیا تھا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ گرو نانک نے بھی ٹلہ میں قیام کیا تھا۔

    تاریخ میں اس مقام کو ٹلہ گورکھ ناتھ اور ٹلہ بالناتھ بھی لکھا گیا ہے جو دو مختلف ادوار میں جوگیوں کے پیشوا رہے۔
    تاریخی آثار کے علاوہ یہ ایک پُرفضا مقام ہے۔ گرمیوں میں یہاں گرمی اور سرد موسم میں ٹھنڈی ہوائیں آنے والوں کا استقبال کرتی ہیں۔ قریب ہی جنگل اور ہریالی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔

    ٹلہ میں مختلف ادوار کے آثار موجود ہیں۔ ان میں مندر، سمادھیاں اور جوگیوں کے رہائشی غار بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں مغل طرز کا ایک تالاب بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے جوگیوں کی درخواست پر بادشاہ اکبر کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔

    اس خطے میں مختلف ادوار میں سلاطین اور امرا نے بھی ٹلہ کے مذہبی پیشواؤں اور جوگیوں کا خیال رکھا اور انھیں سہولیات فراہم کیں۔ کہتے ہیں کہ اکبر نے علاقہ نوگراں کو ٹلہ کی جاگیر کا درجہ دے کر اس کے محاصل سے ٹلہ اور مضافات کی تزئین و آرائش کا کام کروایا تھا۔

  • پاکستان شالامار باغ کو خطرناک عمارتوں میں شامل ہونے سے بچانے میں کامیاب

    پاکستان شالامار باغ کو خطرناک عمارتوں میں شامل ہونے سے بچانے میں کامیاب

    اسلام آباد: پاکستان تاریخی شالا مارباغ کو خطرناک عمارتوں میں شامل ہونے سے بچانے میں کام یاب ہو گیا، عالمی ورثہ کمیٹی نے پاکستان کا مؤقف تسلیم کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق آذربائیجان کے شہر باکو میں یونیسکو کی عالمی ورثہ کمیٹی کا 43 واں اجلاس منعقد ہوا، جس میں پاکستان کی نمایندگی وزیر سیاحت پنجاب راجہ یاسر ہمایوں نے کی۔

    یونیسکو کے اجلاس میں شالا مار باغ کو میٹرو ٹرین پروجیکٹ کی وجہ سے ممکنہ درپیش نقصان کا جائزہ لیا گیا، راجہ یاسر نے شالا مار باغ کے تحفظ کے لیے عالمی ادارے کی کمیٹی کو حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا۔

    صوبائی وزیر سیاحت کا کہنا ہے کہ یونیسکو نے شالا مار باغ کو خطرناک ورثے کی فہرست میں شامل نہیں کیا، عالمی ورثہ کمیٹی نے پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے۔

    راجہ یاسر ہمایوں نے کہا کہ پاکستانی مؤقف کو تسلیم کرنا سفارتی سطح پر پاکستان کی کام یابی ہے، حمایت کے لیے مختلف ممالک سے سفارتی سطح پر بات کی گئی تھی، جب کہ حکومت پاکستان نے تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے بھی مؤثر اقدامات کیے۔

    خیال رہے کہ اورنج ٹرین منصوبے کی وجہ سے عالمی ادارے یونیسکو نے شالا مار باغ کا مقدمہ کر رکھا ہے۔

    واضح رہے کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو عالمی سطح پر تعلیم، سائنس اور ثقافت سے متعلق معاملات دیکھتا ہے، اس ادارے نے مشرقی یروشلم میں قدیم یہودی مقامات کو فلسطینیوں کا ثقافتی ورثہ قرار دے کر 2011 میں اسے مکمل رکنیت دے دی تھی، جس پر اسرائیل اور امریکا نے رواں سال یکم جنوری کو یہ ادارہ چھوڑ دیا۔

    شالامار باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641-1642 میں تعمیر کرایا تھا، یہ باغ ایک مستطیل شکل میں ہے اور اس کے ارد گرد اینٹوں کی ایک اونچی دیوار ہے، باغ کے تین حصے ہیں جن کے نام فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش ہیں۔

    اس میں 410 فوارے، 5 آبشاریں اور آرام کے لیے کئی عمارتیں ہیں اور مختلف اقسام کے درخت ہیں، 1981 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا تھا۔