Tag: پاکستان کے مشہور ساز

  • الغوزہ نواز مصری خان جمالی کا یومِ وفات

    الغوزہ نواز مصری خان جمالی کا یومِ وفات

    نام ور الغوزہ نواز مصری خان جمالی 10 نومبر 1980ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ آج پاکستان کے اس معروف سازندے کی برسی ہے جس نے پاکستان کی لوک موسیقی اور ایک مقامی ساز کو بجانے کی روایت کو تاعمر زندہ رکھا اور اس فن کی بدولت دنیا میں‌ پہچان بنائی۔

    مصری خان جمالی 1921ء میں جیکب آباد کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے سندھ کے شہر نواب شاہ میں‌ آلاتِ موسیقی بنانے کا کاروبار شروع کیا اور اسی دوران الغوزہ بجانے میں‌ ان کی مہارت کے سبب ریڈیو تک رسائی ممکن ہوئی۔ یہ بانسری نما ساز ہے جسے منہ سے بجایا جاتا ہے۔ بعد میں ان کا یہ فن انھیں ٹیلی وژن تک لے گیا۔ وہ نوجوانی ہی میں الغوزہ بجانے کے لیے مشہور ہوچکے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستگی کے دوران ان کی دھنوں اور اس ساز کا چرچا بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔

    مصری خان جمالی اپنے دور کے ایک مقبول الغوزہ نواز تھے جنھوں نے اپنی دل نواز دھنوں‌ سے سامعین کو محظوظ کیا اور اس ساز سے محبت اور اس کی خدمت کرتے رہے۔1979ء میں‌ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ وہ نواب شاہ میں قبرستان حاجی نصیر میں آسودۂ خاک ہیں۔

    جدید سازوں‌ اور موسیقی کے بدلتے ہوئے انداز نے جس طرح‌ کئی آلاتِ موسیقی کو مٹا دیا، اسی طرح پاک و ہند کی لوک موسیقی کا مقبول ترین ساز الغوزہ اور اس کے بجانے والے بھی اب نہیں‌ رہے۔

  • اکتارہ کے ماہر اور مشہور لوک فن کار سائیں مرنا کی برسی

    اکتارہ کے ماہر اور مشہور لوک فن کار سائیں مرنا کی برسی

    برصغیر کے کئی قدیم اور روایتی ساز یا تو بے نام و نشان ہوچکے ہیں‌ یا کسی میوزیم میں قید ہیں جب کہ ان سازوں‌ سے سماں باندھ دینے والے زندگی کی قید سے آزاد ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں کلاسیکی موسیقی، سُر اور ساز کی دنیا کے ایک باکمال کو سائیں مرنا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جن کی آج برسی ہے۔ وہ اکتارہ نواز تھے جنھوں‌ نے اپنے فن کی بدولت خوب شہرت حاصل کی۔

    27 اکتوبر 1961ء کو پاکستان کے نام ور اکتارہ نواز سائیں مرنا وفات پاگئے تھے۔ ان کا اصل نام تاج الدین تھا۔ 1910ء میں امرتسر کے ایک گائوں میں پیدا ہونے والے سائیں‌ مرنا کو عشق میں ناکامی کے بعد موسیقی نے اپنی طرف مائل کیا تو وہ اکتارہ بجانے لگے۔ وہ فقط سازندے نہیں‌ تھے بلکہ اس ساز میں اختراعات بھی کیں اور اسے وچتر وینا کی طرح بجانے لگے اور اس پر ایسی قدرت حاصل کی کہ ہر طرف ان کا شہرہ ہونے لگا۔ 1946ء میں انھیں ریڈیو، لاہور پر پہلی مرتبہ اکتارہ بجانے کا موقع ملا۔

    وہ بزرگانِ دین کے مزارات خصوصاً حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر اکتارا بجاتے رہے۔ سائیں‌ مرنا جڑانوالہ، ضلع فیصل آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ اکتارہ میں اختراعات اور اس کی شکل بدلنے کے ساتھ ساتھ اسے بجانے میں‌ مہارت رکھنے والے اس فن کار کے ساتھ ہی گویا یہ خوب صورت ساز اور اس کے وجود سے پھوٹنے والی ترنگ بھی ہمیشہ کے لیے دم توڑ گئی۔