Tag: پاکستان کے مشہور گلوکار

  • فنِ موسیقی کے استاد امید علی خان کا یومِ وفات

    فنِ موسیقی کے استاد امید علی خان کا یومِ وفات

    آج پاکستان میں کلاسیکی موسیقی اور گائیکی میں ممتاز استاد امید علی خان کی برسی ہے۔ وہ 14 جنوری 1979ء کو وفات پاگئے تھے۔

    استاد امید علی خان 1914ء میں امرتسر کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق موسیقی میں مشہور گوالیار گھرانے سے تھا۔ امید علی خان کے والد استاد پیارے خان اور دادا استاد میران بخش اپنے زمانے کے مشہور گلوکار تھے۔

    موسیقی اور گائیکی کے حوالے سے استاد امید علی خان کی تعلیم و تربیت میں ماحول کا بڑا اثر تھا۔ انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی پھر پٹیالہ گھرانے کے استاد عاشق علی خان کی شاگردی اختیار کر لی۔ یوں امید علی خان نے گائیکی میں گوالیار اور پٹیالہ گھرانوں کے رنگ اور خصوصیات کو اپنایا اور اس فن میں مہارت حاصل کرتے چلے گئے۔

    استاد پیارے خان ایک زمانے میں ریاست خیرپور سے وابستہ ہوگئے تھے اور استاد امید علی خان کی عمر کا خاصا حصّہ سندھ دھرتی پر گزرا۔

    امید علی خاں سے فنِ موسیقی اور گائیکی میں اکتساب کرنے والوں میں منظور حسین، فتح علی خاں اور حمید علی خان نمایاں ہوئے۔

    استاد امید علی خان لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر موسیقار اور سارنگی نواز استاد بندو خان کا یومِ وفات

    نام وَر موسیقار اور سارنگی نواز استاد بندو خان کا یومِ وفات

    13 جنوری 1955ء کو نام ور موسیقار اور مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان وفات پاگئے۔ 1959ء میں بعد از مرگ حکومت کی جانب سے ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا گیا۔ آج استاد بندو خان کا یومِ وفات ہے۔

    موسیقی اور سارنگی کا ابتدائی درس اور سازوں کی تربیت اپنے والد علی جان خان سے جب کہ اپنے ماموں اُستاد مَمَن سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ استاد بندو خان آل انڈیا ریڈیو، دہلی اسٹیشن کے قیام کے فوراََ بعد ہی اس سے منسلک ہو گئے تھے۔ انھوں نے ریاست رام پور اور اندور کے دربار میں اپنے فن کی بدولت عزت پائی۔

    ہندوستان کی قدیم کلاسیکی موسیقی کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی غرض سے استاد بندو خان نے سنسکرت بھی سیکھی۔ یہ ان کے اپنے فن سے لگاؤ اور جنون کی ایک مثال ہے۔

    1880ء میں دہلی میں پیدا ہونے والے بندو خان کے والد علی جان خان بھی سارنگی بجاتے تھے۔ سُر ساگر کے موجد ممّن خان ان کے ماموں تھے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد بندو خان کراچی چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ استاد بندو خان نے کراچی ہی میں‌ مختصر علالت کے بعد دارِ فانی سے کوچ کیا۔

  • پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کی برسی

    فیروز نظامی پاکستان کے نام ور موسیقار تھے جن کی آج برسی ہے۔ فیروز نظامی 65 سال کی عمر میں 15 نومبر 1975 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    فیروز نظامی 1910 کو لاہور کے ایک فن کار گھرانے میں‌ پیدا ہوئے۔ اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کے دوران انھوں‌ نے موسیقی کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔ اس کے لیے وہ اپنے ہی خاندان کے مشہور موسیقار استاد عبدالوحید خان کیرانوی کے زیرِ تربیت رہے اور خود بھی اس فن میں‌ استاد کا درجہ حاصل کیا۔

    1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر ملازم ہوئے۔ انھو‌ں نے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی کی فلمی صنعت سے ناتا جوڑ لیا اور وہاں بھی خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل تھیں۔ فیروز نظامی کی وجہِ شہرت شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی بدولت فیروز نظامی کے فن و کمال کا بہت چرچا ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور لوٹ آئے تھے جہاں انھوں نے متعدد فلموں‌ کے لیے لازوال موسیقی ترتیب دی۔ ان کی فلموں میں سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن اور غلام شامل تھیں۔ نام ور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سَر ہے۔

    فیروز نظامی نے سُر اور ساز، دھن اور آواز کی نزاکتوں، باریکیوں اور اس فن پر اپنے علم اور تجربات کو کتاب میں بھی محفوظ کیا جو ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ایسے موسیقار بہت کم ہیں‌ جنھوں‌ نے اس فن کو اگلی نسل تک پہنچانے اور موسیقی و گائیکی کی تعلیم و تربیت کے لیے تحریر کا سہارا لیا۔ ان کی کتابوں‌ میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات سرِفہرست ہیں۔ فیروز نظامی کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نزاکت علی خان: کلاسیکی موسیقی کے استاد اور نام ور گلوکار کی برسی

    نزاکت علی خان: کلاسیکی موسیقی کے استاد اور نام ور گلوکار کی برسی

    استاد نزاکت علی خان کا نام فن و ثقافت کی دنیا میں کسی تعارف اور حوالے کا محتاج نہیں۔ آج پاکستان کے اس نام ور کلاسیکی موسیقار اور گلوکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    نزاکت علی خان 14 جولائی 1983 کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق ضلع ہوشیار پور کے چوراسی نامی قصبے سے تھا جو سُروں اور راگنیوں کے ماہر اور موسیقی کے شیدائیوں کے لیے مشہور ہے۔

    1932 کو پیدا ہونے والے نزاکت علی خان کا سلسلہ نسب استاد چاند خان، سورج خان سے ملتا ہے جو دور اکبری کے نام ور گلوکار اور تان سین کے ہم عصروں میں شامل تھے۔

    استاد نزاکت علی خان کے والد استاد ولایت علی خان بھی اپنے زمانے کے نام ور موسیقار تھے اور انھوں‌ نے والد ہی سے گائیکی سیکھی اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد استاد نزاکت علی خان ملتان آگئے اور بعد میں لاہور کو اپنا مستقر ٹھہرا لیا۔

    جلد ہی ان کا شمار پاکستان کے نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں میں ہونے لگا۔ استاد نزاکت علی خان کو اس فن کی خدمت کے اعتراف میں‌ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز دیا گیا۔