اسلام آباد (20 اگست 2025): پاکستان کی کامیاب سفارتکاری سے پاک امریکا تعلقات نئی بلندیوں تک پہنچ گئے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی کامیاب ڈپلومیسی کا پوری دنیا اعتراف کر رہی ہے، اسی سلسلے میں بین الاقوامی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے بھی پاکستان کی حالیہ سفارت کاری مہم کو بہترین قرار دے دیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے لکھا فیلڈ مارشل عاصم منیر کے دورہ امریکا کو تعلقات میں "ایک نئی جہت کی علامت "قرار دیا جارہا ہے، ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونا پاکستان کیلئے چیلنج سمجھا جارہا تھا لیکن بدلتے عالمی حالات میں پاکستانی حکام نے وائٹ ہاؤس کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دیا۔
امریکا نے انسداد دہشت گردی کے خلاف پاکستانی اقدامات کی تعریف کی، پاکستانی کامیاب سفارتکاری کی بدولت کالعدم تنظیم بی ایل کو امریکا نے عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا، پاکستان نے امریکا کو کرپٹو کے منصوبوں اور معدنیات کی ترقی میں شراکت کی پیشکش کی۔
امریکی اخبار نے لکھا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا، بھارت سے جنگ بندی کے بعد پاک امریکا تعلقات میں مزید تیزی آئی۔
اسلام آباد : فیلڈ مارشل عاصم منیر کی دانشمندانہ حکمت عملی سے پاک امریکا بڑھتی قربت سے بھارت کو بڑا دھچکا لگا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان اور ٹرمپ انتظامیہ کے تعلقات میں تیزی سے بہتری نے بھارت کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے، جبکہ بین الاقوامی میڈیا بھی پاکستان کی کامیاب سفارتکاری کا معترف ہو گیا ہے۔
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے لکھا پاک-امریکا تعلقات میں حالیہ گرمجوشی بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے ، بھارت کیساتھ کشیدگی کے بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر کے امریکا کے دو بار دورے نے سب کو حیران کردیا۔
فنانشل ٹائمز نے کہا کہ فیلڈ مارشل کی حالیہ امریکی سرگرمیوں نے پاک امریکا تعلقات کو غیرمتوقع گرمجوشی بخشی اور غیرمعمولی سفارتی حکمت سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اعتماد جیت کر جنوبی ایشیا کے سیاسی منظرنامے کو ہلا دیا۔
برطانوی اخبار نے لکھا پہلے دورے میں انہوں نے واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ عشائیہ کیا، جبکہ دوسرے دورے کے دوران فلوریڈا میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا کی ریٹائرمنٹ تقریب میں شرکت کی، جنرل ڈین کین کو یادگاری شیلڈ پیش کی اور انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔
ذرائع نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس سے براہ راست روابط اور ٹرمپ کے قریبی کاروباری حلقوں سے تعلقات نے پاکستان کو واشنگٹن کی ترجیحات میں نمایاں مقام دلا دیا ہے۔
سینئر فوجی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف تعاون، کرپٹو کرنسی اور معدنی وسائل کے شعبوں میں امریکی مفادات کو راغب کرنے کے لیے منظم حکمت عملی اپنائی، جبکہ پاکستان کی "کرپٹو ڈپلومیسی” اس کامیابی کا ایک اہم ستون رہی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جنرل عاصم منیر نے بیجنگ اور ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا، جبکہ ٹرمپ کے ساتھ قربت میں اضافہ کیا۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر مارون وین بام کے مطابق پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جو بیک وقت متعدد عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ادھر بھارت کو روس سے تیل کی خریداری پر 50 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑا، جس سے اس کی معاشی اور سفارتی مشکلات میں اضافہ ہوا۔
پاک-بھارت تنازع میں پاکستان نے تحمل اور طاقت کا متوازن امتزاج دکھایا، جس کے بعد امریکا اور خلیجی ممالک کی ثالثی سے جنگ بندی عمل میں آئی۔
پاکستان نے اس کا کریڈٹ ٹرمپ کو دیا، تاہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی ثالثی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی فوجوں کے براہ راست رابطوں سے ممکن ہوئی۔
بلومبرگ نے کہا ہے کہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت نئی دہلی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا، پاک امریکا تعلقات سے بھارت کو شدید پریشانی لاحق ہے۔
معروف امریکی جریدے بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے حق میں امریکی جھکاؤ سے نئی دہلی بوکھلاہٹ کا شکار ہے جبکہ امریکا سے نئے تعلقات کے بعد پاکستانی قیادت کا اعتماد مزید بڑھ گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کا پسندیدہ ملک بنا ہوا ہے جبکہ بھارت کو دباؤ کاسامنا ہے، پاکستان نے ٹرمپ کے سامنے اپنے پتے بہترین طریقے سے استعمال کیے ہیں۔
امریکا اور پاکستان کے درمیان کسی مسئلے کے بغیر آسانی سے تجارتی معاہدہ طے پایا، پاکستان کے برعکس بھارت کو رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
بلومبرگ رپورٹ کے مطابق پاکستان صدر ٹرمپ کے دور میں امریکی تجارتی معاہدہ کرنے والے چند ممالک میں شامل ہے۔
پاکستان اور امریکا کے مابین تیل اور دیگر معدنیات کے مشترکہ منصوبوں پر بات چیت ہوئی، ورلڈ لبرٹی فنانشل کا پاکستان میں کرپٹو کرنسی معاہدہ طے پایا۔
بلوم برگ رپورٹ کے مطابق فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے اہم ملاقات ہوئی، امریکا کے ساتھ یہ نئی گرم جوشی پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، پاکستان اور امریکا کے بڑھتے تعلقات سے بھارت کو پریشانی کا سامنا ہے۔
امریکا کے پالیسی ساز ادارے نے پاکستان سے تعلقات برقرار رکھنا امریکا کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے، بھارت سے حالیہ کشیدگی نے پاکستان کی اہمیت اجاگر کی۔
امریکا کے پالیسی ساز ادارے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ انسداد دہشت گردی پر پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد باہمی دلچسپی کے امور میں عملی شراکت داری کی بنیاد رکھیں، اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان تنازعات کسی کے مفاد میں نہیں۔
تفصیلات کے مطابق امریکا کے پالیسی ساز ادارے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے خارجہ پالیسی سے متعلق پاکستان پر رپورٹ جاری کردی۔
ادارے نے تجویز دی ہے کہ مستحکم جنوبی ایشیا کے لیے مستحکم پاکستان کا ہونا ضروری ہے، امریکا کے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا یہ بہترین موقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کو مشترکہ مفادات پر توجہ دینا ہوگی، جنوبی ایشیا کے حالیہ بحران نے پاکستان کی اہمیت اجاگر کی۔ پاکستان کی شکایت ہے کہ امریکا نے پاکستان کے تحفظات اور مفادات نظر انداز کیے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ افغانستان اور بھارت سے متعلق پاکستان کا نقطہ نظر امریکا سے مختلف ہوسکتا ہے، اس بات پراصرار نہ کیا جائے کہ پاکستان بھی اپنے ہمسایوں کو مغرب کی نظر سے دیکھے، وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک باہمی دلچسپی کے امور میں عملی شراکت داری کی بنیادرکھیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا پاکستان چین کے ساتھ بھی گہرے تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا پاکستان کو چین کے حوالے نہ کرے۔ پاکستان پر اثرو رسوخ کے ذرائع تلاش کرنا دانش مندی ہوگی۔
ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان سرحد سے پاکستان کو شدید سیکورٹی خطرات کاسامنا ہے، افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے ہچکچاتے ہیں۔
پاکستان کی انسداد دہشت گرد کارروائیوں سے امریکا فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ رپورٹ میں کیمرون منٹر، این پیٹرسن، رابن رافیل، حسین حقانی سمیت امریکا اور پاکستان کے کئی سابق سفیروں کی آراء بھی شامل ہیں۔
اسلام آباد: ڈیجیٹل معیشت میں پاک امریکا تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے اہم پیشرفت ہوئی ہے، نوجوانوں کیلئے اے آئی میں تعاون پرتبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان کرپٹو کونسل کے سی ای او کی امریکی سفیر سے ملاقات ہوئی ہے، اعلامیہ میں بتایا گیا کہ سی ای او بلال بن ثاقب نے قائم مقام سفیر ناتالیابیکر سے ملاقات کی، نوجوانوں کیلئے بلاک چین اور اے آئی میں تعاون پرتبادلہ خیال کیا گیا، ملاقات کا مقصد نوجوانوں کو ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی مہارتوں سے آگاہ کرنا تھا۔
اعلامیہ میں بتایا گیا کہ ملاقات کا مقصد امریکی اداروں اور پاکستانی کاروباری ماحولیاتی نظام میں روابط قائم کرنا تھا، کونسل پاکستان بلاک چین، اے آئی کو اپنی معیشت کا مرکزبنانے کیلئے پُرعزم ہے۔
بلال بن ثاقب نے کہا کہ پاکستان دنیا کی سب سے زیادہ نوجوان آبادی کی شرح رکھنے والا ملک ہے، پاکستانی نوجوان ویب تھری اور اے آئی مستقبل کی قیادت کیلئے تیار ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ ٹیلنٹ ایکسچینج، امریکی ٹیک کمپنیوں کے مشترکہ پروگرام شروع کیےجائیں، کونسل بلاک چین کو سفارتکاری، تعلیم کا ایک مؤثر ذریعہ بنانے کیلئے پُرعزم ہے۔
اسلام آباد: افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ٹام ویسٹ پاکستان کا دورہ کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کئی معاملات پر مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں، مشاورت کو آگے بڑھانے کے لیے دوروں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے، اس تناظر میں آنے والے دنوں میں اہم دورے شیڈول ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ٹام ویسٹ 7 تا 9 دسمبر پاکستان کا دورہ کریں گے، جب کہ امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری جولیٹا والس نوئیس 4 دسمبر سے پاکستان کا 2 روزہ دورہ کریں گی۔
پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری الزبتھ ہورسٹ 9 تا 12 دسمبر پاکستان کا دورہ کریں گی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی عہدیداروں کے یہ دورے صرف افغان صورت حال تک محدود نہیں ہیں،یہ دورے امریکا کے ساتھ افغان صورت حال سمیت متعدد مسائل پر مذاکرات کا حصہ ہیں۔
اسلام آباد: پاک امریکا تعلقات پر جمی برف پگھلنے لگی ہے آئندہ ماہ سے ہیلتھ ڈائیلاگ کا آغاز ہونے والا ہے۔
وزارت صحت کے ذرائع کے مطابق پاک امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ کا دوسرا مرحلہ اسلام آباد میں آئندہ ماہ منعقد ہوگا، امریکا نے پاکستان کو سفارتی سطح پر ہیلتھ ڈائیلاگ کے انعقاد سے آگاہ کر دیا۔
ہیلتھ ڈائیلاگ کا دوسرا فیز پاکستان کی درخواست پر شروع ہو رہا ہے، ڈائیلاگ میں شرکت کے لیے اعلیٰ سطح کا امریکی وفد آئندہ ماہ پہنچے گا، امریکی ماہرین صحت اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ حکام وفد کا حصہ ہوں گے۔
ذرائع وزارت صحت کے مطابق پاک امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ کا پہلا فیز جولائی 2022 میں امریکا میں ہوا تھا، جب کہ دوسرا فیز ستمبر 2022 میں ہونا تھا، تاہم گزشتہ حکومت میں پاک امریکا تعلقات میں خرابی کے باعث سیکنڈ فیز نہیں ہو سکا تھا، پہلے فیز میں 7 شعبوں پر بات ہوئی تھی۔
ہیلتھ ڈائیلاگ میں شعبہ صحت میں باہمی تعاون کے فروغ پر بات ہوگی، شعبوں میں متعدی و غیر متعدی امراض، نیوٹریشن اور چائلڈ ایمونائزیشن شامل ہیں، ڈائیلاگ میں سی ڈی سی، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں اصلاحات، گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی سروسز کی بہتری اور انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز پر عمل درآمد کے لیے اقدامات، نیوٹریشن، ماں بچے کی صحت کے مسائل، ملیریا، ٹی بی، اور ایڈز کے خاتمے کے لیے اقدامات زیر غور آئیں گے۔
ذرائع کے مطابق پاک امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر صحت کریں گے، ڈی جی ہیلتھ پاکستان ڈاکٹر بصیر اچکزئی اور سی ای او ڈریپ ڈاکٹر عاصم رؤف ڈائیلاگ میں شریک ہوں گے۔ واضح رہے کہ پاک امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ کا آغاز امریکا کی جانب سے کیا گیا تھا، ڈائیلاگ کے 9 سے زائد ورچول راؤنڈز بھی ہو چکے ہیں، پاکستان فرسٹ فیز میں درپیش چیلنجز کی نشان دہی کر چکا ہے۔
امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ میں پاکستان کو شعبہ صحت میں ممکنہ تعاون سے آگاہ کرے گا، اور پاکستانی شعبہ صحت میں اصلاحات کے لیے معاونت، ٹیکنالوجی ٹرانسفر میں تعاون کرے گا، نیز، پاکستانی طبی ماہرین اور عملے کو ٹریننگ دے گا، شعبہ صحت کی اپ گریڈیشن، کرونا، پولیو، متعدی، غیر متعدی امراض کے لیے تعاون کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول، اور لیبارٹریز کے لیے آلات بھی فراہم کرے گا۔
واشنگٹن : امریکی سینیٹر کرس مرفی کا کہنا ہے کہ پاک امریکا تعلقات وقت کی کسوٹی پر پورے اترے ہیں اور امید ہے اگلے 75 سال میں یہ تعلقات مزید بڑھیں گے۔
تفصیلات کے مطابق پاک امریکا سفارتی تعلقات کے 75 سال مکمل ہونے پر امریکی سینیٹر کرس مرفی نے اپنے پیغام میں کہا کہ امریکی سینٹ کے نزدیک پاکستان اور امریکا کے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
طپاک امریکاتعلقات وقت کی کسوٹی پرپورااترےہیں ، امید ہے کہ گزشتہ برسوں کی طرح اگلے 75سالوں میں یہ تعلقات مزید بڑھیں گے۔
خیال رہے کرس مرفی امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات ذیلی کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔
پاکستانی سفیرمسعودخان نے سینیٹرمرفی کے حوصلہ افزا بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا سینٹرمرفی پاکستانی کےحقیقی دوست،پاک امریکاتعلقات کے وکیل ہیں، درست کہا پاک امریکاتعلقات وقت کی کسوٹی پر پورا اترے ہیں۔
مسعود خان کا کہنا تھا کہ معاشی عنصر کو محور بناتےہوئے یہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
بھٹو عہد میں مجھے دو مرتبہ ملک سے باہر جانے کا اتفاق ہوا اور انہوں نے دونوں مرتبہ اس کی اجازت دے دی۔
پہلی مرتبہ 1973ء میں امریکی حکومت کی طرف سے مجھے لیڈر شپ پروگرام کے تحت امریکا یاترا کی دعوت ملی۔ بھٹو نے امریکا جانے کی اجازت دینے سے پیشتر مجھے بلوایا اور اس زمانے میں پاکستانی سفیر سلطان محمد خان کے بارے میں مجھے اپنے تاثرات لکھنے کے لیے کہا۔
بات یہ ہے کہ جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں انہی کی وساطت سے کسنجر نے چین کا دورہ کیا اور اس طرح امریکا کے چین کے ساتھ براہِ راست تعلقات استوار کرنے کا موقع پاکستان نے فراہم کیا۔ نتیجہ میں سوویت روس (جس کے تعلقات چین کے ساتھ بہت خراب تھے) پاکستان سے ناراض ہو گیا اور پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کر کے اس نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو سخت سبق سکھایا۔ بھٹو کے دل میں جس طرح امریکا کے خلاف گرہ تھی، اسی طرح وہ سلطان محمد خان کو شعیب (جنرل ایوب خان کے وزیر خزانہ) کی طرح امریکا کا ایجنٹ سمجھتے تھے۔ واشنگٹن پہنچنے پر پاکستانی سفارت خانے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں نے میرا استقبال کیا۔
سفارت خانے کی دعوت میں مجھے امریکا کے فیڈرل سپریم کورٹ کے معروف جج جسٹس اوڈگلس سے ملاقات کا موقع ملا۔ جسٹس اوڈگلس کی عمر تقریباً پچاسی برس کی تھی اور انہوں نے اٹھائیس سالہ خاتون سے شادی کر رکھی تھی۔ وہ واشنگٹن میں عموماً پاکستانی سفارت خانے کے یومِ اقبال کی تقاریب کی صدارت کرتے تھے۔ کافی سترے بہترے تھے۔ مثال یہ ہے کہ انہوں نے مجھے فیڈرل سپریم کورٹ دیکھنے کی دعوت دی اور بعد ازاں اپنے رفقائے کار ججوں کے ساتھ لنچ میں شرکت کے لیے کہا، مگر چند ہی لمحوں کے بعد بھول گئے کہ میں کون ہوں، جس پر ان کی بیوی نے انہیں یاد دلایا کہ وہی ہیں جن کو دعوت دی ہے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اس قسم کا عمر رسیدہ جج مقدمات کے فیصلے کس طرح کر سکتا ہے۔ (امریکا میں سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں، البتہ وہ خود چاہے تو ریٹائر ہو سکتا ہے۔)
میں نے سفیر صاحب کے ساتھ سپریم کورٹ کی عمارت کی سیر کی۔ عدالت کا وہ ہال بھی دیکھا جس میں مستقل طور پر امریکی صدر کی کرسی رکھی گئی ہے۔ رواج کے مطابق وہ نیچے کھڑا ہو کر ڈائس پر کھڑے نئے چیف جسٹس سے حلف لیتا ہے۔ بعدازاں سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ اس عمارت کی سب سے اوپر کی منزل پر واقع ریستوران میں لنچ کھایا۔ اس زمانے میں جسٹس وارن برگر چیف جسٹس تھے اور ان کی عمر بھی تقریباً اسی برس تھی۔ مجھ سے میری عمر پوچھی۔ میں نے بتایا کہ انچاس برس کا ہوں۔ فرمایا کہ آپ تو ابھی بچے ہو۔ جج صاحبان میری اس بات پر بڑے خوش ہوئے کہ پاکستان میں اعلیٰ عدالتیں صبح آٹھ بجے کام شروع کرتی ہیں اور ایک بجے دوپہر تک کام ختم کر دیتی ہیں۔ کہنے لگے کہ اے کاش کم از کم گرمیوں میں یہاں بھی ہم ایسے اوقات متعین کر سکیں تاکہ دوپہر کا کھانا اپنے اپنے گھر جا کر کھا سکیں۔ وہ سب اس بات کے بھی بڑے خواہشمند تھے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں انہیں تعطیلات گزارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جو اربابِ بست و کشاد جنوبی ایشیا کے معاملات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے سفیر صاحب کے ساتھ مجھے لنچ پر مدعو کیا۔ اس لنچ پر امریکی افسروں نے ہمارے سفیر سلطان محمد خان کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ کیپٹل ہل میں سلطان محمد خان کی مقبولیت دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ نہ صرف وہ امریکا کے آدمی ہیں بلکہ مجھے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ بھٹو حکومت نے اگر امریکا سے فائدہ اٹھانا ہے تو سفیر کے عہدے کے لیے صرف وہی موزوں ہوں گے۔
لاہور پہنچ کر میں نے سفر کی رپورٹ بھٹو کو بھیج دی۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ بھٹو مری میں تھے۔ مجھے وہیں بلا بھیجا۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے، ”سلطان محمد خان دو وجوہ کی بنا پر تمہیں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں لے کر گیا تھا۔ ایک تو یہ کہ تم مجھے آکر بتاؤ کیپٹل ہل میں وہ کس قدر مقبول ہے اور دوسری یہ کہ تم کس حد تک امریکا کے کام آ سکتے ہو۔“ بھٹو نے شاید شعیب یا امریکا کو چڑانے کی خاطر میکسیکو میں پاکستانی سفارت خانہ قائم کرنے کے لیے انور آفریدی کو وہاں پہلے پاکستانی سفیر کے طور پر بھیجا تھا۔
اسلام آباد: پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے امریکی انڈر سیکریٹری برائے سیاسی امور کو ٹیلیفون کر کے دو طرفہ تعلقات اور علاقائی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے امریکی انڈر سیکریٹری پالیٹیکل افیئرز وکٹوریہ نولینڈ سے فون پر رابطہ کر کے باہمی دل چسپی کے امور پر گفتگو کی، سیکریٹری خارجہ نے کہا پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر اور مستحکم کرنا چاہتا ہے۔
سہیل محمود نے کہا امن اور ترقی کے مشترکہ اہداف کا حصول دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ روابط کے ذریعے ہی ممکن ہے، جیو اکنامک مقاصد پاکستان اور امریکا کے درمیان اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری پر مبنی تعلقات کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے پاکستان کا مؤقف دہراتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں تنازعات کا کوئی فوجی حل موجود نہیں، انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان افغان امن اور مفاہمتی عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔
سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان مسئلے کے پُر امن حل کے لیے پاکستان اور امریکا کے درمیان مکمل ہم آہنگی موجود ہے، اس وقت بین الافغان مذاکرات میں تیزی لانے اور ذمہ دارانہ انخلا یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اس گفتگو کے دوران مشترکہ مقاصد کے حصول کی خاطر دونوں ملکوں کے درمیان روابط جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔