Tag: پاک بھارت جنگ

  • 19 ستمبر: بھارت کے وزیر تعلیم مسٹر چھاگلہ نے سیکیورٹی کونسل سے کیا کہا؟

    19 ستمبر: بھارت کے وزیر تعلیم مسٹر چھاگلہ نے سیکیورٹی کونسل سے کیا کہا؟

    19 ستمبر پاک بھارت جنگ کا وہ تاریخی دن ہے جب بھارت کے وزیر تعلیم ایم سی چھاگلہ نے سیکیورٹی کونسل سے کہا کہ بھارت بغیر کسی شرط کے فائر بندی پر تیار ہے، ہم فائر بندی کو کشمیر کے مسئلے کے ساتھ جوڑنے کو رد کرتے ہیں۔

    سنڈے ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت کو فضائی اور زمینی جنگ میں بدترین ذلت کا سامنا کرنا پڑا، بھارتی جنگی قیدیوں نے انکشاف کیا کہ ذات پات کے نظام نے بھارتی آرمی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

    میجر کے عہدوں سے اوپر کے آفیسرز جنگی محاذوں پر نہیں آتے، سپاہیوں کو احکامات دینے کے بعد انھیں لڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، سپاہیوں کی میدان جنگ سے بھاگ جانے کی صورت میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

    سری لنکا کی سابق وزیر اعظم مسز بندرا نائکے نے کہا کہ بھارت نے اس جنگ میں جارحیت کا مظاہرہ کیا، کمانڈنٹ پی ایم اے نے پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے دوران کہا پاکستانی سرحدوں پر بھارت کے حملے سے پاکستانی فورسز کو شان دار انداز میں تاریخ رقم کرنے کا موقع ملا ہے۔

    کھیم کرن کے علاقے میں 3 فضائی حملے کیے گئے، جنھیں کامیابی کے ساتھ پسپا کر دیا گیا، پاکستانی چیف نے کہا بھارتی ہوا بازوں کو خاص طور پر ہدف کو خطا کرنے کی تربیت فراہم کی گئی ہے، ان کے پاس پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے، پاکستان آرمی کی جانب سے سیالکوٹ جموں سیکٹر میں دشمن کے 40 ٹینک تباہ کر دیے گئے، 3 افسر، 4 جے سی اوز اور 102 سپاہیوں کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

    اس ذلت کے باوجود بھارتی ہائی کمانڈ نے پاکستانی افواج کو اپنے علاقوں سے نکالنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی اور حملے جاری رکھے۔ واہگہ اٹاری سیکٹر میں دشمن کی دو جوابی کارروائیوں کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوئے پسپا کر دیا گیا، قصور اور کھیم کرن کے علاقوں میں دشمن کو کئی میل تک اس کے اپنے علاقے میں پیچھے دھکیل دیا گیا۔

    چونڈہ میں بھی افواجِ پاکستان نے شان دار تاریخ رقم کی اور مکمل طور پر بھارتی فوج کے حوصلے پست کر دیے، سندھ راجستھان سیکٹر میں 150 بھارتی فوجیوں کو ہلاک اور 21 کو جنگی قیدی بنا لیا گیا، مجاہدین نے راجوڑی سے 6 میل دور بھارتی ملٹری بیس پر حملہ کیا اور سری نگر سے 15 میل دور بگرام روڈ پر ایک اہم پل کو تباہ کر دیا، توسہ میدان کے علاقے میں بھارتی فوج کے رابطے کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا۔

    سرینگر کے کئی علاقوں میں بھارت کا کنٹرول مکمل طور پر ختم ہو گیا، بھارت کی جانب سے ہیلی کاپٹر سے فائرنگ کر کے لوگوں کو ہراساں کیا گیا۔ پاک فضائیہ نے اپنی برتری کو برقرار رکھا اور زمینی فوج کی مسلسل مدد جاری رکھی، پاک فضائیہ نے سیالکوٹ اور جموں سیکٹر میں بھارتی فضائیہ کا ہنٹر طیارہ مار گرایا۔

    پورے پاکستان سے مصنفین، شعرا اور ہر طبقہ فکر کے افراد نے اپنی آمدنی کا 10 فی صد نیشنل ڈیفنس فنڈ کو دینے کا فیصلہ کیا، اور اپنی افواج کی بہادری کے اعتراف اور احساس تشکر کے اظہار کے لیے مورچوں پر اپنی 5 رکنی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

  • 18 ستمبر 1965، تاریخی دن

    18 ستمبر 1965، تاریخی دن

    1965 کی جنگ کے اٹھارہویں روز تک بھارت پاکستان پر جارحیت کا بھاری نقصان کی صورت میں سامنا کر چکا تھا، اعداد و شمار کے مطابق دشمن کے اب تک 453 ٹینک، 106 جنگی طیارے تباہ جب کہ 18 ٹینک پاکستان کے قبضے میں آ چکے تھے۔

    بھارتی وزیر خوراک نے اپنی حکومت کو خبردار کیا کہ پاکستان سے جنگ کی وجہ سے بھارت نے اپنے خوراک کے وسائل جنگ میں جھونک دیے، جس کے باعث روزانہ کی بنیاد پر راشن میں کمی ہو رہی ہے۔

    بھارتی نائب وزیر خارجہ وینش سنگھ نے راجیہ سبھا میں کہا کہ وہ انڈونیشیا سے تعلقات ختم کر دے، انڈونیشیا میں بھارت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سیالکوٹ اور جموں کے محاذ پر پاکستانی فوج نے بھارتی افواج پر اپنا دباؤ جاری رکھتے ہوئے دشمن کےمزید علاقوں پر قبضہ کیا اور بھارت کو بھاری مالی نقصان سے دوچار کیا۔

    پاک فوج کے ہاتھوں واہگہ باڈر اور اٹاری سیکٹر میں بھارت کے 7 ٹینک تباہ ہوئے، 10 بھارتی فوجی جنگی قیدی بنا لیے گئے، پاکستانی توپ خانوں نے بھارتی افواج پر مسلسل گولہ باری جاری رکھتے ہوئے کھیم کرن میں دشمن کے 4 حملوں کو ناکام بنا دیا، فازیلکا، راجستھان اور اکھنور کے مقامات پر پاکستانی فوج نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دشمن کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔

    پاک فوج نے راجوڑی سیکٹر میں بھارتی بٹالین پر حملہ آور ہوتے ہوئے 3 بھارتی سپاہیوں کو جہنم واصل کر دیا، پاک فضائیہ نے کمال جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے اڈے انبالہ کو نشانہ بنایا اور انبالہ میں 4 کینبرا بمبار طیاروں اور تنصیبات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ بھارتی میجر جنرل نرنجن پرساد اپنی جیپ اور ڈائری چھوڑ کر فرار ہو گیا جو پاکستان نے قبضے میں لے لیے تھے۔

  • 17 ستمبر 1965 کو کیا ہوا؟

    17 ستمبر 1965 کو کیا ہوا؟

    17 ستمبر 1965 وہ تاریخی دن ہے جب بھارتی ایئر فورس کے طیاروں نے پاکستانی مسافر ٹرین کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 20 مسافر شہید اور 48 زخمی ہوئے، پاکستانی آرٹلری نے کھیم کرن سیکٹر میں 4 ٹینک تباہ کر دیے۔

    ترکی، ایران، اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں کو بھارتی دفتر خارجہ نے طلب کر کے توہین آمیز رویے کے ساتھ خبردار کیا، سیالکوٹ سیکٹر میں پاک فوج نے دو طرفہ حملوں میں دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان سے دوچار کیا، جس سے بھارت 51 ٹینکوں اور 14 توپوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

    پاکستان نے بھارت کے 442 ٹینک تباہ کیے اور 17 ٹینکوں کو درست حالت میں قبضہ کر لیا، پاکستان فوج کے 25 کیولری نے دشمن کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوئے 2 سپاہیوں کو جنگی قیدی بنایا۔ 5 ٹینک تباہ کیے جس کے باعث بھارتی کمانڈر کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ گھڑوال رائفلز کو پسپائی کا حکم دے۔

    پاک فوج کے 25 کیولری کے ایک این سی او نے بھارتی سنچورین ٹینک کو بھی قبضے میں لے لیا، بھارتی 1 آرمر بریگیڈ اور 43 بریگیڈ میں مزید حملہ کرنے کی سکت نہیں رہی جس کے باعث انھیں ناکامی سے دو چار ہونا پڑا۔ پاک فضائیہ کے جہازوں نے سامبا جموں سیکٹر اور بھارتی فضائیہ کے اڈوں، بلوڑوں اور آدم پورہ پر تابڑ توڑ حملے کر کے ان کی کمر توڑ دی۔

    صدر ایوب کا جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ میں مؤقف تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کے لیے مؤثر ذرائع اور طریقے وضع کیے جائیں، برطانوی پریس نے پاکستان کی حمایت میں بھارت کو جنگ شروع کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا۔ لندن کے اخبار ایوننگ اسٹار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایشیا کی لڑائی کو شروع کرنے کا ذمہ داربھارت ہے۔

    بین الاقوامی اخبار LE Monde نے لکھا کہ اس جنگ میں بھارت سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے، پاکستانی فوج نے مختلف سیکٹرز میں تقریباً 500 مربع میل بھارتی علاقے پر قبضہ کر لیا، اکھنور، کھیم کرن اور راجستھان سیکٹر کے علاقے شامل ہیں۔

    پاکستان افواج نے 20 افسرز، 19 جے سی اوز اور 530 بھارتی سپاہیوں کو جنگی قیدی بنا لیا، پاک فضائیہ نے دشمن کے 14 ٹینک، بھارتی توپیں اور متعدد گاڑیاں تباہ کر دیں۔

  • 11 ستمبر 1965 کو کیا ہوا؟

    11 ستمبر 1965 کو کیا ہوا؟

    11 ستمبر 1965 وہ تاریخی دن ہے جب پاکستانی افواج کے یکے بعد دیگرے کامیاب حملوں سے بھارتی افواج کے سینئر افسران کے قدم ڈگمگا گئے۔

    بھارتی وزیر اعظم شاستری شہریوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے اور اپنی جھوٹی شان برقرار رکھنے کے لیے جنگ سے با عزت فرار چاہتے تھے، جس کے باعث بھارت ناقابل تلافی نقصان کے باوجود جنگ بندی چاہتا تھا۔

    ادھر بھارتی فوج کو ابتدائی حملوں میں شکست دینے کے بعد پاک افواج کے حوصلے اور عزم مزید بلند ہو گئے، جس کی بدولت وہ منظم ہوتے ہوئے ڈٹ کر جوابی کارروائیوں اور حملے کے لیے تیار ہو گئے، پاکستانی افواج کے یکے بعد دیگرے کامیاب حملوں سے بھارتی افواج کے سینئر افسران کے قدم ڈگمگا گئے۔

    بھارتی افواج کے افسران پست حوصلوں کے ساتھ اس کشمش میں مبتلا ہو گئے کہ محض کشمیر کو جواز بنا کر اتنی بڑی جنگ کا مقصد کیا ہے، بھارتی فوج کے سیکنڈ آرمڈ بریگیڈ گروپ، اضافی ٹینک رجمنٹ نے کھیم کرن کے علاقے سے پاکستان کے شہر قصور پر حملہ کیا، پاکستانی افواج نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارتی افواج کو پسپا کرتے ہوئے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔

    10 ستمبر 1965 کو کیا ہوا؟

    گھمسان کی جنگ کے بعد پاکستان نے بھارتی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا، قصور میں پاکستانی فوج نے لاہور کی طرف بھارتی پیش قدمی کو روکا، اور کھیم کرن کو چھڑانے کی بھارتی کوشش کو ناکام بنا دیا، پاکستانی فوج نے لازوال داستان رقم کرتے ہوئے جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا اور لاہورکی طرف بھارتی پیش قدمی کو روک دیا۔

    لاہور سیکٹر پر بھارتی فوج ہری کے برکی روڈ پہنچی جس کے بعد ان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی، سیالکوٹ سیکٹر پر پاک فوج کی جانب سے ٹینکوں سے بڑا حملہ کیا گیا، جس میں 36 بھارتی ٹینک تباہ کر دیے گئے، چھمب سیکٹر پر پاکستانی فوج نے دیوا کے شمال میں موجود بھارتی فوجی چوکی پر قبضہ کر لیا۔

    سندھ راجستھان سیکٹر میں پاکستانی فوج نے مزید کامیابیاں حاصل کیں، پاکستان فوج نے شمال کی طرف برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے گدرو میں مزید بھارتی چوکیوں پر قبضہ کیا، پاک فضائیہ نے ہلواڑہ کے مقام پر مگ جہازوں کی فارمیشن کو مکمل طور پر تباہ کیا، اور دو مزید بھارتی بمبار جہازوں کو مغربی بنگال باغ ڈوگرہ ایئر بیس پر تباہ کر دیا، دوراکا آپریشن کے بعد پاک بحریہ نے بحیرہ عرب میں اپنی بالا دستی برقرار رکھی۔

  • 7 ستمبر، بھارت نے پاکستان کو جنگ کا دائرہ مشرقی پاکستان تک بڑھانے کی دھمکی دی

    7 ستمبر، بھارت نے پاکستان کو جنگ کا دائرہ مشرقی پاکستان تک بڑھانے کی دھمکی دی

    7 ستمبر پاکستان کے دفاع کی وہ یاد گار تاریخی دن ہے جب پاکستان پر حملہ آور بھارت کے 31 جنگی طیارے تباہ ہوئے اور تباہ ہونے والے جہازوں کی کل تعداد 53 تک پہنچ گئی۔

    یہی وہ دن تھا جب بھارت نے پاکستان کو جنگ کا دائرہ مشرقی پاکستان تک بڑھانے کی دھمکی دی، تاہم بھارتی ترجمان کو اعتراف کرنا پڑا کہ بھارتی افواج کا لاہور، سلیمانکی، فیروزپور پر حملہ ناکام رہا ہے، ترجمان نے کہا بھارت کو ہر محاذ پر بھاری نقصان کا سامنا ہے۔

    اس دن صدر ایوب خان نے پاک فضائیہ کو شاندار کارکردگی پر خراج تحسین پیش کیا، اور کہا صرف استصواب رائے ہی کشمیر میں امن لا سکتا ہے۔

    ترجمان کشمیر انقلابی کونسل نے بھارت کو خبردار کیا کہ کشمیری بھارتی عزائم کو خاک میں ملا دیں گے، پاک فوج کے کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ نے حال ہی ریٹائر ہونے والے افسران اور سپاہیوں کو ڈیوٹی پر حاضرہونے کا حکم دیا۔

    گورنر پنجاب ملک امیر محمد خان نے کہا کہ فتح ہمارا مقدر ہے، عبدالمنعم خان گورنر مشرقی پاکستان نے بھارت کو دھمکی دی ’’مشرقی پاکستان میں جارحیت پر بھارت کو بد ترین نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘‘

    پاک بحریہ کے چیف ایڈمرل اے آر خان نے بحری افواج کے نام پیغام میں کہا کہ قوم کی توقعات پر پورا اتریں، پاکستان نیول شپس بابر، خیبر، بدر، جہانگیر، عالمگیر، شاہ جہاں اور ٹیپو سلطان کو 7 ستمبر شام 6 بجے پوزیشن سنبھالنے کا حکم دیا گیا۔

    میجر جنرل اختر حسین کو کشمیر میں جوڑیاں سیکٹر میں شان دار بہادری کا مظاہرہ کرنے پر ہلال جرأت سے نوازا گیا، صدر ایوب خان نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل یوتھانٹ سے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں سے کیے وعدے پورے کیے جائیں، پاکستان نے سکھ برادری کو یقین دہانی کروائی کہ مقدس مقامات کی حرمت ہر صورت برقرار رکھی جائے گی۔

  • جنگِ ستمبر: جب ایک پاکستانی بچّہ سول ڈیفنس کے دفتر پہنچا!

    جنگِ ستمبر: جب ایک پاکستانی بچّہ سول ڈیفنس کے دفتر پہنچا!

    دو ممالک کی افواج اگر آمنے سامنے ہوں اور ان میں سے ایک سپاہ اور سامانِ حرب ہر لحاظ سے دوسرے ملک کی فوج پر بھاری ہو تو غالب امکان یہی ہے کہ فتح بھی عدد و اسباب میں برتری رکھنے والے کا مقدّر بنے گی، لیکن جس ملک کی فوج اور عوام اپنی آزادی کی خاطر اپنی جان نچھاور کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، بڑی سے بڑی طاقت بھی ان کے آگے نہیں ٹھہر سکتی۔ 1965ء کی جنگ میں دنیا نے یہی دیکھا جب پاکستان نے اپنے کئی گنا زیادہ طاقت رکھنے والے بھارت کو اس کی جارحیت پر منہ توڑ جواب دیا اور میدانِ جنگ میں شکست دی۔

    جنگِ ستمبر کی مناسبت سے ہم یہاں محمد ظہیر بدر کے مضمون "پینسٹھ اور قومی زندہ دلی” سے ایک ایسا پارہ نقل کررہے ہیں جو 1965ء میں اُن کے اور ان کے ہم عمر ساتھیوں کے جوش و ولولے اور جذبۂ ایمانی کی مثال ہے۔ محمد ظہیر بدر لکھتے ہیں:

    صدر ایوب نے اپنی تقریر میں کہا: ’’ہندوستان کے حکم ران شاید یہ نہیں جانتے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے…‘‘

    جب صدر کی تقریر ختم ہوئی تو ہم نعرہ تکبیر، پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعرے لگاتے محلّے کے چھوٹے سے بازار میں چھوٹا سا جلوس لے کر چل پڑے۔

    دکان داروں نے ہمیں دیکھا تو وہ بھی کھڑے ہو کر ہمارے نعروں کا جواب دینے لگے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے جلوس اور نعرے بازی ہمارا معمول بن گیا تھا۔ دن بھر ریڈیو پر قومی و ملّی نغمے، شام کو فوجی بھائیوں کے لیے خصوصی پروگرام سنا کرتے۔

    پاک فضائیہ کے پاس بھارت کے جدید طیاروں کے برعکس سیبر طیارے تھے۔ ریڈیو نے بتایا کہ پاک فضائیہ نے وطن کے دفاع کے لیے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ قوم کا جذبۂ حُب الوطنی اور جذبۂ ایمانی فوج کی طاقت بن گیا۔ پاکستان کے فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید اور ایم ایم عالم کا واقعہ بھی عالمی ریکارڈ ہے۔

    ایک روز جب بھائی خاکی وردی میں ملبوس سر پر ہری ٹوپی پہنے گھر میں داخل ہوا تو اس نے بتایا کہ اسے شہری دفاع میں رضا کار کے طور پر بھرتی کرلیا گیا ہے۔

    جب بلیک آؤٹ ہوا کرتا تو یہ رضا کار لوگوں کے گھروں کی بتیاں بند کروایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ رضا کار محاذ تک استعمال کی اشیا اور سامانِ خور و نوش کی رسد کا فریضہ بھی ادا کرنے پر مامور تھے۔ مگر ہمارا معمول تھا کہ جب بھی سائرن بجتے چھتوں پر چڑھ جاتے اور فضائے نیلگوں میں پاکستانی طیاروں کی بھارتی طیاروں پر جھپٹ پلٹ کا نظارا کرتے۔

    گھر والے روکتے، سول ڈیفنس والے بھی دروازے پر دستک دیتے، تنبیہ کرتے مگر ہم کہاں ٹلتے۔ خوف سے کھیلنا ہمارا مشغلہ بن گیا تھا۔ ہمارے گھر کے قریب ہی سول ڈیفنس کا علاقائی دفتر تھا جہاں تمام رضا کار جمع ہوتے اور انھیں ان کی ذمہ داریاں دی جاتیں۔

    ایک دن بھائی کو بتائے بغیر میں بھی سول ڈیفنس کے دفتر پہنچ گیا جہاں پر رضا کاروں کے ساتھ ساتھ ان کے انچارج بھی موجود تھے۔ میں نے کہا کہ میں بھی رضا کار بننا چاہتا ہوں۔ دشمن کو پتا نہیں اس نے کس قوم پر حملہ کیا ہے۔ میں نے بڑے جذباتی انداز میں تقریر شروع کر دی۔ سب سنتے رہے۔ آخر ان کے افسر میرے پاس آئے میرے سَر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: خدا کی قسم! جس قوم کے بچّوں میں وطن کی محبّت کا یہ جذبہ ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے کہا۔ بیٹا تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو، اپنے والدین کا کہا مانو، ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو، تمہارا یہی فرض ہے، یہی جہاد ہے اور وطن سے محبّت کا یہی طریقہ ہے۔ تم سمجھو کہ تم بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہو۔

    وحدت کالونی کی سڑک ان دنوں بہت چھوٹی سی تھی جو ملتان روڈ کو فیروز پور روڈ سے ملاتی تھی۔ ہم سڑک پر کھڑے ہو کر منتظر رہتے کہ کب فوجی گاڑی یہاں سے گزرے۔ دور سے آتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کو آوازیں دے کر بلاتے اور بتاتے کہ گاڑی آ رہی ہے اور وہ دوسرے لڑکوں کو بتاتے اور سب سڑک کے کنارے آکر کھڑ ے ہو جاتے۔

    فوجیوں کو ہاتھ ہلا کر سلام کرتے، پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے۔ کبھی کبھار کوئی گاڑی ایک پل کے لیے رکتی، ہم بھاگم بھاگ سپاہیوں سے ہاتھ ملاتے۔ سپاہی ہمارے گال تھپتھپاتے اور نعروں کی گونج میں چل دیتے۔

    خبروں میں سب سے زیادہ جن محاذوں کے نام سنے، ان میں واہگہ، چھمب جوڑیاں، کھیم کرن، گنڈا سنگھ والا کے نام مجھے یاد رہ گئے۔ آج بھی جب ان شہروں اور علاقوں کے نام سنتا ہوں تو جنگِ ستمبر 65 ء کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

  • 3 ستمبر 1965، جنگ کا تیسرا روز

    3 ستمبر 1965، جنگ کا تیسرا روز

    3 ستمبر 1965 وہ تاریخی دن ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان چھڑنے والی جنگ کا تیسرا روز تھا، جب جنگ جاری تھی اور پاکستان کی مسلح افواج عوام کے ہمراہ بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے رہی تھیں۔

    ایک طرف بھارتی وزیر اعظم اپنی قوم پر طاری پاک فضائیہ کا خوف دور کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہے، دوسری جانب پاک فوج نے چھمب سیکٹر میں بھارت کے 500 جوانوں کو جنگی قیدی بنا لیا، افواج پاکستان نے دشمن کے 15 ٹینکوں اور دیگر اسلحے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

    پاک فوج کے کمانڈر اِن چیف جنرل محمد موسیٰ نے بھارتی زخمی سپاہی کی ایک فیلڈ اسپتال میں عیادت کی، لیفٹیننٹ کرنل نصیر اللہ بابر نے غیر دانستہ طور پر کشمیر کے بھمبر سیکٹر میں بھارتی پوزیشن پر اپنا ہیلی کاپٹر اتارا، اس وقت نصیر اللہ بابر کے پاس صرف ایک پستول موجود تھی، انھوں نے اپنی حاضر دماغی کا مظاہرہ کر کے وہاں موجود 30 بھارتی سپاہیوں کو جھانسہ دے کر جنگی قیدی بنا لیا۔

    2 ستمبر 1965، جنگ کا دوسرا روز

    پاک فضائیہ نے بھارت کے 3 طیارے مار گرائے، ایک طیارہ پسرور ایئر فیلڈ پر فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اللہ نے گرایا، دوسرے طیارے جی این اے ٹی ای 1083 کو فلائٹ آفیسر عباس مرزا پسرور کے ایئر فیلڈ پر اتارنے میں کامیاب ہو گئے، جی این اے ٹی ای 1083 طیارہ بھارت کا اسکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ اُڑا رہا تھا، جسے جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

    اس بے مثال معرکے کے بعد 2 بھارتی طیارے بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔

  • 2 ستمبر 1965، جنگ کا دوسرا روز

    2 ستمبر 1965، جنگ کا دوسرا روز

    2 ستمبر 1965 وہ تاریخی دن ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان چھڑنے والی جنگ کا دوسرا روز تھا، جب بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے پاکستان کو جنگ کی دھمکی دی مگر ساتھ ہی اعتراف کیا کہ گزشتہ روز پاکستانی افواج نے 4 بھارتی طیاروں کو مار گرایا، جس پر صدر ایوب خان نے جواب دیا کہ جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا جب کہ پاکستان کشمیریوں سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔

    بھارتی آرمی چیف جنرل جے این چوہدری نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اعلیٰ فوجی افسران سے ملاقات بھی کی، دوسری جانب صدر ایوب نے پاکستانی قوم سے خطاب میں بھارت کو تنبیہہ کی کہ بھارت نے ابتدا ہی سے پاکستان اور کشمیر کے متعلق اپنی پالیسی کی بنیاد نفرت اور دشمنی پر رکھی ہے، جس کے نتیجے میں سنگین صورت حال پیدا ہوگی، جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا، اور پاکستان کشمیریوں سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔

    سردار عبدالقیوم نے بھارت کو خبردار کیا کہ بھارتی افواج اپنی قبر میں اْترآئی ہے، بین الاقوامی مبصرین نے بھارت کی طرف سے فضائی قوت استعمال کرنے پر نہایت افسوس کا اظہار کیا، جی ایچ کیو نے تمام فارمیشنز کو وارننگ آرڈر جاری کر دیے کہ بھارتی افواج کی بڑھتی ہوئی جنگی تیاریوں کے پیشِ نظر وہ 2 ستمبر کی صبح تک کنسنٹریشن (concentration) ایریاز سنبھال لیں۔

    کشمیر کے محاذ پر پاک فوج نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے سونا مرگ کے نزدیک ایک بھارتی پلاٹون کا مکمل صفایا کرتے ہوئے بھارتی افواج کے ٹھکانوں اور تنصیبات پر حملے جاری رکھے، پاکستانی افواج نے چھمب میں مشرق کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے 15 ٹینک قبضے میں لیے اور 150 بھارتی فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔

  • یومِ دفاع: جنگی ترانے اور ملّی نغمات کے بول دشمن پر تازیانے کی طرح برسے

    یومِ دفاع: جنگی ترانے اور ملّی نغمات کے بول دشمن پر تازیانے کی طرح برسے

    1965ء میں پاکستان کی افواج نے سرحدی محاذوں پر بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر جہاں دنیا سے اپنی طاقت اور شجاعت کا لوہا منوایا، وہیں پاکستانی شاعروں کے تخلیق کردہ جنگی ترانوں اور رزمیہ شاعری کی گونج اور قوم کی امنگوں اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ملّی نغمات کے بول بھی سرحد پار ایوانوں میں بیٹھے ہوئے دشمن کے لیے کسی تازیانے سے کم نہ تھے۔

    ستمبر کی جنگ کے دوران پاکستانی شاعروں نے اپنے جذبۂ حبُ الوطنی کا جس طرح اظہار کیا وہ نہ صرف یہ کہ ایک قومی شعری سرمائے کے طور پر محفوظ ہوچکا ہے بلکہ مادرِ گیتی اور پاک فوج سے محبت کی ایک لازوال اور ناقابلِ فراموش یادگار ہے۔

    شعرا نے اپنے کلام سے جہاں فوجی جوانوں کا حوصلہ بڑھایا وہیں اس رزمیہ ادب نے قوم کے اندر جذبۂ آزادی کو مزید توانا کیا اور یہ شاعری قومی وحدت کی یادگار لڑی ثابت ہوئی۔ یہ چند اشعار دیکھیے جو جنگِ ستمبر اور بعد کے ادوار میں تخلیق کیے گئے۔

    لگاؤ نعرۂ تکبیر ہر چہ بادا باد
    مجاہدوں کو پہنچتی ہے غیب سے امداد
    (احسان دانش)

    تو وارث پاک اُجالوں کی
    تو دھرتی شیر جوانوں کی
    تری خوشبو کو چھلکائیں گے
    ترے پیار کی جُگنی گائیں گے
    (ضمیر جعفری)

    میری سرحد پہ پہرا ہے ایمان کا
    میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا
    میرا ایک اک سپاہی ہے خیبر شکن
    چاند میری زمیں، پھول میرا وطن
    (ساقی جاوید)

    سرفروشی ہے ایماں تمہارا
    جرأتوں کے پرستار ہو تم
    جو حفاظت کرے سرحدوں کی
    وہ فلک بوس دیوار ہو تم
    (جمیل الدّین عالی)

    اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
    قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
    (مسرور انور)

    ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم
    یہ پرچموں میں عظیم پرچم
    (سیف زلفی)

    اردو میں جذبۂ قومیت کے اشتراک سے قومی شاعری کو ایک الگ صنفِ ادب کے طور پر متعارف کرانے والے اہم قومی شعرا صبا اکبر آبادی، طفیل ہوشیار پوری، سید ضمیر جعفری، کرم حیدری، کلیم عثمانی، مشیر کاظمی، کیف بنارسی، ساقی جاوید، جمیل الدین عالی، تنویر نقوی، حمایت علی شاعر، رئیس امروہوی، احمدندیم قاسمی، منیر نیازی، ریاض الرحمن ساغر اور کئی شعرا شامل ہیں۔ پاکستان کی آزاد فضاؤں میں ان شعرا کے ترانے اور ملّی نغمات کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔

  • 6 ستمبر: لاہور کے لڑکے اور لڑکیاں‌ بھی دَم کے دَم میں شالیمار پہنچ گئے

    6 ستمبر: لاہور کے لڑکے اور لڑکیاں‌ بھی دَم کے دَم میں شالیمار پہنچ گئے

    پاکستان سے چھے گنی فوجی طاقت اور چار گنی آبادی کے زعم میں بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر یہ حق اور باطل کی لڑائی تھی۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری تھی۔

    نتیجہ آپ نے اور ہم نے بھی دیکھ لیا اور دنیا نے بھی۔ پاکستان کے لیے یہ جنگ ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسا غیبی جھٹکا تھا جس نے اہلِ وطن کو متفق و متحد کر دیا اور پوری قوم میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

    لاہور والوں نے تو کمال ہی کر دیا کہ دشمن کے ٹینک اور فوجیں شہر سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر آگئیں تھیں اور ہماری فوجیں ان کے پرخچے اڑا رہی تھیں کہ شہر کے جیالے جو کچھ ہاتھ میں آیا، لے کر دشمن کو مارنے گھر سے نکل پڑے۔ ان کے پیچھے لڑکیاں اور عورتیں بھی چل پڑیں اور سب کے سب دم کے دم میں شالیمار پہنچ گئے۔

    ہماری فوجوں کے پچھلے دستوں نے انھیں روکا۔ ورنہ حیدرآباد کے رضا کاروں کی طرح یہ سب بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے اور دشمن کو للکارتے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تو ہمارے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پہلے تجھے ہماری لاشوں پر گزرنا پڑے گا، مگر اس کی نوبت نہ آئی۔

    ہماری فوجوں نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کے واپس کیا کہ آپ شہر کا انتظام کیجیے، یہاں ہمیں دشمن سے نمٹنے دیجیے۔ آپ پر آنچ اس وقت آئے گی جب ہم نہ ہوں گے۔ اس پر بھی جوشیلے نوجوانوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور محاذ پر رسد بھیجنے میں‌ فوجیوں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔

    (از شاہد احمد دہلوی)