Tag: پتے

  • صرف شکر قندی ہی نہیں، اس کے پتے بھی نہایت فائدہ مند

    صرف شکر قندی ہی نہیں، اس کے پتے بھی نہایت فائدہ مند

    شکر قندی موسم سرما میں نہایت شوق سے کھائی جاتی ہے، یہ سبزی نہ صرف صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہے بلکہ اس کے پتے بھی اپنے اندر جادوئی اجزا رکھتے ہیں۔

    اس کے پتے جنہیں کاموٹ ٹاپس کہا جاتا ہے دوسری سبزیوں کے پتوں کی نسبت نہ صرف بطور غذا استعمال کیے جا سکتے ہیں بلکہ غذائیت سے بھرپور اور صحت بخش ہونے کے ساتھ جادوئی فوائد بھی رکھتے ہیں۔

    یہ پتے کئی طرح کے وٹامنز سے بھرپور ہوتے ہیں اور انہیں پالک کی طرح پکوان میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

    شکر قندی کے پتے وٹامن سی، اے، اینٹی آکسیڈنٹ، تھامین، رائبو فلاوین، فولک ایسڈ اور نیاسین کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں، دیگر پتوں والی سبز سبزیوں کے مقابلے میں اس میں غذائی اجزا اور غذائی ریشہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس کے مزید بھی کچھ فوائد ہیں۔

    ہڈیوں کے لیے فائدہ مندہ

    لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ہڈیوں کو صحت مند رکھنے کے لیے صرف کیلشیئم کی ضرورت ہوتی ہے، اگرچہ شکر قندی کے پتوں میں کیلشیئم کی مقدار کم ہوتی ہے لیکن یہ وٹامن کے کے ساتھ مل کر صحت مند ہڈیوں کو فروغ دینے کے لیے مفید ہے۔

    وٹامن کے ہڈیوں کے ٹوٹنے کے امکانات کو کم کر کے آسٹیو پوروسس اور ہڈیوں کے نقصان کو روکنے میں مدد کرتے ہیں۔

    ذیابیطس سے حفاظت

    کاموٹ کے پتے انسولین کی مزاحمت کو کم کر کے چینی کی سطح کو منظم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ شوگر کے مریضوں کے لیے روزمرہ کی خوراک میں شکر قندی کے پتے شامل رکھنا بہترین انتخاب ہے۔

    آنکھوں کے لیے بہترین

    وٹامن اے کو بینائی دوست وٹامن کہا جاتا ہے اور یہ شکر قندی کے پتوں میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔

    یہ وٹامن میکولر انحطاط کو روکنے میں مدد کرتا ہے جو اندھے پن کی سب سے بڑی وجہ ہے، تحقیق کے مطابق وٹامن اے، سی، ای، زنک اور کاپر کا استعمال میکولر ڈی جنریشن کے امکانات کو 25 فیصد تک کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    اس کے علاوہ یہ خشک آنکھوں کے علاج میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

  • غذا کو خراب ہونے سے محفوظ رکھنے والا پلاسٹک تیار

    غذا کو خراب ہونے سے محفوظ رکھنے والا پلاسٹک تیار

    ماہرین نے ایسا پلاسٹک بنایا ہے جو طویل عرصے تک غذا کو جرثوموں سے بچا کر انہیں خراب ہونے سے محفوظ رکھتا ہے، یہ پلاسٹک آم کے پتوں سے بنایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق اسپین اور پرتگال کے سائنسدانوں نے آم کے پتے استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا پلاسٹک تیار کرلیا ہے جو غذا کو الٹرا وائلٹ شعاعوں اور جراثیم سے بچا کر لمبے عرصے تک محفوظ رکھتا ہے۔ یہ پلاسٹک 250 ڈگری سینٹی گریڈ جتنی گرمی بھی برداشت کرسکتا ہے۔

    آن لائن ریسرچ جرنل میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق اس منفرد پلاسٹک میں آم کے پتوں سے حاصل شدہ اجزا کے علاوہ، کاغذ کی تیاری سے بچ رہنے والے مادے بھی شامل ہیں جنہیں نینو سیلولوز کہا جاتا ہے۔

    ان دونوں اجزا کے ملاپ سے تیار ہونے والا پلاسٹک بائیو ایکٹو ہے یعنی زندگی سے متعلق کچھ مخصوص کیمیکل ری ایکشنز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    جب کھانے پینے کی کسی چیز مثلاً پھل، سبزی، گوشت یا تیار کھانے کو اس پلاسٹک میں لپیٹا جاتا ہے تو اپنی ان ہی بائیو ایکٹو خصوصیات کی بدولت یہ غذا پر حملہ آور جرثوموں کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ نقصان دہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کو بھی اپنے اندر سے گزرنے نہیں دیتا۔

    ابتدائی تجربات میں اس پلاسٹک کو زہر خورانی (فوڈ پوائزننگ) کی وجہ بننے والے دو اہم جرثوموں سے غذائی تحفظ کے لیے کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے۔

    اسے تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال سے غذا کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے کیمیائی مادوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی جو انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

  • انگور کے پتوں پر خوبصورت مصوری

    انگور کے پتوں پر خوبصورت مصوری

    آپ نے اب تک پتوں پر فن مصوری کے بے شمار نمونے دیکھے ہوں گے۔ مختلف باصلاحیت فنکار ان پتوں کو مختلف انداز سے ڈھال کر فن مصوری کا شاہکار بنا دیتے ہیں۔

    ایسی ہی ایک فنکارہ لینا ال ہیک بھی ہیں جو انگور کے پتوں پرخوبصورت نقش و نگار بناتی ہیں۔ لینا کا تعلق غزہ سے ہے، 21 سالہ یہ مصورہ ان پتوں پر خوبصورت آئل پینٹنگز بناتی ہیں۔

    ان کی مہارت ان پتوں کو مصوری کے شاہکار میں تبدیل کردیتی ہے۔ لینا سوشل میڈیا پر متحرک تو نہیں ہیں تاہم وہ اپنے فن کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہیں۔

    آئیں آپ بھی ان کے فن کے نمونے ملاحظہ کریں۔

  • خشک پتے کروشیے کی کڑھائی کے ساتھ خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    خشک پتے کروشیے کی کڑھائی کے ساتھ خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    سلائی کڑھائی کا ماہر ہونا کوئی معمولی بات نہیں، کم ہی لوگ اس فن میں مہارت حاصل کر کے ایسی سلائی کڑھائی کرتے ہیں جس سے نفاست کا اظہار ہو۔

    تاہم جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اس فن کو مہارت سے تبدیل کر کے فن پارے تشکیل دے دیے، اس کے لیے انہوں نے جھڑ جانے والے خشک پتے استعمال کیے۔

    سوزانا بائر نامی اس فنکارہ نے کٹے پھٹے پتوں کو کروشیے کے ذریعے نہایت خوبصورتی سے سیا ہے۔ سوزانا بتاتی ہیں، ’خشک پتے بے حد نازک ہوتے ہیں اور ان پر کام کرنا نہایت نزاکت اور توجہ کا متقاضی ہے‘۔

    وہ کہتی ہیں کہ وہ پتوں کو جمع کرتی ہیں اور پھر ان پتوں کو دیکھ بھال کر ان کی تھیم بنانا بھی ایک وقت طلب مرحلہ ہے۔

    سوزانا کے ان فن پاروں کو سوشل میڈیا پر بے حد پسند کیا جارہا ہے، آئیں آپ بھی ان سے لطف اندوز ہوں۔

     

    View this post on Instagram

     

    ‘Trans-Plant No.17’ made in 2015 . Photo by @art_photographers_cornwall #magnolialeaves #lightanddark

    A post shared by Susanna Bauer (@susanna_bauer) on

     

    View this post on Instagram

     

    Detail view of ‘Dwelling’ . #leafsculpture

    A post shared by Susanna Bauer (@susanna_bauer) on

     

    View this post on Instagram

     

    Resurgence ll . made in 2015 38.9 H x 34.8 W x 3.2 D cm (framed) . photo by @art_photographers_cornwall

    A post shared by Susanna Bauer (@susanna_bauer) on

     

    View this post on Instagram

     

    Thank you very much @thejealouscurator for sharing my new pieces, currently showing at #VoltaBasel, and for your continued support since the first blog post you did about my work in 2012. . . ‘Everything That Surrounds Us’ 38 x 38 cm (framed) photo by @art_photographers_cornwall . . #Repost @thejealouscurator ・・・ Delicate, crocheted, lace-like adornments connecting, surrounding, and transforming fallen leaves into fine art ❤️🌿 New work – currently showing THIS WEEK at VOLTA (stand C13) Art Basel in Switzerland – by @susanna_bauer on the site today, link in profile (swipe for detail of this crazy thing) ps. @susanna_bauer is one of the artists in #abigimportantartbook 🔥❤️ @lesalon_vert @voltashow

    A post shared by Susanna Bauer (@susanna_bauer) on

     

    View this post on Instagram

     

    A leaf roll that will become part of a commissioned piece of work.

    A post shared by Susanna Bauer (@susanna_bauer) on

  • موسم خزاں ۔ شاعروں کی نظر میں

    موسم خزاں ۔ شاعروں کی نظر میں

    سال کا ہر موسم اور ہر ماہ اپنے اندر کچھ الگ انفرادیت رکھتا ہے۔ دھوپ کے گھٹتے بڑھتے سائے، سردیوں کی لمبی راتیں، ٹھنڈی شامیں، پت جھڑ، پھولوں کے کھلنے کا موسم، بارش کی خوشبو اور بوندوں کا شور، ہر شے اپنے اندر الگ جادوئی حسن رکھتی ہے۔

    آج کل کی تیز رفتار زندگی میں ہر شخص اتنا مصروف ہے کہ کسی کو موسموں پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ لیکن بہرحال شاعروں اور تخلیق کاروں کی تخلیق کا مرکز یہی موسم ہوتے ہیں۔

    پرانے وقتوں میں بھی شاعر و ادیب موسموں کی خوشبو محسوس کر کے اپنی تخلیقات جنم دیا کرتے تھے۔ ستمبر کا مہینہ جسے پت جھڑ یا خزاں کے موسم کا آغاز کبھی کہا جاتا ہے بھی کئی تخلیق کاروں کے فن کو مہمیز کردیا کرتا ہے۔

    آپ نے آج تک مشرقی ادب میں ستمبر کے بارے بہت کچھ پڑھا ہوگا، آئیے آج سمندر کے اس طرف مغربی ادب میں جھانکتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ مغربی شاعروں و ادیبوں نے ستمبر کے بارے میں کیا لکھا۔

    sep-5

    انگریزی ادب کا مشہور شاعر ولیم ورڈز ورتھ جو فطرت کو اپنی شاعری میں بیان کرنے کے لیے مشہور ہے، ستمبر کے لیے لکھتا ہے

    موسم گرما کو رخصت کرتے ہوئے
    ایک روشن پہلو دکھائی دیتا ہے
    موسم بہار کی نرمی جیسا
    پتوں کے جھڑنے کا موسم
    خود روشن ہے
    مگر پھولوں کو مرجھا دینے کے لیے تیار ہے

    کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر رابرٹ فنچ کہتے ہیں، ’ستمبر میں باغوں میں سناٹا ہوتا ہے، سورج سروں کو جھلسانے کے بجائے نرم سی گرمی دیتا ہے، اسی لیے مجھے ستمبر بہت پسند ہے‘۔

    sep-7

    اٹھارویں صدی کا ایک آئرش شاعر تھامس مور ستمبر کے لیے لکھی گئی ایک نظم میں کہتا ہے

    ستمبر کا آخری پھول
    باغ میں اکیلا ہے
    اس کے تمام خوبصورت ساتھی پھول
    مرجھا چکے ہیں یا مر چکے ہیں

    اٹھارویں صدی کے برطانوی ادیب ہنری جیمز لکھتے ہیں، ’نرم گرم سی دھوپ اور اس کی روشنی، یہ سردیوں کی سہ پہر ہے۔ اور یہ دو لفظ ادب میں سب سے زیادہ خوبصورت الفاظ ہیں‘۔

    sep-4

    مشہور شاعر تھامس پارسنز کہتا ہے

    دکھ اور گرے ہوئے پتے
    غمگین سوچیں اور نرم سی دھوپ کا موسم
    اف! میں، یہ چمک اور دکھ کا موسم
    ہمارا جوڑ نہیں، پر ہم ساتھ ہیں

  • پتوں سے بنائے گئے ماحول دوست برتن

    پتوں سے بنائے گئے ماحول دوست برتن

    پتوں میں کھانا کھانے کا رواج نئی بات نہیں۔ قدیم دور کا انسان پتوں ہی کی مدد سے کھانا تناول کیا کرتا تھا۔ اب اسی خیال کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔

    جرمنی کی لیف ری پبلک نامی ایک کمپنی ایسے برتن بنا رہی جنہیں بنانے کے لیے پتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    برتنوں کے لیے ان پتوں کو حاصل کرنے کے لیے ایک بھی درخت نہیں کاٹا جاتا۔ اسی طرح یہ برتن پھینکے جانے کے بعد بہت کم وقت میں زمین کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    زمین میں تلف ہونے کے لیے انہیں 28 دن درکار ہیں۔ یوں یہ ہماری زمین پر آلودگی یا کچرا پھیلانے کا سبب بھی نہیں بنتے۔

    عام دھاتوں یا پلاسٹک سے بنائے جانے والے برتنوں کے برعکس اس میں کوئی کیمیکل یا مصنوعی رنگ بھی استعمال نہیں کیے جاتے یوں یہ مضر صحت اجزا سے محفوظ ہیں۔

    پتوں کو پلیٹ یا مختلف برتنوں کی شکل میں ڈھالنے کے لیے ان پر عام دھاگوں سے سلائی کی جاتی ہے۔ یہ دھاگے اور پتے زمین میں تلف ہو کر اس کی زرخیزی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خزاں میں پتوں کا رنگ کیوں تبدیل ہوجاتا ہے؟

    خزاں میں پتوں کا رنگ کیوں تبدیل ہوجاتا ہے؟

    خزاں یا پت جھڑ کا موسم تخلیق کاروں کو ان کی تخلیق کے لیے مہمیز کرتا ہے۔ سرخ، ہرے، زرد پھول اور پتے سنہری اور پھر سرمئی رنگ کے خشک ہو کر نیچے گر جاتے ہیں اور شاہراہوں، پگڈنڈیوں اور راستوں کو بھر دیتے ہیں جو ایک سحر انگیز سا منظر تخلیق کرتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں خزاں میں پھول اور پتے اپنا رنگ کیوں تبدیل کرلیتے ہیں؟

    موسم خزاں کو شاعر کیسے دیکھتے ہیں؟ *

    ہم بچپن سے کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ پتوں میں کلوروفل نامی ایک مادہ ہوتا ہے جو ان پتوں کو سبز رنگ فراہم کرتا ہے۔ ان کے علاوہ پودوں میں ایک اور کیمیائی عنصر کیروٹینائڈز بھی پایا جاتا ہے۔

    autumn-3

    یہ مادہ گاجر میں بھی پایا جاتا ہے جو اسے نارنجی یا سرخ رنگ فراہم کرتا ہے۔ پودوں میں یہ مادہ کلوروفل کے نیچے موجود ہوتا ہے اور سارا سال اپنی موجودگی ظاہر نہیں کرتا۔

    سردیوں میں جب کلوروفل ختم ہونے لگتا ہے اس وقت یہ مادہ ابھر کر آتا ہے اور پتوں کو سنہرا، پیلا یا سرمئی رنگ کا کر دیتا ہے۔

    اب یہ بھی جان لیجیئے کہ خزاں میں کلوروفل کے ختم ہونے کی وجہ کیا ہے۔

    مصنوعی روشنیوں کے باعث برطانیہ کے موسم میں تبدیلی *

    کلوروفل دھوپ یا سورج کی روشنی سے اپنی تونائی پاتا ہے۔ جتنا زیادہ سورج روشن ہوگا کلوروفل بھی اتنا ہی بھرپور، اور پتہ اتنا ہی سبز ہوگا۔ موسم خزاں یا سرما میں سورج چونکہ کم نکلتا ہے جس کے باعث پتوں میں کلوروفل بننے کا عمل کم ہوتا جاتا ہے۔

    سردیوں میں چونکہ سورج جلدی ڈھل جاتا ہے لہٰذا کلوروفل کو موقع نہیں مل پاتا کہ وہ سورج سے توانائی حاصل کر کے پتے کو رنگ فراہم کرے لہٰذا وہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے۔

    یہ عمل راتوں میں اور بھی تیزی سے ہوتا ہے کیونکہ سردیوں کی راتیں لمبی ہوتی ہیں۔

    autumn-2

    مختصر دنوں اور لمبی راتوں کے باعث پتوں میں موجود سبز رنگ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے اور پتے نارنجی، سرمئی، یا سنہری ہو کر خشک ہوجاتے ہیں اور بالآخر گر جاتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق موسموں کے طریقہ کار میں تبدیلی کے باعث موسم خزاں کا دورانیہ کم ہوتا جارہا ہے جس کے باعث امریکا میں رہنے والے افراد کو اب موسم خزاں سے لطف اندوز ہونے کا موقع کم ملے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث اب سردیوں میں موسم کی شدت کم ہوگی جبکہ موسم گرما بھی اپنے وقت سے پہلے آجائے گا یعنی خزاں کا دورانیہ کم ہوگا اور پھولوں کو مرجھانے اور پتوں کو گرنے کا ٹھیک سے وقت نہ مل سکے گا۔ یوں امریکی عوام پت جھڑ کے سحر انگیز نظاروں سے محروم ہوجائے گی۔