Tag: پراسرار

  • پراسرار آدم خور تالاب، یہاں نہانے والا زندہ واپس نہیں جاتا (ویڈیو رپورٹ)

    پراسرار آدم خور تالاب، یہاں نہانے والا زندہ واپس نہیں جاتا (ویڈیو رپورٹ)

    پہاڑوں پر گھنے جنگلات اور بڑی بڑی چٹانوں کے درمیان ایک ایسا پراسرار آدم خور تالاب بھی ہے یہاں جو نہانے آتا ہے وہ زندہ واپس نہیں جاتا۔

    اے آر وائی نیوز مری کے نمائندے ارسلان ایاز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تفریحی مقام نیو مری اور پٹریاٹہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑوں پر گھنے جنگلات اور بڑی بڑی چٹانوں کے خوبصورت مناظر کے درمیان ایک ایسا تالاب بھی ہے، جس کو مقامی افراد آدم خور تالاب کہتے ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جو بھی غیر مقامی سیاح نہانے آتا ہے، وہ زندہ واپس نہیں جاتا۔ مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ یہ تالاب اب تک 14 انسانوں کی جان لے چکا ہے۔

    آدم خور تالاب کے نام سے مشہور یہ پراسرار تالاب محققین کے مطابق تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہی وہ مقام ہے جو قدیم تہذیبوں کے محور دریائے سوات کا نقطہ آغاز ہے۔

    مقامی افراد کا کہنا ہےکہ انہیں تو اس تالاب کے بارے میں پتہ ہے اس لیے وہ یہاں نہیں آتے، لیکن جو دور دراز سے سیاح آتے ہیں وہ انجانے میں اس تالاب کا شکار بن جاتے ہیں۔

    اس پراسرار تالاب کی ریکارڈنگ کے دوران تالاب کا کھوج لگانے کے لیے جب ڈرون کیمرے کا استعمال کیا گیا تو متعدد کوششوں کے باوجود چند سیکنڈ کی اڑان کے بعد وہ خودبخود زمین پر آ جاتا۔

    مقامی افراد میں سنسان جنگل میں واقع اس پراسرار تالاب سے متعلق آسیب اور جنات کے بسیروں کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔

    تالاب میں نہانے والوں کی اموات کے اسباب کے متعلق تو حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن تاریخی اعتبار سے اہمیت کی حامل یہ جگہ خاصی پراسراریت رکھتی ہے۔

    ویڈیو رپورٹ: ارسلان ایاز

     

     

  • دنیا کا انوکھا ترین پراسرار مقام جہاں آج کے دن کچھ خاص ہونے والا ہے

    دنیا کا انوکھا ترین پراسرار مقام جہاں آج کے دن کچھ خاص ہونے والا ہے

    آج زمین کے نصف کرے پر سال کا طویل ترین دن اور مختصر ترین رات ہے، جبکہ دوسرے نصف کرے پر سال کا مختصر ترین دن اور طویل ترین رات ہے۔

    سورج کے اس سفر کو سمر سولسٹس کہا جاتا ہے، اگر آپ گوگل پر سمر سولسٹس لکھ کر سرچ کریں تو سب سے پہلی نظر آنے والی تصویر برطانیہ کے آثار قدیمہ اسٹون ہینج کی ہوگی، تاہم سوال یہ ہے کہ اس مقام کا سورج کے سفر کے اس خاص مرحلے سے کیا تعلق ہے؟

    انگلینڈ کی کاؤنٹی ولسشائر میں واقع اسٹون ہینج اب ایک تاریخی مقام کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ یہ چند وزنی اور بڑے پتھر یا پلر ہیں جو دائرہ در دائرہ زمین میں نصب ہیں۔ ہر پلر 25 ٹن وزنی ہے۔

    اہرام مصر کی طرح اسٹون ہینج کی تعمیر بھی آج تک پراسرار ہے کہ جدید مشینوں کے بغیر کس طرح اتنے وزنی پتھر یہاں نصب کیے گئے۔

    ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان کی تعمیر 3 ہزار قبل مسیح میں شروع ہوئی اور 2 ہزار قبل مسیح میں ختم ہوئی۔

    ان پلرز کی خاص بات سورج کی سیدھ میں ہونا ہے۔ ہر سال جب سال کا طویل ترین دن شروع ہوتا ہے تو سورج ٹھیک اس کے مرکزی پلر کے پیچھے سے طلوع ہوتا ہے اور اس کی رو پہلی کرنیں تمام پلروں کو منور کردیتی ہیں۔

    اسی طرح موسم سرما کے وسط میں جب سال کا مختصر ترین دن ہوتا ہے، تو سورج ٹھیک اسی مقام پر بالکل سیدھ میں غروب ہوتا ہے۔

    ہر سال 21 جون کو یہاں صبح صادق لوگوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا ہے جو سورج کے بالکل سیدھ میں طلوع ہونے کے لمحے کو دیکھنا چاہتا ہے۔

    اس مقام کو برطانیہ کی ثقافتی علامت قرار دیا جاتا ہے جبکہ یہ سیاحوں کے لیے بھی پرکشش مقام ہے۔

  • عورت کی روح نے مشہور چٹان کو دو ٹکڑے کر دیا، جاپان میں خوف و ہراس

    عورت کی روح نے مشہور چٹان کو دو ٹکڑے کر دیا، جاپان میں خوف و ہراس

    جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترقی یافتہ ملک جاپان میں ایک مشہور آتش فشانی چٹان، جو قاتل پتھر کے نام سے مشہور ہے، اچانک دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے، جس نے جاپانیوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے، اور مقامی اور قومی حکومتیں بھی ہنگامی اجلاس بلانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان میں ایک مشہور آتش فشانی چٹان (Sessho-seki قاتل پتھر)، جس کے ساتھ مختلف توہمات اور کہانیاں جڑی ہوئی ہیں، 5 مارچ کو جاپان میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے، پتھر ٹوٹنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

    یہ پتھر جاپان کے شہر توشیگی میں ایک معروف آتش فشانی پہاڑی علاقے میں موجود ہے، اس کے ٹوٹنے کے واقعے نے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے، لوگوں میں یہ بات مشہور ہو رہی ہے کہ اس پتھر میں ایک ‘بد روح’ مقیم تھی جس کے سبب یہ ٹوٹ گیا۔

    جاپانی اساطیر کے مطابق، اس پتھر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو بھی اس سے رابطے میں آتا ہے اسے مار ڈالتا ہے، کیوں کہ اس میں تمامو نو مائے نامی خاتون کی روح قید ہے، ایک خاتون جو شہنشاہ ٹوبا کے قتل کی سازش میں شریک تھی، ٹوبا نے 1107 سے 1123 کے درمیان جاپان پر حکمرانی کی تھی۔

    یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ تمامو نو مائے خاتون اصل میں نو دُموں والی لومڑی تھی، جسے ایک جنگجو نے مار دیا تھا، جس کے بعد اس کی لاش اس پتھر میں تبدیل ہو گئی تھی۔ جاپانی میڈیا میں یہ بات دہرائی جا رہی ہے کہ پتھر کے ٹوٹنے کا واقعہ شاید دانستہ طور پر واقع ہوا تا کہ اس میں مقیم بد روح کو نکال لیا جائے، اور یہ فعل بدھ مت کے ایک روحانی عامل نے انجام دیا ہے۔

    ادھر ایک جاپانی اخبار نے لکھا ہے کہ اس پتھر سے زہریلی گیس نکلنا شروع ہو گئی ہے اور جو کوئی بھی اس کو چُھوئے گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔ اس "قاتل پتھر” کے جائے وقوع کے علاقے میں حقیقی خوف اور دہشت پائی جا رہی ہے، اور ٹویٹر پر اس پتھر کی تصویر کو 1.7 لاکھ لائک مل چکے ہیں۔

    اخبار کے مطابق حکومتی ذمے داران دیگر اہم شخصیات کے ساتھ مل کر جلد ہی اس پتھر کے حوالے سے اقدامات کریں گے، اور توقع ہے کہ حکام اس پتھر کے دونوں حصوں کو دوبارہ سے جوڑ کر پرانی حالت میں لے آئیں، تاکہ بد روح کو اس کے اندر دوبارہ قید کیا جا سکے۔

  • برمودا ٹرائی اینگل سے بچ نکلنے والے پائلٹ نے کیا دیکھا؟

    برمودا ٹرائی اینگل سے بچ نکلنے والے پائلٹ نے کیا دیکھا؟

    جنگ عظیم دوئم کے زمانے سے برمودا ٹرائی اینگل ساری دنیا کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے اور اس کے بارے میں غیر ماورائی معاملات مشہور ہیں۔

    برمودا ٹرائی اینگل بحر اوقیانوس (اٹلانٹک) کے ایک مثلث کی طرح کے علاقے کو کہا جاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا میں، دوسرا پورٹوریکو میں اور تیسرا کونا میامی، فلوریڈا کے قریب ایک مقام میں واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔

    اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں جن کے باعث اس کو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے، ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی واقعات شامل ہیں۔

    اب تک اس مقام پر 2 ہزار بحری جہاز اور 200 طیارے لاپتہ ہوچکے ہیں۔

    اس علاقے میں پیش آنے والا ایک اور واقعہ ایسا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں، یہ واقعہ ایسا ہے جسے سن کر ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ جاتی ہے۔

    4 دسمبر 1970 کی ایک روشن صبح بروس گارنن نامی ایک پائلٹ نے بہاماس کے جزیرے اینڈروس سے اڑان بھری، اس کے چھوٹے جہاز میں صرف 2 مسافر سوار تھے اور ان کی منزل فلوریڈا کا شہر میامی تھا۔

    یہ ایک معمول کی پرواز تھی جس پر بروس اس سے پہلے درجنوں بار جاچکا تھا۔

    جب طیارہ 1 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو طیارے کے سامنے ایک چھوٹا سا سیاہ بادل آگیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ہی اپنا حجم بڑھانے لگا، بروس کو مجبوراً اس بادل کے اندر سے گزرنا پڑا۔

    آگے جا کر جب طیارہ 11 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر پہنچا تو پائلٹ کے سامنے ایک اور پراسرار سیاہ بادل آگیا۔ یہ بادل بہت بڑا تھا اور طیارے کو اس کے اندر سے گزارنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

    بروس نے طیارے کو بادل کے اندر داخل کردیا، اندر سیاہ گھپ اندھیرا تھا لیکن یہ طوفانی بادل نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد اچانک بادل کے اندر سفید روشنی کے جھماکے سے ہونے لگے۔ پائلٹ نے لمحے میں جان لیا کہ یہ روشنی آسمانی بجلی نہیں تھی، کچھ اور تھی۔

    بادل کے اندر طیارے کا سفر نصف گھنٹہ جاری رہا، اچانک بروس کو محسوس ہوا کہ یہ وہی بادل تھا جو 10 ہزار فٹ کی بلندی پر اس سے ٹکرایا تھا اور یہ احساس ہوتے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

    بادل اب ایک سرنگ کی سی شکل اختیار کرچکا تھا اور یوں لگتا تھا کہ اب یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اچانک پائلٹ کو سامنے روشنی کی ہلکی سی کرن دکھائی دی جس کا مطلب تھا کہ بادل کی سرنگ ختم ہورہی ہے۔

    پائلٹ کے جسم میں نئی جان دوڑ گئی، لیکن جیسے جیسے روشنی قریب آنے لگی اچانک طیارے کے آلات ایک کے بعد ایک خرابی کا سگنل دینے لگے۔

    تمام انڈیکیٹرز جلنے بجھنے لگے اور کچھ دیر بعد پائلٹ طیارے پر سے اپنا کنٹرول کھو بیٹھا، لیکن طیارہ تب بھی اڑتا رہا۔

    بروس کا کہنا تھا کہ اس وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے طیارے کو کوئی اور قوت چلا رہی ہو، یا آسمان میں کوئی کرنٹ ہو جس کے باعث طیارہ خود بخود اڑ رہا ہو۔

    کچھ دیر بعد طیارہ بالآخر بادل کی سرنگ سے نکل آیا، اور اس کے ساتھ ہی طیارے کے آلات ایسے کام کرنے لگے جیسے ان میں کبھی کوئی خرابی ہوئی ہی نہیں تھی۔

    بادل سے نکلنے کے بعد بھی طیارہ کچھ منٹ مزید گہری سفید دھند میں سفر کرتا رہا۔ اس دوران اس نے گراؤنڈ کنٹرول سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اسے اس کی موجودہ لوکیشن بتائیں۔

    گراؤنڈ کنٹرول کی جانب سے جواب ملا کہ طیارہ ریڈار پر دکھائی نہیں دے رہا جس سے بروس پریشان ہوگیا۔ پھر اچانک دبیز دھند ختم ہوگئی اور بروس نے دیکھا کہ وہ عین میامی یعنی اپنی منزل کے اوپر تھا۔

    یہ ایک اور حیران کن بات تھی، یہ فاصلہ 217 میل تھا جسے ایک گھنٹہ 15 منٹ میں طے کیا جانا تھا، لیکن طیارے کو اپنا سفر شروع کیے صرف 47 منٹ ہی گزرے تھے۔

    بہرحال طیارہ بحفاظت میامی ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔

    لینڈ کرتے ہی بروس نے طیارے کا فیول چیک کیا تو وہ اتنا خرچ نہیں ہوا تھا جتنا طے شدہ فاصلے کے مطابق اسے خرچ ہونا چاہیئے تھا۔

    بروس نے سفر سے متعلق تمام دستیاب معلومات چیک کیں تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کا طیارہ سفر کے نصف وقت میں اپنی منزل پر پہنچا۔

    اس نے فوری طور پر ایوی ایشن ماہرین نے رابطہ کیا اور انہیں خود پر گزرنے والی صورتحال بتائی، لیکن کوئی بھی اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔

    بالآخر بروس نے خود ہی اس بارے میں معلومات جمع کیں اور ان سے ایک نتیجہ نکالا کہ بادل کے اندر روشنی کے سفید جھماکے دراصل الیکٹر ک فوگ تھی۔

    کچھ افراد نے ایک ممکنہ خیال پیش کیا کہ بروس ڈارک انرجی کی وجہ سے وقت کو جلدی طے کرنے میں کامیاب ہوا، یہ وہی توانائی ہے جس کی وجہ سے ہماری کائنات پھیلتی ہے۔

    یہ توانائی بلیک ہول کی طرح وقت اور مقام میں خلل (ٹائم ٹریول قسم کے حالات) پیدا کرسکتی ہے، اسی کی وجہ سے بادل کی ایک سرنگ پیدا ہوئی، بروس اتفاق سے اس سرنگ میں جا نکلا اور خوش قسمتی سے زندہ سلامت نکلنے میں کامیاب رہا۔

    کچھ ماہرین کے مطابق اس نوعیت کے بادل اس علاقے میں عام ہیں اور اکثر پائلٹس کو ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    تاہم اس کی وضاحت کوئی نہ دے سکا کہ بروس نے اپنے سفر کا نصف وقت کیسے پار کرلیا، بروس گارنن کی یہ فلائٹ آج بھی ایک راز ہے جو حل طلب ہے۔

  • بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کائنات میں بکھرے ہوئے وہ عجیب و غریب ستارے ہیں جن سے کوئی بھی چیز باہر نہیں نکل سکتی، یہاں تک کے روشنی بھی نہیں، اس لیے ان کو براہ راست دیکھ پانا ناممکن ہے، اس دقت کے باوجود ماہرین کو یقین ہے کہ کائنات میں بہت سارے بلیک ہول موجود ہیں، اسی وجہ سے سن 2020 کے فزکس نوبل انعام سے ان کی دریافت اور ان سے متعلق اہم تحقیقات پر تین سائنس دانوں: راجر پنروز (انگلستان)، رائنہارڈ گنزل (جرمنی) اور اندرے گیز (امریکا) کو نوازا گیا۔

    بلیک ہول کا خیال 18 ویں صدی میں سائنسی حلقوں میں آیا۔ نیوٹن کے دیے ہوئے مقولوں کو استمال کرکے ایک انگریز پادری سائنسدان جان مائیکل اور عظیم فرانسیسی ریاضی داں سائمن لاپلاس نے بلیک ہول کے وژن اور اس کے سائز کا فارمولا حاصل کرلیا۔

    غور کریں کہ اگر کسی راکٹ کی رفتار 40 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے سے کم ہو تو وہ زمینی کشش سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ وہ زمین کی طرف واپس آجائے گا۔ یہ رفتار اسکیپ رفتار کہلاتی ہے اور یہ زمین کے وزن اور اس کے سائز پر منحصر کرتی ہے۔ اگر پوری زمیں سکڑتے ہوئے ایک شیشے کی چھوٹی گولی کے برابر ہو جائے تو اسکیپ رفتار بڑھتے بڑھتے یعنی روشنی کی رفتار (ایک لاکھ اسی ہزار میل فی سیکنڈ) کے برابر ہو جائے گی اور تب زمین سے روشنی بھی باہر نہیں نکل پائے گی۔ یعنی ہماری زمین ایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جانے گی۔ اس خصوصیت کی وجہ سے کائنات میں بکھرے ہوئے بلیک ہولز کو ڈھونڈ پانا ایک مشکل کام ہے۔

    سنہ 1915 میں آئن سٹائن نے زمینی کشش کو سمجھنے کے لیے انوکھا طریقہ کار پیش کیا جس کے مطابق مادہ اپنے چاروں طرف کائنات میں گھماؤ پیدا کر دیتا ہے اور جتنا زیادہ مادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ گھماؤ ہوگا۔ دوسری اور تمام چیزیں جو اس بڑے مادے کے نزدیک آئیں گیں وہ اسی گھماؤ دار راستے پر چلیں گیں۔

    جرمن سائنسدان کارل شوارزچائلڈ نے آئن سٹائن کے مقالوں کو استعمال کر کے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول کے وزن اور اس کے سائز میں تقریباً وہی رشتہ ہے جو بہت پہلے مائیکل اور لاپلاس حاصل کر چکے ہیں۔ بلیک ہول کے چاروں طرف وہ حد جہاں جا کر کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی، وہ شوارزچائلڈ حد کہلاتی ہے۔

    چندرشیکھر کی اہم تحقیقات اور پھر امریکی ایٹم بم سے منسلک مشہور سائنسداں اوپن ہائمر نے یہ محسوس کیا کہ اگر مردہ ستاروں میں بہت زیادہ مادہ ہو تو وہ کشش کی وجہ سے حد درجہ سکڑنے پر بلیک ہول بن سکتے ہیں۔ اس سمجھ کے ساتھ یہ مشکل مسئلہ تھا کے ستارے کے حد درجہ سکڑ نے کی وجہ سے اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائے گا اور پھر فزکس کے تمام اصول وہاں پر ناقص ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے بلیک ہول میں سائنسدانوں کی دلچسپی صرف ریاضیات کی حد تک رہ گئی ہے۔ خود آئن سٹائن کو بلیک ہول کی حقیقت پر یقین نہیں تھا۔

    سنہ 1960 کے آس پاس فلکیاتی سائنسدانوں نے ایک بہت ہی حیرت انگیز ستارہ دریافت کیا۔ اس کو کواسار کہتے ہیں۔ اس دریافت نے تمام فلکیاتی سائنسدانوں میں بلیک ہول سے دلچسپی کو پھر سے زندہ کر دیا۔ کواسار وہ ستارے ہیں جن سے بے انتہا روشنی نکلتی ہے جو ہماری کہکشاں یا انڈرومیدہ کہکشاں کے کروڑوں ستاروں کی روشنی سے زیادہ ہے۔ کسی ستاروں کے جھرمٹ یا کسی ستارے کے پھٹنے سے اتنی روشنی نہیں نکل سکتی۔ صرف ایک ہی بات ممکن ہے کے کسی بڑے بلیک ہول کی وجہ سے آس پاس کا مادہ کائنات میں گھماؤ کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ بلیک ہول میں گر رہا ہو اور وہ تیز رفتاری کی وجہ سے بے حد گرم ہوکر بے پناہ روشنی پیدا کر رہا ہے۔ اس سمجھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاید بلیک ہول کواسار ایک حقیقت ہیں۔

    کوا سار کی دریافت سے متاثر ہوکر راجر پنروز نے ریاضیات کے استمال سے بلیک ہول کی دریافت کو حقیقت کے نزدیک کر دیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ جب کوئی بڑا مردہ ستارہ بغیر کسی روک ٹوک کے سکڑنا شروع ہوگا تو بالآخر اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائۓ گا۔ اس ستارے کے باہر گولائی کی ایک حد ہوگی جہاں پہنچنے کے بعد کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی۔ یہ وہی حد ہے جس کا ذکر اوپن ہائمر اور شوارز چائلڈ پہلے کر چکے ہیں۔

    یہ ایسی حد ہے جس کے بعد صرف مستقبل ہے اور پھر بلیک ہول کے سینٹر پر وقت ہمیشہ کے لیے رک جائے گا۔ وقت کے خاتمے جیسی انوکھی بات کو سمجھنے کے لیے شاید فزکس کے نئے مقولوں کی ضرورت ہوگی لیکن بلیک ہول کے چاروں طرف کی حد اس کے اندر کی لامحدودیت کو چھپائے ہوئے ہے۔ اس سمجھ نے سائنسدانوں میں بلیک ہول کی لامحدودیت کی وجہ سے تکلف کو ختم کر دیا۔ ان دلائل کے بعد بلیک ہول کو دیکھنے کا مطلب یہ ہوا کے اب ہم صرف بلیک ہول کے آس پاس ان ستاروں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو تیزی کے ساتھ بلیک ہول میں ہضم ہوتے جا رہیں ہیں۔ اس سمجھ نے بلیک ہول کی دریافت کی دوڑ کو تیز کر دیا۔

    سنہ 1990 کے آس پاس گینزل اور ان کے فلکیاتی ساتھیوں نے انفراریڈ روشنی کا استمال کرکے بلیک ہول کی تلاش میں ساری توجہ اپنی کہکشاں کے سینٹر پر مرکوز کر دی جہاں پر ایک بڑے بلیک ہول کے ہونے کے بہت امکانات تھے۔ انفراریڈ روشنی کا استمال اس لئے کیا گیا کے آس پاس کی کائناتی دھول کی وجہ سے ٹیلی اسکوپ کے مشاہدات میں رکاوٹ نہ آسکے۔ دوسری دقت یہ تھی کہ ہماری زمین کے چاروں طرف پھیلی ہوا کے وجہ سے ستارے جگ مگ کرتے ہیں اس لئے ان کی تصویر دھندلی ہو جاتی ہے اور پھر ان ستاروں کی صحیح رفتار معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس پریشانی سے بچنے کے لئے گیز نے کیک کے بہت طاقتور ٹیلی اسکوپ کو استمال کیا تاکہ بہت کم وقت میں اچھی تصویر لی جا سکے۔

    چند ہی سالوں میں باریکی سے مشاہدات کے بعد دونوں تجرباتی تحقیقاتی گروپ ہماری کہکشاں کے بیچ میں بلیک ہول کے چاروں طرف تیزی سے چلتے ہوئے تاروں کے گھماؤ دار راستوں کو باریکی سے ناپنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان مشادات نے یہ ثابت کر دیا کے ہماری کہکشاں کے سینٹر پرایک بڑا بلیک ہول ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے تقریباً 40 لاکھ گنا بڑا ہے۔ اس حیرت انگیز دریافت کی اہمیت کی وجہ سے ان سائنسدانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اس بات کا بہت ذکر ہوا کے ان تینوں انعام یافتہ سائنسدانوں میں گیز، نوبل انعام کی 120 سال کی تاریخ میں صرف چوتھی خاتون ہیں۔

    فزکس ایسا مضمون ہے، جس کا وہ دعویٰ بھی کرتا ہے، جو بنا کسی تفریق کے اچھے دماغوں کو نوازتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ سائنسدان عورت ہے یا مرد۔ لیکن فزکس کے نوبل انعام یافتہ لوگوں کی فہرست اس بات کی گواہی دیتی ہے کے شاید سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ حالانکہ پہلی خاتون سائنسدان مادام کیوری کو شروع ہی میں 103 میں نوبل انعام ملا، لیکن اس کے 60 سال کے بعد دوسری خاتون سائنسدان ماریا جیوپورٹ میر کو 1963 میں اور تیسری خاتون ڈونا اسٹرکٹ کو 2018 میں نوبلے انعام ملا۔ ایسی بہت ساری خاتون سائنسدان رہی ہیں جن کی مایہ ناز تحقیقات نوبل انعام کی مستحق ہونے کے باوجود اس انعام سے محروم رہیں۔ ان میں خاص نام ہیں: لیز مایٹنر، چین شنگ وو، ویرا ربن اور ہندوستان کی بیبھا چودھری جن کے نام سے ایک ستارہ بھی منسوب ہے۔

    گیز نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کی بڑے ہوتے ہوئے ہر منزل پر یہ سننا پڑا کہ تم یہ نہیں کر سکتیں کیونکہ تم لڑکی ہو، تمہارا داخلہ کیل ٹیک جیسی مشہور جگہ نہیں ہو سکتا۔ کم و بیش اسی طرح کی باتیں ہر پڑھنے لکھنے والی لڑکی کو سننا پڑتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گیز نے اپنی پی ایچ ڈی ڈگری کے کام کو ان تمام لڑکیوں کے نام منسوب کیا ہے جو تمام رکاوٹوں کے باوجود تحقیقات کے کام میں اچھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

    فزکس کی تحقیقات کرنے والوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کے ریسرچ کرنے کی سہولتیں ٹیکس دینے والوں کی عنایت ہے۔ ساری کامیابیاں اسی عنایت کی دین ہے اور اس لیے ہر ناانصافی کو ختم کرنا ایک ضروری ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری کوئی دباؤ نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے تاکہ ریسرچ کے لیے بہتر ماحول بنے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کے پچھلے دو سالوں میں دو خواتین کو نوبل انعام ملا۔ کیا یہ اس بات کی نشان دہی ہے کے آنے والے وقت میں لڑکیوں کے لیے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنا آسان ہوجائے گا؟ کیا فزکس میں لڑکیوں کے لیے رکاوٹیں کم ہو جائیں گی؟

  • ایک اور امریکی ریاست میں پراسرار دھاتی ستون نمودار

    ایک اور امریکی ریاست میں پراسرار دھاتی ستون نمودار

    واشنگٹن: امریکا کی ایک اور ریاست میں پراسرار دھاتی ستون نمودار ہوگیا، متعدد امریکی ریاستوں سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ان دھاتی ستونوں کے نمودار اور پھر غائب ہونے کا سلسلہ جاری ہے اور تاحال ان کی حقیقت معلوم نہیں ہوسکی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق حال ہی میں نمودار ہونے والا ستون ریاست وسکونسن کے ایک پارک میں دیکھا گیا ہے، ایک ہائیکنگ ٹریل پر نصب یہ ٹکڑا 8 سے 9 فٹ طویل ہے۔

    اسے ہفتے کے روز وہاں ہائیکنگ کے لیے آنے والے افراد نے دیکھا جس کے بعد اسے دیکھنے کے لیے مقامی افراد اور میڈیا وہاں پہنچنا شروع ہوگیا۔

    خیال رہے کہ ایسا پراسرار دھاتی ستون سب سے پہلے گزشتہ برس نومبر میں امریکی ریاست یوٹاہ میں دیکھا گیا تھا، اس کے بعد مختلف امریکی ریاستوں اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ان ستونوں کے نمودار اور غائب ہونے کا سلسلہ چل نکلا۔

    یہ ستون عموماً سلور رنگ کے ہوتے تھے تاہم جنوبی امریکی ملک کولمبیا میں سنہرے رنگ کا ستون دیکھا گیا، مقامی افراد کا کہنا تھا کہ یہ اب تک نمودار ہونے والے تمام ستونوں پر حکمرانی کرنے والا ماسٹر ہے۔

    اکثر افراد کا کہنا ہے کہ یہ ستون خلائی مخلوق یہاں نصب کر جاتے ہیں اور اب ان کی موجودگی کا خیال انہیں خوفزدہ کیے ہوئے ہے۔

    یہ پراسرار ستون سنہ 1968 کی مشہور سائنس فکشن فلم 2001 اے اسپیس اوڈیسے کی یاد دلاتی ہے۔ اس فلم میں بھی اسی طرح کا خلائی ستون دکھایا گیا تھا۔

  • فلپائن میں زیر تربیت سعودی پائلٹ کی پراسرار گمشدگی کا معمہ حل نہیں ہوسکا

    فلپائن میں زیر تربیت سعودی پائلٹ کی پراسرار گمشدگی کا معمہ حل نہیں ہوسکا

    منیلا : فلپائن میں زیر تربیت ایک سعودی پائلٹ کی پراسرار گمشدگی کا معمہ حل نہیں ہوسکا، عبداللہ کے ایک قریبی عزیز نے ان کا فون نمبر ملایا تو چوتھی کوشش پر مل گیا تاہم بات نہ ہو سکی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی پائلٹ کیپٹن عبداللہ الشریف جو ڈیڑھ سال سے فلپائن میں اورینٹ فضائی کمپنی کے ایک اسکول میں زیر تربیت تھے اپنے مقامی انسٹرکٹر کے ساتھ ایک ہفتہ قبل لاپتا ہو گئے تھے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر یہ خبر سامنے آئی تھی کہ عبداللہ الشریف جس طیارے میں سوار تھے وہ حادثے کا شکار ہوا ہے تاہم اس طیارے کا کہیں بھی سراغ نہیں مل سکا اور نہ ہی اس کے ملبے کا کوئی پتا چلا ہے۔

    سعودی عرب میں موجود عبداللہ کے ایک قریبی عزیز نے اس کا فون نمبر ملایا تو چوتھی کوشش پر نمبر مل گیا تاہم اس پر بات نہیں ہو سکی۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گمشدگی کے واقعے کے تین روز بعد اس کے نمبر سے کوئی فلپائنی زبان میں بات کر رہا تھا مگر اس کا سعودی دوست فلپائنی نہیں سمجھ سکا تاہم بات کرنے والا اونچی اونچی بول رہا تھا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق جب سعودی شہری نے اسے پوچھا کہ آپ انگریزی بول سکتے ہیں تو اس کے ہاں کہہ کر فون بند کردیا، اس کے بعد سے نمبر مسلسل بند مل رہا ہے۔

    خیال رہے کہ فلپائنی حکام جنوب کے جزیرہ میندورو میں لاپتا طیارے کو تلاش کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کیا حقیقت میں طیارے کو کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔

  • برف کا پراسرارپہیہ، جس نے برطانیہ کو حیرت میں‌ مبتلا کر دیا

    برف کا پراسرارپہیہ، جس نے برطانیہ کو حیرت میں‌ مبتلا کر دیا

    لندن: کیا آپ نے کبھی برف سے بنا ایسا پہیہ دیکھا ہے، جسے  کسی انسان نے نہ بنایا ہو، بلکہ وہ خود بہ خود تشکیل پا گیا ہو۔

    بہ ظاہر یہ ناممکن ہے، مگر یہ حقیقت ہے، سیارہ زمین پر ایک ایسا پراسرار عمل بھی جاری ہے، جس کے ذریعے برف زاروں میں اچانک پہیے نما اشکال ظاہر ہو جاتی ہیں۔

    ان پہیوں کے پیچھے طویل لکیر یں نظر آتی ہیں، یہ وہ راستہ ہے، جس پر پہیہ سفر کرتے ہوئے وہاں تک پہنچا، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی اسے تشکیل دیتا ہے، نہ ہی کوئی اس پہیے یا گانٹھ کو حرکت دیتا ہے۔ یہ فطرت کے عجیب و غریب اصولوں کے تحت خود بہ خود حرکت کرتا ہے۔

    برف کی بڑی بڑی گانٹھیں بالکل قدرتی ہیں اور حالیہ دنوں میں یہ جنوبی انگلینڈ میں محکمہ جنگلات کے ایک اہل کار کو دکھائی دیں، جس نے ان کی فوری تصاویر بنا لیں۔

    سائنس دانوں کے مطابق ان کی تشکیل کے لیے مخصوص فطرتی حالات درکار ہوتے ہیں، ان میں پہلی شے تو برف ہی ہے، سخت برف پر گرنے والی نرم برف اسے تشکیل دیتی ہے، ایک ہموار بغیر سبزے والی پہاڑی پر اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    ٹھوس برف پر نرم برف  موجود ہوتی ہے، جو مناسب درجہ حرارت، نمی کے تناسب اور ہوا کی رفتار کے وسیلے دھیرے دھیرے حرکت کرنے لگتی ہے اور آخر ایک حیران کن پہیے کی شکل اختیار کر جاتی ہے، جسے عجوبہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

  • کراچی: نجی اسکول کا طالب علم پراسرار طورپر جاں بحق

    کراچی: نجی اسکول کا طالب علم پراسرار طورپر جاں بحق

    کراچی: شہر قائد کے علاقے شاہ فیصل میں ایک نجی اسکول کا طالب علم پراسرار طور پر جاں بحق ہوگیا.

    تفصیلات کے مطابق پراسرار طور پر جان بحق ہونے والے طالب علم کا نام محمد زونین تھا، جو تیسری جماعت کا طالب علم تھا.

    اسکول انتظامیہ کے مطابق طالب علم کینٹین کی لائن میں‌ کھڑا تھا کہ اچانک وہ گر کر بے ہوش ہوگیا.

    بچے کے بے ہوش ہونے کی اطلاع نے سراسمیگی پھیلا دی. اسکول انتظامیہ کے مطابق اسے طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا، مگر وہ جانبر نہ ہوسکا.

    اسکول انتظامیہ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ بچے کو مرگی کا دورہ پڑا تھا، البتہ اہل خانہ نے بچے کے ایسے کسی بھی مرض میں‌ مبتلا ہونے کی تردید کر دی ہے.

    مزید پڑھیں: کراچی، اسکول طالب علم نے چھت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی، ایس ایس پی

    اسکول انتظامیہ کی جانب سے پوسٹ مارٹم کروانے کی تجویز دی گئی، جسے بچے کے اہل خانہ نے رد کر دیا، ان کا موقف تھا کہ بچے کو مزید تکلیف نہیں دینے چاہتے.

    اسپتال انتظامیہ کی جانب سے موقف دینے سے انکار کر دیا گیا ہے.

    یاد رہے کہ چند روز قبل کراچی ہی کے اسکول میں ایک طالب علم چھت سے گر کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ پولیس نے بچے کی موت کو خودکشی قرار دیا تھا۔

  • قبرستان کا بھوت کیمرے کی آنکھ میں قید

    قبرستان کا بھوت کیمرے کی آنکھ میں قید

    لیور پول: انگلینڈ کے شہر لیور پول میں سینٹ جیمز قبرستان میں کیمرے نے ایک پراسرار سایے کو اپنے اندر قید کرلیا۔

    لیور پول کا یہ قبرستان 58 ہزار افراد کی آخری آرام گاہ ہے۔

    چند دن قبل قبرستان میں ریکارڈ کی جانے والی ایک ویڈیو کو بعد میں دیکھا گیا تو اس میں کسی پراسرار سایے کے عکس بند ہونے کا بھی انکشاف ہوا۔ یہ سایہ ہوا میں تیرتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

    اس قبرستان کے قریب رہنے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہاں پر سایوں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں، انہوں نے اس سے قبل بھی اکثر و بیشتر یہاں پراسرار سایوں کو حرکت کرتے دیکھا ہے اور اکثر یہاں سے نامانوس سی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: چاندنی رات میں باغ میں پراسرار سایہ

    داراصل اس قبرستان میں کئی نامور اور منفرد شخصیات دفن ہیں جن میں سے کچھ یہاں پر کم از کم 2 سو سال قبل آسودہ خاک کی گئیں۔

    قبرستان کی ویب سائٹ پر دی گئی اس کی تاریخ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1829 میں پھیلنے والی ہیضے کی عظیم وبا کے دوران مرنے والے بچے بھی یہاں دفن ہیں۔

    یہ وبا نہایت وسیع پیمانے پر پھیلی تھی جو 1851 تک جاری رہی اور اس دوران اس نے ہزاروں بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔

    اسی طرح 1905 میں لڑی جانے والے ٹرافالگر جنگ میں مارے جانے والے ایک امریکی سینیٹر بھی یہاں دفن ہیں۔

    ایک اور قبر میں کچھ عرصہ قبل کچھ لٹیروں نے توڑ پھوڑ کی جس کے بعد سے قبر میں دفن خاتون کی روح اب ہر روز رات کو اپنے مدفن سے باہر نکل ادھر ادھر گھومتی دکھائی دیتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔