Tag: پراسرار ہیروں والی گیند

  • ایک سو انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈوبتے سورج کی شعاعیں مک ایلسٹر کی کھڑکی سے اندر داخل ہوئیں تو ڈریٹن اس وقت ایک بار پھر گندگی پھیلانے میں جُتا ہوا تھا۔ وہ مکمل طور پر ایک بیمار ذہنیت والا نوجوان تھا، ہمیشہ غلط کام کر کے ہی خوش ہوتا تھا۔ اس وقت وہ فرش پر بکھری خوراک کی اشیا پر چل پھر کر بیڈ روم میں داخل ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید اس گھر میں نہیں رہے گا۔ وجہ ان چیزوں کی بد بو بھی جو اس نے پورے گھر میں پھیلا دی تھیں۔ الماری کے سب سے اوپری تختے پر اس نے جب کئی سلیپنگ بیگ دیکھے تو ان میں سے ایک کھینچ پر اس نے نکال لیا اور باقی فرش ہی پر پھینک دیے۔ اسے لٹکے ہوئے کپڑوں کے پیچھے ایک سوٹ کیس نظر آیا تو ہینگ سے نہایت بدتمیزی سے کپڑے کھینچ کر پھینک دیے اور پیچھے پڑا سوٹ کیس نکال لیا۔ اس کے بعد کپڑوں کی تمام الماریاں کھول کر ان میں سے مردانہ کپڑے نکالے اور سوٹ کیس میں ٹھونس دیے۔ ایک اور بیگ کو خوراک کی چیزوں سے بھرا جو ابھی تک اس نے ضائع نہیں کی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت اس نے آئینے میں خود کو دیکھا، اس کے گلے میں لٹکنے والے ستارے کے چار کونے روشن تھے۔ اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ پھیلی۔ ’’آٹھ رہ گئے ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    جب وہ قلعہ آذر کے محرابی دروازے پر پہنچا تو سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرے نے آسمان کو ڈھانپ لیا تھا۔ وہ مرکزی دروازے سے اندر گیا اور فرش پر دونوں بیگ پھینکے پھر سوچنے لگا کہ اسے سلیپنگ بیگ کہاں رکھنا چاہیے۔ سونے کے دوران اسے تازہ ہوا کی ضرورت تھی اس لیے اس نے دروازے ہی کے قریب سونے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے سلیپنگ بیگ پھیلایا اور کھانے کی چیزیں نکال کر کھانے لگا، پھر ایک آواز بلند کی: ’’پہلان… میں یہاں ہوں، آؤ اور مجھے کچھ سکھاؤ۔‘‘
    اسے جواب میں دوسرے کمرے سے ایک آواز سنائی دی، وہ پہلان کو پکارتا وہاں گیا تو پہلان کو بھیڑیوں کے ایک غول کے درمیان پایا۔ ’’یہ تو بالکل اصلی بھیڑیوں کی طرح نظر آ رہے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے ان کے تیز دانت اور رال ٹپکاتے منھ دیکھ کر کہا۔
    پہلان کی سرد اور سرسراتی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی: ’’بے وقوف، یہ اصلی ہی ہیں۔ میں انھیں حکم دے سکتا ہوں، اور یہ لمحوں میں تمھارا گلا دبوچ کر چیر پھاڑ سکتے ہیں۔ یہ میرے دوست ہیں!‘‘
    ڈریٹن نے ہاتھ بے اختیار اپنے گلے پر پھیرا: ’’میں سمجھا تھا کہ تم مجھے اس وقت یہاں دیکھنا چاہو گے تاکہ مجھے کچھ جادو منتر سکھا سکو۔‘‘
    ’’ہاں، میں تمھیں سکھانا چاہتا ہوں۔‘‘ پہلان کی خوف زدہ کر دینے والی آواز ابھری: ’’میں جو تمھیں سکھانا چاہتا ہوں اسے کہتے ہیں خوف۔ میں چاہتا ہوں کہ تمھیں بتا دوں کہ تم نے خود کو کتنے خطرناک کام میں الجھا لیا ہے۔ تم شاید سوچ رہے ہو کہ یہ کوئی کھیل ہے جس میں تم چند بچوں اور چند قدیم آدمیوں کے مقابلے پر نکلے ہو۔ لیکن میں تمھیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔‘‘
    اچانک بھیڑیوں نے حرکت کی اور ڈریٹن کے گرد پھیل گئے۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ وہ بھیڑیوں کے دائرے میں قید ہونے لگا ہے۔ خوف کی ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ وہ لرزتی آواز میں بولا: ’’یہ … یہ بھیڑیے کیا کر رہے ہیں؟ انھیں مجھ سے دور کرو۔‘‘
    پہلان خاموشی سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ بھیڑیوں نے اس کے گرد اپنا گھیرا مکمل کر لیا۔ تب اس نے پوچھا: ’’کیا تم خوف محسوس کر رہے ہو؟‘‘
    ڈریٹن کے حلق سے ڈری ڈری آواز نکلی: ’’مجھے یہ مذاق پسند نہیں۔‘‘
    پھیڑیوں نے اپنا گھیرا تنگ کر دیا۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ بھیڑیے اس کے قریب ہو گئے اور ان کے گلوں سے نکلتی دہشت ناک غراہٹ دل و دماغ پر ہیب طاری کر رہی ہے۔
    ’’تو تم خوف زدہ ہو گئے ہو؟‘‘ پہلان نے ہوا میں ہاتھ بلند کر کے کہا۔ اور اگلے لمحے بھیڑیے ڈریٹن پر جھپٹ پڑے۔ ایک نے اس کی ٹانگ منھ میں دبائی، دوسرے نے ہاتھ کو اور ایک نے اس کے گلے پر جھپٹ کر اپنے نوکیلے دانت گاڑ دیے۔
    ڈریٹن کے حلق سے دل دوز چیخیں بلند ہونے لگیں اور قلعے میں گونج کر رہ گئیں۔ وہ فرش پر گر پڑا تھا اور بھوکے بھیڑیے اسے چیر پھاڑ رہے تھے۔ اس کے حلق سے نکلنے والی چیخوں میں شیطان جادوگر کے قہقہے بھی شامل ہو گئے تھے۔ یکایک جادوگر نے اپنے قہقہے روک لیے اور پھر ایک لمحے کی بات تھی، جب ڈریٹن اچانک کھڑا ہو گیا۔
    ’’مم … میں زندہ ہوں۔‘‘ وہ خوشی سے پاگلوں کی طرح اپنے جسم پر ہاتھ پھیر پھیر کر دیکھنے لگا۔ اسے بدن پر زخم کا کوئی نشان دکھائی نہیں دیا۔ ’’مجھ پر تو بھیڑیوں نے حملہ کیا تھا۔‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا لیکن جادوگر پہلان نے کہا: ’’بے وقوف ڈریٹن، اپنے آس پاس دیکھو، کیا یہاں کوئی بھیڑیا نظر آ رہا ہے؟‘‘
    وہاں سچ مچ بھیڑیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ڈریٹن خوف زدہ بھی تھا اور حیران بھی۔ اسے اچھی طرح محسوس ہوا تھا کہ بھیڑیوں نے اس کا گلا کاٹ لیا ہے اور اسے اب بھی درد محسوس ہو رہا تھا۔ پہلان نے قہقہہ لگا کر اسے بتایا کہ یہ سب اس کے جادو کا کرشمہ تھا۔ پہلان نے جادو کے ذریعے اسے درد محسوس کرایا تھا اور کہا کہ جب وہ بھی کسی کے ساتھ ایسا کر سکے گا تو تب بڑا جادوگر کہلائے گا۔
    پہلان بولا: ’’تم صرف چند کرتب ہی دکھا سکتے ہو، اس کے علاوہ تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جب تک تمام قیمتی پتھروں کے ساتھ وہ جادوئی گیند ہمارے ہاتھ نہیں آتا، تب تک میں تمھاری کچھ مدد نہیں کر سکتا۔ گولہ ہمارے قبضے میں آئے گا تو میں بڑے بڑے جادو تمھیں سکھا دوں گا۔ اس وقت تک تم مجھے بار بار پکار کر صرف اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ جب کہ میں تمھیں بتا چکا ہوں کہ ہر قیمتی پتھر کے ساتھ تمھیں کوئی نہ کوئی طاقت ملتی رہے گی۔ تم بس اسے استعمال کرنا سیکھو۔‘‘
    وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوا پھر بولا: ’’غور سے سنو میری بات، تم ایک نہایت بے وقوف لڑکے ہو۔ گھروں کا آگ لگانا چھوڑ دو اور نہ ہی بچوں کی طرح ہر جگہ اپنے جادوئی کرتبوں کا مظاہرہ کرو۔ آج کے بعد سے تم مجھے اس وقت تک نہیں دیکھ سکو گے جب تک میں یہ دیکھ نہ لوں کہ تم سننے کے لیے تیار ہو۔‘‘
    یہ کہہ کر جادوگر پہلان ایک سفید شعلے کی صورت چمکا اور غائب ہو گیا۔ ڈریٹن نے اس کے جاتے ہی سکون کی ایک لمبی سانس لی اور سلیپنگ بیگ کے اندر لیٹ گیا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ خوف ناک بھیڑیے اس کی طرف دیکھتے ہوئے غرا رہے ہیں۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو بیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    فیونا نے جب دیکھا کہ ڈریٹن کسی بے قابو بھینسے کی طرح پتھروں پر اچھلتا، کودتا نیچے اتر رہا ہے، تو وہ ذرا بھی نہیں گھبرائی، اور بہادری کے ساتھ دونوں ہاتھ پہلوؤں پر رکھ کر سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔ جب وہ قریب آیا تو فیونا نے اسے فوراً پہچان لیا۔ ’’تو یہ تم ہو، تم وہی بدمعاش ہو نا جس نے سیچلز میں جبران کو گرا دیا تھا، لیکن تم وہاں پہنچے کیسے تھے؟‘‘
    ڈریٹن اسے یوں بے خوفی سے باتیں کرتے دیکھ کر اس سے چند قدم کے فاصلے پر رک گیا اور بہ غور دیکھنے لگا۔ ’’سنو مچھر، میں تمھیں اور تمھارے بارے میں اور قیمتی پتھروں اور جادوئی گولے کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میں نے تمھیں تمام پتھر جمع کرنے دیا ہے، جب سارے جمع ہوں گے تو میں تمھیں اور تمھاری ممی کو جان سے مار کر جادوئی گولا لے کر چلا جاؤں گا اس منحوس جگہ سے۔‘‘
    فیونا کو ذرا بھی ڈر نہیں لگا، وہ اسی طرح بہادری سے بولی: ’’تو یہ بات ہے۔ تو تم مجھ سے چھین لو گے … ہونہہ … منھ دھو رکھو اپنا۔ تم شیطان ہو اور بھولو مت کہ اچھائی ہمیشہ برائی پر غالب آ جاتی ہے۔‘‘
    ’’ہاہاہا… تو تمھارے اس مقولے نے کنگ کیگان کی کوئی مدد کیوں نہیں کی۔ کاش میں ابھی اس وقت موجود ہوتا اور اس کا سر قلم ہوتا دیکھ لیتا۔‘‘ ڈریٹن قہقہہ لگا کر بولا۔ فیونا کو اس کے بے رحمانہ الفاظ نے بہت تکلیف دی۔ ایسے میں اس کی نظر دور پیچھے سے آنے والے دو سایوں پر پڑی۔ ان کی آمد سے ڈریٹن بے خبر ہی رہا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ سرنگ سے آنے والے جیزے اور جیک ہیں، انھیں آتے دیکھ کر وہ اور نڈر ہو گئی: ’’تم بزدل ہو ڈریٹن، بالکل کنگ دوگان کی طرح۔ ہمیشہ چھپ کر وار کرتے ہو۔ یاد رکھو، میں تمام قیمتی پتھر جمع کرلوں گی اور تم ایک تک بھی پہنچ نہیں پاؤ گے۔ میں تم پر ایسا منتر پڑھوں گی کہ تم ایک پسّو بن جاؤ گے اور پھر تمھیں آسانی سے اپنے جوتے سے مسل کر زمین کے ساتھ برابر کر دوں گی۔‘‘
    عین اسی وقت جیزے نے دوڑ کر ڈریٹن کے گرد اپنے مضبوط بازوؤں کا پھندا بنا کر اسے جکڑ لیا۔ جیک فیونا کو ہاتھ سے پکڑ کر سرنگ کی طرف دوڑا اور اسے اندر چھوڑ کر پلٹا، لیکن ابھی جیزے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اچانک اس کے سامنے زمین سے آگ کا ایسا بڑا شعلہ اوپر اٹھا جیسے کوئی آتش فشاں پھٹتا ہے۔ وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹ گیا۔ آگ نے راستے میں دیوار کھڑی کر دی تھی اور وہ ان دونوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ وہ واپس سرنگ میں آ گیا۔ فیونا کہنے لگی: ’’یہ ضرور ڈریٹن نے لگائی ہے، اس کے پاس بھی یقیناً وہی طاقتیں ہیں جو میرے پاس ہیں، میں بھی آگ بھڑکا سکتی ہوں۔ جیزے کی حفاظت ضروری ہے، مجھے خود کو بڑا کر کے ڈریٹن پر حملہ کرنا چاہیے۔‘‘
    ’’نہیں فیونا۔‘‘ مائری نے سختی سے کہا: ’’بہ بہت خطرناک ہے، تم یہیں رہو، ہمیں جونی اور جمی کا انتظار کرنا ہے۔‘‘
    ’’یہ خطرناک نہیں ہے ممی، میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں، مجھے جانے دیں۔‘‘ وہ مچلنے لگی تھی، مائری نے اسے اپنے بازوؤں کی گرفت میں رکھا تھا۔ ذرا دیر بعد شعلے بجھ گئے، اور جمی اور جونی بھی پہنچ گئے۔ وہ شعلے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے: ’’یہ شعلے کیسے ہیں، اور جیزے کہاں ہے؟‘‘ جیک نے بتایا کہ جیزے نے ڈریٹن کو پکڑ لیا تھا اور پھر اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ وہ جلدی سے اس مقام پر گئے تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ادھر ادھر تلاش کرنے پر انھیں جیزے جھیل کے کنارے زخمی حالت میں پڑا ہوا مل گیا۔ وہ بے ہوش تھا اور ڈریٹن کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ جونی نے اس کی نبض دیکھی اور اینگس سے کہا کہ اسے طبی امداد کے لیے جلد گھر پہنچانا ہوگا۔ جیک نے اسے کندھے پر اٹھا لیا اور وہ سب گھر کی طرف چل پڑے۔
    فیونا نے بتایا کہ اس نے ڈریٹن کو سیچلز میں دیکھا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس کے پاس بھی وہی طاقتیں ہیں۔ جونی کہنے لگا کہ پتا نہیں وہ کس طرح ان ہی جگہوں کا سفر کر رہا ہے، یقیناً پہلان جادوگر اس کی مدد کر رہا ہوگا۔ اس نے کہا: ’’اچھی بات یہ ہے کہ وہ خود قیمتی پتھر حاصل نہیں کرسکتا، اب ہمیں جتنی جلدی ہو سکے باقی پتھر حاصل کرنے ہوں گے، کیوں کہ حالات خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پہلان ڈریٹن کو سب کچھ سکھا رہا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ سکے۔‘‘
    (جاری ہے)
  • اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    دونوں اس کی طرف متوجہ ہو گئے، دانیال نے کہا: ’’جلدی بتاؤ!‘‘
    ’’یہ گھنٹہ گزارنے کے لیے چلو کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ جبران نے مسکراتے ہوئے اپنا آئیڈیا پیش کر دیا۔ دانیال کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’دھت تیرے کی!‘‘ فیونا نے ہنس کر جبران کے آئیڈے کی تائید کی۔

    قریب ہی ایک چھوٹا سا کیفے تھا، تینوں اس میں گھس گئے کیوں کہ کوئی اور کیفے تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انھوں نے کیفے میں بیٹھ کر ایک بڑے سائز کی شرمپ مچھلی منگوائی، جس کے ساتھ ایک بہت سیپی میں درجن بھر مختلف چٹنیاں بھی تھیں۔ وہ مزے لے لے کر کھانے لگے۔ تینوں اتنی بڑی سیپی دیکھ کر حیران ہو گئے تھے، دانیال نے خیال ظاہر کیا کہ یہ اصلی نہیں ہے، لیکن جبران کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ اصلی ہو، کیوں کہ وہ سیچلز میں تھے اور ممکن ہے سیچلز میں اتنی بڑی سیپیاں ہوں۔ وہ دونوں کھانا کم کھا رہے تھے اور تبصرے زیادہ کر رہے تھے، جب کہ فیونا انھیں خاموشی سے دیکھ کر مسلسل کھانے میں مصروف تھی۔ آخر میں فیونا نے ٹشو سے ہاتھ اور منھ صاف کرتے ہوئے کہا: ’’واہ، بہت مزا آیا، بہت مزے دار کھانا تھا۔‘‘

    ’’ارے تم نے کھا بھی لیا!‘‘ جبران چونک اٹھا۔ فیونا نے کہا کہ تم دونوں باتوں میں لگے ہوئے تھے اور میں کھا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد ان دونوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ فیونا بولی: ’’اب ہمیں بندرگاہ جانا ہے اور وہ کشتی تلاش کرنی ہے جس کا نام لاپلیگ ہے۔‘‘

    ایک چھوٹی سی موٹر بوٹ کا ناخدا ان کا منتظر تھا، تینوں کو دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور بولا: ’’میڈم فیونا، مجھے جیکس مونٹ کہتے ہیں، میں آپ کے اور آپ کو جزیرہ سلہوٹ تک لے جانے کی خدمت انجام دوں گا، آپ کشتی پر آئیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر انھیں کشتی پر آنے کے لیے سہارا دیا۔ کشتی کی تہہ میں لکڑی کے تختوں پر آدھ انچ تک پانی کھڑا تھا۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی کہ بروشر میں یہ کشتی اتنی بری حالت میں نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک جبران نے منھ بنا کر سوال کیا: ’’کشتی میں اتنا پانی کیوں ہے؟‘‘
    جیکس مونٹ نے جلدی سے کہا: ’’گبھرائیں مت، کشتی میں کوئی سوراخ نہیں ہے۔ دراصل اس قسم کی چھوٹی کشتیوں میں ایسا ہوتا ہے، جب بھی میں کشتی کے موٹر کو اسٹارٹ کرتا ہوں تو لہروں کی وجہ سے تھوڑا سا پانی اندر آ جاتا ہے۔‘‘
    فیونا نے جیکس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’آپ انگریزی بہت اچھی بولتے ہیں۔‘‘ وہ مسکرا دیا۔ دانیال نے ایک پاؤں اٹھا کر کشتی کے کنارے پر رکھ دیا تو اس کے جوتے سے پانی سمندر میں گرنے لگا۔ جیکس بولا: ’’میں بہت چھوٹا تھا جب انگریزی سیکھی تھی۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ جیکس مونٹ نے بھورے بالوں کو چمک دار نیلے رنگ کی ٹوپی سے چھپایا ہوا تھا۔ اس نے ٹوپی کو ذرا سا ترچھا کر کے کہا: ’’آپ اپنے مہمانوں کا بھی تعارف کرائیں گی؟‘‘

    فیونا بولی: ’’ضرور …. یہ دانیال ہے اور یہ جبران۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں اور اسکاٹ لینڈ میں رہتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن آپ لوگوں کے والدین کہاں ہیں؟ یقیناً آپ ان کے بغیر تو اس جزیرے پر نہیں آئے ہوں گے۔‘‘ کشتی کے مَلّاح نے پوچھا۔ فیونا نے جلدی سے جواب دیا: ’’جی ہاں، وہ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں ہیں، ہمارے ساتھ نہیں آنا چاہتے تھے، اور ہمارے جانے پر انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔‘‘

    ’’کس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں آپ لوگ؟‘‘ جیکس نے اگلا سوال داغ دیا۔ اس بار دانیال نے جواب دیا لیکن اس کے لہجے میں واضح طور پر بے زاری جھلک رہی تھی: ’’سی سائیڈ فینٹیسی ہوٹل میں!‘‘

    ’’اچھا وہ تو بڑا شان دار ہوٹل ہے۔‘‘ جیکس نے چونک کر کہا، اس کی باچھیں کھل گئی تھیں۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ آپ کے والدین بہت مال دار ہوں گے جو اس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یقیناً انھوں نے آپ کو بھی اچھی خاصی رقم دی ہوگی اکیلے جانے کے لیے۔‘‘ اس کی گول آنکھیں جبران کی چھوٹی پتلون کی جیب سے باہر جھانکتے ہوئے نوٹوں پر مرکوز ہو گئی تھیں۔

    (جاری ہے)

  • اکھتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھیں

    جمی چونک اٹھا: ’’اوہ، تو تم نے اندازہ لگا لیا ہے۔ آج اس جگہ کو یمن کہتے ہیں لیکن اُس وقت وہ یمن نہیں تھا، وہ کارتھز کہلاتا تھا، یا اس کے کہیں آس پاس۔‘‘ جمی ایک لمحے کے لیے ٹھہرا اور پھر بولنے لگا: ’’اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ ساری کہانی جانتے ہیں، کیوں کہ آپ نے کتاب پڑھ لی ہے۔ دراصل بارتولف اور اس کا بھائی رالفن کارتھز کے قریب ہیڈرومیٹم میں رہتے تھے۔ اس وقت کوئی بھی ان میں بادشاہ نہیں تھا۔ وہ دولت مند سوداگر تھے اور جہاز رانی کرتے تھے۔ بارتولف کے پاس بے پناہ دولت اور قوت تھی۔ وہ ایک شیطان صفت آدمی تھا اور اپنے نرم دل بھائی رالفن کو بہت پریشان کرتا تھا۔ یہ عین وہ دور تھا جب پونیزی لڑائیوں کی ابتدا ہو رہی تھی۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے رالفن نے بھیس بدل کر اپنے خاندان، دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ ہیڈرومیٹم کو خیرباد کہہ دیا اور صحرائے عرب کے مشرقی حصے کی طرف ہجرت کر لی۔ یہی وہ جگہ ہے جس کو اب آپ یمن کہتے ہیں۔ رالفن نے وہاں جا کر ایک نئی سلطنت آباد کی اور اسے بورل کا نام دیا۔ وہ وہاں کا بادشاہ بن گیا اور اپنی موت تک امن و سکون اور انصاف کے ساتھ حکومت کرتا رہا۔ دوسری طرف بارتولف کو اپنی غلط حرکتوں کے سبب ایک دن کارتھز سے نکل کر بھاگنا پڑ گیا۔ وہ شمالی افریقہ پہنچا اور وہاں اپنی الگ سلطنت آباد کر لی، جسے اس نے زناد کا نام دیا۔ اس کی حکمرانی کے دور میں خون، ظلم اور شیطانی حرکات کا عروج رہا۔‘‘

    جمی سانس لینے کو رکا تو اینگس جلدی سے بولنے لگے: ’’ہنی بال کا تختہ الٹ دیا گیا تو اس نے خود کشی کر لی۔ رومیوں نے کارتھز کو برباد کر کے رکھ دیا۔ وہاں کی ساری زمین جلا دی گئی اور زمین میں نمک بویا گیا تاکہ پھر کبھی اس میں کوئی چیز نہ اگ سکے۔ اب اس جگہ کو تیونس کہتے ہیں جہاں پانچ صحرائیں پائی جاتی ہیں۔‘‘

    جمی اینگس کی بات سن کر افسردہ ہو گیا۔ ’’مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا، ظاہر ہے کہ ہیڈرومیٹم بھی تباہ ہوا ہوگا۔ لیکن خیر، ایک بار جب جادوئی گولا اپنی اصل سرزمین تک پہنچ جائے گا، تو ہیڈرومیٹم پھر سے دودھ اور شہد سے بھر جائے گا۔ اب چوں کہ دوگان نہیں رہا ہے اس لیے ہم پرامن زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘ اینگس کو ایک بات یاد آ گئی: ’’اور بورل کا کیا ہوا؟ وہاں رالفن کی سلطنت اور اس کے قلعے کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘

    جمی نے جواب دیا: ’’وہاں کئی نسلوں نے زندگی گزاری۔ جب آخری بادشاہ کیگان نے بورل کو خیرباد کہا تو اس نے اکثر دولت اپنے لوگوں ہی کے لیے چھوڑ دی۔ تمھارے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ بورل کا کیا بنا۔ اتنے عرصے بعد میں اب سوچتا ہوں کہ وہاں دھول اور کھنڈرات کے سوا کچھ بچا بھی ہو گا یا نہیں۔ وہ ایک ایسی سرزمین تھی جو سرسبز تھی، اور ہیروں سے بھری ہوئی تھی۔ ساحل پر ہیرے سمندر سیپیوں کی طرح پڑے ہوتے تھے۔ مچھلیاں بے تحاشا تھیں۔ شہد کی مکھیاں ہمیں نہایت میٹھا عنبریں شہد دیا کرتی تھیں۔ ناریل کے درخت جا بجا اُگے ہوئے تھے اور خوراک کی اتنی کثرت تھی کہ ہرن اور دوسرے جنگلی جانوروں کا شکار کرنے کے لیے ہمیں تیر کمان اٹھانے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی تھی۔‘‘
    اینگس نے کرسی پر آگے کی طرف جھکتے ہوئے کہا: ’’بہت دل چسپ کہانی ہے، جاری رکھو اسے۔‘‘

    جمی مسکرایا اور بتانے لگا: ’’جو شخص شام کو کھڑکی سے جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ کنگ دوگان کا وارث ہے۔ جس طرح تاریخ نویس آلرائے کیتھمور نے یہ کتاب لکھی تھی، اسی طرح دوگان کے مؤرخ طالون نے بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ وہ کتاب ضرور اس شخص کے قبضے میں ہے اور وہ یقیناً جادوئی گولے کے بارے میں جانتا ہے اور یہ بھی کہ گولا آپ کے پاس ہے۔ لہٰذا آپ کو ایک محافظ کی ضرورت ہے۔ جیزے آج رات آپ کے پاس یہیں رہے گا، اور جیسے جیسے دوسرے پہنچتے رہیں گے وہ بھی یہیں رہ کر آپ کی، اس کتاب اور گولے کی حفاظت کرتے رہیں گے۔‘‘

    جمی چند لمحے ٹھہرا اور پھر گھمبیر لہجے میں بولا: ’’پتا ہے، اگر یہ گولا اس شخص کے ہاتھوں لگا تو وہ کیا کچھ کر سکے گا؟‘‘

    (جاری ہے)

  • اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’یہاں تو اچھی خاصی بدبو ہے، ٹرال کی بدبو تو یونان کے اُس گدھے سے زیادہ تیز ہے۔‘‘ دانیال نے چٹکی سے نتھنے بند کر دیے۔ فیونا ایک جگہ رک کر بولی: ’’مرجان یہاں ہے، لاوے کے اندر۔ کیا تم نیچے بیٹھ کر کسی سوراخ کو تلاش کر سکتے ہو؟‘‘ فیونا نے اپنے قدموں کے پاس اشارہ کیا۔ دانیال وہاں پڑے ایک پتھر کے نیچے سرک گیا اور پھر بولا: ’’ہاں یہاں ایک سوراخ ہے جس میں میرا ہاتھ آسانی سے جا سکتا ہے۔‘‘

    فیونا پُر جوش ہو کر بولی: ’’ٹھیک ہے دانی، تم جلدی سے وہاں مرجان تلاش کرو۔‘‘

    ’’میں کسی مہین چیز کو محسوس کر رہا ہوں، میرے خیال میں یہی مرجان ہے۔‘‘ دانیال مسرت بھرے لہجے میں بولا: ’’یہ رہا، میں نے اسے پکڑ لیا۔‘‘ عین اسی وقت غار میں زلزلہ آ گیا اور غار کی چھت سے لاوے کے ٹکڑے ٹوٹ کر نیچے گرے۔ فیونا گھبرا کر چلائی: ’’یہ کیا ہو رہا ہے … مم میرا خیال ہے کہ زلزلہ آ گیا ہے۔ دانی جلدی سے ہاتھ کھینچ لو، ہمیں خود کو محفوظ جگہ چھپانا ہوگا۔‘‘

    زمین سے ایسی گڑگڑاہٹ کی آوازیں اٹھ رہی تھیں جیسے کوئی ٹرال غرا رہا ہو۔ غار کا فرش بری طرح لرز رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے لپیٹنے لگا ہو۔

    ’’ارے فرش کو دیکھو… یہ تو بالکل دھوئیں کی لہریں ہیں۔‘‘ دانیال چیخا۔

    زلزلے کی گڑگڑاہٹ اتنی تیز ہو گئی تھی کہ انھیں کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہونے لگے۔ یکایک ان سے ذرا فاصلے پر چھت سے لاوے کے ٹکڑوں سے بنا ایک بڑا پتھر گرا اور سینکڑوں ٹکڑوں میں تبدیل ہو گیا، اور یہ ٹکڑے نہایت تیزی سے غار میں پھیل گئے۔

    ’’لیٹ جاؤ دانی، اگر ایک بھی پتھر لگا تو ہم مر جائیں گے۔‘‘ فیونا نے چیخ کر کہا اور فوراً زمین پر خود کو گرا دیا۔ دانیال نے بھی اس کے پاس ہی پتھریلی زمین پر خود کو گرا دیا۔ دونوں کے چہرے خوف سے زرد ہو چکے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی تیرنے لگے تھے لیکن انھیں اس کا احساس نہیں ہو پایا تھا۔ بہادری جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، سب ہوا ہو گئی تھی۔ اگلے دس منٹ تک دونوں بازوؤں میں سر چھپائے لیٹے رہے تاکہ لاوے کا کوئی پتھر انھیں نہ لگ جائے۔ پھر آخر کار زلزلہ تھم گیا اور غار دھول سے اٹ گیا۔ دونوں آہستہ آہستہ اٹھ کر دیکھنے لگے اور پھر کھانسنا شروع کر دیا۔

    ’’دانی، آگ بجھ گئی ہے۔‘‘ گھپ اندھیرے میں اس کے کانوں سے فیونا کی آواز ٹکرائی۔

    اس نے کہا کہ تم جلدی سے مزید آگ بھڑکاؤ، لیکن فیونا کوشش کے باوجود ناکام ہو گئی۔ فیونا کو خیال آیا کہ شاید دھول میں یہ کام نہیں کر رہا ہے۔ دانیال نے کہا فیونا تم گھبرائی ہوئی ہو بس، ایک بار پھر فوکس کرو۔ فیونا نے ایک بار پھر آگ کے خیال پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور اس بار وہ واقعی کام یاب ہو گئی۔

    ’’یہ آگ زیادہ تو نہیں ہے لیکن اس میں ہم مرجان کو تو ڈھونڈ ہی لیں گے۔‘‘ فیونا خوش ہو گئی۔ دونوں کا خوف کافی حد تک کم ہو گیا تھا، اور ان میں خود اعتمادی بحال ہونے لگی تھی۔

    ایسے میں دانیال نے یاد دلایا: ’’پھندا نمبر دو۔ ایک اور زلزلے میں خود کو مارے بغیر ہم مرجان کیسے حاصل کر سکیں گے؟‘‘

    دونوں اگلے ٹریپ کے خیال سے محتاط ہو گئے۔ دانیال نے کہا شاید جبران بھی ہو تو وہ بھی کچھ مدد کر سکے۔ فیونا کو بھی لگا کہ اب جبران کو پہلے ڈھونڈنا ہی بہتر ہے۔ دونوں اس پر متفق ہوئے تو فیونا پچھلی دیوار کی طرف بڑھنے لگی، جہاں اسے ایک سوراخ نظر آیا۔ وہ بولی: ’’ارے یہاں تو بدبو بھی ہے، ضرور ٹرال یہاں سے گزرا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک فلیش لائٹ نکال لی، اور اس کی روشنی میں آگے دیکھنے لگی۔ ’’وہ اسی راستے سے گئے ہیں، وہ دیکھو، جبران کے جوتوں کا ایک تسمہ ٹوٹا ہوا پڑا ہے۔‘‘ فیونا نے ایک سفید ڈوری پر روشنی ڈالی۔

    ’’فیونا، یہاں تو اور کوئی سرنگ نہیں ہے، یہ ایک ہی بہت بڑا غار ہے جو مختلف سمتوں مین بٹا ہوا ہے۔ کیا پتا اگلا پھندا یہیں پر ہو اور کیا پتا کہ وہ یہاں ہمارا انتظار کر رہا ہو تاکہ ہمیں ہڑپ کر جائے۔‘‘

    ’’دانیال، اب تم بھی بالکل جبران کی طرح باتیں کرنے لگے ہو، کیا پتا کیا پتا کی والی باتیں مت کرو، بس اسے ڈھونڈو۔‘‘ فیونا ایک طویل اور اندھی سرنگ میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی، لیکن پھر ایک آواز سن کر اس کے قدم رک گئے۔ اس نے دانیال کی طرف دیکھ کر جوش سے کہا: ’’اب جلدی کرو، میں نے ٹرال کی آواز سن لی ہے۔‘‘

    دس قدم کے بعد وہ ایک اور بڑے غار کے دہانے پر کھڑے تھے۔ فیونا نے فلیش لائٹ سامنے سے ہٹا دیا، اب اس کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ غار کی چھت میں ایک سوراخ سے روشنی چھن چھن کر آ رہی تھی اور سب کچھ نظر آ رہا تھا۔
    ’’لو، یہاں تو ایک نہیں تین تین ٹرالز ہیں۔‘‘ فیونا بری طرح چونک اٹھی۔

    (جاری ہے)

  • پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    ’’یہ تو بہ ظاہر پتھر دکھائی دے رہا ہے، چٹان حرکت نہیں کرتی، یہ کوئی زندہ مخلوق ہے۔‘‘ دانیال نے بیگ سے کیمرہ نکالتے ہوئے ایک نئی بات کہہ دی۔ ’’جب ہم لنچ کر رہے تھے تو میں نے دو آدمیوں کو ہولڈوفوک کے متعلق باتیں کرتے سنا تھا۔‘‘

    فیونا چونک اٹھی: ’’ہولڈوفوک؟ کیا میں پوچھنے کی جرأت کر سکتی ہوں کہ یہ کس قسم کی مخلوق ہے؟‘‘

    ’’ہولڈوفوک چٹانوں کے درمیان رہتی ہے اور چٹانوں کی طرح دکھائی دیتی ہے اور یہ لوگوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ دانیال نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور کیمرے کا فلیش دبا دیا۔ ’’آؤ، میں ذرا قریب سے اس کی تصویر کھینچ لوں۔‘‘

    ’’کیا یہ دن میں بھی نکل آتی ہے یا صرف رات کو نکلتی ہے؟‘‘ جبران کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔

    ’’دن ہو یا رات، اس کی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ہاں انھیں براہ راست سورج کی روشنی پسند نہیں۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔

    انھوں نے ’پتھر‘ کو غور سے دیکھا۔ ’’یہ تو حرکت نہیں کر رہا، ہم خوامخواہ کچھ کا کچھ تصور کر لیتے ہیں۔ یہاں کوئی ایسی ویسی مخلوق نہیں ہے۔ اور ٹرال کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ محض تصوراتی مخلوق ہے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف گھور کر دیکھا۔

    ’’ہاں تم نے ٹھیک کہا، نہ ہونے کو تو ماربل عفریت بھی کوئی چیز نہیں جو سانپ کے سروں والی مخلوق ہے لیکن پھر بھی ہم نے دیکھ لی تھی۔‘‘ دانیال نے اس پر طنز کیا۔ ’’پتا ہے اس جزیرے پر تو بہت ساری پریاں، بالشتیے اور لمبے کانوں والی پری نما مخلوق بھی رہتی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر ٹھیک ہے، آؤ انھیں قریب سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے قائل ہو کر کہا اور کوٹ کی جیب سے کیمرا نکال لیا۔ اس دوران دانیال کئی تصاویر بنا چکا تھا۔ وہ تینوں دل ہی دل میں ڈر رہے تھے لیکن اس مخلوق کو قریب سے دیکھنا بھی چاہتے تھے۔

    ’’اوہو، تم بھی کیمرہ لائی ہو۔‘‘ جبران چہکا۔ عین اسی وقت ان کے سامنے کوئی چیز چمکی، جیسے اچانک کوئی شعلہ بھڑکا ہو۔ ’’ارے یہ کیا تھا … کیا یہ ٹرال مخلوق تھی؟‘‘ جبران اچھل پڑا۔

    ’’میں جانتا ہوں یہ کیا ہے۔‘‘ دانیال پرجوش ہو کر بولا اور تیزی سے روشنی کی طرف بڑھا۔ ’’یہ روشنی پری ہے۔ یہ دراصل ٹرال ہی کے متعلق باتیں کر رہی تھی۔ یہ پریاں بالکل پیٹر پان کی ٹِنکر بیل جیسی ہوتی ہیں۔ جب یہ اڑتی ہیں تو اپنے پیچھے روشنی کی لکیر چھوڑ جاتی ہیں۔ اور پتا ہے یہ کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتیں۔ اگر ایک بوتل مل جائے تو میں کسی ایک کو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ گھر بھی لے کر جاؤں۔‘‘

    ’’پتا نہیں، ہم کیسی عجیب و غریب جگہ پر آ گئے ہیں، ہمیں آگے کیا کچھ دیکھنے کو مل جائے، میں تو واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران اچانک خوف زدہ ہونے لگا تھا۔ فیونا نے اسے تسلی دی: ’’کچھ نہیں ہوگا، ڈرو مت، ہم تقریباً پہنچ ہی گئے ہیں، بس ذرا ہی آگے لاوا غار ہے، اور احتیاط سے چلو سب، یہ زمین نوک دار ہے۔‘‘
    فیونا نے چلتے چلتے مڑ کر دانیال کی طرف دیکھا اور پکارا: ’’واپس آ جاؤ، چھوڑیوں پریوں کو… آہ… میرے ٹخنے پر چوٹ لگ گئی!‘‘

    (جاری ہے)