Tag: پراسرار ہیروں‌ والی گیند اور دہشت بھری دنیا

  • دو سو دو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو دو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    اونٹ کے جانے کے بعد فیونا اور وہ دونوں قصر کے دروازے میں داخل ہو گئے۔ اندر بھی گرمی تھی، اور آس پاس کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ باقی دونوں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے جب کہ دانیال نے یہ کہہ کر کہ وہ تو اپنا جادوئی چراغ بھول ہی گیا ہے، اسے نکال لیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا یہ بس ایک چراغ ہے، یہاں لوگ انھیں تیل جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیوں کہ یہاں بہت سے لوگوں کے پاس بجلی نہیں ہے۔

    دانیال نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی، اور چند قدم آگے بڑھ کر قلعے کی پتھر کی اونچی دیوار کے سائے میں بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنی ہلکی نیلی قمیض کا کونا پکڑ کر چراغ پر رگڑا تاکہ اسے صاف کرے، کہ اگلے ہی لمحے وہ بری طرح اچھل پڑا۔ چراغ ایک دم سے گرم ہو کر لرزنے لگا تھا اور اس میں سے ایک عجیب سا ڈراؤنا شور نکلنے لگا۔ اس نے گھبرا کر چراغ ہاتھوں سے گرا دیا۔ اور دوڑ کر فیونا کے پاس چلا گیا۔ فیونا اس کے چہرے کی حالت اور منھ سے نکلتی ٹوٹی پھوٹی بات سن کر ہنسنے لگی۔ ’’دانی، یہاں صرف ایک ہی چیز ہے جو عجیب و غریب حرکتیں کر رہی ہے، اور وہ تم ہو۔‘‘

    دانیال نے کہا اگر تم لوگوں کو یقین نہیں ہے تو آؤ خود دیکھو۔ فیونا نے مذاق اڑاتے ہوئے جبران سے کہا آؤ دانی ہمیں چراغ والا جن دکھائے گا۔ وہ جیسے ہی اس کونے میں پہنچے جہاں دانیال نے چراغ گرایا تھا تو انھیں چکر کاٹتے سبز دھوئیں نے گھیر لیا۔ دانی نے جلدی سے بتایا کہ یہ چراغ میں سے نکلا ہے۔ وہ دونوں بھی حیرت سے سبز دھوئیں کو دیکھنے لگے، دانیال کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی، کیوں کہ وہ سچا ثابت ہوا تھا۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دھوئیں نے انسانی شکل اختیار کر لی۔ دانیال چیخا: ’’یہ دیکھو، میں نے کہا تھا نا کہ یہ جینی ہے!‘‘

    ان کے سامنے کھڑی مخلوق نے ناراض اور گونجتی ہوئی آواز میں کہا ’’میں تمھیں عورت دکھائی دیتی ہوں کیا؟ میں جینی نہیں جن ہوں۔‘‘

    فیونا نے نوٹ کیا کہ اس کی دھوئیں جیسی جلد ہلکی سبز تھی، سر پر ایک چمک دار سلنڈر سی سبز ٹوپی جمی تھی، جس کے اوپری سرے پر ایک پھندنا لٹک رہا تھا، اس کی پینٹ دیودار کے درخت کی طرح تھیلی دار اور گہرے سبز رنگ کی تھی، جب کہ زیتون ایسی سبز واسکٹ پہنی تھی جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ وہ موٹے بازوؤں والا جن تھا اور اس نے پیروں میں سنہری چپل پہنی ہوئی تھی۔
    اچانک دانیال نے پوچھا ’’کیا تم ہماری تین خواہشات پوری کرو گے؟‘‘

    جن نے ایک بار پھر ناراض ہوتے ہوئے کہا ’’میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں ایک جن ہوں، اور جن خواہشات پوری نہیں کرتے بلکہ جینی کرتی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا ’’مجھے اس فرق کا نہیں پتا۔ تم ایک جادوئی چراغ سے آئے ہو، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ تم ایک جن ہو اور خواہشات پوری کر سکتے ہو۔‘‘

    جن نے کہا میرا نام حکیم ہے، میں سلطان دیبوجی کے زمانے کا ایک جن ہوں۔ مجھ سے بس تھوڑا سا بکری کا دودھ گر گیا تھا جس پر سلطان نے مجھے پیتل کے اس چراغ میں بند کر دیا۔ ویسے یہ کون سی صدی ہے؟ جبران نے جواب دیا کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔ وہ اچھل کر بولا ’’اس کا مطلب ہے کہ میں اس چراغ میں 1200 سال سے بند ہوں؟ بکری کا تھوڑا سا دودھ گرنے کے لیے۔‘‘

    کچھ لمحوں بعد وہ خوش ہو کر بولا آپ سب کا شکریہ، میں اب خوش ہوں کہ آزاد ہو گیا ہوں۔ مجھے اب جانا چاہیے۔ ویسے تم لوگوں نے ٹوپیاں اچھی پہنی ہیں۔ دانیال نے چیخ کر کہا ’’رکو ذرا، تمھیں ہماری تین خواہشیں پوری کرنی چاہیے، ہم نے تمھیں آزاد جو کیا ہے۔‘‘ لیکن جن نے کہا ہرگز نہیں۔ اس پر دانیال نے کہا اچھا دو خواہشیں تو پوری کرو، لیکن جن نے انکار میں سر ہلایا۔ ایسے میں فیونا نے مسکرا کر کہا چلو ایک خواہش ہی پوری کر دو۔ پر جن نے کہا ’’بالکل نہیں، ہاں، میں آپ کو کچھ مشورہ دے سکتا ہوں۔‘‘

    فیونا جلدی سے بولی’’ ہمیں مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ جن نے کہا تو کیا جادوئی قالین چلے گا؟ دانیال اچھل کر بولا اوہ کیوں نہیں، زبردست۔ اس پر حکیم نے اپنا سبز دھواں دار ہاتھ ہوا میں لہرایا اور عربی میں کچھ بڑبڑایا، اگلے ہی لمحے ان کے قدموں میں ایک جادوئی قالین بچھا نظر آ رہا تھا۔ انھیں یہ بالکل ویسا ہی لگا جیسا کہ انھوں نے مادبا میں دیکھا تھا۔ حکیم نے بتایا کہ انھیں صرف جادوئی لفظ دہرانا ہے اور یہ اڑنے لگے گا۔ اور جب وہ واپس جائیں تو اس قالین کو قصر میں چھوڑ کر جائیں۔ سلامہ ۔۔۔ اب میں جا رہا ہوں میری نئی آزادی مجھے بلا رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا۔

    فیونا نے اچانک کہا کہ جن نے تو وہ جادوئی لفظ بتایا ہی نہیں، اب ہم اس پر کیسے اڑیں گے؟‘‘ وہ جن کو بار بار آوازیں دینے لگے لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔ وہ تھک کر وہاں بیٹھ گئے۔ جبران نے فیونا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ یاقوت کہاں ہے؟ کیا اس قلعے میں ہے؟ فیونا نے بتایا کہ وہ یہیں پر ہے لیکن اسے صرف سورج نکلنے کے وقت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

    جبران حیران رہ گیا: ’’اس بار وقت کی یہ پابندی کیوں بھلا؟‘‘ فیونا نے حیرت انگیز بات بتائی کہ یاقوت کو صرف سورج کی روشنی میں دیکھا جا سکے گا، نہ پہلے نہ بعد میں۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ہمیں سارا دن اور ساری رات یہاں بیٹھے رہنا ہے۔ فیونا تو کچھ ہی دیر میں وہاں سو گئی، جب کہ جبران ویران قلعے میں ادھر ادھر گھومنے لگا اور دانیال اسکیچز بنانے لگا، اس نے دراصل جن کی تصویر بنانی تھی۔

    کئی گھنٹوں بعد جب فیونا نیند سے جاگ گئی تو جبران بھی واپس آ گیا تھا، انھیں ہلکی سی بھوک لگ رہی تھی۔ فیونا نے بیگ سے تین انار نکالے جسے دیکھ کر جبران اور دانیال خوش ہو گئے، لیکن یہ چیز فیونا کے لیے نئی تھی، اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے کھانا کیسے ہے۔ جبران نے بتایا کہ اسے کھول کر اس کے اندر موجود دانے کھانے ہیں اور یہ بہت میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔

    (جاری ہے…)

  • ایک سو اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    سب اپنے اپنے خیمے میں سونے کے لیے چلے گئے تھے، فیونا اور اس کی ممی بھی اپنے خیمے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے کہا: ’’ممی میں چند منٹوں کے لیے دوربین سے یہاں کا نظارہ کرنا چاہتی ہوں، بس ابھی واپس آ جاؤں گی، ٹھیک ہے؟‘‘
    مائری نے ٹھیک ہے کہہ کر سر اثبات میں ہلایا، فیونا باہر نکل گئی اور وہ سلیپنگ بیگ پھیلانے لگییں۔ فیونا سوچ سمجھ کر باہر نکلی تھی، اس نے ڈھلوان پر پہنچ کر دوربین آنکھوں سے لگایا اور رات کی تاریکی میں جنگل، پہاڑیوں اور درختوں کے گہرے سایوں میں کچھ تلاش کرنے لگی۔ آخر کار وہ چونک اٹھی: ’’یہ کیا ہے؟ اوہ یہ تو ایک کار ہے۔‘‘ اس نے دوربین میں غور سے دیکھا تو اسے ڈریٹن بھی کار میں پچھلی سیٹ پر سوتا نظر آ گیا۔ فیونا کے ہونٹوں پر خطرناک مسکراہٹ طاری ہو گئی۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور کیمپ گراؤنڈ کے آس پاس موجود ریچھوں، راکون بندروں، چوہوں اور گلہریوں کو پکارا، اور انھیں حکم دیا کہ وہ گاڑی میں موجود لڑکے کے گرد جمع ہو کر اسے ڈرائے، تاہم اسے زخمی نہ کرے۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو درختوں کے درمیان تیز سرسراہٹیں سنائی دینے لگیں، مختلف جانور ڈریٹن کی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ دوربین میں یہ نظارہ دیکھ کر مسکرا رہی تھی کہ اچانک اسے کندھوں پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اور وہ اچھل پڑی۔
    ’’آپ کیا کر رہی ہیں فیونا؟‘‘ یہ جیک تھا۔
    ’’مم … میں ستاروں کو دیکھ رہی ہوں۔‘‘ اس نے گڑبڑا کر جھوٹ بولا۔ لیکن وہ بھول گئی تھی کہ دوربین کا رخ آسمان کی طرف نہیں بلکہ نیچے جنگل کی طرف تھا۔ جیک کی گھومتی نظروں سے ہار کر آخر اس نے اعتراف کر لیا کہ وہ ڈریٹن کو سبق سکھانا چاہ رہی ہے۔ جیک چونک اٹھا اور بولا: ’’ڈریٹن؟ وہ کہاں ہے؟‘‘ فیونا نے اسے دوربین دے کر ایک طرف اشارہ کیا۔ جیک نے دیکھا کہ ایک ریچھ گاڑی پر کھڑے ہو کر اچھل کود کر رہا تھا، ایک پہاڑی شیر گاڑی کے دروازے پر حملہ آور ہو کر اپنے نوکیلے پنجے اس میں گاڑنے کی کوشش میں تھا۔ اس نے دیکھا کئی بندر اور بڑی گلہریاں اور دیگر کئی جانوروں نے گاڑی کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ جیک کو بھی دیکھ کر مزا آیا اور اس کے چہرے پر چاند کی روشنی میں مسکراہٹ پھیلی دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر تک انھوں نے ڈریٹن کی خوف زدہ صورت حال کا لطف لیا اور پھر خیموں میں چلے گئے، فیونا نے جیک سے کہا تھا کہ وہ اس کے بارے میں ممی کو ہرگز نہ بتائے۔
    ۔۔۔۔۔
    گاڑی میں بری طرح ہلچل کی وجہ سے ڈریٹن کی آنکھ کھل گئی، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاڑی کے آس پاس ہر قسم کا جنگلی جانور موجود ہے اور گاڑی پر حملہ کر رہا ہے۔ وہ خوف زدہ ہو کر جانوروں کو دور ہونے کا حکم دینے لگا لیکن کسی نے اس کا حکم نہ سنا۔ وہ غصے سے چیخ چیخ کر انھیں جانے کا کہتا رہا لیکن جانوروں نے اس کی ایک نہ سنی۔ تھک ہار کر وہ خاموش بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ ایک اور رات بے خوابی میں گزرے گی اب۔ اس نے جادوگر پہلان کو آواز دے کر کہا اس سے بری رات اور کیا ہو سکتی ہے۔ پہلان نے اس کی چیخیں سنیں، تو اس کی حالت پر افسوس کرتا ہوا قلعے کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بڑبڑا کر بولا کہ اس احمق سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اس نے کمرے میں سرخ ٹوپیوں والی بد روحوں میں سے تین کو ڈریٹن کی طرف جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جا کر اس کی مدد کرو، جانوروں کو ڈرا کر بھگاؤ اور پھر انسانوں کو خوف زدہ کرو۔ تین بد روح، گھناؤنی شکلیں پہلان کے حکم پر روانہ ہو گئیں۔
    بد روحوں نے گاڑی کے آس پاس پھیلے ہوئے جانوروں کو ڈرا کر بھگا دیا۔ بد روحوں کو دیکھ کر ڈریٹن کی بھی روح فنا ہو گئی تھی، اور وہ سوچ میں پڑ گیا تھا کہ پتا نہیں پہلان نے انھیں پھر اذیت دینے کے لیے نہ بھیجا ہو۔ بد روحوں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ اٹھو اور بتاؤ کہ انسان کہاں پر ہیں، پہلان نے انھیں اذیت دینے کا حکم دیا ہے۔ ڈریٹن یہ دیکھ کر خوش ہو گیا اور بد روحوں کو بتایا کہ فیونا کا گروپ کہاں ٹھہرا ہوا ہے۔ بد روحیں فیونا اور باقی افراد کی طرف اڑ گئیں جب کہ ڈریٹن پھر گاڑی میں لیٹ کر سو گیا۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو ستاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ستاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    وہ اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑی ہو گئی اور مسرت سے چیخ مارتی دوڑی اور ممی کے گلے میں جھول گئی۔ ’’اوہ ممی، کتنی شان دار خبر سنائی ہے آپ نے۔‘‘

    ’’قلعے میں رہائش کا تو مزا ہی الگ ہوگا۔‘‘ جبران نے ایک شان دار سجے ہوئے قلعے کا تصور ذہن میں لاتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن فیونا ہم ایک دوسرے سے بہت دور ہو جائیں گے۔‘‘

    فیونا نے دیکھا کہ اس کے دونوں دوستوں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ اداسی کا سایہ بھی پھیل گیا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ مائری نے ان تینوں کے جذبات کو محسوس کرتے ہوئے مسکرا کر کہا: ’’ہم تمھیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ تم اور تمھارے والدین بھی ہمارے ساتھ قلعے میں منتقل ہوں گے۔ ہم ان سے درخواست کریں گے کہ وہ ہمارے ساتھ قلعے میں منتقل ہو جائیں۔ اگر انھوں نے پھر بھی انکار کیا تو ہم ان سے کہیں گے کہ وہ کم از کم تم دونوں کو قلعے میں رہنے کی اجازت دیں۔‘‘
    فیونا یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور ممی کا اس بات پر شکریہ ادا کرنے لگی کہ وہ اس کے دوستوں کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ جبران اور دانیال بھی پرجوش ہو گئے تھے اور پرامید تھے کہ دونوں میں سے کوئی ایک بات ہو جائے گی۔ یعنی یا تو وہ سب فیونا کے ساتھ منتقل ہو جائیں گے یا صرف ان دونوں کو قلعے میں عارضی طور پر رہنے کی اجازت مل جائے گی۔
    قلعے میں منتقلی کی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ کافی دیر سے خاموش رہنے والے اینگس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا: ’’ مائری تم بھول رہی ہو کہ یہ سب کرنے کے لیے پہلے قانونی اجازت ضروری ہے۔‘‘ پھر مائری کو پریشان دیکھ کر خود ہی کہا: ’’لیکن کوئی بات نہیں، میں کل جا کر سرکاری کاغذات کے سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘
    اس کے بعد اینگس نے جونی کو مخاطب کیا: ’’اور ہم اس دوسری کتاب کے بارے میں سننے کے لیے بے چین ہیں، تم نے کہا ہے کہ یہ زیلیا کی زبان میں لکھی گئی ہے؟‘‘
    جونی نے کتاب ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہا: ’’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ زیلیا ہماری اس دنیا کا حصہ ہے بھی اور نہیں بھی۔ ہم میں سے کوئی بھی وہاں نہیں جا سکتا کیوں کہ وہ صرف جادوگروں کے لیے ہے۔ غیر جادوگر وہاں قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیلیا کسی اور رخ پر ہے۔ مطلب یہ کہ ہم دائیں بائیں، اوپر نیچے، سامنے پیچھے کے رخ سے واقف ہیں لیکن ہم انسانوں نے ابھی تک دماغ کی پوری صلاحیت کو استعمال کرنے پر قدرت حاصل نہیں کی ہے اس لیے ہمارے لیے ایسی باتیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمارا دماغ اس میں الجھ جاتا ہے کہ ان سمتوں کے علاوہ کوئی اور سمت کیسے اور کہاں ہو سکتی ہے۔ ہاں، میں تم لوگوں کو کچھ باتیں ضرور بتا سکتا ہوں جو جادوگر زرومنا نے مجھ سے کہی تھیں۔ وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں نہایت شفاف پانی کے دریا بہتے ہیں اور جو ننھے بلبلوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو پانی سونے کی طرح چمک اٹھتا ہے اور دریا ایسے لگتے ہیں جیسے سونا پگھل کر بہہ رہا ہو۔ وہاں درختوں پر ایک ہی طرح کے اور ایک ہی سائز کے پتے نکلتے ہیں جنھیں حشرات کھاتے نہیں ہیں۔ پھول ایسے رنگوں میں کھلتے ہیں جنھیں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ یہ اتنے شوخ اور چمکیلے ہوتے ہیں کہ اگر عام آدمی ان رنگوں کو دیکھ لے تو اندھا ہو جائے۔ پرندے اتنے نغمگی کے ساتھ گاتے ہیں کہ سننے والا سحر زدہ ہو جائے لیکن ہم انھیں نہیں سن سکتے۔ ہمارے وہ صرف چہچہاہٹ ہوگی اور جادوگروں کے لیے ایک نہایت مسرت بخش نغمہ۔ وہاں جانور پرامن طور پر مل جل کر رہتے ہیں۔ پھل بے تحاشا اگتے ہیں، شہد ہر میز پر رکھتے ہر برتن سے بہتا ہے۔‘‘
    جونی زیلیا کے متعلق عجیب و غریب معلومات بیان کرتے کرتے رکا تو جبران سے رہا نہ گیا، فوراً بول اٹھا: ’’تو اتنی شان دار جگہ جادوگر چھوڑنے پر کیوں تیار ہو جاتے ہیں؟‘‘
    جونی مسکرایا: ’’جادوگر صرف دو وجوہ پر زیلیا چھوڑتا ہے۔ ایک وجہ یہ کہ اس پر شیطانی حرکتوں کی وجہ سے پابندی لگا دی جائے، دوم یہ کہ وہ دوسروں کی خدمت کا جذبہ اور خواہش لے کر وہاں سے نکلے۔ اکثر جادوگر زیلیا ہی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہیں پر خوش رہتے ہیں۔ بچپن میں وہ اسکول ساحری میں داخل ہو کر جادو کے طور طریقے سیکھتے ہیں۔‘‘
    جونی نے مزید بتایا کہ زیلیا میں پیدائش ہی سے بچوں کو صحیح اور غلط کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے، اس لیے اکثر جادوگر انسانوں کی دنیا سے دور رہنا چاہتے ہیں لیکن ان میں سے چند مہم جو قسم کے جادوگر بھی ہوتے ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کی دنیا میں جا کر ضرورت مندوں کے کام آئیں۔ پہلان اور چند دیگر جادوگروں نے ان تعلیمات کو قبول نہیں کیا اور شیطانی اور باغیانہ حرکتوں کے باعث ہمیشہ کے لیے زیلیا سے نکالے گئے۔ وہ زمین پر چلے آئے اور یہاں شیطان صفت لوگوں کو تلاش کر کے ان کی خدمت پر لگ گئے۔
    جونی چپ ہوا تو فیونا بول اٹھی: ’’بہت دل چسپ باتیں ہیں، یہ کتاب کیا کہتی ہے؟‘‘
    جاری ہے۔۔۔
  • ایک سو پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    جونی یادداشتوں میں جیسے ڈوب گیا تھا، وہ بولتا گیا: ’’پہان بھی وہیں رہتا تھا لیکن وہ شیطان کے جھانسے میں آ گیا اور لالچ کے مارے غلط راستے پر چل پڑا۔ اور پھر اس کے زیلیا میں داخلے پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد اس نے کنگ دوگان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا۔ بس، اس کے بعد ہی مسائل پیدا ہونے لگے۔ اس کے پردادا بارتولف بھی ایک جادوگر تھا، مجھے اس وقت اس کا نام صحیح طور سے یاد نہیں آ رہا ہے، مجھے کتاب میں دیکھنا پڑے گا۔‘‘
    ناول کی پچھلی اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    جونی کہتے کہتے خاموش ہوا تو مائری نے کھڑے ہو کر کہا: ’’جونی، یہ سب تو بس ایک کہانی ہی ہے، مجھ سے تو اتنی ساری باتیں ہضم ہی نہیں ہو رہی ہیں۔ جادوگر، شہنشاہ اور شیطان صفت لوگ … یہ سب تو قصے کہانیوں میں ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے کچھ دیر کے لیے باہر کھلی ہوا میں جانا چاہیے، ورنہ مجھے لگتا ہے کہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔ حقیقت میں ایسی چیزیں قبول نہیں کی جا سکتیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئیں۔
    جونی نے کتاب بند کی اور اٹھتے ہوئے کہا: ’’میں اس کتاب کے بارے میں بعد میں بتاؤں گا، ابھی مجھے لگتا ہے کہ مائری کو سمجھانا ضروری ہے۔‘‘
    وہ باہر نکلا تو مائری صنوبر کے درخت کے پاس کھڑی ہوا میں اڑنے والی بطخوں کی ڈار کو دیکھ رہی تھیں۔ بطخیں وی کی شکل میں جھیل کی طرف اڑ رہی تھیں۔ جونی نے کہا: ’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ ایک عام انسان کے ساتھ اس طرح کی عجیب و غریب اور خطرناک واقعات ہونے لگتے ہیں تو وہ پریشان ہو جاتا ہے، اسے یقین نہیں آتا۔ حالاں کہ سب کچھ اس کے سامنے کھل کر آ جاتا ہے۔‘‘
    مائری نے کہا: ’’مجھے بدمزاج مت سمجھنا پلیز، تم ٹھیک نے کہا، ایسا ہی کچھ ہوا ہے میرے ساتھ۔ یہ فضا دیکھو، ہوا میں صنوبر کی مہک، فضا میں بطخوں کی قیں قیں، اور ہوا کی کی یہ نرم لہریں مجھے بھی بہت اچھی لگتی ہیں اور ان سے لطف اٹھاتی ہوں۔‘‘ جونی مسکرایا اور ایک ہار ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا: ’’یہ دیکھو، قدیم ہار، یہ ملکہ سرمنتھا کا ہار ہے، انھیں بہت پسند تھا، آپ یہ پہنیں گی تو آپ کو یہ سب سمجھنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔‘‘
    مائری نے نیکلس پہنا تو انھیں ایسے لگا جیسے وہ واقعی شاہی خاندان کی وارث ہیں۔ اچانک مائری خواب آلود لہجے میں بولیں: ’’جونی، ابھی کچھ دیر قبل میں قلعہ آذر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ مجھے پاگل مت سمجھنا لیکن میں چاہتی ہوں کہ قلعہ آذر میری ملکیت میں آ جائے۔ وہ میرے آبا و اجداد سے تعلق رکھتا ہے، میں اسے صاف ستھرا کر کے اس میں منتقل ہونا چاہتی ہوں۔ لیکن تب ہی ممکن ہوگا جب ہم جھیل لوچ کی بلاؤں سے نجات حاصل کر لیں۔‘‘
    ’’ارے وہاں کوئی بلا نہیں ہے۔‘‘ جونی نے قہقہہ لگایا۔ ’’وہ تو ڈریٹن اور پہلان نے لوگوں کو قلعے سے دور رکھنے کے لیے تماشے دکھائے تھے، ورنہ جھیل تو بہت پرسکون ہے۔ جہاں تک قلعے کا تعلق ہے تو اس میں بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ہاں اب تم اکیلی نہیں ہو تمھاری مدد کرنے والے بہت سارے لوگ آ چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی قلعہ آذر میں ایک بار پھر رہائش کا خیال بہت جوش دلاتا ہے۔‘‘
    ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘ مائری کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ تصور میں خود کو قلعہ آذر میں کسی ملکہ کی طرح گھومتے پھرتے دیکھنے لگیں۔
    ’’میں سوچ رہی ہوں کہ ہمیں وہاں بجلی اور پانی کے انتظامات کرنے ہوں گے۔ قلعے کو اندر سے گرم رکھنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑے گا اور جگہ جگہ بننے والے سوراخوں کو بند کرنا ہوگا۔ کیا ہم یہ کر سکیں گے؟‘‘
    (جاری ہے)