Tag: پراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری

  • ایک سو بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشہ اقساط پڑھیں

    فیونا نے پوچھا کہ یہ کب سے یہاں پڑا ہوا ہے؟ جیزے نے جواب دیا کہ بس آدھا گھنٹا ہی ہوا ہوگا۔ جیزے اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ ڈریٹن اسٹیلے نے آخر بالیاں کیوں پہنی ہوئی ہیں، بالیاں تو عورتیں پہنتی تھیں۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی مرد کو بالیاں پہنے نہیں دیکھا تھا۔ فیونا نے مسکرا کر بتایا کہ اب دنیا بدل چکی ہے، مرد بھی بالیاں پہنتے ہیں اور کسی کسی کے ساتھ تو بالیاں اچھی لگتی ہیں لیکن اس ڈریٹن کے ساتھ بالکل نہیں، یہ تو ایک درندے کی طرح لگتا ہے۔

    جب وہ سب چائے نوش کر رہے تھے تو ایسے میں ڈریٹن دھیرے دھیرے ہوش میں آ گیا۔ اسے سر میں درد محسوس ہونے لگا جہاں جیزے کی زبردست ٹھوکر لگی تھی۔ اس نے دیکھا کہ فیونا اور دوسرے لوگ بیٹھے چائے کے گھونٹ بھر رہے ہیں اور ان کے درمیان گپ شپ چل رہی ہے۔ وہ ڈریٹن سے بالکل غافل ہو چکے تھے، ایسے میں ڈریٹن کو محسوس ہوا کہ نشہ اترنے کے بعد اس کی طاقتیں واپس آ گئی ہیں۔ اس نے سوچا کہ اب یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے۔ اس نے جادو کے زور سے خود کو چھوٹا کر دیا، اور اتنا سکڑ گیا کہ رسیوں سے بہ آسانی نکل آیا۔ اس نے خود کو ایک چوہے کے سائز جتنا بنا دیا تھا، اس کے باوجود وہ ڈر ڈر کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا اور بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا رہا۔ دروازے پر پہنچ کر وہ اس کے نیچے آسانی سے رینگ کر باہر نکل گیا۔ عین اسی وقت جیفری اور اینگس اپنے سفر سے واپس پہنچے تھے، ڈریٹن فورا وہاں پڑی دودھ کی بوتل کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ دونوں اسے نہ دیکھ سکے۔ جیسے وہ اندر چلے گئے ڈریٹن اپنے نارمل سائز میں آ گیا اور محل کی جانب سے تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔
    جیفری اور اینگس بھی چائے کے ساتھ دیگر لوازمات سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ایسے میں جیزے نے اینگس سے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ڈریٹن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
    انکل اینگس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’آپ کس بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ مجھے تو ڈریٹن نظر نہیں آیا۔‘‘
    جیزے نے یہ سن کر پیچھے دیکھا اور اچھل پڑا۔ ’’ارے، ڈریٹن کہاں چلا گیا؟ میں نے تو اسے رسیوں کے ساتھ مضبوطبی سے باندھا تھا، اس نے کیسے چھڑایا خود کو؟‘‘ جیک نے کہا کہ اس نے تو دروازہ کھلنے کی آواز بھی نہیں سنی۔ فیونا نے کہا: ’’میں جانتی ہوں کہ اس نے یہ کیسے کیا، وہ سکڑ کر دروازے کے نیچے سے باہر گیا ہے۔‘‘
    جونی نے اہم بات کی: ’’یہ بات تو صاف ہو گئی ہے کہ ڈریٹن جادوئی گولے اور کتابوں کے لیے اتنی بری طرح سے تڑپ رہا ہے کہ ان کے حصول کے لیے کوئی بھی غیر معقول کام کرنے سے نہیں کتراتا۔ اس لیے ہم اب اور بھی زیادہ احتیاط کرنی ہوگی اور دیگر قیمتی پتھروں کے حصول کو بھی تیز تر کرنا ہوگا۔‘‘
    فیونا کرسی سے اٹھ کر جیفری کے پاس گئی اور سخت ناراضی والے لہجے میں اسے مخاطب کیا: ’’گلیشیئر میں ہماری ملاقات کرسٹل سے ہوئی تھی۔ یاد ہے نا آپ کو وہ۔ شکر ہے کہ اب وہ آزاد ہے لیکن آپ آخر کیسے اتنے طویل عرصے کے لیے اسے گلیشیئر کے اندر رہنے پر مجبور کر سکتے ہیں؟ وہ گلیشیئر تو ویسے بھی تقریباً ٹوٹنے والا تھا اور ایسا ہوتا تو کرسٹل آزاد ہو جاتی اور زمرد بھی کھو جاتا۔‘‘
    جیفری یہ سن کر چونک اٹھا: ’’اوہ تو آپ کرسٹل سے ملے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس بات کا مجھے خیال تک نہ آیا کہ وہ اس پر ناخوش ہوگی۔‘‘ اس نے اپنی بھوری آنکھیں فیونا پر جما کر کہا: ’’یہ بہت پرانی بات ہے، لیکن مجھے افسوس ہے اس پر اور میں معذرت خواہ ہوں اس کے لیے۔‘‘
    جونی نے مداخلت کی اور کہا کہ جبران اور دانیال کو لانے کا وقت ہے تاکہ اگلے قیمتی پتھر کے لیے جایا جا سکے۔ اس کے بعد وہ مائری اور فیونا کو لے کر اینگس کے گھر سے نکل گیا۔ وہ جبران کے گھر پہنچے تو مائری نے شاہانہ اور بلال سے درخواست کی کہ وہ جبران اور دانیال کو اینگس کے ہاں کچھ دیر کے لیے لے جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مہمانوں کو چائے کی پیش کش کی لیکن وہ جلدی میں تھے، جبران اور دانیال کو لے کر واپس ہو لیے۔ بلال نے جونی سے کہا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ آئے تاکہ شکار پر نکلیں۔ بلال نے کہا کہ وہ انھیں بندوق کے ساتھ بطخ کا شکار سکھائیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ ہرن، خرگوش اور تیتر بھی ہاتھ آ سکیں۔ جونی نے بھی جلدی میں ہامی بھر لی۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈالرز جیبوں میں ٹھونسنے کے بعد ڈریٹن نے وہاں مزید رکنا بے کار سمجھا۔ اسے یقین تھا کہ فیونا اور اس کے دوست زمرد حاصل کر چکے ہوں گے، لہٰذا وہ ایک عمارت کے پیچھے گیا اور غائب ہو گیا، اس کے بعد اس نے خود کو مک ایلسٹر کے گھر میں کھڑے پایا۔ آس پاس نظر دوڑانے کے بعد اس نے کود کلامی کی، مجھے جا کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ تینوں بدمعاش قیمتی پتھر حاصل کر چکے ہیں یا نہیں۔ اور پھر وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ کھڑکی کے نیچے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر وہ اندر جھانکنے لگا اور دیکھا کہ زمرد آ چکا ہے۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔
    ۔۔۔
    وہ تینوں جیسے اینگس کے گھر میں نمودار ہوئے، فیونا کی ممی مائری بے اختیار اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ ’’شکر ہے تم سلامت لوٹ آئے۔‘‘ اینگس نے کہا میں نے کہا تھا کہ یہ بس تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آئیں گے۔ انھیں فیونا تھکی تھکی لگی۔ فیونا نے جیب سے زمرد نکال کر ان کے حوالے کر دیا۔ جبران نے بھی گلے سے کیمرہ اتار کر واپس کر دیا۔ اینگس نے ان کی داستان سننے سے قبل زمرد رالفن کے گولے میں رکھنا ضروری سمجھا، اور وہ سب گولہ لے کر دیوان خانے میں آ گئے۔ اینگس نے پتھر جیسے ہی جادوئی گیند میں مخصوص خانے میں رکھی، باقی تین پتھروں کی مانند زمرد بھی جھلملانے لگا، اور انھوں نے اس کی روشنی دھیرے دھیرے تیز ہوتے دیکھی۔
    ’’بہت شان دار۔‘‘ جمی نے کہا: ’’مجھے یاد ہے یہ اُس وقت بھی ایسا ہی تھا جب کنگ کیگان نے گولے سے انھیں ہٹایا اور ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک دیا۔ آج ہم یہاں اسکاٹ لینڈ میں ایک چھوٹے سے گھر میں پھر اکھٹے ہو گئے ہیں اور وہی جادوئی گیند ہمارے سامنے ہے۔‘‘
    جیک نے کہا: ’’یہ سب کچھ بہت عجیب ہے لیکن ہے ناقابل فراموش۔‘‘ دیگر افراد نے بھی اس کی تائید کی، تب جیک نے چونک کر کہا: ’’جونی، ہم نے جو دوسری کتاب حاصل کی ہے، وہ ان کو دکھانی چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تکیے کے نیچے سے کتاب نکال لی۔
    ’’ایک اور کتاب؟‘‘ سب سے پہلے اینگس چونکے۔ ’’کیا یہ بھی پہلی والی کتاب کی طرح ہے؟‘‘
    جونی نے کہا: ’’اینگس یہ جو کتاب تمھارے سامنے میز پر دھری ہے، یہ میری ہے۔ میں نے جو دیکھا، سنا اور محسوس کیا، وہ سب اس میں درج کر دیا۔ جب کہ یہ دوسری کتاب جادوگر زرومنا سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
    جونی نے جیک کے ہاتھ سے دوسری کتاب لی اور اینگس کے پاس بیٹھ کر کہا: ’’دیکھو، یہ دونوں کتابیں اوپر سے ایک جیسے لگتی ہیں۔ یہ چمڑے، لکڑی اور سونے سے تیار کی گئی ہیں اور دونوں زرومنا نے بنائی ہیں۔ لیکن اندر سے یہ مختلف ہیں۔ میں نے اپنی کتاب قدیم سیلٹک زبان میں لکھی ہے جب کہ زرومنا نے اپنی کتاب اپنے علاقے زیلیا کی زبان میں لکھی ہے، اور یاد رہے کہ پہلان جادوگر کا تعلق بھی زیلیا سے تھا۔‘‘
    ایسے میں خاموش بیٹھی ہوئیں مائری نے اچانک مداخلت کی: ’’زیلیا؟ یہ کہاں ہے؟‘‘
    ’’یہ جادوگروں کی سلطنت ہے لیکن مجھے نہیں پتا کہ یہ کہاں واقع ہے۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تمام جادوگر وہیں سے آئے تھے۔‘‘ جونی نے بتایا: ’’جادوگر زرومنا نے زیلیا سے آ کر کنگ رالفن سے درخواست کی تھی کہ اسے ان کا خاص جادوگر مقرر کیا جائے اور رالفن نے یہ درخواست قبول کر لی۔ تم لوگوں نے اس کے قتل کی کہانی تو سن ہی لی ہے، اسی طرح کنگ کیگان کے پاس بھی ایک جادوگر تھا، بہت با رعب تھا وہ، شان دار شخصیت والا۔ اس کے بال لمبے اور گہرے بھورے تھے۔ دور سے لگتا تھا کہ سیاہ ہیں جو اس کے شانوں پر لہراتے تھے۔ وہ سر پر نوک دار جامنی رنگ کی ٹوپی پہنتا تھا اور اس کا عجیب و غریب ڈیزائنوں سے بھرا چوغہ فرش کو چھو رہا ہوتا تھا۔ اس کی ناک لمبی لیکن آنکھیں موتیوں کی طرح چمکتی تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس کی آنکھیں سفید تھیں، اس کی پتلیاں بھی رنگین نہیں تھیں، بس سفید اور چمک دار تھیں۔ اس نے ہمیں زیلیا کے بارے میں بتایا تھا، میرے خیال میں اسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا جا سکتا ہے۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    فیونا کی آواز ان دونوں کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’گلیشیئر کے اندر یہ رنگ کہاں سے آئے!‘‘ اس نے برف کی ایک قلم کو چھو کر دیکھا اور پھر بولی: ’’یہ تو برف ہی کی طرح ہے، سرد لیکن رنگ ہلکا سبز دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ جبران نے فوراً کیمرہ نکال کر برف کی رنگین قلموں کی تصویر اتاری اور کیمرہ واپس گلے میں لٹکا لیا۔ فیونا نے اوپر دیکھا تو دراڑ سے روشنی چھن کر اندر آ رہی تھی۔ برف کی قلمیں چونے کے پتھر جیسے سبز، سبز مائل نیلے، نہایت ہلکے سبز رنگ، نیلے آسمانی رنگ، سرخ مائل پیلے رنگ، خاکستری اور جامنی رنگ کی دکھائی دے رہی تھیں۔ سارے ہی رنگ بہت دل کش تھے۔ دانیال اِدھر اُدھر گھوم کر مزید رنگ تلاش کرنے لگا اور جلد ہی اسے ہلکے گلابی اور انگوری رنگ کی قلمیں بھی نظر آ گئیں۔ وہ بولا: ’’یہ نظارہ خوب صورت اور دل کش تو بہت ہے لیکن پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے، میرا دل اچانک گھبرانے لگا ہے۔‘‘
    وہ چپ ہوا تو دونوں میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔ اسے اچانک کچھ یاد آیا تو فیونا کی طرف مڑا۔ ’’فیونا، یاد ہے، میں نے تمھیں تحفے میں ایک نیکلس دیا تھا۔‘‘
    ’’ہاں …‘‘ وہ حیران ہوئی، پھر مسکرا کر شرٹ سے نیکلس نکال کر دکھایا: ’’یہ رہا۔‘‘
    نیکلس دیکھ کر دانیال کی آنکھوں میں سکون اتر آیا۔ ’’پتا ہے، یہ چھوٹا سا چوہا بہت لکی ہے، ہو سکتا ہے ہمیں آج اس کی ضرورت پڑے۔‘‘
    ’’ارے دانی، تم تو برف کے اس غار میں داخل ہونے سے پہلے بہت بہادر بن رہے تھے، اب کیا ہو گیا تمھیں!‘‘ فیونا نے دونوں ہاتھ پہلوؤں میں رکھ کر اسے چھیڑنے کے لیے کہا۔ جبران پاس آ کر بولا: ’’تم دونوں کیا باتیں کر رہے ہو، مجھے تو یہ جگہ بہت جادوئی سی لگتی ہے، کتنی پراسرار جگہ ہے یہ۔‘‘
    فیونا ہنس پڑی۔ ’’جادوئی … پر اسرار … ہاہاہا!‘‘ ہنستے ہنستے وہ گھومی اور پھر یکایک نہ صرف اس کا جسم ایک جگہ ٹھہر گیا بلکہ ہنسی بھی رک گئی۔ وہ دونوں سوالیہ نگاہوں سے اس کی دیکھنے لگے۔ ’’مم … میرے چہرے سے کچھ ٹکرایا تھا ابھی۔‘‘ وہ ہکلا کر بولی۔
    ’’کک … کیا …؟‘‘ دانیال نے بالکل اسی کے انداز میں مذاق اڑایا اور ہنسا۔
    ’’میں مذاق نہیں کر رہی ہوں۔‘‘ فیونا واقعی سنجیدہ نظر آ رہی تھی۔ ’’دیکھو، دیکھو!‘‘ وہ اچھل کر بولی۔ ’’ابھی میرے سامنے سے کچھ گزرا ہے، کیا تم دونوں نے نہیں دیکھا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں پریشانی کی جھلک نمایاں ہو گئی تھی۔
    ’’ارے ہاں، میں نے بھی دیکھا۔ یہ تو کسی پری کی طرح تھی۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا: ’’میرا خیال ہے ہمیں یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے اب۔ میں نے اندر آنے سے پہلے کہا تھا کہ کوئی عجیب بات ہو جائے تو غار سے نکلیں گے۔‘‘
    ’’یہ تم دونوں کیا پری پری کر رہے ہو۔ گلیشیئر کے اندر پری کہاں سے آ گئی؟‘‘ دانیال کو لگا وہ دونوں مذاق کر رہے ہیں۔
    ’’اُدھر دیکھو، وہ کیا ہے؟‘‘ جبران نے ایک طرف اشارہ کیا اور تینوں ایک قطار میں کھڑے ہو کر اُس طرف دیکھنے لگے۔ ان کے سامنے ہوا میں ایک ننھی پری اپنے برف ایسے پر پھڑپھڑا رہی تھی، اور اس پھڑپھڑاہٹ سے ہلکی ہلکی آواز پیدا ہو رہی تھی۔
    ’’برف کی پری!‘‘ دانیال کے منھ سے ایسے نکلا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ ’’اف میرے خدا، برف کی بھی پری ہوتی ہے، اور ایسے ہوتی ہے!‘‘
    وہ دیکھ رہے تھے کہ پری خود بھی سفید تھی اور اس کے کپڑے اور لمبے بال بھی سفید اور چمک دار تھے۔ اس کے سر پر برف سے بنا ایک ننھا سا چمک دار تاج سجا ہوا تھا۔ وہ اڑ کر ان کے قریب آئی اور پھر انھیں پری کی آواز سنائی دی: ’’میرا نام کرسٹل فیری ہے۔‘‘
    وہ تینوں ایسے چونکے جیسے خواب سے جاگے ہوں۔
    (جاری ہے۔۔۔)