Tag: پراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

  • سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط یہاں پڑھی جاسکتی ہیں

    فیونا اور اس کی ممی چند گھنٹے بعد جبران کے گھر کی طرف جارہے تھے۔ ’’کتنی عجیب بات ہے، ہمارے درمیان اس سے قبل ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ چند ہی دن میں ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب آ گئے ہیں، کہ اب ان کے ہاں رات کے کھانے کی دعوت پر جا رہے ہیں۔‘‘ مائری نے چلتے چلتے کہا۔

    ’’کیا اس میں ہماری دوستی کا کوئی کردار نہیں ہے؟‘‘ فیونا نے پوچھا۔

    ’’بہت اہم کردار ہے بیٹی۔ بچوں کی دوستی سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانوں میں پکی دوستی ہو جاتی ہے، اور بعض اوقات دوستی کا تعلق رشتہ داری میں بدل جاتا ہے۔‘‘

    ’’اب تو مسٹر تھامسن بھی ہمارے درمیان آ گئے ہیں۔‘‘ فیونا نے کن اکھیوں سے اپنی ممی کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔ ’’ممی، کیا یہ سب عجیب سا نہیں لگتا آپ کو؟ ابھی چند دن پہلے تک ہم کتنی بوریت محسوس کرتے تھے اور اب کتنے پرجوش ہو گئے ہیں۔ کیا ہماری زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے؟‘‘

    چلتے چلتے مائری ایک دم رک گئیں۔ انھوں نے گھوم کر فیونا کو حیرت اور خوشی سے دیکھا اور کہا: ’’مجھے حیرت ہے تم ایسی باتیں کر رہی ہو، کل تک تم یہاں سے بور ہو گئی تھی۔ خیر میں بتاؤں کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ تمھیں اپنے دماغ پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔‘‘

    کچھ دیر بعد وہ جبران کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے لیے دروازہ جبران ہی نے کھولا اور انھیں مہمان خانے لے گیا۔ وہاں تھامسن اور اس کا بھائی پہلے سے موجود تھے۔ دونوں ان کے استقبال کے لیے اٹھ گئے اور پھر چاروں صوفوں پر بیٹھ گئے۔

    ’’ہم دوسری مرتبہ مل رہے ہیں مائری مک ایلسٹر، یہ آپ کی بیٹی فیونا ہے نا؟‘‘ جونی تھامسن نے بیٹھتے ہی مسکرا کر کہا۔

    ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کا تعلق اینور ڈروچٹ سے ہے، یہ ایک پیارا گاؤں ہے۔‘‘ تھامسن نے اپنے بھائی جمی کو کن اکھیوں سے دیکھا۔ مائری نے کہا: ’’میں نے بھی آپ کے بارے میں سنا ہے مسٹر تھامسن، یہ کہ آپ کا تعلق لندن سے ہے۔‘‘

    ’’پلیز آپ مجھے یہ مسٹر تھامسن بلانا چھوڑ دیں، میرا نام جون ہے لیکن آپ مجھے جونی پکار سکتی ہیں۔ یہ میرا بھائی جیمز ہے، اسے جمی کہلوانا پسند ہے۔‘‘ جونی تھامسن بولا۔ ’’ویسے ہم لندن سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

    ایسے میں جبران کے پاپا بلال کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ وہ آتش دان کے قریب بیٹھے سگار سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سب مڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ’’لیکن آپ کا لہجہ تو لندن والوں جیسا ہرگز نہیں ہے، آپ کے لہجے سے لگتا ہے کہ آپ یورپی ہیں۔‘‘

    جمی نے کھانس کر تھوک نگلا۔ جونی نے جواب میں کہا: ’’دراصل ہماری ماں اسکاٹ لینڈ کی تھیں، اور باپ کا تعلق مشرق وسطیٰ سے تھا، ویسے ہم دونوں لندن ہی کے ہیں۔‘‘

    بلال نے مطمئن ہو کر اثبات میں سر ہلایا اور سگار کا دھواں اڑانے لگے۔ اسی وقت شاہانہ نے آ کر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔ سب اٹھ کر بلال کی رہنمائی میں کھانے کے کمرے کی طرف چلے۔ سب ایک بڑی سی میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے تو شاہانہ کھانے کے ساتھ آ گئیں۔ اگلے لمحے گلابی لکیروں والا میز پوش سلور کی پلیٹوں سے چھپ گیا۔ میز پر انواع و اقسام کے کھانے چُنے گئے۔

    ’’ارے اتنا سب کچھ، یہ تو کسی بادشاہ کی فوج کے لیے بھی کافی رہے گا۔‘‘ بلال کے چہرے پر واقعی حیرت تھی، کیوں کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ کھانے کے لیے کیا انتظام کیا گیا ہے۔ عین اسی لمحے فیونا کی نظر جونی کی طرف اٹھ گئی۔ وہ اپنے بھائی جمی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ دونوں بھائی کر کیا رہے ہیں، یہ تو واقعی عجیب طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں۔ یعنی جبران نے درست کہا تھا۔

    ’’دراصل آپ میز پر جو اتنے سارے کھانے دیکھ رہے ہیں ان میں اکثر مائری کے لائے ہوئے ہیں۔ وہ آج اپنے باغیچے سے تازہ سبزیاں لائی تھیں۔ مہمان خانے میں جس گل دان میں آپ رنگ رنگ کے پھول دیکھ کر آئے ہیں، وہ بھی مائری لائی ہیں۔ ایسے پھول آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔‘‘ شاہانہ نے راز سے پردہ اٹھایا۔

    کھانا کھانے کے بعد فیونا، جبران اور دانیال دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ فیونا بولی: ’’جبران تم نے نوٹ کیا کہ وہ دونوں بھائی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے رہے۔ جمی نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہو لیکن میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کو اشارے کر رہے تھے۔‘‘

    ’’تو کیا یہ دونوں قاتل اور کسی جیل سے بھاگے قیدی ہیں، اور رات کو جب ہم سو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل کر دیں گے؟‘‘ جبران کی آنکھوں میں تشویش کے سائے تیرنے لگے۔

    (جاری ہے…)

  • چھتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    فیونا، جبران اور دانیال اینگس کے گھر سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑے۔

    ’’پتا نہیں اس وقت میری ممی کہاں ہوں گی؟ شاید بیکری میں کام کر رہی ہوں گی۔ میں اس طرح کرتی ہوں کہ پہلے بیکری جا کر دیکھتی ہوں، کیا تم دونوں میرے ساتھ جاؤ گے؟‘‘ فیونا نے دونوں سے پوچھا۔

    ’’بہتر ہوگا کہ ہم اپنے گھر کو جائیں۔ ٹھیک ہے کہ یہاں اسکاٹ لینڈ میں صرف چند ہی منٹ کا وقت گزرا ہے لیکن میرا بدن تھکن سے چور ہے۔ میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’اس کے بعد میں ڈائری بھی لکھوں گا۔‘‘

    ’’میں ڈرائینگ میں ماہر ہوں۔ میں تو ان چیزوں کی تصاویر بناؤں گا جو آج ہم نے دیکھی ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔

    ’’پاپا کو شاید مسٹر تھامسن کے سلسلے میں میری مدد کی ضرورت پڑے۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’پتا ہے فیونا، تھامسن عجیب قسم کا آدمی ہے۔ انھیں یہ تک نہیں پتا کہ ٹیبلٹ کیا ہوتی ہے۔ اور تو اور، انھیں یارکشائر پڈنگ کے متعلق بھی کچھ پتا نہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انگریز کو یارکشائر پڈنگ کا پتا نہ ہو!‘‘

    ’’یہ تو بڑی احمقانہ سی بات ہے جبران۔‘‘ فیونا حیران ہو گئی۔

    ’’اچھا پھر ملیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور دانیال کے ہمراہ اپنے گھر کے راستے پر مڑ گیا۔ فیونا سیدھی بیکری جا پہنچی جہاں اس کی ممی پارٹ ٹائم ملازمت کرتی تھیں۔ وہ بیکری کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ اندر ایک ہی شخص تھا۔ فیونا نے پوچھا: ’’ہیلو جناب میکنزی، کیا آج ممی کام کر ہی ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، امید ہے کہ وہ جلد ہی آ جائیں گی۔ آج ایک یا دو گھنٹوں کے لیے مجھے ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ انھوں نے جواب دیا اور شیشے کے کیس سے ایک تھال نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ ’’کیا تم اس کا ذائقہ چکھ کر بتاؤ گی؟‘‘

    فیونا نے تھال میں پڑی پیسٹری کو حیرت سے دیکھ کر پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’یہ میں نے پہلی مرتبہ بنائی ہے، اسے بکلاوا کہتے ہیں اور یہ یونانی پیسٹری ہے۔‘‘ میکنزی نے جواب دیا۔ ’’دراصل یہ جدید ترکی کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدیم فارس میں اس کا آغاز ہوا تھا، لیکن یونان میں بکلاوا کی بے تحاشا اقسام پائی جاتی ہیں۔‘‘

    یونان کا ذکر سن کر فیونا چونک اٹھی۔ دل میں کہا کہ یونان کی ہے تو پھر تو ضرور کھاؤں گی، کیوں کہ وہ ابھی ابھی تو یونان سے لوٹی تھی۔ اس نے ایک پیسٹری اٹھا کر کھائی اور بے اختیار بولی: ’’واہ مزے دار ہے، یہ دودھ کے سموسے سے کہیں زیادہ اچھی ہے۔‘‘

    ’’یہ دودھ کا سموسہ کیا چیز ہے بھلا؟‘‘ میکنزی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ فیونا ہنس پڑی۔ ’’اسے مِلک پائی کہتے ہیں اور یہ بھی یونانی ہے۔‘‘

    ’’اوہ … تم تو یونانی ڈشز کے بارے میں بھی جانتی ہو۔ ویسے یہ پیسٹری شہد، فائلو پیسٹری شیٹ، مکھن اور خشک میوؤں سے تیار ہوتی ہے۔ احتیاط کرنا اگر تم اسے زیادہ کھاؤ گی تو تمھارا وزن بڑھ جائے گا۔‘‘ اس نے فیونا کو دوسری پیسٹری کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر خبردار کیا۔

    ’’اوہ شکریہ میکنزی صاحب، تو میں چلتی ہوں اور گھر ہی پر ممی کا انتظار کرتی ہوں، اور مجھے ابھی ابھی یاد آیا ہے کہ انھیں بلال صاحب کے ہاں جانا تھا۔‘‘

    فیونا گھر آ کر ٹی وی دیکھنے لگی۔ وہ ٹی وی دیکھنے میں اتنی منہمک تھی کہ اسے ممی کے اندر آنے کا بھی پتا نہ چلا۔ وہ اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ’’انکل اینگس کے گھر کا دورہ کیسا رہا؟ تم تو بہت جلد آ گئی ہو۔‘‘

    فیونا ممی کی آواز سن کر چونک اٹھی، پھر مسکرا کر بتانے لگی کہ انکل کے گھر کا دورہ دل چسپ رہا۔ ممی نے صوفے سے اٹھ کر چغہ اتارا اور ایک کرسی کی پشت پر ڈال دیا۔ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ اینگس کو آج صبح ایک یا دو دنوں کے لیے کریان لارک جانا تھا، کیا انھوں نے اس کا ذکر کیا؟‘‘

    ’’نہیں تو … کب واپس آئیں گے وہ؟‘‘ فیونا نے کندھے اچکائے۔

    ’’غالباً پیر کی صبح، لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ انھوں نے اس کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ دراصل وہ اپنے بنائے ہوئے مجسموں کی نمائش کرائیں گے وہاں۔ یہ بات ضرور ان کے ذہن سے نکل گئی ہوگی۔‘‘

    ’’ان کے دماغ سے بہت ساری باتیں نکل جاتی ہیں۔ خیر آپ جبران کے گھر گئی تھیں تو اس کی ممی کو سبزیاں پسند آئیں، اور تھامسن سے ملاقات ہوئی؟‘‘

    ’’شاہانہ کو میری ساری چیزیں بہت پسند آئیں۔ پتا ہے انھوں نے مجھے اور تمھیں آج رات کھانے پر بلایا ہے۔‘‘

    ’’کیا واقعی؟‘‘ فیونا پُر جوش ہو گئی۔

    ’’ہاں بالکل۔ اور تمھارے لیے ایک خبر یہ بھی ہے کہ وہاں تھامسن اور ان کا ایک بھائی جیمز بھی ہوں گے، وہ بھی یہاں پہنچ گئے ہیں۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’جبران کہہ رہا تھا کہ تھامسن ایک عجیب آدمی ہے، انھوں نے یارکشائر پڈنگ تک نہیں سنا۔‘‘

    ’’مجھے نہیں پتا، میں ابھی ان کے متعلق اتنا نہیں جانتی۔ ویسے میں اپنے ساتھ فروٹ چاٹ لے کر جاؤں گی۔ اب میں چلتی ہوں، ایک یا دو گھنٹے کام کروں گی۔ کچھ چیزیں خریدوں گی اور پھر تقریباً شام چھ بجے تک پہنچ جاؤں گی، اس لیے تم تیار رہنا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے ممی، لیکن بکلاوا بھی ضرور لے لینا۔ جبران اسے پسند کرے گا۔ یہ یونانی پیسٹری ہے۔ مجھے یقین ہے اس کا ذائقہ آپ کو بھی پسند آئے گا۔‘‘

    (جاری ہے)

  • چونتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چونتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    کھڑکی کے بند شیشے پر بارش کے قطرے مسلسل اس طرح گر رہے تھے کہ اس پر بے ہنگم موسیقی کا شائبہ ہو رہا تھا۔ ڈریٹن اسٹیلی نے خاکی اور نیلے رنگ کا بھاری پردہ ہٹا کر منظر دیکھا اور بڑبڑایا: ’’ٹرورو میں ایک اور تکلیف دہ دن۔‘‘

    اس نے شیشے سے جھانکتے ہوئے بادلوں کو دیکھنے کی کوشش کی اور پھر بڑبڑایا: ’’کتنی پریشان کن جگہ ہے یہ، نہیں اب تو میں یہاں بالکل نہیں ٹھہرنے والا۔‘‘

    وہ اس وقت برطانیہ کی کاؤنٹی کارن وال کے شہر ٹرورو میں اپنے گھر پر تھا۔ سیکڑوں ریتیلے ساحلوں والی یہ کاؤنٹی ایک جزیرے کی مانند ہے۔ ڈریٹن نے پردہ چھوڑ دیا اور باہر سے آنے والی روشنی کا راستہ رک گیا۔ اس نے شدید مایوسی کے عالم میں الماری کھولی اور موٹر سائیکل کی چابیاں ڈھونڈنے لگا۔ کمرے میں جو ہلکی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی وہ میز پر رکھے برقی چراغ سے نکل رہی تھی۔ اس پر دھول کی ایک موٹی تہ جم چکی تھی۔ اس نے دیوار گیر آئینے میں نظر آنے والے اپنے سراپے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ وہ انیس سال کا مضبوط قد کاٹھ کا نوجوان تھا۔ اس کے بال سیاہ اور لمبے تھے جن میں اس کے دونوں کان چھپے ہوئے تھے۔ اس کے کانوں میں دس دس چھلے پڑے ہوئے تھے، اور بازو پر ٹیٹو نقش تھے۔ وہ ایک کھوپڑی تھی جس کی آنکھ میں تیر گھسا ہوا تھا، جو دوسری طرف سے نکل گیا تھا اور اس جگہ سے کھوپڑی ٹوٹ رہی تھی۔اس نے جھلا کر اپنی گندی ٹی شرٹ پھاڑ کر فرش پر پھینک دی۔ وہاں گندے کپڑوں کا ایک ڈھیر جمع ہو گیا تھا، جو کئی ہفتے پرانا تھا۔

    ’’کیا مصیبت ہے یہاں!‘‘ وہ جھلا کر بڑبڑایا۔ اس کی موٹی گردن میں ایک نیکلس اچانک چمکنے لگا تھا، جس نے اس کی توجہ فوراً کھینچ لی تھی۔ اس نے نیکلس اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس میں لگے ستارے کے نو کونوں میں سے ایک کونے سے سیاہی مائل بھورے رنگ کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ ’’پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا، یہ کیا ہونے لگا ہے یہاں۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے ایک دراز کھولا، اور محدب شیشہ نکال کر نیکلس کا جائزہ لینے لگا۔ ’’ہونہہ … سیاہ پتھر چمک اٹھا ہے۔‘‘

    اس نے محدب شیشہ ایک میز پر پھینک دیا اور اپنے بیڈروم کا دروازہ کھول کر ماں کے پاس آیا اور نہایت بدتمیزی کے ساتھ چیخا: ’’ڈیڈ نے مجھے یہ نیکلس دیا ہے، اس کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

    اس کی ماں پینی لوپ میک ایلسٹر، ٹی وی روم میں کرسی پر بیٹھی پروگرام دیکھتے ہوئے چائے کی چسکیاں لے رہی تھیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی آواز ان سنی کر دی۔ وہ آگے بڑھ کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

    ’’کیا تم بہری ہو، میں کیا پوچھ رہا ہوں۔ اس نیکلس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے بدتمیزی کی انتہا کر دی۔

    پینی لوپ جس طرح اپنے شوہر سے ڈرتی تھیں، اسی طرح بیٹے سے بھی خوف زدہ رہتی تھیں۔ انھوں نے ڈریٹن کے ساتھ آنکھیں نہیں ملائیں اور سر نفی میں ہلا دیا۔

    ’’اسے دیکھو، تم اس کے متعلق کیا جانتی ہو؟‘‘ ڈریٹن نے اس کی آنکھوں کے سامنے نیکلس لہرایا۔

    پینی لوپ نے بدستور نظریں چراتے ہوئے کہا: ’’اچھا یہ … یہ بہت پرانا ہے۔ میں نے جب سے تمھارے باپ سے شادی کی ہے، اسے ہر وقت ان کے گلے میں پہنے دیکھا۔ مجھے نہیں پتا کہ یہ کیا ہے یا اس کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ لیکن یہ تو بہت عجیب انداز میں چمک رہا ہے۔ میں نے پہلے اسے اس طرح چمکتے نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’تو تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ ڈیڈ نے تمھیں اس نیکلس کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا … ٹھیک ہے، تم اس طرح نہیں بتاؤ گی۔‘‘ ڈریٹن کا لہجہ آخر میں خوف ناک ہو گیا۔ پینی لوپ نے اسے ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو جلدی سے سمٹ کر چہرہ چھپا لیا اور گڑگڑا کر کہا: ’’مجھے مت مارو ڈریٹن! انھوں نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ مجھے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتاتے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم محسوس نہیں کرتے۔ ہاں، چھت پر اسٹور روم میں ایک صندوق ہے، میرے خیال میں … ہو سکتا ہے کہ … !‘‘

    ’’بس بس … یہ کیا احمقانہ پن ہے۔ سیدھی طرح بات کیوں نہیں کر رہی ہو۔ چلو اب مجھے اطمینان کے ساتھ بتاؤ، یہ صندوق کا کیا چکر ہے؟‘‘

    وہ بتانے لگیں: ’’میرے خیال میں صندوق اسٹور روم میں پڑا ہے۔ تمھارے باپ شاردو اسٹیلی کے پاس بہت ساری قدیم کتابیں اور کاغذات تھے۔ ان کو اپنے خاندان کی تاریخ سے متعلق بہت زیادہ دل چسپی تھی۔ وہ اس کے متعلق روزانہ کئی گھنٹے مطالعہ کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تمھارے کام کی نکل آئے۔‘‘

    ’’خاندانی تاریخ! ہونہہ … مجھے اس خاندان کے بارے میں مزید کچھ بھی معلوم کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ چھوڑو ہماری تاریخ کو۔ وہاں ضرور کچھ اور ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور جاتے ہوئے میز پر دھری طشتری کو لات مارتے ہوئے گرا دیا۔ طشتری میں پینی لوپ کا کھانا سجا تھا، فرش پر چاروں طرف فرائی انڈا، چپس اور پھلیاں بکھر گئیں۔ پینی لوپ خوف زدہ ہو کر ہر طرف پھیلی گند کی حسرت سے دیکھنے لگیں۔ ڈریٹن نے سیڑھیوں پر رک کر دیکھا اور زہر خند لہجے میں بولا: ’’اب کیا سارا دن اسے گھورتی رہو گی یا اسے صاف بھی کرو گی بے وقوف عورت۔ تم میرے راستے میں اپنی چیزیں چھوڑو گی تو ایسا ہی ہوگا!‘‘

    پینی لوپ اس کے جانے کا انتظار کرنے لگی اور اس کے جاتے ہی وہ اٹھیں اور باورچی خانے سے ایک بالٹی میں صابن کی جھاگ والا پانی لے کر واپس آ گئیں، اور قالین کے داغ دھونے لگیں۔ اسے گھٹنوں کے جوڑوں میں درد محسوس ہونے لگا۔ بیٹھ کر کام کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہوتا تھا کیوں کہ وہ کافی عرصے سے جوڑوں کے درد میں مبتلا تھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے کبھی اپنے بیٹے کے سامنے اس کی شکایت نہیں کی۔ دوسری طرف ڈریٹن کے راستے میں جو بھی چیز آتی تھی، وہ اسے لات مار دیتا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔ صندوق اور برتنوں کی آوازیں پورے گھر میں گونج رہی تھیں۔ اس نے چھت کی طرف منھ اٹھا کر کہا: ’’یہ لڑکا بھی بالکل اپنے باپ جیسا ہے، دونوں شیطانی دماغ والے۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • بتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    ’’ارے انکل آپ ابھی تک ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ آپ سارا دن کرسی پر بیٹھے ہمارا راستہ تکتے رہے! ہم تو سوچ رہے تھے کہ رات ہو گئی ہوگی اور آپ سونے جا چکے ہوں گے۔‘‘ فیونا بولی۔

    ’’میرے والدین ہمارے لیے پریشان ہوں گے، ہم سارا دن غائب رہے ہیں۔‘‘ جبران کو بھی پریشانی نے گھیر لیا۔

    ’’یہ تم لوگ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اینگس نے حیران ہو کر کہا۔ ’’ابھی پانچ ہی منٹ تو گزرے ہیں، اور تم لوگ آ بھی گئے۔‘‘

    وہ تینوں یہ سن کر اچھل پڑے۔ ان کی آنکھیں حیرت کے مارے پھیل گئیں۔ ’’کیسے پانچ منٹ؟‘‘ جبران کے منھ سے نکلا۔ اسے ہرگز یقین نہیں آ رہا تھا۔

    ’’انکل ہمیں وہاں پورا دن گزرا ہے، حتیٰ کہ سورج غروب ہونے لگا تھا۔‘‘ دانیال نے کہا لیکن اینگس اس کی طرف نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگے۔ فیونا نے بھی اس کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ جبران چونک پڑا تھا کیوں کہ دانیال کی بات صرف وہی سمجھا تھا۔ وہ اردو میں بولا تھا۔ پھر اس نے جلدی سے دانیال کے جملے کا ترجمہ کیا، تب ان دونوں کی سمجھ میں آیا کہ جزیرے ہائیڈرا پر جب وہ ایک دوسرے کی زبان بہ آسانی سمجھ رہے تھے تو وہ دراصل جادو کی وجہ سے تھا۔

    ’’یہ ناممکن ہے انکل کہ یہاں گیل ٹے میں ابھی تک صبح ہو، ہمیں تو قیمتی پتھر کے حصول میں واقعی سارا دن گزرا ہے۔ ہمیں بچھوؤں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ عفریت ہائیڈرا اور نکولس سے چھپنا پڑا اور پھر وہ ڈریگن کی آمد….‘‘ فیونا حیرت سے اینگس کی طرف دیکھ کر بتانے لگی اور اینگس نے اطمینان سے چائے کی پیالی اٹھائی اور اس سے گھونٹ بھرا۔

    ’’دیکھو، میری تو چائے بھی ابھی تک گرم ہے۔ چند منٹ پہلے تم تینوں یہاں کھڑے تھے اور مجھے چائے بناتے دیکھ رہے تھے۔‘‘ اینگس پھر آرام کرسی پر بیٹھ گئے اور پھر کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔ ’’ٹھیک ہے تم لوگوں نے وہاں پورا دن گزارا ہوگا لیکن یہاں گیل ٹے میں صرف چند ہی منٹ گزرے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک تو جادو کا معاملہ ہے اور پھر قیمتی پتھروں کی زمین پر وقت بالکل مختلف ہے۔ خیر، تم مجھے بچھوؤں اور ہائیڈرا عفریت کا قصہ سناؤ، یہ کہ کیا واقعات پیش آئے وہاں۔‘‘

    ’’ہم ایک یونانی جزیرے پر پہنچے تھے….‘‘ جبران بتانے لگا۔ لیکن فیونا نے جلدی سے مداخلت کی اور کہا: ’’اور وہاں ساحل پر ہائیڈرا نامی قصبہ تھا جہاں سارے گھر سفید رنگ کے تھے اور جو پہاڑوں کے نیچے بنائے گئے تھے۔ ہم نے یونانی کھانے کھائے اور وہاں کرسٹوف نامی ایک بدمزاج بیرے سے سامنا ہوا۔‘‘

    ’’اور ہم نے ایک ڈریگن کو دیکھا۔ وہاں مائع ماربل کا عفریت تھا جس کے نو سانپوں والے سر تھے۔‘‘ جبران نے فوراً مداخلت کی۔

    ’’ٹھہرو… ٹھہرو…‘‘ اینگس نے جلدی سے انھیں روکا۔ ’’فیونا تم تفصیل کے ساتھ بتاؤ اور تم جبران آخر میں اگر کوئی اضافہ کرنا چاہتے ہو تو ضرور کرنا۔‘‘

    تینوں کرسیوں پر بیٹھے گئے۔ فیونا نے اینگس کو ساری کہانی سنا دی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد اینگس آرام کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے، کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر انھوں نے پوچھا: ’’تو اب آبسیڈین پتھر کہاں ہے؟‘‘

    فیونا نے قیمتی پتھر جیب سے نکال کر اینگس کی کھلی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ انھوں نے الماری کھول کر جادوئی گولا نکالا۔ ’تو یہ ہے جادوئی گیند، اور یہ ہے بارہ قیمتی پتھروں میں سے سب سے پہلا پتھر۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے گولا میز پر رکھ دیا، اور پتھر کو آنکھ کے قریب لے جا کر غور سے دیکھنے لگے۔ ’’اس کے اندر ایک ڈریگن منقش ہے، جس کی وجہ سے یہ غیر معمولی بن گیا ہے، تو کیا یہ وہی ڈریگن ہے؟‘‘ انھوں نے پھر پوچھا۔

    فیونا نے نوٹ کیا کہ جب اس نے اینگس کو پتھر دیا، یعنی جیسے ہی پتھر اس کے ہاتھوں سے نکلا، تو اس کے اندر ڈریگن میں چمک ختم ہو گئی۔ اس نے کہا: ’’جی یہ ویسا ہی ڈریگن ہے۔‘‘

    اینگس نے گھمبیر لہجے میں کہا: ’’ایک پتھر کے اندر کون ڈریگن کا نقش بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے یقیناً انتہائی قسم کی مہارت درکار ہے، جو آج بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘

    ’’یہ غالباً لومنا جادوگر نے بنایا تھا، میرے خیال میں عام شخص ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔‘‘ فیونا بولی۔ ’’میں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ کوئی ڈریگن کس طرح زندہ ہو کر آ سکتا ہے، تاہم اس نے ہمیں بچایا تھا۔‘‘

    ’’یہ غیر معمولی کہانی ہے۔ جادوئی گیند میں بارہ عدد سوراخ ہیں۔ ہر پتھر کے لیے ایک سوراخ۔ جہاں تک میرا خیال ہے جیسا کہ تم سب سے پہلے جزیرہ ہائیڈرا گئے تو یہ آبسیڈین ہی سب سے پہلا قیمتی پتھر ہے۔ اب مجھے آگے کا کام بلاشبہ ایک خاص انداز میں کرنا ہوگا۔‘‘ اینگس نے کہا۔ ان سب نے گیند پر نگاہیں جما لیں۔ جادوئی گولے میں سوراخ زگ زیگ انداز میں بنائے گئے تھے۔ پہلا سوراخ سب سے اوپر تھا۔ ’’میرے خیال میں یہ قیمتی پتھر اسی سب سے اوپر والے سوراخ کا ہے۔‘‘ اینگس نے کہا اور پتھر کو اس سوراخ میں جمانے لگے لیکن وہ وہاں بیٹھ نہ سکا۔

    ’’اوہ شاید یہ کسی اور سوراخ کا پتھر ہے۔‘‘ اینگس نے مزید تین سوراخوں میں اسے بٹھا کر دیکھا اور آخرکار اس نے درست سوراخ ڈھونڈ لیا۔ ’’اب سمجھ گیا، خاص پتھر کے لیے ایک خاص سوراخ ہے۔‘‘

    ’’ارے دیکھو اسے، یہ ایسے چمک رہا ہے جیسے کوئی کالا سورج چمک رہا ہو۔‘‘ فیونا بولی۔ ’’ڈریگن بھی پھر سے چمکنے لگا ہے۔‘‘

    ’’یہ تو بہت پیارا لگ رہا ہے۔‘‘ جبران نے منور پتھر پر نگاہیں جما لیں۔

    ’’بہت ہی شان دار۔‘‘ اینگس واپس آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگے۔ ’’ذرا سوچو، جب اس جادوئی گولے پر بارہ کے بارہ پتھر لگ جائیں گے تو یہ کیسا لگے گا؟‘‘

    ’’ارے میں تو بھول ہی گیا تھا۔‘‘ اچانک جبران اچھل پڑا۔

    (جاری ہے….)

  • انتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    پہاڑ سے نیچے اتر کر فیونا تھکن سے چور ہو کر ایک ٹوٹی ہوئی پتھریلی دیوار پر بیٹھ گئی۔ ’’اب چاہے کچھ بھی ہو، میں تو ان سیڑھیوں پر دوبارہ نہیں چڑھنے والی۔‘‘

    ’’لیکن اب ہم کیا کریں؟ کیا ہم اس اینٹ کو اپنے ساتھ گیل ٹے لے کر جا سکتے ہیں، تاکہ وہیں پر سیاہ آبسیڈین اس سے نکال سکیں؟‘‘ جبران کی خواہش تھی کہ اب جتنی جلد ہو سکے، انھیں گھر چلنا چاہیے۔

    ’’نہیں جبران۔‘‘ فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’یہ اصول ہے، ہمیں یہیں پر اسے نکالنا ہوگا، ہمیں اسی زمین پر اس قیمتی پتھر کو ہاتھ میں لینا ہے۔‘‘

    ’’آبسیڈین ایک پتھر ہے یا زیور؟‘‘ دانیال نے اینٹ ہاتھ میں لے کر پوچھا۔ فیونا نے جواب دیا: ’’دراصل یہ ایک پتھر ہی ہے لیکن کسی زیور سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

    ’’تو اب اسے توڑیں گے کیسے؟‘‘ دانیال کے سوال نے انھیں ایک بار پھر اس مسئلے کی طرف متوجہ کر دیا۔ جبران کہنے لگا کہ کوئی بھاری پتھر ڈھونڈ کر اسے اینٹ پر مارا جائے۔ لیکن فیونا کا اعتراض تھا کہ اتنا بھاری پتھر ہم کیسے اٹھا سکیں گے، جس سے واقعی یہ اینٹ ٹوٹ سکے، اس لیے کوئی دوسرا طریقہ سوچنا ہوگا۔ تینوں اپنے اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ اچانک جبران اچھل پڑا۔ وہ بولا: ’’میرے دماغ میں ایک اور زبردست آئیڈیا آیا ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر قدیم بازنطینی چرچ ہے، جس کی گنبد نیلے رنگ کی ہے۔ ہم میں سے دو اوپر چڑھ کر اینٹ کو نیچے گرا دیں گے، اور نیچے جو کھڑا ہوگا وہ اس سے قیمتی پتھر نکال لے گا۔‘‘

    فیونا کو یہ خیال پسند آ گیا اور اس نے جبران کو شاباشی دی۔ تینوں تنگ گلیوں میں چلتے ہوئے بازنطینی چرچ کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ دانیال نے سر اٹھا کر اوپر دیکھتے ہوئے سوال کیا: ’’اوپر کون جائے گا؟‘‘

    ’’میں جاؤں گی اوپر، جبران تم بھی ساتھ چلو۔ اور دانی تم یہاں نیچے ٹھہرنا۔ تم نے پتھر فوراً اپنے قبضے میں لینا ہے، اور کسی کو بھی قریب پھٹکنے نہیں دینا۔‘‘ فیونا نے کہا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

    دانیال نے اینٹ جبران کے حوالے کر دی۔ دونوں اندر داخل ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دانیال چرچ کے ساتھ تنہا کھڑا رہا۔ اس نے قصبے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ یہ بہت خوب صورت ساحلی قصبہ تھا، سمندر کے کنارے سورج کی روشنی پانی پر منعکس ہو رہی تھی، جس سے ایک حسین منظر تخلیق ہو رہا تھا۔ ایک شخص کنارے کی طرف آرہا تھا اور اس کے ہاتھوں میں ایک بہت بڑا آکٹوپس تھا جس کی ٹانگیں ریت کو چھو رہی تھیں۔ دانیال آس پاس کے نظارے میں مگن تھا کہ اسے فیونا کی آواز سنائی دی: ’’دانی تم کہاں ہو؟‘‘

    دانیال دیوار کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ گیا۔ اس نے اوپر دیکھا، ایک کھڑکی سے فیونا اور جبران کے سر باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔ ’’پیچھو ہٹو دانی، میں اسے نیچے پھینکنے والا ہوں۔‘‘ جبران نے کہا اور اینٹ ہاتھ سے چھوڑ دی۔ اینٹ زمین سے ٹکراتے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ دانیال نے جلدی سے ٹکڑے ادھر ادھر ہٹائے اور پھر اسے قیمتی پتھر نظر آ گیا۔

    ’’یہ تو بہت خوب صورت ہے۔‘‘ اس نے چیخ کر کہا اور پتھر اٹھا لیا۔ یہ دو انچ قطر کا پتھر تھا۔ سورج کی کرنیں اس پر پڑتے ہی پتھر چمکنے لگا۔ وہ اسے اپنی آنکھوں کے قریب لے جا کر دیکھنے لگا۔ اسے اس کے آر پار دکھائی دینے لگا۔ یہ پتھر بالکل شیشے کی مانند تھا۔ اسی وقت فیونا اور جبران دوڑتے ہوئے باہر آ گئے۔

    ’’تم نے ڈھونڈ لیا اسے…. اوہ شکر ہے۔‘‘ فیونا اطمینان کی سانس لے کر بولی۔ ’’ذرا دکھاؤ مجھے۔‘‘ دانیال نے پتھر فیونا کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’ہم خوش قسمت ہیں کہ اس قیمتی پتھر کے گرد صرف دو ہی دام بچھائے گئے تھے۔‘‘ فیونا بول اٹھی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوکا۔ ’’تم نے یہ کہنے میں جلدی دکھا دی ہے‘‘ یہ کہتے ہی جبران ان دونوں کو بازوؤں سے پکڑ کر بڑی تیزی سے وہاں سے کھینچا جہاں وہ کھڑے تھے۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ فیونا گھبرا گئی۔

    ’’وہ دیکھو۔‘‘ جبران نے زمین پر بکھرے اینٹ کے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ارے … یہ … یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ فیونا اور دانیال کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو آگئیں۔ اینٹ کے ٹکڑے مائع ہو کر بہنے لگے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے مائع ٹکڑے مل کر ایک شکل کو ترتیب دینے لگے۔ فیونا نے خوف زدہ ہو کر قیمتی پتھر جیب میں رکھ دیا اور بڑبڑانے لگی کہ یہ کیا بن رہا ہے۔ اگلے لمحے تینوں کے دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ وہ اپنے سامنے ایک سانپ کی شکل بنتی دیکھ رہے تھے۔ تب فیونا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی، وہ بولی: ’’یہ تو عفریت ہائیڈرا کی شکل بن رہی ہے، جبران تم بار بار اس کا ذکر کر رہے تھے دیکھو اب یہ حقیقت میں بن رہا ہے۔‘‘

    پھر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے شکل کی جسامت بڑھ گئی۔ اس کے سر سے سانپوں کے نو سر نکل آئے، اور ہر سر میں سے پتھر جیسی زبان باہر کی طرف لپکنے لگی، اور انھیں پھنکار کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔

    (جاری ہے…)

  • اٹھائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ارے یہ پتے کام کر رہے ہیں۔‘‘ وہ خوشی سے چلا کر بولی۔ اس نے چند اور پتے پھینکے۔ بچھو ایک دوسرے پر چڑھ کر کاٹنے لگے۔ شاید انھیں بونے پریشان کر دیا تھا۔ وہ ہمت کر کے چند قدم اندر چلی گئی۔ پھر اس نے چھت کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ اس کا دل دھڑک کر رہ گیا۔ وہاں کئی بچھو ایک دوسرے سے لٹک کر جھول رہے تھے اور ان کے ڈنک فرش کی طرف لپک رہے تھے۔ اس نے مزید پتے پھینکے اور مزید راستہ بن گیا۔ اب صرف دو قدم کا فاصلہ تھا اور اس کے پاس بہت کم پتے رہ گئے تھے۔ آخرکار اس نے اینٹ پر بھی چند ٹکڑے پھینکے۔ بچھوؤں نے پیچھے کی طرف سمٹ کر اینٹ کو چھوڑ دیا۔ پتوں کی بو نے انھیں بری طرح پریشان کر دیا تھا اور وہ غیض و غضب میں ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے۔

    فیونا نے ڈرتے ڈرتے جھک کر اینٹ اٹھا لی اور تیزی سے مڑی۔ اس کے سامنے دروازے تک راستہ بنا ہوا تھا جس کے دونوں طرف سیاہ بچھو کلبلا رہے تھے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جبران اور دانیال کے پاس پہنچ کر وہ بے اختیار گر پڑی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

    ’’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ میں نے اینٹ حاصل کر لی ہے۔‘‘ اس نے بیٹھ کر آنسو پونچھے۔ پھر اس کے ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ جھلملانے لگی۔

    ’’مڑ کر دیکھو فیونا، اب وہ راستہ بھی نظر نہیں آ رہا، بچھوؤں نے اسے بھی ڈھک دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بچھو اس بوٹی کی بو کو برداشت کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔ فیونا مڑ کر دیکھنے لگی۔ اچانک جبران چیخا: ’’ہلنا مت فیونا… تمھارے بالوں میں ایک بچھو ہے۔‘‘

    فیونا کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ ’’جبران… اسے میرے بالوں سے ہٹا دو، ورنہ یہ مجھے کاٹ لے گا۔ کیا پتا اس پر کسی قسم کا جادو ہوا ہو اور میں مر جاؤں، یا اس کے زہریلے ڈنک سے میں بھی بچھو بن جاؤں۔‘‘

    ’’تم باتیں نہ کرو۔ میں لکڑی کی کوئی چھڑی ڈھونڈٹا ہوں۔ اس کے ذریعے بچھو کو گرانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ جبران بولا اور ادھر ادھر چھڑی تلاش کرنے لگا۔ ذرا دیر بعد اسے لکڑی کی ایک چھڑی مل گئی۔ وہ فیونا کے پاس چلا آیا۔ ’’جبران احتیاط سے… بچھو کو میرے سر پر مارنے کی احمقانہ کوشش مت کرنا۔‘‘ فیونا نے گھبرا کر کہا۔

    ’’میں بے وقوف نہیں ہوں۔‘‘ جبران نے تیز لہجے میں کہا اور لکڑی کی چھڑی اس کے سر کے اوپر لے گیا۔ بچھو نے اسے محسوس کر لیا۔ اس نے ڈنک اوپر کی طرف اٹھا لیا۔ جبران نے نہایت احتیاط کے ساتھ چھڑی بچھو کے بہت قریب کر دی۔ بچھو نے اس پر ڈنک مارا اور پھر اس سے چمٹ گیا۔ جبران نے اطمینان کے ساتھ چھڑی زمین پر پھینک دی۔ فیونا نے کافی دیر سے سانس روکی ہوئی تھی، بچھو ہٹتے ہی اس نے گہری گہری سانسیں لیں۔ بچھو چھڑی چھوڑ کر تیزی سے خانقاہ کے اندر چلا گیا تھا۔ دانیال نے اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا :’’اب اس ماربل اینٹ کو کیسے توڑیں، یہ تو کافی مضبوط نظر آ رہی ہے۔‘‘

    ’’ہمیں کسی ہتھوڑی کی ضرورت ہوگی۔‘‘ جبران نے اینٹ ہاتھ میں لے کر تولتے ہوئے کہا۔ اچانک فیونا نے خوف زدہ لہجے میں کہا: ’’ٹھہرو، تم لوگ بھول گئے ہو۔ ایک اور دام ابھی باقی ہے۔ مجھے یقینی طور پر اس کا علم نہیں ہے لیکن جب اس اینٹ کو توڑا جائے گا تو تیسرا اور آخری پھندا ہمارے سامنے آ جائے گا۔‘‘

    فیونا کے منھ سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ جبران نے اینٹ کو ایک بار پھر ہاتھوں سے چھوڑ دیا۔ اینٹ گھاس والی زمین پر ٹپکا کھا کر فیونا کے قدموں کے پاس رک گئی۔ ’’اوہ… تم نے اسے پھر گرا دیا، یہ دوسری مرتبہ ہے، بہت ڈرپوک ہو۔‘‘ دانیال نے اسے ٹوکا۔

    ’’وہ رہے تینوں بچے…‘‘ اچانک انھیں ایک افسر کی آواز سنائی دی۔ ’’وہ خانقاہ کے اندر ہیں، ٹھہرو بچو… بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔‘‘

    ’’ہمیں اس اینٹ کے ساتھ ہی واپس ساحل پر جانا ہوگا۔ گھر پہنچنے کے بعد ہی ہم قیمتی پتھر کو اینٹ سے باہر نکالنے کا کوئی راستہ ڈھونڈیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور لپک کر اینٹ اٹھا لی۔ تینوں ایک بار پھر پولیس سے بچنے کے لیے دوڑ پڑے۔ پولیس اہل کار جیسے ہی خانقاہ کے قریب پہنچے ان میں سے کسی نے چیخ کر کہا: ’’بچھو… ارے یہاں تو ہزاروں بچھو ہیں۔ بچوں کو جانے دو۔ ان بچھوؤں سے نمٹنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر یہاں سیاح آ گئے تو کیا ہوگا؟‘‘ وہ تینوں رک گئے اور انھوں نے بچوں کا تعاقب چھوڑ دیا۔

    فیونا ایک درخت کے پیچھے سے نکل کر بولی: ’’شکر ہے، یہ خطرناک بچھو بھی ہمارے کچھ کام آئے۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ پولیس اہل کار ہمارے پیچھے آنے کی پھر زحمت نہیں کریں گے۔‘‘

    تینوں سیڑھیوں کی طرف دوڑنے لگے۔ انھوں نے ایسے راستے کا انتخاب کیا جہاں نکولس سے ان کا سامنا ہونے کا امکان نہیں تھا۔

    (جاری ہے….)

  • ستائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "وہ رہا ان میں سے ایک۔ وہ سیڑھیوں کے پاس ہے۔‘‘

    گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے

    دانیال نے گھبرا کر مڑ کر دیکھا۔ نکولس جبران کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو سیڑھیوں تک پہنچ گیا تھا۔ جب تک وہ پہنچتے، جبران سیڑھیاں چڑھ چکا تھا۔ اس کے بعد وہ ایسا سرپٹ بھاگا کہ خانقاہ پہنچ کر ہی دم لیا۔ تاہم وہ اندر نہیں گیا بلکہ عقب میں چھپ گیا۔ عین اسی وقت دانیال بھی دوسرے راستے سے وہاں پہنچا۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ ’’فیونا کہاں ہے؟‘‘ جبران نے بے قابو سانسوں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی۔

    ’’پتا نہیں، وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر جواب دیا۔ ’’وہ بھی بس پہنچنے والی ہوگی یہاں۔‘‘ جبران نے پورے یقین کے ساتھ کہا۔

    تینوں سپاہی جبران کا پیچھا چھوڑ چکے تھے، جیسے ہی وہ پلٹے انھیں چوٹی پر فیونا نظر آ گئی۔ وہ ایک اور طرف سے سیڑھیاں چڑھ کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی تھی۔

    ’’آہا، اب مچھلی جال میں پھنسی ہے… آ…آ… میں تمھارا ہی انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ نکولس گدھا کھینچتے ہوئے سیڑھیوں کے پاس آکر رک گیا۔ اب فیونا سیڑھیوں کے درمیان پھنس گئی تھی لیکن سپاہیوں نے نکولس کو نیچے نہیں دیکھا تھا اور وہ اب بھی فیونا سے خاصے فاصلے پر تھے، چناں چہ وہ سمجھے کہ فیونا نیچے کی طرف بھاگ رہی ہے، اس لیے وہ دوسری طرف کی سیڑھیوں پر بھاگتے ہوئے نیچے اترے۔ فیونا نے یہ دیکھا تو مزے کے ساتھ واپس چوٹی پر پہنچی اور شوخی سے نکولس کا منھ چڑانے لگی۔ ’’آؤ نا… پکڑو مجھے۔‘‘

    سپاہی نکولس کے پاس کھڑے ایک دوسرے جھگڑنے لگے کہ وہی اس کا پیچھا کرے لیکن تینوں تھک چکے تھے۔ کسی میں بھی فیونا کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ فیونا پہاڑ پر پہنچتے ہی خانقاہ کی طرف دوڑ پڑی۔ کچھ دیر بعد وہ تینوں خانقاہ کے سامنے کھڑے تھے۔ ایسے میں دانیال نے پینٹ کی جیب سے پتوں سے بھری شاخیں نکال لیں۔

    ’’ارے یہی تو ہے لیڈی مینٹل۔‘‘ جبران اچھل پڑا۔

    دانیال نے مسکرا کر فیونا کی طرف دیکھا۔ ’’میں جن جھاڑیوں میں چھپا تھا یہ وہیں پر اگا ہوا تھا۔‘‘

    ’’ہمیں ان پتوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے ہوں گے۔ پھر اسے اینٹ کے قریب پھینکنا ہوگا۔ اور بچھو خود ہی وہاں سے بھاگ جائیں گے۔جیسے ہی بچھو وہاں سے دور ہٹیں گے ہم میں سے کوئی اندر جا کر اینٹ اٹھا لائے گا۔‘‘ جبران نے انھیں سمجھایا۔

    ’’لیکن اینٹ لینے کون جائے گا؟‘‘ دانیال نے سب سے اہم سوال پوچھا۔

    ’’میں۔‘‘ فیونا فوراً مضبوط لہجے میں بولی۔ ’’میں جاؤں گی اندر، اب جلدی سے ان پتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرو۔‘‘ تینوں نے پتوں کو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا اور فیونا نے سارے ٹکڑے ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیے۔ ’’احتیاط سے۔‘‘ جبران نے جلدی سے تاکید کی۔ ’’تم جہاں جہاں پتے گراؤ گی، وہاں سے بچھو دور ہٹیں گے اور ایک راستہ بن جائے گا۔ بچھوؤں کو اس کی بو ناپسند ہے، لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ اس کی بو کتنی دیر رہے گی یا وہ کتنی دیر تک اسے برداشت کریں گے؟‘‘

    وہ تینوں خانقاہ کے دروازے پر ٹھہر گئے۔ فیونا نے اندر دیکھا تو اس کی اندر کی سانس اندر اور باہر کی سانس باہر رہ گئی۔ اس کی آنکھیں خوف سے باہر ابل آئیں۔ اندر فرش سے لے کر چھت تک سیاہ چادر تنی ہوئی تھی۔ بچھو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اگر کوئی ان کے درمیان پھنس جاتا تو یہ بچھو اسے ایک منٹ کے اندر اندر چٹ کر سکتے تھے۔ فیونا گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی۔ ’’نہیں، یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ اگر چھت سے کوئی بچھو میرے سر پر گر گیا تو پھر… کیا میرے سر پر بھی عفریت ہائیڈرا کی طرح سانپوں والے سر اگیں گے! نہیں… نہیں…‘‘ اس نے جھرجھری لی۔

    ایسے میں جبران نے کہا: ’’فرض کرو اگر ہم میں سے کوئی بھی اندر نہیں جائے گا تو کیا ہوگا؟ یہی نا کہ اینٹ نہیں حاصل کر سکیں گے، نہ ہم نہ بادشاہ دوگان کا کوئی وارث اسے حاصل کر سکے گا، اس لیے یہ محفوظ ہے، چناں چہ چلو واپس گھر چلتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم میں سے کوئی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘‘

    فیونا نے پریشانی کے عالم میں آنکھیں بند کر کے خود کو ہمت دلانے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بادشاہ کیگان کا دم توڑتا زخموں سے چور جسم آگیا۔ اس نے ایک بار پھر جھرجھری لی اور آنکھیں کھول دیں۔ ’’نہیں… میں اندر جاؤں گی۔‘‘ اس نے ساری ہمت جمع کی اور دل مضبوط کر کے چند قدم آگے بڑھ کر اندر داخل ہو گئی۔ اس نے پتوں کے چند ٹکڑے اپنے سامنے پھینک دیے۔ بچھو تیزی سے دور ہٹ گئے۔

    (جاری ہے……)

  • پچیسویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچیسویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    فیونا کی ممی مائری مک ایلسٹر نے اپنے باغیچے سے تمام قسم کے پھول چُنے، اور ان سے ایک خوب صورت گل دستہ بنا لیا۔ پھر، چند سبزیاں توڑیں اور باسکٹ میں بھر کر جبران کے گھر کی طرف چل پڑیں۔ پندرہ منٹ بعد وہ جبران کے گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں۔ دستک دینے پر ذرا دیر بعد جبران کی امی شاہانہ نے دروازہ کھول دیا۔ وہ مائری کو نہیں پہچان سکیں، کیوں کہ وہ اس سے پہلے کبھی مائری سے نہیں ملی تھیں۔

    "میں مائری… مائری اینافرگوسن مک ایلسٹر۔” انھوں نے اپنا تعارف کرایا۔

    "ارے آپ، فیونا کی ممی۔” شاہانہ چونک اٹھیں اور انھیں خوش آمدید کہا اور اندر مہمان خانے میں لے گئیں۔ "بلال نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا ہے، آپ سے ملنے کا مجھے بڑا اشتیاق تھا۔”

    دونوں آمنے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئیں، لیکن شاہانہ نے اچانک کہا: "میں آپ کے آنے سے پہلے اپنے لیے چائے بنا رہی تھی، میں ابھی لے کر آتی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ اٹھیں اور باورچی خانے چلی گئیں۔ مائری اس چھوٹے سے گھر کا جائزہ لینے لگیں۔ پہلی ہی نظر میں وہ شاہانہ کی سلیقہ مندی کی معترف ہو گئیں۔ ہر چیز سے صفائی اور سادگی کی جھلک نمایاں تھی۔ دروازے کی سامنے والی دیوار پر فریم میں ایک بڑی تصویر لٹک رہی تھی۔ اس تصویر میں ایک گاؤں کے پس منظر میں برف پوش پہاڑوں کا نہایت ہی دل پذیر منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس تصویر میں نظر آنے والی جگہ کے متعلق سوچ کر حیران ہو گئیں۔ وہ اسے پہچان نہیں سکیں۔ گھروں کا طرز تعمیر ان کے لیے بالکل اجنبی تھا۔

    "یہ ہمارے آبائی گاؤں کی تصویر ہے۔” شاہانہ نے اندر آتے ہوئے مائری کو تصویر میں گم دیکھ کر کہا۔ انھوں نے میز پر سینی رکھ دی اور دو پیالیوں میں کیتلی سے چائے انڈیلنے لگیں۔ مائری کیتلی کو دیکھ کر چونک اٹھیں۔ "ارے، میں نے آج تک اسکاٹ لینڈ میں اس طرح کی کیتلی نہیں دیکھی، یہ تو کوئی بہت قدیم لگ رہی ہے۔”

    شاہانہ مسکرا دیں۔ انھوں نے ایک پلیٹ آگے کرتے ہوئے کہا: "یہ کشمش کے بسکٹ ہیں، بے حد ذائقہ دار ہیں۔ رہی بات اس کیتلی کی تو یہ میں پاکستان سے اپنے ساتھ لائی ہوں۔ یہ ہماری روایتی کیتلی ہے۔”

    "بہت ہی شان دار ہے۔” مائری اس سے متاثر نظر آنے لگیں، پھر کچھ یاد آکر انھوں نے باسکٹ اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ باسکٹ سے گل دستہ نکال کر شاہانہ کے حوالے کر دیا۔ "یہ میں نے اپنے باغیچے کے پھولوں سے بنایا ہے۔”

    "شکریہ….!” شاہانہ نے گل دستہ وصول کرتے ہوئے کہا: "معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے باغیچے میں بہت سارے پودے اگائے ہیں۔”

    "جی ہاں۔ میں نے کئی اقسام کی سبزیاں اور پھل بھی اگائے ہیں۔ کچھ اپنے ساتھ بھی لائی ہوں۔ دراصل میں نے سوچا کہ جب بلال اور آپ کا مہمان لوٹیں گے تو رات کے کھانے کے لیے کچھ زبردست قسم کی چیزیں موجود ہوں۔” مائری نے روانی میں کہہ دیا لیکن وہ دل ہی دل میں حیران ہونے لگیں کہ اس نے اتنی روانی سے مہمان کا ذکر کیسے کر دیا۔ "میرا مطلب ہے کہ …. آپ کے ہاں ایک مہمان آیا ہوا ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟” وہ گڑبڑا کر بولیں۔

    شاہانہ مسکرا دیں۔ ان کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔ ” ہاں، ہاں… جونی تھامسن لندن سے یہاں آیا ہے۔ اچھا آدمی ہے۔ وہ بلال کے ہمراہ مچھلیوں کے شکار پر گئے ہوئے ہیں۔ آج رات آپ اور فیونا کا کیا پروگرام ہے؟ کیا آپ ہمارے ہاں آنا پسند کریں گی۔ رات کا کھانا ہمارے ساتھ ہی کھائیے، مہمان کے ساتھ بھی ملاقات ہوجائے گی، اور جتنی دیر چاہیں آپ ان سے مچھلی کے شکار کے قصے بھی سن سکتی ہیں۔”

    مائری ہنس پڑیں۔ "تھامسن سے کل میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ایک اچھا شخص لگتا ہے۔ میں رات کے لیے قیمہ اور آلو کا بھرتا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اگر آپ کو پسند ہو تو میں وہ یہاں لے کر آ جاؤں!”

    شاہانہ فوراً سمجھ گئیں کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ "ٹھیک ہے، آپ اطمینان کے ساتھ آ سکتی ہیں۔ جتنا چاہیں یہاں وقت گزاریں۔ ویسے آپ تو پہلے ہی سے اتنا کچھ لے کر آئی ہیں۔” انھوں نے باسکٹ کی طرف اشارہ کیا۔

    (جاری ہے….)

  • چوبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوبیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    "بس تھوڑا سا اور رہ گیا ہے۔” فیونا نے ہانک لگائی۔ اگلے لمحے ایک جھٹکے سے اینٹ دیوار سے اکھڑ کر نیچے جا گری۔ فیونا بالکل تیار کھڑی تھی۔ دیوار میں ارتعاش پیدا ہوئی لیکن فیونا نے تیزی کے ساتھ خالی جگہ میں دوسری اینٹ رکھ دی۔ چند لمحوں کے لیے دیوار لرز کر رہ گئی۔ دھول کا ایک چھوٹا سا بادل فضا میں منڈلانے لگا تھا۔ فیونا کھانس کر پیچھے ہٹ گئی۔ دیوار سے چند پتھر بھی ٹوٹ کر نیچے گرے لیکن دیوار اپنی جگہ قائم رہی۔ وہ دونوں بھی دوڑ کر اندر آ گئے۔ جبران نے جلدی سے اینٹ اٹھا لی جس کے اندر قیمتی پتھر تھا۔ "ہم نے پتھر پا لیا… ہم نے پتھر پالیا۔” اس نے مسرت آمیز لہجے میں چیختے ہوئے کہا۔

    "فیونا! وہ کیا ہے؟” یکایک خانقاہ میں دانیال کی خوف زدہ چیخ گونج اٹھی۔

    وہ دونوں تیزی سے مڑ کر اس طرف دیکھنے لگے جہاں فیونا نے نئی اینٹ لگا دی تھی۔ ان دونوں کی آنکھیں بھی دہشت سے پھٹ کر رہ گئیں۔ اینٹ والی جگہ سے بڑی تعداد میں کوئی سیاہ مخلوق اتنی تیزی سے نکل رہی تھی جیسے اچانک کوئی آتش فشاں پھٹا ہو، اور اس سے لاوا ابلنے لگا ہو۔

    فیونا چلا کر بولی: "یہ بچھو ہیں۔ اف میرے خدا، یہ تو ہر جگہ سے نکل رہے ہیں۔”

    "چلو بھاگو یہاں سے۔” جبران دہشت زدہ ہو کر چلایا، اور ماربل کی اینٹ پھینک کر باہر کی طرف دوڑا۔ فیونا اور دانیال بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ "یہ… یہ بہت خطرناک ہوتے ہیں، اگر کاٹ لیں تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔” دانیال نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ اس کے ماتھے پر پسینہ بہنے لگا تھا، باقی دونوں کا بھی کچھ اچھا حال نہیں تھا۔

    "جبران، اینٹ کہاں ہے؟” فیونا نے اچانک اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر پوچھ لیا۔ اور جبران بوکھلا گیا: "ارے… وہ… وہ تو میں نے ڈر کے مارے اندر پھینک دی ہے۔ اب تو وہ بچھوؤں میں چھپ گئی ہوگی۔” اس نے جلدی سے اندر بھی جھانک لیا، واقعی فرش بچھوؤں سے ڈھک چکا تھا۔ فیونا کو غصہ آ گیا۔ "تت … تم نے اینٹ گرا دی۔” فیونا کے چہرے کے تاثرات عجیب سے ہو گئے تھے۔ اتنی محنت کے بعد انجام یہ نکلا تھا۔ "اوہ جبران، یہ تم نے کیا کر دیا۔ ہم نے اتنی مشکلوں سے اسے حاصل کیا اور تم نے اسے اتنی آسانی سے کھو…” بات کرتے کرتے شدت غم سے اس کی زبان رک گئی۔ "میں چیخ پڑوں گی جبران، میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ دوڑی اور زیتون کے درخت کے پاس کھڑی ہو کر زور زور سے چیخنے لگی۔ ذرا دیر بعد وہ واپس آ گئی۔

    "اب طبیعت کیسی ہے، کچھ بہتری محسوس ہوئی؟” دانیال نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا۔ اسے ہنسی آ رہی تھی لیکن اس نے خود پر قابو کیا ہوا تھا۔

    "ہاں، کچھ بہتر محسوس کر رہی ہوں، پوچھنے کے لیے شکریہ۔” فیونا دھیرے سے بولی۔ یکایک جبران نے کہا: "میں نے سنا ہے کہ ایک قسم کی بوٹی ہوتی ہے جو بچھوؤں کو دور بھگا دیتی ہے۔” یہ کہہ کر وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔ "اس کے نام میں لیڈی آتا ہے شاید۔ اور اس کے پھول زرد ہوتے ہیں، ہاں یاد آیا… لیڈی مینٹل!”

    "ارے واہ، تمھیں تو کسی پھولوں کی دکان میں ہوناچاہیے، لگتا ہے بڑے ہو کر ماہر نباتات بنو گے۔” فیونا خوش ہو کر بولی۔ "ایسا کچھ نہیں ہے۔” جبران منھ بنا کر بولا: "میں اپنے گھر کے سامنے ایک خوب صورت باغیچہ بناؤں گا اور اس میں تمام قسم کے پھولوں والے پودے ہوں گے۔”

    "اچھا، اب اس مسئلے کا حل کیسے نکالیں، یعنی یہ پودا یا بوٹی ہمیں کہاں سے ملے گی اور ہم اسے کیسے پہچانیں گے؟” دانیال نے درمیان میں مداخلت کر دی۔

    "اس کے لیے تو ہمیں واپس ہائیڈرا جانا ہوگا۔ وہاں جڑی بوٹیوں والی کسی دکان سے لیڈی مینٹل کا پوچھیں گے۔” جبران نے جواب دیا۔

    دانیال اچھل پڑا۔ "پاگل ہو گئے ہو کیا۔ اگر نکولس نے ہمیں دیکھ لیا تو۔ وہ ہمیں گدھا چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کروا دے گا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم یہ کام کل پر چھوڑ دیں، کیوں کہ میں بہت تھک چکا ہوں۔”

    "نہیں، جب تک اینٹ ہمارے ہاتھ میں بہ حفاظت نہیں آ جاتی، تب تک ہم آرام سے نہیں رہ سکتے۔ اس کے اندر قیمتی پتھر ہے، اسے مت بھولو۔ ہم اسے ہی ڈھونڈنے آئے ہیں۔ ذرا سوچو، بادشاہ کیگان اور اس کا پورا خاندان اس کی اس کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔ ہاں ہم شہر جا کر وہاں کچھ آرام کر سکتے ہیں۔ سیاحوں کو دیکھیں گے، آئس کریم کھائیں گے اور پھر رات ہونے سے پہلے یہاں واپس آ جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ بچھو خود ہی کہیں جا چکے ہوں۔” فیونا نے سپاٹ لہجے میں کہا اور پھر آگے بڑھ کر خانقاہ میں جھانکا۔

    "بچھو ہی بچھو ہیں ہر جگہ۔” وہ بڑبڑائی اور پھر تینوں ہائیڈرا شہر کی طرف چل پڑے۔

  • بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جب دانیال اور جبران دوبارہ ساحل پر پہنچے تو گدھے کا مالک نکولس واقعی کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا، اور اس کے قریب ہی اس کا گدھا بندھا ہوا تھا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "چلو، پہلے رسی اور کھانا خریدتے ہیں، پھر گدھے کا کچھ کرتے ہیں۔” جبران بولا۔

    دونوں رسی کی تلاش میں وہاں موجود دکانوں میں پھرنے لگے، آخر کار ایک دکان سے انھیں رسی مل ہی گئی۔ کھانا خریدنے کے لیے دونوں واپس اسی ریستوراں پر جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، اس لیے وہ ایک چھوٹی سی غلیظ قسم کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک ہوٹل تھا۔ دیوار پر مینیو لٹکا ہوا تھا۔ دونوں اسے پڑھنے لگے۔ اسی وقت ایپرن پہنے ایک ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص ان کے قریب آیا، اس کا چہرہ تیل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے دونوں سے آرڈر پوچھا تو جبران نے اسے تین عدد پیٹا برگر کا آرڈر دے دیا۔

    "یہاں اتنی گندگی ہے، کہیں یہ کھاتے ہی ہمارے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔” دانیال کو تشویش ہونے لگی۔

    ہوٹل کے مالک نے تین بیضوی ڈبل روٹیاں چکنے گرل پر ڈال دیں، پھر کوئی سفید چیز گوشت پر ڈال کر اسے پیٹا میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کاہو، ٹماٹر اور کھیرے کے ٹکڑے بھی بھر کر انھیں کاغذوں میں لپیٹ دیا۔ تیل اب بھی ان سے ٹپک رہا تھا۔ جبران نے پارسل سنبھال لیا اور دانیال نے قیمت ادا کر دی۔ ہوٹل سے پلٹنے کے بعد جبران کے کہنے پر وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا اپنا پیٹا کھانے لگے۔

    "یار یہ تو بڑے مزے کا ہے۔” جبران کو اس کا ذائقہ بھا گیا۔

    دانیال نے سر ہلانے پر اکتفا کیا کیوں کہ اس وقت اس کا منھ بھرا ہوا تھا۔ پیٹا کھانے کے بعد دانیال بولا: "اب گدھا لینے کی باری ہے، ویسے ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور فیونا ہمارے لیے پریشان ہوگی۔”

    دونوں تیزی سے اس طرف چل پڑے جہاں نکولس اب بھی چارپائی پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جبران نے دانیال کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "ہم خاموشی سے رسی کھول کر گدھے کو لے چلیں گے۔ پہاڑ پر چڑھانے کے بعد ہم خانقاہ تک اس پر اطمینان سے سواری بھی کر سکتے ہیں۔”

    دانیال نے اثبات میں سر ہلاکر کہا: "تم نکولس پر نظر رکھنا، میں گدھے کی رسی کھول لوں گا، یہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے ہمارا تعاقب نہیں کر سکے گا۔”

    اگلے لمحے دانیال نے بڑے مزے کے ساتھ گدھے کی پیٹھ سہلائی اور پھر اس کی رسی کھول لی۔ گدھا بغیر کسی مزاحمت اس کے پیچھے چل پڑا۔ "ارے یہ تو بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چل پڑا ہے۔” جبران خوش ہو گیا۔ وہ گدھے کو پہاڑ کے پاس تو آسانی سے لے گئے لیکن جیسے سیڑھیوں کے پاس پہنچے، گدھے نے قدم روک لیے۔ دونوں پریشان ہو گئے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

    "اُف یہ گدھے تو واقعی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے۔” جبران جھلا کر بول اٹھا۔

    "اے لڑکو! یہ تم میرے گدھے کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” اچانک ان کے کانوں میں نکولس کی تیز آواز پڑی، جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ زمین پر کھڑے کھڑے بت بن گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دونوں نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا۔ نکولس کا چہرہ غصے کے مارے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔

    "بھاگو….!” جبران چلایا۔

    اس کے بعد وہ آگے اور دانیال اس کے پیچھے سر پٹ دوڑا۔ نکولس ان کے پیچھے چلایا: "تم دونوں میرا گدھا چوری کر کے لے جا رہے ہو، میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔”

    لیکن وہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تب جا کر انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیچے کھڑا اپنے پیارے گدھے کی پیٹھ سہلا رہا تھا اور ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نکولس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور گدھے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جبران نے طویل سانس لے کر کہا: "اب کیا ہوگا؟ گدھا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ ا ب اینٹ کس طرح اکھاڑیں گے ہم؟”

    "چلو، فیونا کے پاس واپس چلتے ہیں، یہ پیٹا کھا کر اسے ہم پر زیادہ غصہ نہیں آئے گا۔” دانیال نے مسکرا کر جواب دیا۔

    (جاری ہے…..)