Tag: پراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

  • ایک سو چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
    ڈریٹن میں ہمت نہیں تھی کہ اندھیرا پھیلنے تک اس جگہ سے حرکت بھی کرے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اس پر بدحواسی چھائی ہوئی تھی اور وہ دبک کر بیٹھا تلی ہوئی مچھلیوں اور پھلیوں کی خوش بو سونگھ رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں سخت بھوک سے چوہوں نے طبل جنگ بجا دیا تھا۔ آخر کار اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی جادوئی طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے شہد کی مکھیوں کو حکم دیا کہ وہ چھتے چھوڑ کر کیمپنگ ایریا پر حملہ کریں اور اس ٹرپ کو برباد کر دیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔
    اس وقت جولیان باقی سب کو اپنے تسمانیہ کے سفر کی روداد سنا رہا تھا، جب درختوں پر موجود چھتوں سے شہد کی مکھیوں کے غول کے غول کیمپ کی طرف بڑھے۔ ابتدا میں چند مکھیاں ان تک پہنچیں تو انھوں نے توجہ نہیں دی لیکن کچھ ہی دیر میں وہ چونک اٹھے۔ فیونا نے اپنے چہرے کے پاس اڑنے والی مکھی کو ہاتھ لہرا کر بھگایا اور حیرت سے کہا: ’’یہ مکھیوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘
    اینگس نے کہا اف خدا بہت ساری شہد کی مکھیاں چلی آ رہی ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کے منھ سے تکلیف دہ آوازیں نکلنے لگیں، وہ سب شہد کی مکھیوں کو مار رہے تھے لیکن وہ بھی ڈنک مارنے میں کامیاب ہو رہی تھیں کیوں کہ بہت زیادہ تھیں۔ مجبور ہو کر وہ اٹھے اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ ہر ڈنک کے ساتھ ان کے منھ سے تکلیف دہ چیخ نکلتی تھی۔ ایسے میں جونی کے دماغ نے کام کیا اور وہ چلا کر بولا: ’’یہ ڈریٹن کی کارستانی ہے۔‘‘
    انکل اینگس نے یہ سن کر اپنا جبڑا رگڑتے ہوئے کہا فیونا سے کہا کہ وہ بھی جانوروں سے بات کر سکتی ہے تو ان سے بات کر کے جان چھڑاؤ۔ فیونا کو خود شہد کی مکھیوں سے بہت ڈر لگ رہا تھا، اس نے ڈرتے ڈرتے مکھیوں کو پیغام بھیجا: ’’میرے دوستوں کو ڈنک مارنا بند کر دو۔ میری ممی گھر میں شہد کی مکھیاں خود پالتی ہیں اور دیکھ بھال کرتی ہیں، تم ہمارے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘
    کئی شہد کی مکھیاں فیونا کے پاس اڑ کر گئیں اور کہا کہ انھیں ڈریٹن نے حملہ کرنے کا حکم دیا ہے، اور جب حکم دیا جائے تو انھیں ماننا پڑتا ہے۔ فیونا نے کہا تو میں تمھیں رکنے کا حکم دیتی ہوں، ڈریٹن بہت بری آدمی ہے، اسے تمھاری حفاظت کی بھی کوئی پروا نہیں ہے، دیکھو تم میں سے کتنی مکھیاں زمین پر مری پڑی ہیں، جاؤ اور ڈریٹن کو تلاش کر کے اسے ڈنک مارو، وہ ایک شریر آدمی ہے۔‘‘
    مکھیوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ برائی سے زیادہ اچھائی کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ فیونا سے بات کرنے والی مکھی اڑ کر دوسری طرف گئی اور گانے کی آوازیں نکالنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہد کی تمام مکھیاں رک گئیں اور پھر اکھٹی ہو کر اس طرف اڑنے لگیں جہاں ڈریٹن چھپا ہوا تھا۔

    جب انھیں اطمینان ہو گیا تو جمی نے کراہتے ہوئے کہا ’’میرے تو صرف ایک بازو پر ایک درجن ڈنک پڑے ہیں۔‘‘ جیفرے نے کہا ’’اور میرے چہرے پر کم از کم بیس ڈنک ہیں۔‘‘ اینگس گاڑی میں بیٹھ کر دریا کی طرف گئے اور بالٹی میں پانی بھر کر لے آئے۔ سبھی بالٹی کے پاس جمع ہو کر کپڑے بھگو بھگو کر زخموں پر لگانے لگے۔
    ۔۔۔۔۔۔

    سورج غروب ہو چکا تھا اور مکمل اندھیرا تھا۔ پہاڑی علاقے میں سخت سردی تھی، ڈریٹن کانپنے لگا تھا اور اس نے اپنے بازو اپنے گرد لپیٹ دیے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ آج رات وہ سو نہیں پائے گا، اس لیے وہ اپنی کار کی طرف بڑھا۔ یہی لمحہ تھا جب شہد کی پہلی مکھی نے اسے ڈنک مارا۔ اس کے منھ سے سسکاری نکلی، اور پھر ایک اور مکھی نے اپنا ڈنک اس کے ماتھے کی جلد میں پیوست کر دیا۔ اور پھر کئی مکھیوں نے اسے گھیر لیا۔ اس کے منھ سے شدید غصے میں غراہٹ جیسی آواز نکلی: ’’بے وقت مکھیوں، تمھیں فیونا پر حملہ کرنا تھا مجھ پر نہیں۔‘‘ لیکن شہد کی مکھیوں نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ وہ دوڑتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف گیا، اور ایک اخبار نکال کر مکھیوں کو بھگانے لگا۔

    شہد کی مکھیوں سے جان چھڑانے کے بعد اس نے سوچا کہ فیونا اس کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے تو چلو مزید کھیل کر دیکھتا ہوں۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور بارش، بجلی اور اولوں کے بارے میں سوچا۔ پھر جب اس نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا تو اسے بارش کے پہلے قطرے گرتے محسوس ہوئے، پھر ایک منٹ کے اندر اندر موسلا دھار بارش ہوئی۔ ’’اب مزا آئے گا ان کو۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    (جاری ہے ۔۔۔۔)
  • ایک سو چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیں
    شیطان جادوگر پہلان نے اپنے ہی بد تمیز چیلے ڈریٹن کو جادو کے ذریعے سخت اذیت میں مبتلا کر کے چھوڑ دیا تھا، جس میں رات بھر تکلیف سے دوچار رہا۔ آخر کار طلوع آفتاب کے ساتھ ہی ڈریٹن کو اس اذیت سے رہائی مل گئی۔ وہ فرش پر دیر تک لیٹا بازو اور ٹانگیں رگڑتا رہا جن میں درد کا احساس ابھی بھی زندہ تھا۔ اس نے خوشی محسوس کی کہ رات ختم ہو گئی ہے لیکن اس کے جسم کا ہر حصہ درد سے تاحال کانپ رہا تھا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور قلعہ آذر کے محراب والے دروازے کی طرف چل دیا۔ اسی لمحے جادوگر پہلان نمودار ہوا اور زخموں پر نمک چھڑکنے لگا: ’’کیا تم رات بھر ٹھیک سے سوئے؟ سہانے خواب تو دیکھے ہوں گے؟ نہیں؟ اوہ تو کیا تم اب میری اطاعت کرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘
    ڈریٹن منھ ہی منھ میں بڑبڑایا لیکن جلدی سے سر ہلا کر کہا: ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
    پہلان نے اسے بتایا کہ فیونا اور باقی سب لوگ آج پکنک منانے پہاڑی علاقے میں جا رہے ہیں جہاں وہ کیمپنگ کریں گے، اور یقیناً جادوئی گولہ اور قدیم کتاب بھی ساتھ لے کر جائیں گے، اس لیے تم ان کے پیچھے جاؤ اور اگر موقع ملے تو کتاب حاصل کرو، اور کل رات مجھے رپورٹ دو۔
    اگرچہ ڈریٹن کو پہلان پر شدید غصہ آ رہا تھا، جس نے اسے رات بھر تکلیف برداشت کرنے پر مجبور کر دیا تھا، لیکن اس نے طابع داری دکھائی اور سر ہلاتے ہوئے جزیرے کے ساحل پر چلا گیا، جھیل پر پہنچ کر اسے یاد آیا کہ کشتی تو نہیں رہی، اس نے سوچا کہ شکایت کرنا فضول ہے، اس لیے وہ قلعے میں واپس جا کر سرنگ کے ذریعے باہر نکلا۔ سورج کی گرم شعاعیں اسے اپنے درد کرتے بدن پر اچھی محسوس ہوئیں، وہ چلتے چلتے درختوں کے جھنڈ میں چھپ کر انکل اینگس کے گھر کا جائزہ لینے لگا۔ اس نے ان سب کو کیمپنگ پر جانے کے لیے تیاریاں کرتے اور باتیں کرتے دیکھا۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ اینگس باہر آیا اور اس کے پاس جادوئی گیند اور قدیم کتابیں تھیں۔ وہ گاڑی میں نکلنے والے تھے اور ڈریٹن کو ان کا تعاقب کرنا تھا اور اس کے لیے کوئی ذریعہ تلاش کرنا تھا۔ اس لیے وہ شہر کی طرف بھاگا اور وہاں ایک پنساری کی دکان تک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک شہری نے گاڑی روکی، اور ڈریٹن کی خوش قسمتی کہ چابیاں بھی انگنیشن ہی میں چھوڑ دیں اور دکان کے اندر چلا گیا۔ ڈریٹن نے دیر نہ لگائی اور گاڑی میں گھس کر اسٹارٹ کی اور چل دیا۔ دوبارہ اینگس کے گھر پر پہنچ کر اس نے گاڑی کو درختوں کے جھنڈ میں لے جا کر چھپا دیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب وہ روانہ ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے بلی میکفی، جس کی اس نے کار چرائی تھی، اپنی گاڑی غائب دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اس نے واپس پنساری کی دکان میں جا کر پولیس کو کار غائب ہونے کی اطلاع دی۔ ڈریٹن کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، وہ جلد ہی ایک قافلے کی صورت پہاڑوں کی طرف روانہ ہو گئے اور ان کے پیچھے ڈریٹن بھی۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔
    قدیم انسانوں کو کیمپنگ کے لیے جدید دنیا کا خیمہ لگانے کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، دوپہر کا وقت تھا جب وہ کیمپنگ کے مقام پر پہنچے، جیفرے نے وہاں ٹینٹ پول یعنی خیمے کے کھمبے نیچے گرا دیے اور بڑبڑایا: ’’پتا نہیں یہ کیسے لگاتے ہیں۔‘‘ اینگس اس کے قریب ہی کھڑے تھے، یہ دیکھ کر ہنس دیے اور کہا: ’’جیفرے پریشان نہ ہو، پہلے مجھے بھی یہ بہت مشکل لگتا تھا لیکن پھر میں نے سیکھ لیا۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے ٹینٹ پول اٹھا کر لگانا شروع کر دیے۔
    جیک نے انھیں بتایا کہ اس نے بوریل میں اس سے ملتے جلتے خیمے دیکھ رکھے ہیں، جو خانہ بدوش لوگ اپنی رہائش کے لیے بناتے تھے، اور وہ اس کے لیے بکری کے بال استعمال کرتے تھے۔ کچھ دیر میں انھوں نے خیمے نصب کر دیے، جن میں سے ایک فیونا اور مائری کا تھا، ایک جونی اور جیفرے نے شیئر کرنا تھا، اور ایک انکل اینگس، جیک، جیزے اور جولین نے استعمال کرنا تھا۔
    فیونا اور اس کی ممی نے گاڑی سے ڈبے نکالے اور کھانے کا سامان باہر رکھا تاکہ کھانا پکانے کی تیاری کی جائے۔ جونی نے دوسروں کو بلایا اور گاڑی میں بیٹھ کر ندی پر مچھلیاں پکڑنے چلے گئے، مائری اور فیونا نے پہاڑی کی چوٹی پر سے انھیں غائب ہوتے دیکھا۔ وہ اس وقت روڈرک کیمپ گراؤنڈ پر تھے اور اس کا نظارہ بے حد خوب صورت تھا۔ مائری نے چاروں طرف نظریں ڈالتے ہوئے کہا: ’’میں یہ ساری چیزیں رکھنے کے بعد ہائیکنگ پر نکل جاؤں گی، میں فطرت کی خوب صورتی دیکھنا چاہتی ہوں، کیا تم میرے ساتھ چلو گی فیونا؟ میں اپنے باغ کے لیے یہاں سے کچھ جنگلی پھول بھی چنوں گی، میں نے کافی عرصے سے کوئی شہد بھی لے کر نہیں گئی ہوں۔‘‘
    فیونا نے کہا کہ ابھی تو ہم بہت مصروف ہیں، کل ضرور شہد کے لیے مدد کروں گی۔ فیونا نے یاد دلایا کہ خزاں میں گھاس پھوس کم ہو جاتی ہے اور شہد کی مکھیاں اتنا شہد نہیں بنا پاتیں۔ اس نے کہا ’’ہم سیر کے لیے نہیں جا سکتے کیوں کہ ہم میں سے ایک کو یہاں رہنا ہے اور کتابوں اور جادوئی گیند کی حفاظت کرنی ہے۔ میرے خیال میں انکل اینگس بھول گئے ہیں کہ وہ انھیں اپنے ساتھ یہاں لے کر آئے ہیں ورنہ وہ ہمیں ضرور کہتے کہ ان کا خیال رکھیں۔‘‘ لیکن مائری نے پھر اصرار کیا کہ وہ بس کچھ دیر ہی کے لیے جائیں گی، اور واپس آ جائیں گی۔ فیونا نے بھی ہتھار ڈال دیے۔ انھوں نے ڈبوں سے سامان نکال کر وہاں رکھا اور پھر مائری چلی گئیں۔ جب کہ فیونا نے بیگ سے ایک کتاب نکال کر مطالعہ شروع کر دیا۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • ایک سو تریانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تریانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جیک نئے مہمان کو جسے اس نے ایڈوی کہہ کر پکارا تھا، اینگس کے گھر کے اندر لے آیا۔ جمی نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا ’’طویل عرصے بعد تمھیں دیکھ کر خوشی ہوئی جولین۔‘‘
    ایڈوی چونک اٹھا: ’’جولین … کیا مطلب، میں تو ایڈوی ہوں۔‘‘
    ’’ہاں لیکن یہ ایک الگ دنیا ہے، یہاں ایڈوی بہت عجیب لگتا ہے، اس لیے آج کے بعد سے تمھارا نام جولین ہوگا۔‘‘ جمی نے مسکرا کر کہا اور بتایا کہ ان کے نام بھی انھوں نے تبدیل کیے ہیں۔ ساتھ ہی میں اس نے اب تک گزرے واقعات کا خلاصہ بھی بیان کر دیا تاکہ جولین صورت حال سے آگاہ رہے۔ نئے مہمان نے جونی اور جیزے سے متعلق دریافت کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ دونوں فیونا اور اس کی ماں مائری کے ساتھ گئے ہیں۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ جولین کو باغبانی کا شوق رہا تھا، جس پر اینگس نے کہا کہ مائری یہ سن کر خوش ہوں گی کیوں کہ انھیں قلعہ آذر میں ان کی بہت ضرورت پڑے گی۔
    تب جولین کے چہرے پر اچانک پریشانی کے آثار نمودار ہوئے، اس نے کہا: ’’میں مائری سے اپنی ملاقات کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوں، یہ سب بہت دل چسپ ہے، لیکن مجھے آپ کو خبردار کرنا چاہیے کہ محل میں کچھ عجیب ہو رہا ہے۔ میں بھی باقی افراد کی طرح ٹائم پورٹل کے ذریعے یہاں آیا ہوں۔ لیکن جیسے ہی میں محل سے باہر نکلا میں نے وہاں دھوبن بد روحوں کو دیکھا جو قلعے کے اندر جا رہی تھیں۔ وہاں اور قسم کی بد روحیں بھی تھیں، یہ سب غیر معمولی تھا، کیوں کہ وہ سب کے سب ایک ہی کام کر رہی تھیں، یعنی قلعے میں جوش و خروش سے داخل ہو رہی تھیں۔‘‘
    جیفرے نے گرم چائے پیالی میں انڈیلتے ہوئے سوال کیا کہ جادوگر پہلان اور ڈریٹن اس وقت کیا کر رہے ہوں گے؟ ان کی طرف سے پریشانی لاحق رہتی ہے۔ جمی نے کہا کہ اس وقت پریشان ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، سب کو اچھی سی نیند کر لینی چاہیے کیوں کہ اگلے دن فیونا اور اس کے دوستوں کے ساتھ کیمپنگ کرنے جانا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ کل کا دن بہت تھکا دینے والا ثابت ہو۔
    جب وہ سب سو گئے تو انکل اینگس نے زیلیا کی زبان میں لکھی گئی کتاب اٹھا لی اور آتش دان کے سامنے بیٹھ کر ورق گردانی کرنے لگے۔ کتاب میں کچھ علامتیں تھیں جن پر انھوں نے انگلیاں پھیر کر خود کلامی کی: ’’کاش میں سمجھ سکتا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔‘‘ پھر وہ کتاب پڑھتے پڑھتے کب نیند کی وادی میں کھو گئے، انھیں پتا بھی نہیں چلا۔
    ۔۔۔۔۔۔
    اگلے دن ناشتے کے بعد دونوں قدیم انسان یعنی جونی اور جیزے، فیونا اور اس کی ممی کے ساتھ انکل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا اور مائری کیمپنگ ٹرپ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ جب وہ اینگس کے گھر پر پہنچے تو وہ سب تیار کھڑے تھے، تہہ ہونے والے خیمے تیار تھے۔ تمام انتظامات بھی مکمل تھے، ایک بڑی گاڑی کا اہتمام پہلے ہی سے ہو چکا تھا، جس میں انھوں نے تمام سامان رکھا۔ اس دوران فیونا اور مائری کا جولین کے ساتھ تعارف ہو گیا۔ جیک کو دیکھتے ہی جولین چہکا: ’’آلروئے، آپ کو دیکھ کر اچھا لگا۔ بہت لمبا عرصہ ہو گیا ہے۔‘‘ اور وہ ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اینگس نے فیونا نے اس کے دوستوں کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کیوں نہیں آئے، تو فیونا نے بتایا کہ دونوں کسی اور کام میں مصروف تھے۔ اس کے بعد وہ خوب صورت پہاڑی علاقے کی طرف روانہ ہو گئے۔
    (جاری ہے ۔۔۔)
  • ایک سو بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’ہاں، تم سب فوری طور پر قلعہ آذر پہنچو، میں بھی آ رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دھواں دھواں سا ہاتھ ہلایا اور بد روحیں قلعے کی طرف اڑ گئیں۔ پہلان جادوگر جنگل میں آگے کی طرف چلا گیا اور وہاں بے سدھ سوئے ہوئے ڈریٹن کے اوپر منڈلانے لگا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’سوتے رہو بچے، جب میں تمھاری طرف متوجہ ہوں گا تب تم کئی راتوں کو سو نہیں پاؤ گے، تمھاری ہمت کیسے ہوئے میرا سونا چرانے کی۔‘‘
    شیطان جادوگر برفیلی ہوا کے جھونکے میں تبدیل ہو کر غائب ہو گیا۔ عین اسی لمحے ڈریٹن جاگ گیا۔ اسے حیرت ہوئی اور اس نے اپنے بازو رگڑے۔ اسے اچانک ٹھنڈ لگ گئی تھی۔ اسے لگا کہ قلعے میں واپس جانا چاہیے، چناں چہ وہ اٹھا اور چھپائے ہوئے سونے کو وہاں چھوڑ قلعے کی طرف چل پڑا۔
    جب پہلان قلعے میں پہنچا تو تمام قسم کی بدروحیں اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ان میں خنزیر کے سر اور سرخ ٹوپیوں والی بد روحیں، جھیل کے پانی ایسی اور ایک نتھنے والی ’بین نی یے‘ نامی مادہ دھوبن بد روحیں اور پرندوں کی طرح جھنڈ میں آنے والی بد روحیں شامل تھیں۔ پہلان کے پہنچتے ہی سب بد روحیں اس کے گرد جمع ہو گئیں۔ روفریر نے پوچھا: ’’آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ماسٹر؟‘‘
    پہلان انھیں اپنے ساتھ لے کر سیڑھیاں اترتے ایک دروازے پر رک گیا۔ سب اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئیں۔ وہاں پہنچ کر پہلان نے کہا: ’’اس کمرے میں ایک ٹائم پورٹل ہے۔ کچھ لوگ اس سے گزر کر ماضی سے حال میں آ رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کمرے سے جو بھی شخص نکلنے کی کوشش کرے، تم لوگ اسے روکو۔‘‘ روفریر کو بہت عجیب لگا، اس نے اپنی انگارے ایسی چمکتی آنکھوں سے کمرے میں گھوم کر دیکھا اور کہا: ’’تو آپ ہم سے بس یہی چاہتے ہیں کہ ہم اس دروازے کی چوکیداری کریں اور کسی کو اس سے نکلنے نہ دیں۔ اور اس کے لیے آپ نے جھیل کے پانیوں سے یک نتھنی بد روحوں، جنگلوں سے لال ٹوپی والی بد روحوں اور مغرب کی طرف سے جھپٹنے والی ہم پرندوں ایسی بد روحوں کو بلا لیا ہے۔‘‘
    پہلان نے تیز لہجے میں کہا: ’’یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جو آدمی پورٹل کے ذریعے ادھر آ رہے ہیں، وہ کنگ کیگان کے زمانے سے آ رہے ہیں۔ وہ ایک مقصد سے یہاں آ رہے ہیں اور تم نے انھیں ہر قیمت پر یہاں روکے رکھنا ہے۔ یاد رکھنا تمھیں جو کرنا ہے وہ کرو لیکن ان میں سے کسی کو جان سے مارو گے نہیں۔‘‘ روفریر نے کہا ٹھیک ہے ماسٹر، اگرچہ کام آسان ہے لیکن آپ کے انعامات پرکشش ہیں، تو ہم خوشی سے یہ کام کریں گے۔ لیکن اچانک اس نے پوچھا: ’’ماسٹر وہ ٹائم پورٹل ہے کہاں، مجھے تو یہاں دکھائی نہیں دیتا، نہ ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘
    پہلان نے فرش سے ایک کنکر اٹھایا اور کمرے کے بیچ میں پھینک دیا۔ وہاں ایک مستطیل نما، بجلی کی چمک والی لکیروں جیسا دروازہ ایک لمحے کے لیے نمودار ہوا، پہلان نے کہا کہ یہی ہے پورٹل۔
    روفریر سے رہا نہیں گیا تو پھر سوال داغ دیا: ’’اچھا کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ پورٹل کے ذریعے آنے کی کوشش کرنے والے ان آدمیوں سے کیوں ڈر رہے ہیں؟‘‘
    پہلان نے گہری سانس لی، وہ سب کچھ نہیں بتا سکتا تھا لیکن کچھ تو بتانا تھا، اس نے کہا: ’’میں اس کی کوئی خاص وضاحت نہیں کر سکتا، ہاں ان میں سے ایک ایسا ہے جسے زیلیا کی زبان آتی ہے، اور انسانوں کے پاس میرے وطن کی ایک کتاب موجود ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ماضی سے آنے والا وہ آدمی یہ کتاب ترجمہ کر لے۔ اس لیے مجھے ان سب کو روکنا ہے۔‘‘
    ایسے میں فوفیم نے کہا: ’’ماسٹر پہلان، یہاں اس چھوٹے سے کمرے میں میرے لوگ ان تمام دیگر بد روحوں کے ساتھ بے چینی محسوس کر رہے ہیں، ہم اس دروازے کی اکیلے حفاظت کر سکتے ہیں۔‘‘ لیکن پہلان نے سختی سے انکار کر دیا اور کہا کہ تم سب نے یہیں مل کر یہ کام انجام دینا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرنا ہے، اور وہ کسی بھی قسم کی گڑبڑ برداشت نہیں کرے گا۔ اگر تم ناکام ہوگے تو پھر تمھاری سزا بھی اتنی ہی بری ہوگی، جتنا انعام اچھا ہوگا۔ یہ کہہ کر پہلان انھیں اسی کمرے میں چھوڑ کر نکل گیا۔
    جب وہ قلعے کے مرکزی ہال میں پہنچا تو اسے ڈریٹن محراب والے دروازے سے اندر داخل ہوتا نظر آیا، اس نے دل میں کہا بچے، اب میں تمھارا مسئلہ بھی حل کرتا ہوں۔ ڈریٹن اپنے سلیپنگ بیگ پر لیٹ گیا تھا لیکن جیسے ہی اس نے پہلان کی شکل اپنے سامنے آتی دیکھی فواً پھر اٹھ بیٹھا اور تیز لہجے میں شکایت کی: ’’پہلان، تم نے میری کشتی اور میرا سارا سونا ڈبو دیا۔ کیوں؟‘‘
    پہلان نے کہا: ’’وہ خزانہ، سونا اور جواہرات تمھارا نہیں ہے۔ یہ سب اسی محل میں رہے گا، جب میں جادوئی گیند واپس حاصل کروں گا اور اپنے بدن میں اسی طرح واپس آ جاؤں گا جیسا کہ پہلے تھا، تو مجھے فوجیں خریدنے کے لیے خزانے کی ضرورت ہوگی۔ اب وہ خزانہ جھیل کے نیچے محفوظ ہے، میں جب چاہوں گا میں اسے نکال لوں گا۔‘‘
    ڈریٹن نے اٹھ کر چیختے ہوئے کہا: ’’تو کیا تم مجھے اس میں سے کچھ نہیں دوگے؟ میں یہاں تمھارے کہنے پر سخت محنت کر رہا ہوں اور مجھے کچھ نہیں مل رہا، یہاں تک کہ سونے کے لیے ایک بستر بھی نہیں، تو مجھے میرا حصہ کب ملے گا؟ اس میں سے کچھ سونا میرا بھی ہے۔‘‘
    جادوگر پہلان نے کہا: ’’تم نے مجھ پر چلانے کی ہمت کیسے کی۔ تمھیں سونا چاہیے اور سونے کے لیے بستر بھی چاہیے، تو لو ابھی بستر دے دیتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے بازو اٹھائے، اور اگلے لمحے ڈریٹن کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈل گئی تھیں۔ زنجیروں اطراف میں کھنچنے لگیں اور ڈریٹن کے بازو اور ٹانگیں اطراف میں پھیل گئیں۔ ڈریٹن تکلیف سے چلایا: ’’یہ تم کیا کر رہے ہو احمق جادوگر، تمھیں میری ضرورت ہے، میرے بغیر جادوئی گیند کیسے حاصل کرو گے؟ مجھے جانے دو احمق!‘‘
    جادوگر یہ سن کر ہنس پڑا: ’’ہاں مجھے تمھاری ضرورت ہے لیکن میں تمھارے ساتھ کچھ دیر کے لیے ایسا ضرور کر سکتا ہوں۔‘‘
    ڈریٹن اب ذرا بھی حرکت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا، بازور اور ٹانگیں بری طرح مخالف سمتوں میں کھینچے جانے کی وجہ سے اس کے پٹھوں میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ پھر اس کی نگاہ آدھ انچ لمبی پر پھڑپھڑاتی مخلوق پر پڑی، جن کی آنکھیں سبز چمک دار اور جسم سیاہ کوئلے کی طرح تھا، اور دم کی طرف ایک تیز سوئی جیسی نکلی ہوئی تھی۔ ڈریٹن نے بے اختیار پوچھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ جادوگر پہلان نے بتایا کہ انھیں ریت کا کیڑا کہتے ہیں اور ان کا تعلق تمھارے ہی آبا و اجداد کی سرزمین ہیڈرومیٹم سے ہے، رولفن اور اس کے بھائی بارتولف کے زمانے میں اس مخلوق نے انسانوں کو بہت اذیت دی تھی۔ ان کا ڈنک بہت خطرناک ہوتا ہے، لیکن ڈنک لگنے کے بعد بھی تم مرو گے نہیں۔ یہ کوئی زہر نہیں ہے بلکہ سوئی کی طرح تیز درد ہوگا۔ پہلان نے کہا: ’’تم نے ٹھیک کہا کہ مجھے تمھاری ضرورت ہے لیکن اب تمھیں سبق سکھانا بھی ضروری ہو گیا ہے، میں نے تمھیں بہت برداشت کر لیا ہے، اس لیے اب درد کے اس بستر سے مزے لو۔‘‘
    ریت کے کیڑے نے ڈریٹن کے پاؤں پر ایک ڈنک مارا اور اس کی چیخ سے قلعہ گونج اٹھا، اور یکے بعد دیگرے کیڑے اسے کاٹنے لگے اور اس کی چیخوں میں اضافہ ہوتا گیا۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن بنیادی طور پر ایک نہایت لالچی شخص تھا، اس لیے پل پل اس کی طبیعت بدل رہی تھی۔ جب مائری کو اس نے جھیل میں پھینکا تو کشتی کو دوبارہ اس غار کی طرف لے گیا جہاں سے قلعہ آذر میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ رات کا وقت تھا، وہ کشتی سرنگ کی طرف کھینچ کر لے گیا تاکہ کوئی اور اسے نہ ڈھونڈ سکے۔ اور پھر قلعے کی اس منزل پر چلا گیا جہاں اس نے سونا اور زیورات چھوڑے تھے۔ اس نے سوچا کہ اب اس کے پاس اتنا سونا اور جواہرات ہیں کہ اسے جادوئی گیند کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب باقی زندگی عیش سے بسر کی جا سکتی ہے۔ اس نے دل میں کہا پہلان، تم بھی بھول جاؤ اور جادوئی گیند خود حاصل کرو اب۔ میں تو اس مقابلے سے باہر ہو گیا ہوں۔ پھر اس نے خزانے سے بہت سارا ایک لکڑی کے کریٹ میں باندھا اور کشتی تک لے گیا۔ جب اس نے کشتی کے نچلے حصے میں اسے خالی کیا تو خیال آیا کہ اب اسے اپنے گھر ٹرورو کیسے پہنچاؤں گا، تب اسے جواب ملا کہ بحری راستے ہی سے جائے گا یہ۔ ڈریٹن کے لیے یہ کافی نہیں تھا، اس نے کئی چکر لگائے اور کریٹ بھر بھر کر کشتی پر لاتا رہا۔ پھر اس نے کشتی کو جھیل میں ڈال دیا۔ رات کافی پر سکون تھی، آسمان ستاروں سے ڈھکا ہوا تھا، جھیل کے پانی پر کشتی دھیرے سے تیر رہی تھی، ہوا بھی خوش گوار تھی۔ وہ تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اتنے سارے سونے جواہرات کو کہاں چھپائے گا، جہاں وہ مضبوط باکس تلاش کر کے انھیں اس میں پیک کرے گا اور پھر اپنے گھر بھیج دے گا۔
    اس کی توجہ کشتی کے نیچے پانی کی طرف چلی گئی، اسے لگا کہ پانی سیاہ سے دودھیا ہونے لگا ہے، وہ حیران ہوا اور آسمان میں چاند کی طرف دیکھا کہ کہیں یہ اس کا پھیلتا سایہ تو نہیں، لیکن ایسا نہیں تھا۔ پھر یکایک کشتی کے پچھلے کنارے کی طرف جھیل کے پانی میں ایک بھنور بن گیا اور کشتی اس کی طرف پوری قوت سے کھنچنے لگی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ جادوگر پہلان کی کارستانی ہے، اس لیے وہ پوری قوت سے دوسرے کنارے کی طرف کشتی چلانے لگا اور بھنور اسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ذرا ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ جھیل کا پانی نیچے اتر کر کم ہونے لگا ہے، پانی اس گہرے بھنور میں جا کر غائب ہو رہا تھا۔ وہ چلایا: ’’پہلان، مجھے اکیلا چھوڑ دو!‘‘ لیکن صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس نے محسوس کر لیا کہ وہ سونے کی ایک چیز بھی نہیں لے جا پائے گا تو اس نے کشتی سے چھلانگ لگا دی اور کنارے کی طرف تیرنے لگا، لیکن بھنور اسے بھی اپنی طرف کھینچنے لگا۔
    آخر کار ڈریٹن نے جادو کے ذریعے اپنا قد بڑا کر دیا اور کنارے پر پہنچ گیا۔ وہاں سے وہ کشتی کو ساری دولت کے ساتھ اس بھنور میں گر کر کہیں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔ پھر وہ لمبے لمبے قدم بھرتا واپس قلعے والے کنارے کی طرف چلا گیا اور سیدھا محل جا پہنچا۔ وہ بھی ایک ضدی تھا، دولت چھوڑ کر جانا اس کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے اس نے مزید سونا اور جواہرات اٹھا کر پینٹ کی جیبوں میں خوب بھر لیے، اور پھر محل سے نکل کر قد بڑا کر کے جھیل پار کر لی۔ اب کے اس نے خود اعتمادی محسوس کی، کیوں کہ وہ سونا لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا، اور پھر وہ جنگل میں اسے کہیں چھپانے کی جگہ تلاش کرنے لگا۔ اس نے ایک درخت کا انتخاب کیا اور اس کی جڑ میں مٹی کھودی اور اپنی جیبیں اس میں خالی کر دیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ مٹی کے اس چھوٹے سے ٹیلے پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس سے بے خبر کہ جھیل کی جانب سے ایک دھند اس کی طرف لپکتی آ رہی ہے۔ ہوا درختوں کے درمیان سے سرسراتے ہوئے گزر رہی تھی۔ پہلان کا دھواں جیسا وجود درختوں کے جھنڈ کے پیچھے رک گیا، اور ایک سرگوشی کے ذریعے جنگل کی تمام بد روحوں کو بلانے لگا۔ سب سے پہلے سرخ ٹوپیوں والی بدشکل بد روحیں نمودار ہو گئیں، ان کی ٹوپیاں انسانی خون سے بھیگی ہوئی تھیں۔ ’’آپ نے ہمیں بلایا ماسٹر۔‘‘ یہ فوفیم تھا جس نے آتے ہی پہلان جادوگر کے آگے سر جھکایا اور باقی سرخ ٹوپیوں والے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ ’’آپ کا کیا حکم ہے آقا؟‘‘ فوفیم کے حلق سے نکلنے والی آواز خاصی کریہہ تھی۔
    پہلان نے کہا: ’’سب کو لے کر قلعہ آذر میں مجھ سے ملو۔ میرے پاس تمھارے لیے کچھ کام ہے۔‘‘
    سرخ ٹوپیوں والی بہت کریہہ قسم کی مخلوق تھی، یہ انسانوں سے بڑے تھے، ان منھ اور سر خنزیر کی مانند تھے اور گالوں پر بد نما مسّے تھے، جبڑوں سے ہاتھ دانت کی طرح دانت باہر نکلے تھے، سر کے بال غلیظ اور الجھے ہوئے، باقی جسم پر بھی لمبے لمبے بال تھے۔ اور انھوں نے پیروں میں لوہے کے زنگ آلود جوتے پہن رکھے تھے اور ہاتھوں کی انگلیاں دراصل نوکیلے خم دار پنجے تھے۔
    پہلان نے پوچھا: ’’جیسا کہ میں نے کہا مجھے تم لوگوں سے کام ہے، تو تم اس کام کے کیا لوگے؟‘‘ ایک اور بد روح نے کھڑے ہو کر جواب دیا: ’’میں ڈوکومک ہوں، ہم تو بس آپ کی خدمت پر مامور ہیں اس وقت، ماسٹر، آپ حکم کریں۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، تو قلعہ آذر جاؤ، میں تمھیں انعام ضرور دوں گا۔‘‘ فوفیم اور ڈوکومک نے حکم کی تعمیل بجا لائی اور تمام سرخ ٹوپیوں والوں کو لے کر قلعے کی طرف چلے گئے۔
    ان کے جاتے ہی پہلان نے ایک بار پھر سرگوشی کی اور اس بار اس نے اسکاٹ لینڈ کی لوک داستانوں کی ایک مادہ روح ’بین نی یے‘ کو طلب کیا۔ اسے موت کا ہرکارہ سمجھا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ عجیب اور خوف ناک عورت کسی کے کپڑے دھو دے تو وہ مر جاتا ہے۔ چند ہی سیکنڈ میں جھیل کے پانی سے ہلکی نیلی شکلیں نمودار ہو کر تیزی سے پہلان کی طرف تیرنے لگیں۔ پاس آ کر انھوں نے کہا کہ کیا حکم ہے ان کے لیے۔ پہلان نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک کا صرف ایک نتھنا تھا، اور ایک پھیلا ہوا دانت۔ اس کے پاؤں جالی دار تھے۔ پہلان نے انھی دیکھ کر کہا: ’’دھوبی عورتو! میں نے تمھیں ایک خاص مقصد کے لیے بلایا ہے، ویسے تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
    ان میں سے ایک لیڈر دھوبن آگے بڑھ کر بولی کہ اس کا نام ایریا ہے، اور کیا اسے دھلائی کی ضرورت ہے۔ پہلان نے ان سے کہا کہ اگر وہ اس کی بات مانیں گے تو وہ انھیں مرنے والے انسانوں کی بے شمار دولت دے دے گا۔
    ایریا نے کہا: ’’آقا، آپ جانتے ہیں کہ ہم وہ عورتیں ہیں جو زچگی کے دوران مر گئی تھیں، ہم پر تو ہمیشہ کی پھٹکار پڑ چکی ہے، اور سزا یہ ہے کہ بس کام کرتے جائیں، تو تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
    پہلان نے کہا کہ تم سب قلعہ آذر جاؤ، ایک کام ہے، اور وعدہ ہے کہ اتنا کام دوں گا کہ تمھاری ضرورت سے بھی زیادہ ہوگا۔ یہ سن کر وہ روحیں بھی قلعے کی طرف چل پڑیں۔ اس کے بعد شیطان جادوگر نے ایک گہری سانس لی اور اسے اونچی آوازوں کے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن یہ آوازیں انسان نہیں سن سکتے تھے۔ اگلے ہی لمحے مغرب کی طرف سے پرندوں کے جھنڈ کی مانند بد روحیں اڑتی ہوئی آئیں، اور زمین پر اترتے ہی انسان نما شکلیں اختیار کر لیں۔ ان کا لیڈر روفریر آگے بڑھ کر بولا: ’’آپ نے ہمیں طلب کیا ماسٹر۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھیے

    وہ تینوں نے ہوبارٹ سے مخصوص منتر پڑھ کر اینگس کے گھر واپس آ گئے تھے۔ ادھر مائری نہیں آئیں تو جونی ان کی تلاش میں ان کے گھر پہنچ گیا لیکن گھر خالی پڑا ہوا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں واپس اینگس کے گھر چلنے لگا تو راستے ہی میں پائی کے ٹکڑے بکھرے دیکھے۔ اسے خدشہ ہوا کہ مائری کسی خطرے میں ہے، چناں چہ اس بار وہ دوڑتا ہوا اینگس کے گھر پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ فیونا اور اس کے دونوں دوست واپس آ چکے ہیں اور چائی پی رہے ہیں۔ فیونا اسے دیکھتے ہی بول اٹھی: ’’ممی کہاں ہے؟‘‘
    جونی کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’مائری کہیں نہیں مل رہیں، وہ لاپتا ہو گئی ہیں۔‘‘ وہاں موجود سبھی افراد اچھل پڑے، اور ہر ایک کے منھ سے حیرت اور تشویش بھرے الفاظ نکلے۔ جونی نے انھیں پائی کا ٹوٹا ہوا ڈبا دکھایا اور بتایا کہ اس کے سوا مائری کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ فیونا کے منھ سے نکلا: ’’یہ ضرور ڈریٹن کی کارستانی ہے۔‘‘
    اینگس نے اچانک مداخلت کی: ’’میرا خیال ہے کہ پہلے اس قیمتی پتھر کو جادوئی گیند میں پہنچایا جائے، کیوں کہ اگر یہ کہیں کھو گیا تو بڑی مصیبت ہو جائے گی۔‘‘ انھوں نے فیونا کے ہاتھ سے پکھراج لے لیا اور جادوئی گیند میں اس کی مخصوص جگہ میں رکھ دیا۔ قیمتی پتھر جیسے ہی اپنی مخصوص جگہ پر پہنچ گیا، اس کی چمک نے سب کی آنکھیں خیرہ کر دیں۔ گھر کی دیواروں پر جواہرات کی روشنی جھلملانے لگی۔ اینگس نے کہا کہ اب قدیم دور کے ہمارے ایک اور مہمان کو ہم تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ قصبے میں اندھیرا پھیلنے لگا تھا، وہ سب مائری کی تلاش میں نکل گئے تاہم اینگس اور جیفرے جادوئی گولے کے پاس ہی رہے۔ قصبے کے مشہور مقامات کا چکر لگانے کے بعد جب انھیں مائری کا سراغ نہیں ملا تو فیونا نے کہا اب محل جانا چاہیے، اور وہ محل کی طرف چل پڑے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔
    ڈریٹن کشتی کھیتا ہوا جھیل کے وسط میں کھڑا ہو گیا۔ مائری ایک طرف خاموش بیٹھی ہوئی، ساحل کی طرف دیکھ رہی تھیں، اور سوچ رہی تھیں کہ وہ سب انھیں ڈھونڈنے ضرور آئیں گے۔ جھیل کے وسط میں کشتی روکنے پر مائری نے ڈرتے ہوئے پوچھا: ’’کیا تم مجھے جھیل میں پھینکنا چاہتے ہو؟‘‘ وہ شعلہ بار نگاہوں سے مائری کو دیکھنے لگا لیکن مائری نے ہمت جمع کرتے ہوئے کہا: ’’تم بہت بے رحم ہو، لیکن میں تمھیں بتاؤں کہ تم اس جادوگر کی کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہیں ہو۔ تمھیں دیکھ کر مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم ایک ہی ورثے کے شراکت دار ہیں۔‘‘
    ڈریٹن نے کشتی کے دونوں اطراف میں ٹانگیں پھیلا کر پاگلوں کی طرح کشتی کو زور زور سے ہلانا شروع کر دیا۔ پانی کی چھینٹیں مائری کو بھگونے لگیں۔ وہ چیخ پڑیں: ’’تم کیا کر رہو ہو احمق … کشتی ڈبو دو گے تم۔‘‘ مائری کو خوف زدہ کرنے کے لیے وہ اسے اور زور سے ہلانے لگا اور پھر چلایا: ’’خاموش رہو عورت۔ تم میری کوئی رشتہ دار نہیں ہو۔ مجھے کنگ دوگان سے اچھے جین وراثت میں ملے ہیں، جب کہ تمھیں ان قابل رحم شہزادیوں سے کچرا ملا ہے۔‘‘ ڈریٹن نے کشتی ہلانا بند کر دیا تو مائری نے اس کے گلے میں ہار دیکھ لیا: ’’یہ ہار کیسا ہے؟‘‘
    ڈریٹن نے بدتمیزی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تمھارے کسی سوال کا جواب دینے کی ضرورت تو نہیں ہے، لیکن میں یہ ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ ہر بار جب تمھاری بیٹی اپنے احمق دوستوں کے ساتھ نیا قیمتی پتھر حاصل کرتی ہے تو یہ ہار چمکنے لگتا ہے۔ دیکھو یہ پھر روشن ہو گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ پکھراج بھی مل گیا ہے اور اسے جادوئی گیند میں بھی رکھ دیا گیا ہے۔ دیکھو ان پوائنٹس میں اب پانچ چمک رہے ہیں اور صرف 7 رہ گئے ہیں۔ جیسے ہی یہ بھی روشن ہو جائیں گے پھر میں دکھاؤں گا کہ میں کیا کرتا ہوں تم سب کے ساتھ۔
    مائری نے جلدی سے پوچھا: ’’تم کیا کروگے؟‘‘ اس نے سرد لہجے میں کہا: ’’تمھیں اور تمھارے سبھی خاندان اور دوستوں کو قتل کر دوں گا اور جادوئی گیند لے لوں گا، کیوں کہ وہ میرا ہے، میں ہی اس کا مستحق ہوں۔‘‘
    مائری نے کہا: ’’تم بہت قابل رحم ہو ڈریٹن، اپنی باتیں سنو، تم پاگل ہو چکے ہو۔‘‘
    ڈریٹن کو بہت غصہ آیا، وہ مائری کو بالوں سے پکڑ کر پٹخنے والا تھا لیکن پھر جھیل کے پانی میں کوئی سایہ دیکھ کر مسکرایا، اور منتر پڑھنے لگا۔ وہ دراصل جھیل کی گہرائیوں سے جھیل کا عفریت بلانا چاہ رہا تھا۔ اس نے مائری کی طرف دیکھا اور کہا: ’’کزن، اب تمھارے انجام کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
    مائری نے دیکھا کہ جھیل کی سطح پر بے تحاشا بلبلے پھوٹنے لگے تھے اور پھر اچانک کشتی سے ذرا سے فاصلے پر کشتی سے بڑا ایک سر بلند ہونے لگا۔ یہ ڈریگن جیسا سر تھا اور بہت بھیانک لگ رہا تھا۔ مائری کی آنکھوں میں خوف تیرنے لگا۔ اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا کہ شاید یہ بھی جادوگر پہلان کا جادوئی شعبدہ نہ ہو، لیکن یہ بات یقینی نہیں تھی۔ پانی سے نکلنے والے خوف ناک اور بد نما عفریت کے منھ سے گرجتی آواز نکلی۔ مائری کے منھ سے اس وقت بے ساختہ چیخ نکلی جب عفریت نے تیزی سے سر نیچے کر کے منھ کھولا اور ان کی طرف آیا، تاکہ انھیں دانتوں میں دبوچ کر جھیل کے پانی کی گہرائی میں لے جا سکے۔
    ۔۔۔۔۔۔
    مائری کی تلاش میں وہ سب جھیل کے کنارے چل رہے تھے، کہ انھیں اچانک چیخ سنائی دی۔ وہ بری طرح چونکے۔ انھوں نے دیکھا کہ دور جھیل کی سطح پر ایک کشتی میں مائری بیٹھی ہوئی ہیں اور ایک عفریت انھیں کھانے والا ہے۔ فیونا، جبران اور دانیال بہ یک وقت چیخنے چلانے لگے، تاکہ عفریت کی توجہ بٹا سکیں۔ ان کی ترکیب کارگر رہی، اور عفریت ان کی طرف مڑا، پھر ذرا دیر میں پانی میں غائب ہو گیا۔ انھوں نے دیکھا کہ مائری کشتی میں لڑھک گئی تھیں۔ جبران نے خیال ظاہر کیا کہ شاید وہ بے ہوش ہو گئی ہیں۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی ڈریٹن نے مائری کو سر کے بالوں سے پکڑ کر کشتی سے نیچے پھینکتے دیکھا۔ جونی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جوتے اتار کر جھیل میں چھلانگ لگا دی اور مائری کی طرف تیزی سے تیرنے لگا۔ جبران چلا کر بولا: ہوشیار رہیں، عفریت ابھی بھی جھیل میں ہے۔‘‘
    انھوں ںے دیکھا کہ ڈریٹن کشتی کھیتا ہوا اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ جونی بروقت مائری تک پہنچا اور انھیں پکڑ کر کنارے پر لے آیا۔ فیونا روتی ہوئی اپنی ممی سے لپٹ گئی۔ مائری نے انھیں بتایا کہ وہ ڈریٹن ہی تھا۔ فیونا اس بات پر بھی حیران ہو رہی تھی کہ جھیل میں واقعی کوئی عفریت ہے، جیسا کہ روایتی طور پر اس سے متعلق ایک کہانی مشہور تھی لیکن کبھی کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ انھیں یقین نہیں آ رہا تھا، جونی نے کہا کہ یہ دراصل ان رازوں میں سے ایک راز ہے جو کبھی حل نہیں ہوتا، شکر ہے کہ مائری محفوظ ہے۔
    اس کے بعد جبران اور دانیال اپنے گھر چلے گئے، فیونا اپنی ممی کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی، جونی ان کے گھر ہی پر ٹھہرا ہوا تھا تاکہ ان کی حفاظت کر سکے۔ اینگس کے گھر پر جیک نے جیسے دروازہ اپنے پیچھے بند کیا اچانک دستک ہونے لگی۔ جیک نے پھر دروازہ کھولا تو سامنے جولیان کھڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہی جیک کے منھ سے نکلا: ’’ایڈوے!‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    باغ کا مالک ونچنزو انگور کی بیل کی جڑ میں بیٹھ گیا، اور مٹی کھودنے لگا، لیکن اس نے ابھی ایک مٹھی مٹی ہی باہر نکالی تھی کہ ہڈیوں پر مبنی ہاتھ باہر نکلا اور ونچنزو کی کلائی پکڑ لی۔ اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکلی اور ایک جھٹکے سے ہاتھ کھینچا، جس کی وجہ سے وہ پیچھے جا گرا لیکن ہاتھ نہیں چھڑا پایا۔ وہ تینوں خوف سے اسے دیکھنے لگے لیکن ابھی وہ کچھ سوچ بھی ںہیں سکے تھے کہ ایک ہاتھ اور نکلا اور اس نے فیونا کی ٹانگ پکڑ لی۔
    جبران نے صورت حال بھانپ لی اور فوراً پیچھے ہٹ گیا لیکن پھر بھی دیر کر دی، ایک ڈھانچا ہاتھ کی انگلیاں اس کے ٹخنے سے بھی لپٹ چکی تھیں۔ جبران نے نیچے جھک کر ہاتھ کو دیکھا، صرف ہڈیاں ہی تھیں۔ جبران نے زور لگا کر اپنا پیر چھڑانا چاہا تو ہاتھ نے اسے زمین کے اندر کھینچنا شروع کر دیا۔ وہ چلا کر بولا: ’’یہ مجھے اندر کھینچ رہا ہے، میری مدد کرو۔‘‘
    فیونا نے فوراً آگ کے بارے میں سوچا اور ہر ڈھانچے کے بازو کے نیچے ایک شعلہ بھڑک اٹھا، ذرا سی دیر میں شعلوں سے ہڈیاں سیاہ ہو گئیں لیکن کسی نے گرفت نہ چھوڑی۔ ونچنزو آگ کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا۔ اس نے بچوں سے پوچھا کہ یہ آگ اچانک کہاں سے آ گئی، اور تم لوگ ہو کون؟ لیکن اسی وقت ہاتھ نے اسے زمین کے اندر ایک جھٹکے سے کھینچا اور وہ لڑکھڑا کر دوبارہ گر گیا۔
    دانیال نے چلا کر کہا: ’’فیونا، خود کو بڑا کر دو، اس کے بغیر ہم بچ نہیں پائیں گے۔‘‘ ڈھانچا ہاتھ نے مٹی کے اندر کمر تک کھینچ لیا تھا، اور وہ مسلسل اس سے نجات کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ فیونا کو یہ خیال پسند آیا۔ جیسے ہی اس نے بڑا ہونے کے بارے میں سوچا، اُس کا جسم پھیلتا چلا گیا، اور ڈھانچے کے ہاتھ کی گرفت خود بہ خود ہٹ گئی۔ لیکن ہاتھ نے ونچنزو کی طرف جا کر اس کی کلائی پکڑ لی۔ فیونا اس وقت تک بڑھتی رہی جب تک کہ اس کی اونچائی پچاس فٹ نہ ہو گئی۔ پھر اس نے ونچنزو کی کلائی کے گرد لپٹی ہڈیوں کو پکڑا اور اپنی مٹھی میں کچل کر چورا بنا دیا، اس نے دیکھا کہ ہڈیاں ایک سفید پاؤڈر میں تبدیل ہو گئیں۔ ہڈیوں والے ایک ہاتھ نے ونچنزو کی ٹانگ بھی پکڑ رکھی تھی، فیونا نے اسے بھی سفید چورا بنا دیا۔
    دوسری طرف دانیال اب اپنی گردن تک مٹی میں دب چکا تھا، فیونا اس کی طرف بڑھی۔ دانیال اپنا سر زمین سے باہر رکھنے کے لیے سخت کوشش کر رہا تھا، اور اس کے منھ سے تکلیف دہ آوازیں نکل رہی تھیں۔ فیونا نے اسے سر سے پکڑ اوپر کھینچ لیا اور وہ زمین سے باہر نکل آیا۔ ہڈیوں والے ہاتھ نے بدستور اس کی ٹانگ پکڑی ہوئی تھی، فیونا نے اسے بھی چورا بنا دیا۔ اس کے بعد فیونا نے جبران کو بھی چھڑا لیا۔
    ونچنزو کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جا رہی تھیں، اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے وہ سچ مچ ہو رہا ہے۔ فیونا نے دانیال اور اسے پکڑ کر اٹھایا اور گھر کے اندر لے جا کر برآمدے میں اتار دیا۔
    باغ کا مالک پوری طرح حیرت میں جکڑا ہوا تھا، لیکن اچانک اس کے منھ سے نکلا: ’’لڑکی، مجھے نہیں پتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، لیکن تم جس چیز کو ڈھونڈ رہی تھی مجھے لگتا ہے کہ یہ وہی ہے۔‘‘ ونچنزو نے مٹھی کھول کر دکھائی تو اس میں پکھراج موجود تھا۔ اس نے کہا: ’’جیسے ہی تمھاری انگوٹھی کا یہ قیمتی پتھر میرے ہاتھ لگا، اچانک ہڈیوں والے ہاتھ نے مجھے پکڑ لیا تھا۔‘‘
    فیونا نے بے تابی سے اسے لے لیا اور اپنی آنکھ کے قریب لے جا کر دیکھا تو اس کے اندر ڈریگن دکھائی دے رہا تھا، اسی وقت اس میں چمک پیدا ہو گئی۔ فیونا نے فوراً باغ کے مالک کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی وجہ سے ان سب کی جان بچ گئی۔
    ونچنزو حیران اور پریشان تھا لیکن اس نے کہا: ’’جو کچھ بھی یہاں ہوا، ضرور اس کی کچھ وجہ اور وضاحت ہوگی، لیکن اس وقت مجھے نہیں لگتا ہے کہ میں اسے جاننا چاہوں گا۔ پہلے تم تینوں کچھ کھا پی لو۔ میری بیوی انجلینا اچھا کھانا پکاتی ہے۔ کھانے کے بعد میں تمھیں انگور کا باغ دکھا دوں گا۔‘‘
    کھانا کھانے کے بعد وہ باغ کی سیر کو نکل گئے۔ ونچنزو نے بتایا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو اس کا خاندان اٹلی سے تسمانیہ ہجرت کر گیا تھا، اور والد نے یہ انگور کا باغ شروع کیا اور جب وہ گزر گئے تو وہ اسے دیکھنے لگا۔ اس نے کہا ’’مجھے امید ہے کہ میرا بیٹا نیکولو میرے گزرنے کے بعد اس باغ کو سنبھالے گا، نیکولو ہوبارٹ گیا ہے۔‘‘
    ونچنزو نے انھیں شہر پہنچانے کی پیش کش کی تو وہ خوش ہو گئے۔ جب وہ گاڑی پر چڑھ کر جانے لگے تو فیونا نے اس کے کان کے قریب آہستگی سے کہا: ’’اگر آپ اپنے باغ کے آخری سرے پر جا کر انگور کی آخری قطار سے بالکل پہلے کھدائی کریں گے تو آپ کو ایک خزانہ ملے گا، یہ قیمتی دھاتیں ہیں، شاید سونا یا پھر چاندی۔‘‘ ونچنزو یہ سن کر چونک اٹھا اور حیرت سے فیونا کی طرف دیکھنے لگا، پھر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور وہ گیراج سے باہر نکل آئے۔ کافی دور جا کر اس نے بھی آہستگی سے کہا: ’’مجھے تم پر یقین کرنے کو دل کرنے لگا ہے، جب میں ہوبارٹ سے واپس آؤں گا تو وہاں جا کر ضرور دیکھوں گا۔‘‘
    (جاری ہے۔۔۔)
  • ایک سو اٹھاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیے

    وہ دونوں انگور کی بیلوں کے درمیان کھڑے فیونا کو خوف زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، جبران کے منھ سے نکلا: ’’کیا اور کوئی بھیانک واقعہ ہونے والا ہے ہمارے ساتھ؟‘‘ فیونا نے جواب میں انھیں ڈرانا نہیں چاہا، بلکہ بولی کہ اب بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد انگور کے بیل کی جڑ میں کھدائی کی جائے اور پکھراج نکالا جائے۔ فیونا نے یہ کہہ کر بیٹھ گئی اور مٹی کھودنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے تاکہ جلدی سے اسے نمٹایا جا سکے۔ ابھی انھوں نے تھوڑا ہی کھودا تھا کہ ان کے پیچھے غراہٹوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دانیال نے جلدی سے کھدائی روک کر پیچھے دیکھا اور پھر اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا: ’’کتا … یہ تو کتا ہے!‘‘
    فیونا اور جبران نے بھی پلٹ کر دیکھا تو جبران نے کہا: ’’دانی یہ کتا نہیں ہے، لیکن مجھے نہیں پتا یہ کیا چیز ہے، پر ہے بہت غلیظ قسم کی۔‘‘ فیونا نے منھ سے نکلا: ’’تسمانیہ کا شیطان لگ رہا ہے یہ!‘‘

    دانیال حیران ہو گیا: ’’تسمانیہ کا شیطان بھلا کیا چیز ہے؟‘‘ فیونا نے انھیں یاد دلایا کہ جو کتاب انھوں نے خریدی تھی، اس میں اس کی تصویر موجود تھی اور لکھا تھا ’تسمانین ڈیوِل!‘‘ جبران یہ سن کر چونک اٹھا اور بولا کہ اسے بھی یاد آ گیا۔ اس نے کہا یہ ’ٹاز‘ ہے، دانی یاد کرو کارٹون کیریکٹر۔ یہ وہی ہے۔ تب دانی نے پریشان ہو کر کہا: ’’یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ شیطان تیزی سے ہماری ہی طرف آ رہا ہے۔‘‘
    اُس جانور کا جسم گہری بھوری فر سے ڈھکا ہوا تھا، اور اس کے دانت باہر نکلے ہوئے تھے، جن سے رال ٹپک رہی تھی۔ اور اس کے حلق سے بھیانک قسم کی غراہٹ نکل رہی تھی۔ جب وہ کافی قریب آ گیا تو دانی چیخا: ’’کچھ کرو فیونا!‘‘
    فیونا نے جلد سے اپنے اور جانور کے درمیان جادو سے آگ بھڑکا دی۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس جانور نے اس پر سے لمبی چھلانگ لگا دی اور ان سے تقریباً بیس فٹ کی دوری پر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اتنی خوف ناک چیخ نکالی کہ ان تینوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ جبران اور دانیال کو لگا کہ ان کا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا ہے۔ فیونا تیز لہجے میں بولی: ’’کوئی بھی اپنی جگہ سے ذرا بھی ہلنے کی غلطی نہ کرے، اگر ہم ہلے تو یہ فوراً حملہ آور ہو جائے گا اور لمحوں میں ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔‘‘
    اسی لمحے ان کے پیچھے سے ایک تیز غراہٹ سنائی دی۔ وہ بری طرح چونک اٹھے۔ فیونا نے مڑ کر دیکھا وہاں اسی قسم کا ایک اور جانور کھڑا تھا۔ جبران نے گھبرا کر کہا: ’’اب تو دو دو تسمانوی بھوتیا جانور ہو گئے!‘‘ اس سے قبل کہ وہ کچھ سوچ سکیں، ایک اور جانور انگور کی بیلوں کے درمیان سے چھلانگ لگا کر ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر کھڑا ہو کر غرانے لگا۔ اور پھر چوتھا بھی انگور کی بیلوں سے نکل آیا۔ ’’چار ہو گئے، یہ ہمیں مار ڈالیں گے۔‘‘ دانیال روہانسا ہو کر بولا۔ ’’فیونا، فوراً اپنا قد بڑا کر دو اور ان سب کو کچل دو۔‘‘
    اچانک تسمانیہ کے شیطانوں میں سے ایک نے فیونا کے گلے پر چھلانگ لگا دی۔ اس نے جلدی سے گلا بچانے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کیے۔ عین اسی لمحے گولی چلنے کی دھماکے دار آواز سنائی تھی، جس نے جانوروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ ایک اور فائر ہوا اور جانور ان تینوں سے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص ہاتھوں میں رائفل لیے کھڑا تھا اور چلا کر کہہ رہا تھا: ’’بچو میری طرف آؤ، میں نے پہلے کبھی اتنے بڑے شیطان نہیں دیکھے۔‘‘
    ابھی اس نے اپنی بات ختم نہیں کی تھی کہ ایک شیطان نے اچھل کر دانیال پر چھلانگ لگا دی، اور اسے نیچے گرا کر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ فیونا اور جبران کے منھ سے چیخیں نکل گئیں۔ اس شخص نے شیطان کی طرف رائفل سیدھی کی اور پھر کافی اونچائی پر کئی ہوائی فائر مار دیے۔ اس بار سارے جانور خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔ جبران اور فیونا نے جلدی سے آگے بڑھ کر دانیال کو اٹھایا اور پوچھا کہ وہ ٹھیک تو ہے۔ دانیال بہت گھبرایا ہوا تھا لیکن خوش قسمتی سے اسے چوٹ نہیں آئی تھی۔ انھیں اس شخص کی آواز سنائی دی: ’’بچو، تم میرے انگور کے باغ میں کیا کر رہے ہو؟‘‘
    فیونا کے ذہن میں اگرچہ یہ سوال نہیں اٹھا تھا لیکن جیسے ہی اس نے سنا، وہ فوراً ہوشیار ہو گئی۔ اس نے بات بنا کر کہا: ’’میرے اس دوست کو بہت بھوک لگ گئی تھی اس لیے ہم باغ سے کچھ انگور لینے رک گئے تھے لیکن پھر اس سے یہاں کچھ گر گیا تھا جسے ہم تلاش کرنے لگے۔‘‘
    باغ کے مالک نے سپاٹ لہجے میں کہا: ’’میرا نام ونچنزو منزانیو ہے، میں اور میری بیوی ابھی ابھی گھر پہنچے اور ہم نے پورے گھر اور باغ میں سرخ پیٹھ والی مردہ مکڑیاں دیکھیں، یہ سب کیا ہے، کیا آپ کے پاس اس کی بھی کوئی وضاحت ہے؟‘‘
    جبران کو اچانک ایک خیال سوجھا، وہ جلدی سے بولا: ’’جب ہم کھدائی کر رہے تھے، میرا مطلب ہے کہ فیونا کی انگوٹھی تلاش کر رہے تھے، تو یہ مکڑیاں زمین سے باہر نکل آئیں، اور ہم ان سے بچنے کے لیے آپ کے گھر بھاگے تھے۔‘‘
    ’’اور میرے قالین پر آگ کیسے لگی؟‘‘ اب ونچنزو کی آواز نارمل نہیں رہی تھی، بلکہ اس میں غصہ جھلک رہا تھا۔ جبران نے گھبرا کر جلدی سے کہا: ’’دراصل فیونا نے سوچا کہ اگر اس نے انھیں آگ سے نہیں جلایا تو یہ ہمیں کاٹ کھائیں گی۔ لیکن پھر یہ لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں۔‘‘
    ’کیا مطلب، لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں آ گئیں؟‘‘ اس نے آنکھیں نکال کر کہا۔ جبران نے نے بتایا کہ ان سرخ مکڑیوں کو لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں نے مار ڈالا تھا۔ اس کے بعد جب ہم واپس یہاں آ کر انگوٹھی تلاش کرنے لگے تو کہیں سے یہ تسمانیہ کے شیطان نمودار ہو گئے۔
    ’’کیا کہانی ہے، بہت عجیب۔‘‘ باغ کے مالک نے انھیں گھور کر دیکھا۔ ’’خیر کیا تم لوگوں کو انگوٹھی مل گئی۔‘‘ جبران نے جلدی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ تینوں ڈرے ہوئے تھے کہ اب پتا نہیں باغ کا یہ مالک کیا کہے گا اور کیا کرے گا، لیکن ان کی توقع کے برخلاف اچانک اس نے مسکرا کر دانیال کو مخاط کر کے کہا: ’’تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اندر جاؤ، میری بیوی تمھیں کھانے کو کچھ دے دیں گی، اور میں یہاں ان دونوں کے ساتھ انگوٹھی ڈھونڈنے میں مدد کر دوں گا۔‘‘
    دانیال نے یہ سن کر اسی میں اپنی بھلائی محسوس کی کہ وہ خاموشی سے اندر چلا جائے، اگرچہ وہ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ سو کر کہ باغ کا مالک پھر غصے میں نہ آ جائے، وہ سر ہلا کر گھر کی طرف چلا گیا۔
    باغ کے مالک نے اس کے جاتے ہی باقی دونوں سے ان کے نام دریافت کیے، اور پھر بولا کہ چلو انگوٹھی تلاش کرتے ہیں۔ وہ انگور کی بیل کی جڑ میں گھٹنے زمین پر رکھ بیٹھا تو اس کے سرمئی بال اس کی آنکھوں پر گرے۔ لیکن اسی لمحے اس نے فیونا کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو فیونا نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں بیل کی جڑ میں موجود مٹی کی طرح بھوری تھیں۔ فیونا نے جلدی سے نظریں ہٹا کر کہا: ’’وہ ایک بڑی سی انگوٹھی ہے۔‘‘
    ’’کس قسم کی انگوٹھی؟‘‘ باغ کے مالک نے پوچھا تو فیونا نے بتایا کہ اس میں پکھراج جڑا ہوا ہے۔ اس نے بات بنائی کہ اسے انگوٹھی کی پروا نہیں لیکن پکھراج اس کے لیے بہت اہم ہے، کیوں کہ وہ خاندانی نشانی ہے۔
    ’’ٹھیک ہے، میں سمجھ گیا۔‘‘ باغ کے مالک نے کہا۔ اور جبران نے فیونا کی طرف دیکھ کر منھ ہی منھ میں لفظ ’جھوٹی‘ کہا، جسے فیونا نے سمجھ لیا اور اس نے مسکرا کر جواباً آنکھ مار دی۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    جبران نے اچانک پوچھا کہ جب وہ قدیم آدمی پکھراج کو یہاں دفنا رہا تھا، تو کیا یہ انگور کے باغ یہاں اس وقت بھی تھے یا کچھ اور تھا یہاں؟ دانیال نے فوراً مسکرا کر کہا شکر کرو کہ کوئی غار تو نہیں ہے۔ جبران نے اسے گھور کر دیکھا۔
    فیونا نے دیکھا کہ یہ ایک بہت بڑا انگور کا باغ تھا، جس میں سبز، گہرے جامنی اور عام جامنی رنگ کے انگوروں کے الگ الگ درخت اگے تھے۔ جبران کے منھ میں پانی بھر آیا، اور بول اٹھا: ’’مجھے انگور چاہیئں، انھیں کھانے کو بہت جی للچا رہا ہے۔‘‘
    فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا کہ کام ختم کر کے واپسی پر خوب کھانا کھائیں گے۔ جبران نے حسرت سے انگور کی بھری ہوئی بیلوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں اگر زندہ بچ گئے تو!‘‘
    فیونا نے اس کی بات نظر انداز کی اور وہاں لکڑی کی باڑ سے ٹیک لگا کر مٹی پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر کے دماغ میں دہرایا: ’’پکھراج تم انگور کے اس باغ میں کہاں ہو؟‘‘ اور یکایک اس کے ذہن میں ایک تصویر ابھر آئی۔ وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور بے اختیار بولی: ’’مل گیا!‘‘ اس نے حیرت سے دیکھا کہ جبران اور دانیال کے منھ جامنی رنگ کے انگوروں سے بھرے ہوئے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، دانیال معصومیت سے بولا: ’’سچ میں یہ بہت ذائقہ دار انگور ہیں، تم بھی کھا کر دیکھو۔‘‘ فیونا کو بھی اس کے ہاتھ سے انگور کا خوشہ لینا ہی پڑا، لیکن کھانے کے بعد اس کا موڈ بھی اچھا ہو گیا کیوں کہ وہ واقعی بہت مزے دار تھے۔ فیونا بولی: ’’ذائقہ دار ہیں لیکن احتیاط سے، میری ممی کہتی ہیں کہ زیادہ انگور کھانے سے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔‘‘
    ’’سچ میں …!‘‘ دانیال چونک اٹھا۔ جب کہ جبران نے اسے نظر انداز کر کے پوچھا کہ پکھراج کہاں ہے؟ فیونا نے جواب میں ایک آہ بھر کر کہا کہ قیمتی پتھر انھیں انگور کے ایک پودے کے نیچے ملے گا۔ دونوں یہ سن کر پریشان ہو گئے کیوں کہ وہاں ایک لاکھ پودے تو ضرور ہوں گے۔ جبران نے پوچھا کہ کون سا پودا؟ فیونا نے بتایا کہ اگر وہ باغ کے دروازے پر کھڑے ہوں تو انھیں بائیں جانب دسویں قطار پر جا کر وہاں سے اندر کی طرف ساٹھ ویں پودے پر جانا ہوگا۔ ’’اور بوبی ٹریپس کا کیا ہوگا؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔
    انھوں نے طے کیا کہ انھیں مطلوبہ درخت تک بہت احتیاط سے جانا چاہیے، چناں چہ وہ آہستہ آہستہ قدم قدم چل کر جانے لگے۔ جبران کی آنکھیں تیزی سے اطراف میں گھوم رہی تھیں تاکہ اگر کوئی خطرہ ہو تو اسے فوراً دیکھ سکے۔ ساٹھ ویں پودے پر پہنچ کر وہ رک گئے۔ فیونا درخت کی جڑ میں بیٹھ گئی اور وہاں سے نرم مٹی ہٹائی۔ کچھ نہیں ہوا تو اس نے مٹی ہاتھ سے کھودی اور مٹھی بھر بھر کر دوسری طرف ڈالنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے۔
    یکایک زمین کو ایک جھٹکا لگا اور وہ ہل کر رہ گئی۔ تینوں بری طرح اچھل پڑے اور خوف کے مارے لڑھکتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ جو گڑھا انھوں نے کھودا تھا وہ زمین میں دھنس گیا تھا۔ دانیال نے چھلانگ مار کر کھڑے ہو کر کہا: ’’پہلا پھندہ … یہ یہ اس سوراخ کو کیا ہو رہا ہے؟‘‘
    وہ دہشت زدہ آنکھوں سے کھودے ہوئے گڑھے کو دیکھ رہے تھے اور پھر انھوں نے دیکھا کہ وہاں سے پہلے سیاہ مکڑیاں نکلنے لگیں اور پھر سرخ۔ جس رفتار سے مکڑیاں نکل رہی تھیں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں رہی ہوں گی۔ فیونا چلائی: ’’مجھے مکڑیوں سے نفرت ہے۔‘‘ اور بھاگنے لگی۔ اسے بھاگتے دیکھ کر جبران اور دانیال بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے، ان کے پیچھے خوف ناک شکلوں اور سرخ پیٹھ والی مکڑیاں دوڑتی جا رہی تھیں۔ تھوڑا سا آگے جا کر فیونا نے مڑ کر دیکھا، مکڑیاں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ جبران بولا: ’’سامنے ایک گھر ہے کیا اس کے اندر چلیں؟‘‘ فیونا نے دروازے پر رک کر دستک دے ڈالی، لیکن کوئی ہل جل محسوس نہیں ہوئی تو فیونا نے جلدی سے دروازہ کھولا اور تینوں اندر چلے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ انھوں نے گھر والوں کو آوازیں دیں لیکن وہ واقعی خالی تھا۔ دانیال نے سوال اٹھایا کہ کیا مکڑیاں گھر میں نہیں آ سکیں گی؟ جبران کا خیال تھا کہ جلد یا بدیر وہ گھر کے اندر ہر جگہ نظر آئیں گی اور اس طرح کی مکڑیاں زہریلی ہوتی ہیں، ایسا اس نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ اچانک دانیال کو کچھ یاد آیا، اس نے فیونا کو جلدی سے مخاطب کیا: ’’فیونا، تم تو جادو کر سکتی ہو، ان مکڑیوں سے بات کر کے ان سے جان چھڑاؤ نا۔ ان سے کہو کہ واپس چلی جائیں۔‘‘
    یہ سن کر فیونا نے آنکھیں بند کر لیں اور دماغی طور پر مکڑیوں سے رابطہ کر کے بولنے لگیں: ’’مکڑیو، ہم پر حملہ کرنا بند کرو۔ دور جاؤ، ہم تمھیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتے۔‘‘
    وہ جس کمرے میں تھے اس کی کھڑکی پر پہنچنے والی ایک مکڑی نے فیونا کو جواب دیتے ہوئے کہا: ’’تم ہمیں کنٹرول نہیں کر سکتی، پہلا جادو تمھارے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ور ہے، ہم تمھیں پکڑنے اور مارنے آ رہے ہیں۔‘‘
    جبران نے جلدی سے پوچھا: ’’کیا مکڑیاں واپس جا رہی ہیں؟‘‘ فیونا نے بتایا کہ مکڑیوں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ تب دانیال نے کہا کہ دوسری طاقتوں میں سے کسی کا استعمال کرو۔ جبران نے دیکھا کہ ایک مکڑی سامنے کے دروازے سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی، وہ جلدی سے اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھا اور اسے جوتے تلے مسل دیا۔ دانیال نے کہا اگر اور مکڑیاں داخل ہو گئیں تو ہم انھیں جوتوں تلے مسل کر ختم نہیں کر سکیں گے۔ اتنے میں دوسری مکڑی اندر چلی آئی اور پھر یکے بعد دیگرے مکڑیاں اندر داخل ہونے لگیں۔ فیونا نے فوراً آگ کا تصور کیا اور پھر ایک شعلے نے وہاں موجود تمام مکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ دانیال یہ دیکھ کر چلایا: ’’فیونا احتیاط کے ساتھ، تم انھیں آگ سے نہیں جلا سکتی، ورنہ پورا گھر آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ہم بھی جل جائیں گے۔‘‘
    فیونا نے کہا کہ اس کے ذین میں ایک خیال آیا ہے، یہ کہہ کر وہ پچھلے دروازے کی طرف بھاگ کر گئی اور گھر سے باہر نکل گئی، جہاں زمین پر مکڑیوں کی ایک چادر بچی ہوئی تھی۔ وہ ان کے اوپر سے انھیں کچلتی ہوئی دوڑتی چلی گئی۔ اس نے وہاں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دیکھی تھیں، جنھیں ’ڈیڈی لانگ لیگز‘ کہا جاتا ہے۔ جب وہ ان کے قریب پہنچیں تو اس نے انھیں مخاطب کر کے کہا: ’’لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں، آ کر اپنے ان دوستوں کو پکڑو اور ان سرخ پیٹھ والی مکڑیوں کو مار ڈالو، یہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
    مکڑیوں نے کہا: ’’ٹھیک ہے فیونا، ہم اپنے دوستوں کو بلاتی ہیں، ہم یہاں کے آس پاس کی سب سے زہریلی مکڑیاں ہیں، اگرچہ ہم انسانوں کے لیے مہلک نہیں ہیں لیکن دوسری مکڑیوں کے لیے بہت زہریلی ہیں۔‘‘
    فیونا نے ان کا شکریہ ادا کیا، لیکن اسی لمحے اسے گھر کے اندر سے چیخیں سنائی دیں۔ پھر فیونا کو گھر کے پیچھے موجود ایک کھیت سے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی، اور اس نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دوڑتی چلی آ رہی ہیں، اور سرخ پیٹھ والی مکڑیوں ہڑپ رہی ہیں۔ خطرہ دیکھ کر مکڑیاں بھاگنے لگیں تو لمبی ٹانگوں والیوں نے ان کا پیچھا کیا، فیونا نے دیکھا کہ وہاں مردہ مکڑیوں کا ایک قبرستان بن گیا ہے۔ وہ زور سے ہنسی۔ جبران اور دانیال بھی گھر سے نکل آئے اور وہ بھی خطرناک مکڑیوں کا حشر دیکھنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے اوپر بے شمار لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں رینگ رہی ہیں لیکن وہ مزے سے کھڑی ہے اور انھیں ہٹانے کی کوشش نہیں کر رہی۔ فیونا نے کہا: ’’یہ میرے دوست ہیں، گھبراؤ نہیں۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھیے
    اگلی صبح وہ دس بجے اٹھے۔ دانیال نے جوتے پہنتے ہوئے فیونا سے پوچھا کہ پکھراج کو کہاں تلاش کرنا ہے، اور کیا اس نے اس سلسلے میں کوئی خواب دیکھ لیا ہے یا نہیں۔ فیونا نے تیار ہوتے ہوئے جواب دیا: ’’ہاں مجھے لگتا ہے کہ میں اس مقام کو پہچان لوں گی، لیکن فی الوقت یہ نہیں پتا کہ وہ ہے کہاں پر۔ ہمیں بس شہر میں جانا ہوگا اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘
    جبران نے ان کا دھیان ناشتے کی طرف مبذول کرایا: ’’میں نے دیکھا تھا کہ اس ہوٹل میں مزے کا ناشتہ ملے گا، اور لنچ تو باہر ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
    کچھ دیر بعد وہ ہوٹل کے دروازے سے باہر نکلے تو فیونا نے بتایا کہ اس نے سیاحوں کی گائیڈ بک میں ایک جگہ کا نام پڑھا تھا جسے بیٹری پوائنٹ کہتے ہیں۔ جبران نے پوچھا کہ کیا پکھراج وہیں پر ہے، لیکن فیونا نے کہا کہ اسے نہیں معلوم۔ جبران اسے گھورنے لگا تو فیونا نے کہا تم لوگ یہاں ٹھہرو، میں سوچتی ہوں کچھ۔ یہ کہہ کر اس نے پاس کی دیوار سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ یک بہ یک اس کے ذہن میں انگور کے ایک باغ کی تصویر ابھری۔ اس نے آنکھیں کھول لیں تو دونوں اسے بے تابی سے گھور رہے تھے۔ فیونا نے منھ بنا کر کہا تم ایسے بے قوفوں کی طرح گھور کیوں رہے ہو۔ دانیال نے جھینپ کر کہا: ’’مجھے لگا شاید تم سو گئی ہو!‘‘
    فیونا بولی: ’’میں سو نہیں گئی تھی، ہمیں بس ایک انگور کے باغ کو ڈھونڈنا ہے، یعنی ہمیں لوگوں سے پوچھنا ہے کہ انگور کے باغات کا علاقہ کہاں پر ہے۔‘‘
    انھیں کچھ فاصلے پر کتابوں کی ایک دکان نظر آئی جو گلی کے اندر واقع تھی۔ دانیال نے کہا تسمانیہ سے متعلق جاننے کے لیے ایک کتابچہ خریدنا چاہیے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ جبران نے کتاب کھول کر دیکھا تو انھیں ایک نقشے سے معلوم ہوا کہ سمندر ان سے بس پانچ منٹ کی واک کے فاصلے پر ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں یہاں پینگوئن بھی دیکھنے کو ملیں گے جو یہاں پریاں کہلاتی ہیں۔ تاہم جبران نے کہا کہ وہ اس علاقے کے قریب نہیں ہیں۔ فیونا نے ساحل کی ریت پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ چند ہی لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھول کر پوچھا کہ کتاب سے پتا چلا کہ انگور کے باغات کہاں ہیں؟ دانیال نے بتایا کہ کتاب سے پتا چلتا ہے کہ تسمانیہ میں انگور کے سیکڑوں باغات ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں ایک فون بوتھ کی تلاش میں سڑک کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے انھیں ایک نام بتایا کہ ان کا مطلوبہ انگور کا باغ وہاں ہے، اس جگہ کو جاننے کے لیے انھوں نے فون بوتھ میں پڑی فون ڈائریکٹری کھنگالی تو پتا چلا کہ ان کی مطلوبہ جگہ ہوبارٹ شہر ہی میں نہیں ہے، اور یہ کہ انھیں ایک لمبا سفر کرنا پڑے گا۔
    فیونا نے کہا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے انھیں ٹیکسی لینی پڑے گی۔ وہ ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے، جب ٹیکسی آئی تو فیونا نے ڈرائیور کو پتا سمجھایا۔ ڈرائیور نے مشکوک انداز میں ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا ان کے پاس کرائے کے پیسے بھی ہیں یا نہیں۔ فیونا نے مسکرا کر کہا بے فکر ہو جاؤ، اچھی ٹپ بھی ملے گی، بس ہمیں وہاں لے جاؤ۔
    جب وہ ٹیکسی میں بیٹھے تو ڈرائیور نے عقبی آئینے سے میں دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم لوگ تو بہت چھوٹے ہو، ادھر ادھر کیسے گھوم رہے ہو۔ تمھارے لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکاٹ لینڈ سے آئے ہو۔‘‘
    فیونا نے دیکھا کہ ریڈیو کے قریب ڈیش بورڈ پر ڈرائیور کا لائسنس چپکایا گیا تھا، اور اس پر ڈرائیور کا نام ڈیوڈ لکھا ہوا تھا۔ فیونا نے کہا: ’’مسٹر ڈیوڈ، ہمارے والدین بزنس میٹنگ میں ہیں۔ ہم جہاں جا رہے ہیں اس باغ کے مالک میرے والدین کے دوست ہیں، والدین ہم سے بعد میں وہاں ملیں گے۔‘‘
    ڈرائیور نے انھیں بتایا کہ ان کا سفر تقریباً ایک گھنٹے کا ہے، اس لیے وہ آرام سے ٹیک لگا کر سو بھی سکتے ہیں۔ فیونا نے اس سے پوچھا کہ کیا تسمانیہ میں واقعی پینگوئن ہیں؟ ڈیوڈ نے بتایا کہ ہاں لیکن وہ دوسری سمت میں ہیں، البتہ اگر چڑیا گھر جائیں تو وہاں دوسرے جانوروں کے ساتھ پینگوئن بھی مل جائیں گے۔ اس کے بعد ان کا باقی سفر خاموشی سے کٹا۔ جب وہ مطلوبہ انگور کے باغ پہنچے تو ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ وہ تینوں ٹیکسی سے اتر گئے اور فیونا نے اسے کرایہ ادا کیا۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا گیا۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ یہ ہے وہ جگہ یہاں پکھراج موجود ہے۔
    (جاری ہے….)