Tag: پراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

  • ایک سو چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن فیونا کی ممی کو اغوا کر کے قلعے پہنچا تو فوراً سیڑھیوں سے نیچے اتر کر انھیں غار میں لے گیا، اور ایک دیوار کے ساتھ زنجیر سے باندھ دیا۔ پھر وہ سرنگ کے ذریعے دوڑتا ہوا جھیل کے پاس پہنچ گیا اور پہلان جادوگر کو آوازیں دینے لگا۔ پہلان نے اسے بار بار آ کر پریشان نہ کرنے کا کہنا تھا لیکن وہ یہ بتانے کے لیے بے چین ہو رہا تھا کہ وہ مائری کا ’تحفہ‘ لے کر آیا ہے۔

    جھیل کی سطح لرز اٹھی اور لہروں میں اچھال پیدا ہو گیا، ڈریٹن نے دیکھا کہ جھیل کے پانی کا ایک مینار سا اوپر کی جانب اٹھا اور اس کی سماعت سے تیز آواز ٹکرائی: ’’اب کیا کہنے آئے ہو؟‘‘
    ڈریٹن نے بولا: ’’غار میں آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے، آؤ دیکھو۔‘‘
    جادوگر پہلان پانی سے نکلا اور ڈریٹن کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد وہ سرنگ کے ذریعے غار میں پہنچ گئے۔ پہلان نے مائری کو بندھا دیکھا تو حیران ہو گیا، ان کا چہرہ پائی سے گندا ہو رہا ہے۔ وہ پہلان کو دیکھتے ہی بول اٹھیں: ’’تم کون ہو؟‘‘
    ڈریٹن نے بتایا کہ یہ پہلان ہے، کنگ دوگان کا جادوگر۔ پہلان کو اس پر غصہ آ گیا: ’’میں اپنا جواب خود دے سکتا ہوں احمق۔‘‘ پھر وہ مائری کی طرف متوجہ ہوا، اور کیگ کیگان کے اولاد کی یہاں موجودگی پر خوشی کا اظہار کرنے لگا۔ پھر وہ مائری کو ایک بڑے سانپ کا روپ دھار کر بچوں کی طرح ڈرانے کی کوشش کرنے لگا۔ دیکھنے میں یہ بھیانک اژدہا لگ رہا تھا جو کانٹے دار سرخ زبان باہر نکال کر مائری کی طرف رینگنے لگا، اس کی خوف ناک آنکھوں کی کشش بے پناہ بڑھ گئی تھی۔ مائری نے چیخ کر کہا: ’’مجھے سانپوں سے نفرت ہے، دور ہو جاؤ مجھ سے۔‘‘
    سانپ دھیرے دھیرے ہوا میں بلند ہو گیا جیسے مائری پر جھپٹنے والا ہو، پھر وہ کنڈلی مار کر رقص سا کرنے لگا۔ ڈریٹن کو خود سانپوں سے نفرت تھی اس لیے وہ دور ہو کر پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اچانک سانپ نے جھپٹ کر مائری کے گلے میں اپنے دانت گاڑ دیے اور وہاں سے خون کا ایک فوارہ پھوٹ پڑا۔ مائری کے حلق سے نکلنے والی چیخ گلے ہی میں دب گئی۔ اس کے منھ سے آواز بھی نہ نکل سکی۔ سانپ ان سے دور ہٹ گیا اور مائری نے اچانک آنکھیں کھول لیں۔ ان کے کانوں سے جادوگر پہلان کا قہقہہ ٹکرایا: ’’ہاہا… ہاہا… ہاہاہا، میں نے تمھیں بے وقوف بنا دیا۔ مائری جلدی سے گلے پر ہاتھ پھیر کر دیکھنے لگیں کہ کیا سچ میں وہ زخمی نہیں ہوئی ہیں۔ حقیقت جان کر انھیں اطمینان ہو گیا لیکن اگلے ہی لمحے وہ کرخت لہجے میں بولنے لگیں: ’’تم لوگ کس قسم کے بیمار ذہن لوگ ہو، دوسروں کو خوف زدہ کر کے خوشی حاصل کرتے ہو، اور جادو کر کے خود کو طاقت ور محسوس کرتے ہو… افسوس ہے تم پر!‘‘
    ڈریٹن چلا کر بولا: ’’منھ بند رکھو عورت، اگر خیریت چاہتی ہو منھ بند رکھو سمجھی!‘‘ اچانک وہاں موجود سانپ غائب ہو گیا اور جادوگر پھر نمودار ہوا۔ اس نے مائری سے کہا کہ وہ اپنے باپ دادا کی طرح نڈر بننے کی کوشش کر رہی ہے، ایک آگ ہے وجود کے اندر، تو چلو ڈریگن بن کر دکھاتا ہوں۔ ڈریٹن نے قہقہہ لگا کر کہا: ’’اب یہ تمھیں زندہ بھوننے والا ہے مائری، سنبھل جاؤ۔‘‘
    پہلان نے ڈریگن بن کر غار کی چھت کی طرف منھ کر کے بھیانک آواز نکالی اور پھر اس سے آگ کے شعلے برآمد ہوئے۔ غار میں ایک دم کالا دھواں پیدا ہوا جو مائری کے حلق میں چلا گیا اور وہ کھانسنے لگیں۔ جب دھواں چھٹ گیا تو اچانک ڈریگن نے منھ مائری کی طرف کر کے کھولا اور آگ کے ایک دریا نے ان کے جسم کو لپیٹ میں لے لیا۔ ڈریٹن خوف زدہ ہو کر دیکھنے لگا کہ مائری کا بدن جل کر سیاہ ہو گیا ہے، اور مائری کے حلق سے اذیت سے بھری چیخیں نکل رہی ہیں۔ خوف کے مارے ڈریٹن کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے تھے، اور اچانک اسے الٹی آ گئی۔ الٹی کر کے جیسے ہی وہ سیدھا ہو گیا مائری کو وہاں سلامت موجود پایا۔
    مائری نے سرگوشی جیسی آواز میں کہا: ’’تم قابل نفرت ہو، شیطان ہو، میں تمھاری موت کا انتظار کروں گی۔‘‘ پہلان جادوگر واپس اپنی حالت میں آ گیا تھا، اس نے غصے سے ڈریٹن سے کہا لے جاؤ اس عورت کو جھیل پر اور اسے وہاں کی بھیانک مخلوق کی خوراک بنا دو، یاد رکھنا اسے زندہ نہیں بچنا چاہیے۔‘‘
    ڈریٹن اچھلا اور بولا کہ کیا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پہلان نے کہا کہ ان کے پاس فیونا موجود ہے تو اس کی ممی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور مائری پر کچھ دیر کے لیے جو نیند سی طاری ہوئی تھی وہ اس سے جاگ اٹھیں۔ مائری نے ڈریٹن کو مخاطب کر کے کہا: ’’تم بھی بہت برے ہو ڈریٹن لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس جادوگر کی طرح پھر بھی نہیں ہو، تمھارے اندر امید کا دیا روش ہو سکتا ہے۔ اس لیے تم پہلان جادوگر کو بھول جاؤ اور ہمارے آ ملو، ہم تمھیں آگے آنے والے حالات سے بچائیں گے۔‘‘
    ڈریٹن نے مائری کی بات خاموشی سے سنی اور پھر غرا کر بولا: ’’تمھیں کیا پتا کہ میں پہلان سے بھی بدتر ہوں، اب میں تمھیں کھولنے جا رہا ہوں، اگر کوئی مضحکہ خیز کوشش کی تو یہیں جان سے مار ڈالوں گا۔ جادوگر کو سن لیا ہے نا ہمیں اب تمھاری مزید ضرورت نہیں ہے۔‘‘
    زنجیریں ڈھیلی ہونے کے بعد مائری کو کچھ بہتر محسوس ہونے لگا، لیکن ان میں لڑنے کی طاقت نہیں تھی، درد نے ان کے جسم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اب بھی محسوس کر سکتی تھیں کہ شعلے انھیں جلا رہے ہیں اور سانپ کے دانت ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔ ڈریٹن نے جھک کر انھیں اٹھایا اور کندھے پر ڈال کر کشتی تک لا کر اندر پھینک دیا۔
    جاری ہے ۔۔۔
  • ایک سو تریاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تریاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیے

    ڈریٹن ان لوگوں میں سے تھا جو زیادہ انتظار نہیں کر سکتے، جو چیز حاصل کرنی ہو اسے پوری بدمعاشی کے ساتھ زور بازو سے حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا، جادوئی گولا تب تک حاصل کرنا مشکل تھا جب تک تمام ہیرے ڈھونڈ کر نہیں لائے جاتے، اور ان کے لیے مختلف قسم کے دور دراز اور خطرناک علاقوں کا جادوئی سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ اس میں وقت تو لگنا ہی تھا۔ اینگس کے گھر سے بھاگنے کے بعد وہ جھیل پہنچ گیا تھا، کشتی چلا کر جب وہ دوسری طرف اترا تو جھنجھلایا ہوا تھا۔ وہ بڑبڑا کر بولا: ’’اس طرح آگے پیچھے جاتے ہوئے میں اب تھک چکا ہوں، ایک تو یہ کشتی چلانا بھی ایک عذاب ہے۔‘‘ اس نے چار و ناچار کشتی ایک درخت سے باندھ دی۔

    قلعے کی طرف جاتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ اب کون سی طاقت اس کے پاس آ گئی ہے کیوں کہ فیونا اور اس کے دوست نیا ہیرا جو لے کر آ گئے تھے۔ جادوگر پہلان اسے بتا چکا تھا، اس نے یاد کیا اور پھر اچھل پڑا۔ ’’اوہ تو اب میرے پاس سونا اور ہیرے جواہرات تلاش کرنے کی طاقت آ گئی ہے۔‘‘ سوچتے سوچتے وہ قلعے کے اندر پہنچ گیا تھا۔ اپنے سلیپنگ بیگ پر بیٹھ کر اسے خیال آیا کہ اس قلعے میں بھی تو خزانہ ہو سکتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ بے قراری سے اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ خزانہ کہاں چھپایا گیا ہوگا۔ اگلے ہی لمحے حیرت انگیز طور پر اسے خواب جیسی کیفیت میں ہیرے جواہرات سے بھرا ایک روشن کمرہ دکھائی دیا۔ وہ پرجوش ہو گیا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ لیکن وہ کمرہ ہے کہاں؟ اس نے پھر آنکھیں بند کر کے تصور کیا اور پھر اسے پورا نقشہ دکھائی دینے لگا۔ ’’میں نے ڈھونڈ لیا۔‘‘ اس کے منھ سے چیخ نکل گئی اور وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

    ٹارچ لے کر وہ سیڑھیوں پر نیچے اتر گیا، وہاں اس نے دیوار کے ایک پتھر پر ہاتھ سے دباؤ ڈالا تو سیڑھیوں کے نیچے ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور وہاں ایک دیوار کھل گئی۔ وہ جلدی سے کمرے کے اندر چلا گیا لیکن وہاں کوئی سونا نہیں تھا۔ یہ ایک بہت چھوٹا کمرہ تھا۔ اسے بہت غصہ آیا اور اسی عالم میں اس نے دیوار پر ایک پتھر پر زور سے مکا مار دیا۔ اچانک وہاں بھی ایک دروازہ کھل گیا جس سے اندر جاتے ہی اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ یہ کمرہ سونے اور قیمتی جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک لمحہ دیر کیے بغیر چھلانگ لگا کر سونے کے ڈھیر پر کود گیا اور مٹھی میں چیزیں بھر بھر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور بے اختیار چلانے لگا: ’’میں امیر ہو گیا ۔۔۔ میں امیر ہو گیا۔‘‘

    اس نے خزانے میں سے چھانٹ کر زمرد اور ہیرے اپنی جیبوں میں بھرے اور پھر اوپر محل کی طرف چلا گیا۔ وہ اتنا بے چین تھا کہ محل کے اندرونی حصے سے باہر نکل کر شکستہ پل پر جا کر کھڑا ہو گیا اور رات کے اندھیرے میں زور زور سے سانسیں بھرنے لگا۔

    وہاں سے گزرتے لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی اور وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے۔ لیکن اس نے ہر چیز سے بے نیاز کشتی میں ایک بار پھر جھیل پار کی اور کشتی کو ایک قریبی درخت سے باندھ دیا۔ اس کے بعد وہ تیزی سے فیونا کے گھر کی طرف جانے لگا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اب۔ اس نے دیکھا کہ مائری اور فیونا جبران کے گھر گئے اور وہاں سے ان دونوں کو لے کر فیونا کے گھر کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچ کر مائری نے باقی افراد سے کہا کہ وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑیں، وہ گھر سے کچھ اٹھا کر لا رہی ہیں۔ ادھر وہ چل پڑے اور ادھر مائری گھر کے اندر جا کر کچھ ہی دیر میں واپس آ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا۔ اس وقت باقی افراد دور جا چکے تھے اور مائری اکیلی تھیں۔ ڈریٹن دوڑ کر ان کے پیچھے چلا گیا اور پیچھے سے آواز دے کر پوچھا: ’’ڈبے میں کیا ہے؟ کیا میں دیکھ سکتا ہوں؟‘‘

    مائری نے مڑ کر دیکھا تو ڈریٹن کو سامنے پا کر وہ خوف سے برف بن گئیں۔ ان کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ صرف پائی ہے ڈریٹن، بچوں کے لیے لے جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’پائی؟ اوہ میرا پسندیدہ۔‘‘ اس نے جھپٹا مار کر فیونا کی ممی کے ہاتھ سے ڈبہ چھین لیا، اور کھول کر اپنی انگلیاں اس کے اندر ڈبو دیں، اور پھر باہر نکال لیں۔ اپنی انگلیاں منھ میں ڈال کر وہ بولا: ’’یہ تو بیری کا ذائقہ ہے، واہ۔‘‘

    اچانک اس نے ایک پائی اٹھا کر مائری کے سر پر دے مارا۔ وہ چیخ اٹھیں: ’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم نے میرے بال خراب کر دیے۔‘‘ ڈریٹن نے سفاکی اور بدتمیزی کی حد کر دی۔ ’’یہ تو کچھ نہیں، یہ دیکھو۔‘‘ اور اس نے ایک اور پائی نکال کر مائری کے چہرے پر پھینک دی۔ اور پھر ایک اور مائری کے سر پر دے ماری۔ وہ چلانے لگیں: ’’رک جاؤ، یہ کیا بدتمیزی کر رہے ہو تم ڈریٹن، رک جاؤ۔‘‘

    ڈریٹن نے بدتمیزی سے کہا: ’’اوہ آپ کا حلیہ تو پوری طرح بگڑ چکا ہے، آپ ایسا کریں میرے ساتھ قلعے میں چلیں اور وہاں یہ سب دھو لینا۔‘‘ مائری نے کہا کہ وہ اسے گھر میں بھی دھو سکتی ہیں۔ ڈریٹن نے لپک کر مائری کو بازو سے پکڑا اور چلایا۔ ’’میں کہہ رہا ہوں چلو میرے ساتھ۔‘‘ وہ مائری کو گھسیٹنے لگا تو ان کے منھ سے کراہیں نکل گئیں۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔ ڈریٹن نے انھیں بہت تکلیف دی۔ گھسٹتے ہوئے ان کا پورا وجود ہل کر رہ گیا تھا۔ ایسا ان کی زندگی میں کبھی ان کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ ’’مت گھسیٹو مجھے، رک جاؤ پلیز۔‘‘ وہ روناسی ہو کر بولیں۔ لیکن ڈریٹن غصے سے غرایا: ’’منھ بند کرو اپنا، ایک تو تم عورتیں ہر وقت شکایتیں کرتی رہتی ہو، رونا دھونا ختم نہیں ہوتا تم لوگوں کا۔ اب اگر تم نے منھ سے آواز نکالی تو جھیل کے اندر پھینک دوں گا۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • ایک سو اکیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن کی آنکھ کھلی تو اسے کچھ دیر تک یاد ہی نہ آیا کہ وہ ہے کہاں پر۔ وہ قلعے کے ٹھنڈے فرش پر لیٹ کر سو گیا تھا، جس کی وجہ سے اس کی پیٹھ پر سرخ نشان پڑ گیا تھا، وہ پیٹھ کھجاتے ہوئے باہر نکلا تو بارش کی وجہ سے ہر طرف کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔ جھیل پر آکر وہ کشتی میں دوسری طرف اتر گیا، اچانک اسے یاد آیا کہ اسے یہ کشتی تلاش کرتے ہوئے کتنی زحمت اٹھانی پڑی تھی، اسے یہ کشتی ایک جھاڑی سے ملی۔ اس نے سوچا کہ کشتی کو ایسی جگہ چھپانی ہوگی کہ کوئی اور نہ ڈھونڈ سکے، یہ سوچ کر اس نے کشتی کو کھینچ کر ایک غار میں چھپا دیا۔
    اسے بھوک لگی تھی اس لیے وہ گاؤں کے بالکل باہر ایک چھوٹے سے کیفے میں جا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ اپنے آرڈر کا انتظار کر رہا تھا تو کیفے میں دو چھتریاں اندر داخل ہوئیں۔ چھتریاں بند ہوئیں تو ڈریٹن نے ویٹرس کو سنا۔ وہ ان دونوں سے کہہ رہی تھی: ’’جون! سوسن! آپ ایڈنبرا سے واپس آ گئے، جنازے میں شرکت ہوئی؟‘‘ انھوں نے جواب میں کہا کہ جنازے پر تو پہنچے تھے تاہم جب واپس گھر آئے تو گھر کی حالت ناقابل یقین حد تک تباہ دیکھی۔ ہمارے گھر میں کوئی شیطان گھس گیا تھا جس نے سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا تھا، اس شیطان نے ہمارے کپڑے بھی چرائے۔ ڈریٹن اپنی شرمناک کارکردگی سن کر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ ویٹرس نے جون اور سوسن کو بتایا کہ کسی نے مائری مک ایلسٹر کے گھر کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔
    ڈریٹن نے پہنے ہوئے کپڑوں کی طرف دیکھا اور پریشان ہو گیا کہ اگر انھوں نے پلٹ کر دیکھا اور کپڑے پہچان لیے تو مسئلہ ہو جائے گا۔ وہ دبک کر تب تک بیٹھا رہا جب تک جون اور سوسن اٹھ کر نہ چلے گئے۔ اس کے بعد وہ تیزی سے اٹھا اور بل دیے بغیر نکل گیا۔ ویٹرس اس کے پیچھے آوازیں دیتی رہ گئی۔ اس کے بعد وہ شہر کی طرف نکل کر ادھر ادھر گھومتا رہا، اس نے ایک دکان سے نیا کوٹ بھی خریدا اور سوسن کے گھر سے اٹھایا ہوا کوٹ پھینک دیا۔ ہلکی بارش اب بھی برس رہی تھی، اس کے دماغ پر پہلان جادوگر اور بھیڑیوں کے حملے کا خیال اب بھی طاری تھا اور اسے وہ درد ابھی محسوس ہو رہا تھا۔ یکایک اس نے فیونا کے خلاف شدید نفرت محسوس کی، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جادوئی گولہ چھین لے گا اب ان سے، اور پہلان جائے بھاڑ میں۔
    وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، اور وہاں پہنچ کر اس نے دروازہ کو لات مار کر کہا: ’’کھولو دروازہ، احمقو، مجھے جادوئی گولہ چاہیے، اور مجھے وہ سب کتابیں بھی چاہیئں، میں تم سب کو مار دوں گا۔‘‘
    جیزے کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا، اس نے کتاب نیچے رکھ دی اور جا کر دروازہ کھول کر کہا: ’’تم نشے میں ہو، جاؤ گھر چلے جاؤ۔‘‘
    لیکن ڈریٹن نے اسے دھکا دے کر نیچے گرا دیا: ’’ہٹ جاؤ میرے راستے سے، مجھے یہ گیند ابھی کہ ابھی چاہیے۔‘‘ وہ اینگس کے گھر میں داخل ہوا اور میز پر گیند اور کتابیں دیکھ کر خوش ہو گیا۔ لیکن پیچھے سے جیزے نے اس کی گردن پر کہنی کا ایک زور دار وار کر کے اسے فرش پر گرا دیا۔ اس کے کانوں سے جیزے کی آواز ٹکرائی: ’’تم نے پہلے بھی مجھ پر وار کیا تھا لیکن اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا لڑکے۔‘‘
    ڈریٹن واقعی نشے میں تھا، اور لڑائی کے قابل نہیں تھا۔ جیزے نے اس کے سر پر ٹھوکر مار کر اسے بے ہوش کر دیا۔ پھر گھر میں رسی تلاش کر کے ڈریٹن کو اس سے اس طرح باندھ دیا کہ وہ جنبش بھی نہ کر سکے۔ جب وہ واپس بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگا تو فیونا اور باقی بھی پہنچ گئے۔ وہ ڈریٹن کو بندھے دیکھ کر حیران ہوئے۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو اسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    مائری مک ایلسٹر کی آنکھ کھلی تو بارش برس رہی تھی، وہ بستر سے اٹھیں اور کھڑکی پر سے پردے ہٹا دیے۔ انھوں نے جیسے ہی کھڑکی کھولی بارش سے بھیگی مٹی کی خوش بو کمرے میں بھر گئی۔ نہانے سے قبل انھوں نے کچن میں جا کر چائے کے لیے پانی چڑھایا، اور کمرے میں جھانک کر دیکھا تو جونی سو رہا تھا۔ مائری نے سوچا کہ آج جونی کو خریداری کے لیے لے جاؤں گی تو سیکڑوں سال قدیم یہ آدمی یہ دیکھ کر حیران ہوگا کہ آج جدید دور میں ان کے اختیار میں کیا کیا آ چکا ہے۔
    فیونا اوپر سے نیچے آئی تو ناشتے کا پوچھنے لگی، مائری نے کہا ناشتے میں آج پین کیک اور روغنی میٹھی ٹکیا ویفلز ملیں گے، وہ سن کر خوش ہو گئی لیکن بارش دیکھ کر ہمیشہ کی طرح پریشان ہو کر منھ بنانے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ جونی اور جیزے کے ساتھ ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے۔ ان قدیم آدمیوں کے لیے ناشتے کی چیزیں بالکل نئی تھیں، انھوں نے حیرت سے لیکن مزے لے کر ناشتہ کیا۔
    ایک گھنٹے کے بعد وہ اینگس کے دروازے پر کھڑے تھے۔ انکل اینگس اور جیفری کرینلارچ کے لیے ٹرین پکڑنے روانہ ہو چکے تھے۔ جیزے کو ابھی تک طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اس لیے وہ جاتے ہی بستر پر گر گیا۔ فیونا، جونی، جمی اور جیک کو لے کر مائری شاپنگ کے لیے شہر میں نکل گئیں۔ موسم خاصا سرد تھا تو وہ اونی مصنوعات کی ایک دکان میں گھس گئے جہاں جمی کو اپنی آنکھوں سے میل کھاتا گہرے بھورے رنگ کا ایک اونی جمپر پسند آ گیا۔ جمی نے انھیں بتایا کہ بورل میں انھوں نے ایسے کپڑوں کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا، وہاں تو وہ بس ایک لمبا ڈھیلا سفید رنگ کا چغہ پہنتے تھے اور پاؤں میں سینڈل۔ جمی نے وہ جمپر پہنا تو فیونا سے مسکراتے ہوئے پوچھ بیٹھا: ’’کیا میں اب برطانوی لگ رہا ہوں؟‘‘ فیونا زور سے ہنسی اور اثبات میں سر ہلا دیا، اس نے پرجوش ہو کر کہا ’’کیا آپ مجھے بوریل کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟ میں جانتی ہوں کہ یہ جزیرہ نمائے عرب پر واقع ہے جہاں اب یمن ہے۔‘‘

    جمی نے گھور کر دیکھا اور کہا کہ یہ ایسی باتیں پوچھنے کی جگہ نہیں ہے، کل اگر یاد دلاؤ گی تو کچھ باتیں بتا دوں گا۔ اس کے بعد سب نے اپنے لیے جمپر پسند کیا اور مائری نے پیسے ادا کر دیے، وہ جمپر پہن کر ہی دکان سے نکلے۔ ان قدیم آدمیوں کے لیے شہر کی ہر چیز حیرت میں مبتلا کر دینے والی تھی، گاڑیاں، ریل گاڑی اور ہر وہ جدید چیز جس کے ذریعے آج کے دور کے انسان نے اپنے لیے زندگی میں بے پناہ آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ شاپنگ کے بعد وہ دوپہر کے کھانے کے لیے دی ہاگز ہیڈ اِن میں داخل ہو گئے۔ کرسیوں پر بیٹھنے سے قبل انھوں نے اپنی چھتریاں جھٹک دیں اور کرسی کے ایک طرف ٹکا کر زمین پر رکھ دیں۔ کچن سے آتی بھنے ہوئے گائے کے گوشت، پیاز اور آلوؤں کی مہک نے ان کی بھوک بڑھا دی تھی۔ کھانا کھا کر وہ پھر اینگس کے گھر پہنچ گئے۔

    (جاری ہے)
  • ایک سو انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈوبتے سورج کی شعاعیں مک ایلسٹر کی کھڑکی سے اندر داخل ہوئیں تو ڈریٹن اس وقت ایک بار پھر گندگی پھیلانے میں جُتا ہوا تھا۔ وہ مکمل طور پر ایک بیمار ذہنیت والا نوجوان تھا، ہمیشہ غلط کام کر کے ہی خوش ہوتا تھا۔ اس وقت وہ فرش پر بکھری خوراک کی اشیا پر چل پھر کر بیڈ روم میں داخل ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید اس گھر میں نہیں رہے گا۔ وجہ ان چیزوں کی بد بو بھی جو اس نے پورے گھر میں پھیلا دی تھیں۔ الماری کے سب سے اوپری تختے پر اس نے جب کئی سلیپنگ بیگ دیکھے تو ان میں سے ایک کھینچ پر اس نے نکال لیا اور باقی فرش ہی پر پھینک دیے۔ اسے لٹکے ہوئے کپڑوں کے پیچھے ایک سوٹ کیس نظر آیا تو ہینگ سے نہایت بدتمیزی سے کپڑے کھینچ کر پھینک دیے اور پیچھے پڑا سوٹ کیس نکال لیا۔ اس کے بعد کپڑوں کی تمام الماریاں کھول کر ان میں سے مردانہ کپڑے نکالے اور سوٹ کیس میں ٹھونس دیے۔ ایک اور بیگ کو خوراک کی چیزوں سے بھرا جو ابھی تک اس نے ضائع نہیں کی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت اس نے آئینے میں خود کو دیکھا، اس کے گلے میں لٹکنے والے ستارے کے چار کونے روشن تھے۔ اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ پھیلی۔ ’’آٹھ رہ گئے ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    جب وہ قلعہ آذر کے محرابی دروازے پر پہنچا تو سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرے نے آسمان کو ڈھانپ لیا تھا۔ وہ مرکزی دروازے سے اندر گیا اور فرش پر دونوں بیگ پھینکے پھر سوچنے لگا کہ اسے سلیپنگ بیگ کہاں رکھنا چاہیے۔ سونے کے دوران اسے تازہ ہوا کی ضرورت تھی اس لیے اس نے دروازے ہی کے قریب سونے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے سلیپنگ بیگ پھیلایا اور کھانے کی چیزیں نکال کر کھانے لگا، پھر ایک آواز بلند کی: ’’پہلان… میں یہاں ہوں، آؤ اور مجھے کچھ سکھاؤ۔‘‘
    اسے جواب میں دوسرے کمرے سے ایک آواز سنائی دی، وہ پہلان کو پکارتا وہاں گیا تو پہلان کو بھیڑیوں کے ایک غول کے درمیان پایا۔ ’’یہ تو بالکل اصلی بھیڑیوں کی طرح نظر آ رہے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے ان کے تیز دانت اور رال ٹپکاتے منھ دیکھ کر کہا۔
    پہلان کی سرد اور سرسراتی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی: ’’بے وقوف، یہ اصلی ہی ہیں۔ میں انھیں حکم دے سکتا ہوں، اور یہ لمحوں میں تمھارا گلا دبوچ کر چیر پھاڑ سکتے ہیں۔ یہ میرے دوست ہیں!‘‘
    ڈریٹن نے ہاتھ بے اختیار اپنے گلے پر پھیرا: ’’میں سمجھا تھا کہ تم مجھے اس وقت یہاں دیکھنا چاہو گے تاکہ مجھے کچھ جادو منتر سکھا سکو۔‘‘
    ’’ہاں، میں تمھیں سکھانا چاہتا ہوں۔‘‘ پہلان کی خوف زدہ کر دینے والی آواز ابھری: ’’میں جو تمھیں سکھانا چاہتا ہوں اسے کہتے ہیں خوف۔ میں چاہتا ہوں کہ تمھیں بتا دوں کہ تم نے خود کو کتنے خطرناک کام میں الجھا لیا ہے۔ تم شاید سوچ رہے ہو کہ یہ کوئی کھیل ہے جس میں تم چند بچوں اور چند قدیم آدمیوں کے مقابلے پر نکلے ہو۔ لیکن میں تمھیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔‘‘
    اچانک بھیڑیوں نے حرکت کی اور ڈریٹن کے گرد پھیل گئے۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ وہ بھیڑیوں کے دائرے میں قید ہونے لگا ہے۔ خوف کی ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ وہ لرزتی آواز میں بولا: ’’یہ … یہ بھیڑیے کیا کر رہے ہیں؟ انھیں مجھ سے دور کرو۔‘‘
    پہلان خاموشی سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ بھیڑیوں نے اس کے گرد اپنا گھیرا مکمل کر لیا۔ تب اس نے پوچھا: ’’کیا تم خوف محسوس کر رہے ہو؟‘‘
    ڈریٹن کے حلق سے ڈری ڈری آواز نکلی: ’’مجھے یہ مذاق پسند نہیں۔‘‘
    پھیڑیوں نے اپنا گھیرا تنگ کر دیا۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ بھیڑیے اس کے قریب ہو گئے اور ان کے گلوں سے نکلتی دہشت ناک غراہٹ دل و دماغ پر ہیب طاری کر رہی ہے۔
    ’’تو تم خوف زدہ ہو گئے ہو؟‘‘ پہلان نے ہوا میں ہاتھ بلند کر کے کہا۔ اور اگلے لمحے بھیڑیے ڈریٹن پر جھپٹ پڑے۔ ایک نے اس کی ٹانگ منھ میں دبائی، دوسرے نے ہاتھ کو اور ایک نے اس کے گلے پر جھپٹ کر اپنے نوکیلے دانت گاڑ دیے۔
    ڈریٹن کے حلق سے دل دوز چیخیں بلند ہونے لگیں اور قلعے میں گونج کر رہ گئیں۔ وہ فرش پر گر پڑا تھا اور بھوکے بھیڑیے اسے چیر پھاڑ رہے تھے۔ اس کے حلق سے نکلنے والی چیخوں میں شیطان جادوگر کے قہقہے بھی شامل ہو گئے تھے۔ یکایک جادوگر نے اپنے قہقہے روک لیے اور پھر ایک لمحے کی بات تھی، جب ڈریٹن اچانک کھڑا ہو گیا۔
    ’’مم … میں زندہ ہوں۔‘‘ وہ خوشی سے پاگلوں کی طرح اپنے جسم پر ہاتھ پھیر پھیر کر دیکھنے لگا۔ اسے بدن پر زخم کا کوئی نشان دکھائی نہیں دیا۔ ’’مجھ پر تو بھیڑیوں نے حملہ کیا تھا۔‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا لیکن جادوگر پہلان نے کہا: ’’بے وقوف ڈریٹن، اپنے آس پاس دیکھو، کیا یہاں کوئی بھیڑیا نظر آ رہا ہے؟‘‘
    وہاں سچ مچ بھیڑیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ڈریٹن خوف زدہ بھی تھا اور حیران بھی۔ اسے اچھی طرح محسوس ہوا تھا کہ بھیڑیوں نے اس کا گلا کاٹ لیا ہے اور اسے اب بھی درد محسوس ہو رہا تھا۔ پہلان نے قہقہہ لگا کر اسے بتایا کہ یہ سب اس کے جادو کا کرشمہ تھا۔ پہلان نے جادو کے ذریعے اسے درد محسوس کرایا تھا اور کہا کہ جب وہ بھی کسی کے ساتھ ایسا کر سکے گا تو تب بڑا جادوگر کہلائے گا۔
    پہلان بولا: ’’تم صرف چند کرتب ہی دکھا سکتے ہو، اس کے علاوہ تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جب تک تمام قیمتی پتھروں کے ساتھ وہ جادوئی گیند ہمارے ہاتھ نہیں آتا، تب تک میں تمھاری کچھ مدد نہیں کر سکتا۔ گولہ ہمارے قبضے میں آئے گا تو میں بڑے بڑے جادو تمھیں سکھا دوں گا۔ اس وقت تک تم مجھے بار بار پکار کر صرف اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ جب کہ میں تمھیں بتا چکا ہوں کہ ہر قیمتی پتھر کے ساتھ تمھیں کوئی نہ کوئی طاقت ملتی رہے گی۔ تم بس اسے استعمال کرنا سیکھو۔‘‘
    وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوا پھر بولا: ’’غور سے سنو میری بات، تم ایک نہایت بے وقوف لڑکے ہو۔ گھروں کا آگ لگانا چھوڑ دو اور نہ ہی بچوں کی طرح ہر جگہ اپنے جادوئی کرتبوں کا مظاہرہ کرو۔ آج کے بعد سے تم مجھے اس وقت تک نہیں دیکھ سکو گے جب تک میں یہ دیکھ نہ لوں کہ تم سننے کے لیے تیار ہو۔‘‘
    یہ کہہ کر جادوگر پہلان ایک سفید شعلے کی صورت چمکا اور غائب ہو گیا۔ ڈریٹن نے اس کے جاتے ہی سکون کی ایک لمبی سانس لی اور سلیپنگ بیگ کے اندر لیٹ گیا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ خوف ناک بھیڑیے اس کی طرف دیکھتے ہوئے غرا رہے ہیں۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو اڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    جونی نے کتاب پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’یہ کتاب ہمیں جادوگروں کے منتروں اور عجیب و غریب جادو کے بارے میں بتاتی ہے، اور اس سے بڑھ کر یہ کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ….. ‘‘

    جونی کہتے کہتے رک گیا۔ اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ ناچنے لگی تھی۔ وہ خصوصی طور پر فیونا، جبران اور دانیال پر نظریں جمائے مسکرائے جا رہا تھا۔ وہ تینوں بے چینی سے پہلو بدل کر نہایت غور سے جونی کی طرف ہمہ گوش ہو گئے تھے اور اس وقت تینوں کے منھ تجسس کے مارے کھلے ہوئے رہ گئے تھے۔
    ’’جلدی بتائیں نا پلیز۔‘‘ فیونا مچل کر بول اٹھی۔ ’’تم نے تو ہم سب کو تجسس میں ڈال دیا ہے جونی۔‘‘ مائری سے بھی رہا نہ گیا۔
    جونی نے سر ہلا کر کہا: ’’ٹھیک ہے بتاتا ہوں، میں سمجھا کہ شاید آپ میں سے کوئی سمجھ جائے گا لیکن خیر یہ کتاب ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ زیلیا کا راستہ کس طرف ہے اور وہاں کس طرح پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘ فیونا، جبران اور دانیال حیرت اور خوشی کے مارے چیخ اٹھے۔
    ’’شان دار …. سنسنی خیز … زیلیا کی مہم تو بہت دل چسپ رہے گی۔‘‘ فیونا نے کہا اور یہ بات باقی دونوں کے دل کی بھی آواز تھی۔
    جونی نے کہا: ’’ہاں، لیکن ایک بات ذہن نشین رہے کہ ہم نے اس کتاب کو ڈریٹن اور پہلان سے چھپا کر رکھنی ہے … ہر حال میں … اگر یہ کتاب ان کے ہاتھ لگ گئی تو پتا ہے کیا ہوگا؟ یہ کتاب آپ کی اس دنیا کو، ہماری دنیا کو الٹ پلٹ سکتی ہے۔‘‘
    یہ سن کر وہ تینوں پریشان نظر آنے لگے۔ ایسے میں اینگس نے کام کی پوچھی: ’’جونی کیا تم زیلیا کی زبان پڑھ سکتے ہو؟‘‘
    جونی نے جواب دیا: ’’نہیں لیکن ہم بارہ آدمیوں میں سے ایک اسے پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اسے یہاں پہنچنے میں ابھی کافی وقت ہے۔ اس کا نام بون ٹابی ہے۔ ہم میں صرف اسی کو زیلیا کی زبان پڑھنا آتا ہے۔ ہمیں اس کتاب کی حفاظت کرنی ہے جیسا کہ ہم جادوئی گولے کی کرتے آ رہے ہیں۔ اس وقت تک جب تک وہ یہاں آ کر ہمارے ساتھ نہ مل جائے۔‘‘
    اینگس کہنے لگے: ’’یہ ساری تفصیلات بہت دل چسپ ہیں اور بہت ساری باتیں مزید ہو سکتی ہیں لیکن بہت دیر ہو گئی ہے۔ اب ان بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچانا زیادہ ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے والدین ان کے پریشان ہوں گے۔ فیونا اور مائری تم دونوں بھی اب گھر جاؤ۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جونی نے مائری کو جواب دیا کہ ایسا ممکن ہے، چند ماہ کے اندر قلعے کو رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ جب مائری نے قلعے کے باغات سے متعلق بات کی تو جونی نے انھیں بتایا کہ ان بارہ افراد میں سے ایک جولیان ہے جو باغبان تھا اور یہ کہ وہ اس قلعے کو بہت کم وقت میں بحال کر سکتا ہے۔ دونوں قلعے کی تزئین کے فیصلے پر متفق ہو گئے۔ قلعے میں مکڑیوں اور سرنگوں کا بھی مسئلہ تھا جن کے بارے میں انھوں نے طے کیا کہ انھیں بھر دیا جائے گا اور یہ طے کر وہ اندر چلے گئے تاکہ باقی سب کو بھی اس سے آگاہ کر دیں۔ وہ سب جادوئی چمکتے دمکتے گولے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ مائری نے سب کو مخاطب کیا کہ وہ کچھ بولنا چاہتی ہے۔ سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے لیکن جیسے ہی انھوں کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا، دروازے پر دستک سنائی دی۔ سب نے ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اینگس بولے میں دیکھتا ہوں۔ انھوں نے جا کر دروازہ کھولا تو باہر ایک اجنبی کھڑا تھا۔ پانچواں اجنبی!
    اینگس اسے دیکھ کر پہلے جو جھجکے اور پھر اسے بھی اندر لے آئے۔ سب اس کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ آتے ہی بولا: ’’مجھے کیٹر کہتے ہیں۔ اوہو آرٹر، کووان، پونڈ، آلرائے تم چاروں کیسے ہو، کیا ہو رہا ہے یہاں؟‘‘
    ’’بیٹھ جاؤ کیٹر۔‘‘ جونی نے گہری سانس لی۔ ’’یہ اینگس ہے، اس گھر کا مالک اور یہ مائری، یہ ان کی بیٹی فیونا، اور یہ دونوں اس کے دوست دانیال اور جبران۔ ان بچوں نے قلعہ آذر میں جادوئی گولے کو ڈھونڈ نکالا تھا اور یہ تینوں اب قیمتی پتھر جمع کرنے کے لیے سفر کر رہے ہیں۔ یہ ابھی کچھ ہی دیر قبل زمرد حاصل کر کے آئے ہیں اسی لیے تم زرومنا کے وعدے کے مطابق وقت کی گزرگاہ سے ہو کر یہاں آئے ہو۔ ہم ایک ایک کر کے ظاہر ہو رہے ہیں۔‘‘
    جونی کی وضاحت سن کر وہ بولا: ’’قلعہ آذر وہی جگہ ہے نا جو میں نے تلاش کی تھی۔ یہ کون سا سال ہے؟‘‘ وہ ان کے لباس دیکھ کر پوچھ بیٹھا۔
    ’’دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ میں ہیں۔ کنگ کیگان ہم سے جدا ہونے کے بعد اسکاٹ لینڈ آئے تھے اور یہاں اس قلعے کو تعمیر کیا تھا۔ مائری اور فیونا ان کے وارث ہیں۔‘‘ جونی نے اسے بتایا۔
    ایسے میں اچانک جیک نے اسے مخاطب کیا: ’’آج کے بعد تمھارا نام جیفری ہے کیوں کہ ہمارے قدیم نام اس دور میں بہت عجیب لگتے ہیں۔لوگ سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ویسے ابھی مزید کچھ سننے کو ملے گا فی الحال مائری کچھ کہنے جا رہی ہیں، انھیں سنتے ہیں۔‘‘
    جیفری نے اثبات میں سر ہلایا، اسی لمحے اس کی نظر ہار پر پڑی۔’’اوہو، یہ تو ملکہ سمانتھا کا ہار ہے۔‘‘جونی بولا ’’ہاں یہ میں نے دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ ملکہ سمانتھا بھی یہی چاہتی۔ بہرحال، تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہم نے بھی اپنے نام تبدیل کیے ہیں۔ میں جونی ہوں، کووان جمی ہے، پونڈ جیزے ہے اور آرٹر کا نام جیک ہے۔‘‘
    مائری نے کھانس کر سب کو پھر اپنی طرف متوجہ کیا، اور جیفری کو مخاطب کر کے بولیں: ’’تم دوسروں سے مختلف نظر آ رہے ہو، تمھاری آنکھیں نیلی ہیں اور بال ہلکے رنگ کے ہیں۔‘‘ جیفری نے اس پر بتایا کہ اس کے والد گال کے رہنے والے تھے اور والدہ عرب تھیں بورل کی۔ جیفری پھر بورل کے بارے میں بتانے لگا: ’’گال لوہے کے زمانے میں مغربی یورپ کا ایک علاقہ تھا، جو فرانس، لگزمبرگ، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ، شمالی اٹلی، نیدرلینڈز اور جرمنی پر مشتمل تھا۔‘‘
    مائری نے کہا: ’’ٹھیک ہے میں سمجھ گئی، اب میں کچھ کہنا چاہتی ہوں، دراصل میں قلعہ آذر کی نئے سرے سے آرائش اور مرمت کرنے کا سوچ رہی ہوں تاکہ ہم وہاں منتقل ہو سکیں۔‘‘
    یہ سن کر فیونا اچھل پڑی۔ اس کے لیے یہ خبر سب سے زیادہ سنسنی خیز تھی۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیں
    شین نے انھیں ان کے ہوٹل پر اتار دیا۔ اترتے ہی جبران بولا: ’’اب ہمیں فوری طور پر گھر جانا چاہیے۔‘‘ فیونا نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس اپنی اپنی چیزیں پوری ہیں، تو دونوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ فیونا نے بھی کہا کہ اب گھر چلتے ہیں۔ دانیال نے پوچھا: ’’کیا ہمیں اُس مقام پر نہیں جانا پڑے گا جہاں ہم پہلی بار نمودار ہوئے تھے؟‘‘
    ’’نہیں۔‘‘ فیونا نے جواب دیا: ’’پہلے میں بھی ایسا سمجھتی تھی لیکن اب مجھے پتا چل گیا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے، بس صرف اُسی علاقے میں ہمیں ہونا چاہیے۔‘‘
    ’’تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟‘‘ جبران نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’بس ہو گیا معلوم۔‘‘ اس نے کندھے اچکا کر کہا ’’اب دریائے یوکان کی طرف چلو۔‘‘
    جب وہ دریا کے پاس آئے تو انھیں بہت سارے لوگ گیلے کپڑوں کے ساتھ ملے، جن کے چہرے سرخ ہو رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سب دریا میں خوب نہائے ہوں۔ جبران نے کہا: ’’گلیشیئر سے جو سیلابی ریلا آیا تھا کیا یہ سب اس میں بھیگے ہیں، کیا اتنی دور تک وہ ریلا آیا ہوگا؟‘‘
    ’’ہو سکتا ہے۔‘‘ فیونا بولی: ’’میرے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لو۔ گھر جانے کا وقت آ گیا ہے۔ میں واپسی کا منتر پڑھنے لگی ہوں۔‘‘
    فیونا نے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر ایک دم کھول کر دھڑکتے دل کے ساتھ منتر پڑھنے لگی …. دالث شفشا یم بِٹ …
    (جاری ہے…)
  • ایک سو باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    دریائے یوکان پر لوگوں کی اچھی خاصی تعداد جمع ہو گئی تھی۔ وائٹ ہارس آنے والے اکثر سیاح سونا چھاننے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکال رہے تھے۔ ان میں سے ایک ڈریٹن بھی تھا جس نے کرائے پر چھلنی خریدی تھی اور پھر دریا کے کنارے ایک جگہ منتخب کر کے ریت چھاننے بیٹھ گیا تھا۔ اس کے ایک طرف امریکا سے آئی ہوئی ایک فیملی بیٹھی تھی اور دوسری طرف ادھیر عمر میاں بیوی بیٹھے ریت چھان رہے تھے۔
    ڈریٹن کافی دیر سے جھک کر دریا میں چھلنی ڈال کر نکالتا تھا اور چھاننے کے بعد اس میں ریت اور کنکر کے سوا کچھ نہ پاتا تھا۔ سونے پر سہاگا، اس کے ایک طرف بیٹھی فیملی کے لوگ تھوڑی تھوڑی دیر بعد خوشی سے چیخ اٹھتے تھے کیوں کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی اپنی چھلنی میں سونے کی چمک دار ڈلی موجود پاتا۔ یہ دیکھ کر وہ جلن اور حسد کے مارے تپنے لگا۔ دیگر لوگ بھی دریا کنارے بیٹھے کبھی کبھی مسرت بھری چیخ کے ساتھ اچھل پڑتے تھے، اور ڈریٹن کو آگ لگ جاتی تھی۔
    وہ غصے کے مارے سوچنے لگا کہ آخر وہ ہی کیوں ناکام ہو رہا ہے۔ باقی سب کو سونے کے ڈلے مل رہے ہیں اور وہ مسلسل محروم ہے۔ وہ اٹھا اور اپنی کمر سیدھی کرنے لگا، کیوں کہ وہ کافی دیر سے اکڑوں بیٹھا تھا، اس لیے اس کی کمر، گردن اور گھٹنے درد کرنے لگے تھے۔ اس نے دریا کنارے لوگوں پر ایک نگاہ ڈال کر زیر لب کہا: ’’تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے اب دوسرے پلان پر عمل کرنا ہوگا، ٹھیک ہے تو شروع ہو جاؤ ڈریٹن!‘‘
    وہ چہل قدمی کرتے ہوئے قریب بیٹھی فیملی کے پاس سے گزرنے لگا تو قصداً پھسل کر گرنے کی اداکاری کی اور اس دوران ایک بچے کو دھکا دے کر اس نے دریا میں گرا دیا۔ بچے کے والدین اور بہن بھائی اپنی اپنی چھلنی ہاتھوں سے گرا کر گھبراتے ہوئے اسے بچانے دوڑے۔ جب کہ ڈریٹن نے اطمینان کے ساتھ ان کے ایک جگہ جمع کیے گئے سونے کے ڈلے اپنی جیب میں منتقل کر دیے۔ جب فیملی والے بچے کو نکال کر بھیگے ہوئے اپنی جگہ پر آئے تو سونا غائب پا کر افسوس کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ ڈریٹن نے اگلے ایک گھنٹے میں بھرپور کارروائیاں کیں اور کئی لوگوں کو سونے کے ڈلوں سے محروم کر دیا اور پھر بھری جیبوں کے ساتھ قریبی بینک جا کر رقم کے عوض سونے کے ڈلوں کا تبادلہ کر لیا۔ جب وہ بینک سے نکلا تو کئی ہزار کینیڈین ڈالرز سے اس کی جیبیں پھولی ہوئی تھیں۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    اس نے اپنے سراپے پر ایک نگاہ ڈالی تو خود کو صاف ستھرا پا کر خوش ہوا اور کرسٹل کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ اس نے کرسٹل سے کہا کہ اپنا جادو باقی دونوں پر بھی آزماؤ ورنہ وہ ٹھنڈ کے مارے جم جائیں گے۔ کرسٹل نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور ہاتھ ایک بار پھر بلند کر کے جھٹکا دیا۔ اگلے لمحے جبران اور فیونا لٹو کی مانند گھومنے لگے، اور جب دونوں رکے تو پوری طرح خشک ہو چکے تھے۔ تینوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، وہ محفوظ بھی تھے اب اور ان کے پاس قیمتی پتھر بھی آ چکا تھا۔ کرسٹل نے آزادی کے لیے فیونا کا شکریہ ادا کیا اور پھر رخصت لے کر گلیشیئر کی بلندی کی طرف چلی گئی۔ جبران نے گہری سانس لی اور کہا: ’’یہ دوسری پری تھی، پہلی والی نے آئس لینڈ میں ہماری مدد کی تھی اور یہ والی، اگرچہ ہمیں قید رکھنا اس کی ذمہ دار تھی لیکن یہاں ہماری مدد کر کے گئی ہے۔‘‘
    ’’میں تو سوچ رہا ہوں کہ اس بار ہم کسی جزیرے پر نہیں آئے۔ یعنی یہ وائٹ ہارس کوئی جزیرہ نہیں ہے۔‘‘ دانیال نے گھوم پھر کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ فیونا بولی: ’’لگتا ہے پریوں اور جزیروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ بے چاری پری کتنی دور آ کر پھنس گئی تھی۔ ویسے اگر چند اور پریاں ہماری مہم میں ہم سے ملیں تو کچھ برا تو نہیں۔‘‘ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر زمرد کی موجودی کو محسوس کیا: ’’شکر ہے زمرد میری جیب سے گرا نہیں۔ میرے خیال میں اب شَین کو ڈھونڈا جائے، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘
    ’’وہ تو ہمارے لیے بہت پریشان ہو رہا ہوگا۔‘‘ دانیال نے کہا۔ تینوں اس طرف چلنے لگے جہاں سے وہ آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ شین دور ایک گھاس والی چھوٹی سی پہاڑی پر بیٹھا ہے۔ انھیں دیکھتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور دور ہی سے ہاتھ ہلا کر کچھ کہنے لگا۔ قریب پہنچنے پر ہی انھیں معلوم ہوا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
    ’’کہا مر گئے تھے تم لوگ۔ میں نے کتنا تلاش کیا تم تینوں کو اور تمھارا سامان کہاں ہے؟‘‘ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔
    ’’اگر ہم بتائیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔‘ فیونا نے معصوم بن کر جواب دیا: ’’مثلاً یہ کہ نوکیلے دانتوں والے قدیم ٹائیگر نے ہمارا پیچھا کیا تھا اور گلیشیئر کے بڑے بڑے ٹکڑے ہم پر گرے تھے اور ہم موت کے منھ سے بال بال بچے، اور گلیشیئر کے اندر بند جھیل بڑے غلط موقع پر دیوار توڑ کر ہمیں بہا کر لے جانے والی تھی لیکن ہم اس میں بھی بچ گئے۔‘‘
    ’’یہ تم کیا بکواس کر رہی ہو۔ نوکیلے دانتوں والا ٹائیگر، گلیشیئر کا ٹوٹنا، کیا تم جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادی ہو۔ اب تم میرے ساتھ ہی رہو گے سب لیکن تم لوگ بھاگ کر کیوں گئے تھے۔ میں تو کوئی زیادہ دور نہیں گیا تھا، جلد ہی پلٹ آیا اور تم تینوں کو غائب پایا۔ تم نے یقیناً مجھے دھوکا دیا تھا۔‘‘
    وہ بولتا ہی جا رہا تھا اور تینوں سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اگر مزید کچھ بولیں گے تو شین کا پارہ مزید چڑھے گا لہٰذا خاموش رہے۔ جب اس کا غصہ اتر گیا تو نرمی سے بولا: ’’چلو شکر ہے کہ تم تینوں سلامت ہو، میں تو واپس جا کر ریسکیو ٹیم کو لانے کی سوچ رہا تھا۔‘‘
    ’’ہم معذرت خواہ ہیں مسٹر شَین!‘‘ فیونا نے بہ مشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا: ’’دراصل ہماری عادت ہے کہ ہم والدین کو بھی اسی طرح اکیلے چھوڑ کر گھومنے نکل جاتے ہیں۔‘‘
    تینوں چپ چاپ جیپ میں بیٹھ کر وائٹ ہارس کی طرف چل پڑے۔ شین نے کہا کہ تم نے بیگ کھو دیے ہیں جس کے لیے اضافی رقم دینی ہوگی۔
    (جاری ہے…)