Tag: پراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
-
ایک سو چھیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
’’میں نے آواز سنی ہے، میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا، کھڑکی کے باہر ضرور کچھ ہے۔‘‘
-
ایک سو پینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن نے ایک اور ریستوران میں کھانا کھایا تھا اور پھر تیز رفتاری سے واپس ہوٹل آ کر اپنے کمرے میں ڈیرا جما لیا تھا۔ وہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ جب فیونا اور اس کے دوست اپنے کمرے میں آئیں گے تو ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ اس لیے وہ دونوں کمروں کے درمیان دروازے سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا تاکہ آوازیں واضح طور پر سن سکے۔ اسی دوران اسے انگھ آگئی، کچھ دیر بعد جب وہ ہڑبڑا کر جاگا تو اسے تیز آواز میں باتیں سنائی دینے لگیں، کوئی بات بات پر قہقہے لگا رہا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس گیا تو دیکھا کہ ہوٹل کے نیچے کچھ لوگ کھڑے باتیں کر رہے ہیں۔ ڈریٹن ان پر غصے سے چیخا: ’’دفع ہو جاؤ یہاں سے اور کہیں اور جا کر شور مچاؤ۔‘‘
ان لوگوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھااور پھر گفتگو میں مگن ہو گئے۔ کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ ڈریٹن بہت تلملایا اور بڑبڑایا کہ اچھا ایسی بات ہے تو ابھی بتاتا ہوں!
اس نے برف کی ایک چھوٹی بالٹی اٹھائی، اس میں اپنا شیمپو ڈالا، پھر سرخ مشروب جو اس نے منگوایا تھا بالٹی میں انڈیلا۔ ایک چھوٹے پیالے میں گرم پانی سے تین صابن پگھلائے اور اسے بھی شیمپو میں ملا دیا۔ پھر اس میں پانی ڈال کر اچھی طرح ملایا اور پھر یہ جھاگ بھرا رنگ دار پانی کھڑکی سے ان لوگوں پر انڈیل دیا۔ جب اس نے لوگوں کے چہرے، سر اور کپڑے خراب ہوتے دیکھا اور صابن کے بلبلے اڑتے دیکھے تو خوب قہقہے لگانے لگا: ’’سبق سکھا دیا نا میرے کمرے کے قریب شور مچانے پر۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کھڑکی بند کی اور پلٹا۔ اسی وقت اسے فیونا کے کمرے سے آوازیں سنائی دیں۔ وہ جلدی سے دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ اندر سے آنے والی خوف اور دکھ سے بھری ہر آواز پر وہ بے تحاشا خوش ہوتا رہا۔ اور جب منیجر نے آ کر ان سے تاوان کا مطالبہ کیا تو اس وقت وہ خوشی کے مارے فرش پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ جب وہ نئے کمرے میں منتقل ہونے لگے تو اس نے ان کا تعاقب کیا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ کس کمرے میں ٹھہرنے جا رہے ہیں۔ اور اس کے بعد وہ چھت پر جا کر روشنیوں کا نظارہ کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔’’روتھ نے ٹھیک ہی کہا تھا، کتنا شان دار اور خوب صورت نظارہ ہے یہ۔‘‘ فیونا نے دور افق پر پھیلے تیز چمکیلے لال، پیلے اور سبز رنگ کی دھاریاں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تو یہ دیکھ کر رینبو یاد آ گئی۔‘‘ جبران بولا۔ دانیال آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر رنگین روشنی کی دھاریوں کو آسمان میں ادھر ادھر رقص کرتے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’لیکن یہ نظارہ قوس قزح سے کہیں زیادہ شان دار ہے۔‘‘ دانیال نے ایسا نظارہ کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان رنگوں کے پیچھے آدھی رات کے آسمان میں ستارے جھلمل رہے تھے۔ تینوں یہ نظارہ دیکھنے میں کھو گئے تھے۔ فیونا کی آواز سنائی دی: ’’یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے آسمان میں پینٹنگ کی ہو۔‘‘ دانیال نے کہا: ’’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے نیلے اور سبز شعلوں کے ساتھ آسمان میں لگ گئی ہو۔‘‘ جبران نے مداخلت کی، ہاں لیکن یہ کبھی کبھی یہ شعلے سرخ اور پرپل بھی ہو جاتے ہیں۔ تینوں آسمان پر نظریں جمائے اسی طرح کی گفتگو میں مگن تھے۔
ان سے چند قطار پیچھے بیٹھا ڈریٹن بور ہو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ سب لوگ احمق ہیں جو یہاں بیٹھے عجیب و غریب جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ صرف روشنی ہی ہے اور اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ اس کے بارے میں پہلان جادوگر سے پوچھے گا کہ کیا اس میں کچھ جادو ہے؟ یہ سوچ کر وہ اٹھا اور نیچے جانے لگا۔
(جاری ہے)
-
ایک سو چوالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
منیجر غصے سے چلایا: ’’یہ تم لوگوں نے کمرے کا کیا حشر کر دیا ہے، اتنی گندگی … اُف … مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔‘‘ اس نے باتھ روم میں بھی جا کر دیکھا۔ وہ سخت حیران بھی تھا اور اسے شدید غصہ بھی آ رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’میں نے اپنی زندگی میں اس قسم کی خوف ناک بے ہودگی نہیں دیکھی، تم لوگوں کو اس کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔‘‘
’’مسٹر براؤن، یہ ہم نے نہیں کیا، ہم باہر سے ابھی کچھ دیر پہلے ہی آئے ہیں۔‘‘ فیونا نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بتایا۔ لیکن منیجر غرا کر بولا: ’’مجھے بے وقوف مت سمجھو، میں روم سروس سے بات کر چکا ہوں، تم نے کھانے کے لیے آرڈر دیا تھا۔ جس ویٹر نے کھانا پہنچایا تھا اس نے کہا تھا کہ تمھارے بڑے بھائی نے آرڈر دے کر یہاں اس کمرے میں کھانا وصول کیا۔‘‘
’’میرا کوئی بڑا بھائی نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے غصے میں آ کر پیر فرش پر مارا۔ ’’کوئی یہاں اندر آیا تھا اور اس نے دھوکے سے کھانا منگوایا اور یہ سب کیا اس نے۔‘‘
’’کچھ بھی ہو، یہ کمرہ تم لوگوں کی ذمہ داری ہے، تمھیں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ میں تم لوگوں کو ایک اور کمرہ دے دوں گا لیکن رش بہت ہے، صرف ایک کمرہ ہی رہ گیا ہے جو کہ سوٹ ہے اور اس کا کرایہ دگنا ہے۔‘‘
’’مسٹر براؤن!‘‘ دانیال نے غصے سے کہا: ’’یہ گندگی ہم نے نہیں پھیلائی ہے لیکن ہم اس کی ادائیگی کر دیں گے، مگر اچھی طرح سنیں کہ آپ اچھا نہیں کر رہے ہیں ہمارے ساتھ۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ منیجر نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ’’آئیں میرے ساتھ، جو جو چیز خراب ہو گئی ہے، اس کی فہرست بنا کر میں تمھیں جرمانے کی رقم بتاؤں گا اور پھر تم نے نئے کمرے کا کرایہ ادا کرنا ہے۔‘‘
وہ تینوں اس کے پیچھے چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد وہ نئے کمرے میں موجود تھے۔ یہ سوٹ تھا اور انھیں پسند آ گیا تھا لیکن تینوں کا دل خراب ہو رہا تھا، ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی تھی۔
’’چلو، چھت پر جا کر آرورا بوریلس دیکھتے ہیں اور اس شام کو جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، اسے بھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ جبران نے کہا تو انھوں نے خاموشی سے اپنا اپنا کوٹ اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو تینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
تینوں نے نورِ فجر دیکھنے سے قبل کمرے میں جا کر غسل لینے کا فیصلہ کیا اور میز پر بل کے ساتھ ویٹرس کے لیے ٹپ بھی چھوڑ دی اور اوپر آ گئے۔ فیونا نے دروازے کے تالے میں چابی گھمائی اور دروازہ جیسے ہی کھلا، سڑی بد بو کا ایک جھونکا آیا اور وہ تینوں اچھل پڑے۔
’’یہ کیسی بد بو ہے؟‘‘ فیونا پریشان ہو گئی۔ ’’ارے یہ آوازیں کیسی ہیں؟‘‘ دانیال تیزی سے باتھ روم کے بند دروازے کی طرف بڑھا: ’’ایسا لگتا ہے کہ اندر پرندے ہوں۔‘‘
انھوں نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا، بہت ہی برا حشر بنا تھا کمرے کا۔ بد بو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ وہ چٹکی سے ناک دبانے پر مجبور ہو گئے تھے، اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد انھیں سانس لینے کے لیے ناک کھولنی پڑ رہی تھی۔ دانیال نے باتھ روم کے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی اور کہا: ’’مجھے لگتا ہے اندر کبوتر بند ہیں، غٹر غوں کی آوازیں آ رہی ہیں، کیا میں یہ دروازہ کھول دوں؟‘‘ اس نے دونوں کی طرف دیکھا۔
جبران نے حیران ہو کر کہا: ’’لیکن کبوتر اندر کیسے آ گئے! کیا تم دونوں میں سے کسی نے کھڑکی کھلی چھوڑ دی تھی؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بستر پر بچھے ہوئے کمبل پر بیٹھ گیا لیکن بیٹھتے ہی فوراً اچھل پڑا۔ ’’اس میں کچھ ہے، مجھے چپچپا سا محسوس ہوا۔‘‘
دانیال اور فیونا بستر کے قریب آ گئے: ’’تم کمبل اٹھا کر دیکھو، نیچے کیا ہے؟‘‘ دانیال نے کہا۔’’نن … نہیں۔‘‘ جبران گھبرا کر بولا: ’’پپ … پتا نہیں اندر کوئی لاش نہ ہو۔‘‘ فیونا نے منھ بنا کر کہا یہاں کسی لاش کا کیا کام، بستر میں کوئی لاش ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے میں دانیال کی آواز آئی، تو پھر باتھ روم میں کبوتر کہاں سے آ گئے؟ فیونا کو یہ سن کر غصہ آ گیا، اور انھیں ڈرپوک کا طعنہ دے کر آگے آئی اور کمبل کا ایک کونا پکڑ کر اسے الٹ دیا۔ اس کے نیچے کھانا پھیلا کر پورے بستر اور تکیوں کا ستیاناس کیا گیا تھا۔ فیونا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ’’اب سمجھ آ گیا، یہاں کوئی داخل ہوا تھا اور کھانا بستر پر ڈال کر گندگی پھیلا کر چلا گیا، میں ابھی منیجر سے بات کرتی ہوں۔‘‘
ٹھہرو فیونا، پہلے باتھ روم کا جائزہ تو لیں۔‘‘ دانیال نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی کبوتر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے اور وہ تینوں خود کو ان سے بچانے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ باتھ روم کے فرش اور دیواروں پر شیمپو، ٹوتھ پیسٹ اور کبوتر کی بیٹ جا بہ جا پڑی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر فیونا کا غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ ’’میں سمجھ گئی ہوں، یہ سب اس خبیث ڈریٹن کی حرکت ہے، اسی نے آ کر یہ سب کیا ہے۔‘‘
’’لیکن فیونا، تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو، کیا پتا کہ یہاں ہمارے کسی نادیدہ دشمن نے ایسا کیا ہو۔‘‘ دانیال بولا۔
’’میں ابھی معلوم کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور کبوتروں کو ٹیلی پیتھی کے ذریعے مخاطب کیا: ’’کبوترو، تم جہاں سے آئے ہو، وہاں واپس چلے جاؤ، اور یہ بتاتے جاؤ کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
ایک کبوتر نے جواب دیا کہ انھیں ڈریٹن نے حکم دیا تھا، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ڈریٹن اپنی شیطانی قوت سے انھیں نقصان پہنچا دیتا۔ کبوتر نے فیونا کا نام لے کر معذرت بھی کی، جس پر فیونا حیران ہوئی کہ اسے نام کیسے معلوم ہوئے۔ کبوتر نے کہا پرندے فطرت کا حصہ ہوتے ہیں، جب کوئی ان سے بات کرتا ہے تو فطرت انھیں اس کا نام بتا دیتی ہے، اور یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا اور ڈریٹن مکمل شیطان ہے۔ فیونا نے یہ سن کر سر ہلایا اور پھر کھڑکی کھول دی، سارے کبوتر اڑ کر باہر چلے گئے۔
وہ تینوں اس واقعے سے سخت غصے میں تھے، فیونا انٹرکام پر ہوٹل کے منیجر کو اطلاع دینے لگی۔
(جاری ہے)
-
ایک سو بیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
سارے دن کے سیر سپاٹے کے بعد تینوں خوب تھک گئے تھے۔ بھوک زوروں پر تھی، فیونا نے پوچھا کہ پہلے کمرے میں جا کر نہایا جائے یا پیٹ کا مسئلہ حل کیا جائے۔ دانیال نے کہا کہ اس کے پیٹ میں تو چوہوں نے تیسری عالمی جنگ برپا کر دی ہے، اس لیے یہ مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ جبران نے بھی تائید کر دی اور ساتھ میں امید ظاہر کی کہ ہوٹل کا ریستوران کچھ ڈھنگ کا ہوگا۔ تینوں ہوٹل کی لابی سے گزر کر ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے۔ یہ ایک کمرہ نما جگہ تھی جہاں دس میزیں ادھر ادھر لگائی گئی تھیں۔ ہر میز پر ایک ایک موم بتی روشن تھی اور ساتھ ایک ننھا مسالہ بھرا بارہ سنگھا رکھا ہوا تھا۔ دیواروں پر بارہ سنگھے اور ریچھوں کے بڑے بڑے سر نکلے ہوئے تھے۔ جبران نے انھیں دیکھ کر برا منھ بنایا اور کہا: ’’کوئی بارہ سنگھا یا ریچھ مرا ہوگا تو انھوں نے اس کی کھال کے اندر چیزیں بھر کر انھیں یہاں لٹکا دیا۔‘‘
’’میرے خیال میں یہ حقیقی نہیں ہیں، مینو دیکھ کر اپنے لیے ڈش پسند کرو۔‘‘ فیونا نے کہا۔
دانیال بولا: ’’میں تو بارہ سنگھے کی پسلیاں اور ہرن کا قورمہ اور اس کے ساتھ یوکان کے گولڈ پوٹیٹو، گرم ڈبل روٹی اور موزبیری جیلی کا آرڈر دوں گا۔‘‘ جبران آنکھیں دکھا کر بولا: ’’اس کے لیے انھیں ایک بارہ سنگھا اور ہرن مارنا پڑے گا۔‘‘فیونا نے ہنستے ہوئے کہا: ’’جبران، میں تو اود بلاؤ کی بُھنی ہوئی دم کھانے جا رہی ہوں۔ ہاں، مجھے پتا ہے کہ کسی غریب اود بلاؤ نے اپنی جان دی ہوگی، اس کے بعد کہیں جا کر اس کی دم میرے حصے میں آئے گی۔ لیکن یہ ہے دل چسپ۔ ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ میں بھی یوکان کے گولڈ پوٹیٹو وِد ڈبل روٹی منگواؤں تو اچھا رہے گا۔ سائیڈ میں نرم بٹر مِلک بسکٹ اچھے رہیں گے۔‘‘
جبران نے منھ بنایا اور کہا: ’’میں صرف پوٹیٹو، بٹر ملک اور سلاد لوں گا۔‘‘ تھوڑی دیر جب ویٹرس آئی تو فیونا نے اس کے نام کا ٹیگ پڑھ کر اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’مس روتھ، کیا یہ موز بیری جیلی بارہ سنگھے کی ہے؟‘‘ ویٹرس نے جواب دیا: ’’نہیں، یہ کرابیری سے بنائی جاتی ہے، ہم اسے موز بیری اس لیے کہتے ہیں تاکہ سیاح اس میں دل چسپی لیں۔‘‘
ویٹرس آرڈر لے کر چلی گئی اور وہ تینوں خاموشی سے کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ دیواروں پر سونے کی کانوں کے دنوں کی تصاویر لٹکی ہوئی تھیں۔ کھانا ختم کرنے کے بعد جب ویٹرس نے فیونا کو بل دیا تو پوچھنے لگی کہ کیا وہ تینوں پہلی بار وائٹ ہارس آئے ہیں۔ فیونا نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ اس سے قبل ہم یہاں کبھی نہیں آئے۔ اس نے مشورہ دیا کہ آج رات آرورا بوریلس ضرور دیکھیں، یہ ایک رنگین نظارہ ہوتا ہے۔ فیونا نے کہا کہ اس نے یہ نظارہ اسکاٹ لینڈ میں بھی دیکھا ہے لیکن ویٹرس کا کہنا تھا کہ اتنا روشن نظارہ اور کہیں نہیں ہوتا۔ روتھ نے بتایا کہ انھیں بس اتنا کرنا ہے کہ آج رات اس ہوٹل کی چھت پر پہنچ جانا ہے، جہاں ہوٹل کے مہمانوں کے لیے نشستیں رکھوائی گئی ہیں۔دانیال نے اس کے جاتے ہی آرورا بوریلس کے بارے میں پوچھ لیا۔ فیونا بتانے لگی کہ زمین پر شمال بعید کے علاقے میں جو نارتھ پول کہلاتا ہے، وہاں سورج سے برقی ذرات خارج ہو کر جمع ہو جاتے ہیں، جس سے روشنی کی رنگین پٹی بن جاتی ہے۔ یہ روشنیاں آرورا بوریلس یعنی انوارِ قطبی کہلاتی ہیں۔ اور اس کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آرورا قدیم روم کی ایک دیوی کا نام ہے جو فجر کی دیوی کہلاتی ہے۔
(جاری ہے….)
-
ایک سو اکتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
دوسری طرف ڈریٹن نے ان کا پیچھا جاری رکھا تھا؛ جب اس نے ان تینوں کو ہوٹل ریورزایج اِن میں کمرہ لیتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ تینوں رات یہیں گزاریں گے۔ اس نے بھی رات اسی ہوٹل میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے لیے کمرہ لیتے ہوئے جب اس نے فیونا کے کمرے کا نمبر دیکھا تو اس نے کلرک سے ساتھ والے کمرے کی درخواست کی۔ وہ کمرے کی چابی لے کر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج رات ان تین شیطانوں کے ساتھ خوب کھیل کھیلے گا۔ کمرے میں پہنچ کر پہلے تو وہ سو گیا، پھر تین گھنٹے بعد اٹھ کر اس نے خود کو تیار کر لیا۔ اس کے اور فیونا کے کمرے کے درمیان صرف ایک دروازہ تھا۔ اس نے خود کو اتنا چھوٹا کر لیا کہ آسانی سے دروازے کے نیچے سے ہوتا ہوا اندر پہنچ گیا اور پھر اپنے نارمل سائز میں آ گیا۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس نے فون اٹھا کر روم سروس کے لیے آرڈر دیا: ’’مجھے تین عدد آئس کریم چاہیے، اس کے اوپر بہت ساری مکھن ملائی، بارہ سنگھے کی یخنی، روسٹ کی ہوئی اودبلاؤ کی دُم، اور ہاں اس کے ساتھ بہت سارا سان ضرور ہو۔‘‘
آدھے گھنٹے بعد ویٹر نے دروازے پر دستک دی تو ڈریٹن نے دروازہ کھول کر اسے بھاری ٹپ دی۔ اس کے جانے کے بعد ڈریٹن نے کھانوں کی ٹرے بستر پر الٹ دی، اور تکیے کمبل سمیت دونوں بستر بری طرح خراب کر دیے۔ ’’اب مزا آئے گا۔‘‘ اس نے ایک شیطانی قہقہہ لگایا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوبز اور شیمپو کی بوتلیں اٹھائیں اور پورے باتھ روم کی ایسی تیسی کر دی۔ دیواریں، دروازے، سنک، کچھ نہ چھوڑا۔ اس نے کھڑکی کھولی، ہوٹل سے ایک تار قریبی ٹیلی فون کھمبے تک گئی تھی، اس پر کبوتر بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کبوتروں سے کہا: ’’پرندو، اندر آؤ، یہاں گندگی پھیلاؤ۔‘‘
کبوتروں نے ان کے حکم کو سنا اور اندر باتھ روم میں اڑ کر آ گئے۔ پھر جہاں جہاں وہ بیٹ کر سکتے تھے انھوں نے کی۔ ڈریٹن نے کھڑکی بند کی اور تولیہ لے کر اسے کبوتروں کی طرف سے زور سے لہرایا، ان کے پر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے۔ اس وقت اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ بڑبڑایا: ’’ریورز ایج اِن کے مہمانوں کے لیے خصوصی سرپرائز!‘‘
اس کے بعد خود کو دوبارہ ننھا منا کر کے وہ اپنے کمرے میں داخل ہو گیا، اور قصبے میں گھومنے پھرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو چالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
دانیال نے جلدی سے لقمہ دیا: ’’اور میں دیکھ رہا ہوں کہ نوکیلے دانتوں والا ایک ٹائیگر اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا اُسے گھور رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا۔ جبران نے غصے سے اسے گھور کر دیکھا اور ڈپٹ کر بولا: ’’تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔‘‘ دانیال نے جلدی سے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے سر نفی میں ہلا دیا اور پھر ہنسنے لگا۔ فیونا ان کے دونوں کے درمیان آ کر بولی کہ اب پھر سے جھگڑنے مت لگ جانا۔ اس نے انھیں ایک جگہ آثار قدیمہ کے لیے ہونے والی کھدائی کے بارے میں بتایا جسے اس نے آتے ہوئے دیکھا تھا، اس نے خیال پیش کیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں کچلی دار یعنی نوکیلے دانتوں والے قدیم شیر کی ہڈیاں دیکھنے کو مل جائیں۔ دونوں تیار ہو گئے، اور دس منٹ بعد ہی وہ آثار قدیمہ کی ایک سائٹ پر موجود تھے، جہاں کھدائی ہو رہی تھی۔ فیونا نے وہاں ایک شخص سے پوچھا: ’’کیا آپ ہمیں ہڈیا وغیرہ دکھا سکتے ہیں؟‘‘
وہاں موجود شخص نے بتایا کہ یہ جگہ ابھی عام لوگوں کے لیے نہیں کھولی گئی ہے، اگر انھیں پتھر میں بدلنے والی قبل از تاریخ کی باقیات یعنی فوسلز دیکھنے ہیں تو انھیں قریبی میوزیم جانا چاہیے۔ وہ وہاں سے میک برائڈ میوزیم پہنچ گئے۔ دانیال کو سیبر ٹوتھ ٹائیگر کے کرپان جیسے دانت دیکھنے کا شوق تھا، جبران کو میمتھ کی ہڈیاں دیکھنی تھیں جب کہ فیونا کو سونے سے بنی قدیم اشیا۔ تینوں اپنی اپنی پسند کی چیزیں دیکھنے لگے۔ فیونا کہنے لگی: ’’یہاں تو یوکان میں پائے جانے والے سونے کی پوری تاریخ موجود ہے، مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہاں گھڑ سوار شاہی پولیس ہوا کرتی تھی، اب معلوم ہو رہا ہے کہ کینیڈا کی پولیس گھڑ سوار پولیس کہلاتی ہے۔‘‘
وہ اس وقت ایسے لوگوں کی تصاویر دیکھ رہی تھی جو دریا کنارے گھٹنوں پر بیٹھے پراتوں کے ذریعے پانی میں مٹی چھان رہے تھے اور سونا الگ کر رہے تھے۔ جبران نے دیکھا کہ وہاں ایک ایسی لکڑی بھی ہے جو پتھر بن چکی ہے۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو اڑتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن اس کے قریب سے تیزی کے ساتھ گزرا تھا، اور اس نے کالر اٹھایا ہوا تھا تاکہ فیونا اسے ٹھیک طور سے نہ دیکھ سکے۔ وہ فیونا کے ساتھ آنکھیں بھی ملانا نہیں چاہ رہا تھا اس لیے بس میں سر جھکا کر چڑھا تھا۔ جب ایک نوجوان جوڑا اس کے برابر میں بیٹھنے کے لیے آیا تو اس نے انھیں گھورا اور ہلنے سے انکار کر دیا۔ وہ مجبوراً دوسری سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈریٹن نے آنکھیں بند کر لیں اور وائٹ ہارس تک کا یہ سفر برداشت کرنے لگا۔
جبران نے کیمرہ واپس فیونا کے بیگ میں رکھتے ہوئے کہا کہ وہ لیٹ گیا ہے لیکن اس میں عجیب بات کیا ہے؟ فیونا نے کہا: ’’مجھ پر ریچھ کا حملہ کوئی اتفاق نہیں تھا، ڈریٹن نے ضرور اسے مجھ پر حملے کا حکم دیا ہوگا۔‘‘
’’ڈریٹن … کیا وہ یہاں ہے؟‘‘ دانیال اس کا نام سن کر چونک اٹھا۔ ’’اس کی شکل و صورت کیسی ہے؟‘‘ فیونا بتانے لگی کہ اس کے بال لمبے سیاہ ہیں اور کانوں میں بالیاں لٹکی ہوئی ہیں۔ دانیال نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا کہ اس نے تو بالیاں نہیں پہنیں، اور بال بھی چھوٹے ہیں۔ جبران بولا کہ ہو سکتا ہے اس نے بال ترشوا لیے ہوں اور بالیاں بھی اتار دی ہوں، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ دانیال نے پوچھا کہ اب وہ کہاں جا رہے ہیں، تو جبران نے جواب دیا: ’’یوکان کے کیپیٹل وائٹ ہارس، جو ایک بڑا شہر ہے اور جنوبی یوکان میں الاسکا ہائی وے پر واقع ہے۔‘‘
فیونا نے رینجر کو جبران کے قریب بیٹھتے دیکھ کر مسکرا کر کہا: ’’ایکسکیوز می سر!‘‘
رینجر نے مسکرا کر کہا: ’’میرا نام شَین جَینکن ہے۔‘‘
’’تو مسٹر شین، کیا یہاں آس پاس گلیشیئرز ہیں؟‘‘
’’گلیشیئرز ۔۔۔‘‘ شین نے حیران ہو کر دہرایا: ’’یہ ملک ہی گلیشیئرز کا ہے۔‘‘
’’آپ مجھے فیونا پکار سکتے ہیں، اور یہ جبران اور دانی ہے۔‘‘
’’تم تینوں کہاں سے آئے ہو؟ تمھارا لہجہ برطانوی طرز کا ہے۔‘‘
’’جی ہم اسکاٹ لینڈ سے آئے ہیں۔‘‘
’’اسکاٹ لینڈ … بہت خوب۔‘‘ شین بولا: ’’تو تمھارے والدین کہاں ہیں؟ اکثر والدین اپنے بچوں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اکیلے وحشی ریچھوں کو دیکھنے نکل پڑیں۔‘‘
یہ سن کر تینوں کے پیٹ میں مروڑ شرو ہو گیا۔ یہ سوال ان کے لیے ہمیشہ بڑا پریشان ہوتا تھا، فیونا نے جلدی سے بات بنائی: ’’دراصل انھیں پیٹ میں کچھ گڑبڑ محسوس ہو رہی تھی، اس لیے وہ نہیں آئے اور ہمیں اس لیے آنے دیا کیوں کہ وہ ہم پر بہت بھروسا کرتے ہیں۔‘‘
’’او کے، تم گلیشیئرز کے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھی؟ یوکان میں یوں تو بہت سارے ہیں لیکن یہاں سے دور ایک جگہ ہے جسے کلونی نیشنل پارک کہا جاتا ہے، یہ وادئ گلیشیئر کے نام سے مشہور ہے۔‘‘
فیونا نے کوئی جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر لیا: ’’کیا آپ کچھ اضافی رقم کمانا چاہیں گے؟‘‘ شین کے چہرے پر یہ سن کر خوشی کا رنگ بکھر گیا اور بولا: ’’کیوں نہیں، ضرور، بتاؤ تمھیں کیا چاہیے۔‘‘
’’ہمیں کلونی لے جائیں، ہم گلیشیئرز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے والدین برا نہیں منائیں گے، وہ ہمیشہ ہمیں اکیلے جانے دیتے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں، میں تم تینوں کو لے جا سکتا ہوں۔‘‘ شین نے جواب دیا۔ ’’مجھے ایک جیپ کرائے پر لینی پڑے گی، اچھا خاصا کرایہ لگے گا۔‘‘
اس کے بعد وہ خاموشی سے وائٹ ہارس کی طرف سفر طے کرنے لگے۔ بس کے شیشوں سے باہر کے خوب صورت مناظر دیکھ کر وہ تعریف پر مجبور ہوتے رہے۔ انھیں برفانی ہرن، بارہ سنگھے، جنگلی بھینسے، پہاڑی بکرے اور اکا دکا سفید سر عقاب بھی نظر آیا۔ جبران کو سڑک کے کنارے جھاڑیوں کے درمیان بیری جیسے پھل کے درخت بھی نظر آئے، جب اس نے شین سے اس کا ذکر کیا تو وہ بولا: ’’یہ بیری ہی ہے، یوکان بیری کے حوالے سے ایک مشہور جگہ ہے، تم نے جو بیری دیکھی یہ گوز بیری کہلاتی ہے۔‘‘
’’ہم نے کبھی گوز بیری نہیں کھائی، یا کم از کم میں نے تو نہیں کھائی۔‘‘ جبران بولا۔ اس نے فیونا کی طرف دیکھا تو اس کی توجہ ڈریٹن کی طرف تھی۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: میں اس شیطان کو خوب پہچانتی ہوں، وہ سوچ رہا ہے کہ وہ خود کو ڈرپوک ظاہر کر رہا ہے لیکن میں اس کی مکاری سے واقف ہوں۔ بے وقوف ڈریٹن۔ وہ ضرور سوچ رہا ہو گا کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اسے پہچانا بھی نہیں ہو گا … ہونہہ ۔۔۔
(جاری ہے….)
-
ایک سو سینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جب رینجر نے ٹرینکولائزر ڈارٹ (بے ہوشی کے تیر) کے ذریعے ریچھ کو مار گرایا تو ڈریٹن کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔ لیکن وہ بھی یہ سوچ کر باقی لوگوں میں شامل ہو گیا تاکہ لاپروا دکھائی دے، اور کسی کی نظروں میں نہ آ جائے۔ قریب آ کر اس نے دیکھا کہ فیونا بالکل ٹھیک ہے تو جھنجھلا کر سوچنے لگا کہ یہ منحوس لڑکی ہر بار کسی نہ کسی طرح بچ ہی جاتی ہے۔
دانیال پر خوف کے مارے بدحواسی طاری ہو گئی تھی۔ وہ بولا: ’’تم ٹھیک ہو نا فیونا؟‘‘ پھر اس نے ریچھ کی طرف دیکھ کر پوچھا: ’’ریچھ نے اچانک تم پر حملہ کیوں کر دیا؟‘‘ اسی وقت قریب ہی کھڑی ایک عورت نے تبصرہ کیا: ’’یہ ضرور بہت قریب چلی گئی ہو گی اور ریچھ نے سمجھا ہوگا کہ کہیں یہ اس کے بچوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘
’’ریچھ کے بچے …‘‘ جبران کے منھ سے نکلا اور اس نے جلدی سے آس پاس دیکھا تو بے ہوش ریچھ کے دو بچے ماں کی طرف دوڑتے آ رہے تھے۔ قریب آ کر وہ اس کے بال سہلانے لگے۔ جبران نے پھر کیمرہ سنبھالا اور ان کی تصاویر کھینچنے لگا۔
رینجر نے فیونا کو ہاتھ سے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا: ’’تم ٹھیک ہو نا، یہ ریچھ عموماً کسی کو کچھ نہیں کہتے، پتا نہیں اس نے تم پر حملہ کیوں کیا!‘‘
ایسے میں اچانک فیونا کا خیال ڈریٹن کی طرف چلا گیا تو وہ آس پاس موجود لوگوں میں اسے تلاش کرنے لگی۔ اس کی نظریں ایک لڑکے پر جم گئیں، اس نے اونی ٹوپی سے سر اور گردن کو چھپایا ہوا تھا اور اسے گھور رہا تھا لیکن وہ اس کا چہرہ صاف طور پر نہ دیکھ سکی۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور اپنے کپڑوں سے مٹی اور ٹہنیاں ہٹانے لگی۔ ’’میں بھیگ گئی ہوں، کیا آپ کے پاس کمبل ہوگا؟‘‘ لوگ وہاں سے چھٹنے لگے اور اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہونے لگے۔ رینجر نے کہا کہ اس کے پاس کمبل نہیں ہے اور وہ وائٹ ہارس واپس جا رہے ہیں اگر وہ بھی ان کے ساتھ جائیں تو ہیٹر کے قریب بیٹھ سکیں گے۔ رینجر نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے ان تینوں کو بس میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔
فیونا نے رینجر کا مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور وہ تینوں بس میں چڑھ کر سب سے آگے بیٹھ گئے، باقی مسافر ایک ایک کر کے چڑھنے لگے تو فیونا ہر ایک کو بہ غور دیکھنے لگی۔ جب ڈریٹن چڑھا تو اس نے گردن جھکائی ہوئی تھی۔ فیونا اسے دیکھتی رہی، وہ بس کی پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا اور سیٹ پر اس طرح ٹانگیں پھیلا کر لیٹا کہ دور سے نظر نہیں آ رہا تھا، فیونا نے جبران کو اشارہ کیا: ’’یہ لڑکا کچھ عجیب سا لگ رہا ہے، وہ جو پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔‘‘ جبران اور دانیال دونوں نے مڑ کر اس طرف دیکھا تو فیونا بڑبڑائی: ’’یہ ڈریٹن ہے، میں اسے خوب جانتی ہوں۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو چھتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن کو سردی کے جھونکے نے موسم کا مزاج سمجھا دیا۔ اس نے کوٹ کی جیب سے اونی ٹوپی نکال کر ایسے جمائی کہ گردن بھی اس میں چھپ گئی۔ اس نے نگاہیں دوڑائیں تو کچھ فاصلے پر توقع کے عین مطابق وہ تینوں اسے نظر آ گئے۔ اس کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے سوچا، چلو فیونا کو ذرا یہ تو سمجھا دوں کہ یہاں اس کے ساتھ کیا کچھ پیش آسکتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اب اس کو بھی جانوروں سے باتیں کرنے والی طاقت مل چکی ہے، اس لیے اس نے ایک وحشی ریچھ کو فیونا پر حملہ آور کروانے کا سوچا۔ اس نے دیکھا کہ ایک ریچھ فیونا کی طرف بڑھنے لگا ہے، اس نے ریچھ کو حکم دیا کہ جاؤ اور اس لڑکی کی آنکھیں اپنے پنجوں سے نکال کر پھینک دو!
فیونا اُس وقت گلیشیئرز کا تصور کر کے گھاس پر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی اور گال سہلا رہی تھی جس پر مچھروں نے جا بہ جا کاٹ لیا تھا۔ وہ دریا کی طرف گئی اور ٹھنڈے، برفیلے پانی سے چہرہ دھویا تاکہ کاٹنے سے ہونے والی کھجلی کچھ کم ہو جائے۔ وہ جیسے ہی جھکی، اسے اپنے پیچھے لوگوں کے چلانے کا شور سنائی دیا۔ اس نے جلدی سے سر اٹھا کر دیکھا، ایک وحشی ریچھ اس کی طرف دوڑتا چلا آ رہا تھا اور اس کے دانتوں میں ایک سالمن مچھلی پھنسی ہوئی جھول رہی تھی۔ قریب آ کر وہ رکا اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر بھیانک آواز میں دھاڑنے اور گرجنے لگا۔
اسے جبران کی آواز سنائی دی: ’’فیونا، بھاگو وہاں سے!‘‘ یہ کہہ کر وہ کیمرہ آنکھ سے لگا کر تصویر اتارنے لگ گیا۔ دوسری طرف فیونا جہاں کھڑی تھی وہاں بت بن گئی تھی۔ ریچھ کسی بھی لمحے اسے اپنے پنجوں میں جکڑ سکتا تھا۔ فیونا کو لگا کہ موت اس سے چند قدموں کے فاصلے پر آ گئی ہے اور اس بار وہ اپنا بچاؤ کرنا بھی بھول گئی۔ یکایک ریچھ نے دھاڑنا بند کر دیا اور وہ جھول کر پانی میں جا گرا۔ فیونا کو لگا کہ ریچھ اس پر آ رہا ہے، اس لیے وہ خوف کے مارے پیچھے کی طرف جا گری۔ دور کھڑا پارک رینجر، جس نے بے ہوش کرنے والا تیر پھینک کر ریچھ کو بے ہوش کر دیا تھا، دوڑتا ہوا آ گیا۔ اس کے ساتھ جبران اور دانیال اور دیگر لوگ بھی دوڑتے ہوئے آ رہے تھے۔
(جاری ہے…)