Tag: پراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
-
ایک سو چونتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن کو ہوش آیا تو اس نے خود کو غار کے فرش پر پایا۔ وہ بیٹھنے لگا تو درد کے مارے اس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ اس نے آہستہ آہستہ پہلے دایاں ہاتھ اٹھایا، پھر بایاں اور دونوں ٹانگیں۔ پھر خوش ہوا کہ بدن میں کچھ ٹوٹا نہیں تھا۔ اس نے غار کے سرے کی طرف دیکھا تو یہ ایک ڈھلوان راستہ تھا۔ وہ اٹھنے لگا تو اس کے ساتھ ہی تمام بدن سے ٹیسیں بھی اٹھنے لگیں۔ ہر ٹیس پر اس کے منھ سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکلتیں۔ اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ اسے بے ہوش ہوئے دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔
’’پتا نہیں کون سی سرنگ محفوظ ہے ۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگا: ’’میں یہاں سے نکل کر سب سے پہلے اس چڑیل اور اس کے تمام دوستوں کو موت کے گھاٹ اتاروں گا۔‘‘ غصے سے اس کی ناک کے نتھنے پھول پچک رہے تھے اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ اسے جزیرے کے کنارے پہنچنے کے لیے ایک گھنٹہ لگا۔ جھیل پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن کشتی نظر نہیں آئی۔ اس نے غصے کے عالم میں پیر پٹخے اور پہلان کا نام لے کر چلایا: ’’اب تم بتاؤ پہلان، میں اس جزیرے سے کس طرح نکلوں؟‘‘
اگلے لمحے غیر متوقع طور پر جھیل کے گہرے پانیوں سے ایک گونجتی آواز اٹھی: ’’تیر کر جاؤ!‘‘
ڈریٹن بہت تلملایا لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس سے بہ مشکل چلا جا رہا تھا، بہرحال وہ پانی میں اتر گیا، کمر تک پانی آیا تو اس نے غوطہ لگایا۔ پانی بہت ٹھنڈا تھا لیکن مرتا کیا نہ کرتا، تیرتے ہوئے جھیل پر کرنی پڑی۔ پانی سے نکل کر وہ بری طرح کپکپانے لگا، عادت کے مطابق اس کے منھ سے بڑبڑاہٹ نکلی: ’’ہائے یہ ٹیسیں … اب میں سیدھا اینگس کے گھر جاؤں گا اور ان سب کو موت کی نیند سلا دوں گا، اور وہاں بیٹھ کر گرم گرم چائے پیوں گا۔‘‘
وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، اس کے قدموں تلے خشک پتے کڑکڑا رہے تھے اور خزاں کی ہواؤں نے اس کے گیلے کپڑے اس کے بدن کے ساتھ چپکا دیے تھے۔ جب وہ کھڑکی کے پاس پہنچ کر جھانک رہا تھا تو عین اسی وقت وہ تینوں منتر پڑھنے کے بعد نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔
’’یہ تو نکل گئے۔‘‘ اس نے دانت کچکچائے۔ اس نے دیکھا کہ وہ سب آپس میں ہنسی مذاق کرنے لگے ہیں اور کیک اور پیسٹری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس نے سوچا اگر میں اس گھر کو آگ لگا دوں اور ان سب کو جلا کر راکھ کر دوں تو ان کے ساتھ وہ جادوئی گولہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ نہیں مجھے صبر سے کام لینا چاہیے، وہ وقت بھی آ جائے گا جب میں سب سے پہلے اس لڑکی فیونا کا تیاپانچہ کروں گا۔ وہ سوچتی ہے کہ میرا مقابلہ کر سکتی ہے، ہونہہ …!‘‘
اسی طرح کی باتیں سوچتا، وہ جون اور سوزان مک ایلسٹر کے گھر واپس پہنچ گیا۔ پچھلا دروازہ ایک لات سے کھولا اور اندر پہنچ کر گیلے کپڑے اتار کر پھینکنے لگا۔ نہانے کے بعد وہ کپڑوں کی الماریاں دیکھنے لگا تاکہ کچھ پہن سکے، اور جینز اور براؤن ٹی شرٹ کے ساتھ ساتھ ہائیکنگ بوٹ پسند کر کے پہن لیے۔ جون مک ایلسٹر کا سائز اس پر پورا آ گیا تھا۔ باتھ روم سے قینچیاں بھی مل گئیں، جن کی مدد سے اس نے بال تراش کر چھوٹے کر دیے اور کٹے ہوئے بال سِنک میں ڈال دیے۔ اس کے بعد کانوں سے بالیاں نکال کر آئینے میں اپنا سراپا دیکھا اور سوچنے لگا کہ اب وہ لوگ اسے نہیں پہچان سکیں گے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ تینوں اس بار کس جگہ پہنچے ہوں گے، کوئی ٹھنڈی جگہ نہ ہو، مجھے کوٹ بھی لے لینا چاہیے، دیکھنا تو چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ سوچ کر اس نے ایک کوٹ کا انتخاب کیا، اسے پہنا اور جیب تھپتھپا کر رقم کی موجودگی کو محسوس کیا اور پھر منتر پڑھا۔ اگلے لمحے وہ غائب ہو گیا اور اس نے خود کو ایک دریا کے بیچ میں کھڑے پایا۔ اس نے کناروں پر نگاہیں دوڑائیں، وہاں شمال مغربی امریکا کے نہایت وحشی، بھورے بالوں والے ریچھ ادھر ادھر پھر رہے تھے!
(جاری ہے…)
-
ایک سو بتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
فیونا بلونگڑی کے پاس جا کر بولی: ’’ڈرو مت، یہ بوبی تمھیں اب کچھ نہیں کہے گا۔‘‘
’’نہیں، میں آگے نہیں آؤں گی۔‘‘ بلونگڑی نے جواب دیا۔ ’’تم نے دیکھا نہیں، کتنا بڑا کتا ہے، اس کے دانت اتنے بڑے بڑے ہیں، یہ تو ایک ہی حملے میں مجھے کاٹ ڈالے گا۔ مجھے اس کے پنجوں سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
فیونا اسے حوصلہ دینے لگی: ’’تم گھبراؤ مت، میں نے کتے سے بات کر لی ہے، اس کا نام بوبی ہے اور اب یہ تمھیں نہیں کاٹے گا۔‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے مڑ کر کتے کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے، میں اس وقت بلی کو جانے دے رہا ہوں۔‘‘ جبران نے کہا: ’’فیونا، تم اب بلی سے بھی بات کر رہی ہو، آخر یہ جانور کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
فیونا ان دونوں کو کتے اور بلی کے جھگڑے کے بارے میں بتانے لگی، پھر بلونگڑی سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے جواب میں کہا ٹمبل۔ فیونا اچھل کر بولی: ’’ارے یہ کیا احمقانہ نام ہے، تمھارا نام فلفّی، جنجر، مارملیڈ یا اسی طرح کا کچھ ہونا چاہیے تھا نا … ٹمبل … ہش !‘‘
اس نے منھ بنا کر بوبی کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹ اس طرح گول ہوئے جیسے ہنس رہا ہو۔’’کیا یہ کتا ہنس رہا ہے؟‘‘ دانیال نے دل چسپی سے آگے آ کر پوچھا، وہ جھک کر دونوں جانوروں کو قریب سے دیکھنے لگا تھا۔ ’’اے لڑکے، زیادہ قریب مت آؤ، فاصلہ رکھو۔‘‘ بوبی غرّایا تو دانیال جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ فیونا نے بلونگڑی سے کہا: ’’اب ہم جا رہے ہیں، تم جھاڑیوں سے نکل کر میرے پاس آؤ۔ میں تمھیں انکل اینگس کے ہاں لے جاؤں گی، وہاں اور بھی بلیاں ہیں اس لیے تمھاری آمد پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، تم وہاں محفوظ رہو گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں آ رہی ہوں لیکن اس کتے کو مجھ سے دور رکھو۔‘‘ بلونگڑی بولی اور رینگ رینگ کر جھاڑیوں سے نکلنے لگی۔ ایسے میں دانیال نے سکون کا لمبا سانس لیا اور بولا: ’’چلو اچھا ہوا، اب ہم اس سے زیادہ اہم کام کر سکیں گے یعنی دنیا کو شیطان سے بچانے کا کام۔‘‘
وہ تینوں مسز بٹلر کے گھر سے ہوتے ہوئے کچھ ہی دیر میں انکل اینگس کے دروازے پر پہنچ گئے۔ انھوں نے خود دروازہ کھولا: ’’تو تم تینوں ہو، نہیں بلکہ ایک عدد بلی بھی ہے، یقیناً میرے لیے لائی ہوگی۔‘‘
اسی لمحے فیونا کو بلونگڑی کی باتیں سنائی دینے لگیں، وہ کہہ رہی تھی: ’’یہ کیا بے ہودگی ہے، کیا میں بلی ہوں؟ کیا اس شخص کو اتنا بھی نہیں پتا کہ میں بلی ہوں یا نہیں۔ میں تو مشکل میں پڑ جاؤں گی یہاں۔‘‘
’’شش… ‘‘ فیونا نے اسے چپ کرایا اور کہا کہ انکل اینگس بہت اچھے آدمی ہیں اور بلیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ فیونا نے اسے اینگس کے حوالے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ٹمبل ہے اور اسے انھوں نے جین بٹلر کے کتے سے بچایا ہے۔ اینگس نے اس سے بلی کا بچہ لے لیا اور انھیں اندر بھیج دیا جب کہ بلونگڑی کی دوسری بلیوں کے ساتھ جان پہچان کرانے کے لیے گھرے کے پچھواڑے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ تینوں اندر آئے تو سوائے فیونا کی ممی کے، سب موجود تھے۔ انھوں نے ٹھنڈا پانی پیا اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں جانی اور جیک بھی کتاب لے کر آ گئے۔ جانی نے کتاب اینگس کے بستر پر رکھی اور باقی لوگوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اتنے میں مائری بھی پہنچ گئیں اور ان کے ہاتھوں میں ایک بڑا بیکری باکس تھا۔ انھوں نے آتے ہی کہا: ’’اگر کوئی بھوکا ہے تو میں کیک، اسکاؤن، ڈبل روٹی اور پیسٹریاں لائی ہوں۔‘‘
یہ سن کر سب ہی خوش ہو گئے۔ جانی نے کہا اب تم سب لوگ بیٹھ جاؤ تو بہتر ہوگا۔ سب بیٹھ گئے تو اینگس بھی اندر چلے آئے اور فیونا کی طرف دیکھ کر بولے: ’’تو تم تینوں اپنی اگلی مہم کے لیے تیار ہو؟‘‘
یہ سن کر مائری ایک دم اچھل کر کھڑی ہو گئیں۔
(جاری ہے)
-
ایک سو تیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جونی نے کہا: ’’جب وہ وقت آئے گا تو دیکھیں گے۔‘‘ دونوں زر و جواہر کے درمیان قدیم کتاب ڈھونڈنے لگے، جونی نے کئی دیدہ زیب اور قیمتی زیور اٹھا کر پینٹ کی جیب میں رکھے تو جیک کی توجہ پینٹ کی طرف چلی گئی۔ اس نے کہا: ’’جدید دور کا یہ لباس بھی کتنا عجیب ہے، مجھے تو بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے اس میں۔‘‘
جونی ہنس پڑا اور کہا کہ اسے یہ لباس بہت پسند آیا ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد جب وہ تھک چکے تھے، انھیں آخر کار کتاب مل گئی۔ جونی نے کہا ہمیں اسے ڈریٹن سے دور رکھنا ہوگی، اس کا ایک بھی لفظ اس کے کانوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ وہ دونوں محتاط ہو کر خفیہ دروازے بند کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ جیک نے کہا کہ وہ اوپر مرکزی ہال میں شیشے کی منقش کھڑکیوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ دونوں سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ ڈریٹن ابھی ہال سے نکلنے کے لیے مڑ ہی رہا تھا کہ اسے سیڑھیوں کی طرف سے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سیڑھیوں کی طرف مڑ کر چلایا: ’’پہلان … یہ تم ہو؟‘‘
جیک اور جونی ایک دم رک گئے۔ جونی سرگوشی میں بولا: ’’میرا خیال ہے یہ ڈریٹن ہے، میں اس سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
وہ دونوں اوپر کی طرف دوڑے۔ اس دوران ڈریٹن نے پھر پکارا … پہلان … لیکن اسے دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ اسے فوراً خطرہ محسوس ہوا، وہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر قلعے کے باہر کی طرف دوڑ پڑا تاکہ کہیں چھپ سکے۔ وہ دونوں جب اوپر ہال میں آئے تو ڈریٹن نہیں تھا۔
’’بزدل پھر بھاگ گیا۔‘‘ جونی جھنجھلا کر بولا۔ ’’میں اسے ڈھونڈنے باہر جا رہا ہوں، تم یہاں رک کر منقش شیشے والی کھڑکی دیکھو، ہاں یہ کتاب اپنے پاس رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف دوڑا اور جیک کو قلعے کے اندر اکیلا چھوڑ دیا۔
ڈریٹن چھپ کر دیکھ رہا تھا، جب اس نے جونی کو باہر نکلتے دیکھا تو جھلا کر بڑبڑایا: ’’یہ پھر وہی آدمی آ گیا ہے، آخر یہ ہے کون؟ میں ایک بار پھر اپنا قد بڑا کر کے اسے قدموں سے کچل دوں گا۔‘‘
وہ پہاڑیوں اور مجسموں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اور بار بار اپنی جگہ بدل کر جونی پر نظر رکھ رہا تھا۔ ایک موقع پر جونی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا، تب اس کی نظر سدا بہار صنوبری درخت ئیو کی باڑ پر پڑی۔ ’’ارے واہ، یہ تو بھول بھلیاں ہیں، شان دار۔‘‘ وہ خوش ہو کر دوڑتا ہوا اس میں داخل ہو گیا اور ایک کے بعد ایک موڑ مڑ کر دائروں میں گھومنے لگا، یہاں تک کہ وہ بھول بھلیوں کے وسط میں پہنچ گیا۔ اس کے سامنے ایک مجسمہ کھڑا تھا، جس کے قریب جا کر اس نے تختی پڑھی، لکھا تھا … کنگ رالفن، کنگ کیگان کے جدِّ امجد۔ ڈریٹن بڑبڑانے لگا: ’’تو یہ تم ہو بوڑھے بادشاہ، تم سے تو میں زیادہ خوب صورت لگ رہا ہوں، ہونہہ …‘‘
یکایک اس کے کان کھڑے ہو گئے، شاخیں ٹوٹنے کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ اس نے باڑ سے ادھر ادھر جونی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ تب وہ تیزی سے مڑا اور مجسمے کے سامنے موجود کنوئیں کے اوپر رکھے ٹوٹے تختوں پر بغیر دیکھے پاؤں رکھ دیے۔ اگلے لمحے اس کے منھ سے ایک خوف زدہ چیخ نکلی اور اس نے خود کو ایک اندھے کنوئیں میں گرتے پایا۔ کنوئیں کی پتھریلی دیواروں سے اس کے کندھے چھل گئے اور سر زخمی ہوا۔ آخر کار ایک زبردست دھپ کے ساتھ وہ ایک سرنگ کی تہہ میں گر پڑا اور پھر اسے کوئی ہوش نہ رہا۔
دوسری طرف جونی نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ اس کے ہاتھ نہ آ سکا، چناں چہ تھک ہار کر واپس ہال میں پہنچ گیا جہاں جیک ابھی تک اس منقش شیشے والی کھڑکی کو تک رہا تھا، جونی کی سماعت سے اس کی آواز ٹکرائی: ’’تو یہ ہیں بادشاہ کے بچے۔‘‘جونی چونک اٹھا۔ جیک رو رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا: ’’کیگان کو دیکھو، کتنا خوش نظر آ رہا ہے اور ملکہ تو ہمیشہ کی طرح بے حد خوب صورت ہے۔‘‘
جونی نے اپنے دوست کے کندھے تھپتھپائے اور کہا: ’’چلو، یہ کتاب اینگس تک پہنچائیں۔‘‘ایک درخت کے ساتھ بندھی ہوئی کشتی انھیں مل گئی۔ جیک نے پائن کے سوکھے درختوں پر نظر ڈالی لیکن زبان سے کچھ نہ کہا۔ جونی بڑبڑایا، اچھا ہوا یہ کشتی ہمیں مل گئی، ڈریٹن اب جھیل تیر کر پار کرے گا۔
کچھ دیر بعد دونوں دوسری طرف پہنچ گئے۔ جیک نے کشتی کھینچ کر ایک سدا بہار جھاڑی کَنِیر کے پیچھے اسے چھپا دیا اور دونوں گھر کی طرف تیز قدموں سے چلنے لگے۔ ڈریٹن غار کے اندر زخمی حالت میں بے ہوش پڑا رہا۔
(جاری ہے)
-
ایک سو انتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
’’ہاں وہ یہیں کہیں ہے، ذرا روشنی اس طرف ڈالنا۔‘‘ جونی نے کہا تو جیک نے اس طرف کی دیوار پر روشنی ڈالی۔ جونی کو مطلوبہ جگہ دکھائی دے گئی۔ اس نے ایک اینٹ پر دونوں ہاتھوں کا دباؤ ڈالا تو دیوار میں حرکت پیدا ہو گئی اور سیڑھیوں پر ذرات گرنے لگے۔ دیوار میں ایک دروازہ نمودار ہوا۔ دونوں اپنے سامنے موجود ایک چوکور کمرے میں داخل ہو گئے۔ یہ لمبائی اور چوڑائی میں پانچ فٹ کا کمرہ تھا جس میں وہ جھک کر داخل ہوئے۔ جیک نے دروازے کے راستے میں ایک پتھر رکھا تاکہ وہ بند نہ ہو جائے اور پوچھا: ’’تم یہاں کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ایک اور درازہ۔‘‘ جونی مسکرایا۔ جیک حیران ہوا اور بولا کہ کیا وہ کمرہ اس سے بھی چھوٹا ہوگا۔ لیکن جونی نے بتایا کہ وہ دروازہ انھیں نسبتاً بڑے کمرے میں لے جائے گا۔ جونی نے محسوس کیا کہ جیک بند جگہوں سے ڈر رہا ہے، اس نے دل چسپی سے اس کا ذکر کر دیا۔ جیک بولا: ’’اس خوف کا تعلق میرے بچپن سے ہے۔ کبھی موقع ملا تو میں تفصیل کے ساتھ بتا دوں گا، فی الوقت تم دوسرا دروازہ تلاش کرو۔‘‘
جانی نے اندازے سے ایک اینٹ کو دبایا تو آس پاس کی کئی اینٹیں اپنی جگہ سے سرکنے لگیں اور وہاں تقریباً دس فٹ چوڑا شگاف نمودار ہو گیا۔ اس نے جیب سے کچھ نکال کر اندر کمرے میں گھوم کر دیوار سے لٹکی مشعلیں روشن کر دیں۔
جیک حیرت سے سانس بھرنا بھول گیا تھا، اس کا منھ کھلا تھا اور پھر وہ کھلا ہی رہ گیا۔ یہ کمرہ سونے سے بھرا ہوا تھا۔ شمع دان، صراحیاں، پراتیں، مالائیں اور دوسری بہت ساری چیزیں، جو سونے سے بنائی جا سکتی ہیں، وہاں موجود تھیں۔ چمک دمک والی چیزوں کے درمیان یاقوت، زمرد، ہیرے اور نیلم بکھرے پڑے تھے اور یہ اتنے بڑے تھے جتنی انسان کی ہتھیلی۔
جیک نے کافی دیر بعد سانس لی اور کہا: ’’اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ تمھیں یہ کمرہ یاد رہا۔ میں جانتا تھا کہ کنگ کیگان اپنے ساتھ اپنی دولت کا ایک حصہ لایا تھا لیکن یہ اس مقدار میں ہو گا، یہ معلوم نہ تھا۔‘‘
جونی کہنے لگا: ’’یہ دولت ہم نے وائی کنگ کے چند لشکروں، غرق شدہ ہسپانوی بادبانی جہازوں اور قلعوں پر لشکر کشی کر کے حاصل کی تھی۔ حالاں کہ ہم نے ہمیشہ اپنا دفاع کیا لیکن یہ دولت ہمیں حاصل ہوئی۔ بہرحال، میں تمھیں بتا دوں کہ میں دولت نہیں ڈھونڈ رہا، میں تو ایک کتاب کی تلاش میں یہاں آیا ہوں۔ اسے ڈھونڈنے میں میری مدد کرو۔ یہ چمڑے، سونے اور لکڑی سے بنائی گئی کتاب ہے اور اس کی جِلد کندہ کی گئی ہے۔ تم دیکھتے ہی پہچان لو گے۔‘‘
دونوں کمرے میں پڑے ڈھیر میں سے پیالے اور جام وغیرہ ہٹا ہٹا کر کتاب تلاش کرنے لگے۔ جیک نے اچانک ایک خیال آنے پر کہا کہ ہم ان میں سے اس کے وارثین مائری اور فیونا کے لیے بھی کچھ لے جا سکتے ہیں۔ جونی نے سر ہلایا، اور جیک نے ایک اور خیال کے تحت کہا: ’’جب سارے قیمتی پتھر جادوئی گولے میں پہنچا دیے جائیں گے تو ہمیں ایک عجیب سفر پر جانا پڑے گا، کیا تم نے سوچا ہے کہ تب مائری اور ان کی بیٹی فیونا کا کیا ہوگا؟‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو اٹھائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’میرے پاس اپنی والی کتاب ہے، لیکن تمھیں اس کی کیا ضرورت پڑ گئی؟’’ ڈریٹن نے جواب دیا لیکن پہلان گرجا: ’’میرے سوال کا جواب دو، کیا تم وہ کتاب حاصل کر چکے ہو؟‘‘
ڈریٹن کا خون غصے سے جوش مارنے لگا لیکن اس نے خود پر قابو کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے نہیں پتا وہ کہاں رکھی ہے، اس کے گھر میں کئی آدمی رہ رہے ہیں اور کتاب کی حفاظت ہو رہی ہے۔‘‘
’’ایک تیسری کتاب بھی ہے جو اس قلعے میں چھپائی گئی ہے۔‘‘ پہلان نے انکشاف کیا۔ ’’مجھے یہ کتاب چاہیے، یہ زیلان زبان میں لکھی گئی ہے جو میرے وطن کی زبان ہے۔ یہ کتاب یہیں پر ہے، میں اسے محسوس کر سکتا ہوں۔‘‘
’’کہاں ہے؟‘‘ ڈریٹن نے جلدی سے پوچھا۔ ’’میں نہیں جانتا لیکن اس میں بہت سارے منتر ہیں اور راز کی دیگر باتیں ہیں۔ اگر یہ ہمارے ہاتھ لگ جائے تو میری قوتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
ڈریٹن نے پوچھا کہ اس کتاب میں کس قسم کے منتر ہیں۔ پہلان بتانے لگا کہ اکثر ایسے جادو ہیں جنھیں سکھانے کے لیے اسے انسانی جسم حاصل کرنا ضروری ہے، اور وہ اس وقت محض ایک بھوت ہے، یا صرف ایک دھواں۔ پہلان نے کہا: ’’میں نے تمھیں اس قابل بنا دیا ہے کہ جو طاقت اس لڑکی فیونا کو ملے گی، وہ تمھیں بھی حاصل ہو جائے گی۔ بس، میں تمھارے لیے یہی کچھ کر سکتا ہوں۔ ہاں اگر تم تیسری کتاب ڈھونڈ کر لے آؤ تو ہو سکتا ہے کہ اس سے کچھ مدد ملے۔ تم ابھی سے اس کی تلاش شروع کر دو۔ اب مجھے جانا ہے، سورج کی روشنی زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔ تم آج رات پھر آنا۔‘‘ پہلان یہ کہہ کر غائب ہو گیا اور ڈریٹن وہاں اکیلا رہ گیا۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو ستائیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
ڈریٹن مرکزی دروازے میں داخل ہو کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ جادوگر پہلان ابھی اچانک نمودار ہوگا۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو گئیں، اور وہ چیزیں زیادہ واضح دیکھنے لگا۔ تب اس نے ایک ہول ناک منظر دیکھا۔ ہال کی دیواریں اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہوئیں ایک دوسرے کے قریب آنے لگیں۔ وہ بے اختیار چلایا: ’’یہ کیا ہو رہا ہے!‘‘
اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس کے پیر فرش کے ساتھ جیسے چپک گئے تھے۔ دیواریں اب مزید قریب آ گئی تھیں۔ وہ بے اختیار چلایا: ’’احمق جادوگر، تم مجھے ان دیواروں کے بیچ کچل کر مارنا چاہتے ہو!‘‘
حرکت کرتی دیواریں اس سے چند ہی انچ کے فاصلے پر آ کر رک گئیں۔ ڈریٹن کی آنکھیں خوف سے پھٹنے کو تھیں۔ تب اچانک دیواریں واپس اپنی جگہ سرکنے لگیں اور ڈریٹن کو تھوڑی سی تسلی ہونے لگی۔ اچانک اسے پہلان کا قہقہہ سنائی گیا، اس نے اوپر دیکھا تو دھوئیں کا ایک بادل قدیم جھاڑ فانوس کے گرد چکر لگا رہا تھا۔
’’میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘ ڈریٹن غصے سے بولا: ’’تم اس طرح کی حرکتیں کر کے اپنا دل خوش کرتے ہو گندے جادوگر۔‘‘ یہ کہہ کہ اس نے فرش پر نظر دوڑائی تو اسے لوہے کا ایک پرانا زنگ آلود ٹکڑا مل گیا۔ اس نے لوہے کا ٹکڑا اٹھا کر پہلان کی طرف پھینک دیا۔ جادوگر نے دھوئیں کی صورت میں ایک چکر کاٹا اور پھر تیر کی طرح ڈریٹن کی طرف بڑھا اور ڈریٹن کے بدن کے گرد لپٹ کر اپنی طاقت استعمال کرنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے جادوگر اس کے سینے میں گھس کر اس کے دل کو پوری قوت سے دبانے لگا ہو۔ اس نے بے اختیار اپنا سینہ پکڑ لیا، اسے سانس رکتی محسوس ہو رہی تھی۔ اگلے لمحے وہ پتھریلے فرش پر گھٹنوں کے بل گر گیا۔ اس عالم میں اس نے بے بسی کے ساتھ ایک ہاتھ ہوا میں لہرایا اور دھوئیں کو پکڑنے کی ناکام کوشش کی۔ پہلان نے اس کا دل چھوڑ دیا اور اس کے جسم سے نکل گیا۔ ڈریٹن نے لمبی لمبی سانسیں لیں، ایسے میں اسے پہلان کی زہریلی آواز سنائی دی۔
’’تبھی تمھیں زندہ چھوڑ رہا ہوں احمق ڈریٹن، لیکن آئندہ اگر تم نے مجھے کوئی چیز مارنے کی کوشش کی تو میں تمھارا دل پھاڑ کر باہر نکلا لوں گا اور اسے بھیڑیوں کو کھلا دوں گا، سمجھے!‘‘
پہلان کی آنکھیں پیلے بلب کی طرح روشن ہو گئی تھیں اور اس کا ہیولہ بے حد خوف ناک نظر آ رہا تھا۔ ڈریٹن کی ہوا خراب ہو گئی تھی، اس نے سر جھکا کر کہا: ’’معافی چاہتا ہوں، آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔‘‘
’’تم میرے لیے کیا خبر لائے ہو؟‘‘ پہلان کی آواز گونجی۔ ڈریٹن نے جواب میں بتایا کہ انھوں نے تیسرا پتھر بھی حاصل کر لیا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ آج رات ہی چوتھے پتھر کے لیے نکل جائیں۔ پہلان نے کہا: ’’میں نے دیکھا کہ تم نے گزشتہ رات کیگان کے ایک آدمی کے خلاف پنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا، مجھے یقین ہے کہ تم نے اسے جان نہیں مارا ہوگا، میں تمھیں پہلے ہی خبردار کر چکا ہوں کہ ہمیں بارہ پتھروں کے ساتھ ساتھ ان بارہ آدمیوں کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
جادوگر پہلان کی نہایت سرد آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ڈریٹن بولا کہ اس کا تو جی چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی جان سے نہیں مارا۔ پہلان نے کہا: ’’تو پھر تم کچھ نیا سیکھنے کے لیے تیار ہو؟ کیا تم اینگس سے کتاب حاصل کر چکے ہو؟‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو چھبیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’ایک لڑکی کا نام گیلس تھا، وہ بے حد خوب صورت تھی۔ وہ اپنے بڑے بھائی کو ہمیشہ کسی مشکل میں ڈال کر خوش ہوتی تھی۔ اس کے بال مٹیالے بھورے رنگ کے تھے، جنھیں وہ گُوندھ کر رکھتی تھی۔ ملکہ اس کے بالوں کی چُٹیا بنا کر ربن سے باندھ دیتی تھی۔ اسے بالوں میں پھول لگانا پسند تھا۔ یہ خوب صورت لڑکی کافی حد تک ازابیلا سے مشابہ تھی، اس کی آنکھیں نیلی تھیں۔ وہ مہارت سے باجا بجاتی تھی، میں نے کئی بار بیٹھ کر اس سے باجا سنا۔‘‘ جانی کہتے کہتے رکا، وہ جھیل کے کنارے پہنچ گئے تھے، انھیں وہاں کشتی دکھائی نہیں دی۔ جانی پھر ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔
’’رایَد تیسرا بچہ تھا۔ اپنے والد کے آبا و اجداد کی طرح اس کے بال سیاہ تھے۔ اس کی آنکھیں گہری کتھئی رنگ کی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ چپ چاپ رہتا ہے اور اس کا زیادہ تر وقت قلعے کے اندر کتابیں پڑھنے میں گزرتا ہے۔ لیکن میری آنکھوں کا تارا گِلی این تھی۔ وہ بچّی مجھے بہت پسند تھی، اس کا گول مٹول چہرہ اور اس پر بڑی بڑی آنکھیں دل موہ لیتی تھیں۔ وہ آنا کی طرح تھی۔ مجھے وہ سب بہت یاد آ رہے ہیں۔ جب میں لوٹ کر قلعے میں داخل ہوا، تو ان کے جسم جلے ہوئے تھے۔ میں انھیں اس حال میں دیکھ کر نڈھال ہو کر گر گیا۔ آہ، وہ معصوم صورت گِلی این اپنے گھنگھریالے بالوں کے ساتھ خون میں لت پت پڑی تھی!‘‘
جانی چپ ہوا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جیک نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دبایا۔ کئی منٹ تک جانی اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا، پھر بڑے جلے ہوئے دل کے ساتھ بولا: ’’جادوگر پہلان اور کنگ دوگان کی اولاد نے ہمارے بادشاہ کے ساتھ جو کچھ کیا، انھیں اس کی سزا ضرور ملے گی۔‘‘
جیک بھی بول اٹھا: ’’جی ہاں، مجھے یقین ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنے اعمال کا مزا ضرور چکھیں گے۔‘‘
انھوں نے جھیل کے کنارے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کشتی نظر نہیں آئی۔ پھر جیک چونک کر بولا: ’’وہاں دیکھو، دوسرے کنارے پر، قلعے کے پاس ہے کشتی۔ واہ بہت مزا آئے گا اگر اس وقت ڈریٹن اپنے اُس خبیث جادوگر کے ساتھ قلعے کے اندر ہو۔ کیا آپ اندر جانے کا کوئی دوسرا راستہ جانتے ہیں؟‘‘
جانی بتانے لگا کہ ایک زمانہ گزر گیا ہے اس تمام علاقے پر، ہم اسی جھیل کے کنارے کنارے اُسی غار ہی میں جا سکتے ہیں جہاں ہم گزشتہ رات گئے تھے۔ قلعے کی زمینوں میں ایسی جگہیں ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہاں ہیں اور قلعہ وہاں۔ بہتر ہو گا کہ ہم وہ غار تلاش کر لیں۔
’’تو کیا اور کوئی راستہ نہیں ہے؟‘‘ جیک نے پھر پوچھا۔ ’’ہاں، کوشش کر سکتے ہیں لیکن اس تلاش کے دوران ان خطرناک مکڑیوں یا ان سے بھی زیادہ دہشت ناک چیزوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔‘‘ جانی نے جواب دیا۔
’’تو ٹھیک ہے، غار ہی تلاش کرتے ہیں۔‘‘ جیک نے ٹھنڈی سانس کھینچی۔ انھیں غار اور درختوں کے جھنڈ والی جگہ ڈھونڈنے میں پندرہ منٹ لگ گئے، پھر آخر انھیں وہ جگہ دکھائی دے گئی جہاں جیزے گرا تھا۔ وہ دونوں غار میں داخل ہو گئے۔ جانی نے کہا: ’’ڈریٹن نیچے نہیں ہے، لیکن جب تک ہم یہاں ہیں تو میں چند چیزیں ڈھونڈنا چاہتا ہوں یہاں۔‘‘
جیک نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ جانی کی بات نہیں سمجھ سکا تھا۔ جانی نے بتایا کہ یہاں کچھ ایسی خفیہ جگہیں ہیں جہاں ملکہ نے اپنے زیورات اور کنگ کیگان نے اپنی کتابیں چھپائی تھیں۔ وہ آگے بڑھتے ہوئے بولا: ’’اس غار میں کچھ نہیں ہے لیکن جب ہم سیڑھیوں کے پاس جائیں ے تو وہاں چند خفیہ جگہیں ہیں۔‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو پچیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
سورج کی گرم شعاعیں صنوبر کے جُھنڈ میں سے چھنتی ہوئی اینگس کے گھر کی کھڑکی میں داخل ہو رہی تھیں۔ اینگس نے آنکھیں کھولیں اور کندھے مسلتے ہوئے سستی اتارنے لگے۔ جمی اور جیک بھی اٹھ کر بیٹھ چکے تھے۔ ’’صوفے پر سونا اتنا آرام دہ نہیں ہوتا، جتنا میرا خیال تھا۔‘‘ اینگس بڑبڑایا۔
’’آئندہ فرش پر سوتے ہیں، میں کوئی شکایت نہیں کروں گا۔‘‘ جیک نے کمبل تہہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں اپنے وقت میں ساحل کی ریت اور کبھی گھاس پر بھی راتیں گزار چکا ہوں۔ میرے پاس تو بارش سے بچنے کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔‘‘ جمی نے سر گھما کر جیزے کی طرف نگاہ کی۔ ’’جیزے اب کیسا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ اس کے قریب جا کر بولا: ’’کیا تم جاگ گئے ہو؟‘‘
جیزے نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ ’’میں اب ٹھیک ہوں، مجھے ایسا لگا تھا جیسے کسی عظیم الجثہ ریچھ نے اٹھا کر پھینکا ہو۔ ویسے میں کتنی دیر سویا رہا ہوں؟‘‘
’’صرف ایک رات میرے دوست۔‘‘ جمی نے جواب دیا۔ ’’اینگس کیا آپ ہمارے لیے ناشتے میں کچھ بنا سکتے ہیں، انڈے تو ہوں گے نا؟ مجھے بھوک لگی ہے اور یقیناً جیزے کو بھی۔‘‘اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ سب سے قریب اینگس ہی تھے، انھوں نے جا کر دروازہ کھولا تو جونی کو دیکھ کر چہکے: ’’اندر آؤ جونی، ہم ناشتے سے متعلق بات کر رہے تھے، یہاں میرے پاس چند انڈے اور چند دن کی پرانی ڈبل روٹی ہی پڑی ہے۔‘‘
’’اوہ یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ جونی اندر داخل ہو کر بولا۔ ’’میں اسے سب کے لیے تیار کر دیتا ہوں لیکن اگر گوشت ہو تو کیا بات ہے۔‘‘
اینگس نے کہا کہ گوشت تو نہیں ہے البتہ گزشتہ رات کا اسٹو برتن میں پڑا ہے۔ جیک نے کہا کہ اس وقت تو ہر چیز اچھی لگ رہی ہے، اس لیے لے آؤ۔ لیکن جانی نے جب انڈے بنانے کے لیے ادھر ادھر چولھے کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو اسے چولھا کہیں نہیں ملا، وہ حیرت سے بولا: ’’اینگس، آپ کا کیا خیال ہے، میں انڈے کیسے پکاؤں گا، یہاں تو چولھا ہی نہیں ہے۔‘‘
اینگس مسکرائے: ’’آتش دان کے قریب کھانا پکانے والا جالی دار برتن پڑا ہوا ہے، اسی سے کام چلانا پڑے گا۔‘‘
ایسے میں جیک نے اچانک کہا: ’’میں سوچ رہا ہوں کہ ہم میں سے چند کو اس وقت قلعہ آذر جانا چاہیے، کیوں کہ گزشتہ رات ہم وہاں آس پاس کچھ زیادہ نہیں دیکھ پائے تھے، جانی کیا آپ میرے ساتھ چلیں گے؟‘‘
جانی نے پھینٹے ہوئے انڈے آگ پر رکھے اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔خشک ڈبل روٹی، انڈہ آملیٹ اور آئرش اسٹو کے ساتھ ناشتہ کرنے کے بعد جانی اور جیک قلعہ آذر کے لیے نکل گئے۔ جیک آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’کل رات جب میں یہاں پہنچا تو یہ پہلی بار تھا جب میں نے قلعہ آذر دیکھا، میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا وجود بھی ہے۔ جب میں نے پہلی بار کنگ کیگان اور آپ کو دیکھا تھا تو یہ وہ وقت تھا جب ہم اسکاٹ لینڈ جا رہے تھے۔ کنگ کیگان نے ہمیں قیمتی جواہرات چھپانے بھیجا تو مہینوں گزر گئے تھے اور کوئی شناسا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا، یہاں تک کہ آپ سے ملاقات ہو گئی۔‘‘
وہ صنوبر کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے دور نظر آنے والی جھیل پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ جانی مسکرانے لگا: ’’یہ جگہ بے انتہا خوب صورت تھی، باغیچے طرح طرح کے پھولوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں باغ میں گھنٹوں گزارا کرتا تھا۔‘‘جیک نے کچھ سوچ کر پوچھا: ’’میں آنا اور ازابیلا کے علاوہ کسی اور بچے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، مجھے دیگر بچوں کے بارے میں کچھ بتاؤ۔‘‘ جانی بتانے لگا: ’’ایک بچے کا نام سرڈِک تھا، وہ سب سے بڑا تھا۔ کیا بچہ تھا وہ… اس کے بال سونے کی دھاگوں کی طرح چمکتے تھے۔ جب سورج نکلتا ہے تو سمندر کی لہروں پر اس کی کرنیں موتیوں کی طرح چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ سرڈِک کے بال مجھے یہی یاد دلاتے تھے۔ اس کے بال اس کی ماں کی طرح گھنگھریالے تھے۔ اس کی آنکھیں بنفشی جھیلوں کی طرح تھیں۔ وہ جب نکلتا تھا تو پرندوں کی شامت آ جاتی تھی، وہ سارا دن پرندوں اور تتلیوں اور جنگلی جانوروں کے پیچھے بھاگتا رہتا تھا۔
(جاری ہے)
-
ایک سو چوبیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
اگلی صبح فیونا اپنی ممی کے ساتھ الجھ رہی تھی۔’’لیکن ممی، میں آج اسکول نہیں جانا چاہتی، ہمیں اگلے مقام سے قیمتی پتھر حاصل کرنا ہے۔ انکل اینس اور دیگر ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے جزبز ہو کر احتجاج کیا۔
’’فیونا، کان کھول کر سن لو، تمھیں اسکول جانا ہے۔ اینگس اس بات اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ تم اسکول کے بعد وہاں چلی جانا، مجھے بھی کام پر جانا ہے، میں بھی وہاں سے سیدھی اینگس کے ہاں آ جاؤں گی۔ اب کوئی بحث نہیں، اسکول جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر مائری مک ایلسٹر نے اسکول بیگ اور ٹفن اس کے حوالے کر دیا۔ فیونا نے غصے میں بیگ اور ٹفن لیا اور ماتھے پر بوسہ لیے بغیر دروازہ اپنے پیچھے دھڑام سے بند کرتے ہوئے چلی گئی۔ مائری نے ٹھنڈی آہ بھری اور دروازہ بند کر کے بیکری کی طرف چل پڑی۔
اسکول سے ایک فرلانگ پہلے ہی فیونا کو جبران بھی مل گیا۔ وہ بھی بجھے دل کے ساتھ اسکول جا رہا تھا۔ چلتے چلتے فیونا اسے گزشتہ رات کے واقعات بتانے لگی۔ ’’تم گھر چلے گئے تو ہم اس کے بعد قلعہ آذر گئے۔ وہاں زیر زمین ایک غار تھا اور بہت سارے سرنگ تھے۔ ڈریٹن نے اپنی جسامت بڑھا کر جیزے کو اٹھایا اور دور پھینک دیا، جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔‘‘
’’ذرا ٹھہر جاؤ، تھوڑا آہستہ آہستہ بولو۔‘‘ جبران نے تجسس سے کہا۔ فیونا نے اس کے سامنے ساری کہانی بیان کر دی اور کہا: ’’مجھے تو بہت غصہ آ رہا ہے، ممی نے مجھے زبردستی اسکول کے لیے بھیجا ہے، وہ بھی کام سے واپسی پر انکل اینگس کے ہاں آ رہی ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب…‘‘ جبران چونک اٹھا۔ ’’کیا تمھاری ممی سب کچھ جان گئی ہیں؟ کیا وہ میری ممی کو بتا تو نہیں دیں گی؟‘‘
’’انھوں نے کہا تو ہے کہ وہ سب کچھ راز رکھیں گی۔‘‘ فیونا نے کہا۔ ’’لیکن کچھ پتا نہیں ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی زخمی ہو جاتا ہے تو اس صورت میں وہ تمھارے والدین کو بھی ضرور مطلع کریں گی۔‘‘
باتیں کرتے کرتے وہ اسکول کے دروازے پر پہنچ گئے، اسی لمحے گھنٹی بجنے لگی۔ ’’اچھا، اسکول کے بعد ملتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور دونوں اپنی اپنی کلاس کی طرف چلے گئے۔
۔۔۔۔۔ڈریٹن کی آنکھ کھلی تو خود کو ایک اجنبی جگہ پا کر وہ اچھل کر بیٹھ گیا۔
’’کہاں ہوں میں؟‘‘ وہ اپنی طبیعت کے عین مطابق بدحواس ہو کر بڑبڑایا۔ تب اسے یاد آیا کہ رات کو وہ غیر قانونی طور پر ایک گھر میں گھسا تھا۔ اس نے بازو اور ٹانگیں پھیلا کر کسل مندی دور کی اور سیدھا باورچی خانے میں گھس گیا۔ گھر کے دوازے کے پاس بہت سارے خطوط پڑے تھے جو صبح صبح ڈاکیے نے آ کر پھینکے تھے۔ اس نے یہ جاننے کے لیے کہ گھر میں کون رہتا ہے، ایک لفافہ اٹھا کر دیکھا۔ لکھا تھا، جون اینڈ سوزن مک ایلسٹر۔ اس نے منھ بنا کر کہا: ’’ایک تو اس فضول ٹاؤن میں مک ایلسٹرز بہت رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے خط پھینک دیا لیکن پھر اچانک ایک خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ کسی لفافے میں رقم ہو۔ اس نے جلدی جلدی سارے لفافے پھاڑ کر دیکھ لیے لیکن کسی میں بھی پیسے نہیں تھے۔ واپس باروچی خانے میں آ کر کھانے کی چیزیں تلاش کرنے لگا لیکن الماری میں سیریل کے پیالے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ اس نے غصے میں پیالہ فرش پر پٹخ دیا، پھر ریفریجریٹر کھول کر کھانے پینے کی ساری چیزیں فرش پر بکھیر دیں۔
ایک بوتل میں ٹماٹر کی چٹنی دیکھ کر بولا، لگتا ہے یہاں ہر شخص ٹماٹر کی چٹنی کا دیوانہ ہے۔ وہ بوتل لے کر لیونگ روم میں آ گیا اور چھت ایک گول دائرہ بنا ڈالا۔ پھر ٹی وی اور صوفوں پر چٹنی ڈال دی۔ پورے گھر کا خانہ خراب کر کے اس نے دروازہ اپنے پیچھے دھڑام سے بند کر دیا اور قلعہ آذر کی طرف چل دیا۔
(جاری ہے)