Tag: پراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
-
ایک سو نو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
اینگس نے بات جاری رکھی: ’’مجھے سو فی صد یقین تو نہیں ہے لیکن ایک اجنبی میک ڈوگل کے بی اینڈ بی میں ٹھہرا ہوا ہے۔ ایلسے نے مجھے قصبے میں ہونے والے عجیب و غریب واقعات کے بارے میں بھی بتایا ہے، یہ وہی ڈریٹن اسٹیلے کر رہا ہے۔‘‘
جمی نے کہا: ’’ٹھیک ہے، اگر آپ کو اس پر شک ہے تو پھر ہمیں آپ سب کی حفاظت کرنی پڑے گی۔ جیک، یہاں اینگس پر ایک بار قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا ہے، اس لیے جب بچے دیگر قیمتی پتھر لانے جائیں تو ہمیں یہاں ان کی حفاظت کے لیے موجود ہونا چاہیے۔ ڈریٹن کی مدد سے جادوگر پہلان کی طاقتیں بڑھتی جائیں گی۔‘‘
جیزے نے کہا کہ اسے بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچانا ہے، جب کہ فیونا نے کہا کہ انھیں بھی گھر پر ایک محافظ کی ضرورت ہے۔ فیونا کو اچانک ایک بات یاد آ گئی تو مڑ کر انکل سے کہا: ’’آپ نے بتایا نہیں، میرے پاس کون سی تیسری جادوئی طاقت آ گئی ہے؟‘‘
یہ سن کر دانیال اور جبران بھی چونک اٹھے۔ دونوں مڑ کر اینگس کی طرف یوں دیکھنے لگے جیسے وہ کوئی جادوگر ہو، اور ابھی کوئی منتر پڑھ کر سب کو پتھر میں بدل دیں گے۔ خود فیونا کے ہاتھ پیر بھی سنسنانے لگے تھے، وہ جاننا چاہ رہی تھی کہ اب اس کے پاس کون سی جادوئی طاقت آ گئی ہے۔
اینگس نے ان کا انہماک دیکھ کر سرکھجایا اور پھر دھیرے سے بولے: ’’میں نے اس کے بارے میں کل رات ہی پڑھا ہے، اب تم جانوروں کے ساتھ باتیں کر سکتی ہو، تمھیں جانوروں کی بولیاں بھی سمجھ آئیں گی اب۔‘‘
’’انکل، یہ تو میں کر چکی ہوں، جب ہم آئس لینڈ میں تھے تو پفن پرندوں کے ساتھ میں نے گفتگو کی تھی۔‘‘ فیونا جلدی سے بولی۔
’’ارے وہ تو روشن پری اور میگنس نے تمھاری مدد کی تھی۔‘‘ دانیال نے اسے یاد دلایا تو فیونا جھینپ کر سر کھجانے لگی۔
اینگس نے کہا: ’’میں یہاں اپنے محافظوں جمی اور جیک کے ساتھ رہوں گا، جیزے تم تینوں کو گھر پہنچائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے جیک کو مخاطب کیا: ’’جب تم قلعے میں پہنچے تو وہاں کوئی غیر معمولی بات محسوس کی؟‘‘
’’قلعہ آذر …!‘‘جیک نے سوچ کر کہا: ’’کنگ کیگان اور اس کے خاندان کی روح کے علاوہ کچھ محسوس نہیں کیا۔‘‘
جبران چونک اٹھا: ’’روح… کیا قلعے میں روحیں بھی ہیں؟‘‘جیک نے بتایا کہ وہ کنگ کیگان اور ملکہ کو بہت اچھی طرح جانتا تھا، اور دونوں کو بہت چاہتا بھی تھا، اس لیے قلعے کی دیواروں میں ان کی روحیں محسوس کیں۔ جبران نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: ’’میں سمجھ گیا، چترال میں ہمارے پاس ایک گائے تھی، وہ صنوبر کے نیچھے کھڑی رہتی تھی۔ جب وہ مر گئی تو میں جب بھی اس درخت کے پاس جاتا تھا تو مجھے وہ گائے یاد آ جاتی تھی، اور مجھے ایک لمحے کے لیے محسوس ہوتا تھا کہ وہ گائے ابھی بھی درخت کے نیچے کھڑی گردن ہلا رہی ہے اور میں اس کی گردن میں بندھی گھنٹی کی آواز بھی سنتا تھا!‘‘
’’بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ جیک نے افسردہ لہجے میں کہا: ’’جب آپ کسی کو بہت زیادہ چاہتے ہو تو اس کی روح آپ کے دل سے کبھی نہیں نکلتی۔‘‘
اینگس نے مداخلت کی: ’’ٹھیک ہے، جیزے اب ان بچوں کو گھر لے کر جاؤ اور ہم تینوں قلعہ آذر کا ایک چکر لگائیں گے۔ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ جیزے تم جونی کو لے کر ایک گھنٹے میں وہاں ہم سے ملو۔‘‘
جیزے بچوں کو لے کر چلا گیا تو اینگس جیک کو لے کر گھر سے نکلے اور آس پاس گھما کر نئے دور کے بارے میں بتانے لگے۔ جمی اور جیک کو خزاں کی اس سرد رات میں ماحول بہت عجیب لگ رہا تھا، ایسے میں اینگس کہنے لگے: ’’ایک عرصہ ہوا ہے، میں قلعہ آذر نہیں جا سکا ہوں، حیران ہوں کہ آج رات کیا رنگ دکھائے گی؟‘‘
جمی نے دھیرے سے کہا: ’’امید ہے کہ سب ٹھیک رہے گا!‘‘وہ تینوں درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو کر اندھیرے کا حصہ بن گئے!
(جاری ہے…)
-
ایک سو آٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
ڈریٹن عین اس وقت کھڑکی پر پہنچا تھا جب اینگس نے موتی گولے میں رکھا۔ وہ عادت کے مطابق بڑبڑایا: ’’تو اب صرف نو رہ گئے ہیں۔‘‘ اس نے اپنے گلے میں لٹکے نیکلس پر نظر دوڑائی۔ ستارے کی تیسری نوک چمکنے لگی تھی۔ اس نے مکاری سے دل ہی دل میں کہا: ’’بہت اچھی جا رہی ہو فیونا، لگی رہو۔ لیکن یہ ڈریگن دیوار پر کیوں چمک رہے ہیں، خیر، مجھے اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہی ڈریگنز ہیں۔ یہاں میرا بہت سارا وقت ضائع ہو رہا ہے اور میں اس گندے گاؤں میں مزید ایک ہفتے کے لیے ہرگز نہیں ٹھہرنا چاہتا۔‘‘
اسی وقت کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اینگس نے دروازے پر پہنچ کر کوئی بات کی اور پھر دروازہ کھول دیا۔ ایک شخص اندر داخل ہوا، اس نے سب سے ہاتھ ملایا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب ایک دوسرے سے واقف ہوں لیکن یہ نیا شخص کون ہے؟ وہ حیرت سے سوچنے لگا۔ کہیں ان قیمتی پتھروں کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا؟ اس کا مطلب ہے کہ مجھے قلعے جا کر جادوگر سے بات کرنی پڑے گی۔ یہ سوچ کر وہ احتیاط کے ساتھ درخت سے اترا اور قلعہ آذر کی طرف چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’آہا… آرٹر، تمھیں اتنے طویل عرصے بعد دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔‘‘ جیزے نے کہا اور اسے گلے لگا لیا۔ جمی نے بھی ایسا ہی کیا۔ ایسے میں جبران نے چاکلیٹ بسکٹ منح میں ڈالتے ہوئے عجیب سوال پوچھ لیا: ’’آپ نے کیسے جانا کہ آپ نے یہیں آنا ہے؟‘‘
آرٹر پہلی بار ان پر نظر ڈال کر چونکا۔ ’’یہ کون ہیں جمی؟‘‘جمی نے تعارف کرایا کہ یہ فیونا، جبران اور دانیال اور یہ فیونا کے انکل اینگس ہیں۔ سب ہی جادوئی گولے سے منسلک ہو چکے ہیں!‘‘
’’جادوئی گولا!‘‘ آرٹر اچھل پڑا۔ ’’اوہ… تو آخر کار وہی ہوا جس کا مجھے ہمیشہ سے یقین رہا ہے۔‘‘ اس نے جادوئی گولے پر نظر ڈالی اور کہا: ’’تو یہ ہے وہ موتی، کتنا عرصہ ہو گیا ہے اب اس بات کو۔ ویسے یہ کون سا سال ہے؟‘‘
’’تمھیں یقین نہیں آئے گا سن کر۔‘‘ جیزے نے جواب دیا: ’’یہ اکیسویں صدی ہے۔‘‘
’’اوہ… اچھا، ان بچوں میں کنگ کیگان کا وارث کون ہے؟‘‘’’میں …‘‘ اچانک فیونا بول اٹھی۔ ’’میں ہوں اور جونی کے مطابق کنگ دوگان کی وارث بھی ہوں۔‘‘
’’جونی … جونی کون ہے؟‘‘ آرٹر حیران ہوا۔ اینگس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ’’آلرائے کیتھمور۔‘‘
’’لیکن ہم مختلف ناموں سے کیوں پکارے جا رہے ہیں؟‘‘ آرٹر نے پریشان ہو کر پوچھا۔ اینگس بتانے لگے کہ اس صدر میں ان کے نام بہت عجیب لگتے ہیں، اس لیے کوآن کا نام جمی رکھا گیا، پونڈ کا جیزے اور خود آرٹر جیک کے نام سے رہے گا۔
’’جیک … یہ بھلا کیسا نام ہے؟‘‘ آرٹر نے منھ بنا لیا۔ جیزے نے مسکرا کر کہا کہ جدید نام ایسے ہی ہوتے ہیں۔
’’تعارف ہو گیا ہے۔‘‘ اینگس نے کہا۔ ’’جیک، اب تم بیٹھ جاؤ، فیونا مجھے سیچلز کے سفر کی روداد سنا رہی ہے۔‘‘
’’جیک، آپ نے موتی پر بہت ہی خراب قسم کا جادو کر دیا تھا۔‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا۔ ’’جبران، دانی اور مجھے اسے حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔ عظیم الجثہ آکٹوپس اور خونی لہروں کے باعث موت کے منھ میں جاتے جاتے بچے ہم!‘‘
’’لیکن پائریٹس بہت ہی احمق تھے، آپ کچھ بہتر کر سکتے تھے۔‘‘ اچانک جبران نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔’’ٹھیک ہے آئندہ اس بات کا خیال رکھوں گا۔‘‘ جیک نے جھینپ کر کہا۔ فیونا نے انھیں سیچلز کے سفر کی ساری کہانی سنا دی تو اینگس نے کہا: ’’میرے خیال میں، میں نے دشمن کو ڈھونڈ نکالا ہے!‘‘
(جاری ہے…)
-
ایک سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
’’انکل اینگس کہاں ہیں؟‘‘ فیونا نے جمی اور جیزے کو صوفے پر بیٹھے دیکھ کر پوچھا۔ ’’اور ہمیں گئے کتنی دیر ہوئی ہے؟‘‘
جمی انھیں دیکھ کر اٹھا اور بولا: ’’ہیلو، تو تم لوٹ آئے، بس چند ہی منٹ ہوئے تم لوگوں کو۔ اور تمھارے انکل ذرا باہر چلے گئے ہیں کچھ معلومات اکٹھی کرنے۔ تمھارا سفر کیسا رہا، قیمتی پتھر لے آئے؟‘‘
فیونا نے جیب سے موتی نکالا اور جمی کے حوالے کرتے ہوئے کہا: ’’ہم سیچلز پہنچ گئے تھے، بڑا مزا آیا۔‘‘
جمی نے موتی لے کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ ’’کتنا شفاف ہے موتی۔‘‘ وہ کچھ دیر تک قیمتی پتھر کو دیکھتا رہا پھر بولا: ’’تمھارے انکل نے کہا تھا کہ ان کی واپسی تک کچھ نہ کیا جائے، اس لیے جب وہ واپس آئیں گے تو یہ پتھر جادوئی گیند میں رکھا جائے گا، تب تک تم سے سفر کی تفصیلات سنی جائیں۔‘‘
وہ سب انگیٹھی کے پاس کرسیوں پر بیٹھے اور گپ شپ کرنے لگے۔ ایک گھنٹہ بعد اینگس لوٹے۔ بچوں کو دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ فیونا بھی انھیں دیکھ کر اپنے سفر اور واپسی اور موتی کے بارے میں بتانے لگی۔ انھوں نے کہا کہ پہلے یہ قیمتی پتھر گولے میں رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
وہ سب جادوئی گولے کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ اینگس نے موتی لے کر جادوئی گولے میں بنے ایک سوراخ میں رکھ دیا، پہلی ہی کوشش میں موتی درست سوراخ میں رکھا گیا تھا اس لیے تینوں قیمتی پتھر پہلے کہیں زیادہ روشن ہو گئے۔
’’ایک موتی کے اندر کوئی ڈریگن کیسے منقش کر سکتا ہے؟‘‘ جبران دیوار پر تین ڈریگنز کی شبیہیں جھلملاتے دیکھ کر بولا۔
’’جادوگر حیرت انگیز ہوتے ہیں۔‘‘ جمی نے خواب ناک لہجے میں کہا: ’’وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ایک روز تمھیں زرومنا جادوگر سے ملنے کا موقع ملے گا۔‘‘
تینوں کی حیرت اور جوش سے بھری نگاہیں جمی پر جم گئیں۔ ایسے میں جیزے بول پڑا: ’’اس کا مطلب ہے کہ آرٹر جلد یہاں پہنچ جائے گا!‘‘’’آرٹر…؟‘‘ جبران چونکا۔ ’’عجیب سا نام ہے، کیا آپ کا مطلب ہے آرتھر؟‘‘ جبران نے سر کھجاتے ہوئے پوچھ لیا۔
’’نہیں، میرا مطلب آرٹر ہی ہے، بہرحال، وہ جیک کے نام سے آئے گا۔‘‘ جیزے نے جواب دیا۔
’’آپ سب کے دو دو نام ہیں، بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔‘‘ جبران نے کہا تو جیزے نے مسکرا کر کہا: ’’تو یہی بہتر ہے نا کہ ہمیں جمی، جیزے، جونی اور جیک کہہ کر پکارا جائے۔ ہمارے اصل نام بھول جائیں تو اچھا ہے۔‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ جبران بولا۔ ’’سب کے نام ج سے شروع ہوتے ہیں، یاد رکھنے میں آسانی ہوگی۔‘‘
(جاری ہے)
-
ایک سو چھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اینگس ایک کے بعد ایک ہوٹل چیک کرنے لگا کہ کہیں اجنبی لوگ تو نہیں ٹھہرے ہوئے۔ اکثر ہوٹلوں میں تمام کمرے بک تھے۔ اکثریت جوڑوں کی تھی۔ ہائی لینڈ تھیسل ہوٹل کے مالک بونی مک فرلینڈ نے کہا: ’’یہاں کوئی اکیلا شخص نہیں ٹھہرا ہوا، آپ جا کر بی اینڈ بی چیک کریں۔‘‘
اینگس کو اس کا مشورہ پسند آ گیا، اور وہ سیدھا مک ڈوگل کے بی اینڈ بی پہنچ گئے۔ چھوٹے سے باغیچے میں قرمزی رنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے، وہ پھولوں کے پاس سے گزرے اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئے۔ ’’ہیلو ایلسے!‘‘
لیکن جب ان کی آواز پر کوئی نہیں آیا تو انھوں نے چیخ کر کہا: ’’کوئی ہے؟‘‘
’’اینگس یہ تم ہو؟‘‘ ایلسے اپنے ایپرن پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے آ گئی۔ ’’تمھیں دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے، میں کچھ پکا رہی تھی، آؤ، کچن میں آ جاؤ۔‘‘’’اچھی خوش بو ہے۔‘‘ اینگس لکڑی کی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ ایلسے نے خوش ہو کر کہا: ’’اگر تم پسند کرو تو میں اس میں سے کچھ پیک کر کے تمھیں دے دوں گی لے جانے کے لیے، کیوں کہ تمھیں پکا کر کھلانے والی کوئی عورت بھی تو نہیں ہے!‘‘
’’نہیں… شکریہ۔‘‘ اینگس نے جھینپ کر کہا۔ ’’میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، کیا تم نے یہاں کچھ عجیب سے واقعات ہوتے دیکھے ہیں گزشتہ چند دنوں کے دوران۔‘‘
’’تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘ ایلسے کام روک کر ان کی طرف مڑی۔ ’’حالاں کہ ایسا ہی ہوا ہے یہاں۔ کئی معزز لوگوں سے زیورات چوری ہوئے اور بٹوے غائب ہوئے۔ رات کو یہاں عجیب سی آوازیں سنی جاتی ہیں۔ کیا تمھارا اشارہ ان ہی کی طرف ہے؟‘‘’’کیسی عجیب آوازیں؟‘‘ اینگس نے پوچھا۔ ’’چھت پر چلنے پھرنے اور کچھ ٹوٹنے کی آوازیں۔ چند مہمانوں نے ناشتے پر شکایت کی کہ رات کو ان کی کھڑکیوں کے زور سے بند ہونے کی آوازیں آئی ہیں۔ ایک نے تو شکایت کی کہ اس کی کھڑکی کے پاس کسی کا ہیولا گزرا۔‘‘
’’اوہ… یہ تو بہت عجیب ہے۔ کیا خیال ہے یہاں کوئی بھوت ہے؟‘‘ اینگس نے ایلسے کو ڈرانے کے لیے کہا۔ ’’ہم اسکاٹ لینڈ کے اس بلند علاقے میں رہ رہے ہیں، کس کو پتا، ہو سکتا ہے یہاں کوئی افسردہ بھوت رہتا ہو!‘‘
ایلسے اچھل پڑی۔ ’’یہاں بی اینڈ بی میں بھوت!‘‘ وہ ایک ہاتھ میں چمچا پکڑے آنکھیں پھاڑ کر بولی: ’’ٹھیک ہے، یہ بہت پرانا ہے لیکن بھوت اور یہاں، نہیں اینگس، یہ فضول بات ہے!‘‘
اینگس نے مسکرا کر فوراً موضوع بدلا: ’’اچھا بتاؤ یہاں کوئی اکیلا شخص آ کر ٹھہرا ہوا ہے؟‘‘ ایلسے نے انھیں گھور کر دیکھا اور پھر کندھے اچکا کر کہا: ’’ہاں، برطانیہ سے ایک شخص آیا ہوا ہے۔ وہ ایک لکھاری ہے، اسے پرسکون اور خاموشی والی جگہ چاہیے تھی۔ اچھا نوجوان ہے، بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے، اس کا نام ڈریٹن اسٹیلے ہے۔‘‘
’’ڈریٹن اسٹیلے۔‘‘ اینگس نے دہرایا۔ ’’کیا وہ اس وقت یہاں موجود ہیں، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ہاں، وہ دوسری منزل پر ہے، چلو، مل آتے ہیں۔‘‘ دونوں سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر آ گئے۔ ایلسے نے ایک کمرے کے دروازے پر دستک دی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ اندر موجود ڈریٹن نے کمرے کے باہر آوازیں اور پھر دستک سنی تو اسے خطرے کا احساس ہوا۔ وہ فوراً کھڑکی کھول کر نیچے باغیچے میں کود گیا۔
’’اوہ شاید وہ یہاں نہیں ہیں۔‘‘ ایلسے نے کہا۔ ’’میں تو سمجھی تھی کہ وہ اپنے کمرے میں ہی ہیں۔ خیر تمھیں تو پتا ہے کہ میں یہاں آنے جانے والوں کو یاد نہیں رکھ پاتی۔‘‘
اینگس نے کہا کہ اگر وہ آئے تو انھیں کال کر کے مطلع کر دے۔ اینگس جانے لگے تو ایلسے نے انھیں اپنے چند اسپیشل رول کاغذ کے لفافے میں ڈال کر زبردستی تمھا دیے، ساتھ میں اورنج مارملیڈ کی ایک چھوٹی سی بوتل بھی دے دی۔ اینگس نے شکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ ڈریٹن ان کا تعاقب کرنے لگا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اینگس اس کے بارے میں کیوں پوچھتا پھر رہا ہے۔ اینگس بھی ڈریٹن سے متعلق اپنا دماغ دوڑانے لگے، اور چلتے چلتے بڑبڑانے لگے: ’’میرا خیال ہے میں نے گم شدہ وارث ڈھونڈ نکالا ہے!‘‘
(جاری ہے….)
-
ایک سو پانچ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
ہوٹل کے باہر ایک دکان سے انھوں نے اپنے لیے نئے کپڑے اور جوتے خریدے۔ دکان میں داخل ہونے سے قبل انھوں نے اپنے جسموں سے ریت جھاڑی تھی تاکہ دکان گندی نہ ہو۔ خریداری کے بعد وہ ہوٹل کے کمرے میں آ گئے۔ نہا دھونے کے بعد تینوں نئے کپڑے پہن کر لفٹ کی طرف بڑھے۔ ایسے میں جبران نے فیونا کو مخاطب کیا: ’’تم نے موتی کے ساتھ کیا کیا؟‘‘ اس نے فیونا کے خالی ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’پریشان مت ہو، وہ میں نے مومو کی جیب میں رکھ لیا ہے اور بالکل محفوظ ہے۔ میں اس لمبی فراک میں بہت اطمینان محسوس کر رہی ہوں۔ دیکھو اس کی جیبیں بھی گہری ہیں، کوئی بھی چیز آسانی سے چھپ سکتی ہے۔‘‘
فیونا کہتے کہتے رکی اور پھر ان دونوں پر نگاہ ڈال کر بولی: ’’تم دونوں پر بھی نیا لباس بہت جچ رہا ہے۔‘‘
دانیال نے شرما کر کہا کہ تمھارے بالوں میں یہ سرخ ربن اور پھول بہت اچھے لگ رہے ہیں۔ تینوں مسکراتے ہوئے، کھانے کے لیے بنے ہال میں پہنچ گئے۔ بھوک زوروں پر تھی لیکن وہ ہوٹل کی مخصوص سجاوٹ کو اب بھی حیرت سے دیکھ رہے تھے، ویٹر نے انھیں کھڑکی کے پاس والی میز پر بٹھایا اور ایک ایک مینو ان کے حوالے کر دیا، جو بالکل سی شیل کی طرح لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ویٹر واپس آ کر پوچھنے لگا کہ انھوں نے کون کون سے آئٹم منتخب کیے ہیں۔ فیونا سب سے پہلے بول اٹھی: ’’مجھے آکٹوپس کری اور کوکونٹ مِلک چاہیے۔‘‘
’’ہیں … آکٹوپس کری … یہ کیا چیز ہے؟‘‘ جبران چونک اٹھا۔ سوال کا جواب ویٹر دینے لگا لیکن اس سے پہلے اپنا تعارف کرانا نہیں بھولا: ’’جی میں بتاتا ہوں۔ میرا نام فلپ ہے، میں یہاں آپ کا ویٹر ہوں۔ دراصل آکٹوپس کری یہاں کا خاص سالن ہے۔ آکٹوپس میں بینگن، زعفران، کری مسالا، لہسن، آکٹوپس کے مزید چھوٹے ٹکڑے بھرے جاتے ہیں اور اس پر ادرک اور دار چینی چھڑکی جاتی ہے۔ یہ بے حد ذائقہ دار سالن ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کو پسند آئے گا۔‘‘
دانیال نے مینو پر نگاہ ڈالنے کے بعد ویٹر کو مخاطب کیا: ’’مسٹر فلپ، مجھے تو پہلے کیکڑے کا سوپ چاہیے، اس کے بعد شاہی مچھلی لائیے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے جناب‘‘ ویٹر نے اثبات میں سر ہلایا اور جبران کی طرف مڑ کر آرڈر پوچھا۔ ’’میرے لیے تلی ہوئی شرمپ لا دیں۔‘‘ جبران نے جواب دیا اور اپنا مینو بند کر کے اس کے حوالے کر دیا۔ ویٹر کہنے لگا کہ تلی ہوئی شرمپ کے ساتھ کوکونٹ مِلک میں پکائے گئے کیلوں کی سویٹ ڈش بھی شامل ہے، جس پر پنیر چھڑکا جاتا ہے۔‘‘
’’بہت خوب، یقیناً مجھے پسند آئے گی یہ ڈش۔‘‘ ویٹر کچھ دیر بعد سب کی پسند کے کھانے لے کر آ گیا۔ تینوں نے مزے لے کر کھایا اور پیٹ بھرنے کے بعد تگڑی ٹپ چھوڑ کر اپنے کمرے میں آ گئے۔ دانیال بولا: ’’تو اب چلنے کی تیاری ہو!‘‘
فیونا نے کہا کہ اس کا تو بالکل جی نہیں چاہ رہا کہ واپس جائے، اور گیل ٹے میں بور ہوتی پھرے، لیکن موتی لے جانا بھی ضروری تھا۔ جبران کے بھی یہی جذبات تھے۔ فیونا نے جا کر ہوٹل کے کلرک کو بل دیا تو اس نے مشکوک نگاہوں سے گھورا۔ بل ادا کرنے کے بعد تینوں پام کے درختوں کے پاس آ گئے اور ایک دوسرے کی طرف خاموشی سے دیکھنے لگے۔ فیونا نے گہری سانس لی اور بولی: ’’تم دونوں تیار ہو نا!‘‘
دونوں نے سر ہلایا اور ہاتھوں میں ہاتھ دے کر کھڑے ہو گئے۔ ایک بار پھر دور دراز کے جزیرے سے ان کی واپسی کا وقت آ گیا تھا، ان کے چہروں پر گھبراہٹ کے آثار تھے۔ انھیں ایک بار پھر جادوئی منتر کے ذریعے ہزاروں میل کا سفر طے کرنا تھا اور وہ یہ سفر کئی مرتبہ طے کر چکے تھے لیکن ہر بار جب وہ اس سفر سے گزرتے تھے، تو ان جانا خوف انھیں گھیر لیتا تھا۔ کیا پتا، کبھی جادو میں کوئی گڑبڑ ہو، اور وہ پھر کبھی گھر نہ پہنچ سکیں۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے اور پھر فیونا کے لب ہلنے لگے:
’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘
(جاری ہے…)
-
ننانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
فیونا چیخ کر بولی: ’’اندر غوطہ لگاؤ، لہر کی واپسی تک پانی کے اندر ہی رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے غوطہ لگا لیا۔ ذرا دیر بعد وہ سطح پر ابھرے اور سانس لینے لگے۔
دانیال بولا: ’’مجھے غار کا دہانہ اب نظر نہیں آ رہا ہے۔ غار پانی سے مکمل طور پر بھر چکا ہے، اب تو ہمیں پانی کے اندر ہی اندر تیر کر باہر نکلنا ہے۔‘‘ جبران نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’اور اس صدفے کا کیا کروں، میں تو اس کے ساتھ تیر نہیں سکتا۔‘‘
’’یہ مجھے دے دو۔‘‘ فیونا نے کہا۔ ’’میں خود کو پھر بڑا کرنے والی ہوں، تم دونوں میری شرٹ مضبوطی سے پکڑ لینا۔ وہ دیکھو ایک اور لہر آ رہی ہے، جب یہ واپس ہونے لگے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ ہی باہر نکلنا ہے … سنبھل جاؤ اب!‘‘
فیونا نے جیسے ہی جملہ پورا کیا، لہر نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں نے لمبی سانس لی اور فیونا کی شرٹ پکڑ لی۔ انھیں محسوس ہوا کہ فیونا کا قد تیزی کے ساتھ بڑا ہونے لگا ہے۔ لہر واپس ہونے لگی تو فیونا بھی ان دونوں کو ساتھ لے کر دہانے کی طرف تیرنے لگی۔ دہانے پر پہنچ کر دونوں کو اچانک ایسا لگا کہ انھیں پھر کسی عظیم الجثہ آکٹوپس نے گھیر لیا ہے۔ جبران چیخا: ’’فیونا، لہر آ رہی ہے اور یہ تو بہت ہی بڑی ہے۔‘‘
’’گھبراؤ نہیں۔‘‘ فیونا نے اطمینان سے کہا: ’’اب ہم غار سے نکل آئے ہیں اور میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں۔‘‘ دونوں نے دیکھا کہ فیونا کی ٹانگ آکٹوپس کی ٹانگ سے بھی بڑی ہو گئی ہے۔ اس نے اطمینان سے چند ہی قدم اٹھائے اور وہ ساحل پر پہنچ گئے۔ جب وہ لہروں کی پہنچ سے دور ہو گئے تو فیونا نے دونوں کو نیچے اتارا اور اپنی عام جسامت میں آ گئی۔
’’اوہ فیونا، تم تو کسی وھیل جتنی بڑی ہو گئی تھی۔‘‘ جبران نے ریت پر اترتے ہی حیرت کا اظہار کیا۔ انھوں نے مڑ کر غار کی طرف دیکھا لیکن اب وہاں پانی ہی پانی تھا، غار پانی کے اندر مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔
’’ٹھیک ہے فیونا۔‘‘ جبران کہنے لگا: ’’اب اس صدفے کو توڑو اور اس میں سے موتی نکال لو، تاکہ ہم یہاں سے جلد از جلد روانہ ہو سکیں، ہمیں جیکس کو بھی ڈھونڈنا ہے۔‘‘
(جاری ہے…)
-
اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
تھوڑی دیر بعد وہ آکٹوپس، جو اس کی تلاش میں تھا، کے سر پر نمودار ہو گئی۔ اس نے سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی آنکھ میں گھسیڑ دیا۔ آکٹوپس نے درد سے مچل کر ایک ٹانگ اسے پکڑنے کے لیے لہرائی لیکن وہ پھرتی کے ساتھ اچھل کر دوسری آنکھ کے قریب پہنچی اور سیپی کا سرا دوسری آنکھ میں بھی گھونپ دیا۔ آکٹوپس نے تکلیف کے مارے چیخ ماری اور آٹھوں ٹانگیں سر کی طرف لے گیا۔
جبران خوشی سے چلایا: ’’واؤ، فیونا نے اسے اندھا کر دیا ہے، ارے وہ دیکھو، ابھی وہ ایک بار پھر بڑی ہو رہی ہے۔‘‘ دانیال بھی خوشی سے چلانے لگا۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے ساتھ ساتھ سیپی بھی بڑی ہونے لگی اور ایک خطرناک ہتھیار کا روپ دھار گئی۔ فیونا نے بڑے ہونے کے بعد سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی کھوپڑی میں دے مارا۔ سر پر یہ وار مہلک ثابت ہوا اور آکٹوپس کی اٹھی ہوئی ٹانگیں یک لخت گر کر پانی میں ڈوب گئیں۔ ذرا دیر بعد آکٹوپس ایک ڈھیر کی طرح پانی کی سطح پر دو پتھروں کے درمیان ادھر ادھر ڈول رہا تھا۔ فیونا اپنے نارمل قد میں آئی اور پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ ’’تم نے اسے بہادری سے مار دیا ہے فیونا۔‘‘ جبران نے اس کی تعریف کی۔
’’اگر میں نہ مارتی تو یہ ہم تینوں کو مار دیتا، اور کوئی چارہ نہ تھا۔‘‘ فیونا نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ زندگی میں پہلی بار اس کے ہاتھوں کسی جان دار کا اس طرح قتل ہوا تھا، اس لیے وہ نہ خوشی محسوس کر رہی تھی نہ دکھ۔ دانیال نے توجہ دلائی کہ اس کے کپڑوں پر بے تحاشا گندگی پھیل گئی ہے۔ فیونا کے کپڑوں پر سے سرخ رنگ کا لیس دار مادہ پھسل پھسل کر گر رہا تھا، جس سے عجیب سی سڑاند اٹھ رہی تھی۔ دانیال نے اچانک کہا ’’دیکھو پانی کتنا اونچا ہو چکا ہے، غار آدھا بھر گیا ہے۔ ہمیں جلد از جلد صدفہ اٹھا کر لانا ہے اور اسے باہر نکل کر ہی توڑیں گے۔‘‘
فیونا بھی چونک اٹھی، اس نے جبران سے کہا کہ اب اسے مزید گہرائی میں جانا ہوگا، لہریں اونچی ہوتی جا رہی تھیں۔ جبران پانی میں کود گیا اور وہ دونوں اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ ذرا ہی دیر بعد وہ نمودار ہوا، اس کے ہاتھ میں وہی صدفہ تھا۔ دونوں کے چہروں پر خوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ فیونا بولی: ’’واؤ، یہ تو خاصا بڑا ہے، میرے خیال میں دو مونہے صدفے میں موتی کی جسامت بڑھتی رہتی ہے۔‘‘
دانیال نے مدد کر کے جبران کو پتھر پر چڑھایا، اور اسی لمحے ایک بہت بڑی لہر غار کے اندر داخل ہوئی اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے، تینوں اس کی زد میں آ گئے۔ وہ پتھر سے پانی میں گر گئے لیکن گرتے گرتے فیونا چلائی: ’’جبران تم اس صدفے کو گرنے مت دینا۔‘‘
لہر غار سے ٹکرا کر واپس چلی گئی تو تینوں پھر پتھر پر چڑھے۔ جبران نے صدفہ مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا، اسے دیکھ کر فیونا اور دانیال کی آنکھوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ دانیال بولا: ’’ہمیں جلد از جلد اس غار سے نکلنا ہوگا، ورنہ اگر اسی طرح لہریں آتی رہیں گی تو ہم یہیں مر جائیں گے۔‘‘وہ تینوں غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے، فیونا نے انھیں خبردار کیا کہ لہریں بے حد خطرناک معلوم ہوتی ہیں، اور پتھروں سے پٹک پٹک کر انھیں جان سے مار سکتی ہیں۔ تینوں پانی میں اتر کر تیر رہے تھے، ابھی وہ دہانے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ایک اور بڑی لہر آئی اور انھیں اپنے ساتھ اندر دھکیل گئی۔ انھیں لگا جیسے پتھروں پر دھوبی کی طرح لہروں نے انھیں پٹکا ہو۔ لہر واپس چلی گئی تو تینوں پانی سے سر نکال کر سانس لینے لگے، انھیں لگا کہ یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ دانیال نے کہا: ’’مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہی دوسرا پھندا ہے۔ دیکھو پانی اور غار کی چھت میں محض دو تین فٹ کا فاصلہ ہی رہ گیا ہے، اور ہم ڈوب کر مر جائیں گے۔‘‘
اسے لمحے ایک اور بڑی لہر اندر داخل ہو گئی۔
(جاری ہے….)
-
چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
جبران کی خوف سے سرسراتی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’یہ ایک بہت بڑا آکٹوپس ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بے اختیار اتنا پیچھے ہٹا کہ اس کی کمر غار کی دیوار سے لگ گئی۔ دانیال نے دہشت زدہ ہو کر کہا: ’’تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم یہاں ایک بہت بڑے ہشت پا کے ساتھ پھنس چکے ہیں، اب ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے؟‘‘ دانیال کے چہرے پر خوف واضح دکھائی دے رہا تھا، وہ بولنے لگا: ’’دیکھو لہریں اونچی ہوتی جا رہی ہیں اور پانی کی سطح بھی۔ مجھے لگتا ہے یا تو ہم ڈوب جائیں گے یا کسی سمندری بلا کی خوراک بن جائیں گے۔‘‘
سچائی یہ تھی کہ وہ تینوں انتہائی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ آنکھیں خوف کے مارے ابل رہی تھیں۔ فیونا کا رنگ سفید پڑ چکا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن ہونٹ کانپ کر رہ جاتے تھے۔ جبران نے تھوک نگلتے ہوئے کہا: ’’یہ ضرور تین پھندوں میں سے ایک پھندا ہے۔‘‘
اچانک تینوں خوف کے مارے چیخ پڑے۔ ان کے سامنے پانی سے سبز مائل کتھئ رنگ کا کوڑے کی طرح بہت موٹا سرا برآمد ہوا۔ جبران خوف سے لرزتے ہوئے بولا: ’’اس پر تو چوسنے والی کنڈلی بھی ہے، اگر یہ ہم میں سے کسی سے چھو گیا تو جسم کا سارا خون چوس لے گا۔‘‘
لمبا نوکیلا تڑپتا کوڑا ان سے کئی گز کے فاصلے پر فضا میں گھوما۔ دانیال کانپ رہا تھا، اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ … ابھی ہمارا خون چوس لے گا۔‘‘
فیونا ایسے میں بھی جھلا گئی، اور کہا: ’’بے وقوف مت بنو، آکٹوپس خون نہیں چوستا، ہاں اگر خوں آشام ہو تو پھر ضرور خطرہ ہے۔ یہاں اتنا اندھیرا ہے کہ میں اپنا جادو بھی استعمال نہیں کر سکتی، ادھر پانی کی سطح بھی بلند ہوتی جا رہی ہے۔‘‘جبران نے کہا: ’’لیکن تم خود کو چھوٹا اور بڑا تو کر سکتی ہو نا، خود کو اتنا بڑا کردو کہ اس خوں آشام آکٹوپس کو ختم کر سکو۔‘‘
’’لیکن یہ غار تو اتنا بڑا نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے غار کی چھت کی طرف سر اٹھا کر دیکھا۔ ’’میں خود کو زیادہ سے زیادہ بارہ فٹ تک بڑا کر دوں گی جو کہ ایک بہت بڑے آکٹوپس کو ختم کرنے کے لیے ناکافی جسامت ہے۔ ویسے میرے خیال میں خوں آشام آکٹوپس کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘
جبران چلایا: ’’وہ دیکھو، دوسرا کوڑے نما سرا بھی پانی سے نکلا ہے۔ اگر تم خود کو بارہ فٹ تک بڑا کر دو گی تو کم از کم اس کے ساتھ مقابلہ تو کر سکوگی نا۔‘‘
دانیال کی روہانسی آواز سنائی دی: ’’ابھی دو ہی سرے باہر نکلے ہیں اور کُل آٹھ ہیں۔ فیونا ہم موت کے منھ میں جانے ہی والے ہیں۔‘‘’’چپ کرو دانی۔‘‘ فیونا پریشان ہو کر بولی: ’’مجھے سوچنے دو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور چند ہی لمحوں بعد کچھ کہے بغیر اس نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ دانیال بے ساختہ چیخ اٹھا: ’’یہ تم نے کیا کیا… آکٹوپس تمھیں ایک لمحے میں کھا جائے گا اب۔‘‘
دانیال نے خوف کے مارے آنکھیں ہی بند کر لیں۔ جبران حیرت سے اچھل پڑا تھا۔ اس نے کہا: ’’دانی، آنکھیں کھول کر دیکھو۔ فیونا جا جسم بڑا ہو رہا ہے۔ اف میرے خدا!‘‘
جبران کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، اس کی آنکھوں کے سامنے فیونا کا بدن تیزی سے اپنی جسامت سے بڑا ہوتا گیا اور اتنا بڑا اور لمبا ہو گیا کہ اس کا سر غار کی چھت سے ٹکرانے لگا۔ وہ ایک دیو کی طرح لگ رہی تھی اب۔ دانیال نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور ششدر رہ گیا، اس کی آنکھیں حیرت سے باہر نکل آئیں۔ وہ آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگا لیکن اس کے سامنے کا منظر خواب نہیں حقیقت تھا۔ انھیں اپنے سروں کے اوپر فیونا کی باریک آواز سنائی دی: ’’مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے، میں کتنی لمبی ہو گئی ہوں۔‘‘ فیونا انھیں سر جھکا کر دیکھ رہی تھی، دانیال کے منھ سے حیرت زدہ آواز نکلی: ’’بیس فٹ لمبی ہو گئی ہو فیونا، لیکن ہوشیار ہو جاؤ، پانی سے آکٹوپس کی چھ ٹانگیں نکل چکی ہیں!‘‘ اور پھر وہی ہوا جس کا انھیں ڈر لگا تھا۔ آکٹوپس کی کوڑوں کی مانند لہراتی، دہشت ناک ٹانگیں فیونا کی طرف بڑھیں۔ ایک ٹانگ فیونا کی بائیں ٹانگ سے لپٹی اور اسے پانی میں نیچے گرا دیا۔
(جاری ہے…)
-
پچانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
دانیال نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی، کاش کسی آسان سی جگہ پر ہوتا موتی، لیکن ہر بار ایک بہت ہی مشکل جگہ میں قیمتی پتھر چھپا ہوتا ہے۔‘‘
اچانک فیونا نے تشویش بھرے لہجے میں دونوں کو خبردار کیا: ’’اگر لہریں اندر جا رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ غار پانی سے بھرا ہو گا، اور اتنا گہرا ہوگا کہ ہم ڈوب سکتے ہیں، اس لیے ہمیں جلدی کرنا ہوگا۔ دانی تم کتنی دیر تک سانس روک سکتے ہو؟‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے ایک لمبی سانس کھینچی اور جھک کر پانی میں سر ڈال دیا۔ جب اس نے سر باہر نکالا تو زور زور سے سانس لینے لگی۔ دانیال نے بتایا کہ وہ صرف تیس سیکنڈ سانس روک سکی ہے۔ اس کے بعد دانیال نے سانس کھینچ کر پانی میں سر ڈال دیا لیکن صرف پچیس سیکنڈ بعد ہی سر نکال واپس نکال لیا۔ جبران سب سے زیادہ ایک منٹ تک سانس روکنے میں کامیاب ہوا۔ فیونا نے کہا: ’’سنو، وہ سخت خول عین میرے پیروں کے نیچے ہے، دیکھو پانی بالکل شفاف ہے اور خول کو دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘
جبران نے بھی کہا کہ اسے بھی نظر آ رہا ہے، اسے یہ زیادہ بڑا نہیں لگا۔ اس نے کہا: ’’میں پانی میں غوطہ لگا کر اسے کھولنے کی کوشش کرتا ہوں، ہو سکتا ہے کہ صدف کے دونوں پرت ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئی ہوں۔‘‘
دانیال نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو خول کو اٹھا کر باہر نکالنا بہتر ہوگا، باہر اسے پتھر پر مار کر توڑا جا سکتا ہے۔ جبران غوطہ لگا کر خول کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن کائی جمنے کی وجہ سے خول پھسلواں ہو چکا تھا۔ اس نے صدفے کو کھولنے کی کوشش کی لیکن اس کی سانس جواب دے گئی تھی، اس لیے اس نے سر باہر نکال لیا۔
’’خول پر کائی جم گئی ہے اس لیے اسے پکڑنے میں دشواری ہو رہی ہے۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا نے کچھ سوچ کر اپنا سینڈل اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خول توڑنے کی کوشش کر لے، ہو سکتا ہے کام بن جائے۔‘‘
جبران نے سینڈل لے کر گہری سانس لی اور پھر غوطہ لگا لیا۔ ایسے میں دانیال ہنس کر بولا کہ پانی کے اندر وہ سینڈل استعمال نہیں کر سکے گا، کیوں کہ پانی کے اندر اس کا وزن بہت کم ہو جاتا ہے۔‘‘
’’ہاں… تم نے ٹھیک کہا۔‘‘ وہ مسکرا دی، اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ جبران نے جوتے کی مدد سے خول پر سے کائی ہٹانے کی کوشش کی۔ ایسے میں اس نے کن اکھیوں سے کسی چیز کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا، جس پر وہ خوف زدہ ہو گیا۔ اسے لگا کہ کہیں شارک نہ ہو، اس لیے فوراً اٹھا اور ایک پتھر پر چڑھ کر بولا: ’’نیچے کچھ ہے!‘‘
’’تم نے کیا دیکھا؟‘‘ فیونا نے پوچھا: ’’اور میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘
’’کوئی بڑی اور سیاہ چیز تھی، سینڈل سے خول نہیں کھل سکے گا، ہمیں کوئی اور طریقہ استعمال کرنا پڑے گا۔‘‘
فیونا نے نیچے دیکھا لیکن اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ ایسے میں دانیال نے ان دونوں کے پیچھے دیکھا اور چلایا: ’’وہ دیکھو، کوئی چیز ہے وہاں۔‘‘
جبران بھی چیخا: ’’تم دونوں بھی پتھر پر چڑھ جاؤ۔‘‘ دونوں جلدی سے پتھر پر چڑھے اور ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر پوچھا: ’’میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘
جبران کی توجہ سینڈل پر جا ہی نہیں سکی، کیوں کہ اس کے بعد سب کی آنکھوں میں خوف کے سائے تیرنے لگے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ کوئی چیز تیرتی ہوئی ان کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سانپ ہو، یا کوئی ٹانگ یا بازو۔
(جاری ہے…)