Tag: پراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

  • چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    ڈریٹن نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا لیکن وہ ان تینوں کو پہچان گیا تھا۔ یہ اتفاق کی بات تھی کہ جبران اس سے ٹکرا گیا تھا۔ جب وہ تینوں آگے چلے گئے تو ڈریٹن ان سے فاصلہ رکھ کر پیچھا کرنے لگا۔ تینوں ایک کیفے میں گئے، کھانا کھایا اور پھر سمندر کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہ دور سے انھیں جاتے دیکھتا رہا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان کے پیچھے ہرگز نہیں جائے گا بلکہ یہیں پر ان کی واپسی کا انتظار کرے گا۔ یہی سوچ کر وہ ایک دکان کی طرف بڑھا اور وہاں سے ایک بڑے سائز کا تولیہ خریدا، پھر ریت پر آ کر شمسی غسل کے لیے لیٹ گیا، اور آنکھیں موند کر سو گیا۔
    ۔۔۔۔۔۔

    تھوڑی دور آگے جا کر وہ ٹھہر گئے۔ وہاں دور تک قطاروں میں مختلف اقسام کے تاڑ کے درخت اُگے ہوئے تھے۔ ناریل کے درختوں کی بھی ایک قطار تھی۔ جبران نے کہا کہ ناریل توڑنے چاہیئں، لیکن فیونا کا خیال تھا کہ ناریل ابھی کچے ہیں۔ جبران اور دانیال پتھر لے کر ناریل گرانے کی کوشش کرنے لگے، اور فیونا ایک طرف بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے قیمتی پتھر موتی کے اصل مقام کے بارے میں معلوم کرنے لگی۔ ناریل اتنی اونچائی پر تھے کہ ان کے پھینکے پتھر وہاں تک بہ مشکل پہنچ رہے تھے۔ دانیال نے درخت کو ہلانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ دوسری طرف فیونا نے اچانک آنکھیں کھولیں اور خوشی سے چلائی: ’’چھوڑو ناریل ۔۔۔ یہاں آؤ، مجھے پتا چل گیا ہے کہ موتی کہاں چھپا ہے؟‘‘

    دونوں دوڑ کر اس کے قریب چلے آئے۔ دانیال نے بے تابی سے احمقانہ سوال کر دیا: ’’کہاں چھپا ہے، کیا ان بڑے ناریل میں سے کسی ایک میں ہے؟‘‘ یہی نہیں بلکہ وہ مڑ کر قریبی درخت کی طرف منھ اٹھا کر دیکھنے بھی لگا۔

    فیونا نے منھ بنا کر کہا کہ وہ ایک غار میں چھپایا گیا ہے۔ ’’اوہ نو …‘‘ جبران سر پکڑ کر ریت پر بیٹھ گیا۔ ’’ایک بار پھر ہمیں غار میں جانا پڑے گا اور وہاں زلزلے آئیں گے اور ٹرال جیسی بھیانک مخلوق سے واسطہ پڑے گا۔‘‘

    فیونا جھلا کر بولی: ’’اٹھ جاؤ جبران، بہت ڈرپوک ہو تم۔ موتی ایک غار ہی میں ہے لیکن یہ غار زیر آب ہے۔‘‘

    ’’پانی کے اندر۔‘‘ دانیال اچھل پڑا۔ اس نے آنکھیں نکال کر کہا: ’’ہم پانی کے اندر کوئی غار کیسے تلاش کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس مطلوبہ سامان ہے؟ اور یہ بات بھی ہے کہ میں ایک بار پھر بھیگنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘

    فیونا نے کہا کہ اس کے بارے میں تو تبھی پریشان ہوں گے جب ہم یہ کرنے جائیں گے، وہ قریب ہی ہے، جہاں پتھروں کے ڈھیر پڑ ہیں، بس وہیں پر۔ جبران کہنے لگا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ بحری ڈاکوؤں کا جہاز ایک خزانہ لے کر ساحل پر آتا ہے اور وہ یہاں کسی غار میں اسے دفن کر دیتے ہیں۔ ویسے مزا آئے گا نا جب ہم خزانہ بھی ڈھونڈ نکالیں گے، جس کے بارے میں جیکس نے بتایا تھا۔‘‘

    فیونا نے کہا کہ اس کے خیال میں جیکس نے جھوٹ بولا تھا۔ دانیال سمندر کی بڑی بڑی لہروں کو دیکھ رہا تھا، اسے سونامی کا خیال آ گیا، جس کا اس نے باقی دونوں کے سامنے اظہار بھی کر دیا، لیکن انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ فیونا نے کہا: ’’ان پتھروں پر ذرا احتیاط سے چلو، یہ پھسلواں بھی ہیں اور ان کے کنارے بھی تیز ہیں، ویسے مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا سامنا کسی سونامی سے ہوگا۔‘‘

    آخر کار وہ پتھروں کے پاس پہنچ گئے، وہاں سے انھیں کیکڑے نکلتے دکھائی دیے، ذرا دیر میں وہ ایک غار کے سامنے پہنچ گئے۔ غار کا دہانہ اس انداز میں ان کے سامنے نمودار ہوا تھا جیسے گہرائی سے اوپر کی طرف ابھرا ہو۔ وہ محتاط ہو کر اندر داخل ہوئے۔ لہریں غار کے اندر جا رہی تھیں تاہم یہ لہریں بہت چھوٹی تھیں۔ فیونا نے کہا: ’’موتی زیر آب ہے اور ایک بڑے دو مونہے سیپی میں پڑا ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    ’’جبران، پیسوں کو چھپاؤ۔‘‘ دانیال نے اسے کہنی مار کر سرگوشی کی۔ فیونا نے بھی اس کی نظروں کو تاڑ لیا تھا اس لیے اس نے کہا: ’’یہ کوئی زیادہ بڑی رقم نہیں ہے، اس میں سے کچھ تو آپ کا کرایہ ہے، ہاں اگر آپ زیادہ ٹپ چاہتے ہیں تو ہمیں خیریت سے لے جا کر صحیح سلامت واپس پہنچا دیں۔‘‘

    یہ سن کر جیکس اچانک سیدھا کھڑا ہو گیا اور تیز لہجے میں بولا: ’’اپنے لائف جیکٹس پہن لیں، یہ اصول ہے یہاں کا۔ ہو سکتا ہے یہ آپ لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو لیکن انھیں پہننا ضروری ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کشتی اسٹارٹ کر دی اور وہ ذرا دیر میں کھلے سمندر میں پہنچ گئے۔ وہ ان تینوں کو جزائر کے گرد پھرنے والے سمندری ڈاکوؤں کے بارے میں بتانے لگا، اس نے بتایا کہ یہاں ایسی کھاڑیوں کی بے شمار کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں جہاں خزانہ دفن ہے اور وہ آسیب زدہ ہیں۔ جیکس نے انھیں بڑے بڑے گھونگوں اور کن کھجوروں سے بھی خبردار کیا اور کہا کہ ناریل کے کسی درخت کے نیچے بھی کھڑے مت ہونا، لیکن اس کی وجہ کوئی آسیب نہیں تھا بلکہ اس نے بتایا کہ دراصل یہاں دنیا کے سب سے اونچے ناریل درخت ہیں، اگر ایک ناریل آپ کے سر پر گرا تو آپ کی کھوپڑی پل بھر میں چٹخ جائے گی۔

    یہ سن کر جبران کو پسینہ آ گیا، اس نے کہا: ’’جی ہم ناریل کے درختوں سے بچ کر رہیں گے لیکن یہ بڑے گھونگوں اور کن کھجورے کیسے ہیں؟ کتنے بڑے ہیں یہ؟ اور آسیب زدہ کھاڑیوں کے بارے میں مزید کچھ بتائیں۔‘‘

    ’’سلہوٹ آئس لینڈ پر آپ کو بہت ساری عجیب و غریب مخلوقات دکھائی دیں گی۔‘‘ جیکس ہنس کر بولا: ’’لیکن جب تک آپ انھیں نہیں چھیڑیں گے، یہ آپ کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ دل چسپی سے تینوں کو دیکھنے لگا، تینوں اس کی باتیں سن کر دل ہی دل میں ڈر گئے تھے۔ وہ بتانے لگا: ’’جزیرے کے غاروں میں سے کسی ایک غار میں بہت بڑا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سے ایک تجارتی جہاز گزر رہا تھا جس پر بہت بڑا خزانہ لدا تھا لیکن بحری جہاز کو سمندری ڈاکوؤں نے حملہ کر کے تباہ کر دیا اور سارا خزانہ لوٹ کر انھی غاروں میں سے کسی ایک میں چھپا دیا، لیکن آج تک کسی کو اس خزانے کا سراغ نہیں ملا ہے۔‘‘

    جیکس نے انھیں بتایا کہ بہت سارے لوگ خزانے کی تلاش میں آئے لیکن موت کے منھ میں چلے گئے۔ یہ باتیں سن کر وہ ساکت بیٹھے سنتے رہے۔ پھر ان کی کشتی ساحل پر پہنچ گئی۔ جیکس نے کہا: ’’اب آپ کشتی سے اتر کر کنارے تک جائیں کیوں کہ آگے کشتی نہیں جا سکتی۔ چوں کہ آپ نے مجھے اچھا کرایہ دیا ہے اس لیے میں چھ گھنٹوں تک آپ کی واپسی کا انتظار کروں گا اور اس دوران مچھلیاں پکڑوں گا۔ لیکن آپ لوگ دیر مت کرنا، ہمیں چھ گھنٹوں میں واپس جانا ہے، کیوں کہ میں اندھیرے میں کھلے سمندر میں کشتی نہیں نکالنا چاہتا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ جبران کے منھ سے بے ساختہ نکلا، وہ ایک دم گھبرا گیا تھا۔

    ’’بحری ڈاکوؤں کے بھوت…‘‘ جیکس نے سنسنی خیز لہجے میں کہا: ’’میں نے خود بھی دیکھے ہیں۔ ان کا بھوت جہاز بھی رات کو جزیروں کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اگر آپ انھیں قریب سے دیکھ لیں گے تو پھر واپس کبھی ساحل پر نہیں آ پائیں گے۔‘‘

    تینوں پھٹی آنکھوں سے جیکس کی طرف دیکھ رہے تھے، انھیں ریڑھ کی ہڈیوں میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ تینوں اسی عالم میں کشتی سے پانی میں اتر گئے اور ساحل کی طرف بڑھنے لگے۔ ایک قدم اٹھانے کے بعد جبران نے مڑ کر دیکھا اور بولا: ’’مجھے آپ کی باتوں پر بالکل یقین نہی ہے مسٹر جیکس، آپ ہمیں محض ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

    جیکس نے اس کی بات سن کر کوئی جواب نہیں دیا، بس زیر لب مسکرانے لگا۔

    (جاری ہے)

  • نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ہمیں شاپنگ کی ضرورت ہے،‘‘ دانیال بولا: ’’ہم یہاں اس جزیرے پر ان کپڑوں میں نہیں گھوم پھر سکتے۔ میرے کپڑوں سے سمندر جیسی بو آ رہی ہے، مجھے اپنے بالوں میں برش بھی کرنا ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، چلو پہلے شاپنگ کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے اترے تو فیونا بولی: ’’یہاں ذرا ٹھہرو، اور کاؤنٹر والے شخص پر نظر رکھو، جیسے ہی وہ ادھر ادھر کسی کام میں لگ جائے، تب فوراً باہر نکلو۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ مجھ سے والدین کے بارے میں پوچھے۔‘‘

    انھیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا، ایک نوجوان جوڑا آ کر کاؤنٹر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ تینوں تیزی کے ساتھ آگے بڑھے اور ان کی آڑ میں برآمدے سے ہوتے ہوئے ہوٹل سے باہر نکل گئے۔ سڑک پر آتے ہی جبران بولا: ’’ہوٹل کے برآمدے میں اتنی عجیب و غریب اور خوب صورت چیزیں ہیں کہ وہاں سے نکلنے کو دل ہی نہیں کرتا۔‘‘ فیونا نے ہنس کر اس کی تائید کی، اور کہا کہ جب کاؤنٹر والا چھٹی کرے گا تو وہ برآمدے میں وقت گزاریں گے۔

    وہ تینوں سڑک کنارے دکانوں کے اندر جھانکنے لگے، وہ دکانوں میں سجی اشیا دیکھنے میں اتنے مگن تھے کہ راستے میں کھڑے اس شخص کو بھی نہیں دیکھ سکے جو رقم گن رہا تھا۔ جبران اچانک اس سے جا ٹکرایا۔ راستے میں کھڑے شخص نے لپک کر اسے گردن سے پکڑ لیا۔ ’’کیا کر رہے ہو، اندھے ہو کیا…!‘‘ وہ شخص بھڑک کر بولا: ’’اچھا تو تم میرے پیسے چرانا چاہتے ہو؟‘‘ جبران یہ دیکھ کر گھبرا گیا اور گڑگڑانے لگا: ’’نن … نہیں جناب، میں غغ … غلطی سے ٹکرایا!‘‘

    اس دوران دانیال اور فیونا بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے، اس شخص نے دونوں کو گھور کر دیکھا اور ڈپٹ کر پوچھا: ’’تم دونوں کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

    ’’کک … کچھ نہیں۔‘‘ فیونا ایک دم گھبرا گئی: ’’آپ اسے چھوڑ دیں، جو کچھ ہوا وہ ایک حادثہ تھا۔‘‘

    ’’اوہو…‘‘ وہ طنزیہ انداز میں بولا: ’’تم تو بڑی بہادر لڑکی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جبران کو دھکا دے کر پیچھے گرا دیا اور وہ بے چارا چاروں شانے چت ہو گیا۔ اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔

    ’’میں سمجھتا ہوں تم سب کی چالاکی کو۔‘‘ وہ غرّا کو بولا۔ ’’تم پر کڑی نظر رکھوں گا میں۔ اگر تم پھر میرے راستے میں آئے تو تمھاری خیر نہیں ہے، مجھ سے دور ہی رہنا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ قہقہہ لگاتا ہوا چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی دونوں دوڑ کر جبران کے پاس آ گئے اور اسے اٹھایا۔ فیونا اچانک بولی: ’’حیرت ہے اس شخص کا لہجہ بالکل انگریزوں والا تھا۔‘‘

    ’’وہ بدمعاش گینڈا تھا۔‘‘ جبران غصے میں بولا۔ کچھ دیر تک وہ اس ناخوش گوار واقعے پر تبصرے کرتے رہے اور پھر شاپنگ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ایک دکان سے فیونا نے اپنے لیے گلابی رنگ کا سوٹ خریدا جس پر جگہ جگہ سوزن کاری سے اسٹار فش بنائی گئی تھی۔ دانیال نے نیلے رنگ کی مختصر پینٹ اور سفید ٹی شرٹ اور ایک عدد بالوں کا برش خرید لیا۔ اس کی ٹی شرٹ پر سیچلز کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ جبران نے ہلکے سبز رنگ کی مختصر پینٹ پسند کی، اس نے بھی سفید ٹی شرٹ خریدی جس پر کھجور کے درخت کی تصویر تھی۔ تینوں نے اپنے لیے چپل بھی خریدی، اور اس کے بعد وہ ہوٹل واپس آ گئے اور کپڑے بدل لیے۔ انھوں نے پرانے کپڑے یونہی بستروں پر پھینک دیے۔ نئے کپڑوں میں وہ زیادہ بہتر محسوس کر رہے تھے، تینوں ہوٹل سے پھر نکل آئے، اس وقت موسم میں بھرپور نمی تھی، فیونا نے کہا: ’’ہمیں ایک کشتی کرائے پر لینی ہوگی، سلہوٹ آئس لینڈ جانے کے لیے ہم کسی ٹور گروپ کے ساتھ نہیں جائیں گے، چلو پہلے یہ کام کرتے ہیں۔‘‘
    انھوں نے ایک پرائیویٹ کشتی بُک کر لی تو ان کے پاس ایک گھنٹہ تھا، جس کے بعد ہی کشتی نے روانہ ہونا تھا۔ ایسے میں جبران بولا: ’’میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے!‘‘

    (جاری ہے…)

  • نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نواسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’کھانا بھی کھا لیں گے جبران۔‘‘ فیونا بولی: ’’سب سے پہلے یہاں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک بروشر کی ضرورت ہے اور ہمیں ایک ایسی جگہ ڈھونڈنی ہے جہاں تین چوٹیاں ہیں۔‘‘

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    تینوں برآمدے میں آ گئے۔ ایک طرف دیوار کے پاس ہی انھیں میز پر بہت سارے بروشر نظر آ گئے۔ تینوں نے ایک ایک اٹھا لیا اور قریبی صوفے پر بیٹھ گئے۔ جبران نے ایک تصویر دونوں کو دکھائی: ’’یہ ہیں شاید تین چوٹیاں، جزیرہ ہے کوئی، جزیرہ سلہوٹ!‘‘

    ’’ہاں یہی لگتا ہے۔‘‘ فیونا نے سر ہلایا: ’’کیوں کہ کوئی اور تصویر نہیں ہے، اب ہمیں اس جگہ تک پہنچنا ہے، میرے خیال میں یہ جزیرہ زیادہ دور نہیں ہوگا۔‘‘
    ۔۔۔۔۔۔

    دوسری طرف ڈریٹن ویونگ پامز نامی ہوٹل چلا گیا، اسے کمرے کی تلاش تھی۔ وہ ہوٹل کے برآمدے میں ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اور آس پاس کئی اور لوگ بھی موجود تھے۔ اس نے ایک رسالہ اٹھا لیا اور جھوٹ موٹ پڑھنے لگا۔ وہ دراصل اطمینان سے لوگوں کی باتیں سننا چاہ رہا تھا۔ آدھے گھنٹے ہی میں وہ نہ صرف ان لوگوں کے کمروں کے نمبر جان گیا بلکہ انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہ کہاں کہاں اور کتنی دیر کے لیے باہر جائیں گے، اور یہ کہ ان کے پاس رقم ہے یا نہیں۔ ان کے جاتے ہی وہ ان کے کمروں کی طرف چلا گیا، وہاں جا کر اسے پتا چلا کہ کمروں میں کمپیوٹرائز تالوں کی بجائے پرانے طرز کے تالے لگے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ بے حد خوش ہو گیا، ذرا سی دیر میں وہ ایک کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو چکا تھا اور پھر تیزی سے رقم، کریڈٹ کارڈز اور زیورات اٹھا کر باہر نکل گیا۔ اسی طرح اس نے تمام کمروں کا صفایا کرتے ہوئے لوگوں کو ان کی قیمتی اشیا سے محروم کر دیا۔ اس ہوٹل کے بعد اس نے دوسرے ہوٹل کا رخ کر لیا، اور اس طرح تین گھنٹے بعد اس کی جیب میں چھ ہزار سے پاؤنڈ سے زیادہ کی رقم آ چکی تھی، کئی کریڈٹ کارڈز، گھڑیاں، اور سونے کی انگوٹھیاں اس کے علاوہ تھیں۔ وہ سڑک کنارے چلتے ہوئے قہقہے لگانے لگا۔

    ’’صبح کے لیے اچھا شکار رہا‘‘ اس نے خود کلامی کی: ’’میرے پاس اب اتنی رقم آ چکی ہے کہ میں اس مشن کے دوران آسانی سے عیش کے ساتھ رہ سکتا ہوں۔‘‘

    (جاری ہے)

  • اٹھاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    اندر دو عدد پلنگ تھیں، کمرہ بے حد خوب صورت تھا، ہر چیز سے نفاست جھلکتی تھی۔ انھیں دو بستروں والا کمرہ ہی مل سکا تھا، جبران اور دانیال کو ایک ہی پلنگ پر سونا تھا۔ دانیال اچھل کر پلنگ پر بیٹھ گیا، پلنگ بے حد آرام دہ تھا، اسے بڑا مزا آیا۔

    پلنگوں پر جو چادر بچھی ہوئی تھی اس کا رنگ سمندر کے پانی کی طرح سبز تھا، دونوں اطراف میں مچھلیوں کی شکل کے تکیے رکھے ہوئے تھے۔ میز پر تازہ پھولوں سے سجا گل دان پڑا تھا۔ فیونا گل دان کے پاس جا کر پھول سونگھنے لگی، جبران کو پھولوں سے دل چسپی نہیں تھی، اس نے غسل خانے کا رخ کر لیا اور پھر وہاں سے اس کی چیخ سنائی دی۔ وہ دونوں جلدی جا کر دیکھنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ صابن اسٹار فش کی شکل کے ہیں اور باتھ ٹب بھی دیکھنے کے لائق تھا۔ وہ شیشے کا بنا تھا جیسا کہ برآمدے کا فرش تھا۔ ٹب کے کناروں کے اندر بھی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔

    جبران کہنے لگا: ’’ایسا لگتا ہے جیسے تمام باتھ رومز کی چھتیں مچھلیوں کی کسی بہت بڑی ٹینکی سے منسلک ہوں اور مچھلیاں پوری عمارت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک تیر رہی ہوں۔‘‘جبران باتھ ٹب میں چڑھ گیا، اسے ایسا لگا جیسے وہ سمندر میں کھڑا ہو، اسے عجیب لگا۔ دانیال نے دیواروں پر لگی ٹائلوں پر ہاتھ پھیرا، ان کا رنگ سبز مائل ہلکا نیلا تھا۔ ہر ٹائل پر ایک لہر بنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ایک دائرہ بن رہا تھا اور ہر دائرے کے اندر ایک سیپی تھی۔ تینوں ایک ایک چیز کو غور سے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ تولیوں پر بھی مختلف اقسام کی مچھلیاں سوزن کاری کے ذریعے بنائی گئی تھیں۔ ایک کونے میں ڈبہ رکھا ہوا تھا جس میں گیندیں تھیں۔ جبران گیندیں دیکھ کر چہکا: ’’واہ یعنی نہاتے ہوئے ہم ان سے کھیل بھی سکتے ہیں۔‘‘

    فیونا نے ایک گیند اٹھا کر دیکھی تو اس کے اندر پانی اور مچھلیاں نظر آئیں، دانیال نے کہا کہ وہ تو سب سے پہلے غسل کرنا چاہتا ہے لیکن فیونا نے کہا کہ سب سے پہلے موتی تلاش کیا جائے گا۔ فیونا نے یاد دلایا کہ جمی اور انکل اینگس نے کہا تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے موتی ڈھونڈ کر لانا ہے۔ فیونا نے کہا :’’تم چیزیں دیکھو، میں پلنگ پر چند منٹ کے لیے لیٹ کر آنکھیں بند کرتی ہوں۔‘‘

    فیونا پلنگ پر جا کر لیٹ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ فوراً ہی اس کے تصور میں تین عدد چوٹیاں آ گئیں۔ جبران باتھ روم سے نکلا تو فیونا کو سوتا پایا، اس نے فیونا کو آواز دی۔ ’’اٹھو فیونا، تم آدھے گھنٹے سے سو رہی ہو، تم نے خود ہی کہا تھا کہ ہمیں فوراً موتی ڈھونڈنا ہے۔ کیا ہم پہلے کچھ کھا سکتے ہیں؟‘‘ فیونا اٹھ کر بیٹھ گئی۔

    جاری ہے….

  • چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    وہ تینوں اس وقت جزیرہ ماہی پر واقع ٹاؤن وکٹوریہ میں کھڑے تھے، سیچلز میں تقریباً ایک سو پندرہ جزیرے موجود ہیں۔ دانیال کو ریت عجیب سی لگی، اس نے مٹھی میں ریت بھری اور پھر اسے انگلیوں کے درمیان میں سے پھسلنے دیا۔ جبران نے ریت پر نگاہ ڈالی تو اسے اس میں ہلکا گلابی رنگ نظر آیا۔ فیونا نے کہا کہ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہاں رنگوں کے ہزاروں شیڈز پائے جاتے ہیں۔

    جبران نے فیونا سے پوچھا کہ یہاں انھوں نے کون سا پتھر ڈھونڈ نکالنا ہے، فیونا نے جواب دیا: ’’موتی … اور کیا تم دونوں نے محسوس کیا کہ ہم ایک اور جزیرے پر ہیں، آخر جزیرے ہی پر کیوں؟ کیا کنگ کیگان نے انھیں کہا تھا کہ ہر پتھر ایک جزیرے ہی پر چھپایا جائے؟‘‘

    دانیال نے سوچ کر کہا: ’’جزائر عام طور سے دور دراز مضافاتی علاقوں میں ہوتے ہیں، شاید اس لیے، جیسا کہ ہائیڈرا ایک دور مضافاتی علاقہ تھا، آئس لینڈ بھی، اور اب یہ سیچلز۔ میں نے تو ان کے نام بھی نہیں سنے تھے۔‘‘

    جبران نے اس کے کپڑوں کی طرف دیکھ کر کہا جو اتنی دیر میں بالکل سوکھ گئے تھے: ’’تمھیں بالوں میں کنگھی کرنی چاہیے، بال ایسے ہوئے ہیں جیسے رسیاں ہوں یا سانپ، ہائیڈرا کے عفریت کی طرح۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر بولا: ’’ویسے آج کل جزائر مضافاتی نہیں رہے ہیں، کیوں کہ ہم کہیں بھی چند گھنٹوں میں اڑ کر وہاں جا سکتے ہیں۔‘‘

    ’’اور ہم تو ایک منتر پڑھ کر چند ہی سیکنڈ میں یہاں پہنچے۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ ’’لیکن دانی کی بات درست لگتی ہے، جونی اور جمی کے دور میں یہ جزائر واقعی دور دراز علاقوں میں واقع الگ تھلگ واقع تھے اور ان تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔‘‘

    فیونا نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر کہا: ’’آئس لینڈ سے واپسی پر میں نے انکل اینگس کو رقم واپس نہیں کی تھی، اس لیے یہ میرے پاس موجود ہے، اب ہمیں پھر سب سے پہلے بینک تلاش کرنا ہے، پتا نہیں یہاں برطانوی کرنسی چلے گی یا نہیں؟‘‘

    تینوں وکٹوریہ ٹاؤن میں گھومنے لگے، وہاں دکانیں بے حد شان دار تھیں۔ انھیں ایک بینک نظر آیا تو فیونا انھیں چھوڑ کر اندر چلی گئی لیکن ذرا ہی دیر بعد پریشانی کے عالم میں واپس آ گئی۔ ’’انھوں نے مجھے کرنسی تبدیل کر کے نہیں دی، کہہ رہے ہیں کہ پاسپورٹ کے بغیر تبدیل نہیں کریں گے۔‘‘

    جبران نے کہا: ’’تو کسی اور بینک میں کوشش کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے ایک اور بینک تلاش کیا، فیونا اندر گئی اور کچھ دیر بعد چہرے پر مایوسی طاری کیے واپس آ گئی۔ ان دونوں کے چہرے بھی اتر گئے، لیکن فیونا اچانک چہک اٹھی: ’’پریشان مت ہو، اب کہ بار میں کامیاب ہو گئی ہوں، یہاں سیچلز روپے استعمال ہوتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ ہیں لیکن وہ اس وقت سمندر میں نہانے چلے گئے ہیں اور ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے میری بات سن کر کوئی سوال نہیں کیا۔‘‘

    جب انھیں معلوم ہوا کہ بحر ہند کے مغربی حصے میں واقع سیچلز پر ایک سو پندرہ جزیرے ہیں تو انھیں حیرانی ہوئی، جلد ہی انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ان میں سے زیادہ ایسے جزائر ہیں جو مونگے کی چٹانوں اور دیگر چیزوں سے بنے ہیں، یعنی اصل جزیرے نہیں ہیں۔ فیونا نے کہا کہ چلو اب کوئی ہوٹل دیکھتے ہیں، لیکن جبران نے کہا: ’’ہم ہر بار ہوٹل میں کمرہ ہی کیوں لیتے ہیں، ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے، کیوں نہ ہم ابھی سے موتی ڈھونڈنا شروع کریں؟‘‘

    دانیال اس بات پر اچھل پڑا: ’’کیا ہو گیا ہے تمھیں جبران! اگر ہمیں ابھی فوراً موتی نہیں ملا اور ہمیں بہت دیر ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا تم یہاں ساحل پر لمبی تان کر سو جاؤ گے؟‘‘

    دانیال درست کہہ رہا تھا، فیونا نے اس کی تائید کی اور کہا: ’’آئس لینڈ میں ہم نے کمرہ حاصل کیا تھا جو ہمارے بہت کام آیا تھا، ہائیڈرا میں نہیں لیا لیکن یہاں ہمیں کسی کمرے کی ضرورت ہے، میں نہانا بھی چاہتی ہوں، اور آرام کی بھی ضرورت محسوس کر رہی ہوں۔ اگر یہاں سو سے زائد جزیرے ہیں تو میں شرط لگا سکتی ہوں کہ موتی اس والے جزیرے پر تو بالکل نہیں ہے۔‘‘

    انھیں پیاس لگی تو وہ ہوٹل کی تلاش چھوڑ کر ایک کھلی کیفے میں جا کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے ویٹر کو لیموں کے شربت کا آرڈر دیا، تو وہ کچھ دیر میں شیشے کی ایک صراحی کے ساتھ آ گیا، جس میں پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں لیمو، مالٹے اور گلاب کے کٹے پتے تیر رہے تھے۔ جبران نے لیموں کے رس سے گھونٹ بھرا اور تعریف کی۔ انھیں شربت بہت مزے دار لگا۔ شربت پینے کے بعد انھوں نے میز پر بل رکھا اور ساتھ میں ٹپ بھی، اور پھر نکل کر ہوٹل کی تلاش کرنے لگے۔ جلد ہی انھیں ہوٹل کا سائن بورڈ دکھائی دیا جس پر لکھا تھا: ’’سی سائیڈ فینٹیسی!‘‘

    (جاری ہے…)

  • پچاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    ساحل کی ریت پر لہریں بڑھ بڑھ کر ان کے قدموں کو چھو رہی تھیں۔ جبران اپنے ارد گرد پھیلے حسن کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی ایسا سمندر نہیں دیکھا تھا جو سبز مائل نیلا ہو۔ ’’خوب، ہم ضرور ہوائی میں ہیں۔‘‘ اس نے اعلان کیا، لیکن فیونا نے کہا کہ اس نے ہوائی کی تصاویر پوسٹ کارڈز پر دیکھی ہیں اور وہ ایسی بالکل نہیں تھیں۔ فیونا نے ارد گرد نگاہیں دوڑا کر مسکراتے ہوئے کہا: ’’میرے خیال میں ہم سیچلز میں ہیں۔‘‘

    ’’یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟‘‘ جبران اس کی طرف مڑا۔ فیونا نے بدستور مسکرا کر جواب دیا: ’’ضرور کہہ سکتی ہوں، کیوں کہ وہ دیکھو، سامنے ایک نوٹس بورڈ لگا ہے، جس پر لکھا ہے کہ ہم روے زمین پر سب سے خوب صورت جگہ یعنی سیچلز میں ہیں، اور ہم جزیرہ ماہی کے ساحل پر ہیں۔‘‘

    دانیال حیران ہوا، اور پوچھ بیٹھا کہ فیونا کو یہ معلومات کہاں سے ملیں۔ فیونا نے پھر مسکرا کر کہا کہ یہ بھی اسی بورڈ پر لکھا ہوا ہے۔ دانیال نے اس کے بعد بورڈ پر نگاہ دوڑائی تو اسے پورا نقشہ نظر آ گیا، جبران بھی قریب جا کر پڑھنے لگا۔
    ’’اس ساحل کو پریوں کا دیس کہا جاتا ہے … اوہ … تو کیا یہاں آئس لینڈ کی طرح پریاں ہیں؟‘‘ جبران منھ بنا کر چونک اٹھا۔ دراصل آئس لینڈ پر پریوں کے ساتھ ٹرالز بھی تھے، اس لیے اب پریوں کا خیال بھی اس کے لیے کوئی خوش نما نہیں رہا تھا۔ فیونا نے جلدی سے کہا: ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہاں ہمارا سامنا ٹرالز سے ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اسے پریوں کا دیس اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں کی ریت ایسی چمکتی ہے جیسے پری، یا شاید کسی اور وجہ سے ایسا کہا جاتا ہو، بہرحال چلو سیپیاں چنتے ہیں۔‘‘

    فیونا ساحل کی طرف دوڑی اور سیپیاں اٹھا کر جیب میں ڈالنے لگی۔ دانیال نے جوتے اتارے اور خوشی سے چلاتے ہوئے سمندر کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس نے بتایا کہ پانی اچھا خاصا گرم ہے۔ تینوں سامنے دیکھنے لگے، سورج کی کرنیں لہروں پر پڑنے لگی تھیں، اور یہ منظر بڑا ہی دل فریب تھا۔ جبران کو شرارت سوجھی تو اس نے دانیال کو دھکا دے کر پانی میں گرا دیا اور اس کے کپڑے بھیگ گئے، اس پر فیونا نے اسے بری طرح ڈانٹا۔ کچھ دیر بعد تینوں ٹاؤن جانے کا راستہ تلاش کرنے لگے۔ وہ ساحل سے سڑک پر آ گئے، کنارے کھڑے انھیں کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک کار وہاں سے گزری۔ انھوں نے جلدی سے کار کو رکنے کا اشارہ کیا، جس میں ادھیڑ عمر میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کار روکی تو جبران نے آگے بڑھ کو پوچھا: ’’کیا آپ ہمیں ٹاؤن تک لے جاسکتے ہیں؟‘‘
    انھوں نے ان پر ایک نگاہ ڈالی اور پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے کہا، ان کے اندر بیٹھتے ہی کار چل پڑی۔ ادھیڑ عمر ڈرائیور کا نام بوٹلی تھا، انھوں نے خشک لہجے میں پوچھا: ’’مجھے حیرت ہے کہ تین بچے بن ماں باپ اس جیسی جگہ گھومتے ہوئے آ نکلے ہیں۔ فیری لینڈ ساحل پر آخر تم لوگوں کا کیا کام تھا؟ اور تمھارے والدین کہاں ہیں؟‘‘

    جبران اور دانیال چپ رہے۔ فیونا نے پہلے ہی سے اس قسم کے سوال کا جواب تیار رکھا ہوا تھا، اس لیے وہ بولی: ’’انھوں نے کافی دیر پہلے یہاں اتار دیا تھا، اب ہم ساحل پر تھک گئے ہیں اور ان کا انتظار کیے بغیر اپنے ہوٹل جانا چاہتے ہیں۔‘‘
    بوٹلی نے حیرت سے کہا: ’’اوہ گاڈ، پتا ہے تم لوگ ٹاؤن سے کتنے دور ہو، میرے خیال میں تم لوگ وکٹوریہ میں ٹھہرے ہوئے ہو نا؟‘‘ ’’وکٹوریہ؟‘‘ فیونا نے سوالیہ انداز میں کہا۔

    ’’جی ہاں، مرکزی ٹاؤن، یقیناً آپ کو اپنے ہوٹل کا نام یاد ہوگا۔‘‘ بوٹلی کی بیوی نے اپنی طرف کی کھڑکی کا شیشہ چڑھاتے ہوئے پوچھا۔ ’’یہ تو اچھا ہوا کہ میں نے لانگ ڈرائیونگ پر نکلنے کی خواہش کی تھی، ورنہ اس طرف تو لوگ نہیں آتے، تم لوگوں کو اپنے والدین کے آنے کے لیے بہت انتظار کرنا پڑتا۔‘‘

    فیونا بولی: ’’جی آپ نے درست کہا، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ اس طرف آئے۔ مجھے اپنے ہوٹل کا نام یاد تو نہیں ہے، ہاں اگر دیکھ لوں تو پہچان لوں گی۔ آپ ہمیں بس ٹاؤن تک پہنچا دیں۔‘‘

    بوٹلی نے اپنی بیوی کی خواہش پر مقامی لوک گانے لگا دیے، باقی راستہ انھوں نے خاموشی سے وہ گانے سن کر گزارا، آخر کار وہ ٹاؤن پہنچ گئے۔ بوٹلی نے کار روکی تو تینوں نے اترنے میں دیر نہیں لگائی، فیونا نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ کار چلی گئی تو اس نے چاروں طرف نگاہیں دوڑا کر کہا: ’’تو یہ ہے وکٹوریہ، سیچلز کا دارالحکومت!‘‘

    (جاری ہے …)

  • چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    تینوں کے جانے کے بعد اینگس کے چہرے پر ایسے گہرے تاثرات چھا گئے جیسے وہ کوئی بہت اہم بات سوچ رہے ہوں۔ ان کے سامنے جمی اور جیزے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے، اور کمرے میں خاموشی تھی۔ یکایک اینگس نے یوں اچانک سر اٹھا کر ہلایا جیسے وہ کوئی اہم فیصلہ کر چکے ہوں۔ چند لمحوں بعد انھوں نے جمی اور جیزے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’جب فیونا اور اس کے دوست واپس آئیں تو انھیں بتانا کہ میں ٹاؤن گیا ہوں۔ اب اس شخص کے بارے میں کھوج لگانے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ گیل ٹے میں اپنی موجودی ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ میں ہوٹلوں اور سرائے میں جا کر اس کے بارے میں معلومات حاصل کروں گا، اور آپ دونوں یہاں بیٹھ کر چائے پئیں۔‘‘ اینگس نے رک کر کہا: ’’مرتبان میں چاکلیٹ بسکٹ بھی موجود ہیں، اطمینان سے مزے لیں، اور ہاں وہ تینوں جلد ہی لوٹ آئیں گے، انھیں یہیں پر روکے رکھیں اور میرے آنے تک جادوئی گولے کو مت چھوئیں۔‘‘

    جمی اور جیزے نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا اور اینگس دروازہ کھول کر چلے گئے۔
    ۔۔۔۔

    ڈریٹن چونک اٹھا۔ اس کے گرد مختلف رنگ جھلملانے لگے تھے۔ خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی تھی۔ لیکن جب اس نے اپنی بند آنکھیں کھول دیں تو وہ حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں کھڑا تھا۔ ڈریٹن خوشی کے مارے بڑبڑانے لگا: ’’زبردست … زبردست … میں یہاں صحیح سلامت پہنچ گیا ہوں۔‘‘ اس نے جیبوں میں ہاتھ ڈالے تو اس سے چند نوٹ نکل آئے۔ ’’ہونہہ … یہ تو اس جیسی جگہ کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔‘‘ اس نے سامنے سڑک پر پُر تعیش ہوٹلوں کی قطار پر نگاہ دوڑائی، پھر اپنی بری عادت کے مطابق بولا: ’’کوئی بات نہیں، جو چیز خرید نہیں سکتا، وہ چرا تو سکتا ہوں۔‘‘

    اس نے کوٹ اور شرٹ اتار کر پھینک دیے اور جینز اور جوتوں کو رہنے دیا۔اس کے قریب سے ایک جوڑا گزرا، ان کی چمکتی ہوئی جلد کو دیکھ کر ڈریٹن کو اپنا پھیکا رنگ برا لگنے لگا۔ وہ نئے کپڑوں کے لیے کوئی شاپنگ سینٹر ڈھونڈنے لگا۔ ذرا دیر بعد اسے ایک شاپنگ سینٹر مل گیا، اس نے مقامی لباس پسند کر کے چپکے سے اٹھایا اور پھر مہارت کے ساتھ شاپنگ سینٹر سے نکل گیا اور درختوں کے جھنڈ میں واپس جا کر اس نے کپڑے تبدیل کر لیے۔ ایک مرتبہ پھر وہ گلیوں میں نکل آیا اور ادھر ادھر دیکھ کر بڑبڑانے لگا: ’’ویسے یہ جگہ ہے کون سی؟ اور وہ تین کہاں گئے؟‘‘ اسے ایک ہوٹل نظر آیا تو اس کے قدم اسی طرف اٹھنے لگے۔
    (جاری ہے)

  • بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جیزے اچھل کر بولا: ’’ارے یہ تو ایسی بو ہے جیسے آگ لگی ہوئی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلا، باہر چھت میں آگ لگی ہوئی تھی، وہ چلا کر بولا: ’’بالٹیوں میں پانی لاؤ، جلدی کرو۔‘‘

    فیونا، جبران اور دانیال باہر کی طرف دوڑے۔ جبران خوف زدہ ہو کر چیخا: ’’انکل اینگس کے گھر کو آگ لگ گئی ہے، باہر نکلو سب۔‘‘

    وہ تینوں گھر سے باہر نکل گئے تھے جب کہ اندر جمی، جیزے اور اینگس بالٹیوں میں پانی بھر بھر کر آگ پر پھینکنے لگے، اور پھر کچھ ہی دیر میں آگ پھیلنے سے پہلے ہی بجھ گئی۔ لیکن سیاہ پانی نے دیواروں کا ستیاناس کر دیا تھا۔ اینگس یہ دیکھ کر دکھی ہو گئے۔ ’’ان نشانات کو صاف کرنا تو ناممکن ہے، مجھے لازماً دوبارہ پینٹ کروانا پڑے گا۔‘‘

    تینوں واپس اندر آ گئے تھے، فیونا کا خیال تھا کہ آگ آتش دان سے لگی ہوگی، اس لیے اس نے آتے ہی پوچھا: ’’انکل، ہوا کیا ہے، آگ چھت تک کیسے پہنچی؟‘‘

    اینگس کی آنکھوں میں تشویش کے سائے دوڑنے لگے تھے، انھوں نے دھیمے لہجے میں کہا: ’’میں یہاں ایک طویل عرصے سے رہتا آ رہا ہوں، ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جمی اور جیزے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے۔ چند لمحے یوں ہی گزر گئے، آخر کار جمی نے اثبات میں سر ہلا کر کہا: ’’جی ہاں، یہ وہی دشمن ہے، اب ہمیں مزید احتیاط کرنی ہوگی، اس گولے میں جتنے ہیرے آئیں گے، اتنی ہی پریشانیاں ہمارے ارد گرد بڑھیں گی۔‘‘

    وہ تینوں پریشان کھڑے تھے، اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، لیکن اتنا وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ تینوں بڑے وہ کچھ جانتے ہیں جو انھیں معلوم نہیں تھا۔ ایسے میں دانیال نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا: ’’آخر یہاں ہو کیا رہا ہے؟‘‘

    اینگس اچانک ان کی طرف مڑے: ’’میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں تم سب کو کھل کر ساری بات بتا دوں۔‘‘ انھوں نے ایک طویل سانس لی اور پھر جمی اور جیزے سے مخاطب ہوئے: ’’براہِ مہربانی آپ دونوں یہاں صفائی کر دیں، میں ابھی آ کر آپ دونوں کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ تینوں بچوں کو اندر کمرے میں لے گئے اور بتانے لگے: ’’جمی، جیزے اور جونی وہ نہیں ہیں جو وہ بتاتے ہیں، لیکن پہلے مجھ سے وعدہ کرو کہ یہ باتیں کسی کو نہیں بتاؤ گے۔‘‘

    تینوں نے وعدہ کر لیا تو اینگس نے کہا: ’’جمی کا اصل نام کوآن، جیزے کا پونڈ اور جونی کا کیتھور ہے، آلرائے کیتھمور…‘‘

    اتنا سنتے ہی تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ ’’یعنی کنگ کیگان کا مؤرخ، جس نے وہ قدیم کتاب لکھی؟‘‘ جبران کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ اینگس نے مضبوط لہجے میں کہا: ’’جی ہاں ۔۔۔ آلرائے کیتھمور۔‘‘

    ’’نہیں یہ ناممکن ہے، وہ تو صدیوں پہلے کا انسان تھا۔ کوئی بھی شخص اتنی طویل عمر نہیں جی سکتا۔‘‘ جبران نے سر انکار میں ہلاتے ہوئے کہا اور باقی دونوں کی طرف تصدیق کے لیے دیکھا۔ فیونا اور دانیال نے بھی سر ہلا دیا۔

    اینگس نے سر زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا: ’’یاد کرو، میں نے تم سے کنگ کیگان کے جادوگر زرومنا کا ذکر کیا تھا، اس نے آلرائے کیتھمور پر ایک منتر پڑھا تھا۔ یعنی جب بھی، کسی بھی زمانے میں قدیم کتاب کھول لی جاتی ہے، وہ ٹائم پورٹل کے ذریعے سفر کرتے ہوئے مستقبل میں پہنچ جاتا ہے۔‘‘

    ’’اوہ …‘‘ تینوں کے منھ حیرت سے کھل گئے۔ دانیال کو ابھی یقین نہیں آ رہا تھا، وہ بولا: ’’آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جونی ماضی سے آیا ہے … ایک قدیم دور سے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘ اینگس نے سنجیدگی سے جواب دیا: ’’جب کہ جمی یا کوآن وہ شخص ہے جس نے سیاہ آبسیڈین کو ہائیڈرا میں چھپایا اور وہاں پھندے لگائے۔ اسی طرح جیزے یا پونڈ نے مرجان کو آئس لینڈ میں چھپایا تھا۔ جب تم کوئی ہیرا حاصل کرتے ہو اور ہم اسے واپس جادوئی گولے میں رکھ دیتے ہیں تو یہ لوگ بھی ایک ایک کر کے اس دور میں چلے آتے ہیں۔ زرومنا کا منتر ان پر بھی ویسے ہی کام کرتا ہے جیسا کہ آلرائے کیتھمور پر کرتا ہے۔‘‘

    تینوں ششدر ہو کر یہ عجیب و غریب کہانی سن رہے تھے۔ اتنی عجیب و غریب کہانی انھوں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ اور یہ سب تو خود ان کے ساتھ ان کی زندگی میں حقیقتاً ہو رہا تھا۔ جبران بولا: ’’تو یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے بچھو اور ہائیڈرا کی بلائیں تخلیق کیں؟‘‘
    دانیال بھی بول اٹھا: ’’اور انھوں نے وائیکنگز اور زلزلہ پیدا کیا تھا!‘‘

    (جاری ہے)

  • اکیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    فیونا نے اینگس کے دروازے پر دستک دی اور پھر صبر کرنے کی بجائے چلّا کر آواز دی: ’’انکل اینگس… دوازہ کھولیں!‘‘

    اینگس نے دروازہ کھولا تو حیرت سے فیونا کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں دیکھنے لگے۔ فیونا نے بتایا کہ کوئی پھر گھر میں گھس آیا تھا۔ وہ اندر چلے گئے۔ فیونا نے ان کے استفسار پر واقعے کی تفصیل سنائی اور کہا: ’’اس مرتبہ اس نے تالے کھولنے کے لیے خاص قسم کے اوزار استعمال کیے، اور اس نے اسپرے پینٹ کا ڈبہ بھی بے پرواہی سے صحن میں پھینکا، اسے فنگر پرنٹس کا بھی خوف نہیں۔‘‘
    اینگس نے واقعے پر کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے کن پٹی سہلاتے ہوئے کہا: ’’فیونا، میرے خیال میں اب بہتر ہوگا کہ تم اگلے ہیرے کے لیے سفر پر روانہ ہو جاؤ۔ کیوں کہ یہ ہیرے جتنے جلد حاصل کیے جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘

    فیونا یہ سن کر پریشان ہو گئی اور بولی: ’’انکل، آپ نے یہ بات جمی اور جیزے کے سامنے کیوں کی، یہ تو اس معاملے سے ناواقف ہیں!‘‘

    اینگس مسکرائے: ’’میری بچی، یہ تینوں بھائی اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں، اور ہم ان پر اعتماد کر سکتے ہیں۔‘‘

    لیکن فیونا کی پریشانی کم نہ ہوئی، وہ ایک ٹک ان تین ’’بھائیوں‘‘ کی طرف دیکھنے لگی۔ جمی نے سنجیدگی سے کہا: ’’پریشان مت ہو فیونا، ہم یہاں آپ ہی کی مدد کرنے آئے ہیں۔ میں اور جیزے یہاں آپ کے انکل کے ساتھ رہیں گے اور جادوئی گولے کی حفاظت کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔ دراصل گزشتہ دنوں کے دوران یہاں جو عجیب و غریب واقعات ہونے لگے ہیں، انھیں دیکھنے کے بعد ہم نے جادوئی گولے کی حفاظت کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

    جبران اور دانیال ایسے میں خاموشی سے یہ گفتگو سن رہے تھے۔ فیونا نے اپنے طور سے بات کو سمجھا تو ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ سارے بھائی ہماری بہت مدد کرتے ہیں۔‘‘

    وہ جبران اور دانیال سے مخاطب ہو کر بولی: ’’چلو … اب چلتے ہیں، نئی جگہ اگلا پتھر ہمارا انتظار کر رہا ہے۔‘‘

    وہ دونوں تیزی سے آگے بڑھے اور فیونا کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ فیونا ابھی منتر دہرانے ہی والی تھی کہ اسے دھوئیں کی بو محسوس ہوئی۔ دانیال نے حیرت سے کہا: ’’یہ کس چیز کی بو ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ناک اوپر کر کے ہوا میں سونگھنے لگا۔
    ۔۔۔
    ڈریٹن جب اینگس کے گھر کے قریب پہنچا تو چند لمحوں کے لیے رک گیا، پھر دبے قدموں پچھلی طرف کی کھڑکی کے پاس پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اندر جھانکنے لگا۔ اندر چھ افراد کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مکروہ قسم کی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ اس نے سوچا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ اس کا خیال تھا کہ اینگس اکیلا ہو گا اور وہ آسانی سے اس کی گردن کی ہڈی توڑ دے گا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کے پاس بھی دو طاقتیں ہیں … جادوئی طاقتیں!

    ’’تو کیوں نہ آگ والی پراسرار طاقت کو آزمایا جائے۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ جادوگر پہلان نے اسے خبردار کیا تھا کہ اگر وہ گولا چاہتا ہے تو یہاں کسی کو نقصان نہ پہنچائے لیکن اس نے پہلان کی نصیحت کو نظر انداز کر دیا اور عین اس لمحے جب تینوں بچے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کچھ کرنے والے تھے، ان کے سروں پر موجود چھپر کے ایک کونے نے آگ پکڑ لی، اور ذرا سی دیر میں وہاں دھواں بھر گیا۔ وہ یہ دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا۔ ’’آہا، ان کے ساتھ تو یہی ہونا چاہیے۔‘‘ ڈریٹن نے کہا اور جھاڑیوں کی طرف دوڑا اور وہیں چھپ کر اینگس کے گھر کو جلتا دیکھنے لگا۔

    (جاری ہے)