Tag: پرتگال

  • پرتگال کیلئے ورلڈ کپ جیتنا میرے کیریئر کا سب سے بڑا خواب تھا جو ٹوٹ گیا، رونالڈو

    پرتگال کیلئے ورلڈ کپ جیتنا میرے کیریئر کا سب سے بڑا خواب تھا جو ٹوٹ گیا، رونالڈو

    پرتگال کے اسٹار کھلاڑی رونالڈو نے کہا ہے کہ پرتگال کے لیے ورلڈ کپ جیتنا میرے کیریئر کا سب سے بڑا خواب تھا۔

    قطر میں جاری فیفا ورلڈکپ کے کوارٹر فائنل میں گزشتہ روز مراکش نے پرتگال کو 0-1 سے شکست دے کر پہلی مرتبہ سیمی فائنل میں جگہ بنائی اور ساتھ ہی رونالڈو کے ورلڈکپ جیتنے کا خواب بھی چکنا چور کر دیا۔

    رونالڈو نے سوشل میڈیا پر ورلڈ کپ ختم ہونے کے بعد اپنا بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ پرتگال کے لیے ورلڈ کپ جیتنا میر کیریئر کا سب سے بڑا خواب تھا، خوش قسمتی سے میں نے پرتگال سمیت بین الاقوامی مقابلوں میں بہت سے ٹائٹل جیتے لیکن اپنے ملک کے لیے ورلڈ کپ جیتنا میرا سب سے بڑا خواب تھا۔

    انکا کہنا تھا کہ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے میں نے پوری کوشش کی، 16 سال میں 5 ورلڈ کپ کھیلے اور گول کیے، میں نے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے کبھی ہمت نہیں ہاری، لیکن افسوس کی بات ہے مراکش کے خلاف میچ میں میرا خواب ٹوٹ گیا۔

    رونالڈو نے مزید کہا کہ  بہت کچھ کہا گیا، بہت کچھ لکھا گیا بہت قیاس آرائیاں بھی ہوئیں لیکن میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ سب جان لیں کہ پرتگال کے لیے میری لگن ایک لمحے کے لیے بھی تبدیل نہیں ہوئی، میں ہمیشہ سب کے مقصد کے لیے لڑا، میں اپنے ساتھیوں اور اپنے ملک سے کبھی منہ نہیں موڑوں گا،اب اور کچھ نہیں کہنا ، شکریہ پرتگال،  شکریہ قطر ،میرا وہ خواب جب تک چلتا رہا اچھا رہا۔

    واضح رہے کہ خیال کیا جارہا ہے کہ رونالڈو کا یہ آخری ورلڈکپ تھا اور شائقین انہیں دوبارہ ورلڈکپ میں کھیلتا نہیں دیکھیں گے ان کی آج کی پوسٹ سے اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ وہ اگلا ورلڈکپ نہیں کھیلیں گے۔

  • کیا رونالڈو سعودی کلب سے معاہدہ کرنے والے ہیں؟

    کیا رونالڈو سعودی کلب سے معاہدہ کرنے والے ہیں؟

    پرتگال کے اسٹار فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو نے گزشتہ دنوں انگلش فٹبال کلب مانچسٹر یونائیٹڈ سے راہیں جدا کرتے ہوئے خیر باد کہہ دیا ہے۔

    پرتگال کے اسٹار فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو نے حال ہی میں برطانوی صحافی کو دیے انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب کے فٹبال کلب کی جانب سے انہیں تقریباً 360 ملین ڈالرز کے 2 سال کے معاہدے کی پیشکش کی گئی تھی۔

    کرسٹیانو رونالڈو نے اس حوالے سے کہا تھا کہ میں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔

    تاہم اب خبر ایجنسی کے مطابق مانچسٹر یونائٹیڈ سے علیحدگی کے بعد  سعودی کلب الہلال نے پھر سے رونالڈو سے معاہدے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق مانچسٹریونائٹیڈ سے رونالڈو کے فارغ ہونے کے بعد سعودی کلب نے آپشنز پر غور کرنا شروع کردیا ہے لیکن رونالڈو کی جانب اب تک دوسرے کلب جوائن کے حوالے سے کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔

  • پرتگال اور اسپین کے جنگلات میں لگی آگ سے آسمان سرخ ہو گیا

    پرتگال اور اسپین کے جنگلات میں لگی آگ سے آسمان سرخ ہو گیا

    میڈرڈ: پُرتگال اور اسپین کے جنگلات میں لگی آگ سے آسمان سرخ ہو گیا، جنگلات میں لگی آگ پر دس دن بعد بھی قابو نہ پایا جا سکا، دھواں اسپین کے دارالحکومت تک پہنچ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پُرتگال اور اسپین کے جنگلات میں لگی آگ تاحل بے قابو ہے، 22 افراد زخمی ہو چکے ہیں، اور آگ کی شدت مزید بڑھتی جا رہی ہے، آگ کے شعلے اتنے بلند ہیں کہ آسمان سرخ ہو گیا ہے۔

    سینکڑوں فائر فائٹرز فضا میں بلند ہوتے آگ کے شعلوں کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، پُرتگال کے نیشنل پارک میں لگنے والی آگ بھی دوبارہ بھڑک اٹھی، کئی دیہات خالی کرا لیے گئے۔

    بلند ہوتے شعلے دور دراز علاقوں سے دکھائی دے رہے ہیں، جنگل کی آگ سے اٹھنے والا دھواں اسپین کے درالحکومت میڈرڈ تک پہنچ گیا، ہر سو جلنے کی بو پھیل گئی ہے۔

    میڈرڈ میں "فور ٹاورز” کے نام سے مشہور فلک بوس عمارت تک دھواں دیکھا گیا، ایک ہزار فائر فائٹرز آگ کو کنٹرول کرنی کوششیں کر رہے ہیں، وسیع پیمانے پر لگنے والی آگ کے باعث متعدد علاقوں اور دیہات کو خالی کرا لیا گیا ہے۔

    14 ہزار ہیکٹر کا رقبہ جل کر خاکستر ہو چکا ہے، یورپی ممالک کے حکام نے ہیٹ ویو الرٹ جاری کر رکھا ہے، واضح رہے کہ یورپ میں گرمی کی شدت میں اضافے کے بعد جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

  • پھر جمہوریت کا کیا ہو گا؟

    پھر جمہوریت کا کیا ہو گا؟

    فلورنس کے مضافات کے ایک گاؤں میں لگ بھگ چار سو برس پہلے، گاؤں کے لوگ اپنے گھروں میں تھے یا کھیتوں میں کام کر رہے تھے کہ انہوں نے گرجا گھر کی گھنٹی کی آواز سنی۔

    پرہیز گاری کے ان دنوں میں گھنٹی بار بار بجا کرتی، اس لیے اس آواز پر کوئی حیران نہ ہوا۔ مگر یہ گھنٹی موت کا اعلان تھی اور گاؤں میں کسی کی موت کی خبر نہیں تھی۔ گاؤں والے جلد ہی گرجا گھر کے سامنے اکٹھا ہوگئے اور یہ انتظار کرنے لگے کہ اب انہیں بتایا جائے گا کہ کون مرگیا ہے۔

    گھنٹی اور کچھ دیر تک بجتی رہی پھر خاموش ہوگئی۔

    تب ایک دیہاتی گرجے سے باہر آیا، وہ وہاں عام دنوں میں گھنٹی بجانے والا نہیں تھا۔ گاؤں والوں نے اس سے پوچھا کہ گھنٹی بجانے والا کہاں گیا اور یہ کہ کون مرگیا۔ دیہاتی نے جواب دیا: "گھنٹی میں نے بجائی تھی۔ میں نے انصاف کی موت کی گھنٹی بجائی تھی، اس لیے کہ اب انصاف نہیں رہا۔”

    علاقے کا لالچی زمین دار اپنی زمین کی حد بندی کے پتھروں کی جگہ خاموشی سے بدلتا جارہا تھا اور دیہاتی کی زمین پر قبضہ کرتا جا رہا تھا۔ ہر مرتبہ جب زمین دار حد بندی کے پتھروں کی جگہ بدلتا، دیہاتی کی ملکیت زمین تھوڑا سا اور سُکڑ جاتی۔ غریب دیہاتی نے احتجاج کیا، پھر رحم کی درخواست کی اور آخر کار قانون سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس کی زمین یوں ہی لٹتی رہی۔ آخر کار مایوس ہو کر اس نے اعلان کرنے کا فیصلہ کیا (اگر آپ ساری زندگی گاؤں میں رہے ہیں تو پھر یہی گاؤں آپ کے لیے ساری دنیا ہے) کہ اب انصاف نہ رہا۔

    شاید وہ سمجھتا تھا کہ اس کی یہ وحشت زدہ حرکت ساری کائنات کی گھنٹیوں کو جنبش میں لے آئے گی۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ یہ گھنٹیاں تبھی خاموش ہوں گی جب انصاف دوبارہ جی اٹھے گا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ پھر کیا ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آیا گاؤں والے اس غریب دیہاتی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے یا پھر ایک بار جب کہ انصاف کی موت کا اعلان ہوچکا تھا، وہ سر جھکائے اپنی روزمرہ زندگی کی مشقت کی طرف لوٹ آئے۔ تاریخ کبھی مکمل کہانی نہیں بیان کرتی۔

    میں تصور کرتا ہوں کہ یہ واحد موقع تھا، دنیا میں کسی بھی جگہ جب کہ گھنٹی نے انصاف کی موت کا ماتم کیا تھا۔ یہ گجر پھر نہ بجایا گیا مگر انصاف روز مرتا ہے۔ اور جب بھی انصاف زخموں کی تاب نہ لاکر ڈھیر ہوجاتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ان لوگوں کے لیے کوئی وجود ہی نہ تھا جو اس پر اعتبار کرتے تھے، جو اس کی توقع رکھتے تھے، جس کی توقع کے ہم سب حق دار ہیں: سچا اور کھرا انصاف۔

    میں اس انصاف کی بات نہیں کر رہا ہوں، جو تھیٹر کے اداکاروں کا سا رنگ دھار لیتا ہے اور کھوکھلی خطابت سے ہمیں دھوکا دیتا ہے۔ یا وہ انصاف جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ دیے جانے اور ترازو کے پلڑے جھک جانے کی اجازت دیتا ہے۔ میں اس انصاف کی بات نہیں کر رہا جس کی تلوار کی دھار ایک طرف سے تیز ہے اور دوسری طرف سے کُند۔ میرا انصاف منکسر المزاج ہے اور ہمیشہ مسکینوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں انصاف، اخلاقیات کا ہم معنی ہے اور روحانی صحت کے لیے لازمی۔ میں صرف اس انصاف کی بات نہیں کر رہا جو عدالت سے حاصل ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی اہم تر، وہ انصاف جو فطری طور پر معاشرے کے اپنے اعمال سے پھوٹتا ہے۔ وہ انصاف جو ہر انسان کے اس حق کا احترام کرتا ہے کہ ایک بنیادی اخلاقی اور لازم کے طور پر اپنا وجود رکھے۔

    گھنٹیاں صرف موت کی خبر پر نہیں بجا کرتی تھیں۔ وہ دن اور رات کے پہر کا اعلان کرتی اور ایمان والوں کو بلایا کرتی تھیں۔ حالیہ دنوں تک وہ لوگوں کو سانحے، سیلاب، آتش زدگی، تباہی اور خطرے سے متنبہ کرتی تھیں۔ اب ان کا واحد سماجی منصب رسمی رہ گیا ہے۔ اب اس دیہاتی کا روشن خیال یا تو پاگل پن سمجھا جائے گا یا قابلِ دخل اندازیٔ پولیس۔

    آج اور گھنٹیاں اس امکاں کے دفاع اور تصدیق میں بج رہی ہیں کہ انصاف کو کم از کم اس دنیا میں قائم تو کیا جاسکتا ہے۔

    اس طرح کا انصاف جو روحانی عافیت کے لیے بلکہ جسمانی صحت کے لیے بھی لازمی ہے۔ اگر ہمیں یہ انصاف میّسر ہوا تو پھر کوئی بھوکا مرتا اور نہ ان بیماریوں کا شکار ہوتا جو لوگوں کے لیے قابلِ علاج ہیں، باقی لوگوں کے لیے نہیں۔ اگر ہمیں یہ انصاف میّسر ہوتا تو عالمِ وجود بنی نوعِ انسان کے تقریباً نصف کے لیے وہ ہولناک سزا نہ ہوتا جو ہمیشہ سے اس طرح معلوم ہوتا آیا ہے۔

    اب نئی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ نئی گھنٹیاں جو بج رہی ہیں، وہ اختلافی اور سماجی تحریکیں جو نئے انصاف کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ جس انصاف کے لیے بج رہی ہیں وہ ہر انسان کے لیے مناسب حصّے کی فراہمی کا عہد کرتا ہے اور اس میں تبدیلی لانے کی طاقت ہے، تمام انسان اس کو خلقی طور پر اپنا سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف آزادی اور قانون کی حفاظت کرتا ہے مگر ان کی نہیں جو ان دونوں کے منکر ہیں۔

    ہمارے پاس اس انصاف کے لیے ضابطہ موجود ہے جو ہماری فہم میں آسکتا ہے۔ پچھلے پچاس برس سے انسانی حقوق کے اعلان نامے میں محفوظ رہا ہے، وہ تیس اصول جن کا ذکر اگر ہوتا بھی ہے تو مبہم طریقے سے۔ آج ان کو قرونِ وسطیٰ کے اس اطالوی دیہاتی کی ملکیت سے زیادہ حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے اصولوں کی سالمیت اور اس کے مقاصد کی وضاحت میں، یہ اعلان نامہ جن الفاظ میں لکھا گیا ہے۔ ایک نقطے کی تبدیلی کے بغیر، دنیا کی ہر سیاسی جماعت کے منشور کی جگہ لے سکتا ہے۔

    میں خاص طور پر ان سے مخاطب ہوں کہ جس کو ہم بایاں بازو کہتے ہیں۔ اپنی اپروچ میں فرسودہ اور دقیانوسی، یہ دنیا کی تلخ حقیقتوں سے نمٹنے کے ناقابل یا ان سے بے تعلق نظر آتا ہے۔ یہ اس کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے جو ابھی سے ظاہر ہے، وہ مہیب ڈراوے جو مستقبل میں اس عقلی اور حساس وقار کے لیے خطرہ ہیں کہ جس کو ہم انسانیت کی آرزو سمجھتے ہیں۔ یہی بات ملکی ٹریڈ یونینز اور بین الاقوامی ٹریڈ یونین تحریک کے لے بھی درست ہے۔ شعور یا لاشعوری طور پر، خاموشی سے مان جانے والی اور بیوروکریسی زدہ، ٹریڈ یونین ازم ہمارے پاس باقی رہ گئی ہے۔ وہ بڑی حد تک اس سماجی تعطل کی ذمہ دار ہے جو معاشی عالم گیریت کے ہم رہ آئی ہے۔ مجھے یہ کہتا اچھا نہیں لگتا، مگر میں اس کو چھپا نہیں سکتا۔ اگر ہم نے بروقت مداخلت نہ کی۔۔۔۔ اور وہ وقت ہے، آج اور ابھی ۔۔۔۔ تو معاشی عالم گیریت کی بلّی لامحالہ طور پر انسانی حقوق کے اس چوہے کو پھاڑ کھائے گی۔

    اور پھر جمہوریت کا کیا ہوگا؟ "عوام کی حکومت، عوام کے لیے حکومت، عوام کی جانب سے حکومت؟” میں اکثر یہ دعوے سنا کرتا ہوں، ان کی جانب سے جو حقیقی معنوں میں مخلص ہیں اور ان کی جانب سے بھی جن کو نیک نیتی کا سوانگ رچانے میں فائدہ ہے، کہ حالاں کہ اس سیّارے کا بیش تر حصہ مایوس کن حالت میں ہے لیکن یہ صرف جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے کہ ہم انسانی حقوق کے لیے مکمل یا کم از کم مناسب احترام حاصل کرسکیں گے۔ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں، بس شرط یہ ہے کہ حکومت اور سماجی تنظیم کے جس نظام کو ہم جمہوریت کہتے ہیں، وہ واقعی جمہوری ہو۔

    لیکن ایسا نہیں ہے۔ درست ہے کہ ہم ووٹ دے سکتے ہیں۔ درست ہے کہ رائے دہندگان (ووٹرز) کی حیثیت سے جو خود مختاری و حاکمیت ہمیں تفویض ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کا انتخاب کرسکتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی کون کرے گا، عام طور پر یہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ درست ہے کہ نمائندوں کی تعداد اور سیاسی جمع و اتحاد جو اکثریت کے حصول کی ضرورت عائد کرتی ہے۔ ہمیشہ حکومت قائم کرلیتے ہیں۔ یہ سب درست ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ جمہوری عمل کے لیے موقع یہیں سے شروع ہو کر یہیں ختم ہو جاتا ہے۔

    ایک رائے دہندہ (ووٹر) ہم دردی سے عاری حکومت کا پانسہ الٹ سکتا ہے اور اس کی جگہ دوسری حکومت کو لاسکتا ہے، لیکن اس حقیقی قوت پر جو دنیا پر حکمرانی کرتی ہے، لہٰذا اس کے ملک اور خود اس کے اوپر بھی حکم راں ہے، اس پر اس کے ووٹ کا کوئی خاطر خواہ یا سمجھ میں آنے والا اثر مرتب ہوسکا ہے۔ ہُوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ یہ طاقت معاشی طاقت ہے، بالخصوص وہ ہمہ وقت مائل بہ وسعت شعبہ جس کو کثیر قومی تجارتی ادارے (ملٹی نیشنلز) غلبے کی اس حکمت عملی کے ساتھ چلاتے ہیں، جو اکثریت کی فلاح و بہتری کے اس تصور سے مخاصمت رکھتی ہے، جمہوریت، اپنی تعریف کے مطابق، جس کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہے مگر ہم میکانیکی طور پر اس طرح باتیں کرتی ہیں اور سوچتے ہیں جو ہم کو اس معلومات پر عمل کرنے سے روکتی ہے۔ سو اگر ہم جمہوریت کے بارے میں اس طرح باتیں کرتے رہے گویا وہ زور آور اور مؤثر ہے۔ جب کہ ہمارے پاس جو باقی رہ گیا ہے وہ کسی دنیوی انبار کی رسمی، بے ضرر حرکات و سکنات اور اشاروں پر مشتمل ہے۔

    اور ہم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں، گویا یہ بات واضح نہ ہوکہ ہماری حکومتیں، وہی حکومتیں جن کا ہم نے بہتر یا بدتر طور پر انتخاب کیا ہے اور جن کے لیے ہم پر بنیادی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے بڑی تیزی کے ساتھ ان لوگوں کے سیاسی منتظمین کا کردار ادا کرنے لگی ہیں جن کے پاس حقیقی معنوں میں معاشی زور ہے۔ حکومتیں بس اب اس کام کی رہ گئی ہیں کہ ان قوانین کے مسّودے تیار کرتی رہیں کہ جن کی ضرورت بڑے معاشی عوامل یا کھلاڑیوں کو ہے۔ مناسب عوامی (پبلک) یا نجی (پرائیوٹ) چکر میں ملفوف، یہ قانوں سازی پھر سماجی منڈی میں کس احتجاج کا موجب بنے بغیر متعارف کرائی جاسکتی ہے۔ اور احتجاج اگر ہوتا بھی ہے تو چند ایک، کبھی مطمئن نہ ہونے والی اقلیتوں کا احتجاج۔

    پھر ہم کیا کریں؟ ہم ہر چیز پر بحث کرتے ہیں: ادب، ماحول، کہکشاں کا سفر، سبز خانہ اثرات، کوڑے لگانے کے طریقے اور ٹریفک کی رکاوٹیں۔ مگر ہم جمہوری نظام پر کبھی بحث نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے کہ جس کو وقت کے انجام تک ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا۔

    ان بہت سے معاملات کے ساتھ کہ جن پر ہمیں بحث کرنا چاہیے، ہمیں اشد ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، جمہوریت اور اس کے زوال کے اسباب پر بین الاقوامی مباحثہ کیا جائے۔ ہمیں شہریوں کے اس عمل دخل پر مباحثے کی ضرورت ہے جو سیاسی و سماجی زندگی میں اور پھر ریاستوں اور عالم گیر معاشی و تجارتی قوتوں کے درمیان ہونا چاہیے۔

    ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کون سی چیزیں ہمیں فروغ دیتی ہیں اور کون سے عوامل جمہوریت سے منکر ہیں۔ خوشی اور وقار کے حق کے بارے میں انسانیت کے مصائب اور امیدوں کے بارے میں، انسانوں کے بارے میں، انفرادی طور پر بھی اجتماعی طور پر بھی۔ خود فریبی ساری غلطیوں میں سے بدترین ہے۔ لیکن خود فریبی ہمارے چاروں طرف موجود ہے۔

    (حوزے سارا میگو (پرتگال) کی تحریر جس کا اردو ترجمہ آصف فرخی نے کیا ہے)

  • عالمی شہرت یافتہ فٹ بالر نے کرونا کو شکست دے دی

    عالمی شہرت یافتہ فٹ بالر نے کرونا کو شکست دے دی

    لزبن: پرتگال کے اسٹار فٹبالر نے کرونا وائرس کو شکست دے دی ہے، کرسچیانو رونالڈو کا تقریباً تین ہفتوں کے بعد کووڈ نائنٹین ٹیسٹ منفی آیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اطالوی چیمپیئنز یووینٹیس فٹبال کلب کا کہنا ہے کہ رونالڈو کا کوویڈ-19 تشخیصی ٹیسٹ کیا گیا جس کا نتیجہ منفی آیا، اب انہیں ہوم آئسولیشن کی ضرورت نہیں ہے۔

    پینتیس سالہ رونالڈو کرونا وائرس کی وجہ سے چار میچ نہیں کھیل پائے تھے جس میں بدھ کو لیونل میسی کی بارسلونا کلب کو 0-2 سے شکست اور یووینٹیس فٹبال کلب کی گروپ جی کے اوپنر میں ڈینامو کیف میں 0-2 سے کامیابی حاصل شامل تھی۔

    کرسچیانو رونالڈو پانچ مرتبہ سال کے بہترین فٹبالر کا فیفا ایوارڈ اپنے نام کر چکے ہیں اور وہ اس وقت اطالوی فٹبال کلب یووینٹیس کا حصہ ہیں۔

    پانچ مرتبہ ’بیلن ڈی اور‘ کے فاتح رونالڈ کی واپسی اینڈریا پیرلو کی ٹیم کے حوصلے کو بڑھائے گی جو اس وقت سیری اے میں پانچویں نمبر پر ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  میسی اور رونالڈو پھر آمنے سامنے

    واضح رہے کہ رواں ماہ 13 اکتوبر کو فٹبال کی دنیا کے نامور کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے، پرتگال فٹبال فیڈریشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ رونالڈو کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا جس کے بعد وہ قرنطینہ میں چلے گئے ہیں، رونالڈو میں کرونا کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی اُس کے باوجود اُن کے کوویڈ ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آئی تھی۔

  • کرونا: پرتگال کا زرعی شعبہ ایک مثال

    کرونا: پرتگال کا زرعی شعبہ ایک مثال

    تحریر: عمیر حبیب

    پرتگال میں قیام دوران جہاں حکومتی نظام، عام قوانین، شہری سہولیات کو سمجھنے، ان سے مستفید ہونے کا موقع ملا، وہیں کرونا کی وبا کے دنوں میں مرکزی اور مقامی حکومتوں اور انتظامیہ کے بروقت فیصلے، اقدامات اور خاص طور پر عوام کی مشکلات کم کرتے ہوئے معیشت کا پہیہ چلانے سے متعلق حکمتِ عملی کو بھی دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔

    ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کی طرح پرتگالی بھی زراعت پیشہ ہیں اور یہ شعبہ ملکی معشیت میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

    اس وقت ملک میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن زراعت سے وابستہ لوگ کام کررہے ہیں۔
    یہ کیسے ممکن ہوا؟ آئیے اس پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح حکومتیں خطرات اور خدشات کے باوجود معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔

    پرتگال میں جب قومی سطح پر ہر جگہ آمدورفت پر پابندی لگا دی گئی تو وہیں زراعت کے شعبے میں کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، مگر زراعت سے منسلک ہر سیکٹر کو آگاہی دیتے ہوئے، احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہا گیا۔

    اس پیشے سے منسلک مزدور طبقے کی نقل و حرکت کو باقاعدگی سے مانیٹر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور ہر جگہ صبح کام سے پہلے ہر مزدور کی مکمل اسکریننگ کی جاتی ہے۔

    اگر کسی میں بخار جیسی علامات موجود ہوں تو نہ صرف اسے الگ کردیا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھیوں کی اور ان کی رہائش گاہوں کی بھی اسکریننگ ہوتی ہے۔ اس طرح تمام خدشات دور کرتے ہوئے ممکنہ خطرے سے نمٹا جارہا ہے۔

    مزدوروں کو متعلقہ حفاظتی سامان دیا جاتا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ ان کی دیکھ بھال کی جاتی رہے اور کسی بھی صورت میں‌ فوری طبی سہولت فراہم کی جائے۔

    میں‌ زراعت سے منسلک ایک ٹھیکے دار ہوں۔ یہاں‌ مقامی سطح پر ہمیں وقتاً فوقتاً ضروری ہدایات دی جارہی ہیں جن پر عمل کرنا لازمی ہے اور یقینا اسی میں‌ ہمارا اور ہم سبھی کا فائدہ ہے۔ اس کے علاوہ پرتگال کی حکومت ہر پردیسی کو ماہانہ سوشل الاؤنس دے رہی ہے جو ہر ماہ بینک اکاؤنٹ میں آجاتا ہے۔

    غرض کہ اس کڑے وقت میں مزدور طبقے پر مکمل بوجھ نہیں ڈالا جارہا بلکہ اسے سہولیات دی جارہی ہیں اور حفاظتی تدابیر اور تمام احتیاطوں کے ساتھ ان سے کام بھی لیا جا رہا ہے۔

    اسے اسمارٹ لاک ڈاؤن کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک کے حکم رانوں کو بھی کرونا کا مقابلہ کرنا ہے تو ایسی اسمارٹ پالیسیوں کو اپنانا ہو گا جس سے ملک کی معیشت بھی چلتی رہے اور مزدور طبقے کی مانیٹرنگ بھی ہوسکے تاکہ حالات قابو میں رہیں۔


    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • وینز ویلا اور پرتگال کے درمیان کھلے سمندر میں تنازعہ

    وینز ویلا اور پرتگال کے درمیان کھلے سمندر میں تنازعہ

    وینز ویلا کی ایک کشتی نے جرمنی کے ایک بحری جہاز کو مبینہ طور پر دانستہ ٹکر مار دی جس کے بعد کشتی ڈوب گئی، واقعے کے بعد وینز ویلا کے صدر نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

    آزادانہ میڈیا رپورٹس کے مطابق کیربیئن کے سمندر میں جرمن کمپنی کا بحری جہاز آر جی سی ایس ریزولوٹ ایک ڈچ جزیرے کی طرف روانہ تھا، جہاز پرتگال کا تھا تاہم اس کی ملکیت جرمن کمپنی کے پاس تھی۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ آدھی رات کے وقت وینز ویلا کی پٹرولنگ کشتی جہاز کے قریب پہنچی اور جہاز کو وینز ویلا کے ایک جزیرے کی طرف لے جانے کا کہا۔

    کشتی پر موجود افراد نے بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ بھی کی اس کے بعد دانستہ کشتی کو جہاز سے ٹکرا دیا۔

    کمپنی کے مطابق جہاز پر 32 افراد کا عملہ موجود تھا جو فائرنگ میں محفوظ رہا، جہاز چونکہ اس سے قبل برفانی مہم جوئیوں کے لیے جاتا رہا ہے لہٰذا ڈھانچہ مضبوط ہونے کی وجہ سے وہ تصادم میں محفوظ رہا، البتہ وینز ویلا کی کشتی کچھ دیر بعد ڈوب گئی۔

    وینز ویلا کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ جہاز نے جان بوجھ کر کشتی سے تصادم کیا۔ انہوں نے کشتی کے ڈوبنے کی تصدیق نہیں کی تاہم بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق واقعے کے کچھ دیر بعد کشتی ڈوب گئی تھی۔

    وینز ویلا کے صدر نکولس مدورو اس تصادم کے بعد سرحدی حدود میں مداخلت اور دہشت گردی کا الزام لگا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے کہ 100 کلو کے باکسر نے ایک نو آموز باکسر کو گھسیٹا اور اسے پیٹنے لگا۔

    بین الاقوامی ماہرین نے اس کا تانا بانا وینز ویلا اور پرتگال کے درمیان حال ہی میں ہونے والے ایک سفارتی تنازعے سے جوڑا ہے۔

    وینز ویلا نے واقعے کی تحقیقات کا بھی اعلان کیا ہے، جہاز فی الحال بحفاظت نیڈر لینڈز کی ایک بندرگاہ پر لنگر انداز کردیا گیا ہے اور وہ جلد ہی اپنا سفر دوبارہ شروع کردے گا۔

  • پرتگال کی سیر کیجیے

    پرتگال کی سیر کیجیے

    بحرِاوقیانوس کے کنارے آباد پرتگال جنوب مغربی یورپ کاحصّہ ہے۔ جغرافیائی حقیقت اپنی جگہ مگر یہ بات شاید آپ کی دل چسپی کا باعث ہو کہ پرتگال کسی پڑوسی ملک سے محروم ہے۔

    اسی ملک پرتگال سے تعلق رکھتے ہیں انتونیو گوتریس، جن کا ملکی ذرایع ابلاغ میں خوب چرچا ہو رہا ہے۔ وہ پاکستان میں ہیں اوراہم تقاریب میں شرکت کے ساتھ مختلف تاریخی مقامات کا دورہ بھی کررہے ہیں جس سے وہ ہماری تاریخ، اس خطے کی تہذیب، ثقافت اور رسم و رواج کے بارے میں جان سکیں گے۔

    ہم بھی انتونیو گوتریس کے وطن پرتگال چلتے ہیں جس پر صدیوں پہلے مسلمان حکم رانی کیا کرتے تھے۔

    پرتگال کے مشرق اور شمال میں صرف اسپین آبادہے۔یوں کہیے کہ اسپین کی سرحد کے علاوہ اس ملک کے باسی ہر طرف ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھتے ہیں۔

    رقبے کے اعتبار سے اسے ایک چھوٹا ملک کہا جاسکتا ہے، لیکن یورپ میں مختلف حوالوں سےپرتگال اہمیت رکھتا ہے۔ قدیم زمانے میں بھی اس علاقے کو یورپ کےلیے راستے اور گزر گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

    تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ مسلم اسپین کاحصہ رہاہے۔ تاہم اس سے قبل یہاں مختلف تہذیبوں کااثر رہا، جن کے آثار میں رومیوں کے دور کی آبادیاں اور شہرقابلِ ذکر ہیں۔ 868عیسوی میں پرتگال ایک عیسائی ریاست میں تبدیل ہو گیا جب کہ 1139 میں یہاں خود مختار شاہی ریاست قائم کر دی گئی۔ یہاں ایک زمانےمیں یہودی بھی بڑی تعداد میں آباد تھے۔

    1910 کے بعد پرتگال نے جمہوریت کا سفر شروع کیا۔ تاہم 1974 کے انقلاب نے اس ملک کی سیاست اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے اور یہاں کے دستور میں ریاست کا سربراہ صدر ِمملکت ٹھیرا جس کا انتخاب قوم براہِ راست کرتی ہے۔ وزیرِاعظم اور اس کی کابینہ کے ہاتھوں میں ملکی نظم و نسق اور انتظامات آئے۔

    پاکستان کا دورہ کرنے والے انتونیو گوتریس نے پرتگال کے شہر لزبن میں آنکھ کھولی اور انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کر کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کا سلسلہ شروع کیا، مگر بعد میں سیاسی مصروفیات کی وجہ سے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ سوشلسٹ پارٹی کے یہ راہ نما پرتگال کے وزیرِ اعظم کے عہدے تک پہنچے اور آج اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

  • پرتگال اور انگلینڈ نے یورپین چیمپئن شپ 2020 کیلئے کوالیفائی کرلیا

    پرتگال اور انگلینڈ نے یورپین چیمپئن شپ 2020 کیلئے کوالیفائی کرلیا

    پرسٹینا: یورپین چیمپئن شپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں پرتگال اور انگلینڈ نے اپنے اپنے میچز جیت کر یورپین چیمپئن شپ 2020 کے لیے کوالیفائی کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسٹار فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کی ٹیم پرتگال نے کوالیفائنگ راؤنڈ میں عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یورپین چیمپئن شپ 2020 کے لیے کوالیفائی کرلیا، جبکہ انگلینڈ بھی اپنے کپتان ہینری کین کی بدولت ٹورنامنٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی۔

    یورپین چیمپئن شپ دوہزار بیس میں جگہ بنانے کے لیے کئی ٹیموں کے درمیان مقابلے جاری ہیں۔ رونالڈو کی پرتگال نے لکسم بورگ کو ہرا کر ٹائٹل کی دوڑ میں جگہ بنائی، رونالڈو نے پرتگال کے لیے ننیانواں گول اسکور کیا۔

    ایک اور میچ میں انگلینڈ نے کوسووو کو آؤٹ کلاس کردیا، انگلش ٹیم نے حریف پر ایک نہ دو بلکہ چار گول داغے، عالمی چیمپئن فرانس نے بھی یورپین چیمپین شپ میں انٹری دے دی ہے۔

    رونالڈو کی شاندار ہیٹ ٹرک، لیتھوینیا کو شرمناک شکست

    خیال رہے کہ 15 نومبر کو کھیلے جانے والے میچ میں بھی لیتھوینیا کے خلاف پرتگال کے کرسٹیانو رونالڈو نے حریف کو تگنی کا ناچ نچایا تھا، شاندار ہیٹ ٹرک کرتے ہوئے ٹیم کو بھی فتح سے ہمکنار کیا، اسی جیت نے پرتگال کے لیے یورو2020 ٹورنامنٹ میں انٹری کی راہ ہموار کردی تھی۔

    اُسی دن انگلش فٹبال ٹیم نے اپنا ہزارواں میچ کھیلتے ہوئے مونٹی نیگرو کو آؤٹ کلاس کیا تھا۔

  • پرتگال میں ٹرام حادثہ، برطانوی بچوں سمیت 28 مسافر زخمی

    پرتگال میں ٹرام حادثہ، برطانوی بچوں سمیت 28 مسافر زخمی

    لسبون : پرتگالی دارالحکومت میں ٹرام (مسافر ٹرین) کے پٹری سے اترنے کے باعث حادثہ پیش آیا ہے جس کے نتیجے میں 2 برطانوی بچوں سمیت 28 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پرتگال کے دارالحکومت لسبون میں جمعے کی شام پیش آنے والے افسوس ناک واقعے میں 28 مسافر زخمی ہوئے ہیں، جنہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرام پٹری سے اترنے کے بعد رہائشی عمارت سے ٹکرائی تھی۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والوں میں 6 ماہ اور 7 سالہ دو برطانوی بچے بھی شامل ہیں جنہیں راہ گیروں سے ریسکیو کر کے اسپتال منتقل کیا تھا۔

    مذکورہ حادثہ جمعے کی شام 6 بجے کے قریب پیش آیا تھا جس میں زخمی ہونے والے افراد کے سینے، چہرے اور آنکھوں پر زخم آئے ہیں اور سب کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد 30 کے قریب ہنگامی خدمات انجام دینے والی گاڑیاں جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھیں۔

    ٹرام کمپنی کا کہنا ہے کہ ادارہ افسوس ناک واقعے کی تحقیقات کرے گا تاکہ حادثے کی اصل وجوہات کا علم ہوسکے۔

    مزید پڑھیں : ترکی میں دو ٹرینیں ٹکرا گئیں، 9 افراد ہلاک 47 زخمی

    یاد رہے کہ دو روز قبل ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں واقع ریلوے اسٹیشن پر دو تیز رفتار ٹرینں آپس میں ٹکرا گئیں،جس کے باعث 7 افراد ہلاک جبکہ 46 مسافروں کے زخمی ہوئے ہیں۔