Tag: پرندہ

  • بجلی کی تاروں سے پرندہ ٹکرا گیا، ہائی وے پر آمد و رفت معطل

    بجلی کی تاروں سے پرندہ ٹکرا گیا، ہائی وے پر آمد و رفت معطل

    کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک پرندے کے بجلی کی تاروں سے ٹکرانے کے بعد آگ بھڑک اٹھی، حکام نے آگ بجھانے کا عمل شروع کردیا۔

    مذکورہ واقعہ اونٹاریو کے شہر برمپٹن میں پیش آیا، شہر کے فائر اینڈ ایمرجنسی سروس کا کہنا ہے کہ انہیں 2 ہائی ویز کے سنگم پر گھاس میں آگ لگنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

    آگ کی وجہ سے ایک ہائی وے کو دونوں اطراف سے آمد و رفت کے لیے بند کردیا گیا، متعلقہ حکام آگ بجھانے کا کام کر رہے ہیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ تفتیش کے نتیجے میں علم ہوا کہ آتشزدگی کا واقعہ ایک پرندے کی وجہ سے پیش آیا جو بجلی کی تاروں سے ٹکرا گیا تھا۔

    چنگاری زمین پر گرتے ہی گھاس نے فوراً آگ پکڑ لی اور بارشیں نہ ہونے اور گھاس کے خشک ہونے کے سبب تیزی سے آگ پھیلتی چلی گئی۔

    حکام کے مطابق خوش قسمتی سے واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

  • چاند کے دیوانے 1600 چکور پنجرے سے آزادی کے منتظر

    چاند کے دیوانے 1600 چکور پنجرے سے آزادی کے منتظر

    کہتے ہیں چکور چاند کی محبت میں گرفتار ہے اور اس تک پہنچنے کی آرزو میں اکثر وہ اڑان بھرتا ہے جس کا انجام اس کی موت پر ہوتا ہے۔

    چکور کا چاند سے یہ عشق افسانوی اور من گھڑت بات ہے یا یہ سچ ہے، اسے شاید ہی کسی لیبارٹری ٹیسٹ اور آلات کی مدد سے کبھی ثابت بھی کیا جاسکے، مگر یہ ضرور ہے کہ ہم انسان نہ صرف اس پرندے کو پالنے کا شوق رکھتے ہیں. بلکہ اس کا شکار بھی کرتے ہیں۔ چکور کی خریدوفروخت بھی ایک منافع بخش کاروبار ہے جس کے لیے اکثر غیر قانونی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ چند روز پہلے صوبۂ بلوچستان میں 1600 چکوروں کو حکام نے تحویل میں لیا ہے جو ایران سے لائے جارہے تھے۔

    چکور پاکستان کا قومی پرندہ بھی ہے جس کا یہ نام سنسکرت زبان سے لیا گیا ہے۔ یہ زیادہ تر پہاڑی اور ریگستانی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرینِ حیوانات کے مطابق عموماً چکور کا مسکن اونچی پہاڑیاں ہوتی ہیں جہاں موجود جھاڑیاں اور گھاس وغیرہ میں یہ اپنا وقت گزارتا ہے-

    چکور ہلکے بھورے اور سرمئی رنگ کا ہوتا ہے- دُم اور گردن پر کالے اور سفید رنگ کی دھاریاں جب کہ چونچ اور پیروں کی رنگت سرخ ہوتی ہے۔ چکور گھونسلہ بنا کر رہتے ہیں اور اس کی مادہ انڈے دیتی ہے۔ یہ تعداد کے لحاظ سے 7 سے 14 تک ہو سکتے ہیں جن سے بچے نکلنے کا عمل تقریباً 25 دن میں مکمل ہو جاتا ہے- اس کی خوراک میں مختلف بیج اور چھوٹے حشرات شامل ہیں۔

    اس خوب صورت پرندے کی قیمت اس کی نسل، خوب صورتی اور عمر جان کر طے کی جاتی ہے۔ مادہ چکور کی قیمت کا انحصار اس کے انڈے دینے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔

    حال ہی میں تحویل میں لیے گئے ان چکوروں کو حکام سرحدی علاقے میں چھوڑیں گے جہاں یہ ایک بار پھر چاند سے عشق لڑانے میں آزاد ہوں گے۔

  • اربوں پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں نہیں، تو پھر کون ہے؟

    اربوں پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں نہیں، تو پھر کون ہے؟

    دنیا بھر میں پرندوں کی ہلاکت میں تشویش ناک اضافہ ہوگیا ہے، ایک تحقیق کے مطابق صرف امریکا اور کینیڈا میں گزشتہ 50 برس میں لگ بھگ 3 ارب کے قریب پرندے ہلاک ہوچکے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں یا دیگر جانور نہیں، بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی شیشے کی کھڑکیاں ہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بلند و بالا شیشے کی عمارات شاید کسی شہر کی ترقی اور جدت کا ثبوت تو ہوسکتی ہیں، تاہم یہ عمارات معصوم پرندوں کے لیے کسی مقتل سے کم نہیں ہوتیں۔

    پرندے کبھی ان شیشوں کے پار دیکھ کر اسے کھلا ہوا سمجھ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کبھی وہ اپنا ہی عکس دیکھ کر تذبذب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، نتیجتاً وہ پوری رفتار کے ساتھ آ کر ان شیشوں سے ٹکراتے ہیں اور ہلاک و زخمی ہوجاتے ہیں۔

    ان شیشوں سے ٹکرا کر ہلاک ہونے والے پرندوں کی تعداد سالانہ لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔ یہ ہلاکتیں زیادہ تر مہاجر پرندوں کی ہوتی ہے جو اچانک ایک نئے ماحول میں آکر ویسے ہی اجنبیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    وہ سستانے کے لیے کسی درخت کو دیکھ کر اس کی جانب لپکتے ہیں لیکن دراصل وہ شیشے پر درخت کا عکس ہوتا ہے اور وہ اس شیشے سے دھڑام سے ٹکرا جاتے ہیں۔

    کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ طریقے اپنائے جارہے ہیں۔

    سب سے پہلا کام وہاں یہ کیا گیا کہ عمارتوں کی تعمیر میں شیشے کا استعمال کم سے کم کردیا گیا ہے۔ روشنی کے گزر کے لیے عمارتوں کو شیشے سے سجانے کے بجائے کھلا رکھا جارہا ہے۔

    وہاں پر شیشوں پر نشانات بنائے جارہے ہیں جس سے پرندوں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے سامنے کھلی جگہ نہیں بلکہ ایک دیوار ہے۔

    شیشے کی کھڑکیوں کو ڈھانپنے کے لیے شٹرز اور شیڈز کا استعمال فروغ دیا جارہا ہے تاکہ شیشوں کا عکس پرندوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔

    شیشے کے سامنے اندھیرا کردینا بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے تاکہ پرندے روشنی کی جانب نہ لپکیں۔

    ماہرین کے مطابق ان طریقوں کو اپنا کر ایک عمارت جو سالانہ 100 پرندوں کی ہلاکت کا سبب بنتی تھی، اب یہ شرح بے حد کم ہو کر سالانہ ایک یا دو پرندوں کی ہلاکت تک محدود ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: شیشے کی کھڑکیوں سے پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

  • ہوائی جہاز جتنے پرندے کی باقیات دریافت

    ہوائی جہاز جتنے پرندے کی باقیات دریافت

    ماہرین نے ڈائنوسار کے زمانے میں موجود سب سے بڑے پرندے کی رکازیات دریافت کرلیں، یہ پرندہ ایک ہوائی جہاز جتنا ہے۔

    یہ پٹیرو سارس (ڈائنو سار کے زمانے کے وہ رینگنے والے جانوار جو اڑ سکتے تھے) کی نئی قسم ہے جو اب سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی۔

    اس سے قبل ’کوئٹزالکوٹلس‘ کو اب تک کی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا پرندہ سمجھا جاتا تھا، تاہم اب اس نئی دریافت نے ماہرین کو حیران کردیا ہے۔

    کرائیو ڈریکن بوریس نامی یہ پرندہ آج کے ہوائی جہاز جتنی جسامت رکھتا ہے، اس کے پروں کا پھیلاؤ 10 میٹر تھا جبکہ اس کا وزن ڈھائی سو کلو تھا۔

    7 کروڑ 70 لاکھ سال قبل فضاؤں میں اڑنے والا یہ پرندہ گوشت خور تھا اور یہ چھپکلیاں، چھوٹے ممالیہ جانور حتیٰ کہ ڈائنو سار کے بچے بھی کھا لیتا تھا۔

    اس پرندے کی دریافت 30 سال قبل البرٹا کینیڈا میں ہوئی تھی تاہم اس وقت اس کی درجہ بندی غلط کی گئی تھی۔ اب اس کی بغور جانچ کے بعد علم ہوسکا ہے کہ یہ قدیم پرندوں کی نئی قسم ہے جو آج سے قبل سامنے نہیں آئی۔

    لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق پرندہ اپنی بڑی جسامت کی وجہ سے اس قابل تھا کہ وہ سمندر پار دور دراز علاقوں میں بھی جاسکتا تھا، تاہم اس نے مخصوص جگہوں کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔

    ماہرین نے اس دریافت کو نہایت خوش آئند قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس طرح کے دوسرے جانوروں کی دریافت بھی سامنے آسکتی ہے۔

  • ڈانس کے شوقین طوطے نے ماہرین کو حیران کردیا

    ڈانس کے شوقین طوطے نے ماہرین کو حیران کردیا

    طوطے یوں تو نئے الفاظ سیکھنے اور انہیں دہرانے کے ماہر ہوتے ہیں تاہم حال ہی میں ایک طوطا منظر عام پر آیا ہے جو ڈانس کا بے حد شوقین معلوم ہوتا ہے۔

    سنو بال دا ڈانسنگ پیرٹ نامی اس طوطے نے آن لائن ہزاروں افراد کے ساتھ سائنسدانوں کو بھی حیران کردیا ہے۔

    سنو بال 14 اقسام کے ڈانس اسٹیپ کر سکتا ہے، وہ موسیقی سے مطابقت کرتے ہوئے اتنی مہارت سے ناچتا ہے کہ ماہرین حیران رہ جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ طوطے کے دماغ کا بالکل ویسے ہی ارتقا ہوا ہے جس طرح انسان کے دماغ کا، لہٰذا طوطے کا حیرت انگیز صلاحیتوں کا حامل ہونا تعجب کی بات نہیں۔

    سنو بال کو سوشل میڈیا پر ہزاروں افراد فالو کر رہے ہیں جو اس کا ڈانس دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

  • شیشے کی کھڑکیاں پرندوں کی قاتل بن گئیں، پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

    شیشے کی کھڑکیاں پرندوں کی قاتل بن گئیں، پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

    دنیا بھر میں بلند و بالا عمارات پر لگی شیشے کی کھڑکیاں ہر سال لاکھوں پرندوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہیں جو ان کھڑکیوں سے ٹکرا کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    پرندے کبھی ان شیشوں کے پار دیکھ کر اسے کھلا ہوا سمجھ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کبھی وہ اپنا ہی عکس دیکھ کر تذبذب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، نتیجتاً وہ پوری رفتار کے ساتھ آ کر ان شیشوں سے ٹکراتے ہیں اور ہلاک و زخمی ہوجاتے ہیں۔

    کئی سال قبل فطرت سے محبت کرنے والے ایک شخص نے ان پرندوں کے بارے میں سوچا کہ انہیں اس جان لیوا ٹکراؤ سے کس طرح بچایا جائے۔

    اس نے کہیں پڑھا تھا کہ مکڑی کی ایک قسم اورب ویور مکڑی اپنے جالوں کو ایسے دھاگے سے سجاتی ہے جو الٹرا وائلٹ روشنی کی شعاعوں کو منعکس کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہم نہیں دیکھ سکتے تاہم پرندے اسے دیکھ سکتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پرندے دور سے ہی مکڑی کے جالوں کو دیکھ لیتے ہیں اور ان سے ٹکرائے بغیر گزر جاتے ہیں۔

    اس تکنیک کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس شخص نے کچھ گلاس مینو فیکچررز کے ساتھ مل کر کام کیا، اور ایسے شیشے بنائے جنہیں الٹرا وائلٹ (یو وی) شعاعوں کو منعکس کرنے والے نشانات سے کوٹ کردیا گیا۔

    یہ نشانات ہمیں نہیں دکھائی دیتے تاہم پرندے ان نشانات کو باآسانی دیکھ لیتے ہیں اور اپنی پرواز کا رخ تبدیل کرلیتے ہیں۔

    شیشہ بننے کے بعد اس کے پروٹو ٹائپ کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے ایک سرنگ تشکیل دی گئی اور سرنگ کے آخری حصے پر یہ شیشے لگائے گئے۔ ایک طرف یو وی گلاس لگایا گیا جبکہ دوسری طرف عام شیشہ لگایا گیا۔

    تجربے کے لیے سرنگ میں پرندوں کو چھوڑ دیا گیا، پرندوں کے شیشے سے متوقع ٹکراؤ سے بچنے کے لیے شیشوں اور پرندوں کے درمیان ایک جالی بھی لگا دی گئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ پرندوں نے عام شیشے کو کھلا ہوا راستہ سمجھ کر باہر نکلنے کے لیے اسی شیشے کی طرف پرواز کی اور یو وی گلاس کی طرف جانے سے گریز کیا۔ تجربے کے دوران تقریباً 1 ہزار پرندوں نے اسی راستے کا رخ کیا۔

    اس کامیاب تجربے کے بعد مکڑی کے جالوں جیسے ان شیشوں کی تجارتی بنیادوں پر تیاری شروع کردی گئی اور یہ شیشے امریکا اور یورپ کی متعدد عمارات میں نصب کیے جانے لگے۔

  • دنیا کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    دنیا کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    رواں برس نیوزی لینڈ کے نایاب ترین پرندے پراکیٹ کی افزائش نسل میں حیران کن اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد ماہرین کی ان کو لاحق خطرات کے حوالے سے پریشانی کم ہوگئی۔

    نیوزی لینڈ میں پایا جانے والا یہ پرندہ جسے مقامی زبان میں کاکاریکی کاراکا کہا جاتا ہے، ہمارے یہاں موجود آسٹریلن چڑیاؤں سے ملتا جلتا ہے۔

    یہ پرندہ صرف نیوزی لینڈ میں پایا جاتا ہے اور کچھ عرصے قبل اسے پورے ملک میں دیکھا جاتا رہا، تاہم گزشتہ صدی کے دوران اس پرندے کی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہوئی۔

    سنہ 1993 میں انہیں معدوم سمجھ لیا گیا تاہم اس کے بعد اکا دکا پرندے نظر آئے جس کے بعد اس پرندے کو بچانے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔

    رواں برس اس پرندے کی افزائش نسل میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا، ماہرین کے مطابق اس سیزن میں 150 نئے پرندوں نے جنم لیا اور اب کچھ عرصے بعد افزائش نسل کے قابل پرندوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔

    ماہرین نے جنگلات میں اس پرندے کے 31 نئے گھونسلے دیکھے اور یہ پچھلے ایک دو سال میں بنائے جانے والے گھونسلوں سے 3 گنا زیادہ ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کو درختوں میں کمی کے ساتھ ساتھ دیگر شکاری جانوروں سے بھی خطرہ ہے۔ جنگلوں میں پھرتے چوہے اور جنگلی بلیاں ان پرندوں کو اپنی خوراک بنالیتی ہیں۔

    اب انہیں امید ہے کہ اگر ان پرندوں کی افزائش نسل کی شرح یہی رہی تو یہ خوبصورت پرندہ پھر سے پورے نیوزی لینڈ میں دیکھا جاسکے گا۔

  • برطانوی شہریوں کی عام سی عادت معصوم پرندوں کی بقا کا سبب بن گئی

    برطانوی شہریوں کی عام سی عادت معصوم پرندوں کی بقا کا سبب بن گئی

    دنیا بھر میں دن بدن تیزی سے ہوتی اربنائزیشن، شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ اور انسانی سرگرمیوں نے پرندوں کی آبادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے تاہم برطانوی شہریوں کی ایک عام عادت پرندوں کی بقا کے لیے مددگار ثابت ہورہی ہے۔

    برطانیہ میں ہر دوسرا شہری اپنے گھر کے کھلے حصے میں پرندوں کے لیے دانہ پانی ضرور رکھتا ہے اور ان کی اس عادت سے گزشتہ 5 دہائیوں سے نہایت مثبت اثرات دیکھنے میں آرہے ہیں۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق اس رجحان کی وجہ سے برطانیہ میں پرندوں کی تعداد اور ان کی اقسام میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھروں میں خوراک ملنے کی وجہ سے پرندے اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں شہروں میں دیکھے جارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھروں میں پرندوں کے لیے دانہ پانی رکھنے کا رجحان پرندوں پر بھی مثبت تبدیلیاں مرتب کر رہا ہے۔

    پرندے کی ایک قسم گریٹ ٹٹ کی چونچ کی لمبائی میں اعشاریہ 3 ملی میٹر اضافہ بھی دیکھا گیا جس کی وجہ مختلف جالوں اور فیڈرز میں پھنسے کھانے کو نکال کر کھانا تھا۔

    گریٹ ٹٹ

    اسی طرح ایک اور پرندہ بلیک کیپ جو ہر سال موسم سرما میں خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسپین یا افریقہ کی طرف ہجرت کرجاتا تھا، اب یہ موسم برطانیہ میں ہی گزارتا دکھائی دیتا ہے۔

    بلیک کیپ

    تحقیق کے مطابق گھروں میں دانہ پانی رکھنے سے برطانیہ میں موجود پرندوں کی نصف آبادی یعنی تقریباً 19 کروڑ 60 لاکھ پرندوں کی غذائی ضروریات پوری ہورہی ہیں۔

    اس رجحان کی وجہ سے پرندوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ دیکھا جارہا ہے جس میں برطانیہ میں پایا جانے والا ایک عام پرندہ گولڈ فنچ بھی شامل ہے۔ سنہ 1972 میں گھریلو فیڈرز پر آنے والے پرندوں میں گولڈ فنچ کی تعداد صرف 8 فیصد ہوتی تھی اور اب یہ تعداد 87 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

    تحقیق کے مطابق برطانوی شہری مجموعی طور پر پرندوں کا خیال رکھنے پر ہر سال 33 کروڑ 40 لاکھ پاؤنڈز خرچ کرتے ہیں اور یہ رقم یورپی شہریوں کی اسی مقصد کے لیے خرچ کی جانے والی رقم سے دگنی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شہروں کے پھیلاؤ اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پرندوں کی 10 لاکھ اقسام معدومی کے قریب ہیں۔ سنہ 1994 سے 2012 تک کئی ممالک میں بھوری چڑیاؤں (ہاؤس اسپیرو) کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی معصوم پرندوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

  • درخت کترنے والے ہدہد سے ملیں

    درخت کترنے والے ہدہد سے ملیں

    کیا آپ ننھے سے پرندے ہدہد کے بارے میں جانتے ہیں؟ درخت کترنے کے لیے مشہور اس پرندے کا نام قرآن کریم میں بھی موجود ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو یمن کی ملکی سبا کے بارے میں اطلاع دیتا ہے۔

    اس پرندے کی اہم خاصیت درخت کے تنے کو کترنا ہے۔ ہدہد کو عموماً ہم 80 کی دہائی کے مقبول کارٹون سیریز ووڈی ووڈ پیکر کے ذریعے جانتے ہیں جس نے اسے ہر خاص و عام میں مقبول بنا دیا۔

    ہدہد براعظم انٹار کٹیکا کے علاوہ ہر براعظم پر پایا جاتا ہے۔ یہ عمودی طور پر بھی درخت پر چڑھ سکتے ہیں، لکڑی کو کترتے ہوئے یہ اسے مضبوطی سے اپنے پنجوں سے پکڑ لیتے ہیں اس کے بعد کترنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔

    ہدہد کے لکڑی کترنے کی 3 وجوہات ہیں۔ لکڑی کترنا ان کا آپس میں گفتگو کا ذریعہ بھی ہے، لکڑی کترتے ہوئے یہ مخصوص آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنے پیغامات پہنچاتے ہیں۔

    علاوہ ازیں اس عمل کے ذریعے یہ تنوں میں رہنے والے کیڑوں تک پہنچتے ہیں اور انہیں اپنی خوارک کا حصہ بناتے ہیں، جبکہ انڈے دینے کے لیے بھی یہ درخت کے تنوں میں سوراخ بناتے ہیں۔

    ہدہد کی ایک قسم ان سوراخوں میں سردیوں کے لیے خوراک بھی محفوظ کرتی ہے۔

    درخت کترتے ہوئے ان ننھے منے پرندوں کے سر کو زوردار جھٹکا لگتا ہے جیسا کہ آپ اوپر دیکھ سکتے ہیں تاہم اس قدر سخت تنے کھودنے کے بعد بھی یہ بالکل چاک و چوبند اور تندرست رہتے ہیں اور ان کے سر کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

    دراصل ان پرندوں کے سر میں نرم ٹشوز اور ایئر پاکٹس ہوتے ہیں جس کے باعث ہدہد کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔

  • ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    یوں تو انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اور اسے دیگر تمام مخلوقات سے ذہین اور عقلمند سمجھا جاتا ہے، تاہم بعض مواقع ایسے بھی آئے جب انسانوں نے جانوروں اور پرندوں سے کچھ نیا سیکھا۔

    دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم جاپان، جو پوری دنیا کے لیے ترقی اور محنت کی ایک مثال ہے، اس نے بھی ایک نہایت اہم سبق ایک ننھے سے پرندے سے سیکھا۔

    30 سال قبل جاپان کی بلٹ ٹرین دنیا بھر میں مقبول تھی جو گولی کی رفتار سے سفر کیا کرتی تھی، تاہم یہ ٹرین ایک مقام پر نہایت پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔

    جب بھی یہ ٹرین کسی سرنگ میں داخل ہوتی تو ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا، سرنگ سے گزرتے ہوئے یہ ٹرین بہت روز دار آواز پیدا کرتی تھی۔ اس شور سے وہاں کی جنگلی حیات، ٹرین کے مسافر، اور آس پاس کے رہائشی بہت زیادہ پریشان ہوتے۔

    دراصل ہوتا یوں تھا کہ جب ٹرین سرنگ میں داخل ہوتی تو سرنگ میں موجود ہوا پر دباؤ پڑتا، دباؤ سے ایک صوتی لہر پیدا ہوتی، یہ ہوا آگے جاتی اور سرنگ سے باہر نکلتے ہوئے اس سے ایسی آواز پیدا ہوتی جیسے زوردار فائرنگ کی گئی ہو۔ ہوا کے اس دباؤ کی وجہ سے ٹرین کی رفتار بھی ہلکی ہوجاتی۔

    اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ننھے سے پرندے کنگ فشر نے جاپانی ماہرین کو انوکھا راستہ دکھایا۔

    پانی سے مچھلیوں کا شکار کرنے والے اسے پرندے کی چونچ نہایت نوکدار تھی۔ ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ اس کی چونچ سر کی طرف سے چوڑی تھی اور آگے جا کر نوکدار ہوجاتی۔

    اس کی وجہ سے پرندہ نہایت آسانی اور تیزی سے اپنی چونچ پانی میں داخل کردیتا۔

    جاپانی ماہرین نے بلٹ ٹرین کے لیے بھی یہی تکنیک اپنائی اور ایسی ٹرین بنائی جس کا اگلا حصہ نوکدار تھا۔ یہ ٹرین سرنگ میں ہوا پر دباؤ ڈالے بغیر ہوا کو چیرتی ہوئی آگے نکلتی اور بغیر کوئی آواز پیدا کیے تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہتی۔

    کامیاب تجربے کے بعد جاپان میں بلٹ ٹرین کے لیے یہی ماڈل اپنا لیا گیا اور اس کا نام کنگ فشر ٹرین رکھا گیا۔ یہ ٹرین کم آواز میں نہایت تیز رفتاری سے سفر کرتی ہے۔ یہ ماڈل بعد میں نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر میں اپنا لیا گیا۔